Wednesday, November 27, 2013

فریاد جج صاحبان عزیز اللہ بوہیو




وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (30-25)

بخدمت جناب چیف جسٹس صاحب سپریم کورٹ پاکستان اسلام آباد
اور چیف جسٹس حضرات صوبہ جات ہائی کورٹس، کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ۔نیز صدر پاکستان و زیراعظم پاکستان اسلام آباد و وزراء اعلیٰ صوبہ جات پاکستان۔
جناب اسپیکر صاحب قومی اسمبلی اسلام آباد، اور چیئرمین سینٹ پاکستان اسلام آباد
فریاد
جناب عالی!
 عرصہ دراز سے دشمنان اسلام ڈنمارک ناروے والے یا برطانیہ سے سلمان رشدی کے قلم سے جناب رسول اللہ سلام علیہ کے شان اقدس کے خلاف نہایت غلیظ قسم کی گستاخیاں کرتے آرہے ہیں۔ انکے رد میں امت مسلمہ کے غیور لوگ بھی احتجاج کرتے رہتے ہیں، لیکن ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اپنے گھر کے علوم کی بھی چھان بین کریں کیوں کہ دشمنوں کو ان کی گستاخیوں کا سارا مواد دین اسلام کے نام سے ایجاد کردہ علوم حدیث وفقہ سے ملا ہوا ہے، جو کہ قرآن مخالف، امامی گروہ، کا ایجاد کیا ہوا ہے، جن کے نہایت مختصر حوالہ جات بطور نمونہ آپ کی اور امت مسلمہ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں اور التجا کرتے ہیں کہ ایسے علوم کو مدارس دینیہ کے نصاب تعلیم سے خارج کرواکے ان کی جگہ خالص قرآن سے استخراج جزئیات کی تعلیم عام لوگوں کو بالخصوص امت  مسلمہ والوں کو اور ان کی نئی نسل کو پڑھائی جائے۔
نیز  براہ راست قرآن سے ملے ہوئے مسائل حیات کو نہ پڑھانے والے مدارس کی رجسٹریشن پر بندش عائد کی جائے ۔

مروجہ علم حدیث کا جناب رسول علیہ السلام کی ذات اقدس  پر بہتان اور تبرا
آبادی سے دور کھجور کے باغ میں جونیہ نامی عورت لائی گئی تھی جسے رسول نے کہا کہ (نعوذ باللہ) ’ھبی نفسک لی‘ تو خود کو میرے حوالے کردے، تو اس عورت نے جواب میں کہا کے وھل تھب الملکہ نفسھا لسوقہ ؟ یعنی کیا کوئی شہزادی اپنے آپ کو کسی بازاری شخص کے حوالے کرسکتی ہے؟
(حوالہ کتاب بخاری، کتاب الطلاق کی چوتھے نمبر والی حدیث) ہم اپنی طرف سے اس حدیث پر کوئی تبصرہ نہیں کررہے۔

دوسری حدیث۔
 سمعت انس بن مالک قال جائت امرأۃ من الانصار الی النبیﷺ فخلا بھا فقال و اللہ ان کن لا حب الناس الی۔یعنی ایک انصاری عورت جناب رسول علیہ السلام کی خدمت میں آئی (نعوذ باللہ)  آپ نے اس کے ساتھ خلوت کی، اس کے بعد اس سے کہا کہ قسم اللہ کی کہ تم (انصاری) عورتیں سب لوگوں میں سے مجھے زیادہ محبوب ہو۔ (حوالہ، کتاب النکاح بخاری حدیث نمبر ۲۱۸) اس حدیث پر بھی پڑھنے والے خود سوچیں میں کوئی تبصرہ نہیں کررہا۔

قرآن سے کچھ آیات گم ہوجانے کی حدیث
اس موجود قرآن میں سے رجم کی سزا یعنی مرد اور زانیہ عورت کو سنگسار کرکے موت دینے  والی آیت بھی گم ہوچکی ہے اور باپ دادوں سے رغبت نہ کرنا یہ کفر ہے، یہ آیت بھی نازل ہوئی تھی جواب گم ہوگئی ہے (حوالہ کتاب بخاری، کتاب المحاربین باب رجم الحبلی من الزنا اذا احصنت۔ حدیث نمبر ۱۷۳۰۔ حوالہ دوم باب الرجم کتاب ابن ماجہ صفحہ ۱۸۳ مطبع قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ کراچی)

 دوسری حدیث۔
 عن عائشہ قالت لقد نزلت آیۃ الرجم ورضاعۃ الکبیر عشرا ولقد کان فی صحیفۃ تحت سریری فلمامات رسول اللہﷺ وتشا غلنا بموتہ دخل داجن فاکلھا۔ یعنی عائشہ سے روایت ہے کہ آیت رجم اور بڑی عمر والے کو دودھ پلانے کی آیتیں نازل ہوئیں تھیں جو میرے صحیفہ قرآن میں لکھی ہوئی تھیں جو میرے سرھانے کے نیچے رہتا تھا پھر جب رسول اللہ کی وفات ہوئی ہم اس میں مشغول ہوگئے تو گھریلو بکری داخل ہوکر وہ قرآن کھا گئی۔ (حوالہ، کتاب ابن ماجہ باب رضاع الکبیر صفحہ ۱۳۹ مطبع قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ کراچی)

جناب رسولﷺکے پیچھے نماز پڑھنے والے اصحاب رسول کی کردار کشی کی حدیث۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک بہت ہی خوبصورت عورت رسول کے پیچھے (عورتوں کی صفوں میں) نماز پڑھا کرتی تھی تو بعض لوگ جان بوجھ کر پچھلی صف میں ہٹ کر نماز میں شریک ہوتے تھے رکوع کے دوران بغلوں سے اس عورت کو جھانک کر دیکھتے تھے۔ (حوالہ جامع ترمذی جلد دوم ابواب التفسیر سورۃ الحجر کی پہلی حدیث)

رسول اللہﷺ کے ساتھ جھاد پر جانے والے اصحاب رسول پر طنز اور تبرا والی حدیث
عن جابر قال نھی رسول اللہ ﷺ ان یطرق الرجل اھلہ لیلا یتخونھم اور یطلب عثراتھم یعنی منع کی ہے رسول نے رات کو دیر سے گھر والوں کے پاس آنے سے (اس وجہ سے کہ) کوئی انکے ساتھ خیانت نہ کرتا ہو یا انکی پردہ والیوں کی جستجو میں نہ ہو(حوالہ کتاب صحیح مسلم جلد ثانی کتاب الجھاد والسیر باب کراھیۃ الطروق مطبع قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ کراچی) اس قسم کی حدیث پر بھی پڑھنے والے خود سوچیں میں اپنی طرف سے کوئی تبصرہ نہیں کررہا۔

امام بخاری اور امام زہری کی جانب سے علم حدیث کے ذریعہ سے جناب خاتم الانبیاء علیہ السلام کو آگ کی پوجا کرنے واالاآتش پرست (مجوسی)  ثابت کرنے کی کاریگری۔
باب من صلی وقدامہ تنور اونارا و شیء ممایعبد فارادبہ وجہ اللہ عزوجل۔ وقال الزھری اخبرنی انس بن مالک قال قال النبیﷺ عرضت علی النار وانا اصلی۔ (حوالہ کتاب بخاری جلد اول کتاب الصلوٰۃ باب نمبر ۲۹۲)
ترجمہ :جس شخص نے نماز پڑھی اس حال میں کہ اسکے سامنے تنور ہویا آگ یا ایسی کوئی بھی چیز جس کی پوجا کی جاتی ہو پھر ارادہ کرے اس پوجنے سے اللہ عزوجل کی رضامندی حاصل کرنے کا۔ کہا زہری نے کہ خبر دی مجھے انس بن مالک نے کہا اس نے کہ فرمایا نبی ﷺنے کہ پیش کی گئی میرے سامنے آگ ایسی حالت میں جو میں نماز پڑھ رہا تھا۔

جناب قارئین!
 امام بخاری نے امام زہری کی گھڑی ہوئی اس حدیث پر جو ترجمۃ الباب لکھا ہے اس میں سے جو دو معنائیں نکلتی ہیں وہ بڑی ہی غور طلب ہیں ایک یہ کہ لفظ صلوٰۃ کی معنی جو خود قرآن نے بتائی ہے، (نظام قرآن کی) تابعداری کرنا (75-31-32)  اسکے بجاء امام بخاری نے قرآن والی معنی کے برعکس یہاں اہل فارس کے مجوسی آتش پرستوں والی نماز قرار دی ہے، جو وہ لوگ آگ کی پوجا کیلئے پڑھتے تھے۔ اس معنی کا ثبوت خود امام بخاری کے الفاظ میں موجود ہے جو لکھا ہے کہ جو شخص نماز پڑھے اور اس کے سامنے تنور ہو یا آگ ہو تو وہ نماز پڑھنے والا اپنی اس پوجا والی نماز سے صرف اللہ کی رضا کی نیت کرے تو وہ نماز جائز ہے۔ دوسری معنی جو امام بخاری کی عبارت کے جملہ اوشیء ممایعبد سے نکلتی ہے کہ آگ کی پوجا کرے یا کسی بھی ایسی چیز کی پوجا کرجن کی عبادت کی جاتی ہو (اور ایسی عبادت نامی پوجاؤں سے صرف اللہ کی رضاکی نیت رکھتا ہو۔

محترم قارئین!
 امام بخاری کے اس جملہ سے بت پرستی اور قبر پرستی اور غیراللہ کی پرستش کے سارے انواع جائز ہوجاتے ہیں۔ میں چئلنج کرتا ہوں کہ کوئی بھی میری اس معنی کو رد کرکے دکھائے۔ پھر بتایا جائے کہ امام بخاری امام زہری ایسی حدیثیں سناتے وقت خود کون اور کیا تھے؟؟؟!!!

اصحاب رسول کی ازواج مطہرات کو گالی
(میرے سامنے یہ حدیث نقل کرنے کیلئے کتاب جامع ترمذی ہے اردو ترجمہ کے ساتھ مترجم مولانا بدیع الزمان ہیں جو بھائی ہیں علامہ وحید الزمان کے، اس کتاب کا ناشر ہے اسلامی کتب خانہ، فضل الاہی مارکیٹ چوک اردو بازار، لاہور)
اس باب میں انسؓ اور ابن عمرؓ اور ابن عباسؓ سے بھی روایت ہے۔ یہ حدیث حسن ہے صحیح ہے اور مروی ہوئی ہے کئی سندوں سے جابر سے کہ انہوں نے روایت کی نبیﷺ سے اور مروی ہے ابن عباس سے کہ نبی ﷺ نے منع فرمایا ان کو اس سے کہ رات کو داخل ہوں اپنی عورتوں پر جب سفر سے آئیں اور فرمایا ابن عباس نے کہ داخل ہوئے دو شخص رات کو اپنے گھر میں حضرت کے منع فرمانے کے بعد سو پایا ہر ایک نے اپنی عورت کے پاس ایک مرد کو، یہ وبال انپر حضرت کی نافرمانی کے سبب سے۔
(حوالہ جامع ترمذی باب نمبر ۱۶۰۳ باب ماجاء فی کراھیۃ طروق الرجل اھلہ لیلا حدیث نمبر ۲۷۱۲ ) میں اس حدیث پر اپنی طرف سے کوئی تبصرہ نہیں کررہا۔

جناب اعلیٰ!
ہماری فریاد ہے کہ اسلامی تعلیمات کا ماخذ اور اصل واحد صرف کتاب قرآن حکیم بلاشرکت غیرےکو تسلیم کیا جائے۔ ساتھ ساتھ جو صدیوں سے اسلام دشمن مافیائی تحریکوں نے بجائے اکیلے قرآن کے اور بھی مزید تین عدد اصول علم روایات، قیاس اور اجماع کو بھی شریک بالقرآن کا ارتکاب کرتے ہوئے نتھی کیا ہوا ہے ان تینوں کے پڑھنے پڑھانے پر بندش عائد کی جائے۔ قرآن حکیم کے اس دلیل سے اتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاء قَلِيلاً مَّا تَذَكَّرُونَ (7-3) ترجمہ: تابعداری کرو اس علم کی جو تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے اور نہ پیروی کرو اس کے سوا کسی کی بھی اسے دوست قرار دیتے ہوئے۔ تھوڑے لوگ ہیں تم میں سے جو نصیحت حاصل کریں گے۔

عالی جناب!
 علم روایات  اور  اس سے ماخوذ تاریخ اور مستنبط کردہ امامی علوم نے قرآن حکیم کے جملہ انقلابی واصلاحی اصطلاحات کی معانی کو مسخ کیا ہوا ہے، جیسے کہ حکم قرآن وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (53-39)  یعنی جو محنت کرے اتناہی پائے۔ اور زندگی کی جملہ چیزیں  وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاء لِّلسَّائِلِينَ (41-10) یعنی سب چیزیں سب لوگوں میں برابری کے اصولوں پر تقسیم کرنی ہونگی، کمسن بچوں کے نکاحوں پر بندش عائد کرنے کیلئے نکاح کی عمر قرآن حکیم نے ذہنی رشد (4-6) اور جسمانی طور پر پکی جوانی (40-67) (6-152) (46-15) کو پہنچنا لازم قرار دیا ہوا ہے۔ جبکہ علم روایات نے قرآن کے ایسے انقلابی احکامات کو توڑنے کیلئے اور تو اور خودجناب رسول کی شادی خلاف حکم قرآن گڑیوں سے کھیلنے والی چھ سال کی کمسن بچی سے کرائی ہے ایسے وقت میں جو رسول علیہ السلام کی اپنی عمر اسوقت پچاس سال سے اوپر بنتی ہے۔

جناب حکمران مملکت!
 آج جب کمسن بچیوں سے بڑی عمر والے مردوں خواہ چھوٹی عمر والے نابالغ لڑکوں کی شادیاں کرنے پر حکومت پاکستان ایسی شادیاں کرانے والوں کو اور نکاح پڑہانے والے ملاؤں کو اور جرگوں میں ایسے فیصلے کرنے والے سماجی وڈیروں کو گرفتار کر رہی ہے تو پھر اس قسم کے خلاف قرآن علوم یعنی حدیثوں اور فقہوں کے پڑھنے پڑھانے والوں کو  گرفتار کیوں نہیں کیا جاتا؟ اور انکے علوم والی خلاف قرآن کتابوں کی اشاعت پر بندش کیوں نہیں عائد کی جاتی؟ حکومت کی ایسی ڈبل پالیسی پر تو چھوٹی عمروں میں شادیاں کرنے کرانے والے لوگ اپنی گرفتاریوں کے خلاف خود سرکار کی اس ڈپلو میسی کو عدالتوں میں اپیلیں کرکے اپنے بچاؤ کی ڈھال بنالینگے۔

جناب حکمران مملکت!
 یہ علم روایات ایجاد کرنے پر خود کو امام کہلانے والے لوگ اسلام کے دشمن ہیں، انکی نظریاتی برادری والی گینگ نے اصلی تاریخی حقائق کو ہلاکو کے حملہ کے ایام میں دریاء دجلہ میں دریاء برد کردیا نیز جلاکر بھی صفحہ ہستی سے گم کردیا، پھر جناب رسول علیہ السلام کے پہلے خلیفہ کا نام بقول انکے عبداللہ تھا، بجاء اسکے اسکی کنیت ابوبکر تجویز کرکے مشہور کی گئی جسکی معنی ہے کنواری لڑکی کا باپ یہ تلمیح ہے تبراکے مفہوم کی اسی خلفہ اول کا کنیت والا دوسرا نام ابن ابو قحافہ رکھا گیا جس کی معنی ہے گندگی کے ڈھیر والے کا بیٹا۔ دوسرے خلیفہ کے اصل نام عمر کے ساتھ فاروق کا لقب جوڑدیا جسکی ایک معنی بنتی ہے ڈرپوک اور بزدل۔ تیسرے خلیفہ کا اصل نام گم کرکے اسکا نام عثمان قرار دے دیا جسکی معنی ہے سانپ کا بچہ، اور جسے چوتھا خلیفہ قرار دیا اسکا نام اللہ کے صفاتی ناموں میں سے نام رکھا علی، جس کی معنی ہے بلند و بالا یعنی اللہ کا ہم نام۔ اور  جسے ان کی تاریخ نے پانچواں خلیفہ قرار دیا ہوا ہے اسکا بھی اصل نام دریاء دجلہ کے ذخیروں میں ڈبودیا گیا اور جو اسکا نام انکی روایات اور تاریخ بنانے والوں نے تجویز کیا ہوا ہے وہ بھی تبرائی ذہنیت کی تسکین کے لئے ’’معاویہ‘‘ قرار دیا جس کی معنی ہے کتے کی بھونک، لومڑکی آواز، گیدڑ کی آواز وغیرہ۔

جناب والا!
 قرآن حکیم کا جو فرمان ہے کہ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَان   (49-11) یعنی ایمان لے آنے کے بعد بھی برے ناموں کو جاری رکھنا یہ بہت ہی براکام ہے۔ سو اگر بالفرض لوگوں کے نام قبل اسلام زمانہ جاہلیت میں برے نام رکھے بھی گئے ہونگے تو یقین سے جناب رسول علیہ السلام نے اس حکم قرآن پر عمل کرتے ہوئے ان برے ناموں کی جگہ اچھی معنائوں والے نام رکھے ہونگے تاکہ قرآن کے عتاب وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (49-11)  سے بچا جاسکے پھر کوئی بتاسکتا ہے کہ بعد وفات رسول یہ بری معنائوں والے نام کب اور کیسے اور کن لوگوں نے روایات میں فٹ کردئے؟؟

عالی جناب!
 اللہ نے قرآن میں جو زمین میں ودیعت کئے ہوئے روزگار کو لوگوں میں برابری کی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا حکم دے رکھا ہے کہ وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاء لِّلسَّائِلِينَ (41-10)  تو روایات کا علم گھڑنے والوں نے جناب رسول علیہ السلام پر حکم قرآن کی انحرافی کا الزام لگایا ہے کہ آپ نے اپنے صحابی زبیر کو جو جاگیر عطا کی تو اس کیلئے حدیث کے الفاظ ہیں کہ عن ابن عمران النبی صلی اللہ علیہ وسلم اقطع الزبیر حضر فرسہ بارض یقال لھا ثریر فاجری الفرس حتی قام ثم رمی سوطہ فقال اعطوہ حیث بلغ السوط ’’فتح الربانی مسند احمد جلد ۱۵ صفحہ ۱۳۵‘‘ یعنی ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول علیہ السلام نے جاگیر کے طور پر زمین عطا کی زبیر کو علائقہ ثریر کی، جتنے تک اسکا گھوڑا چل سکے، پھر زبیر نے چلایا گھوڑے کو اتنے تک جو وہ چلتے چلتے کھڑا ہوگیا، پھر زبیر نے وہاں سے آگے کی طرف اپنا چابک پھیکنا، پھر رسول اللہ نے حکم دیا کہ اسے اتنی تک زمیں دی جائے جتنے تک اس کا چابک پہنچاہے۔

جناب حکمران مملکت!
 عالمی سرمایہ داروں نے قرآن حکیم کے فلفسہ معاشیات وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (53-39) جو جتنا کمائے اتنا ہی پائے، اور حکم قرآن کہ وَاللّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الْرِّزْقِ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُواْ بِرَآدِّي رِزْقِهِمْ عَلَى مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاء أَفَبِنِعْمَةِ اللّهِ يَجْحَدُونَ  (16-71)  خلاصہ، اللہ نے کچھ لوگوں کو کچھ پر روزگار کمانے کے ہنر میں زیادہ فضیلت دی ہے، لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا (43-32)  اس لئے کہ ذہن کا ہوشیار آدمی جسمانی طور پر مضبوط لیکن ذہنی طور پر کم ہوشیار آدمی سے کام لے سکے جس سے دنیا کا کاروبار چل سکے۔ پھر جو لوگ اپنی ذہنی فضیلت سے کم ذہن والوں سے زیادہ کمالیتے ہیں انہیں اپنا زیادہ کمایا ہوا مال کم کمائی والے ماتحتوں کو لوٹا کر دینا ہے اسلئے کہ وہ ضروریات زندگی کے معاملہ میں انکے برابر ہیں۔ حکومت پاکستان کے متعلق یہ جانتے ہوئے کہ یہ ملک عالمی سرمایہ داروں کے قرضوں تلے دبا ہو ہے اسکے باوجود آپ سے یہ درخواست اس بنا پر کر رہے ہیں کہ شاید آپ حکمرانوں کا ذہن و ضمیر قرآن حکیم کے انسان دوست قوانین سے وفا کرے۔

جناب والا!
 پر انے سامراج کی عالمی سرمایہ دار شاہی اور جاگیردار شاہی نے شروع اسلام سے لیکر اپنے لے پالک دانشوروں کو امامت کے القاب دیکر ان سے اس قسم کی حدیثیں اور فقہیں قرآنی تعلیم کے رد میں تیار کرواکر امت والوں کو دینیات کے نصاب تعلیم کے طور پر پڑھنے پڑھانے کیلئے دی ہوئی ہیں، اسلئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اسلامیات اور دینیات کی تعلیم کیلئے ان قرآن دشمن امامی علوم کو نصاب تعلیم سے خارج کیا جائے۔ سرکاری تعلیمی اداروں خواہ پرائیویٹ طور پر دین کے نام سے چلنے والے مدارس عربیہ کے منتظمین کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے نصاب تعلیم سے امامی علوم کو خارج کرکے صرف قرآن حکیم سے دین سمجھائیں اور سکھائیں۔ اور فقہی جزئیات کے اتخراج کیلئے قرآن کو واحد اصل اور ماخذ تسلیم کریں۔ ان اماموں کی اسلام دشمنی کی ان گنت مثالیں دی جاسکتی ہیں بلکہ ہم اپنی متعدد کتابوں میں ایسی مثالیں لکھ بھی چکے ہیں۔ یہاں اپنی فریاد کے اختتام پر میں ان حدیث سازوں کی اسلام دشمنی کا صرف ایک مثال عرض کئے دیتا ہوں۔ امام بخاری نے رسول اللہ کی ایک شادی خلاف قرآن چھ سال کی بچی سے کرائی ہے اور اس بچی کے نام پر ایک حدیث بھی بنائی ہے کہ وفات رسول کے بعد ایک شخص عائشہ کے بھائی کو لیکر اسکے گھر میں داخل ہوا اور مطالبہ کیا کہ وہ اسے رسول کے غسل کرنے کا طریقہ سکھائیں تو عائشہ نے وہیں کے وہیں پانی منگوا کر رسول کے غسل کی طرح خود غسل کرکے دکھایا حدیث میں درمیاں میں حجاب کا بھی ذکر کیا گیا ہے ساتھ ساتھ سیکھنے کیلئے آئے ہوئے آدمی کا یہ قول بھی ہے کہ عائشہ نے اپنے سر پر پانی بہایا یعنی حجاب کے باوجود اسنے سر پر پانے ڈالنے کو دیکھا (بخاری حصہ اول کتاب الغسل باب الغسل بالصاع و نحوہ حدیث نمبر ۲۴۶ کتاب  الغسل کی چوتھی حدیث ) پڑھنے والے اس گستاخانہ حدیث پر خود سوچیں کہ یہ حدیثوں والا علم، دین سکھا رہا ہے یا جناب رسول اور اس کی اہلیہ پر تبرا کررہا ہے۔ خلاصہ فریاد کہ ان قرآن دشمن امامی علوم پر پابندی عائد کی جائے ازرو حکم قرآن کہ اتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاء قَلِيلاً مَّا تَذَكَّرُونَ (7-3) ۔
جب سارے امامی علوم جناب رسول علیہ السلام کے اسم گرامی کی طرف منسوب کردہ گھڑی ہوئی احادیث سے اخذ کئے گئے ہیں اور صورتحال یہ ہے کہ اللہ نے جناب رسول علیہ السلام کو قرآن کے مقابلہ میں اپنی طرف سے دینی قوانین کی خاطر حدیثیں بتانے پر بندش عائد کی ہوئی تھی۔ تو یقینا اللہ کے رسول علیہ السلام نے حکم قرآن کی اطاعت کرتے ہوئے کوئی بھی حدیث اپنی طرف سے قرآن حکیم کی اللہ نزل احسن الحدیث کتابا یعنی قرآنی احادیث کے مقابلہ میں اپنی کوئی بھی حدیث نہ جاری کرائی ہے نہ ڈکٹیٹ کرائی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ موجودہ مروج علم حدیث کی اسناد بناوٹی اور جھوٹی  ہیں۔ جناب رسول علیہ السلام کو احادیث بتانے کی بندش کا حکم خداوندی قارئین کی اطلاع کی خاطر پیش خدمت ہے۔ فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا   (2-114) یعنی بلند و بالا ہے اللہ جس کو حق کی بادشاہی حاصل ہے (ای نبی) قرآن کے مقابلہ میں (اپنی طرف سے حدیثیں میں) جلدی نہ کر اس سے پہلے کہ سوال کردہ امور کے معاملہ میں  آپ کی طرف قرآن کی وحی مکمل  نہ ہوئی ہو۔ ایسی صورتحال میں (بجاء اپنی طرف سے حدیثیں بتانے کے اللہ سے دعا مانگ کہ) اے میرے رب بڑھا میرے لئے علم کو۔

فریادی
عزیزاللہ بوہیو
ولیج خیر محمد بوہیو۔  P.Oبراستہ نوشہروفیروز سندھ