Sunday, August 26, 2012

بخاری کی پہلی حدیث انما الاعمال بالنیات ہی صحابہ دشمنی پر مبنی ہے


بخاری کی پہلی حدیث  انما الاعمال بالنیات  ہی صحابہ دشمنی پر مبنی ہے

سمعت عمر بن الخطا ب رضی اللہ عنہ علی المنبر یقول سمعت رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلمیقول انما الاعمال بالنیات وانمالکل امرأ مانویٰ فمن کانت ہجرتہ‘ الی دنیا یصیبھا او الی امرأۃ ینکحھا و ہجرتہ‘ الی مآ ہاجر الیہ ۔
 ( کتاب بخاری کی پہلی حدیث ) 

:  خلاصہ
 اس حدیث میں راوی حضرت عمرؓ کے حوالہ سے حضوؐر کی طرف منسوب کی ہوئی حدیث بیان کررہا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لئے وہی کچھ ہوگا جس کی وہ نیت کرے گا ۔ پھر جس کی ہجرت دنیا کے حصول کے لئے ہوگی وہ اس کو پائے گا یا جس کی ہجرت کسی عورت کے لئے ہوگی تو وہ اس سے نکاح کرے گا۔یعنی جس کسی کی ہجرت جس کے لئے ہوگی وہ اسی کا مہاجر کہلائے گا ۔
  : تبصرہ
 راوی  صاحب کے رویوں اور رجحانوں کو قارئین کرام گنتی کرتے اور نوٹ کرتے چلیں ۔
بخاری صاحب اپنی کتاب مجموعہ احادیث کی شروعات اس حدیث سے فرمارہے ہیں جس سے پڑھنے والوں کے ذہنوں میں یہ تاثرات قائم ہوں کہ رسول صلے اﷲ علیہ و سلم جیسی عظیم المرتبہ ہستی بھی اپنے انقلابی اصحاب کرامؓ کے ہجرت جیسے زبردست کارنامہ اور قربانی سے کلی طور پر مطمئن نہیں تھے ۔
 جبھی تو ہجرت کو اقسام میں بانٹ کر بعض غیر مخلصین ، دنیا کے پرستاروں اور عورتوں کے حصول کے لئے ہجرت کرنے والوں کی طرف اشارہ فرمارہے ہیں، کہ کچھ لوگوں کی ہجرت ایسی بھی تھی۔
انقلابیوں کی نظر میں ہجرت کی اہمیت کم کرنے کی حدیث سازوں کی سازش:

21 - عمرہ کا بیان : (115)
مکہ میں جنگ کرنا حلال نہیں ہے، ابوشریح نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ وہاں خونریزی نہ کرے ۔

حدثنا عثمان بن أبي شيبة حدثنا جرير عن منصور عن مجاهد عن طاوس عن ابن عباس رضي الله عنهما قال قال النبي صلی الله عليه وسلم يوم افتتح مکة لا هجرة ولکن جهاد ونية وإذا استنفرتم فانفروا فإن هذا بلد حرم الله يوم خلق السموات والأرض وهو حرام بحرمة الله إلی يوم القيامة وإنه لم يحل القتال فيه لأحد قبلي ولم يحل لي إلا ساعة من نهار فهو حرام بحرمة الله إلی يوم القيامة لا يعضد شوکه ولا ينفر صيده ولا يلتقط لقطته إلا من عرفها ولا يختلی خلاها قال العباس يا رسول الله إلا الإذخر فإنه لقينهم ولبيوتهم قال قال إلا الإذخر

صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1730               حدیث متواتر حدیث مرفوع       مکررات 34 متفق علیہ 19 بدون مکرر
 عثمان بن ابی شیبہ، جریر، منصور، مجاہد، طاؤس، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دن مکہ فتح کیا تو فرمایا کہ ہجرت باقی نہ رہی۔ لیکن جہاد اور نیت ہے، جب تم جہاد کرنے کے لئے بلائے جاؤ تو جہاد کے لئے نکلو۔
 یہ شہر ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور اللہ تعالیٰ کی قائم کی ہوئی حرمت قیامت تک قائم رہے گی، اس میں شک نہیں کہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہ تھی اور میرے لئے بھی دن کے ایک حصہ میں حلال کی گئی اس کی حرمت قیامت تک قائم رہے گی، اس کا کانٹا نہ کاٹا جائے اور نہ اس کا شکار بھگایا جائے اور نہ یہاں کی گری پڑی چیز اٹھائی جائے مگر وہ شخص اٹھا سکتا ہے جو اس کی تشہیر کرے، اور نہ وہاں کی گھاس اکھاڑی جائے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سناروں اور گھروں کے لئے اذخر کی اجازت دیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ اذخر کی اجازت ہے۔

حدثنا علي بن عبد الله حدثنا يحيی بن سعيد حدثنا سفيان قال حدثني منصور عن مجاهد عن طاوس عن ابن عباس رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم لا هجرة بعد الفتح ولکن جهاد ونية وإذا استنفرتم فانفروا
 بخاری باب نمبر46 حدیث نمبر52

: خلاصہ
 اس حدیث میں راوی نے حضور ؐ کے نام یہ فرمان منسوب کیا ہے کہ
 فتح مکہ کے بعد ہجرت کا عمل بند ہے ۔ہاں جہاد ،یا نیّتِ خیر سے کوئی کہیں بھی جا سکتا ہے ۔ اور جب تمہیں کوئی بھگانے کے لئے مجبور کرے تو بھاگ جاؤ۔

Narrated Ibn 'Abbas:
Allah's Apostle said, "There is no Hijra i.e. migration) after the Conquest, but Jihad and good intention remain; and if you are called (by the Muslim ruler) for fighting, go forth immediately.

: تبصرہ
 اس حدیث میں حدیث گھڑنے والوں نے صاف الفاظ میں فتح مکہ کے بعد کے زمانہ میں ہجرت کے لئے کوئی شہر ، ملک یا علاقہ چھوڑ کر جانے کا یعنی ہجرت کا انکار کیا ہے۔
 ہجرت پر گویا یہ بندش لاگو کی ہے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت کرنے والاخود کو مہاجر تصور نہ کرے ۔
 ان حدیث سازوں نے دنیا میں آئندہ کے لئے جو بھی ملک وطن، شہر، گھر بار چھوڑنے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کی جو ضرورتیں پیش آئیں گی ان کے لئے دو عنوان لکھے ہیں ایک جہاد اور بھلائی خیر حاصل کرنے کے لئے نقل مکانی کرنا ۔
 دوسرا کسی کے مجبور یا پریشان کرنے اور بھگانے کے لئے تنگ کرنے کے سبب نقل مکانی کرنا یعنی بھگوڑا بن جانا ۔

محترم قارئین!
 روایت کا عربی متن بھی آپ کے سامنے ہے کہ
يوم افتتح مکة لا هجرة
 لا ہجرۃ بعد الفتح
 یعنی فتح مکہ کے بعد ہجرت کا حکم ، تقدس اور وہ تصور و فلسفہ جو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ قرآن سکھایا ہے وہ سب اس حدیث سے ممنوع اور کالعدم ٹھہرتا ہے ۔

میرا یہ الزام کہ حدیث ساز راوی لوگ اپنی طرف سے باتیں بنا کر انہیں رسول صلے اﷲ علیہ و سلم کی حدیث کے طور پر پیش کررہے ہیں جبکہ یہ مانا ہوا مسلم اصول ہر وقت پڑھنے والوں کو ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ ان حدیثوں کو پرکھنے کی کسوٹی قرآن حکیم کو قرار دے کر اس کے ساتھ پرکھا جائے ۔پھر از خود دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو کر سامنے آجائے گا۔
تو آئیے اس مضمون کو قرآن سے ملاکر دیکھیں کہ کیا اصحاب رسولؐ میں سے ہجرت کرنے والے مہاجر صحابہ کے لئے قرآن بھی کوئی ایسی نشان دہی کرتا ہے یا اشاروں اورکنایوں میں ان حدیثوں کی طرح کوئی ترشح کی عبارت کہیں لاتا ہے ؟
 یا قرآن میں اللہ اپنے علم کی بنیاد پر ان کی ایسی حدیثوں کے جواب میں جو انہوں نے قرآن دشمنی ،رسولؐ دشمنی اور صحابہ دشمنی کے طور پر بنا کر عام کرنی تھیں ، پہلے ہی سے رد فرماکر اپنے رسولؐ کے ساتھیوں کی صفائی پیش کردی ہے۔

 ملاحظہ فرمائیں ۔
لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ 
(59:8)
(اور) ان مفلسان تارک الوطن کے لئے بھی جو اپنے گھروں اور مالوں سے خارج (اور جدا) کر دیئے گئے ہیں (اور) خدا کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار اور خدا اور اس کے پیغمبر کے مددگار ہیں۔ یہی لوگ سچے (ایماندار) ہیں ۔

!  جناب معزز قارئین
 اس آیت کریمہ کو ہر شخص اپنے گھر کے باترجمہ قرآن پاک میں غور سے پڑھے ۔
 اس میں رب تعالیٰ مہاجر صحابہ کے اعمال اور دل کی نیتوں کے بارے میں خود شہادت دے رہا ہے کہ، ان کی ہجرت کا مقصد اور مدعا یہ تھا کہ یہ لوگ
 یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا
یعنی ان کی ہجرت سے نیت یہ تھی کہ وہ اللہ کی رضا حاصل کرسکیں ، اللہ کا فضل حاصل کرسکیں ۔
غور فرمایا جائے کہ قرآن حکیم اصحاب رسولؐ کے لئے گواہی دے رہا ہے کہ انہوں نے اپنا وطن ،گھر بار ، مال ومتاع سب کچھ کسی عورت یا دنیا کے حصول کے لئے نہیں چھوڑا بلکہ خالص اللہ کے فضل اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے چھوڑا ہے ۔

 آخر میں قرآن حکیم ان کے لئے یہ سرٹیفیکٹ بھی دیتا ہے کہ
أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ
یعنی یہ ہجرت کرنے والے اپنی اس نیت اور چاہت میں سچے تھے ۔

 توجہ فرمائی جائے کہ اس سرٹیفکیٹ نے ، اس قرآنی شہادت نے ہجرت میں شک و شبہ ڈالنے والی اندر کی پلیتی و بھڑاس اور حیلہ جوئی کو جھوٹ قرار دیا ہے یا نہیں؟

 قرآن نے صحابہ کے دل کی نیتوں کے بارے میں یہ بتا کر کہ وہ اپنی ہجرت سے اللہ کے فضل اور رضا کے متلاشی تھے۔
 قرآن نے صحابہ دشمن روایات سازوں کو ان کی روایات ان کے منہ پر دے ماری ہیں ۔

 میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ میرے ایک استاد الحدیث عالم صاحب مرحوم اس حدیث کو متواتر کا درجہ دیتے تھے۔
مہاجرین اور انصار صحابہ کے بارے میں قرآن حکیم کی ایک اور شہادت ملاحظہ فرمائیں ۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ 
(8:74 )
اور جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور خدا کی راہ میں لڑائیاں کرتے رہے اور جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) جگہ دی اور ان کی مدد کی۔ یہی لوگ سچے مسلمان ہیں۔ ان کے لیے (خدا کے ہاں) بخشش اور عزت کی روزی ہے۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ ۚ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ 
(8:75)
اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کرگئے اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کرتے رہے وہ بھی تم ہی میں سے ہیں۔ اور رشتہ دار خدا کے حکم کی رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ خدا ہر چیز سے واقف ہے۔
اس آیت میں اصحاب رسول کی شان میں جو ایمان کے بعد ہجرت اورجہاد کرنے والے اور ان کو اپنے ہاں پناہ دینے والے انصار صحابہ کے لئے فرمایا گیا ہے کہ یہ سب مومنین برحق تھے اور ان کے لئے مغفرت کا بھی اعلان کیا جاتا ہے اور ان کے لئے رزق کریم کا بھی اعلان کیا جاتا ہے ۔

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ 
(9:100)
جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی۔ اور جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی خدا ان سے خوش ہے اور وہ خدا سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لیے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔
اسی طرح سورۃ توبہ کی آیت نمبر100میں اصحاب رسولؐ اور ان کے احسن طریقہ پر اتباع کرنے والوں کے لئے قرآن حکیم نے جنت میں جانے اور رہنے کا جو اعلان فرمایا ہے اس میں بھی صحابہ کے تعارف میں دیگر خصائص کے ساتھ ہجرت کے حوالے سے متعارف کرایا ہے اور شا ید یہ اس لئے بھی کہ بخار ی کی اس  پہلے نمبرپر لائی ہوئی حدیث کی بھی اچھی طرح سے تردید ہوجائے ۔
کیونکہ بخاری نے اپنی کتاب میں سورۃ مائدہ کی آیت نمبر117
 مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ 
(5:117)
میں نے ان سے کچھ نہیں کہا بجز اس کے جس کا تو نے مجھے حکم دیا ہے وہ یہ کہ تم خدا کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے اور جب تک میں ان میں رہا ان (کے حالات) کی خبر رکھتا رہا جب تو نے مجھے  فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي تو تو ان کا نگران تھا اور تو ہر چیز سے خبردار ہے۔

فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ
کے ذیل میں حدیث لکھی ہے کہ صحابہ کو  قیامت کے دن رسولؐ کے سامنے فرشتے گھسیٹ کر جہنم میں ڈالیں گے تو اللہ نے ا صحاب رسولؐ کے جنت میں جانے کے واضح اعلانات کرکے ان راویوں کے پول کھول دئیے ۔
 ان کا اصل اور چھپا ہوا چہرہ نمایا ں کردیا ہے ۔
کیونکہ وہ کوئی بھی ایسا موقع نہیں جا د یتے جس سے پڑھنے والوں کے ذہنوں میں اکابرین اسلام کے بارے میں بدگمانیاں پیدا ہوتی ہوں ۔
یعنی جان بوجھ کر لوگوں کے ذہنوں میں یہ لوگ شکوک وشبہات پیدا کرتے رہتے ہیں ۔
چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد
اسے راوی  کی جرأت کہیں یا اصحاب رسولؐ سے اس کی نفرت کی شدت کہیں یا مسلمانوں کی ذہنی پسماندگی اور شان صحابہ کے بارے میں ان کی بے حسی کہیں اس حد تک کہ ان کے اورمدارس دینیہ کے شیوخ الحدیث کے بارے میں راوی  کو اتنا یقین ہے کہ وہ اس کی صحابہ دشمنی پر پردہ ڈال کر بخاری کی کتاب کو قرآن ثانی اور مثلہ معہ کی رٹ لگاتے رہیں گے ۔

!  جناب محترم قارئین
قرآن حکیم ایک انقلابی کتاب ہے اس کی تعلیم میں جو فلاسفی ہے وہ اس پر ایمان لانے والوں کو جہدمسلسل کی تعلیم دیتی ہے ۔ قرآن تو دنیا بھر کے ستائے ہوئے محکومین اور مستضعفین کو پکار پکار کر کہتا ہے کہ اے مظلومو! تم کیوں ظلم کی چکی میں پس رہے ہو ، سسک رہے ہو تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ
إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا 
(4:97)
اور جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں جب فرشتے ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز وناتواں تھے فرشتے کہتے ہیں کیا خدا کا ملک فراخ نہیں تھا کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے۔
 أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ
یعنی اللہ کی دھرتی بہت کشادہ ہے۔ پھر تم کیوں نہیں اس کے اطراف و اکناف میں ہجرت کرجاتے ۔

! معززقارئین
 غور فرمائیں کہ قرآن حکیم دنیا بھر کے مظلوموں کو مورچہ تبدیل کرنے کے لئے جو تعلیم دیتا ہے اسے ہجرت کے نام سے تعبیر فرماتا ہے قرآن کی اس آئیڈیالوجی کو حدیث ساز دانشور سمجھ گئے تھے اس لئے انہوں نے حدیث کے نام پر رسول صلے اﷲ علیہ و سلم کے نام سے قرآن حکیم کے فلسفہ کا رخ موڑنے کے لئے روایت میں جعل سازی کی ہے وہ یہ کہ 
لا ہجرۃ بعد الفتح
اب مکہ فتح ہوگیا اس لئے ہجرت کا سلسلہ بھی ختم ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جہاں بھی اور جب بھی مسلما نوں پر عر صہ حیات تنگ کر دیا جا ئے وہ احکام الٰہی کے مطا بق زندگی نہ گزار سکتے ہوں اور نظام کو تبد یل کر نا بھی ان کے بس میں نہ ہو ،وہاں سے وہ ہجرت کر جا ئیں۔

 مگر مذ کورہ با لا حد یث میں یہ تلقین کی جا رہی ہے کہ وہیں ٹکے رہو  چا ہے تمہیں شدی ہو کر زندگی کیوں نہ گزا ر نی پڑے ۔
میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ یہ قرآن دشمن ، مسلمانوں سے قرآن کا متن اور کتاب چھیننے میں ناکامی کے بعد قرآن کی معنوی تحریف پر ہر وقت ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔
 مذکورہ بالا آیت مدنی ہے اور اس میں مظلوموں سے خطاب ہے کہ جب اللہ کی زمین کشادہ ہے تو اس میں ہجرت کیوں نہیں کرتے ۔

 اگر کوئی کہے کہ یہ کلام فتح مکہ سے پہلے ہے تو اب فتح مکہ کے بعد والوں کے متعلق قرآن حکیم کا فرمان بھی سنیں ۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ ۚ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ 
(8:75)
اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کرگئے اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کرتے رہے وہ بھی تم ہی میں سے ہیں۔ اور رشتہ دار خدا کے حکم کی رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ خدا ہر چیز سے واقف ہے۔

 یعنی جو لوگ ایمان لائے فتح مکہ کے بعد اور اس کے بعد انہوں نے ہجرت بھی کی تمہاری طرف اور تمہارے ساتھ مل کر انہوں نے جہاد بھی کیا تو یہ لوگ تم میں سے ہیں ۔
! محترم قارئین
 غور فرمائیں کہ فتح مکہ کے بعد میں آنے والوں کے لئے بھی قرآن حکیم نے ہجرت کا اصطلاحی لفظ استعمال کیا ہے جس کو یہ سمرقندی اور بخارا کے لوگ فتح مکہ کے بعد جھوٹی حدیثوں کے ذریعے بند کرنا چاہتے ہیں ۔ اس سے سمجھ لینا چاہئیے کہ یہ اپنی حدیثوں سے قرآن کی کیسی تشریح اور تفسیر کرتے ہیں ۔

 یہاں تو قرآن کا رخ ایک طرف نظر آرہا ہے اور حدیثوں کا رخ اس کے الٹ دوسری طرف نظر آرہا ہے اور مسلمانوں کی اولاد کو جو دینیات دینی مدارس میں پڑھائی جاتی ہے اس میں درس نظامی کے اندر یہ خلاف قرآن حدیثیں تو داخل نصاب ہیں لیکن خود قرآن خارج ازنصاب ہے اور جب سے وفاق المدارس عربیہ پاکستان نے درس نظامی میں قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھنے کو نتھی کردیا ہے اس لئے کہ گورنمنٹ سے ایم ۔اے۔ کے برابر ڈگری حاصل کی جا سکے تو اس میں تفسیر القرآن بالقرآن جو تصریف آیات قرآن کی بتائی ہوئی تعلیم قرآن کا طریقہ ہے اسے قرآن فہمی کا ذریعہ تسلیم نہیں کیا گیا ہے ۔
یعنی وفاق المدارس والوں نے بھی صرف اعتراض کو ٹالنے کی حد تک ترجمۃ القرآن کا پڑھنا قبول کیا ہے اور ساتھ ساتھ ان کے ہاں وہ تفاسیر زیر مطالعہ ہیں جو قرآن کی معنوی تحریف کی خاطر تفسیر بالاحادیث کے طور پر لکھی گئی ہیں اور اس وقت بھی مدارس دینیہ میں فقہ کا جو نصاب پڑھایا جاتا ہے وہ بھی فقہ الحدیث ہے جو حدیثیں قرآن دشمنی کے نظریہ پر گھڑی گئی ہیں تو جیسا دودھ ویسا ہی مکھن ۔

 لیکن قرآن حکیم سے فقہی جزئیات کا استنباط
وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ 
(42:38)
اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔ اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں۔ اور جو مال ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
 أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ
 کے مطابق اپنی ملکی پارلیمنٹ سے بنوانے کی بات نہیں کرتے اس لئے کہ اس سے ان کی مذہبی اجارہ داری خطرہ میں پڑ تی ہے۔

: خلاصہ
 یہ ہے کہ موجودہ مدارس جو جملہ عالم اسلام ( پاکستا ن ، ہندوستان ، بنگلہ دیش ، انڈونیشیا ، مصر و سعودی عرب اور دیگر علاقہ جات )میں ہیں ان سب میں قرآن دشمن روایات اور قرآن دشمن فقہ بنام اسلامی علوم کے پڑھائے جارہے ہیں ۔ اس المیہ کی ابتدا ہلاکو کے حملہ کے بعد سے ہوتی ہے ۔
 میں نے پاکستان کے محکمہ تعلیم کی اعلیٰ انتظامیہ سے کہا کہ تم لوگوں نے درس نظامی جو قرآن دشمنی کے طور پر ترتیب دیا ہوا ہے اس کے پڑھنے والوں کو ایم اے اسلامیات کی ڈگری کے طور پر تسلیم کیا ہوا ہے تو انہوں نے کہا کہ اس قرآن دشمنی کا ثبوت پیش کرو۔
میں نے کہا کہ اس کے ثبوت میں میری کتابیں بطور ایف آئی آر ہیں تو انہوں نے کہا کہ آپ کی کتابیں سندھی میں ہیں جو نصاب ساز ممبر نہیں پڑھ سکیں گے ۔
 لہٰذا اب ملک کی نصاب ساز اتھارٹی کے سامنے درس نظامی کے غیر اسلامی اور قرآن مخالف ہونے کے ثبوت میں میری یہ کتاب اردو زبان میں پیش خدمت ہے۔

از قلم : عزیزاللہ بوھیو

1 comment:

  1. کیا ہوا رانا صاحب ، میرا جواب یہاں نشر کیوں نہں کر رہے ہیں ؟

    ReplyDelete