Tuesday, January 15, 2013

معجزات قرآن کے نقطۂ نظر سے



معجزات قرآن کے نقطۂ نظر سے


امام الہند ابوالکلام آزاد نے فرمایا:

مدّتوں غور کرنے کے بعد یہ حقیقت کھلی کہ امّت اسلامیہ کے تمام مفاسد کی اصلی جڑد وہی چیزیں ہیں جن کو یونانیت اور عجمیت سے تعبیر کرنا چاہیے۔ سارے برگ وبار وثمراتِ فساد کو انہی سے ظہور ونموہوا۔ آج ہمارے مدارس میں جو علوم بہ اسم اصل واساس علوم شرعیہ پڑھائے جاتے ہیں ۔ اگر کسی صاحبِ حکمت کی نظرِ کیمیاوی ان کی تحلیل وتفرید کرے تو کھل جائے کہ کس قدر حصہ ان کا شریعت اصلیہ اور دین خالص سے مرکب ہے اور کس قدر اس فتنہ عالم آشوب یونانیت وعجمیت سے، کوئی شئے اس سے نہ بچی۔ حتّیٰ کہ علومِ الٰہیہ وبلاغت وبیان اور عملاً جزئیات اعمال ورسوم وہئیات معاشرت وغیرذ الک جب یہ حال علوم شرعیہ بلکہ نام نہاد اصولیہ کا ہے تو پھر ان اساطیرو اوہام کا کیا پوچھنا؟جن کو بہ لقب شریف معقولات پکارا جاتا ہے۔ وان من العلم جھلاً
ان کا سرمایہ ناز علم حق نہیں ہے جو تفرقہ مٹاتا اور اتباع سبل متفرقہ کی جگہ ایک ہی صراط مستقیم پر چلاتا ہے، بلکہ یکسر جدل وخلاف ہے ،نفس پرستی اس کی کثافت کو خمیر کردیتی ہے اور دنیا طلبی کی آگ اس کی ناپاکی کے بخارات کو اور تیز کرتی رہتی ہے۔
(
تذکرہ امام الہند)

سانپ اور بچھو ایک سوراخ میں جمع ہوجائیں گے علمائے دنیا پرست کبھی یکجا اکٹھے نہ ہوں گے، کتّوں کا مجمع ویسے تو خاموش رہتا ہے لیکن ادھر قصائ نے ہڈی پھینکی اور ادھر ان کے پنجے تیز اور دانت زہر آلود ہوگئے۔ یہی حال ان سگان دنیا کا ہے۔ ساری باتوں میں متفق ہوسکتے ہیں لیکن دنیا کی ہڈی جہاں سڑ رہی ہو وہاں پہنچ کر اپنے پنجوں اور دانتوں پر قابو نہیں رکھ سکتے۔ ۔ فساق وفجار خرابات میں بھائیوں کی طرح ایک دوسرے کا جام تندرستی پیتے ہیں۔ چور اور ڈاکو مل جل کر راہ زنی کرتے ہیں مگر یہ گروہ !خداکی مسجد اور زہد وعبادت کے صومعہ وخانقاہ میں بیٹھ کر بھی متحد ویکدل نہیں ہوسکتا، ہمیشہ ایک دوسرے کو درندوں کی طرح چیر تا پھاڑتا اور پنجے مارتا ہے۔ مئے کدوں میں محبت کے ترانے اور پیار والفت کی باتیں سننے میں آجاتی ہیں، مگر عین محراب کے نیچے پیشوائ امامت کے لیے ان میں سے ہر ایک کا ہاتھ دوسرے کی گردن پر پڑتا اورخونخواری کی ہرآنکھ دوسرے بھائی کے خون پر لگی ہوتی ہے۔حضرت مسیح نے احبارِ یہود سے فرمایا تھا تم نے داؤد کے گھر کو ڈاکوؤں کا بھٹ بنا دیا ہے۔ ڈاکوؤں کے بھٹ کا حال تو معلوم نہیں لیکن ہم نے مسجد کے صحن میں بھیڑیوں کو ایک دوسرے پر غرّاتے اور خوں آشام دانت مارتے دیکھا ہے۔
(
تذکرہ صفحہ۸۴-۸۳)
امام الہند ابوالکلام آزاد

سید نا عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:

سید نا عیسیٰ علیہ السلام
وہ ہیکل کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوجاتے اور ایک بے باک اور حق گو پیغامبرِ انقلاب کی طرح ان سے پوری جرأت کے ساتھ کہتے :
اے ریاکار فقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس ہے کہ ایک مریدکرنے کے لیے تری اور خشکی کا دورہ کرتے ہو، اور جب وہ مرید ہوچکتاہے تو اسے اپنے سے دونا جہنم کا فرزند بنادیتے ہو۔
اے اندھے راہ بتانے والو!تم پر افسوس ہے جو کہتے ہوکہ اگر کوئی مقدس کی قسم کھائے تو کچھ بات نہیں لیکن اگروہ مقدس کے سونے کی قسم کھائے تو اس کا پابند ہوگا۔ اے احمقو اور اندھو! کو ن سا بڑا ہے، سونا یا وہ مقدس جس نے سونے کو مقدّس کیا؟
اے ریا کار فقیہواور فریسیو! تم پر افسوس ہے کو پودینے اور سونف اور زیرے پر دھمکی دیتے ہو اور تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف، رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے۔۔۔ اے اندھے راہ بتانے والو! جو مچھر کو تو چھانتے ہو اور اونٹ نگل جاتے ہو۔
کبھی ان سے کہتے:
اے ریا کار فقیہواور فریسیو! افسوس ہے کہ تم سفیدی پھری قبروں کی مانندہو۔ جو اوپر سے تو خوبصورت دکھائی دیتی ہیں مگر اندرمُردوں کی ہڈیوں اور ہر قسم کی نجاست سے بھری ہوئ ہیں اسی طرح تم بھی ظاہر میں تو لوگوں کو راست باز دکھائ دیتے ہو مگر باطن میں ریا کاری اور بے دینی سے بھرے ہوئے ہو۔۔ اے سانپو! اے افعیٰ کے بچو! تم جہنم کی سزا سے کیو ں کر بچوگے۔
انجیل مقدس (باب۲۳ آیات ۱-۳۶)
اور وہ کبھی اپنے متبعین کو متنبہ کرتے کہ:
دیکھو یہ فقیہ اور فریسی جو موسیٰ کی گدّی پر بیٹھے ہیں جو کچھ وہ بتائیں وہ سب کرو اور مانو، لیکن ان کے سے کام نہ کرو۔۔ وہ اپنے سب کام لوگوں کو دکھانے کے لیے کرتے ہیں۔ وہ اپنے بڑے تعویذ بناتے ہیں اور وہ اپنی پوشاک کے کنارے چوڑے رکھتے ہیں ضیا فتوں میں صدر نشینی اور عبادت خانوں میں اعلیٰ درجے کی کرسیاں اور بازاروں میں سلام لینا اور رِبّی کہلانا پسند کرتے ہیں۔
انجیل (باب ۲۳ آیات ۱-۳۶)

پرویز سولنگی صاحب کا خط
محترم جناب عزیزاﷲ بوہیوصاحب

السلام علیکم

جناب عالی میں راقم پرویز سولنگی، سندھ یونیورسٹی میں ایم اے انگلش کا طالب علم ہوں میں نے آپ کی چند کتابوں کا مطالعہ کیا۔ اطمنان حاصل ہوا اور ذہن تسلیم کرنے لگا کہ اسلام و قرآن واقعۃً ایک عقل و فہم پر مبنی فلسفے کا حامل دین ہے، اس کی اپنی ایک منطق اور معقولیت ہے، اس کے باوجود قرآن سے وابستہ معجزات مثلاَ حضرت موسیٰ کا اپنی قوم سمیت بذریعہ لاٹھی سمندرسے راستہ لینا پھر اسی جگہ سے فرعون کا لشکر سمیت غرق ہونا، چٹان پرلاٹھی مار کر بارہ چشمے نکالنا، یدِبیضا، عیسیٰ کابن باپ پیدا ہونا،ُ مردوں کو زندہ کرنا،جھولے میں جھولنے کی عمر میں بات کرنا، جناب محمد رسول اﷲ کامعراج پر جانا، چاند کو دوٹکڑے کرنا وغیرہ ، ان پر اگر وضاحت سے روشنی ڈالینگے تو مہربانی ہوگی۔

پرویز سولنگی

معجزہ کسے کہتے ہیں

معجزہ یہ صیغہ واحد مؤنث اسم فاعل ہے، اسکی معنی ہے عاجز بنانے والی کوئی شئے، کوئی بات اور چیز ہے، لفظ معجزہ کے صیغہ کے مادہ عجز یعجز کے حوالہ سے یا خلاصہ اور اصطلاحی مفہوم کے حوالہ سے معنی ہے کہ مافوق الفطرت یعنی قوانین سے ماورا، اور خرق عادت، یعنی ممکنات والی عادت کے برعکس کوئی ایسی غیرممکن اور غیر معتاد بات یا کام کرکے دکھانا، جو سامعین اور ناظرین کو ماننے کیلئے عاجز کردے، لاجواب بنادے، مجبور کردے، جسے عام لوگ عمل میں نہ لاسکیں، پورے قرآن حکیم میں انبیاء اور رسل علیہم السلام کے کارناموں اور سوانحی تعارف میں کسی بھی مقام پر انکی انقلابی فتوحات کے تذکروں کا تعارف لفظ معجزہ کے ساتھ نہیں کرایاگیا، چہ جائیکہ قرآن میں کئی نبیوں کے ایسے واقعات اور فتوحات کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔غیر قرآنی وہ مذہبی علوم ہیں جوکہ مسلم امت کو امامی اسکولوں کے روٹ سے دیئے گئے ہیں، جو فقہ وحدیث اور تفسیر بالروایات کے ناموں سے مذہب اسلام کی دینیات کے نام سے مشہور کئے ہوئے ہیں، معجزہ کا لفظ یا اصطلاح انبیاء علیہم السلام کی فتوحات اور ان کے کارناموں کے ساتھ ان امامی مذاہب کی طرف سے جوڑی گئی ہے،جو کام انہوں نے دشمنان دین اور دشمنان علم وحی کے مقابلہ میں سرانجام دئے تھے اﷲ نے قرآن میں فتوحات انبیاء کو یا اپنی طاقت کے استعمال کیلئے معجزات کے الفاظ سے کہیں بھی تعبیر نہیں کیا، مسلم امت کی میراث علم میں کئی ساری غیر قرآنی اور خلاف قرآن چیزیں چمٹائی اور نتھی کی ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک معجزات نامی چیز بھی ہے یعنی جس بات سے ناظرین اور سامعین کو عقلی اور ذہنی طور پر عاجز بنا کر ماؤف کرکے انہیں لاجواب کیا جائے۔ یعنی جب کہ اﷲ پاک نے انبیاء علیہم السلام کی فتوحات اور کارناموں کا بڑے تکرار کے ساتھ ذکر بھی کیا ہے پھر بھی کسی بھی مقام پر شق قمر کو، لڑائیوں میں نزول ملائکہ وغیرہ کو کہیں بھی معجزوں سے تعبیر نہیں فرمایا، تو بالآخر یہ کیوں؟

بلکہ جناب قارئین!
دشمنان انبیاء، دشمنان خداکوقرآن حکیم نے بارہ مرتبہ سے بھی زیادہ چیلنج کیا ہے کہ وماانتم بمعجزین فی الارض ولافی السماء (۲۲- ۲۹) یعنی تم اعداء دین میں کوئی دم نہیں ہے جو تم ہمارے سامنے آکر مجھ اﷲ اور میرے رسولوں کو عاجز بنا سکو،، اور دوسری طرف محترم قارئین! اﷲ عزوجل جبکہ ہر چیز پر قادر بھی ہے کسی کی مجال نہیں کہ اسکے سامنے کوئی دم مارسکے اور اﷲ چاہے تو ایک پل میں ساری کائنات کو عاجز اور معطل بھی کرسکتاہے، لیکن اسکے باوجود پورے قرآن میں اﷲ نے کسی ایک مقام پر بھی یہ نہیں فرمایا کہ میں اﷲ تمہیں عاجز بنا کر اپنی بات منواؤنگا، جب اﷲ نے اپنے کلام میں ایسی کوئی بات نہیں فرمائی اور مخالفوں کو کئی ساری وعیدیں سنانے کے باوجود انہیں عاجز بنا کر اپنی مدعا منوانے کی بات نہیں کی تو ایسے اﷲکیلئے یہ مشہور کرنا کہ وہ مخاطبین کے دماغوں کو مسمرائیز کرکے یا انکے سامنے انسانی سوچ سے بڑھ کر سمجھ اور عقل سے ماورائی حساب سے انسانی طاقت کے معمولات سے بالا بالاکرتب دکھا کر انہیں لاجواب کردیتا ہے یہ الزام ہے، یہ بغیر ثبوت کا بہتان ہے، مطلب کہ اﷲ نے اپنے انبیاء کے ہاتھوں کوئی غیر عقلی ذریعہ استعمال نہیں کرایا، انسانی حدود ،فکر وعمل سے بڑھ کر انکے ہاتھوں کوئی کرشمہ نہیں پیش کرایا، کوئی ناممکن العمل کرتب نبیوں کی جدوجہد و سرگذ شت میں استعمال نہیں کرایا۔

معجزہ کی تفہیم وتشریح کی روشنی میں اﷲ اپنی بات منوانے کا قائل نہیں ہے

اگر اﷲ عزوجل اپنا دین، انبیاء علیہم السلام کو معجزات کے سہارے منوانے اور سمجھانے کو درست سمجھتا تو قرآن حکیم میں چوبیس بار افلاتعقلون اور لعلکم تعقلون جیسی اپیلیں، یعنی عقل استعمال کرنے کی اپیلیں کیوں کرتا؟ معجزہ تو عقل کی نفی کرتا ہے، سوچنے کی نفی کرتاہے، قرآن میں اﷲ نے دعوت تفقہ دی ہے کہ انظرکیف نصرف الآیات لعلھم یفقھون(۶۵-۴۷) اور
ان فی ذالک لآیات لقوم یتفکرون (۳-۱۳) یعنی تدبر تفکر کی اپیلیں اور تاکیدیں کیوں کی جاتی؟ اور اگر اقتربت الساعۃ وانشق القمر کی معنی چاندکے دوٹکڑوں کا زمین پر نیچے آنامرادہوتا تو پھر ان غیر عقلی اور جبری مافوق العقل والفطرت کے کرتبوں سے قوانین قرآن کا منوانا مقصود ہوتا تو قرآن میں تفہیم آیات کیلئے پھر سیکڑوں بار قرآن کو نور یا مبین یا مفصل وغیرہ کے تعارف سے کیوں پیش کیا جاتا؟ جبر کے ڈنڈے سے، ذہنی و جسمانی ٹارچر سے آدمی اونٹ کو ہرن ماننے کیلئے بھی مجبور ہو سکتا ہے!

حقائق قرآن کے ثبوت کیلئے اﷲ نے معجزات دینے اور دکھانے کے بجائے عقلی دلائل کو کسوٹی قرار دیا ہے۔

قرآن کو خرق العادۃ اور مافوق الفطرت کرشموں سے اسلئے سمجھانا مقصود نہیں کہ ایسی مثال تو نبی کی زندگی تک محدود ہو کر رہ جاتی!اور روزانہ کسی مولوی کے ہاتھوں چاند کے ٹکڑے اور سمندر کے پھٹ جانے کی باتیں تو نہیں مانی جاسکتیں اور پھر بعد میں پیدا ہونے والے لوگوں کیلئے پرائی دیکھی ہوئی چیز کافی نہ ہوتی جب تک کہ وہ خود اپنی آنکھوں سے ایسے مشاہدے نہ کرلیں، اسلئے اﷲ نے حقائق قرآن کو سمجھانے اور انکی تفہیم کیلئے جواسلوب اختیار فرمایا وہ یہ ہے کہ واذا لم تأتھم باٰیۃ قالوا لولا اجتبیتھا، قل انما اتبع مایوحیٰ الیّ من ربی ھٰذا بصائر من ربکم وھدی ورحمۃ لقوم یؤمنون (۲۰۳-۷) یعنی اے نبی جب آپ لوگوں کے مطالبہ اور مرضی پر انہیں کوئی معجزہ نہیں دے رہے تو وہ کہتے ہیں کہ کیوں تو اپنی طرف سے ہی کوئی چیز گھڑکر کے نہیں دیتا ، تواﷲ نے اپنے رسول سے یہ جواب دلوایا کہ میں تو اس چیز کی تابعداری کرنے کا پابند ہوں جسے میرا رب میری طرف وحی فرمائے اور جہاں تک غیر فطری کرشموں اور کرتب بازی کی بات ہے تو جان لوکہ یہ قرآن ھٰذا بصائر من ربکم یہ تو عقل اور بصیرت پر مبنی ہدایت والی کتاب ہے صرف ان لوگوں کیلئے جو ایمان لانے والے ہوں، سو قرآن کو بصیرت افروز عقلی دلائل سے دنیا والوں کو سمجھانا ہے ، ہم چھومنتر کے قائل نہیں ، اسلئے اے میرے رسول دنیا والوں کیلئے اعلان کردے کہ ھٰذہٖ سبیلی ادعواالی اﷲعلی بصیرۃ اناومن اتبعنی وسبحٰن اﷲ وماانامن المشرکین(۱۰۸-۱۲) یعنی میری جوراہ ہے (تفہیم قرآن کیلئے) اﷲ کی طرف جو دعوت دیتا ہوں وہ دعوت بصیرت پر مبنی فکر وفلسفہ اور عقلی دلائل والی دعوت ہے صرف میں ہی کیا، جو بھی کوئی شخص میرا کہلائے تو اسکی شناخت کی نشانی بھی یہی ہے کہ وہ معجزات کے مقابلہ میں بصیرت والی فہم وفراست والی چیزوں کی دعوت دیگا، یعنی جو بصیرت کے مقابلہ میں عقل سے ماورائی خارق العادات کا پیروکار ہوتو وہ میرا نہیں ہے مافوق الفطرت چیزوں کو پسند کرنے والامیرا نہیں ہے، وہ آدمی کسی اور ہی غیر قرآنی علم کا تابعدارہے ۔جناب محترم قارئین! قرآن حکیم کی عبارات اور متن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام جناب مریم علیہا السلام حضرت ابراہیم علیہ السلامحضرت محمد الرسول اﷲ سے متعلق لازم ہے کہ ایسے جملہ قصوں(معجزوں) کو مین بیان کروں انکی اپنی لفظی معناؤں کی روشنی میںآپ کی خدمت میں انکے مفاہیم پیش کروں، لیکن قبل اسکے یہ واجب ہے اور لازم بنتا ہے کہ معجزات سے متعلق اﷲ کے نقطۂ نظر پر غور کیا جائے ، معجزات سے متعلق قرآن حکیم کے سمجھائے ہوئے موقف پر غور کیا جائے، پھر اسکے بعد جن قرآنی آیات سے معجزوں کے مفہوم اخذ کئے گئے ہیں ان ان آیات کو اﷲ کے سمجھائے ہوئے نقطۂ نظر اور قرآنی موقف کی کسوٹی کی روشنی میں متعین کیا جائے اسکے لئے ضروری بنتا ہے کہ قرآن حکیم سے معجزات کے متعلق اسکی ہدایات اور رہنمائی حاصل کریں۔

جب اﷲ نے آیات کو کھول کھول کربیان کیا ہے
تو اب معجزہ کیونکر؟

وقال الذین لایعلمون لولایکلمنا اﷲ اوتأتینا آیۃ کذالک قال الذین من قبلھم مثل قولھم تشابھت قلوبھم قدبینا الایات لقوم یؤمنون(۱۱۸-۲) محترم قارئین! اس آیت میں سمجھایا گیا ہے کہ جن لوگوں نے انکے ساتھ براہ راست اﷲ کے کلام کرنے کے معجزہ کامطالبہ کیا ہے وہ لوگ جاہل تھے لاعلم تھے لایعلمون تھے اسکا مطلب یہ بھی ہواکہ اسطرح کا مطالبہ اہل علم کے شان سے نہیں ہوتا، بہرحال اﷲ نے انکے مطالبہ کے حوالے سے فرمایا کہ اسی طرح کا مطالبہ ان سے پہلے والے لوگوں نے بھی کیا تھا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جیسے اگلے پچھلوں کے دل آپس میں مشابہ ہیں جیسے اگلے نااہل ویسے یہ معجزہ طلب کرنے والے پچھلے بھی، تو انکے جواب میں اﷲ نے فرمایا کہ تم جو اﷲ سے براہ راست کلام کرنے کا مطالبہ کررہے ہو، اب ایسے کلام کی گنجائش ہی کیارہی جبکہ ہم نے اپنی آیات کو نکھار کر کھول کھول کر بیان کردیا ہے۔ ہاں البتہ یہ بات ضروری ہے کہ ہمارا بیان تو اصحاب یقین لوگوں کیلئے ہے۔ محترم قارئین! قرآن حکیم نے معجزوں کی اہمیت اور ضرورت کو یہ فرماکر رد کردیا کہ جب کوئی کلام، کوئی علمی مسئلہ کوئی حقیقت کھول کربیان کی جائے اور اسے اہل یقین لوگ قبول کرلیں تو اسکے بعدتذبذب میں رہنے والے وہمی لوگوں کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے جو ان کو معجزات دینے، دکھانے کے ذریعے سمجھایا جائے، آگے پھر اﷲ نے ایسے وہمی اورباتونی ذہنی مریضوں کے متعلق فرمایا کہ وان یروکل آیۃ لایؤمنون ابھاحتی اذاجاؤک یجاد لونک یقول الذین کفروا ان ھٰذا الا اساطیر الاولین (۳۵-۶)۔
خلاصہ
اگر یہ لوگ ساری کی ساری (مطمئن کرنے والی معجزاتی نشانیاں دیکھ بھی لیں اسکے باوجود ان پر ایمان نہیں لائینگے، اس حدتک (یہ لوگ خبطی ہیں جو) تیرے ہاں آکر بھی تجھ سے جھگڑا کرینگے جو لوگ کافرہیں وہ کہیں گے کہ یہ تو پہلے زمانے کے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ (خلاصہ ختم)

تفھیم قرآن کے لیے معجزوں کو اہمیت دینا یہ جاہلوں کی سوچ ہے

ولواننا انزلنا الیھم الملائکۃ وکلمہم الموتی وحشرنا علیھم کل شیء قبلاماکانوا لیؤمنوا الاان یشاء اﷲ ولٰکن اکثر ھم یجھلون(۱۱۱-۶)
خلاصہ
یہ پکی حقیقت ہے کہ اگر ہم انکی طرف فرشتوں کو بھی نازل کرتے اور مرے ہوئے لوگ انکے ساتھ باتیں کرنے لگ جاتے اور جہان کی ساری اشیاء انکے سامنے لاکر پیش بھی کریں جب بھی یہ لوگ ایمان لانے والے نہ ہونگے الا ماشاء اﷲ اگر کوئی اکاد کا ایمان لے آئے تووہ اور بات ہے لیکن (ایسا مطالبہ کرنے والوں کی) اکثریت جہل میں ڈوبے ہوئے لوگوں کی ہے،(خلاصہ ختم)میرے خیال میں اس آیت کریمہ میں معجزوں پر یقین رکھنے والوں کی ذہنیت کو قرآن حکیم نے ایسا الٹراساؤنڈ کردیا ہے کہ معجزوں کی ضرورت اور اہمیت پر مزید کچھ لکھنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی، پھر بھی اس حقیقت کو مزید کھولنے کے لیے، معجزہ پرست لوگوں کو سمجھانے کے لیے، میں جو اپنی طرف سے کوئی نوٹ لکھوں، اس سے تو اچھا ہوگا کہ اﷲ کی پناہ میں آتے ہوئے ان ری ایکشنری خبطیوں کے واویلا کے جواب میں قرآن ہی کو پیش کریں جو انکے مزاجوں کو بھاتابھی نہیں ہے لیکن کیا کریں کہ ہمارے ہاں بھی قرآن کی فلاسفی کے مقابلہ میں آتش پر ستوں کی شکست خوردہ امام مافیاکے قرآن دشمن توہم پرست علوم کی بھی کوئی عقلی حیثیت نہیں ہے سو ایسے جاہلانہ روایت پرستوں کی معجزہ پرستی والی ذہنیت پر قرآن حکیم کی فائرنگ ملاحظہ فرمائیں، وقالو الن نومن لک حتی تفجر لنامن الارض ینبوعا اوتکون لک جنۃ من نخیل وعنب فتفجر الانھار تفجیرا۔ اوتسقط السماء کمازعمت علینا کسفا اوتاتی بااﷲ والملائکۃ قبیلا۔ اویکون لک بیت من زخرف اوترقی فی السماء ولن نؤمن لرقیک حتی تنزل علینا کتابا، خلاصہ (قرآن کو مفصل ہونے کے بجائے مبہم اور تصریف آیات کے ذریعے تفہیم قرآن کے منکروں اور کافروں نے) کہا کہ ہم تجھ پرہر گز ایمان نہیں لائینگے اجب تک توزمین کو چیر کر اس سے ہمارے لئے چشمے نہیں جاری کرتا۔ یا تو تیرے پاس کھجوروں اور انگوروں کے باغات ہوں جنکے بیچ میں نہریں کھلتی ہوں۔ یا جیسے کہ آپکا زعم ہے کہ (تسقط علیہم کسفامن السماء) آسمان کی کھال ہٹائی جائیگی تو گر اؤآسمان کے پردوں کو۔ یا اﷲ اور اسکے ملائکوں کو سامنے لاکر پیش کرو۔ یا تو تیرے محلات ہوں سونے سے بنے ہوئے یا تو تیرے لئے آسمانوں میں چڑھ کرجانے کی کوئی سیڑھیاں اور لفٹیں ہوں۔ اور تیری اسطرح سیڑھیوں اور لفٹوں پر چڑھ کر جانے کی بات کوبھی قبول نہیں کرینگے جب تک وہاں سے کوئی بنا بنایا کتاب نہ لے آئے جسے ہم پڑھ کر دیکھیں،

جناب قارئین!
دیکھا آپنے ان قرآن دشمنوں کی فرمائشوں کو جو رسول اﷲ کو آرڈر دیتے ہیں کہ آپکو جب مانینگے جب آپ آسمانوں پر معراج کرکے آئیں اور وہان سے کتاب لے آئیں اس آیت میں ہے کہ رسول اﷲ نے اپنے زمانے کے قرآن دشمنوں کے آسمان پر چڑھ کر جانے کا مطالبہ کرنے والوں کے جواب میں فرمایا کہ میں تو بشر انسان رسول ہوں میں کسطرح آسمان پر چڑھ سکوں گا، لیکن زمانہ رسالت کے بعد جس دور میں فن حدیث سازی ایجاد کیا جارہاتھااس دور کے کاریگروں نے اس آیت کی بھی پرواہ نہیں کی کہ انسان آسمان کو عبورکرکے ملاء اعلیٰ تک نہیں جاسکتا، اور ٹھک سے کئی ساری حدیثیں بنا ڈالیں کہ رسول اﷲ وہاں تک اوپر گئے جس جگہ جبریل بہی نہ جاسکا اور اﷲ سے ملاقات کے لئے نشانی اور ثبوت کے لئے۔ پچاس میں سے پینتا لیس کم پانچ نمازیں تو ہماری تسکین موروثی کیلئے لے آئے سیڑھی کے ذریعے ااسمانوں پر نہیں چڑھے تو کیا ہوا برق کی سواری پر تشریف لے گئے تو اﷲ عزوجل نے ایسی جملہ فرمائشوں کا جواب بتانے کیلئے رسول اﷲ کو قرآنی حدیث سکھائی کہ قل سبحان ربی ھل کنت الا بشرارسولا۔ یعنی کہدے اے میرے رسول! کہ (تمہاری ایسی خرافاتی فرمائشوں سے) میری پرورش کرنے والے رب کی ذات پاک ہے تمہارے فرمائشیں مجھ سے تو پوری نہیں ہونگی اسلئے کہ میں ایک انسان اور بشر رسول ہوں، یعنی آسمان پر اگرجس جگہ جبریل جیسا رسول فرشتہ نہیں جاسکتا تو میں بشر رسول کیسے جا سکتا ہوں، اس آیت کے جواب کا مطلب ہے کہ مطالبات ایسے ہونے چاہییں جو کم سے کم انسانوں کے کرنے جیسے تو ہوں، محترم قارئین! اﷲ نے قرآن کو احسن الحدیث کتاب کہکر نازل کیا ہے (۳۲-۳۹) یعنی حسین ترین حدیثوں والی کتاب کی یہ آیت (۹۴-۱۷) بھی ایک قرآنی حدیث ہے جو اﷲ کی اپنے رسول کو پڑھائی اور سکھائی ہوئی حدیث ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود بڑی عجب کی بات ہے افسوس کی بات ہے جو امت مسلمہ کے عالم نما جاہل لوگ قرآنی حدیث کے مقابلہ میں اہل فارس کے آتش پر ستوں کی حدیث ساز مافیاکی بنائی ہوئی معراج نامی جھوٹی قرآن مخالف حدیثوں پر اعتبار کئے ہوئے ہیں اس معاملہ میں اﷲ جل وعلیٰ کے رمارکس کو بھی قرآن سے معلوم نہیں کررہے جو وہ معجزات کے مطالبات کرنے والے لوگوں کو لایعلمون (۱۱۸-۲) سے متعارف کرارہاہے یعنی انجان اور جاہل اور سورۃ انعام میں ان ہی معجزات کے شائقین کو اﷲ نے بتایا کہ ولٰکن اکثر ھم یجھلوں(۱۱۱-۶) یعنی انکی اکثریت جھل پھیلانے والی ہے جاہلانہ کلچر رائج کرنے والے ہیں، افسوس ہے کہ لوگوں کی ،مولویوں کی، اﷲ کی شان و عظمت اور بے پرواہی کی طرف توجہ کیوں نہیں جاتی، اسکی بارگاہ عالیہ میں ہم ملامولویوں کی کیا مجال ہے، آؤ! اﷲ کا انداز خطاب کائنات کے نہایت بڑے آدمی جناب محمد سلام علیہ سے تو ملاخطہ کرو، خطاب ہے کہ وان کان کبر علیک اعراضھم فان استطعت ان تبتغی نفقافی الارض اوسلما فی السماء فتاتیھم باٰیۃ ولو شاء لجمعھم علی الھدیٰ فلاتکونن من الجاھلین۔(۳۵-۶)

جناب قارئین!
قرآن کے خطاب والے الفاظ میں کیا تو استغنا اور جلال ہے کہ اے محمد! اگر لوگوں کا انہیں کوئی معجزہ نہ ملنے کی وجہ سے منہ موڑنا، تجھے بڑا بھاری محسوس ہوتا ہے(تو کوئی بات نہیں) اگر تو طاقت رکھتاہے کسی معجزہ دکھا نے کیلئے تو زمین میں کوئی سرنگ لگاؤ! یا آسمان پر چڑھنے کیلئے معجزہ دکھانے کیلئے سیڑہی کا نتظام کرو پھر نیچے سے یا اوپر سے انہیں کوئی آیت (نشانی اور معجزہ) لاکر دکھاؤ!، اے محمد! حقیقت یہ ہے کہ اﷲ کا قانون مشیت اگر چاہتا تو یہ لوگ ہدایت پر جمع ہوجاتے لیکن یہ لوگ میرے اس قانون کی تقاضوں پر پورے نہیں آرہے اسلئے قانون کے تقاضے مقدم ہیں فلاتکونن من الجاھلین (۳۵-۶) قانون کو باء پاس کرنا جاہلوں کا کام ہے معجزات نہ ملنے سے لوگوں کے منہ موڑ کرچلے جانے والوں کی پرواہ کرنا یہ جاہلانہ رویہ ہے آپ انمیں سے نہ بنیں، لوگو! میں بار بار عرض کرتاہوں کہ اس آیت میں قانون کو باء پاس کرنے پر اﷲ کا اپنے رسول کے ساتھ قانون کی حفاظت کیلئے خطاب کے اندر جلال الٰہی کو تو غور سے سمجھو، فلاتکونن من الجاھلین، محمد توکتنابھی بڑا آدمی ہے، لیکن اﷲ کا قانون سب سے اعلیٰ اور ارفع ہے۔

معجزہ مانگنے والوں کو کہو کہ اگر تمہیں معجزہ دیا گیا تو تم راکھ ہوجاؤگے۔

وقالو الولا انزل علیہ ملک ولو انزلنا ملکا لقضی الامرثم لاینظروں(۸-۶) (خلاصہ) لوگ سوال کرتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے؟ اگر سچا رسول ہوتا تو اسکا ٹھاٹھ بنانے کیلئے کوئی ملائک باڈی گارڈ ساتھ ہوتا وغیرہ، اﷲ نے جواب میں فرمایا کہ اگر ہم رسول کے ساتھ کوئی ملائک اردلی بناکر بھیجتے تو کم سے کم تمہیں تو راکھ کا ڈھیر کر دیتا اتنا آنافانا جو تمہیں مہلت ہی نہ ملتی آنکھ جھپک میں تمہاری تو حیاتی ٹھپ ہوجاتی، محترم قارئین! اس آیت کریمہ میں معجزہ کے مطالبہ کا جو جواب قرآن حکیم نے دیا ہے اس سے معجزہ کا مفھوم واضح ہوجاتا ہے جو یہ ہے کہ اﷲ کی ایسی آیت، اﷲ کی ایسی نشانی خاص کرکے رسول اﷲ کی حفاظت کہ اﷲ والاملائک، سواگر بفحواء قرآن اگر وہ ملائک رسول اﷲ کا باڈی گارڈ بنایا جاتا تو وہ ملائک تو دشمنان رسول کا کچومر نکال دیتا، معجزہ کی معنی عاجز بنانے والی چیز سو اﷲتودشمنوں کیلئے ایک اجل مقرر کئے ہوئے ہے اس اجل اور میعاد تک انہین انکے کاروہنوار میں خود مختار رکھنا ہے آزاد رکھنا ہے، انکومعطل یامجبور نہیں بنانا، اسلئے کہ کہیں وہ اﷲ کے سامنے یوم حساب میں عذر نہ کریں کہ اگر ہمیں مھلت مل جاتی قرآن اور رسول کی دعوت سمجھنے کیلئے موقعہ مل جاتا تو ہم ضرور ایمان لے آتے لیکن اے اﷲ آپنے ہمیں مہلت نہیں دی تو اب عذاب کیوں دے رہاہے؟ اسلئے سمجھنا چاہیے کہ معجزہ کی ہر پہلو والی معنی سے اﷲ معجزہ کو اپنے شان مالک یوم الدین کے خلاف سمجھتے ہوئے کسی دور میں بھی کسی نبی کیلئے ان جبری اور عقل کو ماؤف آنکھوں کو خیرہ کرنے والے کرتبوں کو اﷲ نے جاری نہیں کیا،لاگو نہیں کیا،پسند نہیں فرمایا میرے خیال میں اتنی گذارشات سے قارئین کے ذہنوں میں معجزہ کا مفہوم قرآن کی روشنی میں سمجھ شریف میں آگیا ہوگا، اب آگے ان واقعات سے متعلق گزارشات عرض کرتے ہیں جنہیں لوگوں نے مافوق الفطرت، خرق عادت معجزوں میں شمارکیا ہے۔

جناب موسیٰ علیہ السلام اور اسکی قوم کو دریا پار کرانے کیلئے قرآنی رہنمائی۔

جناب قارئین!
اس داستان میں مسلم امت کے حدیث ساز گروہ کے استاد تورات کے شارحین کا گروہ، اﷲ کے خوف سے نہ سہی لیکن اپنی علمی ریسرچ کی آنیسٹی سے اورحقائق کی بنیادوں پر کرامتوں اور معجزوں والی جڑتو معناؤں سے دست بردار ہو کر بحیر قلزم کی جغرافیائی مقامات کے مدوجزر کی کیفیات کی روشنی میں، اپنی پرانی روش والی غیر عقلی معجزاتی اکاذیب سے دست بردار ہو چکاہے، اب قرآن کے انکشاف واعلان والی بات انکے تورات میں بھی موجود ہے قرآن نے جو فرمایا کہ ولقد اوحینا الی موسیٰ ان اسر بعبادی فاضرب لھم طریقا فی البحریبسا لاتخاف درکا ولاتخشی(۷۷-۲۰) یعنی ہم نے بذریعہ وحی موسی کو حکم بھیجا کو سیر کراؤ میرے بندوں کو ایسی راہ کی طرف سے یہ سفر کروجو بحرکے خشک حصہ سے وہ راستہ نکلتاہے اور فرعون کے آپکو پہنچ جانے کا کوئی خوف نہ کرنا، ادھر توریت کے خروج والے حصہ باب ۱۴ میں ۲۱۔۲۲ آیات میں یہ بات لکھی گئی ہے کہ اﷲ نے رات کے اندر تیزپوربی ہواؤں سے سمندر کو پیچھے ہٹاکر خشک بنادیا جس سے وہ دوحصوں میں تقسیم ہوگیا اور بنی اسرائیل بیچ کے خشک راستہ سے دوسرے طرف جانکلے۔ میرے خیال میں قرآن کی آیت مذکورہ (۷۷-۲۰)کے ساتھ اگر سورت الدخان کی آیت نمبر ۲۴ کو ملاکر موسیٰ اور اسکی قوم کے دریا پار کرنے کی کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تویہ قصہ ایک نارمل حقیقت آسان سادی حقیقت کی طرح آسان العمل آسان الوقوع عقلی اور فطری طریقوں والا سمجھ میں آئیگا اور اسمیں کوئی بھی غیر عقلی معجزاتی چھومنتر والی بات نظر نہیں آئیگی، فرمان ہے کہ فاسر بعبادی لیلا انکم متبعون واترک البحر رھوا انھم جند مغرقون (۲۴-۴۴) یعنی میرے بندوں کو رات کے وقت لے جانا، تمہارا پیچھا بھی کیا جائیگا (لیکن انکی پرواہ نہ کرنا ہم پیچھا کرنے والے لشکر کو غرق دریا کر چھوڑینگے، اور دریا کو وہاں سے کراس کرنا واترک البحر رھوا، جدہر سے سمندر کی مدوجزر والی اتار اور چڑھاؤ والی کیفیت کی وجہ سے تمہارے وہاں سے جاتے وقت ٹھراء مد اور سکون کا وقت ہوگا یعنی پانی اتر چکا ہوگا اور جس وقت انہیں غلام بنانے والا فرعونی لشکر تمہارا پیچھا کرتے ہوئے اس دلدل میں گھسے گا تو اس دوران جوش اور جزر کی کیفیت آجائے گی جس سے وہ اپنے جملہ مارشل لا افسروں سمیت ڈوب جائے گا۔

جناب ان دو آیتوں میں سے پہلی آیت کے جملہ فاضرب لھم طریقافی البحر یبسا، کی معنی میں کوئی بھی خرق عادت غیر عقلی تکلفات والا مفہوم نہیں ہے، لفظ ضرب کی مشہور معنی تو مارناہے لیکن قرآن حکیم نے اس لفظ کو کئی ساری معناؤں کے لئے استعمال کیا ہے، انہیں کے کچھ مثال قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، ایک ہے الم ترکیف ضرب اﷲ مثلا کلمۃ طیبۃ کشجرۃطیبۃ۔ (۲۴-۱۴) یعنی کیا آپ نہیں جانتے کہ کسطرح تو اﷲنے بیان فرمایا کلمہ کی مثال کا ۔۔۔۔۔اس مقام پر ضرب کی معنی بیان کرناہوئی دوسرے مقام کو ملاخطہ فرمائیں یا ایھا الناس ضرب مثلا فاستمعوا لہ(۷۳-۱۴) یعنی اے لوگو بیان کیا جاتاہے ایک مثال پھر اسے سنو۔۔۔۔ اس مقام پر بھی ضرب کی معنی بیان کرنا ہوئی ایک اور مقام پر آیا ہے کہ ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن (۳۱-۲۴) یعنی عورتیں اپنی اپنی اوڑھنیاں اپنی چھاتیوں پر لپیٹ لیں۔۔۔۔ اس جگہ یضربن کی معنی لپیٹنا کی گئی، ایک اور مثال ملاخطہ فرمائیں و آخرون یضربون فی الارض یبتغون من فضل اﷲ (۲۰-۷۳) یعنی دوسر ے گروہ والے سفر کرتے ہیں زمین میں اﷲ کے فضل کی تلاش میں۔۔۔۔ یہاں ضرب کی معنی سفر کرنا ہوئی، اب آیت (۲۴-۴۴) میں جو فرمان ہے کہ واترک البحر رھوا، یعنی رھوا کے مقام سے سمندر کو کراس کرنا پار کرنا، تو لفظ الرھو کی معنی ہے کہ چلتے وقت آدمی کے دوپاؤں کو جتنا بھی زیادہ سے زیادہ پھیلاکر قدم آگے بڑھایا جائے تو ایسے وقت میں دوقدموں کے درمیانی فاصلہ کو رھوا کہاجاتا ہے جسکو سندھی زبان میں برانگھ کہا جاتا ہے، اس سے مطلب یہ بھی بنتا ہے کہ آپ جب سمندر میں رھوا کے مقام سے گذرینگے کراس کرینگے، اگر اس راستہ میں پانی کی کوئی نالیاں ہوئی بھی سہی تو وہ اتنی چوڑی نہیں ہونگی ان پر سے تو ہلکے چھلانگ سے بھی آدمی عبور کرکے پار ہوسکتا ہے، اب اس بات کو امریکن جیوز پبلیکیشن سوسائٹی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر لائسر سمین کے اعلان کہ بنی اسرائیل نے سمندر کو عبورنہیں کیا تھا بلکہ جناب موسی علیہ السلام اپنی قوم کو جس جگہ سے لے گئے تھے وہاں دلدل قسم کی ریتیلی زمین تھی انمیں نباتات بھی اگنے لگیں تھیں وہیں سے پار گیا تھا۔ یہ انکشاف امریکن یہودیوں کے شائع کردہ ترجمہ تورات ۱۹۶۲ء ؁ میں انہوں نے لکھی ہے،، اس سلسلہ کی یعنی عبوردریاکی دوسری آیت قرآن حکیم میں آئی کہ ،فاضرب لھم طریقا فی البحر یبسا یعنی اے موسیٰ ! سفر کر سمندر کا راستہ ڈھونڈنے کیلئے سوکھے حصہ سے، اب پورے قرآن میں موسی اور اسکی قوم کو دریا پار کرانے کی آیات میں یہ ثابت ہوا کہ ایک یہ کہ دریا کے سوکھے حصہ سے پارجانا دوسرا وترک البحر رھوا(۲۴-۴۴) یعنی دریا کے سکون کے وقت جب اسکی لہروں کا پانی مدوجز رکے معمول کے دوران نیچے چلاگیا ہوا اور اکادکا کسی تنگ سی نالی میں ہوتو ہوجو ہلکے چھلانگ سے بھی عبور کیا جاسکے وہاں سے گذر کرنا تیسری آیت ہے کہ واذفرقنا بکم البحر فانجینا کم واغرقنا آل فرعون وانتم تنظرون (۵۰-۲) اسکی معنی ہے کہ جب ہم نے تفریق کی سمندر کے موجوں میں جو مد اور جزر کے وقت موسی اور انکی قوم کو پار کیا اور موجوں کے جوش اور چڑھائی کے وقت فرعون اور اسکی آل کو ڈبودیا دوسری معنی فرقنا کی کہ دونوں گروہوں کے درمیان میں بحر بطور فرق تھا ایک گروہ ایک کنارے دوسرا گروہ دسرے کنارے پانچویں آیت میں کہ واوحینا الی موسیٰ ان اسربعبادی انتم متبعون(۵۲-۲۶)یعنی وحی کی ہم نے موسی کوکہ لے جا میرے بندوں کو تمہارا پیچھا کیا جانے والا ہے۔
اور آیت چھٹی نمبر (۶۳-۲۶) میں ہے کہ فاوحینا الی موسیٰ ان اضرب بعصاک البحر فانفلق فکان کل فرق کالطودالعظیم۔ یعنی وحی کی ہم نے موسیٰ کی طرف کہ سفر کر اپنے (ایک معنے) لاٹھی کے ساتھ (دوسری معنی) سفر کر سمجھائی ہوئی فہم وبصیرت کے ساتھ دریاء کا، بحرکا، (جوفہم تجھے بذریعہ وحی عطا کیا گیا ہے (۲۴-۴۴)(۷۷-۲۰) اس سفر میں جب موسیٰ بحرکے دوسرے کنارے اپنی قوم کو لیکر پہنچا تو فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت پہلے کنارے پر آکر پہنچا تو قرآن نے اس صورتحال کو فانفلق کے ساتھ تعبیر فرمایا ہے فلق کی معنی ہے پھٹ جانا چیر کر ایک چیز سے دوحصے ہوجانا تو، اس قصہ میں پہلے آقا فرعون اٰل فرعون اور غلام قوم بنی اسرائیل ایک تھے اب کی صورتحال میں اﷲجل شانہ بتا رہا ہے کہ وہ ایک جم غفیراب فانفلق پھٹ کر اور انقلابی تعلیم سے چیر کر دوحصوں میں بٹ گیا ہے، ایک حصہ بحرکے ایک کنارے پر ہے دوسرا حصہ دوسرا کنارے، ایک فریق کل کا غلام آج کا آزاد، دوسرا کل کا آقا آج کا مجرم ،اب اس کیفیت کو بھی قرآن فاتحانہ انداز میں غلاموں کے آزاد ہونے کی غمازی سے آقاؤں کے مقابلہ میں مزید طنز کر تے ہوئے غلاموں کی برابری کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتاہے کہ فکان کل فرق کا لطودالعظیم پھر یہ انکے دونوں گروہ دونوں فریق ایک بڑے جمے ہوئے پہاڑ کی طرح نظر آنے لگے، محترم قارئین اصل مسئلہ تو آیت(۷۷-۲۰) میں جملہ واضرب لھم طریقافی البحر یبسا، یعنی انکو بحر کے خشک راستہ سے سفر کرانا، اور دوسری آیت(۲۴-۴۴) میں واترک البحر رھوا یعنی دریا کو اسکے سکون کے عرصہ میں ہی جوش اور جزرکے آنے سے پہلے کراس کرادینا۔ ان دونوں آیتوں کی وضاحتوں کے بعد کسی بھی مشہور قسم کی جعلی معجزوں والی معنی کسی بھی آیت سے ثابت نہیں ہوتی اور جہاں تک اگر یہ بات کہی جائے کہ بحرکے پانی کو لاٹھی سے چیر نے والا معجزہ علم حدیث سے ملاہے تو ہماری عرض ہے کہ ایسی خلاف قرآن احادیث جناب رسول اﷲ کی فرمائی ہوئی نہ ہوں تو پھر دوسرے حدیث ساز لوگوں کا تو دھنداہی قرآن حکیم کو خلاف عقل اعجوبہ کے طور پر پیش کرنا ہے اور اسمیں بھی مقاصد قرآن کو پامال کرنا انکا مقصد ہے ،ان یہود ونصاریٰ اور اہل مجوس کے اتحاد ثلاثہ نے جورائج الوقت علم حدیث ایجاد کیا ہے اسکاتو مقصد ہی قرآن کی تردید کرنا ہے اور انکے علم روایات نے تو مسلم امت کو اب صرف نام کا مسلم رہنے دیا ہے اور جو مسلم لوگ دین اسلام سے باغی بنے ہیں ان تک توصرف حدیثوں والا اسلام پہنچاہے جبھی تو وہ اسلام سے بیزار ہورہے ہیں، قرآن والے اسلام کا تویہ حال ہے کہ وہ اپنی اپنی جگہوں پر ہاؤس اریسٹ ہے لاک اپ میں ہے اگر قارئین حضرات میری ان گذارشوں کو غلط سمجھتے ہوں تو لیجئے ابھی کے ابھی حدیثوں والے اسلام کو ملاخطہ فرمائیں! جناب عالیٰ قرآن حکیم کی آیت وجاوزناببنی اسرائیل البحر فاتبعھم فرعون وجنودہ بغیاوعدوا، حتی اذا ادرکہ الغرق قال اٰمنت انہ لاالٰہ الاالذی اٰمنت بہ بنواسرائیل وانامن المسلین۔(۹۰-۱۰) یعنی ہم نے بنی اسرائیل کوسمندر کراس کرایا تو فرعون اور اسکے لشکر والوں نے انکا پیچھا کیا،بغاوت اور عداوت کی نیت سے پھر جب وہ ڈوبنے کی حالت کو پہنچاتو کہنے لگا ایمان لاتاہوں کہ کوئی معبود نہیں ہے سوائے اس ذات کے جس پر کہ بنی اسرائیل جس پر ایمان لائی ہے اور اب میں اسے ماننے والوں میں سے ہوں،شاید اسی آیت کے حوالہ سے منصور حلاج یاصوفیا کے کسی اور خانوادے نے لکھ مارا ہے کہ فرعون جنت میں جائیگا، بہر حال قرآن فرماتا ہے کہ دربار ایزدی سے فرعون کو جواب دیا گیا کہ آلءٰن وقد عسیت قبل وکنت من المفسدین(۹۱-۱۰) یعنی ابھی ابھی تو، توبنی اسرائیل کو دوبارہ غلامی میں جکڑنے کیلئے آیا ہے اب اپنی غرقابی کو دیکھ کر بڑاپارسا بن گیا ہے کہ میں بنی اسرائیل والے اﷲ پر ایمان لاتاہوں، جاؤتم مفسدوں میں سے ہو تمہارے لئے تو اولائک لھم اللعنۃ ولھم سوء الدار(۲۵۔۱۳) پھٹکارہے مفسدوں پر اور براٹھکانا ہے انکا،

محترم قارئین!
اس آیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے آپ تفسیر ابن کثیر میں اسی مقام پراسنے ایک حدیث لائی ہے، اسے بھی پڑھ کردیکھیں جو یہ ہے کہ حضور نے فرمایا کہ جب مجھے اس واقعہ کی خبر جبرئیل علیہ السلام بتا رہا تھا تو’’ بولا کہ کاش جو آپ اس وقت موجود ہوتے اور دیکھتے کہ میں فرعون کے منہ میں کس طرح مٹی ڈال رہا تھا کہ کہیں اسکی استغفار پر اﷲ اسے بخش نہ دے،، اب اس حدیث کو آیت(۱۹-۱۰)کو پڑھنے کے بعد فوراً پڑھیں پھر یہ بھی سوچیں کہ جبرئیل صاحب کا ذہن اس حدیث سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ اسکو اﷲ پر اعتماد نہیں ہے کہ وہ مفسدین کو کوئی سزا دیگا اور وہ سوچتاہے کہ اﷲ مفسدین کی منت سماجت سے انہیں معاف کردیگا، جبکہ خود جبرئیل نے آیت(۹۱-۱۰) حضورتک پہنچائی بھی ہے اسکے باوجود بھی اﷲ پر مفسدین کیلئے نرم گوشہ رکھنے کا اندیشہ دکھا رہاہے، اور جبرئیل کے اس قصہ سے خود آیت کریمہ میں اﷲ کے فرعون سے متعلق مفسدہونے اور اسے مفسد قرار دینے کے فیصلہ اور نظریہ میں یہ والی حدیث شک ڈال رہی ہے یہ حدیث قرآن کا اور اﷲ کے بتائے ہوئے فرعون سے متعلق نظریہ (۹۱-۱۰) کارد کر رہی ہے، اب کوئی بتائے کہ علم حدیث قرآن کا کسطرح کی تفسیر کر رہا ہے، اور کیا آیت (۹۱-۱۰) والا اﷲ کافرعون کیلئے فیصلہ یہ جبرئیل کو راضی کرنے کیلئے اسکی منشأکو دیکھ کر کیا گیا ہے؟ اور اگر جبرئیل فرعون کے منہ میں مٹی نہ ڈالتا تو کیا اﷲ فرعون کی گڑگڑ اہٹ پر اسے بخش دیتا؟!!! اور آیت (۹۱-۱۰) جھوٹی قرار دی جاتی، یا اﷲ کا اپنے لئے یہ دائمی اصول اور فیصلہ کہ مایبدل القول لدیّ(۲۹-۵۰) میرے فیصلے بدلا نہیں کرتے، یہ آیت بھی اس حدیث سے جھوٹی ہوجاتی۔

محترم قارئین!
اگر قرآن کو سمجھنے کے بعد علم حدیث کو پڑھا جائیگا تو یہ حقیقت پڑھنے والوں پر کھل کرواضح ہوجائیگی کہ علم حدیث خاص اس خاطر وضع کیا گیا ہے کہ اسکے ذریعے قرآن کی فلاسفی کا رد کیا جائے، یہاں تک جناب سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب سمندرکو بیچ میں سے لاٹھی مارکر راستہ لے لینے والے معجزہ نامی مغلوطہ کی تشریح ختم کی جاتی ہے۔
جناب سید نا موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب معجزہ کہ اسنے پتھر کو لاٹھی مارکر پانی کے بارہ چشمے نکالے

جناب قارئین!
اس معجزہ نامی واقعہ کا ماخذ قرآن حکیم کی دوعدد آیتوں کو قرار دیا گیا ہے، لازم بنتا ہے کہ پہلے وہ دوآیتیں لکھ کر انکا ترجمہ اور مفہوم پیش کیا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کاپانی ہوجائے، پہلی آیت، واذا استسقیٰ موسیٰ لقومہ فقلنا اضرب بعصاک الحجر فانفجرت منہ اثنتا عشرۃ عینا قد علم کل اناس مشربھم(۲۰-۲) دوسرے مقام پر یہی بات اسطرح لائی گئی ہے کہ وقطعنا ھم اثنتی عشرۃ اسباطا امما واوحینا الی موسی اذا استسقاہ قومہ ان اضرب بعصاک الحجر فانبجست منہ اثیتا عشرۃ عینا قد علم کل اناس مشربھم وظللنا علیھم الغمام وانزلنا علیھم المن والسلویٰ کلوامن طیبات مارزقناکم وماظلمو نا ولٰکن کانو انفسھم یظلمون۔(۱۶۰-۷) ان دوآیتوں میں یہ جملہ مشترک ہے کہ جب پانی کی طلب کی موسیٰ نے اپنی قوم کیلئے یا ہم نے مددکی جب موسیٰ کی اسوقت جب اس سے پانی کی طلب کی اسکی قوم نے آگے حکم وحی کی عبارت دونوں جگہ ایک ہے اضرب بعصاک الحجر اسمقام پر ان لفظوں ضرب اور عصاکی معنوں کو انکی اپنی درست معنی ومفہوم میں سمجھنے کی ضرورت ہے آپ! آیت یا ایھاالذین آمنوا اذاضربتم فی سبیل اﷲ (۹۴-۴) میں ضربتم کی معنی سفر کرنا اﷲ کی زمین میں پڑھ چکے ہو، یہی واذا ضربوافی الارض اوکانو غزی لوکانواعندناماماتوا وماقتلو(۱۵۶-۳) اس آیت میں بھی ضربو فی الارض سفر کرنے کی معنی میں ضرب کا لفظ استعمال ہوا ہے مزید واذاضربتم فی الارض فاصابتکم مصیبۃ الموت(۱۰۶-۵) اس آیت کریمہ میں بھی ضرب بمعنی سفر کرنے کے آیاہے۔ اسکے لفظ عصاء کی اصل معنی ہے اجتماعیت اور مل جل کر اکٹھا ہوکر کوئی کام کرنا ہے، جسطرح سمندر کو پار کرنے کیلئے موسیٰ کو حکم دیا گیا کہ فاوحینا الی موسی ان اضرب بعصاک البحریعنی سفر کراپنی جماعت کے ساتھ اپنی جمعیت کے ساتھ، سفر کر اجتماعی صورت میں سمندر کا، (۶۳-۲۶) لاٹھی کو عربی زبان میں عصا کانام بھی اسلیے دیا گیا ہے کہ اسکو پکڑنے کیلئے انگلیوں کو مجتمع کرنا پڑتاہے اکٹھے کرنا پڑتا ہے انگلیوں کی اجتماعیت اور اکٹھے کرکے پکڑنے کے بغیر لاٹھی کو اٹھایا نہیں جاسکتا کام میں نہیں لایا جاسکتا، اسلئے لاٹھی کو عصا کانام دینے میں جمعیت اجتماعیت کا جسطرح تصور لازم ہے تو حکم قرآن کہ اضرب بعصاک الحجر کی معنی یہ بنی کہ اجتماعی جمعیت کے ساتھ زیرزمین پہاڑیوں تک کھدائی کرو، بحرحال یہاں عصا کی معنی ہوئی اجتماعی قوت،اب اسکے ساتھ اضرب کی معنی سفر کرنا اور مارنا یہ ایک ساتھ ان دونوں آیتوں میں معنے مراد لئے جائینگے ، سفر کرنے سے مراد زیر زمین پہاڑیوں کی جستجوہے مارنے والی معنی کا یہ مطلب ہوگا کہ زمین کی کھدائی کرنی ہے اس کیلئے آلات کے مارنے اور استعمال کرنے کے بعد زیر زمی پہاڑیوں تک پہنچا جاسکے گا، کیونکہ بالآخر یہودیوں کے بارہ قبیلوں کی تعداد کے برابر پانی کے چشمے تلاش کرکے دستیاب کرنے تھے اسلئے کہ یہودی قوم بھی سندھی قوم کی طرح واحیات ہے جنہیں ایک ساتھ اجتماعی شیرازہ بندی سے رہنا گوارہ نہیں ہوتاان دونوں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا سلیقہ نہیں ہے سندھ کے قومی شاعر استاد بخاری نے نظم کہی ہے کہ یہ لوگ جلادوں کو پیسے دیکر ایک دوسرے کو مرواتے ہیں اسلئے ان دونوں قوموں پر ذلت اورمسکنۃ کاعذاب مسلط ہے، بہرحال ہرقبیلہ کیلئے پانی کے چشموں کا جدا جدا انتظام لازمی تھا جو کہ ضرب اور عصا کے لفظوں میں اجتماعی جدوجہد اور جستجو کی جو مفہوم اور معنائیں پنہاں ہیں یہ ہدف ان معانی والی مساعی سے پورا ہو سکا ہے، میں نہایت شرمسارہوں کہ قرآن کی اجتماعیت اور معاشی مساوات والی فلاسفی کو دنیا والوں کو نہیں سمجھا سکا ہوں،

جناب قارئین!
فانفجرت منہ اثنتا عشرۃ عینا ۶۰/۲یہ زیر زمین پتھروں سے بارہ عدد چشمے نکالنا کوئی چھومنتر کا کرشمہ نہیں ہے اسکے لئے جو جدوجہد کرنی پڑی ہے اسکی ساری تفصیل لفظ ضرب اور عصا کی معنی ومفہوم میں پنہاں ہے لیکن اس قوم کو جن دشمنان انقلاب نے جدوجہد والے مزاج سے ہٹاکر کم چور سہل پسند کراماتی قوم بنادیا ہے یہ قوم قرآن کے حکم یا ایھاالذین آمنو انما الخمروالمیسر والانصاب والازلامرجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ لعلکم تفلحون ۵/۹۰ کی فلاسفی کو نہیں سمجھ پائی جن احکام میں اﷲ نے بغیر محنت والے مفت خوری کے جملہ ہتھکنڈوں کو حرام قرار دیاہے اور یہی فلاسفی ہے سود کو حرام قرار دینے کی کہ اپنی محنت کو سب کچھ سمجھو اور سود خوری سے محنتوں کا استحصال نہ کرو جو معاشرے استحصالی حربوں سے لوٹ مارکرینگے ایسی قوموں کے اندر جب محنت کرنیوالوں کو قوت لایموت سے بڑہکر کچھ نہیں ملیگا ایسی قومیں غلام ہوجائینگی، بکاؤمال ہوجائینگی ایسی قومیں اپنی موروثی دہرتیوں پر رہتے ہوئے بھی سامراج کی غلامی میں جکڑی ہوئی ہونگی، سو قرآن کے اندر جدوجہد کے عیوض جابجا کراماتی اور معجزاتی معناؤں کا مراد لینا یہ انقلاب دشمن قرآن مخالف سامراج کے لے پالک تنخواہ خورد انشوروں، کو جو شروع اسلام میں امامت کے نام سے امت مسلمہ کے اندر فٹ کرایا ہوا ہے یہ سب انکی ملاوٹوں علمی تلبیسات اور دھوکہ دہی کے شاخسانے ہیں جو ہم بھگت رہے ہیں، اب قرآن فھمی کیلئے اﷲ کے بتائے ہوئے اصول ولقد صرفنافی ھٰذا القرآن لیذکرو (۴۱-۱۷) یعنی قرآن کے سمجھائے ہوئے احکام اور مسائل کو پورے قرآن میں متفرق طور پر پھیلایا ہوا ہے انہیں آپ لوگ آپسمیں مذاکرات کے ذریعہ آپکو پیش آمدہ حاجات کے حل کیلئے ان سے رہنمائی حاصل کریں،

محترم قارئین!
میں چئلنج سے بھی دعوی کرتا ہوں کہ مذھب اسلام میں مشہور مروج جملہ امامی مذاہب کے مسلکی کتابوں کو کھول کھول کر پڑہیں کہیں بھی آپ انکی یہ سفارش اور ہدایت نہین دکھا سکینگے جس میں ان اماموں نے قرآن فہمی کیلئے قرآن کی سمجھائی ہوئی تصریف آیات والی ٹئکنالاجی سے قرآن کو سمجھنے کیلئے کہا ہویا لکھاہو، تو حکم قرآن اضرب معصاک الحجر سے دونوں مقامات پر معنی زیرزمین پتھریلے علائقوں میں کھدائی کے آلات کے ذریعہ پانی نکالنا ہے، مجھے زیارت، لورالائی، پیشین ، چمن، گلستان کے علازقوں کے رہنے والوں نے بتایا کہ ہم اپنے پتھریلے علائقہ میں زیرزمین چار چار سے پانچ پانچ سوچھ چھہ سؤ فٹ کی ڈرلنگ اور بورکرنے کے بعد پانی حاصل کرسکتے ہیں تو صحراء سینا جس جگہ جناب موسی علیہ السلام نے اپنی قوم کو لاکر بسایا تھا انکی زمینی قسم قندھار چمن اور زیارت کے صحراؤں سے کجھ تو ممارنل ہے چارسؤ نہ سہی ایک سؤ فوٹ کھدائی کی ہوگی، اگر معجزہ پرستوں کے خیال کے مطابق ان آیات (۱۶۰-۷) میں لفظ عصا کی معنی لکڑی والی لاٹھی مرادلی جائیگی تو ایسی ہزاروں لاٹھیاں موسی علیہ السلام پتھر پر پوری عمر مارتا رہتا تو پھر بھی اس سے پانی نکال نہ سکتا، افسوس یہ ہے کہ قرآن حکیم پڑہتے وقت اسپر غورنہیں کیا جاتا، اس واقعہ کو معجزہ بنانے والوں نے فانفجرت منہ اثنتا عشرۃ عینا، یعنی پھر پھوٹ پڑے پھتریلی زمین سے بارہ چشمے کو، مشہور اسطرح کیا ہے کو موسی نے ایک پتھر کو لاٹھی ماری تو اس ایک پتھر سے بارہ چشمے پھوٹ کرنکلے،

جناب قارئین!
آپنے سورۃ اعراف میں پڑہا ہے کہ وقطعنا ھم اثنتی عشر اسباطا امما(۱۲۰-۷) یعنی ہمنے ان بنی اسرائیل کو بارہ عدد نسلی قبیلوں میں بانٹا ہواتھا، تو قرآن حکیم کا یہ بتانا کہ ہمنے جب اضرب بعصاک الحجر کا حکم دیا تو اس سے بارہ چشمے پانی کے پھوٹ نکلے سو اگر یہ معجزہ ایک ہی مقام پر ایک پتھر کو لاٹھی مارنے سے بارہ چشمے پھوٹتے ہیں تو اس ایک مقام پر ایک ساتھ بارہ قبیلوں کے ڈہور ڈہنگر پانی کیسے پی سکینگے اور چوپایوں کی ضرورت کے علاوہ پانی کی دیگر ضروریات ایک ہی جگہ کے بارہ چشموں سے ان بارہ قبیلوں کے لاکھوں افراد کسطرح اور کہاں سماسکینگے۔ قرآن حکیم کے ان الفاظ پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کو قد علم کل اناس مشربھم، یعنی سب لوگون نے اپنے اپنے مشرب والے چشموں کو پہچان لیا تھا

جناب قارئین
اگر ایک پتھر سے بارہ چشموں والے معجزہ کو آپ صحیح مانینگے تو پھر ایک پتھر کو ہم اگر دو چار پایوں کے برابر پلاٹ دیں تو اتنی سی جگہ کے پتھر سے نکلنے والے بارہ چشموں کیلئے قرآن کا یہ فرمانا کہ بارہ قبیلو کے جملہ لوگوں نے اپنے اپنے حصہ کے مشرب کو پہچان لیاتھا (۱۲۰-۷) تو یہ اﷲ کی بارہ چشمے دینے کی عنایت تو فضول ثابت ہوئی اسلئے کہ اتنی سی محدود ٹکڑی میں چوپایوں اور بارہ نسلوں کے لوگون کا سماجانا محال ہے، قرآن کو سمجھ کر پڑہنے والے یہ حقیقت سمجھ سکتے ہیں کہ موسی بھی کوئی ایسا ویسا آدمی نہیں تھا اگر اسکے ہاتھوں اﷲ نے ایک پتھر سے بارہ چشمے نکالدینے کا معجزہ دیا تو موسی کو تو پتہ تھا کو وہ جب ایک فرعونی کو مصر میں قتل خطا کے بعد سزاسے بچنے کیلئے جلاوطن ہو کر مدین میں آیا تھا، اور وہاں ایک گاؤں کے لوگوں کے چوپائے شہر کے کنویں پر پانی کیلئے سما نہیں سکتے تھے اور وہاں اس دن موسی نے دیکھاتھا دوعورتیں جو اپنے چوپایوں کو پانی کی طرف آنے سے بار بار ہٹارہی ہیں اسلئے کہ وہ کمزور تھیں اور دوسرے لوگ اپنی طاقت کے بل بوتے اپنے ڈہنگروں کو پہلے پانی پلاتے تھے اور کمزور لڑکیوں کو باری ملنے میں شام ہوجاتی تھی، اور موسی اسے دیہاتی کلچر میں آٹھ دس سال رہا بھی تھا تو ایک جگہ پر بارہ چشموں پر کیسے وہ راضی رہ سکتا تھا جب کوئ قرآن پڑھے لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ موسیٰ انتہائ حساس نازک مزاجاچھا منتظم تھا جو تھوڑی سی غیر قانونی بات اور بدنظمی پر چڑجاتا تھا اور اپنے استاد سے بھی باز پرس شروع کر لیتا تھا کہ یہ محنت کش غریب لوگوں کی کشتی کے تختے کیوں توڑرہے ہو؟،اور یہ کسی بے قصور بے گناہ لڑکے کاقتل کیوں کردیا؟ اور جس بستی کے لوگوں نے ہمیں بھوک میں روٹی نہیں کھلائ ایسے بے مروت لوگوں کے گھر کی گرتی ہوئی دیوار کو کیوں دوبارہ چن رہے ہو؟ یہ اس مزاج والا، نہایت ہی اعلیٰ قسم کا منتظم آدمی تواﷲ سے ضرور عرض کرتا کہ مجھے ایسے دوسرے گیارہ عدد معجزے اورعطا کر جو قبیلوں کی آبادی کے لحاظ سے میلوں کو سوں دور تک انکے لئے پتھروں کو لاٹھیاں مار مار کر چشمے نکالوں ، اس ایک جگہ کی تنگ ایراضی کے بارہ چشموں پر وہ سمانہ سکینگے اور آپس میں لڑمرینگے،

محترم قارئین!
میں اس مضمون کے اختتام کے وقت آپکی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں کو خلاف قرآن جو امامی علوم مخالفین انقلاب رسالت نے روایت سازی اور انکے ماتحت قرآن کا تفسیر بالروایات اور فقھی مسالک ایجاد کئے یہ جملہ کے جملہ قرآن کے علوم کو راستہ سے ہٹانے کیلئے کرامتوں اور معجزوں کی رشوتوں کی آڑمیں کئے گئے ہیں، تاکہ لوگ معجزاتی فضائل کے خول میں بند رہیں اور قرآن کی عقل کیلئے ترقی دینے والی مھمیزوں سے فائدہ نہ اٹھا سکیں، آج پوری دنیا اور مغربی ممالک کی قوموں نے جو قرآن کے سکھائے ہوئے علوم عقلی سے ترقی کرکے الم تروا ان اﷲ سخرلکم مافی السماوات ومافی الارض واسبغ علیکم نعمہٗ ظاھرۃ وباطنہ(۲۰-۳۱) یعنی کیا تم لوگ یہ نہیں جانتے کہ اﷲ نے تمہارے لئے آسمانوں اور زمیں کے مابین والی اشیاء کو تابع فرمایا ہے اور تمہارے اوپر اپنی کھلی ہوئی اور چھپی ہوئی نعمتوں کو پلٹ دیا ہے یہ یورپ والے تسخیر کائنات کے قرآنی اھداف میں مسلم امت سے اسلئے آگے اور پیش پیش ہیں جو انکے ااباء واجداد اسپین کے مسلم علماء بنو امیہ کے شاگرد تھے جنکی درسگاہوں میں خالص قرآنی علوم کے نصاب اجتھاد پڑہائے جاتے تھے انیس امامی علوم کی ایک پرسنٹ بھی ملاوٹ نہیں تھی علماء بنو امیہ کے ہاں قرآن کے علوم پڑہنے والوں کیلئے مسلم ہونا شرط نہیں تھا جسطرح امای علوم نے قرآن کا راستہ روکنے کیلئے عباسی خلافت کی درسگاہوں میں ایسی حدیثیں بنا رکھی تھیں کہ قرآن غیر مسلموں کے ملکوں میں بھی ساتھ نہ لے جایا کرو، اور بغیر وضوء کے قرآن کو ھاتھ نہ لگاؤ اور ان حدیثوں والی کتابیں آج تک مسلم امت کے درسگاہوں میں شامل نصاب ہیں امت کی نسلیں ایسے امامی فیوضات سے علامہ بن رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ آج ازمنہ وسطی کی صلیبی جنگوں کی شکست کابدلہ لینے کیلئے دنیاء یورپ و امریکہ میں وہی عباسی دور کی ایجاد کردہ امامی علوم کی آبیاری اور سرپرستی کرنے کیلئے اپنی یونیورسٹیوں میں علم الروایات امای فقھی مسالک اور تفسیر القرآن بالروایات خود پڑھا رہے ہیں، صرف اسلئے کہ امت مسلمہ کہیں قرآن کی طرف واپس نہ لوٹ جائے آج یورپی لوگوں میں توکوئی پیری مریدی کا خانقاہی کلچر نہیں ہے اسلئے کہ انکے علمی وفکری استاد بنو امیہ کے ائنٹی امامی اسکالرتھے، اور امت مسلمہ نے قرآن چہوڑ کر امامی علوم کی رہنمائی میں خانقاھی دنیا بسالی ہے۔

ٹڈی دل، مکڑیوں اورمینڈکوں خون کی آزمائش

قوم فرعون میں فارسلنا علیھم الطوفان والجرادو والقمل والضفادع والدم آیات مفصلات فاستکبرواوکانوا قوما مجرمین۔(۱۳۳-۷) یعنی ان پر ہمارا قانون طوفان لایا ٹڈی دل لایا کیڑے ان کے کھیتوں میں آئے مینڈکیں آئیں مریض کھیتوں کے مریض غلہ سے انکوخرابی خون کی بیماری لگ گئی یہ کھلی ہوئی نشانیاں اسلئے آئیں کہ قوم فرعون کے اندر غرور گکبر آگیا جس سے انکا پورا معاشرہ جرائم پیشہ ہوگیا، جب کسی قوم کی ایسی ذہنیت بنجاتی ہے تو انکی تباہی کیلئے کسی بھی کرامت معجزہ اور چھومنتر کی ضرورت نہیں ہوتی قوم فرعون پر یہ مصائب موسی کے معجزون میں سے نہیں تھے انکی علت قرآن نے خود بتائی ہے کہ معجزوں کے تصور کا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ فلماکشفنا عنھم الرجزالی اجل ھم بالغوہ اذاھم ینکثون(۱۳۵-۷) یعنی جب ہمارا قانون انکی ان مصیبتوں سے انکو کچھ ڈہیل دیتا تھا جن تک یہ لوگ اپنے افعال بد سے پہنچنے والے ہوتے تھے تو پھر اچانک یہ لوگ بدعہد کردیتے تو، اس آیت میں صاف طریقے سے قرآن نے سمجھایا کہ یہ اس رجز تک اپنے کرتوتوں کی وجہ سے پہنچنے والے ہوتے تھے معنی یہ ہوئی موسی کی کوئی بددعایا معجزہ انکے کھیتوں میں گھروں میں مینڈکیں اور کیڑے نہیں ڈالتا تھا لیکن انکے غرور کی وجہ سے جب یہ لوگ چھوٹی چھوٹی انتظامی ضرورتوں کی طرف نہیں دیکھتے تھے تووہ چھوٹی چیزیں چلتے چلتے بڑی بنجاتی ہیں یہ دائمی اصول ہے آج تک ہر جگہ ایسے ہوسکتا ہے جو اگر آپ اپنے گھروں شہروں میں جراثیم کش ادویات کا استعمال نہیں کرین گے تو بیماریاں برہنگی جراثیم بڑے ہوکر قمل اور ضفادع تک بنجائینگے، اب تک کی گذارشات سے عصاء موسی کا مفھوم واضح ہوچکا ہے جسکو اگر سمجھ میں نہی آیا تو ایسا آدمی میدان عمل کا آدمی نہیں ہوسکتا وہ صرف خانقاھی دنیا میں کا مینٹل کیس آدمی ہوگا۔

موسیٰ کے یدبیضا کی حقیقت

جناب قارئین!
قرآن فہمی کیلئے تصریف آیات کے ہنر کو عمل میں لانے کی بڑی ضرورت ہے اﷲ جل وعلیٰ جب موسیٰ کو اطلاع دیتا ہے کہ یا موسیٰ انی اناربک فاخلع نعلیک موسی خبردار تواب اپنے پالنے والے کے سامنے کھڑا اہے یعنی میں تیرا رب ہوں فاخلع نعلیک باادب باملاحظہ، اپنے جوتے اتار کر احتراماہمہ تن گوش ہوجاؤ انک بالوادالمقدس طوی، توا یک ایسی مقدس وادی میں کھڑاہے جو وادی طوی ہے لفظ طوی کی معنی ہے کہ جو چیز محیط ہو بہت ہی وسیع وعریض چیزو ں کو یعنی انقلابات عالم کے جملہ علوم کو اسکو آپ سورۃ الزمر کے جملہ والسماوات مطویات بیمینہٖ(۶۷-۳۹) سے سمجھ سکینگے، یعنی والارض جمیعا قبضتہ یوم القیامۃ زمین کے قبضہ کے ساتھ ساتھ سارے آسمان اﷲ کے یمین میں لپٹے ہوئے ہونگے، اب کوئی سوچ کہ آسمانوں کے جملہ تفصیلات جملہ آسمان دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہونگے، تو اگر موسی سے جو سوال کیا گیا کہ وماتلک بیمینک یا موسیٰ یعنی تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ اس سوال کا جو جواب عصای سے دیا گیا تو عصاء موسی کی اگر تفصیل کھولی جائے تو زار شاہی کا تختہ الٹنے کیلے جولینن کے دائیں ہاتھ میں مارکس کا داس کئپیٹال تھا تو، فرعون کا تخت الٹنے کے لئے موسی کو جو نونکاتی منشور دیا گیا تھا کہ وادخل یدک فی جیبک تخرج بیضاء من غیر سوء فی تسع آیات الی فرعون وقومہٖ انھم کانو اقومافاسقین۔(۲۷-۱۴)یعنی اے موسی اپنی یدفلسفہ آزادی کا نونکاتی منشوری علم کو اپنی آستین اپنے واسکٹ یا کوٹ کے جیب میں ہاتھ ڈالے ہوئے بڑے وقار کے ساتھ محفوظ رکھ، اسکو جب مقابلہ کے وقت آپنے نکالنا ہے تو یہ تسع آیات والا نونکاتی منشور ایسا تو صاف ستھرا اور نکھرا ہوا کھل کر سامنے آئیگا جو یہ توفرعون اور اسکی فاسق قوم کو راہ دکھانے کیلئے مقدس وادی طوی سے جب یہ ید بیضا یہ نونکاتی منشور کھولے گا تو فرعون کے عالم دانشور باتوں کو بتنگڑ بنانے والے مناظرہ باز جو اپنی لفاظیوں کے جادو سے اہل مجلس والوں کو ایسا تو مسمرائیز کرنے والے ہیں جو سننے والوں کو جیسے کو سانپ سونگھ گیا ہو، لیکن موسی پر واہ نہ کرنا تیرے نونکاتی منشور میں فلسفہ عصا اور یدبیضا والے بینات اور دلائل ایسے توہیں جو فذانک برھانان من ربک الی فرعون وملاۂٖ انھم کانوا قومافاسقین۔(۳۲-۲۸)یہ دونوں مرکزی دلیل فرعون اور اسکے نواب رئیس سرداروں قارون ھامان کے مولوی سب کیلئے کافی ہیں اے موسی الق عصاک جب تیری عصا اور یدبیضا کے جلوے دشمن کے سامنے آئینگے توفالقی السحرۃ سجدا۔ (۷۰-۲۰) پھر انکے عالم فاضل شعلہ بیان ساحر، سب تجھے سلوٹ کرینگے

جناب قارئین!
ساراکچھ علم کہ کیاہوا تھا کیا ہو رہاہے کیا ہوگا کے جاننے والے ہیں سو اس بنا پر کہ جب محمد رسول اﷲ دنیا کی غلام ساز بادشاہتوں کے خلاف انقلاب لیس الانسان الاماسعیٰ (۳۹-۵۳) جو کمائے وہ صرف اتنے ہی کامالک ہے والاعصاء محمدی اور یدبیضالے آئیگا، تو اسکے انقلاب کو سبوثازکرنے والا امامی گروہ قرآنی عصاء محمدی اور بینات والے منشور قرآن کو معجزوں سے تعبیر کرکے لوگوں کا انقلابی معاشی مساوات والے ائنٹی امپریلزم فکر سے رخ موڑنے کے حملے کرینگے، تو انکے منہ کو بند کرنے کیلئے اﷲ نے موسی کے مقابل اور مخالف فرعون کے ٹکڑوں پر پلنے والے سحربیان غلاموں سے شاہدی دلوائی جب انہوں موسی کے نونکاتی منشورکے اصول سنے تو و ہ تھر تھر ا گئے، قرآن کہتا ہے کہ فالقی السحرۃ سجدا قالوا اٰمنابرب ھارون وموسی سرکارع جادو بیان قسم والے عالم موسی کے نونکاتی منشور کو اپنے علوم کے مقابلہ میں ثعبان مبین ایک اژدہا سمجھ کر حقیقی اﷲ کے سامنے سجدہ ریزہوگئے اورسچائی کیساتھ موسی کے پیروکار ہوگئے فرعون نے بڑی دہمکیاں دی کہ تمہیں الٹالٹکا کر کھال اتاردونگا، اگر تم باز نہیں آئے تو لیکن انہوں نے یک زبان ہوکر کہا کہ فاقض ما انت قاض، تیرے باپ کو بھی چھٹی ہے جو کرنا ہے کرگزر لن نوثرک علی ما جائنا من البینات (۷۲-۲۰) یعنی تجھے تو اب ہم کچھ بھی نہین سمجھتے کہ تیری حیثیت ہی کیا ہے ان حقائق کے مقابلہ میں جو ماجائنا من البینات عصاء موسی ید بیضا کے دلائل اوربینات جو ہم سمجھے ہیں اے فرعون انماتقضی ھٰذہ الحیوۃ الدنیا اس دنیا کی حیاتی تو آنی جانی چیز ہے، انا آمنا بربنا، آج سے لیکر تو ہمارا رب نہیں تو بکواس کر تا تھا کہ اناربکم الاعلی (۲۴-۷۹) میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں ہم موسی کے انقلابی منشور سننے کے بعد اب اپنے حقیقی رب پر ایمان لے آئے ہیں، موسی کا یدبیضا بڑے آب وتاب سے ہم نے دیکھا جسکی وارننگ تھی کہ ہم نبیوں کی مشن ہی یہ ہے اور ہمارے انقلاب لانے کا مقسد ہی یہ ہے کہ لتجزی کل نفس بما تسعی(۱۵-۲۰) آئندہ انقلاب کے کامیاب ہونے کے بعد کسی کی محنت کا استحصال نہیں ہونے دیا جائیگا ہر شخص کو اسکے سعی اور محنت کا پورا پورا صلہ دیا جائیگا، آئندہ لوٹ کھسوٹ بند، استحصال بند، جو کمائے وہی کھائے، پرائی کمائیوں پر عیاشیاں کرنا بند،

جناب قارئین!
قرآن کو اﷲ نے ہمارے محاوروں میں نازل فرمایا ہے(۳۲-۵۱) ہم ہی کسی شعلہ بیان مقرر کے لئے کہتے ہیں کہ فلان صاحب کی تقریر میں جادو تھا، فلان شخص جادوبیان قسم کا واعظ ہے فلان مناظرنے فلان عالم نے جب اپنی باری پر تقریر کی تو مخالفون نے ایسی چپ سادہ لی جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو، سو قرآنی انقلاب والے دشمنوں نے اس اسلوب بیان کے استعارات کے استعمال کو اپنی غلط اغراض کیلئے انبیاء کو موسی کو معجزوں کے نام سے جادوگر اور سپیرا بنا دیا

سومحترم قارئین!
آپنے آیت (۷۲-۲۰) میں ملاخظہ فرمایا کہ اﷲ نے خود فرعون کے جادوگر عالموں سے شاھدی دلوادی کہ موسی کی عصا اور یدبیضاء یہ بینات ہیں یہ کھلے ہوئے علمی اور فکری دالائل ہیں یہ وادی مقدس طوی سے ملاہوامنشور ہے بادشاہت کا تخت الٹنے کا اور غلاموں کو آزادی دلانے کا، (یہانتک جناب موسی علیہ السلام سے منسوب نام نہاد معجزوں کابحث پورا ہوتاہے)

سیدنا خاتم الانبیاء علیہ السلام کی طرف منسوب معجزات
شق القمر

امام بخاری نے اپنی کتاب التفسیر کے اندر ایک عنوان لکھا ہے اقتربت الساعت کے نام سے اسپرباب کا لفظ نہیں لکھا ہے البت اسکو ۸۲۸ کا نمبر دیا ہے اسکے ذیل میں شروع کی چار حدیثوں میں چاند کے دوٹکڑے ہونے کا ذکر لایا ہے اسکے ذیل میں شروع کی چار حدیثوں میں چاند کے دوٹکڑے ہونے کا ذکر لایا ہے پہلی حدیث میں ہے کہ انشق القمر علی عھد رسول فرقتین فرقۃ فوق الجبل وفرقۃ دونہ فقال رسول اﷲ اشھدو ا یعنی رسول اﷲ کے زمانہ میں چاند دوحصوں میں چیر ہوگیا تھا ایک حصہ جبل کے اوپر اور ایک حصہ اسکے علاوہ پھر رسول اﷲ نے فرمایا کو دیکہو، دوسری حدیث میں ہے کہ انشق القمر ونحن مع النبی فصارفرقتن فقال لنا اشہد وا اشہد وا یعنی راوی کہتا ہے کہ ہم رسول اﷲ کے ساتھ تھے تو چاند دو ٹکڑے ہوگیا پھر رسول اﷲ نے فرمایا کہ دیکھو دیکھو، تیسری حدیث میں ہے کہ انشق القمر فی زمان النبی یعنی نبی علیہ السلام کے زمانہ میں چاند ٹکڑے ہواتھا

جناب قارئین!
ان حدیثوں پر جو ٹیکنیکل اعتراضات ہیں ان سب کو چھوڑ تے ہوئے صرف انکے خلاف قرآن ہونے پر مختصر گفتگو کرتے ہیں مزید بس۔ سورۃ حمٓ السجدہ میں فرمایا ہے کہ وزیناالسماء الدنیا بمصابیح وحفظا ذالک تقدیر العزیزالعلیم(۱۲-۱۴) یعنی دنیا والے آسمان کو ہمنے مصابیح سے مزین کیا ہے اور اسکے ان روشن کرہ جات کی جوٹریفک ہے اس سے بھی اور یہ محافظ بھی ہے کسی بھی چیز کو آپس میں ٹکرانے اور ٹوٹنے نہیں دیتی جوان کروں کے اندر ایکسیڈنٹ نہ ہونے پائے نیچے گرنے نہ پائے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ آسمانوں سے دودارستاروں اور سماوی پتھروں یعنی شھاب ثاقب کی بارش ہوتی ہے اگر یہ نیچے زمینپر گرجائیں تو بڑی تباھی اور ھلاکت کاباعث بنجائیں لیکن اﷲ نے خلاؤں میں ہوا کی گرینڈر مشینوں کا انتظام کیا ہوا ہے جو اوپر کے کروں کی کوئی بھی چیز یا انکا حصہ نیچے زمیں پر نہیں آسکتا راستہ میں تحلیل ہوجاتا ہے اور سورۃ حجرمیں فرمایا کہ ولقد جعلنا فی السماء بروجا وزیناھا للناظرین۔ وحفظنا ھامن کل شیطان رجیم(۴۱/ ۱۶-۱۷) یعنی آسمان میں ہمنے ایسے بروج (مورچے) فٹ کئے ہوئے ہیں جنسے ایک طرف تو دیکھنے والوں کیلئے آسمان مزین لگتاہے دوسری طرف ان مورچوں یعنی بروج سے آسمان کی حفاظت مقصود ہوتی ہے تخریبی قوتوں سے۔

جناب قارئین!
جن حدیث ساز اماموں نے چاند کے دوٹکڑے کرکے ایک کو مکہ کے پہاڑوں پر اتاراہے دوسرے ٹکڑے کو کھایا ہے انہوں نے یا تو امت مسلمہ کو جاہل سمجھ کریہ حدیث بنائی ہے یا خود جاھل تھے اس بات سے کو زمین کے مقابلہ میں چاند والے کرہ کا عرض وطول کتنا ہے اور شمس وقمر کیلئے جو اﷲ نے فرمایا ہے کہ وھوالذی خلق اللیل والنھاروالشمس، والقمر کل فی فلک یسبحون (۳۳-۲۱) یعنی سورج اور چاند کھکشان کے مدارمیں چکر کاٹ رہے ہیں، امام لوگوں کو خبر نہیں کہ کتنا اور کس قسم کا علم تھا حقیقت یہ ہے کہ مدار میں کروں کے چکروں کا جو حساب ہے اس میں اگر توازن کے لحاظ سے کوئی ایک کرہ بھی ذرہ برابر بھی اپنے روٹ سے گرکر مکہ کی پہاڑیوں پر معجزہ دکھانے کیلئے آجائے تو اﷲ کی قرآن کی یہ آیت جھوٹی بنجائیگی کہ وسع کرسیہ السماوات والارض والایؤدۃ حفظھماوھوالعلی العظیم (۲۵۵-۲) یعنی اﷲ کا کنٹرول اور اقتدار آسمانوں اور زمیں پرمحیط ہے انکی حفاظت اﷲ کو ہرگز نہیں تھکاتی وہ بلند وبالا ہے اور کسی کرہ کے اوپر نیچے ہونے سے ہماری دنیا تباہ ہوجاتی، مطلب کہ امام مافیاان معجزوں والی روایت سازی میں ایک طرف جناب رسول اﷲ کی غلط قسم کی تعرفیں کرکے ہمیں بیوقوف بناتے ہیں دوسری طرف اﷲ کے سارے نظام کائنات کو ایک قسم کا بچوں کا کھیل کرکے پیش کرتے ہیں جس کے لئے اﷲ پاک باربار چئلنج کرتا ہے کہ فارجع البصرھل تری من فطور(۳-۶۷) بار بار آنکھیں لوٹا کردیکھ میرے سماوی طبقوں کے طبقاتی زینت والی سینٹنگ کو کیا انکی تخلیق میں کوئی تفاوت تجھے نظر آتاہے،

محترم قارئین!
ان حدیث سازوں نے ایک طرف کروڑوں کلومیٹروں سے بھی زیادہ وسیع وعریض کرہ چاندکو معجزہ سازی کی حدیث بنانے والوں نے ایک طرف اپنی جگہ سے ہٹایا ہے دوسری طرف اسکو کاٹ کر دوٹکڑے کرنے کا انکے پاس کوئی آرہ مشین والا لمبا چوڑا کرٹ بھی تھا جو اس سے انہیوں نے چاند کو چیرا بھی ہے، جبکہ خود جنوں کا بیان ہے کہ وانا المسنا السماء فوجدنا ھا ملئت حرسا شدید اوشھبا(۷-۷۲) کہ ہمنے آسمان کا معائنہ کیا ہے جواب وہ پہرے دینے والوں سے بڑے پئمانے پر بھرا ہواہے، اور وہاں جانے والوں پر شھاب ثاقب سے گولہ باری ہوتی ہے، اب ان حدیث سازوں سے کون پوچھے کہ پہلے بتاؤ کو آسمان پر تم پہنچے کیسے پھر چاند والے کرہ جو کڑوڑوں میل لمبے چوڑے فاصلہ پر محیط ہے اسکو تمنے کاٹاکیسے؟ اس دوران اﷲ کے حفاظتی انتظامات کہاں گم ہوگئے تھے ، انکی شق قمر والی حدیثوں سے خود جناب رسول اﷲ علیہ السلام کے علمیت کی ہلکاپن ثابت ہوتی ہے اور جناب رسول اﷲ علیہ السلام کی شخصیت باعث تصنحیک ہوجاتی ہے کیونکہ حدیثوں کی عبارتوں سے چاند کی ناپ تول توجیسے کہ حلوے کے پلیٹ کے برابر محسوس ہوتی ہے، ان حدیث ساز اماموں نے جناب رسول اﷲکے نام کی ایسی حدیثیں بنا کر دنیا والوں کے سامنے ایک طرح سے توہیں رسالت کی ہے تو ہیں رسول کی ہے، توہیں رسالت اسطرح کہ نفس معجزہ قرآن کے اصول ہدایت کے خلاف ہے اصول ہدایت کیا ہیں یہ بات قرآن نے اسطرح سمجھائی ہے کہ ان الذین لایؤمنون بآیات اﷲ لایھدیھم اﷲ ولھم عذاب الیم(۱۰۴-۱۶) یعنی ہدایت صرف ان لوگوں کو ملے گی جو اﷲ کی آیات پر ایمان لاتے ہونگے، اگر معجزات سے کسی کو ہدایت ملتی ہوتی تو اﷲ کی آیات پر ایمان لاتے ہونگے، اگر معجزات سے کسی کو ہدایت ملتی ہوتی تو اﷲ عزوجل اپنے رسول کو یوں نہ فرماتے کہ انک لاتھدی من احببت ولٰکن اﷲ یھدی من یشاء وھواعلم بالمھتدین (۵۶-۲۸) یعنی آپ جسکو چاہیں اسکو ہدایت نہیں دے سکتے لیکن ہدایت صرف ان لوگوں کو ملے گی جنکو اﷲ کا قانون مشیت پاس کریگا کیوں کہ اﷲ کو ایسے لوگوں کا حال معلوم جن کے دلوں میں ہدایت حاصل کرنے کاخلوص اور جستجو ہے، یہ دلوں سے تعلق رکھنے والی بات ہے اے رسول اس اندر کی چاہت کو صرف اﷲ جانتا ہے، دیکھا

جناب قارئین!
اس ماجرا سے یہ ثابت ہواکہ ہدایت معجزوں سے نہیں ملاکرتی، امام بخاری نے جو یہ جھوٹی چار حدیثٰن سورۃ قمر کے تفسیر میں اپنے کتاب کے اندر لائی ہیں تو قمر کے تفسیر کے لئے ان حدیثوں میں تو قمر کے ٹکڑے کرنے کی بات آئی کیا یہ ایسی حدیثیں بھی قرآن کا کوئی تفسیر بن سکتی ہیں، علم حدیث کو قمر کا تفسیر کرنا تھا تو والقمر قدرناو منازل حتی عاد کالعرجون القدیم جیسا تفسیر کرتا، علم حدیث کو قمر کا تفسیر کرنا تھا تو یسئلونک عن الاھلہ قل ھی مواقیت للنا والحج کی طرح کا تفسیر کرکے دکھاتا جو کہ اس بات کو میں نے اپنی کتاب کیا علم حدیث قرآن کا تفسیر کرسکتا ہے؟ میں بھی لایا ہے سو یہ موضوع چونکہ معجزات سے متعلق ہے تو گذارش یہ ہے کہ اﷲ جل شانہ اگر لوگوں کو زورسے طاقت سے غلبہ سے اپنی الوہیاتی قوت سے جبرسے کسی کوہدایت دینے کا قائل ہوتا یا اسے روا سمجھتا تو یہ ہرگز نہ فرماتا کہ أنلز مکموھا وانتم لھا کارھوں(۲۷-۱۱) یعنی تم تو ھدایت لینے سے کراہت کرتے رہو اور ہم تمہیں وہ زور سے چمٹاتے رہیں، میرے خیال میں خالص عقل رکھنے والوں کے لئے معجزوں سے متعلق گذارشات کافی آچکی ہیں رہتاہے یہ سوال کہ پھر سورۃ قمر میں فرمان ربی کہ اقتربت الساعۃ وانشق القمر کی معنی کیا ہے تو جناب عالیٰ جیسے کہ عربوں کی حکومت کے جھنڈے کانشان اسکے کپڑے میں چاند پرنٹ کیا ہوتا تھا تو اﷲ جل شانہ انہیں وارننگ دے رہاہے کہ وہ انقلاب کی گھڑی بہت قریب ہے ابھی تمہارا سیاسی شان وشوکت والا چاند کے نشان کا جھنڈا گلی گلی میں روندا جائے گا وقت ہے سنبھل جاؤ! یہ ہے اسکی معنی،

جناب قارئین!
میں اخیر میں معجزہ سازی کا اصل پسمنظر خدمت میں عرض کردوں کہ اسلامی انقلاب کی دشمن حدیث ساز امام مافیا جوکہ یھود مجوس اور نصاری ٰ کے اتحاد ثلاثہ کی معجوں مرکب تھی انہوں نے یہ تو سمجھا ہوا تھا کہ جب قرآن کا محافظ اﷲ ہے اسوجہ سے قرآن کے متن اورٹئکسٹ کو تو دنیا سے ختم نہیں کرسکتے اسلئے کیوں نہ دنیا بھر میں سیاسی انقلابات کے اس مرکزی کتاب کی مفھوم کو سیاسی دہاروں سے موڑ کراسے رہبانی راہوں کا چھومنتر والا دعا تعویذ کا کتاب بنا دیں تاکہ کوئی اس کتاب کے ذریعے دنیا کے لٹیروں کے تخت گرانے اور تاج اچھالنے کا کام نہ لے سکے جس کام کیلئے یہ کتاب اﷲ نے انسانوں کی طرف نازل کی ہے، شق قمر کو معجزہ بنانے والوں کا رد یہیں تک ختم کرتے ہیں۔

لڑائیوں میں رسول اﷲ کو ملائکوں کی مدد

جناب قارئین!
اس سلسلہ میں علم الحدیث کی عجیب عجیب روایات ذخیرہ کتب میں موجود ہیں جو میدان جنگ سے واپسی پر جبریل خود آکر رسول اﷲ سے کہتے ہیں کہ آپنے تو جنگی لباس بدل کرہتھیار رکھدئے ہیں لیکن ہم ملائک تو ابھی تک ہتھیار بند چوکس کھڑے ہیں وغیرہ وغیرہ یا اصحابوں کے ناموں کے روایات کہ کوئی کہے کہ میں نے ملائک کو ایسے لباس میں دیکھا مین نے ملائک ایسے گھوڑے پر دیکھا، ان سب روایتوں کو اسلئے مسلم امت کے علمی ذخیروں میں جگہ ملی ہے جوانہوں نے اس مسئلہ میں قرآن کو غور سے نہیں پڑہا، سورۃ آل عمران میں ہے کہ اذتقول للمؤمنین الن یکفیکم ان یمد کم ربکم بثلثۃ اٰلاف من الملائکۃ منزلیں(۱۲۴-۳) یعنی اے رسول جب میدان احد کی جنگ میں آپ اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑہانے کیلئے فرمارہے تھے کہ کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ اﷲ تمہاری مدد فرمائے تین ھزار ملائکوں کے ساتھ (یعنی کہ جتنی اب تمہاری تعداد ہے) ہاں اگر تم موجودہ تعداد سے بڑہ کر اگر مثال کے طور پر پانچ ہزار ہوتے تو اﷲ ملائکوں کو بھی بڑہا کر پانچ ہزار کردیتا،

جناب قارئین!
ملائکوں کو سمجھنا کہ یہ کس قسم کی امدادی ٹیم ہے یہ اگلی آیت (۱۲۶) پر غورکرنے سے سمجھ میں آتی ہے فرمان ہے کہ وماجعلہ اﷲ الابشریٰ لکم ولتطمئن قلوبکم بہ وماالنصر الامن عنداﷲ العزیزالحکیم(۱۲۶-۳) یعنی یہ ملائکوں کے نام سے جو حقیقت ہے وہ صرف ایک قسم کی خوشخبری ہے تمہارے لئے تمہارے اطمینان قلوب کیلئے اصلی مدد تو اﷲ کے قوانین جنگ پر عمل کرنے سے ملتی ہے جو اﷲ غالب اور حکمت والا ہے،

محترم قارئین!
دیکھا آپنے اس آیت میں ملائکہ کی تشریح تعارف ، مفھوم اﷲ ملائکوں کی ڈیوٹی اطمینان قلوب اور فتح کایقین اور خوشخبری دلانا قرار دیا ہے جسے ایک ملائک ایک سپاھی کے ساتھ رہکر اسے فیڈ کرتا رہتا ہے، ملائک خود لڑتا نہیں ہے دوسری دلیل یہ ہے کہ جب سپاہیوں کی تعداد تین ھزار ہے تو ملائکوں کی تعداد بھی تین ہزار بتائی جاتی ہے اسکی معنی کہ ہر سپاہی اطمینان قلب سے ہوگا اور فتح کی خوشخبری سے سرشار ہوگا تو اسکے لڑنے کے ڈہنگ میں ایک قسم کی حوصلہ مندی اور عزم ہوگا اور فتح حاصل کرنے کایقین بھی اسکے ذہنی اطمینان سے ہوگا تو انکے لڑنے کے اطوار کچھ نرالے ہوجائینگے اس حقیقت کو سمجھنے کیلئے بدرکے میدان جنگ میں لشکر والوں سے خطاب کو سمجھیں اذتستغیثوں ربکم فاستجاب لکم انی ممدکم بالف من الملائکۃ مردفین، ۸/۹ یعنی جب تم لڑائی میں مدد کے لئے اپنے رب سے مدد طلب کررہے تھے تو اﷲ نے تمہاری درخواست قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کررہاہوں ایک ھزار ملائکوں سے جو آپکے مردفین ہونگے اور جداگھوڑوں پر یا پیدل ہتھیار لیکر لڑنے والے نہیں ہونگے ،ان کا کام صرف ذہنی تثبیت دینا ہے ردیف کی معنی ہے مکمل طور پر ہموزن ساتھ کا ساتھی ایک ہی سواری پر ایک ساتھ سوار ہونے والا شعریا بیت کے دومصرعوں کو آپس میں ردیف کہاجاتا ہے اور اشعار کے مصرعوں والے ردیف کیلئے شرط ہے کہ دوسرے مصرعہ کا برابر کا ھموزن ہو، اس بات کا مطلب یہ ہواکہ قرآن نے جنگ بدر کے لڑنے والے سپاہ کی تعداد بھی بتایا کہ مسلم فوج ایک ہزار آدمیوں پر مشتمل تھی اسلئے انہیں فرمایا کہ انی ممدکم بالف من الملائکہ مردفین یعنی میں آپکے تعداد ایک ھزار کے موافق ملائک ہمرکاب مدد میں دے رہاہوں پھر اگلی آیت میں ملائکوں کی تشریح اور تفھیم بتلائی کہ وماجعلہاﷲ الابشری ولتطمئن بہ قلوبکم وماالنصر الامن عنداﷲ (۱۰-۸) یعنی اصل مدد تو اﷲ کی دی ہوئی ہوتی ہے لیکن اطمینان قلب اور ساتھ ملنے کی خوشخبری یہ ملائکوں کی مدد ہے۔ یہاں یہ بھی ذہن میں رہے کہ ملائکوں کی کل تفھیم صرف یہی نہیں ہے (ملائکوں کو کلی طور پر سمجھنے کیلئے جناب ازہر عباس صاحب کے مضامیں پڑہیں جو رسالہ صوت الحق میں چھپ چکے ہیں) میں نے ابھی عرض کیا کہ جنگ بدر میں مسلم سپاہیوں کی تعداد ایک ہزار تھی ساتھ ساتھ اس انکشاف کاثبوت میں نے اسی آیت قرآن سے بھی دے دیا، رہی بات علم حدیث کی روایات نے توبدری سپاہیوں کی تعداد ۳۱۳ بتائی ہے تو انکی یہ تعداد بتانی یہی تو میرے مؤقف کا دلیل ہے کہ یہ حدیث ساز امام جناب رسول اﷲ، اصحاب رسول، اور اسلام کے دشمن تھے، اسیلئے تو وہ اپنی معموں کی تعلیم میں اصحاب رسول کو گالی دی رہے ہیں، علماء اسلام اور امت مسلمہ کی خدمت میں مجھ ناچیز کی انتہائی مؤدبانہ ، درخواست ہے کہ وہ دشمنوں کو پہچاننے کیلئے آنکھوں پر قرآن کی عینک سے کام لیا کریں آپکو پتہ نہیں کہ علم الاعداد میں ۳۱۳ کا عدد کمینوں اور بدخصلت لوگوں کیلئے مقرر کردہ ہے تعویذ لکھنے والے مولوی شاید تعویذوں کے کام آنیوالی علم الاعداد کی کتابوں میں اس حقیقت کو پاسکینگے، جسطرح ۷۸۶ کا عدد مسلم امت کو بیوقوف بنانے کیلئے بسم اﷲ الرحمان الرحیم کا ابجد کے حساب سے فگر بتایا ہوا ہے جوکہ یہ بھی ایک بڑا مغالطہ اور فریب ہے اصل میں ۷۸۶ کا عدد دشمنان اصحاب رسول کے اپنے مخصوص نعرے کا عدد ہے جسکے الفاظ آپکو عزیراحمد صدیقی کی کتابوں میں ملینگے، بسم اﷲ کیعدد ۷۸۶ نہیں ہے، نزول ملائکہ کے مضمون سے متعلق جو خاص بات عرض کرنی ہے کہ نزول ملائکہ کا ماملہ یہ جناب نبی علیہ السلام کا معجزہ نہیں ہے، ملائکوں کا نزول دوسرے عام انسانوں پر بھی ہوتا رہتا ہے ہر دور میں ہوتا رہیگا جیسا کہ فرمان ہے کہ ان الذین قالو اربنا اﷲ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملائکۃ الاتخافو اولاتحزنوا وابشروا بالجنۃ التی کنتم توعدوں (۳۰-۴۱) یعنی جن لوگوں نے نعرہ لگایا کہ ہمارا نظریہ معیشیت اﷲ والا نظریہ سواء للسائلیں ہوگا(۱۰-۴۱) پھر اس پر ڈٹ گئے تو ایسے لوگوں پر نزول ملائکہ ہوگا جو انہیں خوف اور غم سے بے باک رکھینگے اور انکیو جنۃ کی خوشخبری دینگے جسکا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے، نزول ملائکہ کے معجزہ سے متعلق مضمون کو یہاں ختم کرتے ہیں۔

جناب عیسیٰ علیہ السلام بن باپ کے پیدا نہیں ہوئے مریم نے شادی کی تھی

یہودی لوگوں نے جناب مریم علیھا السلام پر طرح طرح کے الزامات لگائے انکی عصمت وعفت پر رقیق حملے کئے کہ لقد جئت شیئا فریا (۲۷-۱۹) یعنی آپنے ہیکل کے قانون کی خلاف ورزی کرکے شادی کی جو کہ یہ عمل اور سوچ تیری گھڑی ہوئی اپنی من مانی تھی، تیری ماں اور باپ تو قوانین ہیکل کی عقیدتمندرہے ہیں انہوں نے قوانین ہیکل کی کبھی بغاوت نہیں کی، یھودیوں میں ہیکل کے قوانین کے مطابق جو لڑکے اور کڑکیاں خانقاہی مرکز میں مذہب کی خدمت کرنے کیلئے وقف کردئے جاتے تھے اسکے مطابق پہلے لڑکیوں کو بطور نن کر کے اسوقت تک رکھا جاتا تھا جب تک اسے ماہواری نہ آئے، ماہواری آنے کے بعدانہیں رخصت کردیا جاتا تھا، کچھ ، عرصہ کے بعد قانون میں تبدیلی لائی گئی کہ عورت ماہواری آنے کے بعد بھی ہیکل میں راہبانہ زندگی گذار سکتی ہے لیکن پھر وہ شادی نہیں کریگی، کچھ عرصہ کے بعدپہر قانون میں ترمیم کی گئی کہ ننین اور راہبائیں شادی کرسکیں گی لیکن صرف ہیکل کے پادریوں اور راہبوں سے، باہر کے لوگوں سے انکی شادی کرنے پربندش ہوگی، بہرحال جنابہ مریم علیہ السلام نے ہیکل مین پادریوں اور راہبوں کی بداخلاقی اور لاقانونیت کا خود مشاہدہ کیا ہوا تھا تو اسے ہیکل کی اندرونی زندگی سے نفرت آگئی اور وہاں خانقاہی ماحول کی ابتر ہوں پر غصہ میں تنھا پسندی سے رہنے لگی وہاں قرآن بتاتا ہے فارسلنا الیھا روحنا فتمثل لھا بشراسویا، قالت انی اعوذ بالرحمان ان کنت تقیاقال انما انارسول ربک لاھب لک غلاما زکیا قالت انی یکون لی غلام ولم یمسسنی بشرولم اک بغیاہ قال کذالک قال ربک ھو علیّ ھین ولنجعلہ اٰیۃ للناس ورحمۃ منا وکان امرا مقضیا۔ (۱۷تا۲۱-۱۹) یعنی ہمنے اپنے(امرربی والے) روح کو (خواب میں) مریم علیھا السلام کی طرف بھیجا جو اسکے سامنے ایک سید ہے اور درست انسان کی تمثیل میں پیش ہوا، اور اسے دیکھ کر مریم نے خواب میں بھی پارسائی کے اصول سے اسے کہاکہ اگر تجھے کوئی اﷲ کا خوف ہے تو ہٹ جا میں اپنے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں، تو اس فرشتہ نے کہاکہ میں تیرے رب کی طرف سے تیری طرف فرستادہ ہوں اس خوشخبری کے ساتھ کہ وہ تجھے ایک پاکباز لڑکا عطا کریگا، مریم نے کہاکہ مجھے لڑکا کیسے ہوگا جبکہ مجھے کسی انسان نے چھواتک نہیں ہے اور نہ ہی میں قوانین الاہی کی باغیہ ہوں تو اس فرشتہ نے کہاکہ تجھے بیٹا ملنا ایسے ہی ہوگا جیسا دنیا کا دستورہے تو شادی کریگی پھر اولاد ہوگی کذالککی معنی یہی ہے، فرشتہ نے مریم کو کہاکہ تیرے رب کا کہنا ہے تجھے بیٹادینا یہ میرے لئے تو آسان مسئلہ ہے، ہمنے تو تیرے بیٹے کو دنیا جہان والوں کیلئے ایک مثالی نشانی بنا نی ہے یہ ہمارا طئے شدہ فیصلہ ہے،

جناب قارئین!
اسکے بعد مریم شادی کرتی ہے اور اسے بیٹا پیدا ہوتا ہے۔ جسکانام بھی اﷲ کا تجویز کردی عیسیٰ مسیح ہوتا ہے انہوں نے مریم اور عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف جو تہمتوں کا ایک طوفان چلایا ہواتھا عجب لگتاہے عیسائیوں اور مسلمانوں پر کہ انہوں نے بھی انکے جواب میں جو صفائی پیش کی ہے کہ مریم نے شادی نہیں کی تھی اور عیسیٰ بن باپ کے پیدا ہوا تھا اس جواب سے تو گویا انہوں نے یھودیوں کے الزام کو سچا کردیا اس جواب میں یہودیوں کے الزام کو تو انہوں سچا قرار دیا،

جناب قارئین!
تاریخ کا یہ بڑا المیہ ہے جو یہودیوں نے بڑی فنکاری سے نصرانیت اور اسلام میں انہیں علم وحی کے اصولوں سے ہٹانے کے لئے توحید کی جگہ شرک اور توہم پرستی کی لائنوں پر انہیں لگادیا ہے، اسکا تفصیل کچھ وسیع وعریض ہے جسکا موقعہ محل یہ نہیں ہے، انسانوں کی تخلیق سے متعلق اﷲ نے قانون بتائے ہیں کہ یا ایھاالناس انا خلقنا کم من ذکرو انثی۔۔۔۔(۱۳-۴۹) یعنی اے انسانو! ہمنے آپکو پئدا کیا ہے مذکر اور مؤنث کے امتزاج سے، اب اس قانون میں کسی بھی جگہ پر کوئی استثنیٰ نہیں ہے صرف انسان کے ابتدائی پیدائش کیلئے بتایا ہے کہ یا ایھالناس اتقواربکم الذی خلقکم من نفس واحدہ (۱-۴) یعنی اے انسانو! آپکو ایک جرثومہ حیات ایک جیوت سے پئداکیاہے اور فرمایا ہے کہ فطرت اﷲ التی فطرالناس علیھا لاتبدیل لخلق اﷲ (۳۰-۳۰) یعنی اﷲ کے قانون تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں آنی، اس کیلئے مزید فرمایا کہ ذالک الدین القیم یہ قانون نہایت ہی مضبوط ہے اسکے اندر کسی عیسیٰ وغیرہ کی کوئی استشنا نہیں ہوگی، انجیل والے لوگ اتناتو قبول کرتے ہیں کہ مریم کی شادی بھی ہوئی ہے اور اسے اسکے شوہر سے عیسیٰ کے سوادوسری بھی اولاد ہوئی ہے صرف عیسیٰ علیہ السلام اکیلے اﷲ کے روح سے پیدا ہوئے ہیں اسکے باوجود عیسیٰ کو انجیل کے تقریبا سب راویوں نے اسے یوسف درکھان کا بیٹا مانا ہے اور مریم کی یوسف سے شادی کرنے کا ذکر بھی انجیل میں موجود ہے مسلم امت والے تو عیسائیوں جتنا بھی مریم کی شادی کو نہیں مانتے جبکہ خود قرآن میں اﷲ نے مریم کی والدہ کی دعا مریم اور اس کی اولاد کیلئے بھی بتائی ہے کہ وہ کہتی ہے کہ اے میرے اﷲ انی اعیذ ھا بک وذریتھا من الشیطان الرجیم(۳۶-۳) یعنی مریم کو اور اسکی اولاد کو میں تیری پناہ میں دیتی ہوں مسلمانوں نے تو صدیوں سے قرآن کو سمجھ کر پڑہنا چھوڑ دیا ہے قرآن مسلم امت کے نزدیک اہل مجوس کی گھڑی ہوئی روایات اور علم حدیث کا قیدی ہے، مسلمانوں نے جیسے کہ قسم اٹھاکھاہے کہ وہ اﷲ کے حکم کی روشنی میں ولقد صرفنا فی ھذا القرآن لیذکروا(۴۱-۱۷) تصریف آیات کی رہنمائی میں قرآن کو نہیں پڑہینگے ان کا عقیدہ ہے کو قرآن علم حدیث کے بغیر سمجھ میں نہیں آتا۔ اس وجہ سے وہ مریم کو بغیر شوہر کے بیٹادئے بیٹھے ہیں جبکہ اﷲ نے اپنے قانون کیلئے اعلان بھی کیا کہ میرا قانون تخلیق تبدیل ہونے ولانہیں ہے، یہی قانون ذالک دین القیم ہے(۳۰-۳۰) اور میرا اٹل فیصلہ ہے کو مایبدل القول لدیّ(۲۹-۵۰) میرے فیصلے بدلانہیں کرتے، اس مضمون کو یہاں ختم کرتے ہیں،

جناب عیسیٰ علیہ السلام کا جھولے میں کلام کرنے کا مفھوم

اس مغالطے کی بنیاد اصل میں لفظ مھدکی معنی سے ہواہے جبکہ مہدکی معنی صرف جھولے کے ساتھ جڑی ہوئی اور مخصوص نہیں ہے لفظ مھدمعنی کے لحاظ سے اصل میں آرام و آسائش کے بچھونے کیلئے مخصوص رہا ہے، پھر چونکہ چھوٹے بچوں کے آرام اور آسائش والابچھونا جملہ معاشروں میں قدر مشترک چیزہے اور پھر اس آسائش میں جھولے کی بھی ایک اہمیت ہے تو اسکانام بچھونے کے ساتھ میں مھد شمارکیا جاتا ہے لیکن اس تفصیل کا خلاصہ ہوا آدمی کی شروع والی زندگی اور اسکا بچپنا، سوجناب عیسیٰ عکیہ السلام کی ایک خصوصیت نمایان رہی ہے کہ وہ اپنی چھوٹی عمر میں انقلابی کی گفتگو کرنے کے ماہر رہے ہیں پکی باتیں نپی تلی باتیں کیا کرتے تھے سواس بات کی خصوصیت اور اہمیت کے پیش نظر اﷲ نے بھی عیسیٰ کی اس خوبی اور ذہانت کو اسکے لئے اپنی نعمتوں میں سے شمار کیا کہ یکلم الناس فی المھدوکہلاومن الصالحین(۴۶-۴) اسلئے اسکی والدہ مریم کو اسکے پیدا ہونے سے پہلے جو بشارت دیتے ہیں یہ لفظ مھدکا دوسرے مقام پر بھی یہ بات فرمائی یا عیسیٰ ابن مریم اذکر نعمتی علیک وعلی والدتک اذ ایدتک بروح القدس تکلم الناس فی المھدوکھلا اذعلمتک الکتاب والحکمۃ والتوراۃ والانجیل(۱۱۰-۵)یعنی اے عیسیٰ ابن مریم یادکر میری تعمتوں کو تیرے اوپر اور تیری والدہ کے اوپر جب تائید دلائی تجھکو میں نے روح القدس(انجیل ) کے ذریعے سے جوتوباتیں کرتا تھا جوانی میں اور بڑی عمر میں بھی جب سکھایا مین نے تجھے کتاب اور حکمت جو کہ تورات اور انجیل تھے

جناب قارئین!
اس آیت (۱۱۰-۵) کے مفھوم پر غورفرمائیں بلکہ ساتھ میں آیت(۴۶-۳)میں بھی کہ اﷲ عزوجل عیسیٰ علیہ السلام کے دور نبوت اور تحریک نبوت کو دوحصوں میں تقسیم فرمارہے ہیں ایک زمانہ ہے اسکی نبوت کے شروعاتی دور کا جسمیں وہ اپنی انقلابی پارٹی والوں کی توریت اور انجیل کے ذریعے ذہن سازی کرتے ہیں پھر وقت کی حکومت عیسیٰ کی تیار کردہ باغی ٹیم کے جملہ ارکان کو گرفتار کرکے تختہ دار پر لٹکاتی ہے، انہیں ان سب گوریلے باغیوں کا استاد عیسیٰ ہوتا ہے اور اس استاد کے ساتھ روح القدس کا کنیکشن ہوتاہے جسکی رہنمائی سے وہ گرفتار شدہ ٹیم میں سے بھاگ جاتا ہے، اس واقعہ کے بعد عیسیٰ اصحاب کہف کی طرح کچھ عرصہ انڈرگراؤنڈ ہو جاتا ہے پھر اپنے ظہور ثانی کیلئے ماحول کو اپنی تائید میں سمجھتا ہے تو پھر سے دوبارہ کام شروع کردیتا ہے اس دوسرے پیرڈ کو قرآن حکیم نے’’ کھلا‘‘سے تعبیر فرمایا ہے

محترم قارئین!
جناب عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کو بھی نہایت بے دردی سے بگاڑا اور مسخ کیا گیا ہے، اس ماجرا کا تفصیل بہت لمبا چوڑا ہے بس ایسے سمجھیں جیسے کہ قرآن کا ان انقلاب دشمنوں نے آپریشن کیا ہے کہ صبرکی جو معنی قرآن نے بتائی ہے جم کر استقامت سے لڑنا(۶۵-۸) تو انجیل کی تحریف کرنے والونکے مسلم کہلانے والے شاگردوں نے اسکی معنے مشہور کردی کہ گھروں میں جاکر چٹائیوں کی طرح زمیں سے چمٹ کے رہنا، عیسوی تعلیم کی مسخ شدہ مثال بھی اسی سے ملتی ہے کہ عیسیٰ نے فرمایا ہے کہ کوئی تمہیں منہ پر ایک طرف سے طمانچہ مارے تو اسے پھر تم دوسرا رخسار بھی پیش کروکہ عالی جناب دوسرا طرف آپسے رہ گیا ہے ادہر سے بھی مارتے جائیں، سو جو سورۃ مریم میں آیا ہے کہ مریم پر جب مذہبی پنڈتوں نے بوچھاڑ کی تو فاشارت الیہ قالو اکیف نکلم من کان فی المھد صبیا۔ (۲۹-۱۹) یعنی مریم نے اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کرکے کہاکو اسکے ساتھ مناظرہ کروبحث کرو تو وہ کہنے لگے کہ یہ تو جھولے میں جہولنے والے بچوں کی طرح ہے،

جناب قارئین!
جب وہاں موجود جوان عیسیٰ نے دیکھا کہ یہ عباؤں قباؤں والی جبہ پوش مافیا اپنی پیری اور شیخی کے گھمنڈ میں مجھ سے بات تک کرنا گوارا نہیں کررہے تویہ کل کا بچہ انکے حساب سے جھولے میں جہولونے والا بچہ بڑے آب وتاب سے بولنے شروع ہوگیا کیونکہ یہ کلمۃ اﷲ تو تھا ہی سہی بس عیسیٰ کا بولنا کیا تھا وہ تو ایک طوفان تھا اسنے ان خناس قسم کے پوپ پالوں سے آنکھوں میں آنکہیں ملاتے ہوئے رعد کی طرح گجگوڑ کی اور جیسے کہ یالہ باری شروع ہوگئی کہ انی عبداﷲ اٰتانی لکتاب واجعلنی نبیا وجعلنی مبارکا این ماکنت واوصانی بالصلوۃ والزکوۃ ما دمت حیا۔ (۳۱-۱۹) سنو مھد والے انقلابی کی بات، میں جھولے کی زندگی میں اﷲ کا فرمانبردار بندہ ہوں مجھے کتاب بھی مل چکی ہے سنومیں مھد والاعیسیٰ بیٹا مریم کا نبی بھی بن چکا ہوں، میں جس جگہ بہی ہونگا وہان جم کراپنی مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے مضبوطی کے ساتھ کام کرونگا، اور استحصالی لٹیروں کے خلاف کلمۃ اﷲ انجیل کی روشنی میں ایسی ڈیوٹی سرانجام دونگا جو ہرفرد رعیت کو سامان پرورش مل سکے یہ میری مشن تاحیات رواں دواں رہے گی خلاصہ عرضداشت یہ ہے مھدکی عمر کا مفھوم جوانی کی عمر ہے جس میں شعور کامل اور عملی جذبہ قوت ذہن اورجسم پایہ تکمیل تک پہنچی ہوئی ہوتی ہے اس عرصہ میں عیسیٰ نے جوباغی ٹیم انقلاب کیلئے تیارکی ہے اور اپنی مردہ قوم کو جینے کا ڈہنگ سکھا یا ہے (۱۱۰-۵) یہ اسکی مھد والی زندگی کا ابتدائی دور ہے پھر اس بغاوت کو کچلنے کیلئے جو بنی اسرائیل انکے خلاف اٹھے ہیں انہیں تختہ دار پر لٹکانے کیلئے اور میں نے انکے اس منصوبے کو ناکام بنایا(۱۱۰-۵) اس دوران عیسیٰ روپوش ہوکر انڈرگراؤنڈ ہوجاتے ہیں اس عرصہ روپوشی کے بعد دوبارہ آکر انقلاب کو کامیاب بناتے ہیں اسپر جب اسکی اپنی قوم مطالبہ کرتی ہے کہ انزل علینا مائدۃ من السماء یعنی ہماری معیشیت کے جاگیرداری نظام سے ہماری جان چھڑاؤ جو کمائے وہی کھائے آزاد معیشت مساوی معاشی نظام کا عیسیٰ سے مطالبہ کرتے ہیں تو یہ زمانہ عیسیٰ کے اقتدار اور حکمرانی کاکھلا والا دور ہے جیسے قرآن نے عیسوی دور کے ابتدائی مرحلہ مھد کے بعد والی دور کو’’ کھلا‘‘سے تعبیر فرمایا ہے اور عیسی علیہ السلام کی حکمرانی کا ثبوت قرآن نے وکنت علیھم شھید مادمت فیھم(۱۱۷-۵) یعنی میں انکے اوپر شاھد تھا جبتک میں انکے اندر زندہ رہا، بہر حال نظام مملکت کا مطالبہ کرنا یہ وقت کے حکمران سے کیا جاتا ہے مسجد کے ملاسے ایساکوئی مطالبہ نہیں کیا جاتا ہے ۔

جناب عیسیٰ علیہ السلام کا اندہوں کوڑہیوں کو شفا دینا مردوں کو زندہ کرنا مٹی کے پرندوں کو اڑانا۔

ورسولالی بنی اسرائیل انی قد جئتکم باٰیۃ من ربکم انی اخلق لکم من الطین کھیءۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون طعراباذن وابرئی الاکمہ والارض واحی الموتی باذن اﷲ وانبأکم بماتأکلون وتدخرون فی بیوتکم ان فی ذالک لآیۃ لکم ان کنتم مؤمنین(۴۹۔۳) خلاصہ یعنی اے مریم تیراوہ بیٹابنی اسرائیل کی قوم کو ایک پیغام پہنچانے والابھی ہوگا کہ میں تمہارے پاس رب کی طرف سے ایک حیات بخش پیغام لے آیاہوں وہ ایسا قانون ہے جواسکے ساتھ جو اسکی رہنمائی میں اگر پرندہ بناکر اسے میں پھونک دوں تووہ اڑنے والا پرندہ بنجائے، اور وہ قانون اتنا تو اکسیر ہے جو اس سے نابیناؤں کو بینا کردوں اور کوڑ کے مریضوں کو شفایاب کردوں مردوں کو زندہ کردوں، اور اس قانون سے میں تمہیں یہ بھی بتا سکوں گا کہ تم ذخائررزق سے کتنا کچھ خرج کررہے ہواور کتنا کچھ اپنی تحویل میں ذخیرہ کررہے ہو، میرے اس قانون مین تمہاری بقا اور استحکام کی بڑی نشانیاں ہیں۔

محترم قارئین!
اس آیت کریمہ کے محاوراتی لفظوں اور اصطلاحوں کو انقلاب دشمن لوگوں نے انکی غیر محاوراتی اصلی معنوں کوکرامات اور معجزات میں لے جاکر گھسیٹاہے، قرآن حکیم نے جب اپنی نگار شات کی تفھیم کیلئے سمجھایابھی ہے کہ انہ لحق مثل ماانکم تنطقون (۲۳-۵۱) یعنی اس کتاب کی تمثیلات اسطرح کی سچ ہیں جسطرح کہ تم اپنے آپس میں محاورات کے ذریعے افھام وتفھیم کرتے ہو، دیکھا کہ مٹی سے پرندہ بنا کر اسے پھونک سے زندہ کرکے اڑانا یہ قانون انجیل کی تفھیم کی کیسی تو لاجواب تمثیل ہے کہ تم یھودی جو آج رسو ادربدر خاک بسر ہوجو کوئی تمہیں اپنے پاس بھی قریب ہونے نہیں دیتا آؤ یہ قانون علم وحی تمہیں مٹی سے اٹھا کر آسمان کی فضاؤں کو تمہارے قدموں تلے کردے گا، تم علم وحی علم تورات سے ہٹکر اندہے ہوچکے ہو اسلئے پھر قریب آؤ میں تمہیں انجیل میں بتائے ہوئے علم وحی سے جوکہ وہ فارمولے اصل میں توریت کے ہی ہیں انکے ذریعے تم نابیناؤں کو اندہوں کو نور دیدوں بینائی دیدوں

محترم قارئین!
پھر قرآن نے فرمایا کہ میں تمہیں کوڑھ کی مرض سے بھی نجات دلادوں، سب جانتے ہیں کہ کوڑہی مریضوں کا پوراجسم کہیں کھال کالی کہیں گوری کہیں کھال کی کوئی ٹکڑی گلی ہوئی ہے کہیں سلامت ہے پورا جسم پوری کھال متفرق داغوں سے کالے سفید پیوندوں میں بٹاہوا ہوتا ہے قرآن نے تمہارے اجتماعی قومی وجود کو قومی اور ملی جسم کو برص اور کوڑھ کے مریض سے تشبیھ دیتے ہوئے فرمایا کہ آؤ میں تمہیں اس کلاسفکیشن میں بٹی ہوئی نفرتوں والی زندگی سے نجات دلا کریک جان ویک قالب کردوں علم وحی کے ذریعے ملے ہوئے نظام سواء للسائلین (۱۰-۴۱) میں اتنی تو مقناطیسیت ہے اور اسکا ایسا تو مربوط نظام معیشیت ہے جو اسکے سسٹم سے فوراً پتہ لگ جاتا ہے کہ کہاں کتنا خرچ ہوا کہاں کتنا اسٹور ہوا، علم وحی کا معیشت کے حوالوں سے سارا نظام کمپیوٹر ائزڈ ہے جہاں کہیں بھی کوئی غبن ہوگا حساب کرنے والی مشینیں لال بتی سے سیٹیں بجانا شروع کردینگے کہ چیک کرو چوری ہورہی ہے سوآو تمہیں میں جاگیرداری اور سرمایادارانہ لوٹ کھسوٹ سے نجات دلاکر آسمان تک لے جاکر ترقی کی منزلیں طئے کراؤں جناب عالی! یہ ہے ان معجزات والے غلط ترجموں کا اصل خلاصہ اور ترجمہ جسکو عالمی سرمایہ داروں کے کرایہ کے دانشور انقلاب کے دشمن جوحق سچ کو بیچ کر اپنے پیٹ بھر رہے ہیں، اس بر صغیر کی دہرتی نے بھی ایک لاجواب نقاد کبیرا بھائی پیدا کیا جو کہتا تھا کہ چلتی کو کہیں گاڑی رنگی کو کہیں نارنگی بنے دودھ کو کھویا، دیکھ کبیرا رویا،

جناب قارئین!
اگر جناب عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں کہ انبأکم بماتأکلون وتدخرون فی بیوتکم (۴۹-۳) مجھے اﷲ کیطرف سے جو نظام حکومت اور نظام معیشیت زمین پر رائج کرنے کیلئے ملاہے اس میں اتنا تو مربوط سسٹم ہے جو مجھے خبر لگ جاتی ہے کہ کسنے کتنا کھا یا کسنے کتنا بچایا، تو عیسیٰ کی اس بات کو مولوی لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو معجزہ ہوا، اور جب یہی بات مختلف دہاتوں سے بناہوا کمپیوٹر بتاتا ہے کو اسٹور سے کتنا مال نکلاہے کتنا باقی ہے تو اسپر مولوی لوگ بتاتے ہیں کہ یہ تو سائنس ہے میرے خیال میں کبیر ا اسپر بھی روتا ہوگا کہ دین ملافی سبیل اﷲ فساد۔

پرندے اور جناب ابراہیم علیہ السلام

واذقال ابراھیم رب ارنی کیف تحی الموتیٰ قال اولم تومن قال بلیٰ ولٰکن لیطمئن قلبی قال فخذاربعۃ من الطیر فصرھن الیک ثم اجعل علی کل جبل منھن جزئاثم دعھن یاتینک سعیا واعلم ان اﷲ عزیزحکیم۔(۲۶۰-۲) جب کہا ابراہیم نے کہ اے میرے رب دکھاؤ مجھے کس طرح حیاتی دیتے ہو مردہ کو، کہا(رب نے کہ) کیا تم نے ایمان نہیں لایا؟ کہا کہ ہاں (ایمان لایا ہوں) لیکن (طریقہ کار سے متعلق) اطمینان چاہتا ہوں، اپنے قلب کی خاطر، کہا کہ پھر چار پرندے لے لو بعد میں انکو اپنے ساتھ مانوس کرو، (جب وہ تیرے ساتھ تیرے مخصوص حرکتوں اور آوازوں سے) مانوس ہوجائیں پھر النمیں کے ہر ایک حصہ کو اتنے جبلوں پر سیٹ کردے پھر آپ انہیں اپنے (مخصوص آواز سے) پکار انکو وہ دوڑتے ہوئے ائینگے آپکے پاس جان لے کہ اﷲ غالب اور حکمت والا ہے۔

جناب قارئین!
اس آیت کا مزید مفھوم یہ ہے کہ آپنے پڑہا ہے کہ جناب ابراہیم علیہ السلام کو اﷲ نے ذات انسان کیلئے، بین الاقوامی بین الانسانی آفاقی کائناتی عھدہ کا امام لیڈر اور نبی بناکر مبعوث فرمایا ا س سرٹیفکیٹ کے ساتھ کہ انی جاعلک للناس اماما، (۱۲۴-۲) میں تجھے ذات انسان کا قائد بنا رہاہوں اب جناب ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کی جاجربادشاہت نے جو لوٹ مار کے نظام سے انسانوں کو ہر قسم کی غلامیوں میں جکڑاہوا تھا تو ایسے غلاموں کے سماج سے باغی ورکر اور انقلابی پیدا کرنے کا مسئلا درپیش تھا جو جاگیرداریت کی ماری ہوئی مردہ قوم کو پھر سے زندہ کرنا تھا اب ابراہیم کے سامنے احیاء اموات یعنی مردہ قوم کو حیاتی دلانے پر تو مکمل یقین تھا کہ اس کوملے ہوئے علم میں بالکل ایسی جان ہے کہ اس سے ذہنوں کو جلاء ملیگی آیت مذکورہ میں صرف طریقہ کار معلوم کیا ہے سوال کیا ہے میں اس مردہ قوم سے جان نثار قسم سرویچ ساتھی جو بناؤں تو اسکا طریقہ کار کیا ہونا چاہیئے، اور اﷲ کے سوال کے جواب میں کہاکہ بھروسہ اور ایمان تومیں رکھتا ہوں لیکن طریقہ کار کاتعین معلوم کرنا ہے اور بس،

جناب قارئین!
یہی فارمولا اﷲ عزوجل نے جناب رسول اﷲ کو دوسرے الفاظوں میں تھوڑے فرق کے ساتھ سمجھایا ہے کہ واخفض جناحک لمن اتبعک من المؤمنین (۲۶-۲۵) جو مؤمن لوگ تیرے تابعدار بنیں انکے لئے پر بچھائیں اپنے مہربانی کے، انکو تو اضع سے پیش آئیں، اگر غور کیا جائے تو جناب رسول اﷲ کو پربچھانے کاجو حکم کیا جا رہاہے تو یہ ایک قسم کا محاورہ ہے سوبالکل اسطرح جو جناب ابراہیم علیہ السلام کو چارپرندے لیکر انہیں مانوس کرکے پھر انکی انسیت کے امتحان لینے کی بھی بات سمجھائی ہے یہ سب محاورے ہیں سب انقلاب کارا مٹیریل تیار کرنے کی باتیں ہیں، میں یہاں قرآن فھمی کیلئے امام انقلاب عبیداﷲ سندہی کا ایک قول پیش کرنا مناسب سمجھتاہوں قرآن حکیم کو وہ کوگ زیادہ سمجھہ ستکے ہیں جو قرآن ملنے سے پہلے ظالم مترفین کے سیاسی شکنجوں میں جکڑے ہوئے تھے انکے بچے عورتیں غلامی کا ایندہن بنی ہوئی تھیں پھر ایسی دوزخ کی جیوت سے جان چھڑانے والے قرآنی فارمولوں سے وہ لوگ جب میدان جنگ میں آزادی کے حصول کے لئے لڑے اور اپنے پیارون کی لاشیں میدان جنگ میں زخمی حالتوں میں بھی اٹھائیں، ایسے لوگ جب قرآن پڑہینگے تو انکی فھم انکے مقابلے میں اونچا پرواز کریگی انکے مقابلہ میں جو لوگ پرتکلف آرام دہ پرتعیش مخدو مانہ زندگی گذارنے والے ہونگے، سندہی صاحب کے فکرکی بات ہوئی ہے تو قرآن فھمی کیلئے انکا ایک قول اور بھی خدمت میں پیش کروں، فارس کے اماموں نے جو اپنی گھڑی ہوئی روایات سے سیکڑوں قرآن کی آیات منسوخ بتائی ہیں جبکہ سندہی صاحب قرآن کی ایک آیت بھی منسوخ نہیں مانتا تھا، اس موضوع پر جب مولانا صاحب نے بحث کیا ہے کہ جو وصیت کیلئے حکم قرآن ہے کہ وارثوں میں مال تقسیم کرنے سے پہلے وصیت کا مال علیحدہ کرکے پھر بقیہ مال حصص کے مطابق تقسیم کیا جائے اور قرآن نے مرنے سے پہلے وصیت کا بھی حکم دیا ہے تو حدیث سازوں نے حکم وصیت کو منسوخ بتایا ہے جب ورثاکے حصص کا تفصیل قرآن نے دیا ہے تو اسکی وجہ سے وصیت والا حکم منسوخ ہوگیا سو امام سندہی نے وصیت کو منسوخ بنانے والوں کو کہا ہے کہ اس حکم قرآن کی حکمت کو میں زیادہ سمجھتا ہوں کہ وصیت کی حکمت کیا ہے اسلئے کہ میری والدہ غیر مسلم ہے اسلئے قرآن کے حکم وصیت کی اہمیت کو جتنا میں سمجھتاہوں اتنا دوسرے تنگ نظر لوگ نہیں سمجھ سکینگے اور جو موروثی مسلم ہوں گے، بہر حال جناب ابراہیم علیہ السلام کے سوال کہ رب ارنی کیف تحی الموتی کے جواب میں یہ فرمانا کہ خذاربعۃ من الطیر چار پرندے لو اس حکم میں واقعی پرندے نہیں لینے بلکہ یہ استعارہ اور محاورہ ہے کہ چار آزادی پسند جوان چار ایسے آدمی جو پہلی غلامانہ زندگی سے نفرت کرنے والے اور آزادی کے حصول کا جذبہ رکھنے والے ہوں انہین اپنے فکرو نظریہ سے ایسے مانوس بناؤ جسطرح کہ پرنددوں کو شکاری لوگ اپنے ساتھ مانوس بناتے ہیں سدہا سدہا کر اپنے ساتھ رہنے کیلئے انہیں عادی بناتے ہیں اسطرح آپ بھی انقلاب کیلئے جو ورکر اور ساتھی بنائین نمرود کی رشوتوں پر آپ سے بیوفائی نہ کریں،

جناب قارئین!
اس آیت کے تفسیر کیلئے امام بخاری نے اپنی کتاب میں آیت کا تفسیر کرنے کیلئے جو حدیث لائی ہے کہ عن ابی ھریرہ قال قال رسول اﷲ نحن احق بالشک من ابراھیم اذقال رب ارنی کیف تحی الموتی قال اولم تؤمن قال بلی ولٰکن لیطمئن قلبی، (کتاب التفسیرسورۃ البقرہ بخاری) یعنی رسول اﷲ نے فرمایا کہ ہم تو شک کرنے میں زیادہ حقدار ہیں ابراھیم علیہ السلام کے مقابلہ میں جب ابراہیم نے اﷲ سے عرض کی کہ مجھے مردوں کو زندہ کرنے کی کیفیت بتاؤ تو اﷲ نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ ہمارے کہنے پر بھروسہ نہیں رکھتے تو ابراہیم نے کہا کہ بھروسہ تو رکھتا ہوں لیکن اطمئنان قلب کے لئے سوال کیا ہے

محترم قارئین!
اس حدیث پر غورفرمائیں کہ حدیث سازوں نے دوبڑے الزام لگائے ہیں جناب محمد الرسول اﷲ کے نام پر علم وحی پر شک دکھا رہے ہیں شک ثابت کررہے ہیں، جبکہ یہ شک والی تھمت آیت کے الفاظ میں نہیں ہے، آیت کے اندر اﷲ کا سوال ہے کہ اے ابراہیم مردہ قوم کے زندہ کرنے والے فارمولے جو کہ صحف ابراہیم میں موجود ہیں کیا یہ اپنی تاثیر میں تیرے خیال میں اعتماد کرنے کے لائق نہیں ہیں کیا؟ تو ابراہم کا جواب ہے اعتماد بھروسہ کی بات نہیں ہے سوال فارمولوں پر عمل کی کیفیت سے متعلق ہے تاکہ بتائی ہوئی کیفیت پر عمل کر کے میں رزلٹ سے متعلق اطمینان قلب حاصل کرسکوں، حدیث کے اندر جناب رسول اﷲ کی طرف سے ابراہیم علیہ السلام پر اﷲ کے دئے ہوئے کلام پر شک کرنے کے یقین کے بعد دوسرا حملہ یہ ہے کہ اب تو ابراہیم سے بھی بڑہ کر شک کرنے کا ہم کو بھی حق پہنچتا ہے،

محترم قارئین!
خبر نہیں کہ آپ امام بخاری کے اور اسکے استاد الاستاد امام زہری کے اتنے بڑے حملے کو سمجھ سکے یا نہیں کہ رسول اﷲ نے اﷲ کے کلام پر ابراہیم کی بے اعتمادی بتانے کے بعد اپنی طرف سے بھی علم وحی پر ابراہیم کی طرح شک کرنے کا استحقاق محفوظ کرلیا ہے ۔

جناب قارئین!
یہ ہے علم الحدیث جس کے لئے بتایا جاتا ہے کہ یہ قرآن کا تفسیر کرتا ہے، اب کوئی بتائے کہ ہم اتنی بڑی گستاخی پر جناب ابراہیم علیہ السلام جناب محمد الرسول اﷲکے مرتبوں اور شان کے خلاف اور قرآن حکیم کے اندر تحریف معنوی پر کس کے ہاں جا کر فریاد کریں، ہے کوئی اسلام کا اﷲ کے نبیوں کا قرآن کا وارث!!؟ جسکے پاس امام بخاری امام زہری کی اس حدیث اور اس جیسی اورگستاخانہ حدیثوں پر فریاد پیش کریں۔

ایک بستی کا سو سال اجڑجانے کے بعد زندہ ہونا

اوکالذی مرعلی قریۃ وھی خاویہ علی عروشھا قال انی یحی ھٰذہ اللہ بعد موتھا فاماتہ اللہ ماۃ عام ثم بعثناہ قال کم لبثت قال لبثت یوما او بعض یوم قال بل لبثت مأۃ عام فانظر الیٰ طعامک وشرابک لم بتسہ وانظر الی حمارک ولنجعلک اٰیۃ للناس وانظر الی الطعام کیف ننشزھا ثم نکسوھا لحما فلما تبین لہ قال اعلم ان اللہ علی کل شی قدیر (۹۵۲- ۲) یعنی مثال اس شخص کا جو گزرا ایک قومی علائقہ اور مرکز سے جس کی عمارات گر کر ملیا میٹ ہو چکی تھیں تو اسنے سوچا کہ کس طرح ان بربا دشدہ بستیوں کو انکے تباہ ہونے کے بعد نیا جیون مل سکتاہے‘‘ پھر اللہ نے اسکو سؤ سال تک موت کی حالت میں رکھا اسکے بعد اسے اٹھایا، اور پوچھا کہ تم کتنی مدت اس حال میں رہے تو اس نے جواب دیا کہ ایک دن یا اس کا کچھ حصہ ہے تو اللہ نے اسے کہا کہ نہیں بلکہ تونے سوسال اس حالت میں یا اس کا کچھ حصہ گذاری ہے، اسکے باوجود دیکھو کہ تمہارا کھانا اور پانی بھی اسی حال میں ہے جو خراب نہیں ہوا اسی طرح تیرا گدہا بھی صحیح سلامت کھڑا ہے یہ سب اسلئے کیا گیا کہ تم لوگوں کے لئے علامت بنجاؤ، اور غور کروکہ ماں کے پیٹ میں، ہم کسطرح ہڈیوں کو نشوز دیتے ہیں (خون سے) پھر انکو گوشت پہناتے ہیں (جس سے ایک بچہ تیار ہوجاتاہے) پھر جب اسکے ذہن پر یہ پراسیس کھل گیا تو اقرار کیا کہ واقعی (یہ مردہ قوم بھی زندہ ہوسکتی ہے) اللہ ہر شئ پر قدرت رکھتا ہے۔

محترم قارئین!
ہمارے علماء کرام نے چونکہ قرآن فھمی کیلئے قرآن سے تو مدد لی ہی کہاں ہے۔ ان حضرات نے فارس کے امامی دانشوروں کی روایات سے سارا کچھ لیا ہے اور ان حضرات نے قرآن فھمی میں جان بوجھ کر رکاوٹیں ڈالی ہیں پڑہنے والوں کو بڑی کوشش کرکے قرآن کی دعوت فکر سے اھداف قرآنی سے ہٹایا ہے، پھسلایاہے، اس کے کچھ مثالیں آپ میری کتاب کیا علم حدیث کے قرآن کا تفسیر ہوسکتاہے؟ میں پڑہسکتے ہو، سوا ن لوگوں نے اس آیت (۲۵۹- ۲) کو بھی ایک معجزہ کے طور پر مشہور کیا ہے۔ اصل میں اس واقعے کے اندر مسئلہ حیات اور ممات کے سمجھانے کیلئے ایک تمثیلی قصہ قرآن نے بیان فرمایا ہے، وہ اس طرح کہ بادشاہ (نمرود) جو جناب ابراہیم علیہ السلام سے مخاطب تھا جسے جناب ابراہیم نے فرمایا کہ (اے بادشاہ تیری حیثیت تو کچھ بھی نہیں ) میرا رب تو موت و حیاتی کا مالک ہے، سو یہ بات بادشاہ بے عقل سمجھ ہی نہ سکا اسنے کہا کہ کسی کو موت دینا اور کسی کو حیاتی بخشنا تو میں بھی کر سکتاہوں، بیوقوف بادشاہ ابراہیم کے قول کو سمجھ ہی نہیں رہا تھا، اصل میں ابراہیم اسے کہ رہا تھا کہ تو جس قوم پر بادشاہی کر رہا ہے اس قوم کو تونے جابرانہ ظالمانہ طریقوں سے غلام بناکر موت تو دیا ہے، لیکن اب قوانین الٰہی جو مردوں کو حیاتی اور جلا بخشتے ہیں انکی باری آرہی ہے، اَب ان قوانین حیات بخش کو اللہ نے میرے ہاتھوں تیرے خلاف اس قوم کے احیاء کیلئے عمل میں لاکر تیرا تخت الٹنے کا پروگرام بنایا ہے‘‘ سو جو اس مباحثہ میں سوال تھا قوموں کی اجتماعی موت و حیات کو سمجھنے کا، اس آیت ۲۵۷ کے بعد اگلی آیت ۲۵۹ کے اندر مردہ قوم کو حیات بخشنے کے تفصیلی پراسیس کی طرف اللہ نے ایک تمثیل کے ذریعے اشارہ دیاہے یہ تمثیل تو اوکالذی مرعلی قریۃ وھی خاویۃ علی عروشھا سے ہے یعنی اس مثال سے یہ احیاء اموات کا مسئلہ سمجھو! جو ایک شخص نے ایک برباد بستی پر گذرتے وقت کہا تھا کہ یہ قوم دوبارہ کیسے آباد ہوسکتی ہے، پھر قرآن نے تو اس شخص کو ایک سو سال موت دینے کا قصہ بتاکر پھر زندہ کرکے بعد میں ماں کے پیٹ کے اندر نطفہ سے علقہ پھر مضغہ پر عظام اسکے بعد ہڈیوں پر گوشت والے پراسیس کی طرف اشارہ فرماکر ان اللہ علی کل شیء قدیرسے سب کچھ سمجھادیا ہے بہر حال اس آیت کو مفسرین حضرات نے ظاہری الفاظ سو سال کے موت کو معجزہ سے تعبیر کیا ہے جبکہ ہم قرآن اور رسول اللہ کے پیروکاروں کو حکم ہے کہ تم لوگ ہر مسئلہ کو عقل کے پئمانوں میں سمجھا کرو اور سمجھایا کرو، (۱۰۸- ۱۲) تو اس واقعہ کو عقل کی روشنی میں سمجھنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ یہ سوسال کیلئے مرجانا پھر زندہ ہونا یہ موت موقت ایک قسم کا خواب ہے جو کوئی بھی نیند میں خواب میں اتنا دورانیہ دیکھ سکتاہے کہ کچھ قومیں اور معاشرے بداعمالیوں میں جاگریں انکے مصلحیں انہیں راہ راست پر لانے کی جدوجہد کریں وہ اسمیں ناکام جائیں پھر ایسی قوم پر باہر کی قوموں کی جنگیں پڑیں پھر یہ غلام بنجائیں تو اس قسم کے واقعات کو ایک سؤ سال کا عرصہ گذرسکتاہے، اور یہ ایک سوسال کی تاریخ کی کہانی سرگذشت یا فلم چند گھنٹوں کے نیند میں بذریعے خواب دکھائی جاسکتی ہے، ویسے بھی اس واقعے کو بائیبل نے جناب حذقی ایل علیہ السلام کے خواب کی صورت میں پیش کیا ہے جس خواب کا خلاصہ قرآن حکیم نے چند سطروں میں بیان کر دیا ہے خلاصہ اس بات کا ہے کہ یہ خواب کا واقعہ ہے، رہا یہ سوال کہ اﷲ نے پھر اس خواب کو خواب کیوں نہین کہا موت کیوں کہا، سو اسکا جواب یہ ہے کہ اﷲ نے موت اور نیند دونوں کے اندر روحوں کو اپنے قبضہ میں لے لینے کی بات کی ہے فرق انمیں کا یہ بتا یا ہے کہ نیند والے کا روح جبکہ اسے وفات دینا مقصد اور پروگرام میں نہیں ہوتا تو اسے واپس کرتا ہوں اور جسے موت دے دینا مقصود ہوتا ہے تو اسکا روح اسے واپس نہیں کرتا۔ فرمان ہے کہ اﷲ یتوفی الانفس حین موتھا والتی لم تمت فی منامھا فیمسک التی قضی علیھا الموت ویرسل الاخری الی اجل مسمی ان فی ذالک لایاٰت لقوم یتفکروں(۴۲-۳۹) آیت کا خلاصہ اوپر آچکا ہے یعنی موت اور نیند برابر کی چیزیں ہیں پھر بھی آیت ۲۵۹ کے سوسال موت کی بات سے خواب مراد ہے جسکو اسکا تفصیل اس سے بڑھ کرجزئیات جاننا مقصود ہوتو توریت میں حذقی ایل علیہ السلام کا خواب کا قصہ پڑہے اور جہاں تک کسی مردہ قوم کوزندہ کرنے کا قصہ سمجھنے سے دلچسپی ہو تو پھر اسی آیت بعد آیت(۲۶۰-۲) پڑھ لے کہ جناب ابراہیم علیہ السلام اﷲ عزوجل سے مردہ قوموں کے حیات کیلئے پارٹی سازی۔ ورکر سازی اور تزمیل کیلئے اﷲ سے رہنمائی حاصل کرتا ہے، یہ اوربات ہے کہ قرآن دشمن حدیث ساز امام مافیانے اس تعلیم کو بھی معجزوں میں سے شمار کردیا ہے لیکن اسپر بھی میرا مضمون اسی کتاب میں ایک بار نظر سے نکالیں ویسے آجکل سوسال کی کہانیں چند گھنٹوں کی فلم میں بھی سموکر دکھائی جاتی ہیں، پھر تو معجزوں کے پرستارلوگوں کو کئمیرا بنانے والوں ٹی وی بنانے والوں وائرلیس، موبائیل، فیکس، ای میل اور کمپیوٹر بنانے والوں کو سائنسی عقلی ایجادات کے سواء انکو غیر عقلی خرق عبادت معجزات قرار دینا چاہیئے۔ اور آیت کے اندر سو سال کے موت کو ایک خواب کی طرح کادورانیہ سوسال کا ہے۔ ورنہ تو یہ یوما اوبعض یوم یعنی کچھہ گھنٹوں کا وقفہ ہے جیسے کہ خواب دیکھنے والے کا کھانا پینے کاپانی وہ ابھی باسی نہیں بناتھا، اور اسکی سواری کا جانور گدہا بھی اسطرح صحیح و سلامت تھا تو یہ سوسال کا موت ایک خواب ہی ہوسکتا ہے اور کچھ بھی نہیں۔

جناب ابراہیم علیہ السلام پر آگ کاٹھنڈہا ہوجانا

قالوا حرقوہ وانصروا اٰلھتکم ان کنتم فاعلین قلنا یانارکونی برداوسلاماعلی ابراھیم وارادوبہ فجعلناھم الاخسرین(۷۰-۲۱) کہا ان لوگوں نے (ابراہیم کو) جلاکر اسکے ساتھ اپنے معبودوں کی مد کرو اگر تم کوئی کام کرسکتے ہو، ہم نے (انکے مقابلہ میں) کہا کہ اے آگ تو ابراھیم پر سلامتی کے ساتھہ ٹہنڈہی ہوجا، اور ان بت پرستوں نے ابراہیم کے خلاف جو منصوبے بنانے چاہے تھے ہمنے انہیں ناکام بنادیا۔

محترم قارئین!
اس آیت (۷۰-۲۱) کو کرامتوں اور معجزوں کی معناؤں میں لانے والوں نے اس واقعہ کو پورے قرآن کے اندر مختلف تفھیمات سے جو اﷲ نے بیان فرمایا ہے جو کہ تصریف آیات کا ہنر تفھیم قرآن کیلئے سمجھایا ہواہے اسکیلئے دورکے مثالوں کی طرف بعد میں چلینگے پہلے آیت (۷۰-۲۱) جو کہ ساتھ والی اگلی آیت ہے خود ا س میں ہے قلنا یا نارکونی بردا وسلاما علی ابراھیم کی معنی اور مفھوم کو نہایت اچھی طرح سے سمجھایا گیا ہے، یہ آیت مکمل تفسیر ہے اپنی پچھلی آیت کا جو مفھوم میں سمجھایا ہے کہ ہمنے ابراہیم کے خلاف بھڑکائے جانے والے جذبات اور سازشی اسکیموں کو ناکام بنانے کے منصوبے بنائے اور اسمیں ہم کا میاب ہوئے،

جناب قارئین!
یہی آیت سمجھارہی ہے کہ ہماری تدبیروں نے دشمنوں کی بھڑکائی ہوئی آگ کو ٹھنڈ ہا کردیا، ٹھنڈہا کرنا کیا تھا جناب اﷲ کی تدبیر ایسی تھی جیسے کہ دشمنوں کے غبارے سے ہوا نکل گئی، انکے منصوبے خاک میں ملگئے انکی بھڑکائی ہوئی آگ ٹھنڈہی ہوگئی،

محترم قارئین!
یہ سب ہمارے ماحول کے اندر استعمال ہونے محاورے ہیں۔ استعارے ہیں، لکڑیوں کو جلا کر ابراہیم کو آگ میں نہیں ڈالا گیا تھا۔ لکڑیوں کی آگ حدیثیں بنانے والوں کی جلائی ہوئی ہے قرآن نے ابراہیم کے مخالفوں کی دلوں میں جو غصہ تھا گرمی تھی اسے آگ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اسیطرح لفظ نار کا استعمال بطور محاورہ اور استعارہ کے سورۃ بقرہ میں آیا ہے کہ اولائک مایأکلون فی بطونھم الاالنار (۱۷۴-۲) اس آیت میں حق سچ کو چھپانے والوں کیلئے اﷲ نے فرمایا ہے کہ یہ لوگ اپنے پیٹوں میں آگ کھارہے ہیں تو اس آیت میں بھی لفظ نارکا استعمال محاورے کی معنی میں آیا ہے اصلی معنی میں نہیں آیا دوسرے مقام پر آیا ہے کو قال انا خیرمنہ خلقتنی من نارو خلقتہ من طین یعنی آدم سے بھتر ہوں اسلئے کہ مجھے آپنے آگ سے پئدا کیا ہے اور آدم کو مٹی سے تواس جگہ بھی نار کا لفظ یانار آگ کی اصلی معنی میں نہیں آیا، کلما اوقدوانارا للحرب اطفأاﷲ(۲۴-۵) جب بھی انہوں نے جنگ کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی تو اﷲ نے اسکو بھیج دیا، تو ان ان مقامات اور ان سے بھی کئی اور مقامات پر لفظ نار اپنی اصل معنی میں استعمال نہیں ہوا بلکہ محاوہ کی معنی میں استعمال ہواہے۔ اسیطرح آیت (۷۰-۲۰) مین بھی نار کا لفظ اصلی معنی میں استعمال نہیں ہوا۔
قوم ثمود کو غریبوں کے مویشیوں کو پانی نہ دینے پر عذاب
قوم ثمود کی طرف جناب صالح علیہ السلام کو اﷲعزوجل نے نبی اور رسول بنا کر بھیجا تھا وہی جنگ جو جملہ انبیاء کی جنگ ہوتی رہی ہے اپنے اپنے دور کے استحصالی لٹیروں کے خلاف، اس قصہ میں بھی معاملہ نظریاتی جنگ کا ہے اس لڑائی کو مفسرین کی طرف سے معجزہ نام دیا گیا ہے، صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے واقعہ کے نام سے، جبکہ یہ نسبت اور نام بھی غلط ہے جو کہ قارئین کو یہ بات اس مضمون سے سمجھ میں آجائینگی۔

جناب قارئین!
جناب صالح علیہ السلام کی اپنی قوم کے لٹیروں سے اصل جنگ تو نظریاتی ہے کہ دولت کا سرچشمہ جو دہرتی ہے زمین ہے یہ کسی کی جاگیر اور ذاتی ملکیت نہیں ہوسکتی اﷲ کا قانون ہے کہ والارض وضعھا للانام ۱۰-۵۵ زمین کی وضعیت اور جڑاء یہ تو لوگوں کیلئے ہے دہرتی کسی کی ذاتی پراپرٹی نہیں ہوسکتی جسکے لئے فرمان ہے کو ﷲ میراث السماوات والارض آسمانوں کی املاک اور زمین کی املاک ان سب کا وارث اﷲ ہے(۱۸۰۔۳) وﷲ ملک السماوات والارض واﷲعلی کل شیء قدیر(۱۸۹۔۳) زمین اور آسمانوں کی بادشاہت اﷲ کیلئے ہے جو ہرچیز پر قادر ہے ولقد کتبنا فی الزبور ان الارض یرثھا عبادی الصالحون (۱۰۵۔۲۱) ہمنے اپنی کتب انبیاء میں یہ قانون لکھت میں دیاہوا ہے کہ زمین کے وارث وہ لوگ بنینگے جو اسکی اصلاح کرنے والے ہونگے۔

جناب قارئین!
اب آئیں اور ملاخظہ فرمائیں جناب صالح علیہ السلام اور اسکے مخالفین قوم ثمود کے پیٹ بھرے لوگوں کے اختلاف اور جھگڑے کا، قال الملا الذین استکبر وامن قومہ للذین استضعفوالمن آمن منھم اتعلمون ان صالحا مرسل من ربہ قالوا انا بما ارسل بہ مومنون قال الذین استکبروا انا بالذی اٰمنتم بہ کافرون(۷۵۔۷۶۔۷) یعنی قوم ثمود کے پیٹ بھرے امیروں نے جنہوں نے تکبر کیا تھا ثمود قوم والوں میں سے ان لوگوں کو کہا جن کو کمزور بنا یا گیا تھا انمیں کو جنہوں نے ایمان لایا تھا کہ کیا تمہیں یقین ہے کہ صالح اﷲ کا بھیجا ہوا رسول ہے؟ تو ان کمزور اور غریبوں نے کہاکہ وہ رسول تو ہیں ہی لیکن یہ بات بھی سن لو کہ انابما ارسل بہ مؤمنون ہم اسکودئے ہوئے رسالت کے فکری پئکیج پر ایمان بھی لائے ہوئے ہیں۔ تو جواب میں امیروں نے غریب اور کمزورمؤ منوں کو کہا کہ تمنے جس چیز پر ایمان لایا ہے اسکے ہم انکار کرنے والے ہیں کا فرہیں۔ آگے انکی اس جنگ کی تفصیل بڑی لمبی ہے، اس جنگ اور لڑائی کی ایک نظر یاتی تفریق یہ تھی کہ جناب صالح علیہ السلام نے جو علم وحی کے نظریات پر مشتمل منشور پر جو غریبوں کی پارٹی بنائی تھی انکا معاشی نظام سواء للسائلین(۱۰۔۴۱) پر مساوات والاتھا جسمیں زمین والارض وضعھا للانام (۱۰۔ ۹۵۵ ) قومی ملکیت میں تھی اور اس معاشرہ مین گذرسفر کا ذریعہ بڑے پئمانے پر مویشیوں پر تھا، اور مویشیوں میں سے زیادہ تعداد مین قسم اونٹوں کی تھی، قوم ثمود جغرافیائی لحاظ سے حجاز سے شام کی طرف جانے والے راستہ پر ایک لمبی چوڑی وادی مین واقع تھی یہ لوگ اپنے مکانات ماربل کے مٹیریل سے بنانے میں مشہور تھے اور ماہر تھے (۹۔۸۹)۔

جناب قارئین!
جیسے کہ عرض کیا گیا کہ جناب صالح علیہ السلام اپنے مؤمنین ساتھیوں کی تنظیم بنا کر اپنے علم وحی والے منشور کے مطابق اپنے دور کے امیروں کے مقابلہ میں جس معاشرہ کو قائم کرکے میدان عمل میں امیروں سے برسر جنگ تھے تو وادی کے اندربارشی پانی چشموں تلابوں میں جمع کرکے دیگر ضرورت کے ساتھ مویشیوں کو وہاں ان تالابوں سے پانی پلانے پربڑی لے دے رہتی تھی امیرلوگ بضد رہتے تھے کہ تالابوں سے صرف ہمارے ڈہورڈہنگر پانی پئیں۔ اور کسی کے نہیں۔ جناب صالح علیہ السلام نے چونکہ اپنی پارٹی والونکی مشترکہ معیشت کا نظام قائم کیا ہواتھا اور پانی کے ذخائر پر وہ اپنا بھی برابر کا استحقاق سمجھتے تھے سو امیر لوگوں سے کئی اور محاذوں کے ساتھ ساتھ پانی کے مسئلے پر بھی جنگ رہتی تھی۔ سو معاشرہ کے امیر لوگوں کو ہروقت لڑائی جھگڑے کی نیت رہتی تھی جناب صالح علیہ السلام کی ہروقت اپیل یہ ہوتی تھی کہ یا قوم اعبدو اﷲ مالکم من الٰہ غیرہ یعنی اے میری قوم اﷲ کے قوانین کی تعمیل کرو، اسکے سواء کوئی اتھارٹی نہیں جسکی اطاعت کی جائے۔ سو اگر تمہیں ضد ہے کہ تم اﷲ کے قانون کے عوض اپنی من مانی چلاؤگے تواب آؤ ! مقابلہ ہی سہی اگر تم اﷲ کے قوانین کے مقابلہ میں اپنی دولت شاہی چلانا چاہتے ہو اور مجھے تم چئلنج کررہے ہو کہ ماانت الابشرمثلنا فات باٰیۃ ان کنت من الصادقین۔ (۵۴۔۲۶) آیا ہے تو کوئی علامت نشانی معجزہ دکھاؤ! جواب میں جناب صالح علیہ السلام نے کہاکہ اچھا جس بات پر تم راضی اسپر ہم بھی راضی اس لئے معجزہ دکھا نے کیلئے دور نہیں جاتے، میں نے اعلان کیا ہواہے کہ آسمانوں اور زمین کی ساری ملکیت اﷲ کی ہے تم لوگ پانی کے تالابوں سے پانی پینے نہیں دیتے چراگاہوں سے چارہ کھا نے نہیں دیتے سوسن لوکہ آئندہ جو ناقۃ اﷲ ہے یعنی اونٹنیوں کے وہ ریوڑجو میری حزب اﷲ نے انہیں ذاتی ملکیتوں کے بجاء علم وحی کے حکم کے مطابق جملہ غریبوں محنت کشوں کی اجتماعی ملکیت قراردیا ہواہے انکے ان تالابوں سے پانی پینے پر تم ہم سے ہرروز لڑتے ہو۔ سوسن لو ھٰذا ناقۃ اﷲ آیۃ بس اور کوئی معجزہ کیاکریگا، یہی اونٹنیوں کے ریوڑہیںیہی آیت اﷲ ہے یہی سب کچھ ہے،اب ایسا کرتے ہیں کہ ایک ایگریمنٹ کرتے ہیں کہ لھاشرب ولکم شرب یوم معلوم (۵۵۔۲۶) یعنی باری باری کرتے ہیں ایک مقرر وقت میں تمہارے مویشی پانی پیئینگے اسوقت ہمارا اﷲ کیلئے سب کیلئے عوامی پراپرٹی والا مویشیوں اونٹنیوں کا ریوڑ نہیں آئیگا اور جب ہمارے اونٹنیوں کے ریوڑکی باری آئیگی تو تمہارے ڈہور ڈہنگر نہیں آئینگے۔ اس معاھدہ پر تمہارا تفاق رہے اگر تمنے عمل نہیں کیا تو تم پر اﷲ کا عذاب آئیگا۔ پھر ہوا یہ کہ ایک باری کے موقعہ پر فنا دوا صاحبھم فتعاطی فعقر(۲۹۔۵۴) یعنی اپنے ایک انقلاب دشمن ساتھی کو بلاکر اونٹنیوں کے پاؤں کاٹ دیئے اور انہیں ہلاک بھی کیا۔

جناب قارئین!
یہ واقعہ بھی ایسا ہے جیسے کہ اﷲ عزوجل نے جناب نوح علیہ السلام کو بتایا تھا کہ کشتی بناؤ میں ایک طوفانی سیلاب لاؤ نگا تو اپنے مؤمنون کو اور ضروری مویشیوں کو کشتی میں سوار کرنا تیرے مخالفوں کی پوری پوری خبرلی جائیگی۔ اسطرح جناب صالح علیہ السلام سے ایگریمنٹ توڑنے والوں کو ایک زلزلہ کے ذریعہ سے تباہ کردیا،

جناب قارئین!
اس قصہ میں اونٹنی کو معجزاتی اونٹنی کے طور پر مشہور کیا گیا ہے اور جناب موسی علیہ السلام کی طرف منسوب جبل طورسینامیں ساٹھ فوٹ کا ایک شگاف ہے اسکیلئے مشہور کیا گیا ہے کہ اس شگاف سے صالح علیہ السلام کی اونٹنی نکلی تھی۔ وہاں سے چند قدموں کے فاصلہ پر پتھر پر اونٹنی کے پاؤں کا نشان ہے کہاجاتا ہے کہ یہ حضرت صالح کی اونٹنی کے پاؤں کا نشان ہے۔

جناب قارئین!
تھوڑا سا غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جملہ ناقۃ اﷲ کی معنی اﷲ کی اونٹنی اسکی توخاص معنی خاص اونٹنی کے ساتھ مخصوص بنانا یہ بہت بڑی غلطی ہے جب آپنے قرآن میں پڑہا کہ ﷲ میراث السماوات والارض آسمانوں اور زمین کی جملہ اشیاء اﷲ کی میراث ہیں تو پھر صرف ایک ناقہ ہی کیوں اﷲ کی ہوبتایا جائے کہ کونسی چیز اﷲ کی نہیں ہے۔ بہر حال اس بحث میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جناب صالح علیہ السلام کے مخالف امیروں نے اپنی اپنی املاک پر تیری میری کے ٹھپے لگائے ہوئے تھے اور جو لوگ جناب صالح علیہ السلام کے نظریانی انقلاب کے ممبر تھے انکا مال مویشی سب مشترک عوامی پراپرٹی تھا علم وحی کے نظر یہ کا اصول ہے کہ جو چیز بھی اﷲ کی ہے وہ سب کی ہے تو ناقۃ اﷲ کی معنی کہ عوام کی اونٹنییں یہاں کوئی سوال کر سکتا ہے کہ ناقہ کا لفظ ہر جگہ مفرد اور واحد کے صیغہ میں استعمال ہواہے اگر عوام کے سارے مویشی مراد ہوتے تو پھر جمع کا صیغہ استعمال کیا جاتا ، اس سوال کا جواب ہے کہ تاقہ اﷲ اسم النوع ہے، نوع کے ذیل میں اسکے لاتعداد افراد سماسکتے ہیں پھر کوئی یہ بھی سوال کر سکتا ہے کہ پھر ناقہ ہی کا نوع کیوں؟ مویشی تو اور بھی اقسام کے ہیں اسکا جواب یہ ہے کو قوم ثمود کے ہاں اکثریت اونٹوں اونٹنیوں کی تھی اسلئے نام صرف اکثریت والوں کا لیا گیا ہے مراد اسمیں سارے مویشی آجاتے ہیں مویشیوں سے جو فائدہ دودھ گوشت سواری کا لیا جاتا ہے وہ سب اونٹنیوں سے مل جاتا ہے۔

از قلم :     شکاری

رانا صاحب اور انتظامیہ سے ایک گزارش کرنا چاہوں‌گا کہ احادیث‌کی طرح معجزات کے موضوع پر بھی ایک سیریز شروع کر دی جائے اور قرآن میں‌ موجود ایک ایک معجزانہ واقعے پر گفتگو کے لئے اگر علیحدہ دھاگا اور باحثین کو موضوع پر گفتگو کا پابند بناتے ہوئے اگر انتظامیہ ان دھاگوں‌کی ’خصوصی نگہداشت‘‌کر سکتی ہو تو منکرین و قائلین معجزات کے نظریات بہتر طور پر لوگوں‌ کے سامنے پیش کئے جا سکیں‌گے۔ رانا صاحب نے بہت محنت سے درج بالا مضمون یا کتابچہ ٹائپ کیا ہوگا۔ لیکن اس کی افادیت تب ہوگی جب عام اہل سنت کا نظریہ بھی سامنے ہو، تاکہ لوگ اپنے لئے درست عقیدہ کو چن سکیں۔ موجودہ موضوع میں‌اتنے سارے معجزات پر یکجا گفتگو کرنا اور اتنی ساری باتوں کا جواب دینا بہت مشکل بھی ہے اور افہام و تفہیم کے نقطہ نظر سے وقت اور ریسورسز کا ضیاع بھی۔

اگر انتظامیہ یا رانا صاحب دلچسپی رکھتے ہوں‌تو اوپر درج کئے گئے معجزات میں‌سے کوئی بھی ایک چن کر نیا دھاگا بنا کر دعوت دی جا سکتی ہے۔ میں‌دین کا ایک ادنیٰ‌سا طالب علم ہونے کی حیثیت سے اہل سنت والجماعت کا متفقہ موقف بیان کرنے کی کوشش کروں‌گا، ان شاءاللہ والعزیز۔

از قلم : rana ammar mazhar

پہلے اس پر بات کر لیں :: بنی اسرائیل کی ایک جماعت چوہا ہے !

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : شکاری مراسلہ دیکھیں
اگر انتظامیہ یا رانا صاحب دلچسپی رکھتے ہوں‌ تو اوپر درج کئے گئے معجزات میں‌سے کوئی بھی ایک چن کر نیا دھاگا بنا کر دعوت دی جا سکتی ہے۔ میں‌ دین کا ایک ادنیٰ‌ سا طالب علم ہونے کی حیثیت سے اہل سنت والجماعت کا متفقہ موقف بیان کرنے کی کوشش کروں ‌گا، ان شاءاللہ و العزیز۔

جی آیاں نوں !!!

پہلے اس پر بات کر لیں :: 


No comments:

Post a Comment