دہشت گردی براستہ مذہبی شدت پسندی!...روزن
دیوار سے … عطاء الحق قاسمی
attaul.haq@janggroup.com.pk
SMS:#AHQ (space) message & send to 8001
دہشت گردی ہمارے ہاں یونہی پروان نہیں چڑھی، ہم لوگوں نے خود ’’جہادی‘‘ گروپ تیار کئے، بعد میں جب یہ جن بوتل سے باہر آیا تو ہم نے ان میں سے کسی کو اچھے دہشت گرد اور کسی کو برے دہشت گرد قرار دے ڈالا۔ ان کی ذہنی تربیت کے لئے وہ لاکھوں روایات کافی تھیں جن میں سے کچھ من گھڑت تھیں اور کچھ کمزور تھیں۔ امام بخاریؒ اور کچھ دوسرے محدثین نے محنت شاقہ سے کام لیتے ہوئے بے شمار حدیثوں کو رد کیا جو حضور پاک ﷺ سے منسوب کی گئی تھیں۔ اس کے باوجود ابھی بے شمار مواد ہماری کتابوں میں موجود ہے جو ملک دشمن اور اسلام دشمن اپنے ناپاک مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس صورتحال کا خوفناک پہلو یہ ہے کہ ابھی تک علماء کے کسی بورڈ نے ان روایات کی چھان بین کا اہم کام نہیں کیا جو حضور پاک ﷺ سے منسوب کی گئیں، چنانچہ ہر فرقے کو اپنے مطلب کی ’’ضعیف روایات‘‘ مل جاتی ہیں، بلکہ اگر آج کوئی گروہ دس بیس مزید فرقے بھی بنانا چاہے تو اسے ان فرقوں کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑے گا۔ ان کے لئے پورا میٹریل کتابوں میں تیار پڑا ہے۔ واعظ اور ذاکر حضرات کی دکانداری انہی روایات کے بل بوتے پر چلتی ہے، وہ یہ روایات بے دریغ استعمال کرتے چلے جاتے ہیں اور نعرہ ہائے تکبیر اور نعرہ ہائے حیدری میں اس کی داد ان سامعین سے وصول پاتے ہیں، جن کے اپنے مقاصد کے لئے بھی یہ روایات نعمت غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔۔۔ مسلم امہ اس وقت انہی روایات میں جکڑے ہوئے ’’اسلام‘‘ کی پیروکار ہے، انہی روایات کی وجہ سے نہ ہی شدت پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے، فرقہ پرستی کا مرض ہماری شریانوں میں لہو کی طرح پھیل رہا ہے اور دہشت گرد گروہ انہی روایات کی بنیاد پر جنت کے ٹکٹ کٹوا رہے ہیں چنانچہ صورتحال ؎
یہ امت روایات میں کھو گئی
حقیقت خرافات میں کھو گئی
کی عملی تصویر بن کر رہ گئی ہے:
اب میں ایک ’’حدیث‘‘ بیان کر رہا ہوں، جسے پڑھ کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے اور اگر آپ اسے سچ سمجھ بیٹھیں گے تو آپ کا ایمان ڈگمگا جائے گا اس سے آپ کو یہ اندازہ ہو گا کہ بے بنیاد روایات کے علاوہ روایات میں تحریف کر کے بھی مسلمانوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ اس کی ایک مثال فیس بک پر طالبان کے ترجمان محمد خراسانی کا وہ پیغام بھی ہے جس کا متن یہ ہے:طالبان کے ترجمان محمد خراسانی کا کہنا ہے کہ مجاہدین کو ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ صرف بڑے بچوں کا قتال کریں۔ پشاور کی کارروائی سنت نبوی ﷺ کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے بھی بنو قریظہ کے قتال کے وقت یہی شرط مبارک عائد کی تھی کہ صرف ان بچوں کو قتل کیا جائے جن کے زیر ناف بال دکھائی دینا شروع ہو گئے ہیں، بچوں اور عورتوں کا قتل عین رسول پاک ﷺ کی تعلیم کے مطابق ہے، اعتراض کرنے والے صحیح بخاری جلد پانچ حدیث ایک سو اڑتالیس کا مطالعہ کریں‘‘ یہ ’’حدیث‘‘ جس طرح حوالوں کے ساتھ بیان کی گئی، میں ایک دفعہ تو لرز کر رہ گیا، پہلے میں نے سوچا کہ کسی عالم دین سے رجوع کرتا ہوں مگر پھر خیال آیا کہ وہ کہیں صحیح بخاری کا نام سنتے ہی تاویلات کے ساتھ اس کی تصدیق نہ کر دیں چنانچہ میں نے اپنے منجھلے بیٹے علی عثمان قاسمی کو فون کیا جس نے ہائیڈل برگ یونیورسٹی جرمنی سے RELIGION IN SOUTH ASIAکے موضوع پر ڈاکٹریٹ اور لندن یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ہے، اس نے بتایا کہ یہ حدیث غلط ’’کوٹ‘‘ کی گئی ہے، اصل واقعہ یہ ہے کہ غزوہ خندق میں یہودیوں کے قبیلہ بنو قریظہ کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ تھا کہ وہ کسی جنگ میںمشرکین کا ساتھ نہیں دیں گے لیکن جب غزوہ خندق کے دوران ایک بھگدڑ سی مچی تو بنو قریظہ نے یہ سمجھ کر کہ مسلمان شکست کھا رہے ہیں، ان پر عقب سے حملہ کر دیا۔ جب غزوہ اپنے اختتام کو پہنچا تو بنو قریظہ کو معاہدے کی خلاف ورزی کی سزا دینے کے لئے ان کے قبیلے کا محاصرہ کیا گیا جو 25دن جاری رہا، بالآخر بنو قریظہ نے خود کو مسلمانوں کے سپرد کر دیا اور معاہدے کی خلاف ورزی پر سزا کے لئے اوس قبیلے کے سردار سعد بن معاذ کو ثالث مقرر کیا اور کہا کہ اس کا ہر فیصلہ ان کے لئے قابل قبول ہو گا۔ سعد بن معاذ نے یہودیوں کی مقدس کتاب تورات کے مطابق اپنا فیصلہ سنایا اور وہ یہ تھا کہ بنو قریظہ کے سارے مرد قتل کر دیئے جائیں اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا جائے یہ اصل واقعہ تھا مگر اس میں تحریف کر کے پشاور کے سانحہ عظیم کا جواز پیش کیا گیا۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس طرح کے لوگ قیامت کے روز حضور پاک ﷺ کا سامنا کیسے کریں گے، لیکن کیا انہیں اس کی پرواہ ہے بھی کہ نہیں۔ میرے خیال میںنہیں۔۔۔ یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں لگتا۔
پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کے جو منبع ہیں ان میں سے کچھ بظاہر بالکل بے ضرر ہیں بلکہ اگر ان ذرائع کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو ہمارا ملک جنت کا نمونہ بن سکتا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ شرعی وضع قطع کے پیران عظام کے علاوہ ان دنوں پڑھے لکھے لوگ ماڈرن قسم کے مرشدوں کی طرف ہی کھنچے چلے جا رہے ہیں۔ وہ ان کے پاس اپنے دنیاوی مسائل کے حل کے لئے جاتے ہیں اور وہ انہیں پڑھنے کے لئے کچھ وظائف بتا دیتے ہیں۔ اسی طرح خواتین بھی مختلف مقامات پر مذہبی مجلسیں منعقد کرتی ہیں۔ جہاں کوئی خاتون اسلام کے بارے میں گفتگو کرتی ہے مدرسوں کے علاوہ ہر گھر میں قاری صاحب بچوں کو قرآن ناظرہ پڑھانے کے لئے آتے ہیں۔
ہماری نصاب کی کتابوں میں خواہ وہ سائنس ہی کی کتاب کیوں نہ ہو، مذہبی تعلیم دی جا رہی ہے لیکن ان سب افعال کا نیٹ رزلٹ کیا ہے؟ کیا ہمارا معاشرہ ان اچھے کاموں کی بدولت اچھا ہوتا جا رہا ہے، اس کا باطن روشن ہو رہا ہے وہ نفرت، کدورت، حسد، غیبت، ملاوٹ، کرپشن، اسمگلنگ، فرقہ پرستی دہشت گردی، قتل و غارت گری اور اس طرح کی دوسری لعنتوں سے پاک ہو گیا ہے یا کم از کم اس میں کچھ کمی آئی ہے؟ آپ اپنے اردگرد اس سوال کا جواب تلاش کریں تو پتہ چلے گا کہ زیادہ سے زیادہ صرف ظاہر بدلا ہے، باطن کی کثافت وہیں کی وہیں ہے۔
کیا کریں تبصرہ کہ تاب نہیں
دن بھی تاریک ہو گیا صاحب
ہم کہاں سے کہاں تک آ پہنچے
دین تضحیک ہو گیا صاحب!
اور اب آخر میں میرا سوال اس کمیٹی سے ہے جو دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے تشکیل دی گئی ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس فساد کی جڑوں تک پہنچ بھی سکے گی کہ نہیں کہ۔
اس میں دو چار سخت مقامات بھی آتے ہیں!
پس نوشت:ابھی ابھی مجھے ایک ایس ایم ایس موصول ہوا ہے۔ آپ بھی پڑھ لیجئے:۔حکومت نے دہشت گردی کی روک تھام کے لئے جو کمیٹی بنائی ہے اس کے خلوص اور اہلیت کو جانچنے کے لئے دیکھنا ہو گا کہ وہ سات دنوں کے اندر ندر لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کے خلاف کیا فیصلہ کرتی ہے (واضح رہے کہ مولانا نے پشاور کے سانحہ کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا ہے)
SMS:#AHQ (space) message & send to 8001
دہشت گردی ہمارے ہاں یونہی پروان نہیں چڑھی، ہم لوگوں نے خود ’’جہادی‘‘ گروپ تیار کئے، بعد میں جب یہ جن بوتل سے باہر آیا تو ہم نے ان میں سے کسی کو اچھے دہشت گرد اور کسی کو برے دہشت گرد قرار دے ڈالا۔ ان کی ذہنی تربیت کے لئے وہ لاکھوں روایات کافی تھیں جن میں سے کچھ من گھڑت تھیں اور کچھ کمزور تھیں۔ امام بخاریؒ اور کچھ دوسرے محدثین نے محنت شاقہ سے کام لیتے ہوئے بے شمار حدیثوں کو رد کیا جو حضور پاک ﷺ سے منسوب کی گئی تھیں۔ اس کے باوجود ابھی بے شمار مواد ہماری کتابوں میں موجود ہے جو ملک دشمن اور اسلام دشمن اپنے ناپاک مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس صورتحال کا خوفناک پہلو یہ ہے کہ ابھی تک علماء کے کسی بورڈ نے ان روایات کی چھان بین کا اہم کام نہیں کیا جو حضور پاک ﷺ سے منسوب کی گئیں، چنانچہ ہر فرقے کو اپنے مطلب کی ’’ضعیف روایات‘‘ مل جاتی ہیں، بلکہ اگر آج کوئی گروہ دس بیس مزید فرقے بھی بنانا چاہے تو اسے ان فرقوں کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑے گا۔ ان کے لئے پورا میٹریل کتابوں میں تیار پڑا ہے۔ واعظ اور ذاکر حضرات کی دکانداری انہی روایات کے بل بوتے پر چلتی ہے، وہ یہ روایات بے دریغ استعمال کرتے چلے جاتے ہیں اور نعرہ ہائے تکبیر اور نعرہ ہائے حیدری میں اس کی داد ان سامعین سے وصول پاتے ہیں، جن کے اپنے مقاصد کے لئے بھی یہ روایات نعمت غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔۔۔ مسلم امہ اس وقت انہی روایات میں جکڑے ہوئے ’’اسلام‘‘ کی پیروکار ہے، انہی روایات کی وجہ سے نہ ہی شدت پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے، فرقہ پرستی کا مرض ہماری شریانوں میں لہو کی طرح پھیل رہا ہے اور دہشت گرد گروہ انہی روایات کی بنیاد پر جنت کے ٹکٹ کٹوا رہے ہیں چنانچہ صورتحال ؎
یہ امت روایات میں کھو گئی
حقیقت خرافات میں کھو گئی
کی عملی تصویر بن کر رہ گئی ہے:
اب میں ایک ’’حدیث‘‘ بیان کر رہا ہوں، جسے پڑھ کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے اور اگر آپ اسے سچ سمجھ بیٹھیں گے تو آپ کا ایمان ڈگمگا جائے گا اس سے آپ کو یہ اندازہ ہو گا کہ بے بنیاد روایات کے علاوہ روایات میں تحریف کر کے بھی مسلمانوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ اس کی ایک مثال فیس بک پر طالبان کے ترجمان محمد خراسانی کا وہ پیغام بھی ہے جس کا متن یہ ہے:طالبان کے ترجمان محمد خراسانی کا کہنا ہے کہ مجاہدین کو ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ صرف بڑے بچوں کا قتال کریں۔ پشاور کی کارروائی سنت نبوی ﷺ کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے بھی بنو قریظہ کے قتال کے وقت یہی شرط مبارک عائد کی تھی کہ صرف ان بچوں کو قتل کیا جائے جن کے زیر ناف بال دکھائی دینا شروع ہو گئے ہیں، بچوں اور عورتوں کا قتل عین رسول پاک ﷺ کی تعلیم کے مطابق ہے، اعتراض کرنے والے صحیح بخاری جلد پانچ حدیث ایک سو اڑتالیس کا مطالعہ کریں‘‘ یہ ’’حدیث‘‘ جس طرح حوالوں کے ساتھ بیان کی گئی، میں ایک دفعہ تو لرز کر رہ گیا، پہلے میں نے سوچا کہ کسی عالم دین سے رجوع کرتا ہوں مگر پھر خیال آیا کہ وہ کہیں صحیح بخاری کا نام سنتے ہی تاویلات کے ساتھ اس کی تصدیق نہ کر دیں چنانچہ میں نے اپنے منجھلے بیٹے علی عثمان قاسمی کو فون کیا جس نے ہائیڈل برگ یونیورسٹی جرمنی سے RELIGION IN SOUTH ASIAکے موضوع پر ڈاکٹریٹ اور لندن یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ہے، اس نے بتایا کہ یہ حدیث غلط ’’کوٹ‘‘ کی گئی ہے، اصل واقعہ یہ ہے کہ غزوہ خندق میں یہودیوں کے قبیلہ بنو قریظہ کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ تھا کہ وہ کسی جنگ میںمشرکین کا ساتھ نہیں دیں گے لیکن جب غزوہ خندق کے دوران ایک بھگدڑ سی مچی تو بنو قریظہ نے یہ سمجھ کر کہ مسلمان شکست کھا رہے ہیں، ان پر عقب سے حملہ کر دیا۔ جب غزوہ اپنے اختتام کو پہنچا تو بنو قریظہ کو معاہدے کی خلاف ورزی کی سزا دینے کے لئے ان کے قبیلے کا محاصرہ کیا گیا جو 25دن جاری رہا، بالآخر بنو قریظہ نے خود کو مسلمانوں کے سپرد کر دیا اور معاہدے کی خلاف ورزی پر سزا کے لئے اوس قبیلے کے سردار سعد بن معاذ کو ثالث مقرر کیا اور کہا کہ اس کا ہر فیصلہ ان کے لئے قابل قبول ہو گا۔ سعد بن معاذ نے یہودیوں کی مقدس کتاب تورات کے مطابق اپنا فیصلہ سنایا اور وہ یہ تھا کہ بنو قریظہ کے سارے مرد قتل کر دیئے جائیں اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا جائے یہ اصل واقعہ تھا مگر اس میں تحریف کر کے پشاور کے سانحہ عظیم کا جواز پیش کیا گیا۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس طرح کے لوگ قیامت کے روز حضور پاک ﷺ کا سامنا کیسے کریں گے، لیکن کیا انہیں اس کی پرواہ ہے بھی کہ نہیں۔ میرے خیال میںنہیں۔۔۔ یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں لگتا۔
پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کے جو منبع ہیں ان میں سے کچھ بظاہر بالکل بے ضرر ہیں بلکہ اگر ان ذرائع کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو ہمارا ملک جنت کا نمونہ بن سکتا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ شرعی وضع قطع کے پیران عظام کے علاوہ ان دنوں پڑھے لکھے لوگ ماڈرن قسم کے مرشدوں کی طرف ہی کھنچے چلے جا رہے ہیں۔ وہ ان کے پاس اپنے دنیاوی مسائل کے حل کے لئے جاتے ہیں اور وہ انہیں پڑھنے کے لئے کچھ وظائف بتا دیتے ہیں۔ اسی طرح خواتین بھی مختلف مقامات پر مذہبی مجلسیں منعقد کرتی ہیں۔ جہاں کوئی خاتون اسلام کے بارے میں گفتگو کرتی ہے مدرسوں کے علاوہ ہر گھر میں قاری صاحب بچوں کو قرآن ناظرہ پڑھانے کے لئے آتے ہیں۔
ہماری نصاب کی کتابوں میں خواہ وہ سائنس ہی کی کتاب کیوں نہ ہو، مذہبی تعلیم دی جا رہی ہے لیکن ان سب افعال کا نیٹ رزلٹ کیا ہے؟ کیا ہمارا معاشرہ ان اچھے کاموں کی بدولت اچھا ہوتا جا رہا ہے، اس کا باطن روشن ہو رہا ہے وہ نفرت، کدورت، حسد، غیبت، ملاوٹ، کرپشن، اسمگلنگ، فرقہ پرستی دہشت گردی، قتل و غارت گری اور اس طرح کی دوسری لعنتوں سے پاک ہو گیا ہے یا کم از کم اس میں کچھ کمی آئی ہے؟ آپ اپنے اردگرد اس سوال کا جواب تلاش کریں تو پتہ چلے گا کہ زیادہ سے زیادہ صرف ظاہر بدلا ہے، باطن کی کثافت وہیں کی وہیں ہے۔
کیا کریں تبصرہ کہ تاب نہیں
دن بھی تاریک ہو گیا صاحب
ہم کہاں سے کہاں تک آ پہنچے
دین تضحیک ہو گیا صاحب!
اور اب آخر میں میرا سوال اس کمیٹی سے ہے جو دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے تشکیل دی گئی ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس فساد کی جڑوں تک پہنچ بھی سکے گی کہ نہیں کہ۔
اس میں دو چار سخت مقامات بھی آتے ہیں!
پس نوشت:ابھی ابھی مجھے ایک ایس ایم ایس موصول ہوا ہے۔ آپ بھی پڑھ لیجئے:۔حکومت نے دہشت گردی کی روک تھام کے لئے جو کمیٹی بنائی ہے اس کے خلوص اور اہلیت کو جانچنے کے لئے دیکھنا ہو گا کہ وہ سات دنوں کے اندر ندر لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کے خلاف کیا فیصلہ کرتی ہے (واضح رہے کہ مولانا نے پشاور کے سانحہ کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا ہے)
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=263699
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا
کہ جس لڑکے کو احتلام ہو یا اس کی پیشاب کی جگہ یعنی زیر ناف بال اگ آئے ہوں اس کو
قتل کر دو۔
27 - طلاق سے متعلقہ احادیث :
(175)
لڑکے کا کس عمر میں
طلاق دینا معتبر ہے؟
|
أخبرنا الربيع بن
سليمان قال حدثنا أسد بن موسی قال حدثنا حماد بن سلمة عن أبي جعفر الخطمي عن
عمارة بن خزيمة عن کثير بن الساب قال حدثني ابنا قريظة أنهم عرضوا علی رسول الله
صلی الله عليه وسلم يوم قريظة فمن کان محتلما أو نبتت عانته قتل ومن لم يکن
محتلما أو لم تنبت عانته ترک
|
سنن نسائی:جلد
دوم:حدیث نمبر 1368 حدیث
مرفوع مکررات 8
ربیع بن سلیمان، اسد بن موسی، حماد بن سلمہ،
ابی جعفر، عمارہ بن خزیمہ، حضرت کثیر بن سائب رضی اللہ عنہ بنو قریظ کے دو لڑکوں
سے روایت ہے کہ ان لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے قریظ کے
ہنگامے والے دن لائے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا کہ جس لڑکے
کو احتلام ہو یا اس کی پیشاب کی جگہ یعنی زیر ناف بال اگ آئے ہوں اس کو قتل کر
دو۔ اگر ان دو نشانات میں سے کوئی نشان یا علامت نہ پاؤ تو اس کو چھوڑ دو (یعنی بالغ کو
قتل کر دو اور نابالغ کو چھوڑ دو)
|
It was narrated that Abu Al-Hasan, the freed slave of Banu
Na said: “Ibn ‘Abbas was asked about a slave who divorced his wife
twice, then they were set free; could he marry her? He said: ‘Yes.’ He said:
‘From whom (did you hear that)?’ He said: ‘The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم issued a Fatwa to that effect.” (Da’if)
(One of the narrators) Abdur
Razzaq said: “Ibn Al-Mubarak said to Ma’mar: ‘Which Al-I is
this?’ He has taken on a
heavy burden.”
|
27 - طلاق سے متعلقہ احادیث :
(175)
لڑکے کا کس عمر میں
طلاق دینا معتبر ہے؟
|
أخبرنا محمد بن
منصور قال حدثنا سفيان عن عبد الملک بن عمير عن عطية القرظي قال کنت يوم حکم سعد
في بني قريظة غلاما فشکوا في فلم يجدوني أنبت فاستبقيت فها أنا ذا بين أظهرکم
|
سنن نسائی:جلد
دوم:حدیث نمبر 1369 حدیث
موقوف مکررات 8
محمد بن منصور، سفیان، عبدالملک بن عمیر، حضرت
عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اس وقت لڑکا تھا کہ جس وقت حضرت سعد
رضی اللہ عنہ نے بنی قریظ کے قتل کے واسطے حکم فرمایا پھر مجھ کو دیکھا اور میرے
قتل کرنے میں انہوں نے شک کیا۔ جس وقت انہوں نے مجھ کو زیر ناف کے بالوں والا
نہیں پایا (بالغ محسوس نہیں کیا تو چھوڑ دیا) میں وہ ہی ہوں جو کہ تم لوگوں کے
سامنے موجود ہوں۔
|
It was narrated that
Kathir bin As-Sa’ib said: “The Sons of Qurai told me that they were presented
to the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم on the Day of Quraizah, and
whoever (among them) had reached puberty, or had grown pubic hair, was
killed, and whoever had not reached puberty and had not grown pubic hair was
left (alive).” (Sahih)
|
46 - چور کا ہاتھ کاٹنے سے
متعلق احادیث مبارکہ : (115)
مرد کے بالغ ہونے
کی عمر اور مرد و عورت پر کس عمر میں حد لگائی جائے؟
|
أخبرنا إسمعيل بن
مسعود قال حدثنا خالد قال حدثنا شعبة عن عبد الملک بن عمير عن عطية أنه أخبره
قال کنت في سبي قريظة وکان ينظر فمن خرج شعرته قتل ومن لم تخرج استحيي ولم يقتل
|
سنن نسائی:جلد
سوم:حدیث نمبر 1285 حدیث موقوف مکررات 8
اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبہ، عبدالملک بن
عمیر، عطیہ سے روایت ہے کہ میں قبیلہ بنی قریظ کے قیدیوں میں سے تھا لوگ ان کو
دیکھا کرتے تھے اگر ان کے ناف کے نیچے بال نکلے ہوئے ہوتے تو ان کو قتل کر ڈالتے اور جس
کے بال
(زیر ناف) نہ نکلے ہوئے ہوتے تو اس کو چھوڑ دیتے۔
|
It was narrated
from ‘Abdur Rahman bin ‘Awf that the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: “The thief is not to
be penalized (financially) if the Ifadd punishment is carried out on him.”
(Da’if)Abu ‘Abdur-Rahman (An-Nasa’i) said: This is Mursal and it is not
confirmed.
|
21 - جہاد کا بیان : (185)
کسی کے حکم پر پورا
اترنا۔
|
حدثنا هناد حدثنا
وکيع عن سفيان عن عبد الملک بن عمير عن عطية القرظي قال عرضنا علی النبي صلی
الله عليه وسلم يوم قريظة فکان من أنبت قتل ومن لم ينبت خلي سبيله فکنت ممن لم
ينبت فخلي سبيلي قال أبو عيسی هذا حديث حسن صحيح والعمل علی هذا عند بعض أهل
العلم أنهم يرون الإنبات بلوغا إن لم يعرف احتلامه ولا سنه وهو قول أحمد وإسحق
|
جامع ترمذی:جلد
اول:حدیث نمبر 1650 حدیث مرفوع مکررات 8
ہناد، وکیع، سفیان، عبدالملک بن عمیر، حضرت
عطیہ قرظی کہتے کہ ہم یوم قریظہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں پیش کئے گئے تو جس کے زیر ناف بال اگے تھے اسے قتل کر دیا گیا۔ میں ان
میں سے تھا جن کے بال نہیں اگے تھے لہذا مجھے چھوڑ دیا گیا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
بعض اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ احتلام اور عمر کا پتہ نہ چلے تو زیر ناف بالوں کا
اگنا بالغ
ہونے کی علامت ہے۔ امام احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔
|
Sayyidina Atiyah Qurazi (RA) narrated: We were presented before
Allah’s Messenger (SAW) on the day of Qurayzah. Those who had grown up (had
pubes) were slain and those who had not grown pubes were spared. So I was
left to myself.
[Abu Dawud 2670]
|
22 - حدود کا بیان : (82)
جس پر حد واجب نہیں
|
حدثنا أبو بکر بن
أبي شيبة وعلي بن محمد قالا حدثنا وکيع عن سفيان عن عبد الملک بن عمير قال سمعت
عطية القرظي يقول عرضنا علی رسول الله صلی الله عليه وسلم يوم قريظة فکان من
أنبت قتل ومن لم ينبت خلي سبيله فکنت فيمن لم ينبت فخلي سبيلي
|
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث
نمبر 699 حدیث مرفوع مکررات 8
ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع،
سفیان، عبدالملک بن عمیر، حضرت عطیہ قرظی فرماتے ہیں کہ قریظہ کے دن (جب سب
بنوقریظہ مارے گئے) ہمیں اللہ کے رسول کی خدمت میں پیش کیا گیا تو جو بالغ تھا
اسے قتل کر دیا گیا اور جو بالغ نہ تھا اسے چھوڑ دیا گیا تو میں نابالغوں
میں تھا اس لیے مجھے بھی چھوڑ دیا گیا۔
|
It was narrated that
'Abdul-Malik bin 'Umair said: "I heard 'Atiyyah Al-Qurazi say: 'We were
presented to the Messenger of Allah on the Day of Quraizah. Those whose pubic
hair had grown were killed, and those whose pubic hair had not yet grown were
let go. I was one of those whose pubic hair had not yet grown, so I was let
go."
|
22 - حدود کا بیان : (82)
جس پر حد واجب نہیں
|
حدثنا محمد بن
الصباح أنبأنا سفيان بن عيينة عن عبد الملک بن عمير قال سمعت عطية القرظي يقول
فها أنا ذا بين أظهرکم
|
سنن ابن ماجہ:جلد
دوم:حدیث نمبر 700 حدیث مرفوع مکررات 8
محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، عبدالملک بن
عمیر کہتے ہیں کہ میں نے عطیہ قرظی کو یہ فرماتے ہوئے سنا دیکھو اب میں تم لوگوں
کے درمیان موجود ہوں ۔
|
It was narrated that
'Abdul-Malik bin 'Umair said: " I heard ' Atiyyah Al-Qurazi say: 'Here I am still among you:"
|
34 - سزاؤں کا بیان : (137)
نابالغ لڑکا اگر حد
لگنے والا جرم کرے تو کیا حکم ہے؟
|
حدثنا محمد بن کثير
أخبرنا سفيان أخبرنا عبد الملک بن عمير حدثني عطية القرظي قال کنت من سبي بني
قريظة فکانوا ينظرون فمن أنبت الشعر قتل ومن لم ينبت لم يقتل فکنت فيمن لم ينبت
|
سنن ابوداؤد:جلد
سوم:حدیث نمبر 1009 حدیث مقطوع مکررات 8
محمد بن کثیر، سفیان، عبدالمالک بن عمیر، حضرت
عطیہ قرظی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بنوقریظہ کے قیدیوں میں
سے تھا تو وہ لوگ دیکھتے کہ جس کے زیر ناف بال اگ آئے تو اس کو قتل کردیتے اور جن کے
زیر ناف بال
نہیں اگے ہوتے تھے ان کو چھوڑ دیتے میں بھی ان میں سے تھا جن کے زیر ناف بال نہیں
اگے تھے۔
|
Narrated Atiyyah al-Qurazi:
I was among the captives
of Banu Qurayzah. They (the Companions) examined us, and those who had begun
to grow hair (pubes) were killed, and those who had not were not killed. I
was among those who had not grown hair.
|
34 - سزاؤں کا بیان : (137)
نابالغ لڑکا اگر حد
لگنے والا جرم کرے تو کیا حکم ہے؟
|
حدثنا مسدد حدثنا
أبو عوانة عن عبد الملک بن عمير بهذا الحديث قال فکشفوا عانتي فوجدوها لم تنبت
فجعلوني من السبي
|
سنن ابوداؤد:جلد
سوم:حدیث نمبر 1010 حدیث مقطوع مکررات 8
مسدد، ابوعوانہ، عبدالمالک بن عمیر سے یہی
حدیث اس فرق کے ساتھ مروی ہے کہ عطیہ قرظی نے فرمایا کہ انہوں نے میرا ستر کھولا
تو اسے پایا ان کی طرح جن کے بال نہیں اگے تھے تو مجھے قیدیوں میں
کردیا۔
|
18 - جنازوں کا بیان : (152)
موت کے قریب مریض
کے ناخن اور زیر ناف کے بال کاٹنا
|
حدثنا موسی بن
إسمعيل حدثنا إبراهيم بن سعد أخبرنا ابن شهاب أخبرني عمرو بن جارية الثقفي حليف
بني زهرة وکان من أصحاب أبي هريرة عن أبي هريرة قال ابتاع بنو الحارث بن عامر بن
نوفل خبيبا وکان خبيب هو قتل الحارث بن عامر يوم بدر فلبث خبيب عندهم أسيرا حتی
أجمعوا لقتله فاستعار من ابنة الحارث موسی يستحد بها فأعارته فدرج بني لها وهي
غافلة حتی أتته فوجدته مخليا وهو علی فخذه والموسی بيده ففزعت فزعة عرفها فيها
فقال أتخشين أن أقتله ما کنت لأفعل ذلک قال أبو داود روی هذه القصة شعيب بن أبي
حمزة عن الزهري قال أخبرني عبيد الله بن عياض أن ابنة الحارث أخبرته أنهم حين
اجتمعوا يعني لقتله استعار منها موسی يستحد بها فأعارته
|
سنن ابوداؤد:جلد
دوم:حدیث نمبر 1344 حدیث موقوف مکررات 8
موسی بن اسماعیل، ابراہیم بن سعد، ابن شہاب،
عمرو بن جاریہ، زہرہ، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ بنی حارث بن عامر بن نوفل نے
خبیب بن عدی کو (سو اونٹ کے بدلہ میں) خریدا۔ حبیب نے حارث بن عامر کو بدر کے دن
قتل کر دیا تھا۔ پھر خبیب ان کے پاس قیدی بن کر رہے یہاں تک کہ سب لوگ ان کے قتل کے
لیے جمع ہو گئے۔ اس وقت خبیب نے حارث کی بیٹی سے زیر ناف کے بال کاٹنے
کے لیے استرہ مانگا اس نے استرہ دے دیا۔ اس حالت میں اس کا چھوٹا بچہ خبیب کے
پاس جا پہنچا۔ اس کی ماں کو اس کی خبر نہ تھی۔ جب وہ آئی تو دیکھا کہ بچہ خبیب
کی ران پر بیٹھا ہے اور استرہ اس کے ہاتھ میں ہے یہ دیکھ کر اس کی ماں ڈر گئی
یہاں تک کہ خبیب نے اس کے خوف کو بھانپ لیا تو خبیب نے کہا کیا تجھے اس بات کا
ڈر ہے کہ میں اس کو قتل کر دوں گا؟ میں ایسا ہرگز نہ کروں گا۔ ابوداؤد کہتے ہیں
کہ اس قصہ کو شعیب بن ابی حمزہ نے بواسطہ زہری روایت کرتے ہوئے کہا کہ خبر دی
مجھ کو عبیداللہ بن عیاض نے اور اس کو حارث کی بیٹی نے کہ جب لوگ اس کے قتل کے
لیے جمع ہو گئے تو اس نے اس سے ایک استرہ مانگا تاکہ وہ اس سے زیر ناف کے بال صاف کر
سکے۔
|
1 - ا ب ج : (26407)
حضرت انس بن مالک
رضی اللہ عنہ کی مرویات
|
حدثنا عبد الصمد بن
عبد الوارث حدثنا أبي حدثنا نافع أبو غالب الباهلي شهد أنس بن مالك قال فقال
العلا بن زياد العدوي يا أبا حمزة سن أي الرجال كان نبي الله صلى الله عليه وسلم
إذ بعث قال ابن أربعين سنة قال ثم كان ماذا قال كان بمكة عشر سنين وبالمدينة عشر
سنين فتمت له ستون سنة ثم قبضه الله عز وجل إليه قال سن أي الرجال هو يومذ قال
كأشب الرجال وأحسنه وأجمله وألحمه قال يا أبا حمزة هل غزوت مع نبي الله صلى الله
عليه وسلم قال نعم غزوت معه يوم حنين فخرج المشركون بكثرة فحملوا علينا حتى
رأينا خيلنا ورا ظهورنا وفي المشركين رجل يحمل علينا فيدقنا ويحطمنا فلما رأى
ذلك نبي الله صلى الله عليه وسلم نزل فهزمهم الله عز وجل فولوا فقام نبي الله
صلى الله عليه وسلم حين رأى الفتح فجعل نبي الله صلى الله عليه وسلم يجا بهم
أسارى رجلا رجلا فيبايعونه على الإسلام فقال رجل من أصحاب رسول الله صلى الله
عليه وسلم إن علي نذرا لن جي بالرجل الذي كان منذ اليوم يحطمنا لأضربن عنقه قال
فسكت نبي الله صلى الله عليه وسلم وجي بالرجل فلما رأى نبي الله صلى الله عليه
وسلم قال يا نبي الله تبت إلى الله يا نبي الله تبت إلى الله فأمسك نبي الله صلى
الله عليه وسلم فلم يبايعه ليوفي الآخر نذره قال فجعل ينظر النبي صلى الله عليه
وسلم ليأمره بقتله وجعل يهاب نبي الله صلى الله عليه وسلم أن يقتله فلما رأى نبي
الله صلى الله عليه وسلم لا يصنع شيا يأتيه فقال يا نبي الله نذري قال لم أمسك
عنه منذ اليوم إلا لتوفي نذرك فقال يا نبي الله ألا أومضت إلي فقال إنه ليس لنبي
أن يومض
|
مسند احمد:جلد
پنجم:حدیث نمبر 1511 حدیث مرفوع
ایک مرتبہ علاء بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ نے
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا اے ابوحمزہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کتنے سال کے
تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے؟ انہوں نے فرمایا چالیس سال کے، علاء
نے پوچھا اس کے بعد کیا ہوا؟ انہوں نے فرمایا کہ دس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم
مکہ مکرمہ میں رہے، دس سال مدینہ منورہ میں رہے، اس طرح ساٹھ سال پورے ہوگئے، اس
کے بعد اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس بلالیا، علاء نے پوچھا کہ اس
وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس عمر کے آدمی محسوس ہوتے تھے؟ انہوں نے فرمایا
جیسے ایک حسین و جمیل اور بھرے جسم والا نوجوان ہوتا ہے، علاء بن زیاد رحمۃ اللہ
علیہ نے پھر پوچھا ابوحمزہ! کیا آپ نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے
ساتھ جہاد کیا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہ
حنین میں موجود تھا، مشرکین کثرت سے باہر نکلے اور ہم پر حملہ کر دیا، یہاں تک
کہ ہم نے اپنے گھوڑوں کی پشت کے پیچھے دیکھا اور کفار میں ایک شخص تھا جو کہ ہم
لوگوں پر حملہ کرتا تھا اور تلوار سے زخمی کر دیتا تھا اور مارتا تھا یہ دیکھ کر
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے اتر پڑے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو شکست دے دی،
اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے، فتح حاصل ہوتے دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کھڑے ہوگئے اور ایک ایک کر کے اسیران جنگ لائے جانے لگے اور وہ آکر آنحضرت صلی
اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کرنے لگے۔ ایک شخص نے جو کہ آپ کے صحابہ کرام
رضی اللہ عنہم میں سے تھا اس بات کی نذر مانی کہ اگر اس شخص کو قیدی بنا کر
لایا گیا جس نے اس دن ہم لوگوں کو زخمی کردیا تھا تو اس کو قتل کردوں گا۔ یہ بات
سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے اور وہ شخص لایا گیا، جب اس شخص نے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
میں نے اللہ سے توبہ کرلی (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت کرنے میں
توقف فرمایا اس خیال سے کہ وہ صحابی رضی اللہ عنہ اپنی نذر مکمل کرلے (یعنی اس
شخص کو جلد از جلد قتل کرڈالے لیکن وہ صحابی اس بات کے انتظار میں تھے کہ آپ اس
شخص کو قتل کرنے کا حکم فرمائیں گے تو میں اس شخص کو قتل کروں اور میں اس بات سے
ڈرتا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ میں اس شخص کو قتل کردوں اور آپ مجھ سے ناراض ہوجائیں
، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ وہ صحابی کچھ نہیں کر رہے یعنی کسی
طریقہ پر اس شخص کو قتل نہیں کرتے تو بالآخر مجبوراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو
بیعت فرمالیا۔ اس پر صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری
نذر کس طریقہ پر مکمل ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اس
وقت تک جو رکا رہا اور میں نے اس شخص کو بیعت نہیں کیا تو اس خیال سے کہ تم اپنی
نذر مکمل کرلو، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے مجھے
اشارہ کیوں نہیں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پیغمبر کے لئے آنکھ سے
خفیہ اشارہ کرنا مناسب نہیں ہے۔
|
جن عورت
127 - قیدیوں کے احکام کا
بیان : (15)
قیدیوں کی تحقیق
وتفتیش
|
عن عطية القرظي قال
: كنت في سبي قريظة عرضنا على النبي صلى الله عليه و سلم فكانوا ينظرون فمن أنبت
الشعر قتل ومن لم ينبت لم يقتل فكشفوا عانتي فوجدوها لم تنبت فجعلوني في السبي .
رواه أبو داود وابن ماجه . والدارمي
|
مشکوۃ شریف:جلد
سوم:حدیث نمبر 1077
اور حضرت عطیہ قرظی کہتے ہیں کہ بنو قریظہ کے
جو لوگ قیدی
بنا کر لائے گئے تھے ان میں میں بھی تھا ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے
سامنے پیش کیا گیا ، اس وقت صحابہ نے (یہ طریقہ اختیار کیا کہ قیدیوں میں
جو چھوٹی عمر والے تھے ان کے زیر ناف حصے کو کھول کھول کر دیکھ رہے تھے جس کے (زیر ناف حصے
پر بال اگ
آئے تھے اس کو قتل کر دیا جاتا ، کیونکہ زیر ناف حصے پر بال اگ آنا بلوغ کی علامت ہے ،
لہٰذا ایسے شخص کو مسلمانوں سے لڑنے والا شمار کیا جاتا تھا ) اور جس کے بال نہ اگے
ہوئے تھے اس کو قتل نہیں کیا جاتا تھا (کیونکہ اس کو ذریت " یعنی بچوں میں
شمار کیا جاتا تھا چنانچہ میرے زیر ناف حصہ کو بھی کھولا گیا اور جب وہاں اگے
ہوئے بال نہیں
پائے گئے تو مجھ کو قیدیوں ہی میں (زندہ ) رکھا گیا ۔" (ابو داؤد ، ابن ماجہ ،
دارمی )
تشریح :
علامہ تورپشتی فرماتے ہیں کہ زیر ناف حصے
پر بالوں کے اگ آنے کو بلوغ کی علامت قرار دینا ضروری مصلحت کی بناء پر تھا
کیونکہ اگر ان قیدیوں
سے بلوغ کی واقعی علامت یعنی احتلام اور عمر بلوغ کو پوچھا جاتا تو وہ اپنی
ہلاکت کے خوف سے یقینا صحیح بات نہ بتاتے ۔
|