Saturday, August 25, 2012

کیا امام بخاری علیہ السلام بھی شیعہ تھے !!!


کیا امام  بخاری علیہ السلام بھی  شیعہ تھے !!!
41 - جہاد اور سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : (383)
رسول اللہ اور مسکینوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ادائے خمس کی دلیلوں اور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فاطمة عليها السلام کی چکی پیسنے کی شکایت پر آپ کو لونڈی نہ دینے اور ان کی ضروریات کو اللہ تعالیٰ کے حوالہ کرکے اہل صفہ اور بیوہ عورتوں کے لیے ایثار کرنے کے حکم کی وضاحت کا بیان
حدثنا بدل بن المحبر أخبرنا شعبة قال أخبرني الحکم قال سمعت ابن أبي ليلی حدثنا علي أن فاطمة عليها السلام اشتکت ما تلقی من الرحی مما تطحن فبلغها أن رسول الله صلی الله عليه وسلم أتي بسبي فأتته تسأله خادما فلم توافقه فذکرت لعائشة فجائ النبي صلی الله عليه وسلم فذکرت ذلک عائشة له فأتانا وقد دخلنا مضاجعنا فذهبنا لنقوم فقال علی مکانکما حتی وجدت برد قدميه علی صدري فقال ألا أدلکما علی خير مما سألتماه إذا أخذتما مضاجعکما فکبرا الله أربعا وثلاثين واحمدا ثلاثا وثلاثين وسبحا ثلاثا وثلاثين فإن ذلک خير لکما مما سألتماه
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 363      حدیث مرفوع          مکررات 24 متفق علیہ 17 
 بدل بن محبرشعبہ حکم ابن ابی لیلیٰ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ فاطمة عليها السلام نے چکی پسینے کی تکلیف کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس وقت شکایت کی جب کہ آپ کے پاس کچھ لونڈیاں گرفتار ہو کر آئیں تھیں تاکہ فاطمة عليها السلام سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہیں کہ مجھے ایک خادمہ کی ضرورت ہے لیکن ملاقات نہ ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراجعت پر عائشة نے فاطمة عليها السلام کا مطالبہ آپ کو سنایا سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت ہمارے گھر پر آئے جب کہ ہم لوگ اپنی خواب گاہ میں جا چکے تھے اور ہم آپ کو دیکھ کر اٹھنے لگے تو آپ نے فرمایا (اٹھنے کی ضرورت نہیں ہے) اپنی اپنی جگہ لیٹے رہو اس کے بعد آپ بیٹھ گئے اور میں (علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں کی ٹھنڈک اپنے سینہ پر محسوس کی اور فرمایا تم نے جو چیز مجھ سے طلب کی ہے اس سے اچھی چیز تم کو بتاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جب تم اپنی خواب گاہ میں جاؤ تو چونتیس مرتبہ اللہ اکبر تینتیس مرتبہ الحمد للہ اور تینتیس مرتبہ سبحان اللہ پڑھ لیا کرو اور یہ دعا تمام ان چیزوں سے زیادہ اچھی ہے جس کی تم لوگ خواہش کرتے ہو۔
Narrated 'Ali:
Fatima complained of what she suffered from the hand mill and from grinding, when she got the news that some slave girls of the booty had been brought to Allah's Apostle. She went to him to ask for a maid-servant, but she could not find him, and told 'Aisha of her need. When the Prophet came, Aisha informed him of that. The Prophet came to our house when we had gone to our beds. (On seeing the Prophet) we were going to get up, but he said, 'Keep at your places,' I felt the coolness of the Prophet's feet on my chest. Then he said, "Shall I tell you a thing which is better than what you asked me for? When you go to your beds, say: 'Allahu Akbar (i.e. Allah is Greater)' for 34 times, and 'Alhamdu Lillah (i.e. all the praises are for Allah)' for 33 times, and Subhan Allah (i.e. Glorified be Allah) for 33 times. This is better for you than what you have requested."
بخاری کی عبارت میں عائشہ اور فاطمہ کے ناموں کا ایک ساتھ ذکر کرنے کے بعد عائشہ کے نام کے ساتھ کچھ بھی نہ لکھنا اور فاطمہ کے نام کے ساتھ علیھا السلام لکھنا کیا معنی رکھتا ہے؟
41 - جہاد اور سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : (383)
مال غنیمت کے پانچویں حصہ کی فرضیت کا بیان
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله حدثنا إبراهيم بن سعد عن صالح عن ابن شهاب قال أخبرني عروة بن الزبير أن عائشة أم المؤمنين رضي الله عنها أخبرته أن فاطمة عليها السلام ابنة رسول الله صلی الله عليه وسلم سألت أبا بکر الصديق بعد وفاة رسول الله صلی الله عليه وسلم أن يقسم لها ميراثها مما ترک رسول الله صلی الله عليه وسلم مما أفائ الله عليه فقال لها أبو بکر إن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال لا نورث ما ترکنا صدقة فغضبت فاطمة بنت رسول الله صلی الله عليه وسلم فهجرت أبا بکر فلم تزل مهاجرته حتی توفيت وعاشت بعد رسول الله صلی الله عليه وسلم ستة أشهر قالت وکانت فاطمة تسأل أبا بکر نصيبها مما ترک رسول الله صلی الله عليه وسلم من خيبر وفدک وصدقته بالمدينة فأبی أبو بکر عليها ذلک وقال لست تارکا شيئا کان رسول الله صلی الله عليه وسلم يعمل به إلا عملت به فإني أخشی إن ترکت شيئا من أمره أن أزيغ فأما صدقته بالمدينة فدفعها عمر إلی علي وعباس وأما خيبر وفدک فأمسکها عمر وقال هما صدقة رسول الله صلی الله عليه وسلم کانتا لحقوقه التي تعروه ونوائبه وأمرهما إلی من ولي الأمر قال فهما علی ذلک إلی اليوم قال أبو عبد الله اعتراک افتعلت من عروته فأصبته ومنه يعروه واعتراني
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 344      حدیث متواتر حدیث مرفوع       مکررات 21 متفق علیہ 12 
 عبدالعزیز بن عبداللہ ابراہیم بن سعد صالح ابن شہاب عروہ بن زبیر عائشة أم المؤمنين رضي الله عنها سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد فاطمة عليها السلام نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے استدعا کی کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ترکہ میں سے جو اللہ تعالیٰ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بطور فئے عنایت فرمایا تھا ان کا میراثی حصہ ان کو دیدیں تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماگئے ہیں کہ ہمارے مال میں عمل میراث نہیں ہوتا ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہے اس پر فاطمة عليها السلام ناخوش سی ہوئیں اور اپنی وفات تک صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گفتگو نہ کی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد آپ چھ ماہ تک زندہ رہیں  عائشة نے فرمایا کہ فاطمة عليها السلام نے صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اپنا حصہ رسول اللہ کے مال متروکہ خیبر و فد میں سے اور اس مال صدقہ میں سے جو مدینہ منورہ موجود تھا طلب کیا تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے دینے سے انکار کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ اس میں تصرف فرمایا ہے میں اس میں سے آپ کے کسی عمل کو نہیں چھوڑ سکتا میں ڈرتا ہوں کہ اگر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اس میں تصرف فرمایا میں اس میں سے آپ کے کسی عمل کو نہیں چھوڑ سکتا میں ڈرتا ہوں کہ اگر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ عمل سے کچھ بھی چھوڑ دوں گا تو گم کردہ راہ ہو جاؤں گا سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مال موقوفہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضر علی اور حضرت عباس کو دے دیا تھا لیکن خیبر اور فدک اپنی نگرانی میں رکھا تھا اور کہا تھا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا وقف ہے اور آپ نے ان دونوں کو ان مصارف و ضروریات کے لیے رکھا تھا جو درپیش ہوتے رہتے تھے اور ان کے انتظام کا اختیار خلیفہ وقت کو دیا تھا امام بخاری نے کہا ہے کہ یہ دونوں آج کی تاریخ تک اپنی اسی حالت و کیفیت میں بطور واقف موجود ہیں۔
Narrated 'Aisha:
(mother of the believers) After the death of Allah 's Apostle Fatima the daughter of Allah's Apostle asked Abu Bakr As-Siddiq to give her, her share of inheritance from what Allah's Apostle had left of the Fai (i.e. booty gained without fighting) which Allah had given him. Abu Bakr said to her, "Allah's Apostle said, 'Our property will not be inherited, whatever we (i.e. prophets) leave is Sadaqa (to be used for charity)." Fatima, the daughter of Allah's Apostle got angry and stopped speaking to Abu Bakr, and continued assuming that attitude till she died. Fatima remained alive for six months after the death of Allah's Apostle.
She used to ask Abu Bakr for her share from the property of Allah's Apostle which he left at Khaibar, and Fadak, and his property at Medina (devoted for charity). Abu Bakr refused to give her that property and said, "I will not leave anything Allah's Apostle used to do, because I am afraid that if I left something from the Prophet's tradition, then I would go astray." (Later on) Umar gave the Prophet's property (of Sadaqa) at Medina to 'Ali and 'Abbas, but he withheld the properties of Khaibar and Fadak in his custody and said, "These two properties are the Sadaqa which Allah's Apostle used to use for his expenditures and urgent needs. Now their management is to be entrusted to the ruler." (Az-Zuhrl said, "They have been managed in this way till today.")
43 - انبیاء علیہم السلام کا بیان : (585)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں خصوصاً آپ کی بیٹی حضرت فاطمہ علیہا السلام کے فضائل کا بیان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ فاطمة عليها السلام جنت کی عورتوں کی سردار ہو گی۔
حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب عن الزهري قال حدثني عروة بن الزبير عن عائشة أن فاطمة عليها السلام أرسلت إلی أبي بکر تسأله ميراثها من النبي صلی الله عليه وسلم فيما أفائ الله علی رسوله صلی الله عليه وسلم تطلب صدقة النبي صلی الله عليه وسلم التي بالمدينة وفدک وما بقي من خمس خيبر فقال أبو بکر إن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال لا نورث ما ترکنا فهو صدقة إنما يأکل آل محمد من هذا المال يعني مال الله ليس لهم أن يزيدوا علی المأکل وإني والله لا أغير شيئا من صدقات النبي صلی الله عليه وسلم التي کانت عليها في عهد النبي صلی الله عليه وسلم ولأعملن فيها بما عمل فيها رسول الله صلی الله عليه وسلم فتشهد علي ثم قال إنا قد عرفنا يا أبا بکر فضيلتک وذکر قرابتهم من رسول الله صلی الله عليه وسلم وحقهم فتکلم أبو بکر فقال والذي نفسي بيده لقرابة رسول الله صلی الله عليه وسلم أحب إلي أن أصل من قرابتي
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 925      حدیث متواتر حدیث مرفوع       مکررات 21 متفق علیہ 12 
 ابوالیمان شعیب زہری عروہ بن زبیر عائشة سے روایت کرتے ہیں کہ فاطمة عليها السلام نے حضرت ابوبکر صدیق کے پاس آدمی بھیج کر ان سے اپنی میراث طلب کی یعنی وہ چیزیں جو خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کو فئے کے طور پر دی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مصرف خیر جو مدینہ منورہ اور فدک میں تھا اور خیبر کی متروکہ آمدنی کا پانچواں حصہ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس مال یعنی خدا داد مال میں سے کھا سکتے ہیں ان کو یہ اختیار نہیں کہ کھانے سے زیادہ لے لیں خدا کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقات کی جو حالت آپ کے زمانہ میں تھی اس میں کوئی تبدیلی نہ کروں گا بلکہ وہی عمل کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تشہد پڑھا پھر کہا اے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم آپ کی فضیلت و بزرگی سے خوب واقف ہیں اس کے بعد آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فاطمة عليها السلام کی قرابت اور حق کو واضح کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت سے سلوک کرنا اپنی قرابت کے ساتھ سلوک کرنے سے زیادہ محبوب ہے (نیز) عبداللہ بن عبدالوہاب خالد شعبہ واقد ان کے والد حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی آپ کے اہل بیت کی خدمت اور محبت میں سمجھو۔
Narrated 'Aisha:
Fatima sent somebody to Abu Bakr asking him to give her her inheritance from the Prophet from what Allah had given to His Apostle through Fai (i.e. booty gained without fighting). She asked for the Sadaqa (i.e. wealth assigned for charitable purposes) of the Prophet at Medina, and Fadak, and what remained of the Khumus (i.e., one-fifth) of the Khaibar booty. Abu Bakr said, "Allah's Apostle said, 'We (Prophets), our property is not inherited, and whatever we leave is Sadaqa, but Muhammad's Family can eat from this property, i.e. Allah's property, but they have no right to take more than the food they need.' By Allah! I will not bring any change in dealing with the Sadaqa of the Prophet (and will keep them) as they used to be observed in his (i.e. the Prophet's) life-time, and I will dispose with it as Allah's Apostle used to do," Then 'Ali said, "I testify that None has the right to be worshipped but Allah, and that Muhammad is His Apostle," and added, "O Abu Bakr! We acknowledge your superiority." Then he (i.e. 'Ali) mentioned their own relationship to Allah's Apostle and their right. Abu Bakr then spoke saying, "By Allah in Whose Hands my life is. I love to do good to the relatives of Allah's Apostle rather than to my own relatives" Abu Bark added: Look at Muhammad through his family (i.e. if you are no good to his family you are not good to him).

44 - غزوات کا بیان : (473)
یہود بنی نضیر کے پاس آنحضرت کا جانا دو آدمیوں کی دیت کے سلسلہ میں اور ان کا رسول خدا سے دغا کرنا زہری عروہ بن زبیر سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ غزوہ بنی نضیر بدر سے چھ ماہ بعد اور احد سے پہلے ہوا اور اللہ تعالیٰ کا سورت حشر میں فرمانا ہوالذی اخرج الذین کفروا من اھل الکتاب من دیارھم لاول الحشر وہی پروردگار ہے جس نے اہل کتاب کے کافروں کو ان کے گھروں سے نکالا یہ ان کا پہلا نکلنا تھا اور ابن اسحق نے بھی بنی نضیر کے بعد بیرمعونہ اور جنگ احد کا ذکر کیا ہے۔
حدثنا إبراهيم بن موسیٰ أخبرنا هشام أخبرنا معمر عن الزهري عن عروة عن عائشة أن فاطمة عليها السلام والعباس أتيا أبا بکر يلتمسان ميراثهما أرضه من فدک وسهمه من خيبر فقال أبو بکر سمعت النبي صلی الله عليه وسلم يقول لا نورث ما ترکنا صدقة إنما يأکل آل محمد في هذا المال والله لقرابة رسول الله صلی الله عليه وسلم أحب إلي أن أصل من قرابتي
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1229               حدیث متواتر حدیث مرفوع       مکررات 21 متفق علیہ 12 
 ابراہیم بن موسی، ہشام، معمر، زہری، حضرت عروہ، عائشة سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ حضرت عباس اور فاطمة عليها السلام دونوں حضرت ابوبکر کے پاس آکر اپنا ترکہ زمین فدک اور آمدنی خیبر سے مانگنے لگے، حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہم لوگوں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے البتہ آل محمد صلی اللہ علیہ اپنی گزر کے لیے اس میں سے لے سکتے ہیں، رہا سلوک کرنا تو خدا کی قسم! میں رسول اکرم کے رشتہ داروں سے سلوک کرنے کو اپنے رشتہ داروں سے زیادہ پسند کرتا ہوں۔
Narrated 'Aisha:
Fatima and Al'Abbas came to Abu Bakr, claiming their inheritance of the Prophet's land of Fadak and his share from Khaibar. Abu Bakr said, "I heard the Prophet saying, 'Our property is not inherited, and whatever we leave is to be given in charity. But the family of Muhammad can take their sustenance from this property.' By Allah, I would love to do good to the Kith and kin of Allah's Apostle rather than to my own Kith and kin."

44 - غزوات کا بیان : (473)
جنگ خیبر کا بیان (جو سن ھ میں ہوئی)
حدثنا يحيی بن بکير حدثنا الليث عن عقيل عن ابن شهاب عن عروة عن عائشة أن فاطمة عليها السلام بنت النبي صلی الله عليه وسلم أرسلت إلی أبي بکر تسأله ميراثها من رسول الله صلی الله عليه وسلم مما أفائ الله عليه بالمدينة وفدک وما بقي من خمس خيبر فقال أبو بکر إن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال لا نورث ما ترکنا صدقة إنما يأکل آل محمد صلی الله عليه وسلم في هذا المال وإني والله لا أغير شيئا من صدقة رسول الله صلی الله عليه وسلم عن حالها التي کان عليها في عهد رسول الله صلی الله عليه وسلم ولأعملن فيها بما عمل به رسول الله صلی الله عليه وسلم فأبی أبو بکر أن يدفع إلی فاطمة منها شيئا فوجدت فاطمة علی أبي بکر في ذلک فهجرته فلم تکلمه حتی توفيت وعاشت بعد النبي صلی الله عليه وسلم ستة أشهر فلما توفيت دفنها زوجها علي ليلا ولم يؤذن بها أبا بکر وصلی عليها وکان لعلي من الناس وجه حياة فاطمة فلما توفيت استنکر علي وجوه الناس فالتمس مصالحة أبي بکر ومبايعته ولم يکن يبايع تلک الأشهر فأرسل إلی أبي بکر أن ائتنا ولا يأتنا أحد معک کراهية لمحضر عمر فقال عمر لا والله لا تدخل عليهم وحدک فقال أبو بکر وما عسيتهم أن يفعلوا بي والله لآتينهم فدخل عليهم أبو بکر فتشهد علي فقال إنا قد عرفنا فضلک وما أعطاک الله ولم ننفس عليک خيرا ساقه الله إليک ولکنک استبددت علينا بالأمر وکنا نری لقرابتنا من رسول الله صلی الله عليه وسلم نصيبا حتی فاضت عينا أبي بکر فلما تکلم أبو بکر قال والذي نفسي بيده لقرابة رسول الله صلی الله عليه وسلم أحب إلي أن أصل من قرابتي وأما الذي شجر بيني وبينکم من هذه الأموال فلم آل فيها عن الخير ولم أترک أمرا رأيت رسول الله صلی الله عليه وسلم يصنعه فيها إلا صنعته فقال علي لأبي بکر موعدک العشية للبيعة فلما صلی أبو بکر الظهر رقي علی المنبر فتشهد وذکر شأن علي وتخلفه عن البيعة وعذره بالذي اعتذر إليه ثم استغفر وتشهد علي فعظم حق أبي بکر وحدث أنه لم يحمله علی الذي صنع نفاسة علی أبي بکر ولا إنکارا للذي فضله الله به ولکنا نری لنا في هذا الأمر نصيبا فاستبد علينا فوجدنا في أنفسنا فسر بذلک المسلمون وقالوا أصبت وکان المسلمون إلی علي قريبا حين راجع الأمر المعروف
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1416               حدیث متواتر حدیث مرفوع       مکررات 21 متفق علیہ 12 
 یحیی بن بکیر، لیث، عقیل، ابن شہاب، عروہ، عائشة سے روایت کرتے ہیں کہ دختر نبی فاطمة عليها السلام نے (کسی کو) حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ان کے زمانہ خلافت میں بھیجا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مال کی جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مدینہ اور فدک میں دیا تھا اور خیبر کے بقیہ خمس کی میراث چاہتے ہیں تو ابوبکر نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہمارے مال کا کوئی وارث نہیں، جو کچھ ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے ہاں آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے (بقدر ضرورت) کھا سکتی ہے اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ میں آپ کے عہد مبارک کے عمل کے خلاف بالکل تبدیلی نہیں کر سکتا اور میں اس میں اسی طرح عمل درآمد کروں گا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے یعنی حضرت ابوبکر نے اس میں ذرا سی بھی فاطمة عليها السلام کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تو فاطمة عليها السلام اس مسئلہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ناراض ہو گئیں اور انہوں نے اپنی وفات تک حضرت ابوبکر سے گفتگو نہ کی فاطمة عليها السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں جب ان کا انتقال ہوگیا تو ان کے شوہر حضرت علی نے انہیں رات ہی کو دفن کردیا اور حضرت ابوبکر کو اس کی اطلاع بھی نہ دی، اور خود ہی ان کے جنازہ کی نماز پڑھ لی فاطمة عليها السلام کی حیات میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لوگوں میں وجاہت حاصل تھی جب ان کی وفات ہوگئی تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کا رخ پھرا ہوا پایا تو ابوبکر سے صلح اور بیعت کی درخواست کی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے (چھ) مہینوں میں (فاطمة عليها السلام کی تیمارداری اور دیگر مشاغل و اسباب کی بناء پر) حضرت ابوبکر سے بیعت نہیں کی تھی تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ ہمارے یہاں تشریف لائیں اور آپ کے ساتھ کوئی دوسرا نہ ہو یہ اس لئے کہا کہ کہیں عمر نہ آجائیں حضرت عمر کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے فرمایا بخدا! آپ وہاں تنہا نہ جائیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا مجھے ان سے یہ امید نہیں کہ وہ میرے ساتھ کچھ برائی کریں بخدا! میں ان کے پاس جاؤں گا لہذا ابوبکر ان کے پاس چلے گئے تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تشہد کے بعد فرمایا کہ ہم آپ کی فضیلت اور اللہ کے عطا کردہ انعامات کو بخوبی جانتے ہیں نیز ہمیں اس بھلائی میں (یعنی خلافت میں) جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے کوئی حسد نہیں لیکن آپ نے اس امر خلافت میں ہم پر زیادتی کی ہے حالانکہ قرابت رسول کی بناء پر ہم سمجھتے تھے کہ یہ خلافت ہمارا حصہ ہے حضرت ابوبکر یہ سن کر رونے لگے اور فرمایا قسم ہے خدا کی! قرابت رسول کی رعایت میری نظر میں اپنی قرابت کی رعایت سے زیادہ پسندیدہ ہے اور میرے اور تمہارے درمیان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو اختلاف ہوا ہے تو میں نے اس میں ہرگز امر خیر سے کوتاہی نہیں کی اور اس مال میں میں نے جو کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا اسے نہیں چھوڑا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ زوال کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بعیت کرنے کا وعدہ ہے جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ظہر کی نماز پڑھ لی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ منبر پر بیٹھے اور تشہد کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حال، بیعت سے ان کے پیچھے رہنے اور انہوں نے جو عذر پیش کئے تھے انہیں بیان فرمایا، پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے استغفار و تشہد کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حقوق کی عظمت و بزرگی بیان کرکے فرمایا کہ میرے اس فعل کا باعث حضرت ابوبکر پر حسد اور اللہ نے انہیں جس خلافت سے نوازا ہے اس کا انکار نہیں تھا لیکن ہم سمجھتے تھے کہ امر خلافت میں ہمارا بھی حصہ تھا لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میں ہمیں چھوڑ کر خود مختار بن گئے تو اس سے ہمارے دل میں کچھ تکدر تھا، تمام مسلمان اس سے خوش ہو گئے اور کہا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے درست کام کیا اور مسلمان حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس وقت پھر ساتھی ہو گئے جب انہوں نے امر بالمعروف کی طرف رجوع کر لیا۔
Narrated 'Aisha:
Fatima the daughter of the Prophet sent someone to Abu Bakr (when he was a caliph), asking for her inheritance of what Allah's Apostle had left of the property bestowed on him by Allah from the Fai (i.e. booty gained without fighting) in Medina, and Fadak, and what remained of the Khumus of the Khaibar booty. On that, Abu Bakr said, "Allah's Apostle said, "Our property is not inherited. Whatever we leave, is Sadaqa, but the family of (the Prophet) Muhammad can eat of this property.' By Allah, I will not make any change in the state of the Sadaqa of Allah's Apostle and will leave it as it was during the lifetime of Allah's Apostle, and will dispose of it as Allah's Apostle used to do." So Abu Bakr refused to give anything of that to Fatima. So she became angry with Abu Bakr and kept away from him, and did not task to him till she died. She remained alive for six months after the death of the Prophet. When she died, her husband 'Ali, buried her at night without informing Abu Bakr and he said the funeral prayer by himself. When Fatima was alive, the people used to respect 'Ali much, but after her death, 'Ali noticed a change in the people's attitude towards him. So Ali sought reconciliation with Abu Bakr and gave him an oath of allegiance. 'Ali had not given the oath of allegiance during those months (i.e. the period between the Prophet's death and Fatima's death). 'Ali sent someone to Abu Bakr saying, "Come to us, but let nobody come with you," as he disliked that 'Umar should come, 'Umar said (to Abu Bakr), "No, by Allah, you shall not enter upon them alone " Abu Bakr said, "What do you think they will do to me? By Allah, I will go to them' So Abu Bakr entered upon them, and then 'Ali uttered Tashah-hud and said (to Abu Bakr), "We know well your superiority and what Allah has given you, and we are not jealous of the good what Allah has bestowed upon you, but you did not consult us in the question of the rule and we thought that we have got a right in it because of our near relationship to Allah's Apostle ."
Thereupon Abu Bakr's eyes flowed with tears. And when Abu Bakr spoke, he said, "By Him in Whose Hand my soul is to keep good relations with the relatives of Allah's Apostle is dearer to me than to keep good relations with my own relatives. But as for the trouble which arose between me and you about his property, I will do my best to spend it according to what is good, and will not leave any rule or regulation which I saw Allah's Apostle following, in disposing of it, but I will follow." On that 'Ali said to Abu Bakr, "I promise to give you the oath of allegiance in this after noon." So when Abu Bakr had offered the Zuhr prayer, he ascended the pulpit and uttered the Tashah-hud and then mentioned the story of 'Ali and his failure to give the oath of allegiance, and excused him, accepting what excuses he had offered; Then 'Ali (got up) and praying (to Allah) for forgiveness, he uttered Tashah-hud, praised Abu Bakr's right, and said, that he had not done what he had done because of jealousy of Abu Bakr or as a protest of that Allah had favored him with. 'Ali added, "But we used to consider that we too had some right in this affair (of rulership) and that he (i.e. Abu Bakr) did not consult us in this matter, and therefore caused us to feel sorry." On that all the Muslims became happy and said, "You have done the right thing." The Muslims then became friendly with 'Ali as he returned to what the people had done (i.e. giving the oath of allegiance to Abu Bakr).

44 - غزوات کا بیان : (473)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیماری اور وفات کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ انک میت الخیعنی اے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بے شک تم کو بھی مرنا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے پھر قیامت کے دن تم سب اپنے رب کے سامنے جھگڑا کرو گے یونس زہری عروہ عائشة سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بیماری میں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت واقع ہوئی فرماتے تھے کہ خیبر میں مجھے جو زہر دیا گیا تھا، اس کا درد پیٹ میں مجھے ہمیشہ معلوم ہوتا رہا ہے اور (اب) یوں معلوم ہو رہا ہے کہ یہ درد میری رگیں کاٹ رہا ہے۔
حدثنا يسرة بن صفوان بن جميل اللخمي حدثنا إبراهيم بن سعد عن أبيه عن عروة عن عائشة رضي الله عنها قالت دعا النبي صلی الله عليه وسلم فاطمة عليها السلام في شکواه الذي قبض فيه فسارها بشيئ فبکت ثم دعاها فسارها بشيئ فضحکت فسألنا عن ذلک فقالت سارني النبي صلی الله عليه وسلم أنه يقبض في وجعه الذي توفي فيه فبکيت ثم سارني فأخبرني أني أول أهله يتبعه فضحکت
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1587               حدیث مرفوع          مکررات 12 متفق علیہ 8 
 یسرہ بن صفوان ابن جمیل لخمی ابراہیم بن سعد سعد بن ابراہیم عروہ بن زبیر عائشة رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریب وفات فاطمة عليها السلام کو بلایا اور آہستہ آہستہ کچھ باتیں کیں جن کو سن کر وہ رونے لگیں اور پھر کچھ اور فرمایا تو وہ ہنسنے لگیں میں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی (یعنی بعد وفات) تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے تو یہ کہا تھا کہ میں اس بیماری میں ہی وفات پا جاؤں گا تو میں رونے لگی پھر فرمایا کہ میرے اہل بیت سے سب سے پہلے تم ہی مجھے ملو گی تو پھر میں خوش ہو گئی۔
Narrated 'Aisha:
The Prophet called Fatima during his fatal illness and told her something secretly and she wept. Then he called her again and told her something secretly, and she started laughing. When we asked her about that, she said, "The Prophet first told me secretly that he would expire in that disease in which he died, so I wept; then he told me secretly that I would be the first of his family to follow him, so I laughed ( at that time)."

59 - اجازت لینے کا بیان : (73)
ان کا بیان جو لوگوں کے سامنے سرگوشی کرے اور اس کا بیان جو اپنے ساتھی کا راز کسی کو نہ بتائے، جب مر جائے تو لوگوں کو بتائے۔
حدثنا موسیٰ عن أبي عوانة حدثنا فراس عن عامر عن مسروق حدثتني عائشة أم المؤمنين قالت إنا کنا أزواج النبي صلی الله عليه وسلم عنده جميعا لم تغادر منا واحدة فأقبلت فاطمة عليها السلام تمشي لا والله ما تخفی مشيتها من مشية رسول الله صلی الله عليه وسلم فلما رآها رحب قال مرحبا بابنتي ثم أجلسها عن يمينه أو عن شماله ثم سارها فبکت بکائ شديدا فلما رأی حزنها سارها الثانية فإذا هي تضحک فقلت لها أنا من بين نسائه خصک رسول الله صلی الله عليه وسلم بالسر من بيننا ثم أنت تبکين فلما قام رسول الله صلی الله عليه وسلم سألتها عما سارک قالت ما کنت لأفشي علی رسول الله صلی الله عليه وسلم سره فلما توفي قلت لها عزمت عليک بما لي عليک من الحق لما أخبرتني قالت أما الآن فنعم فأخبرتني قالت أما حين سارني في الأمر الأول فإنه أخبرني أن جبريل کان يعارضه بالقرآن کل سنة مرة وإنه قد عارضني به العام مرتين ولا أری الأجل إلا قد اقترب فاتقي الله واصبري فإني نعم السلف أنا لک قالت فبکيت بکائي الذي رأيت فلما رأی جزعي سارني الثانية قال يا فاطمة ألا ترضين أن تکوني سيدة نسائ المؤمنين أو سيدة نسائ هذه الأمة
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1222               حدیث مرفوع          مکررات 12 متفق علیہ 8 
 موسی ، ابوعوانہ، فراس، عامر، مسروق، عائشة أم المؤمنين سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ ہم سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویاں آپ کے پاس جمع تھیں ہم میں کوئی بھی غائب نہ تھی فاطمة عليها السلام چلتی ہوئی آئیں اور ان کی چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چال سے بہت زیادہ مشابہ تھی جب آپ نے ان کو دیکھا تو خوش آمدید کہا اور فرمایا کہ خوب آئیں پھر اپنے دائیں یا بائیں ان کو بٹھلا یا، پھر ان سے چپکے سے بات کی وہ زور سے رونے لگیں، جب ان کو غمگین ہوتے ہوئے دیکھا تو دوبارہ چپکے سے بات کی، تو وہ ہنسنے لگئیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں کے درمیان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے درمیان تم سے خاص راز کی بات فرمائی، پھر بھی تم روتی ہو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے گئے تو میں ان سے پوچھا، کیا بات کہی؟ فاطمة عليها السلام نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راز کو ظاہر نہیں کرتی جب آپ کی وفات ہوگئی تو میں نے ان سے کہا کہ میں تمہیں قسم دیتی ہوں کہ اس حق کے عوض جو میرا تم پر ہے تم مجھے وہ بات بتا دو، فاطمة عليها السلام نے کہا ہاں اب بتا دوں گی، چنانچہ انہوں نے بتلاتے ہوئے کہا کہ پہلی دفعہ چپکے سے جو بات آپ نے فرمائی (وہ یہ تھی) کہ آپ نے مجے سے بیان کیا کہ جبریل ہر سال میں ایک دفعہ دورہ کرتے تھے، اس سال دوبارہ دورہ کے لئے آئے، اب موت مجھے قریب نظر آرہی ہے، اس لئے اللہ ڈرو اور صبر کرو میں تمہارے لئے اچھا آگے جانے والا ہوں، چنانچہ میں رونے لگی جیسا کہ تم نے دیکھا جب آپ نے میری گھبراہٹ دیکھی تو دوسری بار آپ نے چپکے سے فرمایا کہ اے فاطمة عليها السلام کیا تو یہ پسند نہیں کرتی کہ مومنین کی عورتوں کی سردار ہوجائے یا یہ فرمایا کہ اس امت کی عورتوں کی سردار ہوجائے۔
Narrated 'Aisha:
He added, 'But this year he reviewed it with me twice, and therefore I think that my time of death has approached. So, be afraid of Allah, and be patient, for I am the best predecessor for you (in the Hereafter).' " Fatima added, "So I wept as you ('Aisha) witnessed. And when the Prophet saw me in this sorrowful state, he confided the second secret to me saying, 'O Fatima! Will you not be pleased that you will be chief of all the believing women (or chief of the women of this nation i.e. my followers?")

7 comments:

  1. السلام علی من اتبع الھدیٰ،
    جناب رانا صاحب،
    اگر فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نام کے ساتھ "علیھا السلام " لکھنے یا کہنے والا شعیہ ہی ہوتا ہے ، تو آپ یا جس کے باتیں آپ نقل کرتے ہیں انہیں کس صف میں شمار کیا جائے کہ آپ لوگوں نے امام بخاری رحمہُ اللہ کے نام کے ساتھ دو دفعہ """ علیہ السلام """ لکھا ہے ،
    اب یہ نہ کہیے گا کہ آپ نے طنزیہ یا اعتراضاً لکھا ہے ،
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اگر فاطمہ رضی اللہ عنھا کے نام کے ساتھ " علیھا السلام " لکھنے یا کہنے والا شعیہ ہی ہوتا ہے تو ، فاطمہ رضی اللہ عنھا ، اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا کے نام کے ساتھ کچھ بھی ادب و دعا ذکر نہ کرنے والوں کو کس گنتی میں شمار کیا جانا چاہیے ؟؟؟
    جیسا کہ آپ نے لکھاہے """ بخاری کی عبارت میں عائشہ اور فاطمہ کے ناموں کا ایک ساتھ ذکر کرنے کے بعد عائشہ کے نام کے ساتھ کچھ بھی نہ لکھنا اور فاطمہ کے نام کے ساتھ علیھا السلام لکھنا کیا معنی رکھتا ہے """ ۔
    و السلام علی من اتبع الھدیٰ۔

    ReplyDelete
  2. Replies
    1. مجھے قارئین کی اس طرف توجہ مبذول کرا نی ہے ۔ویسے یہ ایک طرح سے لوگوں نے اصطلاح بنائی ہوئی ہے کہ انبیاء کے ناموں کے پیچھے علیہ السلام اورسلام علیہ لکھتے ہیں اور صحابہ کے لئے رضی اللہ عنہ یا رضوان اللہ علیہم لکھتے ہیں اور بقایا مومنین کے لئے رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں یہ تو ہوئی اصطلاحی بات ویسے قرآن حکیم میں سلام انبیاء کے ناموں کے ساتھ آیا ہے کہ سلام علی ابراہیم ، سلام علی موسیٰ وھارون ، سلام علیٰ ال یاسین اور سلام علی المرسلین تو اس طرح غیر انبیاء کے لئے بھی آیا ہے کہ:
      فَأْتِيَاهُ فَقُولَا إِنَّا رَسُولَا رَبِّكَ فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ ۖ قَدْ جِئْنَاكَ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكَ ۖ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (20:47)
      (اچھا) تو اس کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم آپ کے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دیجیئے۔ اور انہیں عذاب نہ کیجیئے۔ ہم آپ کے پاس آپ کے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آئے ہیں۔ اور جو ہدایت کی بات مانے اس کو سلامتی ہو۔
      وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى
      یا
      وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (6:54)
      اور جب تمہارے پاس ایسے لوگ آیا کریں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو (ان سے) سلام علیکم کہا کرو خدا نے اپنی ذات (پاک) پر رحمت کو لازم کرلیا ہے کہ جو کوئی تم میں نادانی سے کوئی بری حرکت کر بیٹھے پھر اس کے بعد توبہ کرلے اور نیکوکار ہوجائے تو وہ بخشنے والا مہربان ہے۔
      وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ
      ہمیں اصطلاحوں پر بھی کوئی اعتراض نہیں اور ان اصطلاحی لفظوں میں جو عموم ہے یعنی سلام کا لفظ نبی اور غیر نبی مومن کے لئے استعمال کرنا اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں بلکہ اسے ہم جائز اوردرست بھی قبول کرتے ہیں لیکن بخاری کے لئے سوال یہ ہے کہ جب اس نے اپنے ترجمۃ الباب میں عائشہ ام المومنین کے نام کا ذکر کیااور ان کے ساتھ فاطمہ کا بھی اسی جگہ ذکر کیا تو فاطمہ کے نام کے ساتھ علیہا السلام لکھا اور عائشہ کے نام کے ساتھ کچھ بھی نہیں لکھا تو دال میں کالے کی جگہ ہمیں تو ساری دال کالی نظر آتی ہے ۔
      اس سے تو بخاری کا یہ فقہ اور نظریہ ثابت ہوتا ہوا نظر آتا ہے کہ اس کی سوچ میں نبوت اور رسالت ورثے میں منتقل ہونے والی چیز ہے

      Delete
  3. رانا صاحب ،
    اگر آپ کو اصطلاحات کے استعمال پر کوئی اعتراض نہیں تو امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نام کے ساتھ "علیہا السلام " لکھے جانے پر وہ سب کچھ نشر کرنے کی کیا ضرورت تھی جو کچھ آپ کے استاد نے لکھ مارا ،
    شکوہ بے جا بھی کوئی کرے تو لازم ہے شعور
    ...........................
    میری بات جاری ہے

    ReplyDelete
  4. رانا صاحب ، محض اپنے سوء ظن کی بنا پر کسی مسلمان پر اتہام لگانا کتنا بڑا گناہ ہے ، کیا یہ آپ کو یا آپ کے استاد بوہیو کو اللہ کی کتاب ، جس کتاب کے نام پر آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ احادیث مبارکہ کا انکار کرتے ہیں ، اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین شریفہ جمع کرنے والوں کو طعن و تشنیع کا شکار بناتے ہیں ، اسی کتاب میں کیا آپ لوگوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ فرمان نظر نہیں آتا کہ (((((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ::: اے ایمان لانے والو ،(تم میں سے کوئی)ایک گروہ(کسی)دوسرے گروہ کو حقیر اور کم تر مت جانو (اور ان کا مذاق مت اڑاؤ)، اُمید ہے کہ وہ (لوگ جن کے ساتھ یہ کچھ کیا جاتا ہے )کرنے والوں کی نسبت خیر والےہوں، اور نہ ہی عورتیں (دوسری)عورتوں کو کم تر اور حقیر جانیں (اور نہ ان کا مذاق اڑائیں)اُمید ہے کہ وہ ( عورتیں جن کے ساتھ یہ کچھ کیا جاتا ہے)کرنے والیوں کی نسبت خیر والی ہوں، اور نہ ہی اپنے ایمان والے بھائی بہنوں پر الزام تراشی کرو ، اور نہ ہی ازیک دوسرے کو (نا مناسب ، طنزیہ )القاب دو ، ایمان لانے کے بعد برائی والے نام رکھنا بہت ہی بُرا ہے (لہذا تُم لوگ ان کاموں سے باز رہو ) اور جو کہ ایسا کرنے سے توبہ نہیں کرتا تو وہی لوگ ظلم کرنے والے ہیں )))))سورت الحُجرات (49)/آیت11،
    اور کیا یہ آیت شریفہ آپ لوگوں نے نہیں پڑھی (((((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ::: اے ایمان لانے والو، بہت زیادہ گمان کرنے سے دُور ہو ، بے شک کچھ گمان گناہ ہوتے ہیں ))))) سورت الحُجرات (49)/آیت12،
    رانا صاحب ، گو کہ آپ صاحبان کی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے بیزاری بلکہ دشمنی جو کہ بلواسطہ اور منطقی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے دشمنی بنتی ہے ، اس دشمنی میں کسی شک کی گنجائش نہیں ، پھر بھی اتنا خیال تو آپ کو رکھنا ہی چاہیے کہ حدیث شریف اور محدثین کرام رحمہم اللہ پر اعتراض کرنے سے پہلے آپ لوگ کچھ علم حاصل کر لیتے ، کچھ ادب سیکھ لیتے ، تا کہ آپ لوگوں کے من گھڑت اعتراضات میں کہیں تو کسی طور کچھ ایسا ہوتا جس کی کوئی علمی حیثیت ہوتی ،
    اصولاً ، اور اخلاقاً ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب جناب کو ، یا آپ کے استاد بوہیو کو امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فاطمہ رضی اللہ عنھا کے نام کے ساتھ "علیھا السلام " لکھے جانے پر امام بخاری رحمہ اللہ کے شیعہ ہونے کا گمان ہوا تھا تو ذرا صحیح بخاری شریف کا غیر متعصب نگاہ سے مطالعہ کرتے کہ اس بد گمانی کا کوئی اور ثبوت بھی ہے یا نہیں ،
    اگر امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ شیعہ ہوتے تو امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ اور پھر حسنین کریمین رضی اللہ عنھما کے ناموں کے ساتھ بھی "علیہ السلام " لکھتے ،
    اور شیعہ مسلک کے مطابق شیخین کریمین ابو بکر الصدیق اور عمر الفارق رضی اللہ عنھما کے فضائل بھی بیان نہ کرتے ، اور نہ ہی ایمان والوں کی امی محترمہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی فضیلتیں ذکر کرتے ، کیونکہ شیعہ ایسا نہیں کرتے ،
    اگر امام بخاری علیہ رحمۃ اللہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے کسی کے لیے کسی خصوصی ، ولایت ، امامت ، وصیت یا وراثت وغیرہ کے عقیدے والے ہوتے تو پہلے تینوں خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کے فضائل و مناقب بیان نہ کرتے ، اور نہ ہی انہیں امیر المؤمنین کے لقب سے ذکر کرتے ،
    امام بخاری رحمہُ اللہ تو کیا ، مسلمانوں میں کوئی بھی ورثے میں نبوت اور رسالت کی منتقلی کا عقیدہ نہیں رکھتا ، حتی کہ وہ لوگ بھی نہیں رکھتے جو ولایت اور امامت وغیرہ کی منتقلی کا عقیدہ رکھتے ہیں ،
    آپ کے ہاں معلومات کا فقدان ہے یا ادھر ادھر کی معلومات گڈ مڈ ہو چکی ہیں ،
    رانا صاحب ، ایک دفعہ پھر گذارش کرتا ہوں کہ تعصب اور ضد کا چشمہ اتاریے ، مسلمانوں میں صدیوں سے معروف علمی کسوٹیوں کو جانیے اور اگر ان کے مطابق کوئی علمی اعتراض ہو تو وہ پیش کیجیے ، اپنی غلط فہمیوں کو فیصلہ بنا کر اس فیصلے کو درست ثابت کرنے کی کے لیے حقائق اور سچ کو بدلنے کی کوشش کرنے کی بجائے اپنی غلط فہمیوں کی جانچ کرنے کے لیے انہیں حقائق اور سچ کی کسوٹی پر پرکھنے کی جرأت کیجیے ، اِن شاء اللہ خیر ہو گی ۔ والسلام علی من اتبع الھُدیٰ ۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. کیا آپ کی نظر میں شیعہ ہونا جرم ہے ؟؟؟

      Delete
  5. رانا صاحب میں امید کرتا ہوں کہ آپ میرے جوابات کو چھپانے کی کوشش نہ کریں گے

    ReplyDelete