Monday, June 9, 2014

عربی مدارس کا نصاب تعلیم خلاف قرآن ہے




وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلاً لاَّ مُبَدِّلِ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (115-6)
خلاصہ: (قرآن میں) تیرے رب کے قوانین سچائی اور عدالت پر مشتمل مکمل ہوچکے اللہ اپنے قوانین میں کوئی تبدیلی کرنے والا نہیں ہے وہی سننے اور جاننے والا ہے۔
 






عربی مدارس کا نصاب تعلیم
خلاف قرآن ہے








عزیزاللہ بوھیو

قیمت پچاس روپیہ
سندھ ساگر اکیڈمی ولیج خیر محمد بوھیو براستہ نوشہروفیروز






قرآن بہروپیوں کے نرغے میں
اللہ عزوجل نے انسان کی سرشت اور خصلت یہ بتائی ہے کہ وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (52-22) خلاصہ یعنی اے نبی ہم نے آپ سے پہلے جب بھی کوئی رسول اور نبی بھیجا اور جب بھی اس نے اپنی رسالت لوگوں تک پہنچائی تو ان انبیاء ورسل کے جانے کے بعد شیطان قسم کے لوگوں نے رسالت کے پیکیجز میں ملاوٹیں ڈالدیں پھر ہوتا یہ تھا کہ بعد میں آنے والے نبی کی معرفت ہم ان ملاوٹوں کو مٹادیا کرتے تھے جسکے ساتھ اللہ اپنی آیات اور احکام کو پھر سے محکم اور مضبوط بنادیتے تھے اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
محترم قارئین! یہ بات رب پاک نے اس دور کی بتائی ہے جب انبیاء بھیجے جانے کا سلسلہ جاری تھا اور علم خداوندی میں خیانتوں اور ملاوٹوں کے سدباب کیلئے بعد میں آنیوالے انبیاء کی معرفت علم کو خالص بنایا جاتا تھا پھر جب رب تعالیٰ نے سلسلہ نبوت کو ختم کرکے (40-33) انسانوں کو آخری نبی کی معرفت جو علم وحی کی آخری کتاب عنایت فرمائی تو ماضی کی طرح کے شیطان قسم کے لوگوں  کی خصلت بدکے پیش نظر اللہ نے اعلان فرمایا کہ ہم اس قانون اور کتاب کو نازل تو کررہے ہیں لیکن اسکی حفاظت کی ذمہ داری بھی خود ہم ہی کرینگے۔ (9-15) پھر ہوا کیا وہ آپ اور ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ انسان کی وہ پرانی خصلت بد ختم نبوت کے بعد بھی آج تک علم وحی کے قوائد کو مٹانے کے درپئے ہے اب تک کے تجربہ نے ثابت کیا ہے کہ قرآن دشمن مافیا نے دین اسلام کی دوستی کا جبہ پہن کر اپناروپ یہ  دھارا ہے کہ ہم اسلام کے اصل ترجمان ہیں جبکہ انہوں نے جناب رسول کی حیات طیبہ میں ہی جناب رسول کی نبوی مجلس علمی میں جانے والوں کو یہ کہہ رکھا تھا کہ  إِنْ أُوتِيتُمْ هَـذَا فَخُذُوهُ وَإِن لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُواْ (41-5) یعنی اگر رسول کی جانب سے یہ ہماری والی باتیں اور خیالات ملیں تو ان کو قبول کریں اگر ہماری والی باتیں نہ ملیں تو ان سے بچکر رہیں۔ یہ مذکور تو ان اہل کتاب یہودکا ہے جو شہر مدینہ کے باسی تھے اور غیر یہودیوں کے لئے بھی قرآن نے بتایا کہ  يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لاَ يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِينَ قَالُواْ آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِن قُلُوبُهُمْ (41-5) یعنی اے رسول آپ غمگین نہ ہوں ان لوگوں پر جو کفر میں جانے کیلئے جلدی کرتے ہیں ان میں کے کئی لوگ ایسے ہیں جو دعوی تو ایمان لانے کی کرتے ہیں لیکن ان لوگوں نے دلوں میں ایمان نہیں لایا، سوچنے کی بات ہے کہ قرآن حکیم نے منافقوں اور یہودیوں کا یہ بیان ایک ہی آیت میں ایک ساتھ بتایا ہے۔ یہاں یہ بیان کرنے سے میرا مقصد یہ ہے کہ قارئین لوگ غور فرمائیں کہ جناب رسول کی حیات اقدس میں ہی قرآن مقدس کے دشمنوں کی کیا تو ملی بھگت ہے یعنی اللہ عزوجل اپنی کتاب قرآن کی حفاظت کن کن نامساعد حالات میں کرتا ہوا آرہا ہے۔ اس ایک ہی آیت (41-5) میں منافقین اور علماء یہودکا ملاکر موقف اور نظریہ ساتھ ساتھ پیش کرنے سے رب تعالیٰ یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ جن قرآن دشمن منافقوں نے میری جانب سے ایک ہی قرآن نازل کرنے کے باوجود (19-6) جھوٹی حدیثیں گھڑی ہیں کہ نزل القرآن علی سبعۃ احرف یعنی اللہ کی جانب سے اسکے رسول پر سات حرفوں میں سات قرآن نازل کئے گئے ہیں پھر ان بہروپیوں نے رد قرآن کی خاطر بنائی ہوئی ایسی حدیثوں کو خلافت بنوعباس کے دور سے لیکر عربی مدارس کے درس نظامی میں شامل کرکے آج تک پڑھاتے آرہے ہیں جسکا نتیجہ بارہ تیرہ سو سال گذرنے کے بعد یہ نکلا ہے کہ حکومت سعودیہ نے ملاوٹی حرفوں پر مشتمل تین قرآن بنائے ہیں جن میں سے البوزی نامی ملاوٹی قرآن ہمیں انٹرنیٹ سے دریافت ہوا ہے اور سولہ عدد قرآن اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہر لاہور کے اہل حدیثوں نے حرفی ولفظی تحریفات پر مشتمل تیار کئے ہیں جن کے متعلق انکا کہنا ہے کہ یہ قرآن شائع کرنے کے لئے ہم حکومت سعودیہ کے حوالے کریں گے، یہ ہے وہ بات جو کسی نے کہی تھی:
کہ چوکفراز کعبہ بر خیزد کجا ماند مسلمانی
ابھی جو آپنے آیت کریمہ (41-5) کے اندر ایک ساتھ یہودیوں اور منافقوں کا ذکر ملاحظہ فرمایا، جناب قارئین انکا یہ سلسلہ مودت ان دونوں کے دور سے آج تک چلا آرہا ہے پاکستان کو قائم کرنے میں یہودیوں کی تنظیم کے فری میسنریوں کا ہاتھ تھا جسکا اہم ممبر جی ایم سید تھا جس کے ساتھ میرے بھی مراسم رہے ہیں مودودی صاحب قیام پاکستان کی مخالفت کرتے کرتے جب پہلی بار پاکستان آئے اور پھر جب پہلی بار کراچی آئے تو صبح کا ناشتہ حیدر منزل پر جی ایم سید کے گھر میں اسکے ساتھ کیا ناشتہ کی اس مجلس میں تیسرا آدمی انکے ساتھ صرف پیرعلی محمد راشدی تھا فلسطینی مظلوموں کا قاتل ضیاء الحق اپنی صدارت کے دوران جی ایم سید سے ملے سندھ کے گورنر نے جو ایک فوجی جنرل تھا ضیاء صاحب کو کہا کہ آپ پاکستان کے اس دشمن سے کیوں مل رہے ہیں تو صدر صاحب نے جواب میں کہا کہ آپ صرف انکے پاکستان بنانے کے کارنامہ پر نظر رکھیں۔ فری میسن کے فریم ورک سے جنرل آصف نواز جنجوعہ صرف ایک بال کے برابر باہر ہوا تو اسکا ہارٹ فیل کردیا گیا۔ میں بھی فری میسن کے ڈرکی وجہ سے اسکے جو عالم اسلام کی مذہبی قیادت کے ساتھ تعلقات ہیں انپر کچھ بھی نہیں کہ رہا۔ میں دعوی سے یہ بات کہتا ہوں کہ اگر آج سعودی حکمران امت مسلمہ سے معافی مانگیں کہ انہوں نے جو قرآن میں ملاوٹ حرفی کرکے شائع کیا ہے یہ عالمی سامراج کی مسلط کی ہوئی مذہبی قیادت کی وجہ سے ایسا کیا ہے اور ہم اعلان کرتے ہیں کہ قرآن ایک قرائت میں نازل ہوا ہے (6-87) ہم ملاوٹی نسخے واپس لیتے ہوئے اللہ اور امت مسلمہ سے معافی کے خواستگار ہیں توفی الفور آئی ایم ایف والے انکا حشر قذافی سے بھی بدتر کریں گے۔ میں نے یہاں آئی ایم ایف کا ذکر اسوجہ سے کیا کہ میں ایک ٹی وی پروگرام دیکھ رہا تھا جس میں دوعدد یونیورسٹیوں کے دو وائیس چانسلر چئنل کے اینکر پرسن کے سوالوں کے جوابات دے رہے تھے انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ڈائریکٹرہر سال آکر ہم سے معلومات لیتے ہیں کہ ہمارے قرضوں سے آپ کون کون سے ترقیاتی کام کر رہے ہیں، ہم نے ایک میٹنگ میں انکو بتایا کہ تعلیم کے شعبہ میں ہم نے اب دینی مدارس کے نصاب تعلیم میں جدید مضامین سائنس تاریخ جغرافیہ کمپیوٹر شامل کرکے انکے ہاں پڑھنے والوں کو نئی دھاراؤں میں لانے کا پروگرام بنایا ہے اسپر جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ اپنے دینی مدارس والوں کو انکے پرانے نصاب  پڑھا ئیں ورنہ ہم آپکی امداد بند کر دیں گے۔ شاید علامہ اقبال ملت اسلامیہ کیلئے عالمی سامراج کی ہماری صفوں میں پاپائیت اور خانقاہیت کے روپ میں قائد امت بنی ہوئی مافیا کو پہچان گئے تھے جن کی زبانی انکا راز بتایا کہ
مست رکھو ذکرو فکر صبحگاہی میں انھیں
پختہ تر کردو مزاج خانقاہی میں انہیں
درس نظامی کے درجات اور کتب جو اورنگزیب کے زمانے میں مولانا نظام الدین سہالوی نے ترتیب دیں تھی ان میں دورہ حدیث کے نام سے صحاح ستہ نامی (قرآن دشمن احادیث کی) چھ عدد کتابیں بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ بطور اضافی ترمیم کے شامل درس نظامی کرائیں جس کے لئے انگریز سرکار نے اٹھارہ سؤ ستاون کی جنگ آزادی میں مولانا محمد قاسم نانوتوی کی شرکت کے جرم کی پاداش میں اسکے ساتھ سودا کیا تھا کہ تیرے جرم کی سزا جیسے کہ تختہ دار ہے سو اگر آپ پھانسی سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمارے دوکام کرنے ہونگے ایک یہ کہ فتوی لکھو کہ آج کے دور میں اگر کوئی شخص خود کو نبی کہلائے اور نبوت کی دعوی کرے تو محمد رسول اللہ کی ختم نبوت نہیں ٹوٹے گی اسے کوئی خطرہ نہیں ہوگا دوسرا کام یہ ہے کہ آپ ایک  مدرسہ قائم کریں جس میں دینی علوم کے درس نظامی میں حدیث کی صحاح ستہ کے نام سے چھ کتابیں شامل کریں۔ یہ دونوں شرط قبول کرکے نانوتوی صاحب خود تو پھانسی پر چڑھنے سے بچ گئے لیکن صحاح ستہ نامی کتب احادیث کو درس نظامی میں رائج کرکے پورے اسلام کو پھانسی پر چڑھا دیا (آج اگرکوئی نبی کہلائے تو ختم نبوت کو کوئی خطرہ نہیں یہ نانوتوی صاحب کی فتویٰ اسکی کتاب تحذیر الناس میں آج بھی موجود ہے ہر کوئی پڑھ سکتا ہے) میں نے جو علم حدیث کو درس نظامی میں لانے سے اسلام کو پھانسی  پرچڑھانے سے تعبیر کیا ہے وہ اس دلیل کے ساتھ کہ کتاب بخاری میں امام بخاری نے معاذ اللہ استغفراللہ جناب رسول علیہ السلام کو زانی اور بت پرست لکھاہے زنا کے حوالہ کیلئے پڑھیں کتاب النکاح کے باب نمبر 142 کی حدیث نمبر 218 سمعت انس بن مالک قال جاءت امرأۃ من الانصار الی النبی ‍ﷺ فخلابھا فقال واللہ ان کن لاحب الناس الی یعنی انس بن مالک کہتے ہیں کہ انصار میں سے ایک عورت آئی نبی علیہ السلام کے پاس پھر  آپ نے اسکے ساتھ خلوت کی اسکے بعد اسے کہا کہ آپ انصار کی عورتیں مجھے بہت محبوب لگتی ہیں اور لوگوں میں سے۔ دوسرے مقام پر کتاب الطلاق کی حدیث نمبر 238 میں حدیث ہے کہ مدینہ سے قریب شوط نامی کھجور کے باغ میں جونیہ نامی ایک عورت کو لایا گیا تھا وہاں رسول اندراس گھر میں گئے اور جونیہ کو کہا کہ ھبی نفسک لی یعنی آپ خود کو میرے حوالے کرو، تو جواب میں اس عورت نے کہا کہ کیا کوئی ملکہ کسی بازاری شخص کیلئے خود کو حوالے کرسکتی ہے اور امام بخاری کی ایک حدیث میں جناب رسول کو معاذاللہ بتوں کو سجدہ کرنے والی حدیث کا حوالہ اور تفصیل خود اس کتاب کے مضمون "نبی کا مشرکوں کے ساتھ بتوں کو سجدہ کرنا"۔ میں پڑھ سکتے ہیں۔
جناب قارئین! کیا مجھے یہ حق نہیں ہے کہ میں امت کے اندر یہودو نصاری اور مجوس کی ایجنٹ مافیا جو قرآن دشمنی کی خاطر یہ خرافات پھیلارہی ہے کہ علم حدیث کے بغیر قرآن سمجھ میں نہیں آسکتا اور اگر حدیثیں قرآن کا تفسیر کرتی ہیں تو ابھی جو آپ کتاب بخاری کی حدیثیں پڑھ آئے کیا ان کو آپ جناب رسول کی مدحت قرار دیں گے یا مذمت، جناب رسول کی تعریف قرآن حکیم نے جو خود کی ہے کہ   لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا (21-33) یعنی جو لوگ اللہ کا تقرب حاصل کرنے کیلئے اسکے قانون کی یاد سے یوم آخرت کی کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے زندگی کا نمونہ اور سمبال جناب رسول کی شخصیت کی سیرت ہے تو اب کوئی بتائے کہ اللہ نے اس آیت کریمہ میں جو اپنے نبی کی سمبالک پر سنلٹی کو سراہا ہے اس مدحت نبی کے مقابلہ میں کوئی بھی اہل حدیث اگر وہ اپنے اندر میں چھپا ہوا عیسائی نہ ہو تو کیا وہ بخاری کی مذکور حدیثیں جناب رسول کی اس تعریف میں بتائی ہوئی آیت کریمہ (21-33) کے مقابلہ میں تفسیر کیلئے پیش کرسکتا ہے؟ میں نے کسی اہل حدیث کیلئے اندر میں اسکے عیسائی نہ ہونے کا شرط اسلئے لگایا ہے جو کسی سرکاری آدمی کی طرف سے مجھے بتایا گیا کہ چھاپوں کے دوران اہل حدیثوں کے ٹھکانوں سے ہمیں عیسائی لٹریچر ملا ہے۔ اسکے سواء میں ابھی کچھ دن پہلے پنجاب گیا وہاں دوستوں نے مجھے حدیث کی کتاب مسلم دکھائی جسکا اردو ترجمہ علامہ وحید الزمان کا کیا ہوا تھا جومسلکا اہل حدیث تھے اور مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور سے شائع شدہ تھی دوستوں نے کتاب کے اندر کتاب الفتن کے ایک باب میں ایک حدیث کے متعلق سوال کیا کہ آپ اسکے بارے میں کیا کہتے ہیں باب کا عنوان تھا باب تقوم الساعة والروم اکثر الناس پھر نیچے کی حدیث جو دوست نے پڑھکر سنائی تو مجھے وہ مکمل نیا ماڈل حدیث معلوم ہوئی میں نے میزبان دوست سے گذارش کی کہ میرے گھر میں بھی مسلم کتاب ہے جو مدارس میں پڑھائی جاتی ہے یہ حدیث میں اسکے ساتھ ٹیلی کرکے دیکھوں گا مجھے یہ حدیث فوٹو اسٹیٹ کراکر دیں جو انہوں نے مجھے ازراہ عنایت فوٹو اسٹیٹ دلایا اور گھر میں آکر جو میں نے درس نظامی والی بغیر ترجمہ کتاب سے ملاکر دیکھی تو لاہور والی کتاب مسلم کراچی کی کتاب مسلم سے بلکل اور تھی یعنی کراچی قدیمی کتب خانہ کے مطبوعہ کتاب میں وہ باب اور حدیث سرے سے تھی ہی نہیں جس میں یورپ کے رومی عیسائیوں کی دنیا پر غلبہ کی وجہ انکی اعلیٰ چار خصلتیں بھی حدیث میں گنوائی ہوئی تھیں اس سے تو میں سوچ میں پڑگیا کہ علامہ وحید الزمان صاحب بھی اہل حدیث تھے جس کو ملی ہوئی یہ حدیث برطانیہ کی جھنگل کی حویلی والوں کی طرف سے سمرقند بخارا نیشاپور کی حدیث سازی کے ٹکسال کی طرح جاری کی ہوئی ہے اور میڈ ان برٹش  حدیثیں  اہل حدیثوں کے روپ دھارے ہوئے علاموں کے مکاتب کی طرف سے نت نئی تقاضائوں کے حل کی خاطر عالم اسلام کی علمی مارکیٹ میں لائی جارہی ہیں پاکستان گورنمنٹ میں بھی کوئی دم نہیں ہے جو ایسی چیزوں کی طرف توجہ کرے لیکن وہ نئی حدیثوں کی گھڑاوت کی طرف بھی کیا توجہ کریگی جو آج سے اندازا بیس پچیس سال پہلے میں نے شہر کراچی کی ایک لوکل بس میں سفر کرتے ہوئے بس پر چسپاں ایک اسٹیکر پڑھا جس پر ایک حدیث رسول علیہ السلام کے اسم گرامی کی طرف منسوب لکھی ہوئی تھی جسکا خلاصہ یہ تھا کہ فرما یا رسول علیہ السلام نے کہ اخیر زمانے میں ملک ہند کے ساتھ اسلام کی فوجیں لڑیں گی جو شخص بھی مسلم فوج میں بھرتی ہوکر کفار ہند سے لڑے گا تو اسکے لئے اللہ کے ہاں اتنے اتنے درجات ہوں گے میں یہ حدیث پڑھتے ہی سمجھ گیا کہ یہ روایت جماعۃ الدعوہ کے حافظ سعید اہل حدیثوں کے جہادی لیڈر کی مشن کی خاطر تیار کرائی گئی ہوگی حدیث سازی کی بات چلی ہے تو ایک اپنی بات دوبارہ بھی عرض کروں کہ ذاوالفقار علی بھٹو کو نئی نئی حکومت ملی تھی جی ایم سید نے پوری سندھ کا دورہ شروع کیا یہ 1973ع کے اوائل کی بات ہے دورے میں کئی دوست شریک تھے میں بھی تھا حاجی عطا محمد لنڈ مرحوم کے گاؤں میں ایک رات بسیرا ہوا وہاں سندھ کے بین الاقوامی انعام یافتہ کہانی کار اور افسانہ نویس علی بابا بھی ساتھ تھے اسنے مجھے رازدارانہ انداز میں کہا کہ ایک کام کرو میں نے کہا وہ کونسا کام تو اسنے کہا کہ رسول اللہ کے نام سے ایک حدیث بناؤ کہ انہوں نے سندھو دیش بنانے کی تلقین کی ہے اور فضائل بتائے ہیں میں نے اسے کہا کہ کم بخت حدیث تو حدیث جب ہوگی جب رسول خود فرمائے ایسے کیسے حدیث بنے گی اسنے کہا باقی سب حدیثیں بھی دوسرے لوگوں نے بنائی ہیں اگر تمنے ایک اور بنادی تو کیا ہوگا۔ میں اب سوچتا ہوں کہ علی بابا کی بات صحیح تھی میں غلطی پر تھا۔
اہل حدیث لوگوں کے نزدیک مسائل دین قرآن سے بتانا ناجائز ہیں۔
میرے سامنے مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب "تحریک آزادی" ہے جو طیب پبلشرز یوسف مارکیٹ غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور کی شائع کردہ ہے جس میں آخری چیپٹر مرزائیت کے عنوان سے جو صفحہ نمبر 159 سے شروع ہوتا ہے اسی میں کوئی شخص آزاد صاحب سے اپنے علائقہ میں کسی احمدی مرزائی قادیانی مبلغ کی تبلیغی سرگرمیوں کے حوالہ سے کچھ استفسارات کرتا ہے جن میں مرزاغلام احمد کی دعاوی بسلسلہ نبوت کے سوال ہیں اس حصہ میں کل چھ عدد خطوط ہیں جن میں سے ایک خط مولانا ثناء اللہ امر تسری صاحب جو اخبار اہل حدیث کے ایڈیٹر تھے کو لکھا ہے۔ کہ مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ جو تحریر اس میں شائع فرمائی ہے وہ نظر سے گذری حیران ہوں کہ آخر ان خطوط میں کونسی بات تھی جس سے ان دور از کار نتائج کی طرف آپ کا ذہن منتقل ہوا۔
جناب قارئین! خط لمبا ہے جو مکمل نقل کرنا ضروری نہیں اسکے حوالہ سے جو بات بھی کرنی ہے وہ یہ کہ جناب مولانا آزاد صاحب علم حدیث کے پرستار تھے خود اہل حدیث بھی تھے اس حد تک بدبودار اہل حدیث تھے جوولیعلھم الکتاب والحکمة (129ڏ2) میں لفظ حکمت کو کتاب قرآن کی تفسیر ماننے کے بجاء علم حدیث قرار دیتے تھے اور مقدام کی روایت کہ "الاانی اوتیت الکتاب و مثلہ معهٗ" یعنی نعوذباللہ وہ علم حدیث کو قرآن کے مثل بھی قرار دیتے تھے۔ آزاد صاحب کے یہ خیالات اسکے خط میں لکھے ہوئے ہیں سو آزاد صاحب کی حدیث پرستی کے لئے اتنی یقین دہانی اگر سچی ہے تو ایسے آدمی نے مولانا ثناء اللہ کو لکھا ہے کہ میں نے اگر کسی آدمی کو ختم نبوت کے ثبوت میں صرف قرآن حکیم کے دلائل کا ذکر کیا ہے اور احادیث کا ذکر نہیں کیا ۔۔۔۔ اب فرمائیے اگر ایسا لکھ دیا گیا تو اس میں کونسی برائی کی بات ہوگئی اس درجہ ناگواریء خاطر کا موجب ہورہی ہے؟ محترم قارئین! آپ سمجھ گئے ہونگے کہ ابوالکلام آزاد کے خطوط میں احمدی مبلغ کے دوست کے خطوط کے جواب آزاد صاحب نے جو دئے ہیں ان میں کمی کے ازالہ کے لئے خط میں کسی مسیح موعود کے آنے کے مشہور کردہ مفروضوں سے متعلق بھی آزاد صاحب نے خلاف قرآن نزول مسیح کا نظریہ بھی قبول کیا ہے اسکی تائید میں مسیح کے آنے کا اقرار بھی کیا ہے پھر بھی اہل حدیثوں کا پیشوا جناب ثناء اللہ امرتسری صاحب اس پر سرزنش کرتا ہےاور تنابزوا بلالقاب کی حد تک آزاد صاحب کو طعن وتشنیع کرتا ہے ۔
بہرحال مولانا ثناء اللہ امرتسری نے کہاکہ آپ نے یہ سارا بحث اور استدلال صرف قرآن کے حوالہ سے کیوں کیا اور علم حدیث کے حوالوں سے حدیثی موقف کیوں پیش نہیں کیا۔
جناب قارئین! علم حدیث کی وسعتوں کا یہ حال ہے کہ تاریخ اسلام میں جتنے بھی باطل فرقے پیدا ہوئے ہیں بشمول مرزاغلام احمد قادیانی کے سب نے اپنے موقف کی تائید میں علم حدیث کی روایات پیش کی ہیں ویسے بھی شیعوں کی حدیثیں جدا ہیں سنیوں کی حدیثیں جدا ہیں پھر سنیوں میں دیوبندیوں اور بریلویوں کی حدیثیں بھی جدا جدا ہیں اگر آپ ان فرقوں کے پسمنظر میں جائیں گے تو اہل حدیث اور دیوبندی سعودی حکومت کی گڈلسٹ میں ملیں گے بریلوی فرقہ کے لوگ ترکی حکومت کی گڈ لسٹ میں ملیں گے شیعہ لوگ ایران مصر اور شام کی گڈلسٹ میں ملیں گے اور اگر ان حکومتوں کے تعلقات پر جائیں گے تو مذکور مسلم ممالک امریکہ اور عالمی سامراج کے گڈلسٹ میں ملیں گے۔ نیز امریکہ اور عالمی سامراج کے تعلقات مذہبی فرقہ جاتی قیادتوں کے ساتھ براہ راست بھی ملیں گے۔ چونکہ دنیائے سامراج کی اصل جنگ قرآن سے ہے اسوجہ سے کہ یہ کتاب محنت کشوں کی لوٹ کھسوٹ کرنے سے رکاوٹ ہے (22-45) اسلئے عالمی استعمارنے اپنے گماشتہ فرقوں کو حکم دیا ہوا ہے کہ مسائل دین بجاء قرآن کے علم حدیث سے دیا کرو جہاں تک جدید حالات میں علم حدیث کی رہنمائی کی گنجائش کی بات  ہے تو اس کے لئے سامراج کی جھنگل کی حویلیوں میں قائم کردہ حدیث ساز ٹکسالیں علم حدیث کی نئی نئی روایات پیش کرتی رہیں گی ویسے بھی امام بخاری کی سوانحی کتابوں سے استادوں نے ہمیں یہ بھی پڑھایا تھا کہ کتاب بخاری کی ایک ایک حدیث امام بخاری نے بذریعہ مراقبہ کے جناب رسول علیہ السلام سے پوچھ کر کےتصدیق کرکے بعد میں کتاب کے اندر شامل کی ہیں سو مراقبوں میں جناب رسول کے ساتھ ملاقائیں کرنے کے آج کے دور میں بھی کئی ادارے قائم ہیں دکانیں چل رہی ہیں سجادہ نشین لوگ مریدوں کو نوید سناتے ہیں کہ جناب رسول نے مجھےخواب میں یامراقبہ میں آپکا نام لیکر یہ حکم دیا ہے وغیرہ وغیرہ۔
بہاولپور شہر میں بزم طلوع اسلام کا ممبر مرحوم بشیر صاحب اپنی دکان پر ہر آنے جانے والے سے قران حکیم کے حوالوں سے مسائل دین شیئر کرتا تھا 1999ع میں دہشتگردوں کی آجکل بندش کردہ تنظیم کے آدمی نے اسے قتل کردیا۔ کچھ دنوں بعد کسی دوسری واردات میں وہ قاتل گرفتار ہوا اور جیل میں قید کیا گیا مرحوم شہید بشیر کے بھائی ذوالفقار صاحب جیل میں اسکے ساتھ ملنے گئے اور سوال کیا کہ آپنے میرے بھائی کو کیوں قتل کیا؟ اس نے جواب میں کہاکہ وہ مرتد تھا مرزائی تھا تو ذوالفقار نے اسے کہاکہ آپ غلط کہتے ہیں ہم سب بشیر مرحوم سمیت مرزائیوں کو مرتد کہتے ہیں آپکو کسنے کہا کہ میرا بھائی مرزائی تھا تو اسنے جواب میں کہاکہ میرے فلان استاد حضرت مولانا نے کہا تھا کہ بشیر مرزائی ہوگیا ہے پھر جھٹ سے ذوالفقار قاتل دہشتگرد کے استاد مولوی صاحب کے پاس پہنچے اور اس سے سوال کیا کہ آپنے اپنے کارندے سے میرے بھائی کو مرتد اور مرزائی بننے کی بات کرکے اسے قتل کرایا ہے آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ میرا بھائی مرزائی تھا تو جواب میں مولوی صاحب نے فرمایا مجھے فلاں سرکاری عملدار نے کہا کہ بشیر مرزائی ہوگیا ہے اسے چلتا کراؤ! پھر میں فورا اس سرکاری عملدار کے ہاں پہنچا اور اسے کہا کہ آپ نے فلاں مولوی صاحب کو میرے بھائی بشیر کے مرزائی اور مرتد بنجانے کی بات کرکے اسے قتل کرایا ہے آپکے پاس کیا ثبوت ہے، ہم بزم طلوع اسلام سے تعلق رکھتے ہیں جسکا یہ نظریہ ہے کہ دین کے مسائل صرف قرآن سے بتائے جائیں (45-50) جواب میں اس سرکاری عملدار نے کہا کہ مجھے شہر کے فلاں اہل حدیث نے کہا تھا کہ بشیر مرزائی بن کر مرتد ہوگیا ہے۔ میں امت مسلمہ کے بہی خواہوں کی خدمت میں عرض گذار ہوں کہ غور کریں کہ عالمی سامراج ایمان اور دینداری کی ناپ تول داڑھی کے بالوں اور سلوار کے پائنچوں کی ناپ سے کرتا ہے جبوں میں چھپے ہوئے بہروپیوں کے ہاتھوں خدام القرآن لوگوں کو قتل کرارہا ہے اور حکومت پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے کارندے ان ملاؤں کے فرمانبردار بنے ہوئے ہیں یہ کونسی اسلامی مملکت ہے؟ کیا یہ جملہ دہشتگرد تنظییں اور مذہبی بہروپیے جان پوپ پال کے اس اعلان پر عمل نہیں کروا رہے کہ اس اکیسویں صدی میں دنیا کے اندر عیسائیت غالب ہوکر رہے گی کوئی بتائے کہ کیا یہی ہے پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ؟
قیامت میں اللہ ہم سے غیر قرآنی ناموں اور ان سے منسلک روایتی قصوں کے بارے میں کوئی سوال نہیں پوچھے گا۔
علم حدیث سازی کے شروع دور میں اس دور کے سامراج کی نیٹو قسم کی اتحاد ثلاثہ یہود مجوس اور نصاریٰ کا اسلام کے خلاف آپس میں اتحاد تھا، جن کے فرستادگان مدعیء امامت دانشوروں کو اسلامی علوم کی دنیا میں جناب خاتم الانبیاء کو عمر کے لحاظ سے چھ سالہ گڑیوں سے کھیلنے والی بچی کے ساتھ خلاف قرآن عقد نکاح کرانے کی اسلئے ضرورت پڑی جو جناب رسول کو غیر قرآنی آل دینی تھی اس آل کی منبع فاطمہ کو بھی انہوں نے نوسال کی عمر میں جناب رسول کے چچازاد بھائی علی کے ساتھ شادی کرانی تھی۔ اگر علماء سامراج کو فاطمہ کی علی کے ساتھ شادی سے آل رسول پیدا کرنے کی ضرورت نہ ہوتی تو وہ عائشہ کی فرضی شخصیت اوراسکی کم سنی میں خلاف قرآن عقد نکاح کی رام کہانی نہ بناتے(فاطمہ کی شادی کی عمر کا حوالہ کتاب اصول کافی کے باب میلاد ائمہ میں دیکھا جائے) علمی دنیا میں جھوٹی روایات کی پیداوار عائشہ کی جناب رسول کے ساتھ نوسال کی عمر میں شادی کا ڈنڈھورا پیٹا توجارہا ہے لیکن فاطمہ کی علی کے ساتھ نوسال کی عمر میں شادی کرنے پر کوئی بھی آواز نہیں اٹھتی!! تقابل اور تضادات کا ہنر بتاتا ہے کہ فاطمہ کی شخصیت منوانے کیلئے عائشہ کی متضاد شخصیت پیدا کی گئی ہے جسکے فرضی سوانحی تعارف پر ایسے تو مباحث کھڑے کئے گئے جو کسی اور طرف سوچنے سمجھنے کی فرصت ہی نہ ملے۔ تاریخ اسلام میں تبراباز حدیث سازوں نے اکابریں اسلام کے اصلی نام ہی مسخ کردئے ہیں انکی جگہ گالیوں والے نام ابوبکر، عثمان، معاویہ، عباس، خدیجہ، فاطمہ وغیرہ معنائوں کے لحاظ سے یہ سارے نام حکم قرآن بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ (11-49) کے خلاف رکھے گئے ہیں انکی معانی سے ان ہستیوں کی توہین ہوتی ہے۔
عربی مدارس کے درس نظامی کی قرآن دشمنی
عربی مدارس کے نصاب تعلیم میں جسکا نام "درس نظامی ہے" دوقسم کے علوم ہیں ایک قسم کا نام فنون ہے جو صرف ، نحو، منطق، ادب وغیرہ پر مشتمل ہے دوسرا قسم دینیات کے نام کا ہے جس میں فقہ حدیث اور تفسیر ہے فن تفسیر میں کل دوکتابیں ایک جلالین دوسری بیضاوی پڑھائی جاتی ہیں اور فن حدیث میں صحاح ستہ نامی چھ عدد کتابوں کے علاوہ ساتویں کتاب مشکوۃ اور کہیں کہیں آٹھویں کتاب مؤطا امام مالک بھی پڑھائی جاتی ہے باقی فقہ کی کتابیں نورالایضاح، قدوری، کنزالدقائق، شرح وقایہ اور ہدایہ پڑھائی جاتی ہیں اور ہدایہ میں فقہ کے چاروں اماموں ابوحنیفہ (اسکے دوتین شاگرد محمد، یوسف اور زفر) امام مالک شافعی احمد بن حنبل کے اقوال بھی پڑھائے جاتے ہیں دینیات نامی ان جملہ کتابوں پر دعوی سے یہ تبصرہ کرتا ہوں کہ ان میں کسی بھی کتاب کے اندر مسائل حیات کی خاطر قرآن کامتن لکھ کر اسکی رہنمائی کا کوئی بھی موقف اور نظریہ پیش کیا ہوا نہیں ہے اور جلالین اور بیضاوی سمیت تفسیر القرآن بالقرآن سے یہ جملہ امامی علوم یکسر خالی ہیں۔
جناب قارئین! میں نے ابھی دینیات کے اندر تین قسم کے علوم کا ذکر کیا ایک فقہ ائمہ اربعہ دوسرا علم حدیث وہ بھی امامی روایات والا تیسرا قسم تفسیر جو وہ بھی ان حدیثی روایات سے اخذ کردہ ہے فقہ سے متعلق اماموں کے پیرو کاروں کا کہنا ہے کہ یہ حدیثی روایات سے استنباط کردہ علم ہےیہاں یہ بات کھل کر ثابت ہوئی کہ درس نظامی کی دینیات کا اصل واحد صرف علم حدیث ہے اور اس علم حدیث کے لئے امامی فرقوں کی دعوی ہے کہ یہ حدیثیں قرآن کا تفسیر کرتی ہیں ان حدیثوں کے علاوہ قرآن کو سمجھا نہیں جاسکتا۔ جبکہ یہ دعوی مکمل طور پر جھوٹی ہے اس دلیل کے ساتھ کہ آیت إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ (105-4) کے مطابق جناب خاتم الانبیاء علیہ السلام کو رب ذوالجلال نے دنیا میں حکومت کرنے کے لئے حکمران بناکر بھیجا، لاکھوں حدیثوں میں سے کوئی ایک بھی حدیث ایسی دکھاؤ جس میں جناب رسول علیہ السلام کو حاکم بنانے کی بات لکھی ہوئی ہو، اور قرآن حکیم نے جملہ انبیاء علیھم السلام کے لئے فرمایا ہے کہ ہم نے سارے نبیوں کو علم وحی کی روشنی میں انقلابات لانے کے بعد حکمران بھی بنایا (79-21) کوئی بھی درس نظامی کا دستاربند عالم اس آیت کی تفسیر لاکھوں حدیثوں میں سے کسی ایک بھی حدیث سے کھول کردکھائے جس میں انبیاء کرام کو دنیاوی حکمران بنانے کی بات کی گئی ہو اگر ان اتحاد ثلاثہ یہود مجوس اور نصاری کے حدیث سازدانشور جو امامی خول اور روپ میں اسلام کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں کسی ایک بھی حدیث میں یاایھاالذین آمنوا کی تفسیر کریں کہ آمنوا کون لوگ ہیں اگر انکی حدیثوں کے حوالوں سے یاایھاالذین آمنوا کی معنی ایمان لانے والے ہیں تو ساری مکی سورتوں میں اس جملہ کی ترکیب سے یہ خطاب یاایھاالذین آمنوا کہیں ایک بھی مقام پر استعمال نہیں ہوا سو کیوں جبکہ پہلے مکی زندگی میں کئی سارے اصحاب کرام صاحب ایمان لوگ تھے جناب رسول کے ساتھ شریک انقلاب تھے مطلب میرے الزام کا ان حدیث سازوں پر یہ ہے کہ انکے اوپر اپنے ان داتا آقاؤں کی طرف سے یہ ڈیوٹی رکھی ہوئی ہے کہ قرآن کو غیر سیاسی کتاب بناؤ قرآن کو دعاؤں تعویذوں کی کتاب بتاؤ اور جو فقہ کی کتابوں میں معاملات کے ابواب ہیں وہ سب بغیر متن قرآن کے ہیں علم حدیث کی طرح انکے اپنے ہیں تاریخ اسلام میں تعلیمی درسگاہوں اور حکومتی اداروں میں قرآن کی جگہ علم روایات کو نصاب تعلیم میں لانے کا دور بنوامیہ کے زوال اور شکست کے بعد بنوعباس کے دور سے شروع ہوتا ہے، پھر جو مسلم حکمرانوں کےا قتدار کی تاریخ شروع ہوتی ہے وہ اہل سنت نامی بنو عباس اور فاطمین کے درمیان منقسم ہوجاتی ہے تیسرا گروہ اثنا عشری شعیوں کا ہے جنکی نفری طاقت اتنی نہ تھی جو وہ یوٹو پیائی آل کے لئے مین پاور اور افرادی طاقت سے اپنی حکومت بناسکیں اسلئے وہ لوگ اپنے لئے خیالی اور باطنی حکمرانی کے لقب پر راضی رہے اصل میں یہ تینوں گروہ بنوامیہ کے خلاف جو متحد ہوکر لڑے تھے وہ اس نظریہ پر کہ دنیا سے قرآن کی حکمرانی ختم کی جائے اور قرآن کی مستحکم حکومت جسکا بنیاد جناب خاتم انبیاء علیہ السلام نے مدینہ میں ہجرت کرتے ہی رکھا تھا اس لئے قرآن حکیم کی جملہ مدنی سورتوں میں یاایھا الذین امنوا کے خطاب سے جناب رسول کی حکومت کو اللہ نے دنیا بھر کو امن دینے والا حکمران کہا ہے اسکو مٹانے کیلئے اتحادی دشمنوں نے فلسفہ آل رسول ایجاد کیا تھا جو آل قرآن کے حوالہ سے نبی کو تھی بھی نہیں اور آج پندرھویں صدی ہجری تک فاطمی لوگ جن کے وارث اسماعیلی فرقہ والے ہیں، اہل سنت مارکہ زیدی شیعے اور اثناء عشری شیعہ لوگ آپس میں شروع کی طرح غیر قرآنی اور یوٹوپیائی تصوراتی آل رسول کے بنیادی نظریہ پر سب متفق ہیں بقایا تفصیلات میں انکے اتنے تو اختلافات ہیں جو یہ آپس میں ایک دوسرے کا خون  بہانا جہاد اور ثواب سمجھتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ کل امویوں کے دور اقتدار میں ان کو انکے اقتدار سے ہٹانے میں فاطمیوں اور عباسیوں کے درمیان وجہ اتحاد اور وجہ اشتراک جو آل محمد کا نظریہ بنا تھا آج تیرہ چودہ سو سال گذرنے کے بعد بھی نظریہ آل پر یہ دونوں تینوں گروہ پہلے کی طرح متفق اور متحد ہیں اسکے باوجود آپس کے خون بہانے کے لئے ہر وقت مستعد بھی رہتے ہیں جس کے دو سبب ہیں ایک ہے انکا داخلی بحران جس پر میں ڈرکے مارے جان بوجھ کر نہیں لکھ رہا دوسرا ہے انکا خارجی سبب وہ خارجی سبب یہ ہے کہ جس اتحاد ثلاثہ یعنی یہود مجوس اور نصاریٰ نے ان تینوں گروہوں کو جنم دیا تھا اب وہ انکے درمیان لڑاؤ اور حکومت کرو کی ٹرمنالاجی سے دنیا کے اندر سے اسلام اور مسلمانوں کی اسپین کی طرح بیخ کنی کرنا چاہتا ہے اس ہدف اور ٹارگیٹ کو پانے کے لئے ایک تو اکیسویں صدی کے شروع میں عیسائی کیتھولک فرقہ کے پیشوا آنجھانی جان پوپ پال بینی ڈکٹ نے ہندستان کے دورہ کے موقعہ پر کہا تھا کہ یہ اکیسویں صدی دنیا میں عیسائیت کے غلبہ کی صدی ہوگی، اس غلبہ کی جھلکیاں تمام بہت ہیں جن پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے جان پوپ پال کے قول کو ہم نے مسلم مملکت انڈونشیا اور سوڈان صومالیہ نائجیریا کو ادھر تم ادھر ہم کے نعرہ سے مذہبی بنیاد کا جوروح پاکستان کے اساس میں کارفرماتھا یعنی مذہب کی بنیاد پر ریاستوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا وہ ان ملکوں کا بٹوارہ کرکے اقوام متحدہ کے لسٹ میں نئی عیسائی ریاستوں کے اندراج کا اضافہ کرچکا جو یہ سلسلہ ابھی بند نہیں ہوا وہ جان پوپ پال کے کہے مطابق دنیا بھر سے مسلمانوں کے خاتمہ تک جاری رہیگا، پاکستان اور سعودی مملکۃ اگر اسلام اور مسلمانوں کے خیر خواہ ہوتے تو مسلم ملکوں سوڈان اور انڈونیشا کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجانے اور جان پوپ پال کی وارننگ پرکئی سارے سیمینار کراتے کانفرنسیں کراتے اور مسلم ممالک کے وجود کی بقا کی خاطر کوئی عملی اقدامات اٹھاتے اور وجوہات پر تحقیق کراتے لیکن انکے خمیر کی روشنی میں کہنا پڑتا ہے کہ:
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
میری معلومات کے مطابق امریکن سی آئی اے کی تھنک ٹیئنک کی ایک میٹنگ میں یہ بحث بھی ہوا تھا کہ ہم جو سوویت یونین کے خاتمہ کے لئے مسلم امت میں جہادی گروپ جنم دے رہے ہیں یہ سوویت کے خاتمہ کے بعد ہمارے لئے کہیں مار آستین تو نہیں بنینگے سو انکی ایسی میٹنگوں میں جہادی لشکروں سے حفظ ماتقدم کے لئے یہ پاس کیا گیا تھا کہ انکو اپنی دوست عسکری فورسز اور مذہبی تنظیموں کے ذریعے کنٹرول کیا جائے نہ صرف اتنا بلکہ انکے ذریعہ سے انکے اتحادیوں کے کئی اور دشمنوں کو بھی زیر کیا جائے سو جب سے پاکستان سرکار کے طالبان سے مصالحت کے مذاکرات شروع ہوئے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے تو جیو کے اینکر پرسن حامد میر نے مولانا فضل الرحمان سے مذاکرات کے متعلق سوال کیا کہ یہ کامیاب ہوتے کیوں نظر نہیں آرہے تو مولانا نے جواب میں کہا کہ مذاکرات کی کامیابی کی چابی جی ایچھ کیو کے پاس ہے اس کے علاوہ کچھ دن پہلے جماعت اسلامی کے سابق سربراہ منور حسن صاحب نے فرمایا تھا پاک فوج اور طالبان کی جنگ میں مرنے والے صرف طالبان سپاہی کو ہم شہید کہینگے تو ان دونوں تبصروں پر امریکن سی آئی اے کی میٹنگ میں جہادی فورسز کو کمان کرنے کے لئے جو پالیسی پاس کی گئی تھی اسکے کرتے دھرتے کھل کر سامنے آگئے میں یہ بظاہر تو موضوع سے باہر چلاگیاہوں لیکن قطعا ایسے نہیں میں بلکل یہ ساری باتیں درس نظامی کے مرکزی علم فن حدیث کی روشنی میں یہ باتیں کر چکاہوں وہ اس حوالہ سے کہ امریکہ برطانیہ کی جھنگل کی حویلیوں سے ابھی تک جناب رسول علیہ السلام کے اسم گرامی کے حوالوں سے حدیثیں جاری کی جارہی ہیں، اسلام صدیوں سے لیکر لاوارث ہے اسیوجہ سے تو ابھی نیا ماڈل علامہ وحید الزمان کے ترجمہ والی کتاب مسلم میں دنیا پر عیسائیت کے غلبہ والی حدیث لائی گئی ہے جو پرانے نسخوں میں نہیں ہے جبکہ یہ حدیث باقائدہ جان پوپ پال کے اعلان کا شرح ہے تو کوئی بھی وزارت تعلیم وزارت مذہبی امور کا ذمہ دار شخص اہل حدیث فرقہ والوں سے سوال نہیں کر رہا کہ آپ عالم اسلام میں ایسی حدیثیں لاکر کنکی نوکری کر رہے ہیں؟۔
قرآن کی رہنمائی میں آج بھی ہم ایک بن سکتے ہیں
علم حدیث گھڑنے والوں کی جانب سے جناب خاتم الانبیاء علیہ السلام کی حیوٰۃ طیبہ کے دور میں اصحاب رسول سے نفرت کی وجہ سے کئی سارے نام خلاف حکم قرآن گالیوں والے رکھے گئے تھے جنکی قرآن نے منع بھی کی ہے اس سے کئی فرضی شخصیتیں وجود میں لاکر انکی آپس میں خلاف حکم قرآن فرضی جنگیں مشہور کرائی گئی ہیں۔ ایران کے مرکز علمی قم کے فاضل ڈاکٹر کاظم علی رضا (جھنگ) نے ایک مجلس میں فرمایا کہ شیعہ مسلک کے لوگ قرآن حکیم کا بہت احترام کرتے ہیں۔
آیت کریمہ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ (29-48) جنگ جمل اور جنگ صفین کو تسلیم ہی نہیں کرتی نیز آیت کریمہ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ (6-59) کھل کر جنگ خیبر کے لگنے کا انکار کر رہی ہے علم حدیث کی خلاف قرآن پئداوار، جناب رسول کی چھ اور نو سالہ فرضی دلہن جسکا نام عائشہ بتایا گیا ہے لغت کی کتاب المنجد جو ایک عیسائی کی لکھی ہوئی ہے نے لفظ عیاش کو لفظ عائشہ کا مبالغہ قرار دیا ہے اور عیاش کی جھوٹی اور فرضی معنی لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لئے لکھی ہے روٹی بیچنے والا، جبکہ بد باطن اور اصحاب رسول کے ساتھ دشمنی رکھنے والے روایت ساز اپنے ہنر سے دومعنی والے نام تجویز کرتے تھے اید بغیر گالی والی معنی دوسری گالی اور توہیں والی معنی تو عائشہ نام کی ایک معنی جو خوشحالی کی زندگی بسر کرنے والی ہے پھر اسکے مبالغہ والے عیاش لفظ کی دو معنی ہوئیں جسکے مطابق اس نام کی فرضی زوجہ رسول کا تعارف جو کتاب بخاری کی حدیثوں میں موجود ہے ان حدیثوں کی روشنی میں عائشہ عیاش ان دومعنائوں سے ایک عدد بری معنی ہےجس سے جھنگل کی حویلی کے قسم کے حدیث ساز ائمہ کی اندر کی عداوت رسول کو تو تسکین مل جاتی ہے مطلب کی غیر قرآنی علوم جو دینیات کے نام سےا مت کے سرپر مارے ہوئے ہیں انکو خیرباد کرکے خالص قرآن سے دین سیکھنے اور حاصل کرنے کے لئے امت کے مشاہیر کو مل بیٹھ کر سوچنا چاہیے ورنہ جتنا فرقہ ساز علم حدیث نے پندرنھن سو سالوں میں مسلم لوگوں کا آپسکی لڑائیوں میں خون بہایا ہے اور رواں دور میں جو ہر فرقہ کے جدا جدا جہادی گروپ تیار کرائے گئے ہیں انکی کار گذاریوں سے کسی بھی خارجی دشمن کو ڈروں حملوں کی ضرورت نہیں پڑیگی مستقبل کی ان جملہ قیامتوں سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم قرآن والے مسلم بنیں اور اپنی درسگاہوں کا نصاب تعلیم قرآن کی روشنی میں تیار کریں۔
جناب قارئين! علم روایات کی خلاف قرآن کارستانیوں کا کتنا تفصیل پیش کروں؟ اس علم نے حج کی معنی مسخ کرکےصفا اور مروہ کی معنی پہاڑیوں پر رکھدی اور حدیثیں بنائی کہ جناب ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی ہاجرہ اور اسکے نوزائدہ بچہ اسماعیل کو اپنے گاؤں "ار"سے لیکر مکہ میں چھوڑ گیا جس جگہ نہ پانی تھا نہ کوئی کھانے پینے کا راشن سو بچہ اسماعیل کو پانی نہ ملنے کی صورت میں  پریشان ہوکر  اسکی ماں صفا مروہ پہاڑیوں کے درمیان پانی کی تلاش میں دوڑی ہے اسلئے حاجیوں پر تاقیامت وہاں دوڑنا لازم کیا گیا ہے جبکہ قرآن حکیم کا اعلان ہے کہ اسماعیل کمانے کی عمر تک اپنے والد ابراہیم کے ساتھ رہا ہے (100 تا 102-37) قرآن کے اس فرمان سے اسماعیل کی ماں کے ساتھ مکہ میں آنے اور اسکی ماں کا بچہ کے پیاس کیلئے پانی کی تلاش میں دوڑنا اور بچہ اسماعیل کاپانی کیلئے ایڑیاں رگڑنا جس سے زم زم کا چشمہ ابل پڑا یہ سب باتیں جھوٹ بنجاتی ہیں یہ سارے جھوٹے قصے خلاف قرآن عربی مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں۔ اس طرح علم حدیث بنانے والوں نے قانون تخلیق خداوندی لاتبدیل لخلق اللہ کے خلاف جناب عیسی علیہ السلام کے بن باپ پئدا ہونے کا ڈنڈھورا پیٹا ہے جبکہ سورت الانعام میں انبیاء اللہ زکریا یحی عیسی الیاس اسماعیل یسع یونس لوط علیھم السلام ان جملا انبیاء علیھم کے لئے اللہ نے مشترکہ طور پر انکے آباء واجداد کا ذکر فرمایا ہے (87-6) پھر کون سے دلیل کے ساتھ ان آیات میں سے جناب عیسی علیہ السلام کے نام کو کاٹ کر بن باپ بنایا گیا ہے کیا علم الاحادیث والے قرآن کو لاوارث قرار دیتے ہوئے اسکے اعلانات کو کاٹ رہے ہیں۔
ایسے کہ جیسے کسی کا خدا نہ ہو

امام بخاری کا جناب رسول کو مشرکوں کے ساتھ بتوں کی تعظیم میں سجدہ کرتے ہوئے دکھانا وہ بھی نبوت ملنے کے بعد۔
علم حدیث کے فن میں امام واقدی کا بھی بڑا نام ہے جسکی روایت ہے کہ جناب رسول علیہ السلام کفار مکہ کے سامنے سورت النجم کی آیت کریمہ پڑھ رہے تھے کہ أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى۔ وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى (20-53) اس آیت کے بعد بجاء اللہ سے ملی ہوئی وحی کردہ اگلی آیت 21 کے پڑھنے کے فرمایا کہ تلک الغرانیق العلیٰ وان شفاعتھن لترتجی یعنی یہ بت بلند وبالاہستیں ہیں انکی شفاعت اور سفارش میں قبولیت کی امید کی جاسکتی ہے اور رسول کی جانب سے یہ پڑھتےہیں ان بتوں کی تعظیم میں جناب رسول اسکے مؤمنین صحابہ اور مشرکین کفار سب سجدہ میں پڑ گئے اب اس واقدی کی روایت کو قارئین مہربان ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب بخاری کی اس حدیث پر غور کریں جس میں ہے کہ عن ابن عباس ان النبیﷺسجد بالنجم وسجد معہ المسلموں والمشرکون والجن والانس۔ حوالہ ابواب الکسوف باب سجود المسلمین مع المشرکین باب نمبر 686 حدیث نمبر 1006 یعنی ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺنے سورۃ النجم پڑھتے ہوئے سجدہ کیا اور ان کے ساتھ سجدہ کیا مسلموں نے مشرکوں نے جنوں نے انسانوں نے۔ اس حدیث میں امام بخاری نے واقدی کی حدیث کا دوسرا حصہ یعنی نبی اور کافروں کا ایک ساتھ سجدہ کرنا تو مان لیا باقی اگر لات عزی منوۃ اخریٰ کے بعد انکی شان میں تعریفی اور تعظیمی جملے تلک الغرانیق العلی وان شفاعتھن لترتجی نہیں بولے مگر ایسے جملے بولنے کے بجاء انکی مطلوبہ تعظیم یعنی عملی طور پر بتوں کی بلند مقامی کو تسلیم کرتے ہوئے انکو سجدہ کرادیا یہ تو واقدی سے بھی بازی لے گئے رہا معاملہ کہ متبعین بخاری اہل حدیث فرقہ والے یادیوبندی اور بریلوی اہل سنت کہلانے والے بخاری کی امامت اور ایمان کو بچانے کی جو تاویل کرتے ہیں کہ حدیث بخاری  میں یہ نبی کا مؤمنوں کا کفارر اور مشرکوں کے ساتھ جو سجدہ ہے یہ سورۃ کی آخری آیت نمبر 62 میں حکم فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا (62-53) کے ذیل میں ہے یہ سجدہ اسکے اتباع میں ہے اگر علم حدیث کے پیروکار مذکور فرقوں کی اس بات کو درست تسلیم کریں گے تو پھر انکے بقول سجدہ کرنے والے مکہ کے جمع مشرکین اور کافرین لوگوں نے اللہ کا حکم فاسجدو للہ واعبدوا یعنی اللہ کو سجدہ کرو اور اسکی عبادۃ کرو کو قبول کردیا اور اسپر عمل بھی کرکے دکھایا، اسطرح سے تو یہ سب لوگ مؤمن و مسلم ہوگئے کیونکہ سجدہ کرنا تو ایمان لے آنے کا عملی ثبوت ہے اور جبکہ نزول سورۃ النجم کم سے کم نبوت کے پانچویں چھٹے سال کا وقت ہے پھر کفار جب رہے ہی نہیں تو انکے مظالم سے ہجرت کیوں ہوئی اگر ہوئی بھی سہی تو بدر اور احد میں لڑنے کیلئے کون لشکر لاکر جنگ کرنے آئے تھے۔
مناسب سمجھتا ہوں بلکہ ضروری سمجھتا ہوں کہ قارئین کی خدمت میں حدیث ساز لوگوں کی طرف سے قرآن میں چودہ بار سجدہ تلاوت کا پس منظر بھی پیش کرتا چلوں بلکہ جوکسی حد تک پیش ہو بھی چکا ہے لیکن مزید و ضاحت کے طور پر عرض گذار ہوں کہ یہ حدیث ساز گروہ، اسلام قرآن اور جناب خاتم الانبیاء علیہ السلام کا ازلی دشمن ہے جب ہی تو واقدی اور امام بخاری نے جناب رسول کو لات، منات، عزی نامی بتوں کے نام سنتے ہی انکی  تعظیم میں نعوذباللہ انکو سجدہ کرایا ہے اور جناب رسول کو  بت پرست ثابت کیا ہے یہ بات تو میرے مخالف قارئین یعنی مذکور حدیث پرست فرقوں والے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ بخاری کی اس حدیث میں کفار اور مشرکین کا سجدہ کرنا یہ انکے اسلام لانے کا ثبوت نہیں ہے اور وہ سب کافر مشرک سجدہ کرنے کے بعد بھی مؤمن اور مسلم نہیں ہوئے تھے اگر انکے سجدہ کو اسلام لانے سے تعبیر کرینگے تو پھر انکا دوبارہ مرتد بننے کیلئے علم حدیث بنانے والوں نے ایسی کوئی حدیث نہیں بنائی ہے جس سے ثابت ہو کہ کافر مشرکون کا سجدہ لات عزی اور منواۃ نامی بتوں کیلئے تھا سورت کی آخری آیت کے حکم کے ذیل میں نہیں تھا جس سے انکا ایمان لانا اور اسلام لانا ثابت ہوجاتا ہے ہاں اگر یہ فالٹ حدیث بنانے والوں کے ذہن میں آجاتا کہ اگر کافر اور مشرک لوگوں نے آخری آیت کے حکم کے اتباع میں سجدہ کیا ہے۔ اس سے تو وہ مومن ہوگئے سو اسٹوری کے اس جھول کو درست کرنے کیلئے وہ ضرور انکے لئے ایمان لے آنے کے بعد پھر انکے مرتد ہونے کی بھی کوئی حدیث بناڈالتے۔ حدیث ساز اماموں نے جو کافر اور مشرک لوگوں کے سجدہ کرنے کا ذکر کیا ہے اس میں انہوں نے جناب رسول کو کفار کے بتوں کو سجدہ کرنے میں انکے ساتھ عملی ساتھ دیتے ہوئے دکھایا ہے معاذ اللہ نعوذباللہ یعنی جناب رسول کو بھی بتوں کی تعظیم میں سجدہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اگر یہ میری بات غلط ہے تو کوئی بھی دستار بند ملامولوی مشرکوں اور کافروں کے سجدہ کرنے سے ایمان لانے کے بعد انکا دوبارہ مرتد ہونا انکی اپنی والی احادیث میں سے ثابت کرکے دکھائے، اگر یہ کافروں اور مشرکون کے دوبارہ ایمان سے ارتداد کی حدیث نہیں دکھا سکتے تو باقی تیرہ سجدہائے تلاوت کے موقعوں پر کفار اور مشرکوں نے سورۃ النجم کے سجدہ کی طرح سجدہ کیوں  نہیں کیا؟ اس سے ثابت ہوا کہ اہل حدیث اور حدیثوں کے پیرو کاروں کے ہاں بھی انکا مسلک امام بخاری والا ہے کہ نعوذ باللہ جناب رسول اللہ نے بھی لات عزی اور منٰوۃ کی تعظیم کرتے ہوئے انکو سجدہ کیا ہے۔
اور باقی تیرہ سجدہائے تلاوت میں جناب رسول کے سجدہ کرنے کے ساتھ مشرکوں اور کفار کا سجدہ اسلئے نہیں ہے  جوان آیات سجدہ میں لات عزی منوٰۃ  بتوں کے نام نہیں ہیں۔

انتباہ
میں عزیزاللہ بوہیو اللہ کے فضل سے جمیع احکامات قرآن پر ایمان رکھتاہوں میں قیامت یوم الحساب کے موقعہ پر حجت کی خاطر یہ دعوی کے ساتھ وضاحت کر رہاہوں کہ بخاری کی اس حدیث سے مقصد حدیث سازوں کا جناب رسول علیہ السلام کی توہین کرنی ہے کہ انہوں نے معاذاللہ نبوت کے ایام میں سورت النجم کے نزول کے وقت کافروں کو سناتے وقت معاذ اللہ بتوں کو سجدہ کیا ہے اور اپنی اس بدباطنی کو چھپانے کیلئے یہ جڑتو مسئلہ گھڑا ہے  کہ قرآن میں جب جب سجدہ کرنے کے لئے امر کے صیغہ کے ساتھ حکم آئے توفی الفور وہیں کے وہیں اسی وقت سجدہ تلاوت کرنا ہے یہ جھوٹ اصل میں جناب رسول کو کفار کے بتوں کو سجدہ کرنے سے، علماء قرآن کی طرف سے انکار کرنے اور چئلنج کرنے کی وجہ سے ایجاد کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی بدباطنی کو چھپاسکیں، افسوس کہ ناموس قرآن اور ناموس رسول پر یہ الزامات اور توہین آمیز بہتان مدارس عربیہ کے درس نظامی نامی نصاب کی کتابوں میں امت مسلمہ کی اولاد کو درسا پڑھائے جاتے ہیں اور جناب رسول اور اللہ کے قرآن کا کوئی وارث اس درس نظامی کی خرافاتی روایات کو چئلنج کرنے سامنے نہیں آرہا، سو سجدہ تلاوت کے اختراع پر قارئین کی خدمت میں عرض کروں کہ قرآن حکیم میں جتنے بھی اوامر ونواہی ہیں انپر ایمان لانے کے بعد حکم کے مطابق تاحیات مثبت اور منفی حساب سے عمل کرتے رہنا ہے اور یہ مقصد نہیں ہے کہ صرف آیت سجدہ پڑھتے وقت ہی فی الفور سجدہ کرنا ہے اور جبکہ سجدہ کی یہ معنی بھی صحیح نہیں ہے جسطرح یہ مروج سجدہ الٹی طرح گرنے سے ادا کر رہے ہیں کیونکہ سجدہ کی معنی قرآن حکیم نے خود سمجھائی ہے وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (50-16) یعنی وہ کام کرنے ہیں جن کا حکم دیا جائے۔
اگر میری یہ بات غلط ہے تو کوئی بتائے کہ آیت کریمہ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (77-22) میں جو تین عدد احکام دئے گئے ہیں ایک رکوع کرنے کا دوسرا سجدہ کرنے کا تیسرا کوئی سانیک کام کرنے کا، درس نظامی کے مصنفین جن کی بڑی کھیپ جو بارہ امامی شش امامی اور چہار امامی شیعوں پر مشتمل ہے ان سب میں سے کسی نے بھی اس آیت کے حکم سے سجدہ تلاوت کی طرح، تلاوت والا رکوع اور تلاوت والے کارخیر کو وہیں سجدہ کی طرح دوران تلاوت رکوع کرنے کا حکم نہیں دیا اور وہیں کے وہیں دوران تلاوت کوئی سا کارخیر یعنی کسی بھوکے ننگے یا بیمار کی حاجت روائی کرنے کا حکم نہیں دیا سو کیوں ؟ کیا اللہ کے جملہ احکامات اوامراور نواہی سب برابر نہیں ہیں؟!!
درس نظامی پڑھانے والوں کا قرآن پر جھوٹ
مکہ مدینہ سے لیکر سارے عالم اسلام میں جھنگل کی حویلیوں کے تیار کردہ اماموں اور عالموں کی یہ دعوی ہے کہ قرآن ایک مبہم کتاب ہے اسے علم حدیث ہی کھولتا ہے سواء حدیث کے قرآن کو سمجھنا مشکل اور محال ہے قارئین حضرات نے ایک تو ابھی ابھی بخاری کی حدیث سے قرآن کی تفسیر سورت النجم کی آیت (20-53) میں دیکھ لیا کہ ان اماموں نے جناب رسول کو معاذ اللہ اپنی تفسیر میں بتوں کو سجدہ کرادیا ہے سو محترم قارئین کو میں زحمت دیتا ہوں کہ آئیں اور قرآن سے معلوم کریں کہ کیا وہ اپنی تفہیم تفسیر اور تفصیل کے لئے کسی ازبک تاجک نیشاپوری روایت ساز امام کا محتاج ہے؟ جواب میں قرآن حکیم فرماتا ہے کہ الَر كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ (1-11) یعنی میں اللہ اپنی کتاب کو دیکھتے ہوئے بتا رہا ہوں کہ یہ میری کتاب ساری کی ساری محکم آیات پر مشتمل ہے اسکے بعد یہ کتاب تفصیل کی ہوئی ہے حکیم اور خبیر اتھارٹی کی طرف سے (جو حکیم اور خبیر اتھارٹی خود اللہ کی ذات ہے) دوسرے مقام پر فرمایا کہ وَلَقَدْ جِئْنَاهُم بِكِتَابٍ فَصَّلْنَاهُ عَلَى عِلْمٍ هُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ  (52-7) یعنی ہم ان لوگوں کے پاس ایسی کتاب لے آئے ہیں جو ساری کی ساری علمی اور ہدایت کے پئمانوں پر تفصیل کردہ ہے (لیکن یہ بات ضرور ذہنوں میں رہے کہ) اس کتاب کی تفصیل ایسی قوم کیلئے ہے جو ایمان رکھنے والے ہوں اللہ پر۔ اب ہر کوئی جاکر دیکھے کہ وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں یا ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاں سے ملنے والی نصاب تعلیم کے درس نظامی اور تبلیغی نصاب کو مروج کے لئے تنخواہوں پر ایمان رکھتے ہیں۔
جناب قارئین! میں نے جو ابھی عرض کی کہ درس نظامی کے فاضل دستار بندوں کا یہ اعلان ہے کہ قرآن کو انکی احادیث اور روایات ہی تفسیر کرتی ہیں پھر یہ لوگ اپنی ایسی دعوی کے بعد جھٹ سے فاتحانہ انداز میں سوال کرتے ہیں کہ دکھاؤ قرآن میں انکی والی نماز کا تفصیل رکعات کی تعداد ترتیب  اور سجود کے ساتھ وترکی نماز تراویح کی نماز مشکل کشائی کی نماز، تہجد اور اشراق کی نماز کی تفاصیل کہاں لکھی ہوئی ہیں کس سورت اور کس پارے میں لکھی ہوئی ہیں۔ تو جواب میں ہم بھی ادب سے ان فضلاء کرام سے سوال کرتے ہیں کہ از راہ عنایت لاکھوں تعداد کے ذخیرہ احادیث میں سے کوئی ایک ہی حدیث ایسی بتائیں دکھائیں حوالہ دیں جس میں پہلے قرآن حکیم میں بقول انکے معاذ اللہ مبہم نماز یا مبہم صلوۃ کی آیت لکھی گئی ہو پھر علم حدیث کی روایت اسکا تفسیر اور تفصیل پیش کرتی ہو جس حدیثی تفسیر سے قرآن کے متن کے ابہام کو بھی کھولا گیا ہو اور متن حدیث میں پانچ نمازوں کی تعداد کے ساتھ انکی رکعات کا عدد سجود کا عدد اور  اوقات کا تعین جس سے قرآن کا ایسا ابہام جسے تصریف آیات نے بھی نہ کھولا ہو۔ لاکھوں احادیث میں سے کوئی ایک ہی حدیث کوئی بھی شیخ الحدیث لے آئے میدان میں میں دعوی کے ساتھ کہتا ہوں کہ آپکے پاس ایسی کوئی ایک بھی حدیث نہیں ہے اسلئے تنخواہ خوری پر امام اور دانشور بنے ہوئے فاضلوں کے ساتھ بھی قرآن حکیم خطاب فرماتا ہے کہ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ۔فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ۔لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ۔تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ۔أَفَبِهَذَا الْحَدِيثِ أَنتُم مُّدْهِنُونَ ۔وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ  (77 تا 82-56) خلاصہ (ارضی اور سماوی حقائق شاہد ہیں کہ) یہ قرآن بہت ہی معزز کتاب ہے جو نہایت محفوظ ہے جسکا تمہاری حدیثیں کچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں گی) قرآنی مطالب کو ذہنوں کی پاکیزگی سے ہی پہنچا جا سکتا ہے یہ کتاب تو عالمین کو پالنے والے رب کی نازل کردہ ہے یہ کتاب قرآن احسن ترین حدیثوں والی کتاب ہے (23-39) ان قرآنی احسن حدیثوں کے حقائق کو آپکی مجوسی آتش پرست اماموں کی گھڑی ہوئی احادیث سے ٹس سے مس بھی نہیں کیا جاسکتا جن اکاذیب کے پلندوں کو تمنے روزگار کا وسیلہ بنایا ہوا ہے۔
علم حدیث کو علم السنۃ کے نام سے مشہور کرنے کا پسمنظر
محترم قارئین! آپ نے سنت رسول، قرآن وسنت کے اصطلاحی جملے ضرور سنے ہونگے درس نظامی کی علمی دنیا میں جن کی سرپرستی بنوعباس کے عرصہ خلافت سے لیکر آج تک قدیم قران دشمن اتحاد ثلاثہ یعنی یہود مجوس اور نصاری کرتے ہوئے آرہے ہیں رد قرآن میں گھڑے ہوئے علم حدیث کو علم السنۃ کے نام سے موسوم اور مشہور کرنا یہ انکا اور انکے ٹکڑوں پر پلنے والی امامی گینگ کا کار نامہ ہے جس کا اصل مقصد یہ ہے کہ علم الاحادیث کو اللہ کا عطا کردہ وحی خفی نامی علم تسلیم کرایا جائے ویسے تو لفظ سنۃ قران حکیم میں کل اٹھارہ بار استعمال ہوا ہے جن جملہ استعمالات میں ایک بار بھی لفظ سنۃ کو کسی بھی غیر خداوندی علمی سبجیکٹ کے عنوان سے نتھی کرکے نہیں لایا گیا ہے اصل میں اتحاد ثلاثہ کی علمی لئبارٹریوں اور جھنگل کی حویلیوں سے تیار شدہ امامی کھیپ والے جانتے تھے کہ وہ رد قرآن میں بنائی ہوئی اپنی حدیثوں کو جناب رسول کے اسم گرامی سے منسوب کرنے کے بعد بھی جب تک اسے اللہ سے عطا کردہ وحی کا کوئی سا قسم نہیں قبول کراسکینگے اتنے تک قرآن سے مقابلہ کرنا مشکل ہوگا۔
درس نظامی کی سرپرست تھنک ٹئنک کے یہود مجوس ونصاری کے دانشور جانتے تھے کہ لفظ سنۃ پورے قرآن میں جناب خاتمی المرتبت رسول علیہ السلام کے نام کے ساتھ کہیں بھی استعمال نہیں ہوا ہے اور نہ ہی علم الحدیث کی روایات کے ساتھ اسکا استعمال ہوا ہے اسکے باوجود انہوں نے دیکھا کہ لفظ سنہ قرآن حکیم میں جب اللہ کے نام کے ساتھ یعنی اللہ کا قانون اللہ کا طریقہ اللہ کا دیا ہوا اسلوب اور سسٹم کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے تو جناب خاتم الانبیاء کے اسم گرامی کے ساتھ اسکے استعمال نہ ہونے کے باوجود اتحاد ثلاثہ کی مافیائی قرآن دشمن ٹیم نے اپنی طرف سے حدیثیں گھڑ کر انکو علم سنۃ، قرآن و سنت اور سنت رسول کے نام دئے تاکہ انکی روایات کو بھی علم قران کے مثل اور مترادف خداوندی علم قبول کرایا جاسکے اس تیرہ سوسالہ پرانی سازش نے اتنے تو بال وپر کھولے ہیں جواب باقائدہ اہل سنت اور سنی مارکہ اسلام بھی قرآن کے دئے ہوئے اسلام کے مقابلہ میں اپنی ایک مکمل شناخت بناچکا ہے جسکا نصاب تعلیم رد قرآن میں بنائی ہوئی احادیث ہیں اور اہل سنت مارکہ اسلام جو زیدی شیعت کی پیداوار ہے اسکی جملہ ذیلی برانچیں، اثنا عشری اور اسماعیلی شیعت کی طرح مسائل دین قرآن کے بجاء اپنے اپنے اماموں کی فقہوں اور روایات سے پڑھتے پڑھاتے ہیں، سیکھتے اور سناتے ہیں۔ آج عملی طور پر کتاب قرآن دشمنوں کی بنائی ہوئی حدیثوں سے شکست کھاچکا ہے۔ قرآن حکیم کے قانون پر جناب رسول علیہ السلام نے حکومت قائم کی (105-4) اس میں صدیوں سے رائج غلامی اور غلام سازی پر بندش کا قانون قرآن لاگو کیا گیا (67-8) (4-47) (18-35) (38-53) اسکے مقابلہ میں علم حدیث اور امامی فقہوں نے غلامی کو از سر نو جائز بنا کر رائج کیا جن کے ایسے رواج سے بنو عباس کے کئی خلفاء اسلام اور باطنی اسلام کے کئی امام لونڈیوں کے پیٹ سے پیدا ہوئے۔ انکے لئے حوالہ جات اتنے ہی کافی ہیں کہ باطنی حکمران اماموں کی تاریخ کتاب اصول کافی میں میلاد ائمہ کے ابواب میں انکے شجرے پڑھے جائیں اور خلفاء اہل سنت کے شجرے تاریخ بنوعباس کے کسی بھی کتاب میں انکے خاندانی شجرے مل جائیں گے۔
قرآن نے شادی کی عمر کے لئے ذہنی رشد تک پہنچنے (6-4) اور جسمانی پختگی تک پہنچنے کی عمر (15-46) بتائی جو تیس سال کے آس پاس بنتی ہے شادی کے سواء نبوت کے لئے عمر کی حد چالیس سال ہے۔ جبکہ امامی علوم کے درس نظامی والے علم میں شادی کی عمر امام بخاری اور امام یعقوب کلینی کے حوالوں سے چھ سال اور نو سال بنتی ہے معاشی معاملہ میں قرآن نے ضرورت سے زائد مال رکھنے پر بندش لگائی ہے (219-2) اور علم حدیث نے نو لمٹ جاگیرداری کو جائز کیا ہوا ہے علم حدیث کے ذریعے قوانین قرآن کو رد کرنے کی مزید کچھ مثالیں میری کتاب فتنہ انکار قرآن کب اور کیسے میں ملاحظہ کئے جائیں اور اس موضوع کو غور سے پڑھیں گے تو پھر گاسلیٹی اور گلابی مسلم حکمرانوں کے اس اسلامی قانون کی معنی سمجھ میں آجائے گی جس میں وہ بھی عبارت لکھ کرامت مسلمہ پر اپنی اسلام دوستی جتلاتے اور تھوپتے ہیں کہ ہم نے آئین میں یہ لکھ دیا ہے کہ ملک کا کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائیگا اس قسم کے اعلان کی تو صاف صاف یہ معنی نکلتی ہے کہ انکی والی علم حدیث کی سنت کو باقی اور رائج رکھنے سے قرآن کو میدان پر آنے ہی نہیں دیں گے۔ یعنی علم حدیث کا نام ہی جب علم سنۃ ہے جسکی حدیثیں بنائی گئی ہی قرآن دشمنی کے بنیاد پر ہیں تو جب تک حدیثیں سلامت رہیں گی اتنے تک قرآن کے آنے کے راستے بند رہیں گے۔ مسلم امت کی علمی دنیا کا عباسی دور کا وزیر اور پہلا نامور عالم بنام نظام الدین بھی فاطمی شیعہ تھا اور دوسرا درس نظامی کا مرتب عالم دین نظام الدین سہالوی بھی حنفی اور زیدی شیعہ تھا۔ مدارس عربی کے تیسرے درس نظامی کا مرتب مولانا عبد الحکیم سیالکوٹی بھی حنفی زیدی شیعہ تھا یہ آخری دوخود کو اہل سنت بھی کہلاتے ہیں جو اصطلاح عباسی خلفاء کی زیدی حنفی شیعت کا ملخص ہے، مطلب کہ قرآن حکیم کا اقتدار امت مسلمہ کی درسگاہوں اور حکمرانی کی مسندوں سے بنوا میہ کے زوال کے ساتھ ہی ختم ہوگیا تھا۔
امام ابو حنیفہ جو زیدی شیعت کا بڑا لیڈر تھا اسنے جو اپنی کنیت حنیفہ کا ابا رکھی تھی اس میں بھی بڑی چالبازی ہے جو حنیفہ نامی کوئی بھی لڑکی اسکی بیٹی نہیں تھی یہ نسبت صرف معنوی طور پر دھوکہ دینے کے لئے تھی کہ حنیفہ کی معنی ہے باطل سے منہ موڑ کر حق کی طرف آنیوالا، یعنی صرف کنیت سے لوگ سمجھ جائیں کہ یہ کوئی بڑا حق پرست ہے۔ اسطرح فاطمی خلافت کا مذہبی امام اول اسکی بھی کنیت ابوحنیفہ تھی بغیر حنیفہ نامی لڑکی کے باپ ہونے کے صرف دھوکہ دینے کے لئے اہل سنت کے ابو حنیفہ کی طرح۔


ہم آہ بھی کہتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا ہی نہیں ہوتا

ملت اسلامیہ کے نام پر جتنے بھی فرقے منسوب ہیں ان سب کی بنیاد خلاف قرآن علم حدیث کی روایات پر ہے، اہل سنت کی حدیثیں جدا، اہل حدیث کی حدیثیں جدا اہل شیعت کی حدیثیں جدا دیوبندیوں بریلویوں کی حدیثیں جدا جدا، نھ صرف اتنا بلکہ سب کی حدیثیں ایک دوسرے سے متصادم اور ہر فرقہ دوسرے فرقہ کا دشمن یہ سارے فرقوں والے ایک دوسرے کی حدیثوں کو غلط اور چھوٹ قرار دینے کے باوجود ایک دوسرے پر کبھی بھی منکر حدیث کا الزام نہیں لگاتے جبکہ ہم قرآنی علم والے قوانین قرآن کی جملہ آیات کو احسن الحدیث بہتر حدیثیں ماننے کے بعد انپر مکمل ایمان بھی رکھتے ہیں تو مذکور قرآن مخالف فرقوں والے لوگ ہمیں منکر حدیث کہکر مشہور کرتے ہیں، یہ تو اسطرح ہوا جیسے بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے کہا تھا کہ ڈگری پھر بھی ڈگری ہوتی ہے خواہ وہ جھوٹی کیوں نھ ہو اسکے علاوہ عام مولوع حضرات بھی رئیسانی صاحب کے بقول کہتے ہیں کہ ضعیف حدیث پھر بھی تو حدیث ہے یہ بات تو ہوئی عام مولویوں کی لیکن میں تو ایک خاص مولوی مولانا مفتیء اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع بانی دارالعلوم کراچی کی بات بتاتاہوں جسکے پاس میں نے بخاری اور مؤطا امام مالک کے کچھ حصے پڑھے ہیں انہوں نے فرمایا کہ فضائل اعمال کیلئے سلف صالحین نے ضعیف حدیثوں کو قبول کیا ہے۔