Saturday, March 29, 2014

آؤ قرآن کو مجوسی روایات کے قید سے آزاد کرائیں




بسم اللہ الرحمن الرحیم

آؤ قرآن کو مجوسی روایات کے قید سے آزاد کرائیں

دین اسلام صرف قرآن کے اندر ہے باہر نہیں

دینیات کے نام پر مسلم امت کے اندر مکہ مدینہ سے لیکر سارے عالم اسلام میں قرآن حکیم کے خلاف ایجاد کردہ علم حدیث مدارس دینیہ عربیہ کے اندر پڑهایا جاتاہے۔ اور جو قرآن حکیم کا تفسیر پڑھایا جاتا ہے وہ تفسیر القرآن بالقرآن (89-17) یعنی خود اللہ جل شانہ کا اپنی طرف سے تیار کردہ تفسیر (1-11) اسکے خلاف مروج تفاسیر کی اکثریت ان حدیثوں کی روشنی میں تیار کردہ ہیں ان کی بنائی ہوئی حدیثوں کی نسبت تو جناب خاتم الانبیاءعلیہ السلام کے اسم گرامی کی جانب ہے لیکن یہ نسبت بھی ان روایات کی طرح من گھڑت ہے یہ دین کے نام سے جعلسازی کا کاروبار یہودیوں مجوسیوں عیسائیوں کی ملی بہگت کا شاخسانہ ہے پھر حدیث تفسیر بالروایات کے ساتھ اسلامی تاریخ اور امامی فقہیں بھی ان حدیثوں سے استنباط کی گئی ہیں ، علم حدیث کے نام سے قرآن اور دین اسلام کے سینہ پر جو تیر لگائے گئے ہیں وہ تو بے شمار ہیں انکا پہلا حملہ جناب رسالت مآب پر قرآن کی مخالفت کرنے کا ملاحظہ فرمائیں جو امام بخاری نے ایک حدیث میں جناب رسول کے حوالہ سے لکھا ہے کہ آپ نے عائشہ سے منگنی کی تو وہ چھ سال کی تھی اور جب بیاہ کیا تو وہ نو سال کی تھی اب کوئی بتائے کہ قرآن حکیم تو بیویوں کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ نکاح کے وقت :
وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَى بَعْضُكُمْ إِلَى بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنْكُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا (4:21)
اور تم دیا ہوا مال کیونکر واپس لے سکتے ہو جب کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ صحبت کرچکے ہو۔ اور وہ تم سے عہد واثق بھی لے چکی ہے (4:21)
And how could ye take it when ye have gone in unto each other, and they have Taken from you a solemn covenant? (4:21)
یہ عورتیں آپ مردوں سے پکا عہدلے چکی ہیں ۔
کیا چھ سال کی بچی معاہدہ کر سکتی ہے،؟
محترم قارئین !
قرآن حکیم نے انسان کی عمر کے تین مرحلے بتائےہیں ۔
هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا ۚ وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى مِنْ قَبْلُ ۖ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (40:67)
وہی تو ہے جس نے تم کو (پہلے) مٹی سے پیدا کیا۔ ہھر نطفہ بنا کر پھر لوتھڑا بنا کر پھر تم کو نکالتا ہے (کہ تم) بچّے (ہوتے ہو) پھر تم اپنی جوانی کو پہنچتے ہو۔ پھر بوڑھے ہوجاتے ہو۔ اور کوئی تم میں سے پہلے ہی مرجاتا ہے اور تم (موت کے) وقت مقرر تک پہنچ جاتے ہو اور تاکہ تم سمجھو (40:67)
It is He Who has created you from dust then from a sperm-drop, then from a leech-like clot; then does he get you out (into the light) as a child: then lets you (grow and) reach your age of full strength; then lets you become old,- though of you there are some who die before;- and lets you reach a Term appointed; in order that ye may learn wisdom. (40:67)
ایک پئدا ہونے کے وقت طفولیت کا دوسرا پکی جوانی کا تیسرا بڑھاپے کا،
اب آئین کہ قرآن سے پکی جوانی کی عمر کب ہوتی ہے معلوم کریں اسلئے کہ طفولیت (بچپنے) اور بڑھاپے میں تو شادی نہیں ہوگی قرآن حکیم پکی جوانی کی عمر بتاتا ہے۔
وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۚ حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ۖ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (46:15)
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا۔ اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے پیٹ میں رکھا اور تکلیف ہی سے جنا۔ اور اس کا پیٹ میں رہنا اور دودھ چھوڑنا ڈھائی برس میں ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جب خوب جوان ہوتا ہے اور چالیس برس کو پہنچ جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار مجھے توفیق دے کہ تو نے جو احسان مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کئے ہیں ان کا شکر گزار ہوں اور یہ کہ نیک عمل کروں جن کو تو پسند کرے۔ اور میرے لئے میری اولاد میں صلاح (وتقویٰ) دے۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں فرمانبرداروں میں ہوں (46:15)
We have enjoined on man kindness to his parents: In pain did his mother bear him, and in pain did she give him birth. The carrying of the (child) to his weaning is (a period of) thirty months. At length, when he reaches the age of full strength and attains forty years, he says, "O my Lord! Grant me that I may be grateful for Thy favour which Thou has bestowed upon me, and upon both my parents, and that I may work righteousness such as Thou mayest approve; and be gracious to me in my issue. Truly have I turned to Thee and truly do I bow (to Thee) in Islam." (46:15)
یعنی پکی جوانی چالیس سالوں میں ہوتی ہے۔
جناب قارئین!
علم حدیث بنانے والوں کے جھوٹ پڑھنے ہوں تو میری کتاب فتنہ انکار قرآن کب اور کیسے’’ میں ملاحظہ فرمائیں قرآن نے تو پکی عمر کیلئے چالیس سال بتادئے علم حدیث نے اپنی روایات کے حوالوں سے جو اسلامی تاریخ ایجاد کرائی ہے اسکا بھی کیا کہنا قرآن حکیم بتاتا ہے کہ (کعبہ کو مسمار کرنے کیلئے عیسائی وائسراء ابرہہ جب ہاتھیوں کا لشکر لیکر جنگ کرنے مکہ کو آیا تھا) تو قرآن حکیم بتا رہا ہے کہ اے محمد علیک السلام آپ دشمن کے لشکر پر:
تَرْمِيهِمْ بِحِجَارَةٍ مِنْ سِجِّيلٍ (105:4)
جو ان پر کھنگر کی پتھریاں پھینکتے تھے (105:4)
Striking them with stones of baked clay. (105:4)
یعنی دشمنوں پر آپ جنگ کیلئے سجیل بنائے ہوئے پتھروں سے سنگ باری کررہے تھے جبکہ علم حدیث کی امامی روایات میں ہے کہ حضور اس جنگ کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ ان امامی اختراعات پر کیا کیا لکھا جائے؟ اس قرآن دشمن اتحاد ثلاثہ کی گینگ نے تو عربی زبان کے الفاظ کی معنائیں بھی ایسی بگاڑی ہیں جو اسکےکتنے کتنے مثال پیش کریں؟ اللہ نے خود لفظ صبر کی معنی بتائی ہے جمکر مضبوطی کے ساتھ دشمن کے ساتھ جنگ کرنا (65- اس حد تک جو ایک صابر سپاہی دشمن کے بیس جوانوں پر غالب آجائے (65- لیکن اسکے مقابل صبر لفظ سے ان مہربانوں نے وہ تو معنی نکالی ہے جس سے انھوں نے اپنے سارے امام شھید کرادئے۔ سورت الفیل میں رب تعالیٰ نے جو ابرہہ بادشاہ کے مقابلہ میں طیر نامی لڑاکو جتھ مقابلہ کیلئے بھیجا تھا جس میں جناب رسول اللہ بھی نبوت سے پہلے شریک جنگ تھے اس کیلئے قرآن نے بتایا کہ:
وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ (105:3)
اور ان پر جھلڑ کے جھلڑ جانور بھیجے (105:3)
And He sent against them Flights of Birds, (105:3)
یعنی وہ طیرنامی ٹریننگ یافتہ جنگی دستہ اونٹوں کے جھنڈ پرسوار تھا۔
عربی زبان میں اونٹ کوابل کہا جاتا ہے او ر لفظ ابل واحد ہے ابابیل اسکا جمع منتھی الجموع ہے تو علم حدیث نے اونٹوں کو معنی کرتے وقت کالی چڑیا بنادیا یہ معناؤں کے خیانتی گھپلے انکے اتنی حد تک کامیاب گئے جو انہوں نے عربی الفاظ کی ڈکشنری کا ستیاہی ناس کر دیا ہے عربی مدرسوں میں جو صرف و نحو پڑھائی جاتی ہے اس گرامر کی روشنی میں ابل واحد کا جمع منتھی الجموع ابابیل بنتا ہے جیسے قول کا جمع اقاویل ہے لیکن کیا کریں ہمارے مدارس کی تعلیم پر امامی علوم کی اتنی تو چھاپ چسپان ہوگئی ہے جو قرآن نے فرمایا کہ روزہ رکھنے اور کھولنے کا وقت فجر سے رات (عشا ء) تک ہے تو انہوں نے اسکا ترجمہ کردیا سحر سے مغرب تک -کیا یاد کریگا قرآن بھی جو اس کے نام پر خیرات وزکواۃ اور چندے لیکر دستاربند ہونے والے قرآن کی معانی کا کیا تو حشر کر رہے ہیں۔ میں یہ مثال صرف ایک پس منظر سمجھانے کیلئے پیش کر رہا ہوں، اللہ کے جس حکم کی فلاسفی میں سمجھانا چاہتا ہوں یہ مثال سب اسکی تمہید ہیں، اللہ کا وہ فرمان یہ ہےکہ:
فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۗ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ ۖ وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا (20:114)
تو خدا جو سچا بادشاہ ہے عالی قدر ہے۔ اور قرآن کی وحی جو تمہاری طرف بھیجی جاتی ہے اس کے پورا ہونے سے پہلے قرآن کے (پڑھنے کے) لئے جلدی نہ کیا کرو اور دعا کرو کہ میرے پروردگار مجھے اور زیادہ علم دے (20:114)
High above all is Allah, the King, the Truth! Be not in haste with the Qur'an before its revelation to thee is completed, but say, "O my Lord! advance me in knowledge." (20:114)
یعنی اللہ بلند اور برحق بادشاہ ہے (سو بات صرف اس کی چلے گی) اے نبی قرآن کے مقابلہ میں (اپنی طرف سے حدیث سنانے میں) جلدی نہ کر (اگر کوئی مسئلہ درپیش آگیا ہے تو اس کا جواب اپنی طرف سے سنانے کے بجاء مجھے کہیں کہ اے میرے رب میرے لیئے علم کو بڑھا،
یہ زمانہ نزول قرآن کی بات کا ہے جس میں نبی پر اپنی طرف سے مسائل دین اور قوانین اسلام میں لوگوں کے سولات کے جواب میں حدیثیں سنانے اور سکھانے پر بندش کا حکم دیا جا رہا ہے کہ اگر سائل کے سوال کا جواب اس وقت تک نازل شدہ مقدار قرآن میں نہیں ہے تو نبی کو حکم ہے کہ بجاء قرآن کے اپنی طرف سے بذریعہ حدیث کوئی جواب نہ دیں اور نازل شدہ مقدار قرآن میں سوال کا جواب نہیں ہے تو اللہ کو درخواست کریں کہ رب زدنی علما اے اللہ میرے علم کو بڑھائیں۔
محترم قارئین !
اس آیت کریمہ نے علم حدیث کی لاکھوں روایات کو بیک قلم حرف غلط قرار دیدیا اگر کوئی بھی شخص ان لاکھوں حدیثوں میں سے کسی بھی صرف ایک بھی حدیث کو حدیث رسول کے طور پر تسلیم کریگا تو اس نے گویا کہ اللہ کے نبی پر اللہ کا حکم (114-20) نہ ماننے کا الزام لگادیا ساتھ ساتھ خود بھی ایسا شخص:
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ ۙ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ (47:2)
اور جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور جو (کتاب) محمد پر نازل ہوئی اسے مانتے رہے اور وہ ان کے پروردگار کی طرف سے برحق ہے ان سے ان کے گناہ دور کردیئے اور ان کی حالت سنوار دی (47:2)
But those who believe and work deeds of righteousness, and believe in the (Revelation) sent down to Muhammad - for it is the Truth from their Lord,- He will remove from them their ills and improve their condition. (47:2)
یعنی جناب رسول کے اوپر نازل ہونے والے قرآن کا بھی منکر ہو گیا ۔
خواہ ایسے لوگ امامت کے عہدوں سے بھی کیوں مشہور کئے گئے ہوں۔ سو جب قرآن اپنے رسول اور نبی پر اپنی طرف سے قرآن کے مقابل حدیثیں سنانے پر بندش لاگو کرتا ہے تو امام لوگ نبی سے اوپر نہیں ہوسکتے۔ جو لوگ مروج علم حدیث کو اسلام کا اصل اور ماخذ تسلیم کرتے ہیں ایسے سارے لوگ قرآن والے اسلام کے دشمن ہیں اس دلیل کے ساتھ کہ قرآن نے غلام سازی پر بندش عائد کی ہوئی ہے۔ (67- (4-47) یہ لوگ اب تک لونڈیوں کے ساتھ عیاشیاں کرنے کے تصور میں مرے جارہے ہیں اسلام نے مرد اور عورتوں کے اندر برابری اور مساوات کا اعلان کیا ہوا ہے (228-2) ان حدیث پرستوں کے ہاں مرد عورتوں پر حاکم ہیں اور انکی حدیثوں کے حساب سے عورتیں دوزخ میں مردوں کے مقابلہ میں زیادہ جائینگی حدیثوں کے نام سے اسلام کے ساتھ محبت اور وابستگی ثابت کرنے والے لوگ اپنی دعویٰ میں جھوٹے ہیں اگر سچے ہوتے تو خود سارا قرآن جب قول رسول ہے۔
إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ (69:40)
کہ یہ (قرآن) فرشتہٴ عالی مقام کی زبان کا پیغام ہے (69:40)
That this is verily the word of an honoured messenger; (69:40)
اس طرح سارا قرآن بھی حدیثوں کی کتاب ہوا پھر ان دعویداروں کو قرآنی احادیث سے کیوں چڑ ہے۔
بلکہ ان کو قرآن سے نفرت بھی ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ سارے حدیث پرست لوگ قرآن حکیم کی کئی آیات کو منسوخ قرار دیتے ہیں خاص کرکے خود کو اہل حدیث کہلانے والے لوگ تو اپنی ان امامی حدیثوں سے قرآن کو منسوخ بنادیتے ہیں جو حدیثیں بحکم قرآن (114-20) ہیں بھی نہیں یہ سارے امامی فرقے پھر خواہ وہ دوازدہ امامی ہوں یا شش امامی ہوں یا چہار امامی ہوں یا یک امامی ہوں ایک دوسرے کو کافربھی کہتے ہیں قتل بھی کرتے ہیں اب تو نمازیں بھی پولیس کی حفاظت میں پڑھتے ہیں قرآن نے جب جناب خاتم الانبیاء کو نرینہ اولاد دینے کی نفی کی ہے اس لئے کئی سارے انبیاء کا قرآن میں آل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور جناب محمد علیہ السلام کے اسم گرامی کے ساتھ پورے قرآن میں آل کا ذکر کہیں بھی نہیں کیا گیا پھر یہ آپس میں لڑتے ہوئے سب اپنی اپنی نمازوں میں آل محمد والادرود کیوں، پڑھتے ہیں جس فارسی لفظ درود کی معنی بھی جڑ کاٹنا ہے۔ تو کیا تم لوگ یہ نہ سمجھے کہ یہ آپس میں لڑے ہوئے سارے فرقے اسلام اور محمد الرسول علیہ السلام کی جڑ کاٹنے کے نظریہ پر متفق ہیں قرآن حکیم ایسے سارے فرقوں کیلئے اعلان کرتا ہے کہ :
إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (6:159)
جن لوگوں نے اپنے دین میں (بہت سے) رستے نکالے اور کئی کئی فرقے ہو گئے ان سے تم کو کچھ کام نہیں ان کا کام خدا کے حوالے پھر جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں وہ ان کو (سب) بتائے گا (6:159)
As for those who divide their religion and break up into sects, thou hast no part in them in the least: their affair is with Allah: He will in the end tell them the truth of all that they did. (6:159)
یعنی جو لوگ بھی اپنے دین کو فرقوں کے حوالوں سے متعارف کراتے ہیں۔ یہ سب شیعہ ہیں، اے محمد آپ ان میں سے نہیں ہیں۔
میرے ساتھ کسی اثنا عشری شیعہ نے اہل سنت والوں کی شکایت کی کہ دہشتگردی اور جہادی تنظیموں میں ان کے لوگ زیادہ بھرتی ہوتے ہیں میں نے اسے جواب میں کہا کہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے اپنی کتاب تحفہ اثنا عشریہ میں ائمہ اربعہ اہل سنت کو مخلص شیعوں میں سے شمار کیا ہے، اور آپ اثناعشری لوگ خود بھی کہتے ہو کہ امام ابو حنیفہ، امام جعفر کا شاگرد تھا تو امام جعفر تقیہ میں چھپے رہنے کو پسند کرتا تھا اور اسنے جو اپنے شاگرد ابو حنیفہ کو تیار کیا وہ تقیہ کے خلاف کھلم کھلا زیدی شیعہ کہلاتا تھا سو میرے خیال میں ان دونوں استادو شاگرد نے باہمی مصالحت سے محاذ سنبھالے ہیں۔ اس ثبوت کے ساتھ کہ فلسفہ آل میں ان کا آپس میں اتفاق ہے قرآن کے خلاف سب کی جنگ کا پس منظر بھی تو یہی ہے کہ قرآن نے فرمایا کہ محمد کو آل نرینہ اولاد اس لئے نہیں دی گئی کہ اس سے ختم نبوت کی فلاسفی پر شبخون مارنے کا امکان ہو سکتا تھا۔ (40-33) پھر بھی ختم نبوت کے دشمنوں نے قرآن کی اس انڈیکشن کو اچک کر نبی کو آل چمٹادی جو قرآن کے حساب سے تھی بھی نہیں اور اس نواسگانی آل کے والد علی کیلئے شیعوں کے ایک فرقہ نے مشہور کیا کہ اللہ نے جبرئیل کو بھیجا کہ نبوت علی کو دیکر آؤ تو جبریل نے بجاء علی کے اسی گھر میں رہنے والے دوسرے شخص محمد کو دےڈالی جمہور شیعوں نے ظاہر میں اس فرقہ سے اتفاق تو ظاہر نہیں کیا لیکن اللہ عزوجل نے جو انبیاء علیھم السلام کیلئے خصوصی لقب یا خطاب قرآن میں سنایا کہ :
قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى ۗ آللَّهُ خَيْرٌ أَمَّا يُشْرِكُونَ (27:59)
کہہ دو کہ سب تعریف خدا ہی کو سزاوار ہے اور اس کے بندوں پر سلام ہے جن کو اس نے منتخب فرمایا۔ بھلا خدا بہتر ہے یا وہ جن کو یہ (اس کا شریک) ٹھہراتے ہیں (27:59)
Say: Praise be to Allah, and Peace on his servants whom He has chosen (for his Message). (Who) is better?- Allah or the false gods they associate (with Him)? (27:59)
اور بھی آگے فرمایا کہ:
وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ (37:181)
اور پیغمبروں پر سلام (37:181)
And Peace on the messengers! (37:181)
وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (37:182)
اور سب طرح کی تعریف خدائے رب العالمین کو (سزاوار) ہے (37:182)
And Praise to Allah, the Lord and Cherisher of the Worlds. (37:182)
یعنی اللہ کے رسولوں پر سلامتی ہو تو جمہور شیعوں نے علی کے نام کے ساتھ علیہ السلام لکھنا اور کہنا شروع کیا جو تاہنوز جاری ہے ان کے اس عمل سے علی کو مستحق نبوت کہنے والے شیعی فرقہ کی ایک طرح سے حمایت ہوگئی اور تو اور سنی مارکہ شیعوں کے بڑے امام، امام بخاری نے تو بی بی فاطمہ کے نام کے ساتھ بھی علیھا السلام لکھا ہے یہ سب نشانیاں اور ثبوت ہیں اس بات کے جو اللہ نے بتایا کہ میں محمد کو آل اس لئے نہیں دے رہا کہ کوئی سلسلہ نبوت کو اس پر ختم ہونا قبول نہ کرے اور آل کو ہی وارث قرار دیکر میراث نبوت کو ہی نہ مخصوص آل کیلئے ہائی جیک کردے، اللہ نے جناب بی بی مریم کو مصطفات کا لقب تو دیا (42-3) لیکن اسلام علیک یا علیھا نہ خود کہا نہ اپنے بھیجے ہوئے ملائکوں سے کہلوایا نبی کے نام سے علم حدیث کی روایات گھڑنے والے اماموں نے جو جناب رسول کو وہ بیٹی دی ہے جو آگے چل کر ان کی اسکیم کے مطابق اماموں کی ماں قرار دینی تھی حدیث سازوں نے اپنی قرآن سے نفرت کیوجہ سے اس کا نام فاطمہ رکھا جسکی معنی امام یعقوب کلینی کی کتاب اصول کافی کے حوالہ سے علم کو کاٹنے اور جدا کرنے والی ہے یہ نام بھی اسلئے رکھا کہ ان اماموں کو معرفت مصحف فاطمہ کے نام سے اس قرآن کے مقابلہ میں ایک اور علمی شاہکار کا امت والوں کو انتظار کرانا تھا جو بقول انکے اس وقت امام غائب کی تحویل میں ہے، موجودہ قرآن سے نفرت کی وجہ سے علم حدیث بنانے والے سنی مارکہ شیعوں اور اثنا عشری مارکہ شیعوں نے رسول کی بیٹی کا نام علم کو جدا کرنے اور روکنے والی رکھا اس کےلئے امام کلینی نے تو یہاں تک بھی لکھا کہ وہ اپنے بیٹے امام حسین کو دودھ بھی نہیں پلاتی تھی وہ نانا کا انگوٹھا چوس چوس کر اس سے دودھ پیتے تھے یہ حدیث بھی انھوں نے مجبوری سے بنائی ہے جو یہ تھی کہ امام کلینی کے مطابق امام حسین کو جننے کے وقت فاطمہ کی عمر دس سال بنتی ہے سو علم طب والوں سے حدیثیں بنانے والوں کو خطرہ لگا کہ کہیں وہ نہ کہدیں کہ دس سال کی لڑکی نہ بیٹا پیدا کرسکتی نہ اسکی چھاتی میں دودھ آسکتا ہے لیکن حدیثیں بنانے والوں کو قوانین فطرت (30-30) کی کیا پرواہ انہوں نے تو امام رضا کے نام سے یہ بھی حدیث بنائی ہے کہ نبی کی بیٹیوں کو ماہواری نہیں آتی (اصول کافی باب میلاد فاطمہ) اب میڈیکل سائنس والے اگر اعتراض کریں کہ بغیر ماہواری کے اولاد نہیں ہوسکتی تو حدیثیں بنانے والوں کو انکی کوئی پرواہ نہیں، حدیثیں بنانے والوں کو پرواہ تو کسی کی نہیں ہوتی کیونکہ امام کلینی نے اپنی کتاب کے باب مولد فاطمہ میں یہ بھی حدیث لائی ہے کہ اللہ نے ایک فرشتہ کے ذریعہ سے فاطمہ کی ولادت کے وقت اس کا نام فاطمہ رکھوایا اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہلوایا کہ:
انی فطمتک بالعلم و فطمتک بالطمت
یعنی اس نام سے میں آپکو علم کے حوالہ سے جدا کرنے والی اور ماہواری سے بھی جدا رہنے والی قرار دیتا ہوں،
محترم قارئین !
یہ حدیثیں بنانے والے ایک تو جان بوجھ کر جھوٹی حدیثیں لکھتے ہیں دوسرا یہ کہ کتاب قرآن جو مہیمن کا لقب یافتہ ہے اسکی نگرانی سے کوئی خیانت کرنے والا بچ نہیں سکتا یہ بات میں اس حوالہ سے لکھ رہا ہوں کہ جناب خاتم الانبیاء اپنی بیٹی کا نام جس کی معنی سے علم قرآن پر لوگوں میں بے اعتمادی پھیل جائے کیوں رکھیں گے؟
مخالفوں نے اونٹ پر لاد کر لائے ہوئے علی کے قرآن کو اصحاب رسول کی جانب سےاسے رد کرنے اور قبول نہ کرنے کی حدیث بھی بنائی ہے اور وہ قرآن اور بنام مصحف فاطمہ دوسرا قرآن بارہ اماموں کے ورثہ میں منتقل ہوتے ہوتے اب امام غائب کے پاس ہے اور فاطمہ کی دوسری معنی جو کلینی صاحب کی حدیث میلاد فاطمہ کے باب کی چھٹی حدیث میں ہے کہ جسکو ماہواری نہ آتی ہو تو اللہ عزوجل نے جناب رسول کو ایسی نگیٹو معناؤں والے نام رکھنے سے تو منع کی ہوئی ہے اس منع نامے کے اندر یہ بھی وعید ہے کہ:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ۚ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (49:11)
مومنو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں۔ اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو۔ ایمان لانے کے بعد برا نام (رکھنا) گناہ ہے۔ اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں (49:11)
O ye who believe! Let not some men among you laugh at others: It may be that the (latter) are better than the (former): Nor let some women laugh at others: It may be that the (latter are better than the (former): Nor defame nor be sarcastic to each other, nor call each other by (offensive) nicknames: Ill-seeming is a name connoting wickedness, (to be used of one) after he has believed: And those who do not desist are (indeed) doing wrong. (49:11)
یعنی ایمان لانے کے بعد جو بھی کوئی شخص بری معنی والے نام رکھنے سے باز نہیں آئیگا تو ایسے لوگ اللہ کے دفتر میں ظالموں میں سے ہونگے۔ اب کوئی بتائے کہ ہم بتائیں کیا۔’’ قرآن کے حکم کہ اے نبی ! آپ قرآن کے مقابلہ میں لوگوں کو اپنی حدیثیں نہ بتائیں (114-20) اب اس حکم ربی کے بعد امت کے دانشور علماء کو اسلامیات کا ٹوٹل سلیبس تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ قرآن جنگ خیبر کیلئے فرماتا ہے کہ وہ توسرے سے لگی ہی نہیں ۔
وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (59:6)
اور جو (مال) خدا نے اپنے پیغمبر کو ان لوگوں سے (بغیر لڑائی بھڑائی کے) دلوایا ہے اس میں تمہارا کچھ حق نہیں کیونکہ اس کے لئے نہ تم نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے (59:6)
What Allah has bestowed on His Messenger (and taken away) from them - for this ye made no expedition with either cavalry or camelry: but Allah gives power to His messengers over any He pleases: and Allah has power over all things. (59:6)
آپ اہل کتاب پر جفا کرنے کیلئے اونٹ یا گھوڑوں کے رکیب میں پابہ رکاب ہوئے ہی نہیں۔
سو علم حدیث کی خلاف قرآن جعل سازیوں پر بتایا جائے کہ کتنا کچھ لکھیں ؟ قرآن فرمائے کہ اے میرے رسول آپ اصحاب فیل کے لشکر کے مقابلہ میں دشمنی پر ان کے اوپر سنگ باری کر رہے تھے اور علم حدیث بتائے کہ اس وقت رسول پیدا ہی نہیں ہوئے تھے، قرآن بتائے کہ جنگ خیبر کیلئے آپ اپنی سواریوں پر پابہ رکاب ہی نہ ہوئے تھے تو علم حدیث سے فاتح خیبر علی واپہلا نمبر کی قوالی سناتے ہوئے نبی کو اس جنگ میں دستیاب کردہ ایک لونڈی بنائی ہوئی صفیہ نامی یہودن حسینہ سے شادی بھی کرادیتے ہیں وہ بھی نکاح میں بغیر مہر ادا کرنے کے۔

سو بات کی ایک بات
علم کرمنا لاجی میں انویسٹیگیشن کے باب میں ماہرین بتاتے ہیں کہ جرائم کی تفتیش میں واردات جرم کے تفاصیل پر غور کرنے سے مجرم تک رسائی ہوہی جاتی ہے علم حدیث بنانے والوں نے جو قرآن حکیم کے قوانین توڑے ہیں اور جو رسول اللہ کی سیرت طیبہ کو اپنی حدیثوں سے داغدار بنایا ہے اس حد تک جو معاذ اللہ فرضی حدیثوں میں جناب رسول کو پرائی عورتوں سے امام بخاری نے خلوت کرنے والا بھی لکھا ہے اور جونیہ نامی ایک فرضی عورت کی زبانی جناب رسول کو امام بخاری نے بازاری قماش کا بھی کہلواکر اپنی تبرائی ذہنیت کو تسکین بخشی ہے اور اجلہ اصحاب رسول کے اصلی اسماء گرامی گم کرکے ان کو گالیوں والی معناؤں کے ناموں سے اپنی حدیثوں میں مشہور کردیا ہے جو جب بھی کوئی انکا صرف نام بتائے تو معاذ اللہ ان کو گالی آجائے، امت مسلمہ کے لوگوں کو حدیث ساز اماموں کی فرضی سوانح حیات سے انکو اتنا تو آسمان تک لے گئے ہیں اور جناب رسول کے شان اقدس کے خلاف اتنی ساری تبرائی احادیث لکھی ہیں جو علم حدیث کو تبراؤں کو جنم دینے والا علم کہا جا سکتا ہے ان سب باتوں کے باوجود لوگ جناب رسول اللہ کے خلاف والی انکی حدیثوں کو تو صحیح تسلیم کرتے ہیں لیکن ان دشمنان دین تبرا باز اماموں کے اندرونی چہروں پر انکی نظر ہی نہیں پڑتی چہ جائیکہ انہوں نے کھل کر بت پرستی قبر پرستی اور آتش پرستی کو جائز اور حلال بھی قرار دیا ہے۔

چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد
امام بخاری نے اپنی کتاب کے کتاب الصلوۃ کے باب نمبر 292 میں امام زہری کی حدیث نقل کی ہے اور اس کے اوپر باب میں پہلے اپنا ترجمۃ الباب لکھا ہے کہ: من صلی وقدامہ تنور اونار اوشی مما یعبدفارادبہ وجہ اللہ عز وجل و قال الزھری اخبرنی انس بن مالک قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم عرضت علی النار وانا اصلی۔
یعنی امام بخاری فرماتے ہیں کہ جس شخص نے نماز پڑھی اور سامنے اسکے (پوجنے کیلئے) تنور ہو یا آگ ہو یا کوئی سی ایسی چیز ہو جس کی پوجا کی جاتی ہو اور اسے سامنے رکھنے سے ارادہ کرے اللہ کی رضامندی کا۔
یہاں تک امام بخاری کا حدیث پر عنوان پورا ہوا، آگے حدیث لاتا ہے کہ زہری انس بن مالک سے بیان کرتا ہے کہ فرمایا نبی علیہ السلام نے کہ میرے سامنے آگ پیش کی گئی ایسی حالت میں جو میں نماز پڑھ رہا تھا (حدیث ختم) ۔
محترم قارئین !
معاذ اللہ ان دونوں اماموں نے جناب رسول کو آگ کا پوجاری ثابت کیا، اور حدیث کے اوپر سرخی میں امام بخاری نے اپنے طرف سے تنور یا آگ یا کوئی سی ایسی چیز جس کی جس جس معاشرہ میں بت پرستی یا قبرپرستی یا آگ پرستی کی جاتی ہو اس نیت کے ساتھ کہ اس بت پرستی یا آگ پرستی والی پوجا سے مجھ سے اللہ راضی ہو جائے تو وہ ان اماموں کے پاس جائز ہے۔
محترم قارئین !
جناب رسول کے زمانے میں مشرکین مکہ بھی تو ایسے کہتے تھے کہ:
أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ (39:3)
دیکھو خالص عبادت خدا ہی کے لئے (زیبا ہے) اور جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ہیں۔ (وہ کہتے ہیں کہ) ہم ان کو اس لئے پوجتے ہیں کہ ہم کو خدا کا مقرب بنادیں۔ تو جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں خدا ان میں ان کا فیصلہ کردے گا۔ بےشک خدا اس شخص کو جو جھوٹا ناشکرا ہے ہدایت نہیں دیتا (39:3)
Is it not to Allah that sincere devotion is due? But those who take for protectors other than Allah (say): "We only serve them in order that they may bring us nearer to Allah." Truly Allah will judge between them in that wherein they differ. But Allah guides not such as are false and ungrateful. (39:3)
یعنی ہم ان بتوں کو براہ راست معبود نہیں سمجھتے بلکہ انکی عبادت اسلئے کرتے ہیں کہ اس سے ہم اللہ کے مقرب بنیں، اللہ انکی عبادت کرنے سے ہم سے راضی ہو جائے اسی آیت کریمہ میں اللہ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ (39:3)
یعنی ان کے ایسے نظریہ کہ انکی بتوں کیلئے پوجا بھی اللہ کو راضی کرنے کیلئے ہے، رب پاک فرماتے ہیں کہ ان کو اس قسم کا عقیدہ سکھانے والے مذہبی پیشواؤں اورانکے درمیان میں اللہ خود فیصلہ کروں گا ان کو میرے حوالہ میں آنے دو فی الحال ان کے متعلق میرا حکم سن لو کہ میں اللہ کسی بھی جھوٹے اور کافر کو ہدایت نہیں دیتا اس آیت کریمہ نے صاف صاف بتادیا کہ یہ مشرکین مکہ ایسا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے کذاب اور کافر ہیں تو آپنے غور فرمایا کہ امام بخاری کا اپنے ترجمۃ الباب میں بنایا ہوا عقیدہ بھی تو ان مشرکین مکہ کے عقیدہ کے عین مطابق ہے، سو اللہ کا جو فیصلہ (3-39) مشرکین مکہ کیلئے آپنے پڑھا وہی فیصلہ بعینہٖ امام بخاری اور امام زہری کیلئے بھی ثابت ہوا بحکم قرآن ۔

از قلم : عزیزاللہ بوہیو
نوشہروفیروز سندھ
_________________
بلاگ:http://studyhadithbyquran.blogspot.com
كان شعبة بن الحجاج بن الورد يقول لأصحاب الحديث:"يا قوم! إنكم كلما تقدمتم في الحديث تأخرتم في القرآن"
قرآن کے اثر کو روک دینے کیلئے : ہم پہ راویوں کا لشکر ٹوٹا