Monday, May 19, 2014

اطیعو اللہ و اطیعو الرسول کی معنی و مفہوم قرآن کی روشنی میں



اطیعو اللہ و اطیعو الرسول کی معنی و مفہوم قرآن کی روشنی میں
عنوان میں دئے ہوئے جملہ کی معنی کوئی مشکل نہیں ہے لیکن اسے قرآن مخالف گروہ  جو نزول قرآن سے لیکر آج تک دنیا والوں کو قرآن سے منہ موڑے رکھنے کیلئے تگ ودود میں مصروف ہے نے اس جملہ اطیعو اللہ و اطیعو الرسول کی معنیٰ میں اللہ اور اسکے رسول کے درمیان دوئی پیدا کی ہوئی ہے اس گروہ والے مخالفین قرآن لوگ اتحادثلاثہ یہود مجوس اور نصاریٰ کی پیداوار ہیں جنہوں نے رد قرآن کیلئے کئی علوم گھڑے ہوئے ہیں ، جن سب کا خلاصہ یہ ہے کہ قانون سازی میں اتھارٹی اکیلااللہ  نہیں ہے اس کے ساتھ جناب رسول علیہ السلام کی شخصیت بھی شریک ہے پھر شروع میں انہوں نے جناب رسول کے اسم گرامی کے نام سے ان کی باتیں علم حدیث کے نام سے منسوب کرکے گھڑی ہیں بعد میں ان احادیث سے بطور اجتھاد کے کئی علوم فقہ مستنبط کرائے، ان جملہ علوم کے سرخیلوں کو امام کا لقب دیا گیا شروع اسلام میں قانون کی رہنمائی اور تعلیم کا ماخذ واحد تو صرف وحدہ لاشریک اللہ کی  کتاب قرآن رہا یہ دور تاریخ میں بنو امیہ (تبرا والا من گھڑت نام) کے عرصہ حکومت 132 ھجری تک چلا، اصل میں یہ تبرائی نام (بنوامیہ) سے مشہور کردہ جملہ حکمران جناب خاتم الانبیاء علیہ السلام کے ہم قبیلہ قریش تھے پھر اتحاد ثلاثہ کی تھنک ٹئنک نے قرآن سے جان چھڑانے کیلئے پہلے تو علمی دنیا میں جناب رسول کو آل دینے کی ہنرمندی اختیار کی جس اٰل کا قرآن حکیم نے واضح طور پر جناب خاتم الانبیاء کو دئے جانے سے انکار کیا ہے نہ صرف اٰل محمد کا انکار کیا ہے بلکہ اس انکار کا سبب اور فلسفہ بھی بتایا کہ جناب محمد علیہ السلام کو اسلئے اٰل نہیں دی جارہی جو اٰل کے حوالہ سے کاریگر لوگ ایسے علوم ایجاد کریں گے جن سے ختم نبوت کا معاملہ مخدوش بنایا جائیگا نیز مصحف فاطمہ یا وہ قرآن جو اونٹ پر لادکر وفات رسول کے بعد اصحاب رسول کو دینے کیلئے علی لایا تھا کہ یہ ہے وہ قرآن جو میں نے جناب رسول سے سنکر لکھا تھا (بحوالہ اصول کافی) پھر اصحاب رسول نے اسے قبول نہیں کیا اور علی اسے واپس لے گئے جو اسکے نسل میں ورثہ بورثہ ہوتا ہوا با رہویں امام کو ملا سو جب وہ ظہور فرمائیں گے تو اسے امت کو پیش کرینگے’’ ویسے امام غائب کے ظہور کے متعلق اصول کافی میں امام یعقوب کلینی نے لکھا ہے کہ جب دنیا جھان کے سارے لوگ مرجائینگے اخیر میں جب صرف دو آدمی جا کر بچیں گے پھر ان میں سے جو بعد میں مریگا وہ امام مہدی ہوگا، شیعہ نامی فرقے صرف اثنا عشرہ میں محدود نہیں ہیں شروع زمانہ کی شیعت جب تک بارہ اماموں کا پراسیس  پورا نہیں ہوا تھا وہ جناب رسول کیلئے آل کو ماننے تک محدود تھی اور جناب رسول کیلئے آل کا تصور  فرقہ اہل حدیث اور اہل سنت کے چاروں اماموں کے پاس مسلم ہے ۔ بانی دارالعلوم دیوبند جناب محمد قاسم نانوتوی نے غالبا اپنی کتاب آب حیات میں لکھا ہے کہ برصغیر میں آیا ہوا اسلام شیعہ چھاپ اسلام ہے۔ نانوتوی صاحب کی بات تو صرف اتنی سی ہے لیکن میں اس میں اپنی طرف سے اضافہ کرتا ہوں کہ خود نانوتوی  صاحب کا قائم کردہ ادارہ دارالعلوم دیوبند بھی شیعہ فرقوں میں سے ہے اور جناب نانوتوی صاحب کے استاد مولانا مملوک علی صاحب جو غالباً انگریز حکومت کے افسر بھی رہے ہیں مجھے اس کے اسم گرامی سے بھی اس کا خاندانی تعلق فیہ مافیہ لگتا ہے ویسے دور کیوں جائیں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، فرزند شاہ ولی اللہ نے اپنی کتاب تحفہ اثنا عشریہ میں لکھا ہے کہ ائمہ اربعہ اہل سنت از مخلصین شیعہ اند’’ سو جب حنفی حنبلی مالکی شافعی سارے شیعہ ہیں تو دیوبندی اور بریلوی بھی تو حنفی ہیں۔  میں جناب نانوتوی صاحب کے انکشاف کہ برصغیر میں شیعہ اسلام مروج ہے پر اضافہ کرتا ہوں کہ مکہ و مدینہ مصر اور عالم اسلام میں بھی شیعی اسلام مروج ہے اس وجہ سے کہ سب کی نمازوں میں خلاف قرآن اٰل والا درود ہی پڑھا جاتا ہے جس درود لفظ کے معنوی اثر سے پورے اسلام کی جڑ اکھڑ گئی ہے۔
قرآن حکیم کے جملہ اور حکم اطیعواللہ و اطیعو الرسول کی معنی و مفہوم پر یہ مضمون لکھنے کا حکم مجھے ایک ایسے محسن و مہربان نے کیا ہے جس کا میں اپنی کتابوں اور تحریروں کے عام کرنے میں بڑا ممنون ہوں اور سنا ہے کہ وہ مسلک اہل حدیث سے بھی تعلق رکھتے ہیں ویسے مجھے اپنے طئہ کردہ قلمی مضامین کو چھوڑ کر کوئی فرمائشی کام کرنا مشکل لگتا ہے لیکن بعض بعض مہربانوں کی بات کو ٹالنا مشکل ہوتا ہے۔ اطیعو اللہ واطیعوالرسول یعنی اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو! اس حکم ربی سے علم حدیث کے جواز اور دین کے اصول میں سے ہونے کا جواز نکالنا یہ سراسر اللہ کے ساتھ نبی کو شریک کرنا ہوگا۔ دین اسلام اور قانون قرآن اللہ اور رسول کا مشترکہ اصول دین ہے مشترکہ علم حیات ہے، جسے اللہ نے اپنے رسول کی معرفت انسان ذات کی ہدایت کیلئے عطا کیا ہوا ہے،  سو جیسے کہ حکم اطیعو اللہ کی معنی قرآن کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو ہے، اس طرح حکم و اطیعو الرسول کی معنی بھی یہی ہے کہ قرآن کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو’’ بلکہ اس معنی و مفہوم کو آیت کریمہ (59-4) سے سمجھا جائے کہ:
 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيل اً (59-4)
 اس آیت  کریمہ میں اطاعت کیلئے تین مرکزوں کی طرف رجوع کرنے کا حکم ہے ۔ ایک اللہ دوم اسکے رسول سوم حکومتی بیورو کریسی۔
 سو اگر اللہ کے اطاعت کی معنی قرآن کی جائیگی اور رسول کے اطاعت کی معنی مروج علم حدیث کیا جائیگا تو افسر شاہی کی اطاعت کیلئے تیسرا کونسا مرجع علمی مراد لیا جائیگا؟ سو سمجھ لینا چاہیئے کہ آیت کریمہ میں تینوں کی اطاعت سے مراد قرآن کی اطاعت کا مفہوم سمجھا جائیگا۔ اسکے بعد جب حکومتی افسران کے فیصلوں سے تنازع ہوجائے تو اپیل کیلئے فرمایا کہ معاملہ کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو اس آخری جملہ میں اللہ پر ایمان رکھنے سے ہائی اتھارٹی اکیلے اللہ کو قرار دینے سے بھی قرآن کو وحدہ لاشریک ماخذ علمی قرار دینا اور بتلانا مقصود ہے۔ اسی معنی و مقصد کو سمجھنے کیلئے میں قارئین کو آیت کریمہ (20-8) پر غور کرنے کی بھی زحمت دوں گا جو یہ ہے کہ:
  يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ (20-8)
 اس آیت کریمہ میں پہلے دو عدد مرکزوں اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے پھر فرمایا گیا ہے کہ ولا تولوا عنہ یعنی اس ایک مرکز سے روگردانی نہ کرو لفظ عنہ کا ضمیر واحد کا ہے یعنی اس ایک مرکز سے روگردانی نہ کریں جبکہ پہلے تو اطاعت اللہ اور اطاعت رسول کا حکم ہے جو کہ دو ہیں ایک اللہ اور دوسرا رسول سو اگر دونوں میں کوئی دوئی ہوتی تو کہا جا تا کہ ولا تولوا عنھما یعنی ان دونوں سے روگردانی نہ کرو لیکن یہاں فرمایا گیا کہ ولا تولوا عنہ یعنی اس ایک سے روگردانی نہ کریں جو کہ قرآن ہی ہوا۔ یعنی اللہ کی اطاعت کی معنیٰ قرآن کی اطاعت ہے اور رسول کی اطاعت کی معنی بھی قرآن ہے ’’۔

رسول پر قرآن سے باہر دین کے لئے اپنی حدیثیں بتانے پر بندش
فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا (114-20)
 پھر جب اللہ کی ذات بلند ہے جو بادشاہ ہے حقیقی سو آپ عجلت نہ کریں قرآن کے مقابلہ میں قبل اسکے کہ (مسئولہ مسئلہ میں) اللہ کا وحی کردہ علم پورا نہ ہو۔ اور بربناء ضرورت مطالبہ کر و کہ اے میرے رب بڑھا میرے علم کو۔ اس آیت کریمہ سے صاف صاف ثابت ہو رہا ہے کہ نبی کو قرآن  سے اگر کسی سوال کا جواب نہیں مل رہا تو اسے حکم دیا گیا ہے کہ آب ایسی صورت حال میں اپنی طرف سے جواب دینے میں عجلت نہ کریں اور مجھ سے اپنے علم میں اضافے کیلئے مطالبہ کریں
محترم قارئین!
 یہ آیت کریمہ بھی صاف صاف طور پر بتا رہی ہے کہ اطیعو الرسول کی معنی بھی اللہ اور قرآن کی اطاعت کرو  ہے قرآن سے ہٹ کر رسول کی اطاعت کیلئے کہیں بھی اجازت نہیں نظر آتی ۔

قانون سازی کا اختیار صرف اللہ کی حاصل ہے
بَل لِّلّهِ الأَمْرُ جَمِيعًا (31-13)
(جبل جیسے امیروں اور سرداروں کو گھما کر رکھنا زمین کو ٹکڑے کر دینا مردوں سے باتیں کروانا) بلکہ جملہ قوانین سازی کا اختیار اور معاملہ صرف اللہ کیلئے ہے سو اطاعت بھی اسی اللہ کی ہوگی اور اسکے کتاب قرآن کی ہوگی۔

قانون سازی کا اختیار رسول کو نہیں ہے
لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذَّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ (128-3) (خلاصہ) قانون سازی کی معاملہ میں آپکو کوئی اختیار نہیں ہے جو آپ کسی کو معاف کریں یا سزا دیں جبکہ یہ لوگ ظالم بھی ہیں۔
یہ آیت کریمہ بھی صاف طرح سے بتارہی ہے کہ جناب رسول کی جو اطاعت کی جائے گی وہ خاص قرآن کے قانون کی حدود اور دائرے کے اندر کی جائے گی’’۔ قرآن سے باہر رسول ہو یا کوئی اولی الامر حکمران ہو کسی کی بھی اطاعت نہیں کی جائیگی جیسے کہ جناب رسول کے اصحابی زید نے رسول کے منع کرنے کے باوجود اپنی بیوی کو طلاق دے دی اسنے یہ انحرافی اسلئے  کی کہ یہ جناب رسول کا ذاتی مشورہ تھا جسکا قانون قرآن سے کوئی تعلق نہیں تھا اگر جناب رسول اپنے صحابی کو قرآن کے حوالہ سے یہ بات کرتے تو  وہ ضرور اسے قبول کرتے ’’۔

غیر اللہ کی اطاعت کی کسی کو بھی اجازت نہیں ہے
أَفَغَيْرَ اللّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنَزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلاً (114-6) (یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ) کیا میں اللہ کے سواء کسی اور کو اپنا حاکم تسلیم کروں جس اللہ نے تم لوگوں کی طرف نہایت تفصیل کردہ کتاب نازل کی ہے’’۔
 جناب قارئین !
 ان آیات قرآنی پر غور فرمائین کہ جناب رسول بھی کسی غیر اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا انکار کر رہے ہیں اور دلیل میں جب اللہ کی جانب سے قرآن مفصل ملنے کا اعلان فرما رہے ہیں تو خود رسول قرآن کو چھوڑ کر کسی اور کی یا اپنی اطاعت کرانے کا کس طرح حکم دے سکتے ہیں۔

رسول کی اطاعت کا حکم اسلئے دیا گیا ہے جو وہ خود شریعت کاتابعدار سے
ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَى شَرِيعَةٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاء الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ (18-45) یعنی اے نبی ہمنے آپکو قانون کہ مطابق صاحب شریعت بنایا ہے اسلئے آپ خود اسکی تابعداری کریں اور جاہلوں کی تابعداری نہ کریں یہ آیت کریمہ صاف صاف بتارہی ہے کے اطاعت رسول اس حوالہ سے ہے کہ جناب رسول کو اللہ کی جانب سے جو شریعت عطا کی ہوئی ہے ہم امت والو نکو بھی اسے ملی ہوئی شریعت کی تابعداری کرنی ہے ۔ نبی بغیر شریعت کے نہیں ہو سکتا اور اطاعت نبوت کی ہوتی ہے، اطاعت کسی غیر نبی کی نہیں کی جاتی۔

نبی پابند ہے اس بات کا کہ وہ قرآن کے حوالہ سے قانون بتائے
فذکر بالقرآن من یخاف وعید (45-50) یعنی اے نبی آپ قوانین کی نصیحت قرآن سے کیا کریں لوگوں کی جنہیں ۔ اللہ کا ڈر ہو ’’ یہ آیت کریمہ جناب صاف طور پر سمجھا رہی ہے نبی اس وجہ سے مطاع ہے نبی کی اطاعت اسلئے لازم اور فرض ہے جو وہ خود قرآن سے ہدایات دیتا ہے اسلئے نبی کی اطاعت گویا قرآن کی اطاعت ہوئی ۔
رسول اگر قرآن سے پیغام ہدایت نہ دیگا تو وہ رسالت کی ڈیوٹی سرانجام نہ دینے کا مرتکب ہو جائیگا۔
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ 67/5 یعنی اے رسول پہنچاؤ رسالت کے اس پئکیج کو جو تیری طرف نازل کیا گیا ہے تیرے رب کی طرف سے اگر آپ نے ایسے نہیں کیا تو جیسے آپ نے اپنی رسالت کو ہی نہیں پہنچایا، آپکو اللہ لوگوں کی عداوتوں سے بچائے رکھے گا’’ اللہ کافر قسم کے لوگوں کو راہ راست کی توفیق نہیں دیتا’’ قارئین حضرات اس آیت کریمہ کے الفاظ و عبارت پر غور کریں کہ رب تعالیٰ اپنے رسول کو کلام ما انزل یعنی قرآن کے نہ پہنچانے پر کیا وارننگ دے رہا ہے کہ قرآن سے مسائل دین نہ پہنچانے پر گو یا کہ آپ اپنی رسالت کی ڈیوٹی اور منصب ابلاغ کو سرانجام نہیں دے رہے۔

خوب تر حدیثون والی کتاب قرآن سے
 اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا (23-39)
 اللہ نے قرآن کو نہایت خوبتر اور حسین تر حدیثوں والی کتاب بنا کر نازل کیا ہے۔ قارئین لوگ غور فرمائیں کہ جب قرآن حکیم کی احادیث سب سے بہر حدیثیں ہوئیں پھر جناب رسول علیہ السلام اللہ کی بہتر حدیثوں کو چھوڑ کر اپنی طرف سے  قرآنی حدیثوں کے مقابلہ میں کم بہتر حدیثیں کیونکر پیش کرسکتے ہیں جن کی وجہ سے اطاعت رسول بغیر احکام قرآنی کا مسئلہ درپیش آسکے، اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مسائل دین کی خاطر جناب رسول قرآن حکیم کے سوا ء کوئی ایک بھی حدیث اپنی طرف سے نہیں سنائی ہے ایسے صورت حال میں جناب رسول کی اطاعت خود قرآن کی اطاعت اور اللہ کی اطاعت کی معنی میں متصور ہوگی۔

اطاعۃ رسول نام ہی اطاعت قرآن کا ہے
قرآن میں قول رسول ہے کہ  وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَذَا الْقُرْآنُ لأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ (19-6) یعنی میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے اسلئے کہ اسکے فرامین سے میں آپکو اور جنتک پہنچ پائے ان کو ڈراؤن قارئین حضرات اس آیت کریمہ کی روشنی میں غور فرمائیں کہ خود اعلان رسول ہے کہ میری طرف ڈرانے کیلئے صرف یہ کتاب قرآن ہی بھیجا گیا ہے اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں بھیجا گیا، عربی گرامر جاننے والے سمجھ سکتے ہیں کہ پوری آیت کریمہ کی عبارت میں جملہ قل ای شی اکبر شہادہ قل اللہ شھید بینی و بینکم سے جو حصر کی معنی ثابت ہوتی ہے وہ اللہ کی وحدانیت اور توحید کے حوالہ سے ہے کہ جب سوال کیا گیا کہ:
 أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللّهِ آلِهَةً أُخْرَى قُل لاَّ أَشْهَدُ
یعنی کیا اللہ کے ساتھ دوسرے خدا ہوسکتے ہیں؟
 اور جواب:
 قُل لاَّ أَشْهَدُ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَـهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ (19-6)
 اس شھادت سےثابت ہوا کہ قرآن جو منبع ہدایت ہے وہ ایک ہے اور اسکے بھیجنے والا اللہ بھی ایک ہے تو قرآن سے باہر اور قرآن کے علاوہ اور خلاف قرآن روایات والی احادیث کو وحی خفی اور وحی غیر متلو کے زٹلیاتی ناموں سے جو علم میری طرف منسوب کیا گیا ہے یہ تو اللہ کے ساتھ گویا کہ شرک ہوا، میں رسول ایسی حدیثیں اللہ کے وحی کے نام سے کیسے کہہ سکتاہوں اس آیت کریمہ سے یہ بھی سمجھایا گیا کہ جن روایات کو وحی خفی غیر متلو کہا جارہا ہے یہ اللہ کی جانب سے نہیں ہوسکتیں اسلئے کہ قرآنی ہدایات اور ان امامی خرافاتی روایات میں بڑا تضاد ہے وہ یہ کہ اللہ قرآن میں اصحاب رسول کو جنہوں نے جناب رسول کے ساتھ مکہ سے مدینہ کی جانب  ہجرت کی انکیلئے فرمایہ کہ:
 فَالَّذِينَ هَاجَرُواْ وَأُخْرِجُواْ مِن دِيَارِهِمْ وَأُوذُواْ فِي سَبِيلِي (195-3)
 یعنی جن لوگوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں چلنے سے انکو ایذا پہچائے گئے لڑے بھی اور قتل بھی کئے گئے میں اللہ انکو جنت میں داخل کرونگا جن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی۔ دوسرے مقام پر فرمایا کہ جن لوگوں نے ایمان لایا اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور انکو پناہ دینے والے انصار یہ سب لوگ ھم المؤمنون حقا(۸-۷۴) یہ سب بر حق مؤمنین ہیں، اور سورت توبہ کی آیت نمبر ایک سؤ میں فرمایا کہ مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والوں اور انکے متبعین سے اللہ راضی ہے اور یہ بھی اللہ سے خوش ہیں انکے لئے ایسے باغات تیار کئے گئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی۔
جناب قارئین !
 غور فرمائیں کہ اللہ اپنے نبی کے ساتھ ہجرت کرنے والوں کی کیا تو شان  اور منزلت بیان فرما رہا ہے اور علم حدیث کی کتاب بخاری کی بلکل شروع والی پہلی حدیث کو کوئی جاکر پڑھے جس میں اسنے اصحاب رسول پر جوگند اچھالنے کی ہنرمندی کی ہے جس سے آج بارہ سو سالوں تک پیدا ہونے والے دشمنان اصحاب رسول کو تبرا کیلئے وحی خفی اور وحی غیر متلو نامی علم حدیث میں بتایا گیا ہے کہ سمعت رسول اللہ ﷺ یقول انما الاعمال باالنیات وانما لکل امریٗ مانوی فمن کانت ہجرتہ الی دنیا یصیبھا او الی امراۃ ینکحھا فھجرتہ الی ماھاجرالیہ یعنی رسول علیہ السلام نے فرمایا کہ اعمال کا مدار نیتوں پر ہے ہر شخص کو اسکی نیت کا صلہ ملیگا پھر جسکی ہجرت دنیا کے حصول کیلئے ہوگی اسے دنیا ملے گی اور جسکی نیت کسی عورت کو حاصل کرنی کی ہوگی تو وہ اسکے ساتھ شادی کریگا۔
جناب قارئین!
 قرآن حکیم میں لفظ علم اور اعمال اپنے مختلف صیغوں میں کم وپیش اندازا تین سو بار استعمال ہوا ہے ان جملہ استعمالات میں کسی ایک بھی مقام پر انکے ساتھ لفظ نیت کا ستعمال نہیں کیا گیا۔چلو اگر لفظ علم کے ساتھ نیت کا لفظ استعمال نہیں بھی ہوا لیکن غور فرمایا جائے کہ پورے قرآن میں کہیں بھی اور مقام پر بھی لفظ نیت نہیں استعمال ہوا، اب بتایا جائے کہ انکی امامی تقسیم کہ قرآن وحی جلی ہے اور علم حدیث وحی خفی ہے تو بتایا جائے کہ ان میں اتنی بھی مطابقت نہیں ہے جو وحی خفی کا لفظ نیت جو یہ حدیث ساز لوگ نبی کی زبان سے پیش کر رہے ہیں یہ قرآنی ڈکشنری کے الفاظ سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا یہ انکے دوقسم کے علم وحی کے اندر اتنا تفاوت کیوں؟ وحی کرنے والی اتھارٹی اللہ کی ذات ہے وہ تو وحدہ لاشریک ہے وہ قرآنی علم میں جو الفاظ لایا ہے وہ الفاظ وحی خفی اگر سچ مچ ہے تو اسکےاندر وحی جلی والے قرآنی الفاظ کیوں استعمال نہیں کررہا ؟!! اس آیت کریمہ (۶-۱۹) میں جو جناب رسول علیہ السلام سے اللہ کے وحدہ لاشریک یعنی ایک ہونے کی شاہدی لی گئی ہے اسکا صاف صاف مقصد یہ ہے کہ جسطرح میں اللہ ایک ہوں اسطرح میرا قرآن بھی ایک ہے جسکو وحی جلی اور وحی متلو کا نام دیا ہوا ہے اسکے علاوہ جس علم کو انہوں نے وحی خفی اور وحی غیر متلو اور مثل القرآن کا نام دیا ہے انکے ایسے نظریہ سے انکے والے ایسے خفی اور غیر متلو اور مثل القرآن دینے والا انکا کوئی سامراجی اتحاد ثلاثہ کا معبود ہوتو ہو میں اللہ تو ایک ہوں اور وحدہ لاشریک ہوں میری طرف سے نازل کردہ قرآن کا شان یہ ہے کو وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلاً لاَّ مُبَدِّلِ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (۶-۱۱۵) یعنی صدق وعدالت کے پئمانوں پر قوانین رب تعالی مکمل ہو چکے اب کسی بھی علمی اتھارٹی کی یہ مجال نہیں ہے کہ وہ انکے اندر کوئی تبدیلی لاسکے میں اللہ سننے اور جاننے والا ہوں کہ جو یہ اپنی خرافاتی روایات کے علم کو میری کتاب پر حاکم اور قاضی قرار دے رہے ہیں یہ سب میرے منکر ہیں میری وحدانیت کے منکرختم نبوت کے بھی منکر ہیں اور میری کتاب قرآن کے بھی منکر ہیں یہ ایک اطیعوالرسول کی معنی انکی والی حدیثوں کی اطاعت کرنا کی معنی کرنے سے یہ میرے رسول کے بھی منکر ہیں اسلئے میرے رسول کی یہ مجال ہی نہیں ہے کہ انکی والی گھڑاوتی خلاف قرآن حدیثیں وہ بنائے ۔

رسول اگر خلاف قرآن بات کریگا تو اسکا سانس لینا ہی بند کردیا جائے گا۔
ولو تقول علینا بعض القاویل الاخذنا منہ بالیمین۔ ثم لقطعنا منہ الوتین۔ (۶۹-۴۴-۴۵-۴۶) خلاصہ یعنی اگر یہ رسول ہماری مشن اور تحریک ختم نبوت اور قرآن کے بے مثال ہونے کے خلاف کوئی بات کریگا، جسطرح کہ لوگوں نے وحی خفی، غیر متلو، اور روایات کومثل القرآن علم مشہور کیا ہے اگر ہمارا رسول ان جیسی باتیں یا انکی تائید کریگا تو ہم اسکا رگ جان پکڑ کرسانس لینا ہی بند کردینگے سو جیسے کہ یہ سورت مکی ہے جناب رسول علیہ السلام نے کبھی بھی اپنی طرف سے دینی قوانین کیلئے نام نہاد صحاح ستہ والی خلاف قرآن حدیثیں بیان نہیں کی اور نہ ہی اپنی باتوں کو انہوں نے مثل القرآن کہا ہے سو انکی جانب ایسی حدیثیں منسوب کرنا سراسر خلاف حقائق قرآن ہے اگر بفرض محال بقول مجوسی یہودی اونصاری کے ایکسپورٹ کردہ دانشوروں کے جناب رسول ایسی باتیں کرتے تو اللہ کبھی بھی اپنے اعلان ثم لقطعنا منہ الوتین کی خلاف ورزی نہ کرتے جبکہ جناب خاتم الانبیاء علیہ السلام مکی زندگی کے بعد بھی مدنی زندگی کے اخیرتک دھام دھوم سے بڑے دھڑلے سے قرآنی تحریک اور مشن کو وحدہ لاشریک انداز سے پایہ تکمیل تک لے آئے۔ اب قارئین لوگ  سو چیں کہ رب تعالی جب جناب رسول کو یہ وارننگ دیں کہ اگر یہ ہمارا رسول بھی ہم پر ہماری مشن کے خلاف کوئی اقوال اور کوئی حدیثیں بنائے گا تو ہم اسکا سانس لینا ہی بند کردینگے تو اطیعو الرسول کی معنی پر غور کیا جائے کہ اگر رسول کی قرآن حکیم سے باہر اور خارجی امور میں اسکی اطاعت کی معنی کی جائے گی تو جناب رسول کے اصحابی زید نے اطاعت نہیں کی تو اسکی لئے کوئی وعید نہیں آئی یہ اسلئے کہ جناب زید رضی اللہ عنہ اطیعو الرسول کی معنے ہم سب سے زیادہ سمجھتے تھے کہ غیر قرآنی مشوروں میں رسول کا حکم نہ ماننے سے آدمی منکر قرآن نہیں ہو رہا۔

اطیعوالرسول کی معنی علم روایات کی حدیثوں پر چلنا کرنے کا پسمنظر
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِيرًا (115-4) اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کو جو رسول علیہ السلام کو اللہ سے جدا کرکے کاٹ کرکے علحدہ کرکے گردانتے ہیں کہ اطیعو اللہ کی معنی قرآن کی اطاعت ہے اور اطیعو ارسول کی معنی اطاعت قرآن سے جدا کرکے علوم یہود ونصاری جو انہوں نے اہل فارس کے ساتھ مل ملاکر علم حدیث کے نام سے رد قرآن کے مقصد سے گھڑے ہیں ان کی اطاعت کرنی ہے انکے متعلق قرآن فرمارہا ہے کہ جو لوگ ہدایت کے ظاہر ہو جانے کے بعد بھی رسول کو اللہ سے جدا کرکے کہتے ہیں کہ اطیعوالرسول کی معنی خرافاتی روایات کی اطاعت کرنی ہے  انکے متعلق رب تعالیٰ بتا رہا ہے کہ ویتبع غیر سبیل المؤمنین یہ لوگ عالم استعمار اور سامراج کے پیروکار ہیں انکے دلال اور ایجنٹ ہیں انہیں وہ کچھ مکافات چم ٹائینگے جس سے یہ لوگ جہنم رسید ہوکر برے ٹھکانے میں پہنچینگے۔ اس معنی کی تائید بعد والی آیت سے یوں فرمائی کہ انکا جناب رسول کو اطیعو الرسول کی معنی کرتے وقت اللہ سے جدا کرکے جدا علم کے اتباع کی معنی کرنا یہ نبی کو رد قرآن میں بنائے ہوئے جدا دین کا مالک بناناہے اس نظریہ اور سوچ کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ ان لایغفران یشرک بہ ویغفر مادون ذالک لمن یشاء ومن یشرک باللہ فقد ضل ضلالا بعیدا۔ (۴-۱۱۶) یہ ان لوگوں کا اللہ کے ساتھ شرک کرنے کا عمل ہے جسکی معافی نہیں ملتی۔
 جناب قارئین!
 قرآن فہمی کے فن تصریف آیات کے حوالہ سے آپ سورۃ محمد کی  آیت نمبر بتیس اور تیتیس کو ملاکر پڑھیں ان میں اسی معنی کی تصدیق ہوتی ہے جن میں فرمایا گیا ہے کہ جن لوگوں نے کفر کرکے اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکنے کیلئے جناب رسول کو ہدایت ملنے کے باوجود اللہ سے جدا کرکے پیش کیا ہے یہ لوگ ان کا رستا نیوں سے اللہ کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکینگے وہ تو انکے اعمال کو چٹ کردیگا (۳۲) لیکن مؤمن لوگو! آپ لوگ اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرو اور رسول کو اللہ سے جدا کرکے  اپنے اعمال کو ضائع ہونے سے بچائیں میرے خیال میں قارئین لوگ سمجھ گئے ہونگے کہ اطیعوا الرسول کی معنی قرآن کی اطاعت کے بجاء حدیثوں کی اطاعت کا ڈھکوسلہ یہ عالمی سامراج نے مسلم امت کو قرآن سے کاٹ کر علحدہ کرنے کیلئے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے رائج کرایا ہے میری اس دعوی میں قارئین کو کوئی تردد نہ ہونا چاہیے اس لئے کہ عالمی سامراج کی خوشنودی اور اطاعت میں حکومت سعودیہ نے قرآن حکیم میں حرفی اور لفظی ملاوٹیں کرکے تین عدد قرآن بنائے ہیں جن میں سے ہزاروں حروف کی ملاوٹ  والا قرآن البوزی نامی انٹرنیٹ پر موجود ہے ہر کوئی پڑھ سکتا ہے اور ایسے سولہ عدد اور بھی قرآن لاہور شہر کے اہل حدیثوں نے بھی تیار کئے ہیں جنکا کہنا ہے کہ وہ انہیں اشاعت کے لئے حکومت سعودیہ کے حوالے کرینگے جبکہ وہاں بھی انکے گرائیں مملکتہ سعودیہ کے قیام سے لے کر تاہنوز براجمان ہیں۔

اطیعوالرسول کی معنی میں خیانت کا ایک اور بھیانک پسمنظر
یہ جو عالمی استعمار کے تنخواہ خوروں نے اطیعو الرسول کی معنی کی ہے بجاء قرآن کے علم حدیث پر چلنا سو انکی علم حدیث کی نامور کتاب بخاری کے جامع امام بخاری نے قرآن حکیم کی بہت ہی اہم اصطلاح الصلوۃ کی معنی کی ہے بت پرستی، قبرپرستی آگ پرستی وغیرہ یعنی ہر قسم کی پرستش جو اللہ کے سواء غیر اللہ کی پوجا کیلئے کی جائے اور بخاری کی ایسی معنوی تحریف اور خیانت کی عبارت کے ساتھ امام زہری کی حدیث بھی نقل کی گئی ہے جس میں اسنے جناب خاتم الانبیاء کو آگ کے سامنے نماز پڑھتے ہوئے اسکی پوجا کرتے ہوئے آتش پرست ثابت کیا ہے حوالہ کے لئے ہر کوئی کتاب بخاری کے کتاب الصلوۃ کا باب نمبر ۲۹۲ پڑھکر دیکھے۔

جب امام بخاری اور امام زہری آتش پرست مجوسی ثابت ہوگئے تو انکے بنائے ہوئے علم حدیث کی اطاعت کیوں کی جائے؟
من صلیٰ وقد امۃ تنور اور ناراوشیٰ مما یعبد فارادبہ وجہ اللہ عزوجل وقال الزہری اخبرنی انس بن مالک قال قال النبی ﷺ عرضت علی النار وانا اصلی۔ بخاری کتاب الصلوۃ باب نمبر ۲۹۲۔
محترم قارئین!
 اس  عبارت کے اندر امام بخاری نے اپنا فقہی نظریہ بتایا ہے کہ تنور کی پوجا یا آگ کی پوجا یا کسی بھی ایسی چیز کی پوجا جس سے پوجاری ارادہ کرے اللہ عزوجل کی رضا حاصل کرنے کا اسے امام بخاری نے صلوۃ کی معنی میں لایا ہے یعنی امام بخاری کے نزدیک کسی بھی آگ، بت یا قبر کو پوجنا اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے ایسا عمل صلوۃ کہلائے گا اسکے بعد امام بخاری نے امام زہری کی بنائی ہوئی حدیث اپنی تائید میں پیش کی ہے (معاذ اللہ استغفراللہ) کہ جناب رسول نے بھی آگ کی پوجا کی ہے۔ اب قارئین لوگ بتائیں کہ فن حدیث کے یہ بڑے امام اپنی ایسی امامت کے دوران خود کون ہیں اور کیا ہیں؟ تو کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ قرآنی حکم اطیعوا الرسول کی معنی میں اس قسم کے علم حدیث کی اطاعت کرنے کا حکم دیا گیا ہے!!؟
جناب رسول کو صرف قرآن پہچانے کا حکم ہے
قرآن حکیم کے طالب علموں کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ حکم قرآن فھل علی الرسل الاالبلاغ المبین (۱۶-۳۵) اور وماعلی الرسول الا البلاغ المبین (54-34) پر غور فرمائیں ان دونوں آیتوں میں جملہ رسولوں کی ذمہ دار ی صرف علم وحی کی یعنی قرآن کے ابلاغ کی بتائی گئی ہے اور قرآن کی المبین کی ساتھ تخصیص کی گئی سارے قرآن میں اندازا سولہ بار سے بھی زیادہ تعداد میں قرآن کی صفت مبین بتائی گئی ہے سو یقین کرنا چاہیے کہ قرآن کے مقابلہ میں مجوسی اماموں کی گھڑی ہوئی حدیثیں ہر گز مبین نہیں ہوسکتیں اگر حدیثیں مبین ہیں تو وہ ضلال میں ہیں اسلئے کہ ان میں جناب رسول کو بخاری اور زہری نے معاذ اللہ آتش پرست اور مجوسی بناکر پیش کیا ہے۔

علم قرآن کے بغیر کوئی بھی آپکا خیر خواہ اور دوست نہیں ہے
اتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاء (7-3) یعنی اللہ کی جانب سے نازل کردہ علم قرآن کے سواء کسی بھی دوسرے علم کو اپنا ولی وارث یا بہی  خواہ تصور نہ کریں۔

AZZIULLAH BHOHIYO