Saturday, December 29, 2012

لونڈی کو بغیر نکاح بطور بیوی استعمال کرنا

لونڈی کو بغیر نکاح بطور بیوی استعمال کرنا

Use of Slave Girl as Wife without Marriage

’’ملک یمین‘‘ کا مسئلہ بھی قرآنِ کریم کے معرکہ الآراء مسائل میں سے ایک ہے۔ حالانکہ قرآنِ کریم میں یہ لفظ علامتی زبان کے لحاظ سے استعمال کیا گیا ہے اس لیے کہ نزولِ قرآن کے وقت عربوں میں اس کا رواج عام تھا اور ان کے ہاں جانوروں اور تجارت کے عام مال و متاع کی طرح لونڈیاں اور غلام بھی خریدے اور بیچے جاتے تھے۔ قرآنِ کریم میں ان کا تذکرہ تقریباً پندرہ بار آیا ہے جس کے لیے
 مَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ، مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ اور مَلَکَتْ اَیْمَانُھُنَّ
 جیسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں گویا ان پر آزاد مردوں اور عورتوں کی ملکیت کو تسلیم کیا ہے اگرچہ ان کو آزاد کرنے کی مختلف طریقوں سے حوصلہ افزائی کی گئی ہے تاکہ اس صورتِ حال کا خاتمہ کیا جائے اور بحمداللہ اسلام نے اس رسم بد کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا ہے۔

لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ علمائے اسلام نے ابھی تک مکمل طور پر اس بحث کو ختم نہیں ہونے دیا اور آج بھی اس نظریہ کو قائم رکھا ہے کہ کنیز یعنی لونڈی خریدنے سے اُس کے ساتھ خریدنے والے مرد کو بغیر نکاح کیے ازدواجی تعلق قائم کرنے کی اجازت ہے لیکن اگر ’’ملک یمین‘‘ کوئی مرد یعنی غلام ہو اور آزاد عورت اُس کو خرید لے یا اُس کو وارثتاً اور ہبتہً مل جائے تو وہ اُس کے سامنے بھی نہیں آ سکتی کیونکہ وہ آزاد عورت اُس غلام کے لیے نامحرم ہے۔ لیکن اس طرح جو کچھ بیان کیا جاتا ہے اس کا تعلق قرآنِ کریم کی عبارت کے ساتھ مطلق قائم نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی صحیح حدیث سے اس طرح کی کوئی بات بیان ہوئی ہے۔ ہاں! کنیز یعنی لونڈی کے ساتھ نکاح کرنے کی عام اجازت ہے اگرچہ اس کو آزاد کر کے نکاح میں لانا اجر کا باعث بیان کیا گیا ہے جب کہ لونڈی رکھنے کے باوجود بھی نکاح کیا جا سکتا ہے اور بالکل اسی طرح عام آزاد عورت بھی کسی غلام سے نکاح کرنا چاہے تو نکاح کر سکتی ہے ہاں! طرفین میں محصنین و محصنات کی شرط قرآنِ کریم نے ضروری قرار دی ہے جس کے ساتھ ایمان کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور اہل کتاب ہونے کی رعایت بھی دی گئی ہے۔ تعجب ہے کہ ہمارے علمائے کرام اس حقیقت کو محض اپنی ضد کے باعث تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔

مجموعی طور پر قرآنِ کریم کی علامتی زبان کو پیش نظر رکھا جائے تو ازدواجی زندگی کے لیے سب سے زیادہ طرفین کی رضامندی کو اہمیت حاصل ہے۔ آزاد ہونا، اہل کتاب ہونا طرفین میں سے ایک کا آزاد یا لونڈی و غلام ہونا یا ایک کا اہل کتاب یعنی دوسری فکر سے ہونا ثانوی حیثیت رکھتا ہے اوّلیت ہر حال میں طرفین کی رضامندی کو دی گئی ہے کیونکہ ازدواجی زندگی میں اس کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے اور یہی اس زندگی کی گردن کا وہ مہرا ہے جس پر اس زندگی کا انحصار ہے جونہی یہ مہرا ٹوٹا تو گویا ازدواجی زندگی کی موت واقع ہو گئی اس کا نام طلاق بائن رکھیں یا خلع کا نام دے دیں اس کا انحصار حالات پر ہے۔ کیا غلامی کا پھندا ایک انسان کو انسان نہیں رہنے دیتا۔ فافہم

قرآنِ کریم کے مندرجہ ذیل مقامات پر ’’ملک یمین‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے ایک ایک مقام کو سامنے رکھیں کسی مقام پر اشارہ تک اس نظریہ کا موجود نہیں کہ ’’ملک یمین‘‘ ملکیت میں آنے کے ساتھ ہی اگر وہ عورت ہے تو مالک کے لیے عام اجازت ہے کہ وہ اس کو بطور ازدواجی زندگی استعمال کر سکتا ہے۔ مثلاً:

(۴:۳) (۴:۲۴) (۴:۲۵) (۴:۳۹) (۱۶:۷۱) (۲۳:۶) (۲۴:۳۱) (۲۴:۳۳) (۲۴:۵۸) (۳۰:۲۸) (۳۳:۵۰) (۳۳:۵۲) (۳۳:۵۵) (۷۰:۳۰)۔

مذکورہ مقامات کو بغور دیکھیں کہ ’’ملک یمین‘‘ کا لفظ لونڈی غلام دونوں کے لیے یکساں ایک ہی طرح بولا گیا ہے جس طرح ’’ملک یمین‘‘ آزاد مرد کے لیے لونڈی غلام دونوں ہو سکتے ہیں بالکل اسی طرح آزاد عورت کے لیے ’’ملک یمین‘‘ لونڈی غلام دونوں ہو سکتے ہیں بلکہ آزاد عورتوں کے لیے ’’ملک یمین‘‘ مرد یعنی غلام ہونے کا واضح ارشاد سورہ النور کی آیت ۳۱ میں موجود ہے اس لیے کہ اس جگہ عورتوں کے اظہارِ زینت کا ذکر ہے کہ وہ اپنے محرم مردوں اور عام عورتوں کے ساتھ کس طرح اظہارِ زینت کے طور پر رہ سکتی ہیں اور ان محرم مردوں میں ’’مَلَکَتْ اَیْمَانُھُنَّ‘‘ سے غلام ہی مراد ہو سکتے ہیں کیونکہ مرد وہی ہیں گویا مالکہ اپنے غلام کے سامنے اظہار زینت کر سکتی ہے جس طرح وہ اپنے محرم مردوں کے سامنے اظہار زینت کر سکتی ہے جن کا ذکر مذکورہ آیت میں کیا گیا ہے لیکن ہمارے علماء کرام اور مفسرین کی اکثریت اس کو تسلیم نہیں کرتی وہ فرماتے ہیں کہ اس جگہ ’’مَلَکَتْ اَیْمَانُھُنَّ‘‘ سے مراد صرف لونڈیاں ہیں اور اس طرح وہ ان مقامات پر عام علامتی زبان کو تسلیم نہیں کرتے اور یہ بحث بہت طویل ہے جس کا یہ مقام نہیں تاہم ان آیات کریمات کا مختصر ذکر اس جگہ کر دیا جاتا ہے جو درج ذیل ہے۔

قبل اس کے کہ ملک یمین کی آیات کا مختصر ترجمہ پیش کیا جائے دیکھ لینا چاہیے کہ اس سلسلہ میں قرآنِ کریم میں کونسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اس طرح قرآنِ کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے قرآنِ کریم میں ’’مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ‘‘ ، ’’مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ‘‘ اور ’’مَامَلَکَتْ اَیْمَانُھُنَّ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں گویا بعض مقامات پر جمع مذکر حاضر کی ضمیر ’’کُمْ‘‘ بعض جگہ جمع مذکر غائب کی ضمیر ’’ھُمْ‘‘ اور بعض جگہ جمع مونث غائب کی ضمیر ’’ھُنَّ‘‘ استعمال ہوئی ہے ضمائر کے ان فرق کے باوجود اصل مطلب میں کوئی فرق نہیں آتا کیونکہ ہر جگہ ملکیت کا تصور موجود ہے خواہ ملکیت خریدنے سے، خواہ ہبہ سے اور خواہ وراثت سے قائم ہوئی ہے اور تمام مقامات پر ملکیت میں آنے والے غلام ہوں یا کنیزیں مراد ہو سکتے ہیں دونوں ہوں یا دونوں میں سے ایک یہ بات آیت کا مضمون ہی قریبنہ سے واضح کرتا ہے فی نفسہٖ الفاظ میں اس طرح کی کوئی تخصیص نہیں پائی جاتی۔ اب ہم ان آیات کو ترتیب وار نقل کرتے ہیں جن آیات میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں چنانچہ ایک جگہ ارشاد ہے کہ:

فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ذٰلِکَ اَدْنٰی اَلَّا تَعُوْلُوْاo (۴:۳)

’’اور دیکھو اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے معاملہ میں انصاف نہ کر سکو گے تو جو عورتیں تمہیں پسند آئیں نکاح کر لو، دو، تین ، چار تک کر سکتے ہو، اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر چاہیے کہ ایک بیوی سے زیادہ نہ کرو یا جو عورتیں تمہاری ملکیت میں آ چکی ہیں ان سے نکاح کر لو بے انصافی سے بچنے کے لیے ایسا کرنا زیادہ قرین صواب ہے‘‘۔

زیر نظر آیت سے کم از کم ایک آیت قبل اور ایک آیت بعد کو پیش نظر رکھنے سے قرآنِ کریم کے بیان کا تسلسل واضح کر رہا ہے کہ اس جگہ یتیم بچیوں کی پرورش کا معاملہ پیش نظر ہے اور حکم فرمایا جا رہا ہے کہ یتیم بچیوں کی پرورش کی ذمہ داری اگر تم پر عائد ہو تو اس کو احسن طریقہ سے پورا کرو ان کے مالوں کی حفاظت تم پر لازم ہے جب وہ بچیاں جوان ہو جائیں تو اگر تم شرعاً ان سے نکاح کر سکتے ہو تو کر لو بشرطیکہ وہ بھی پسند کریں لیکن تم کو خدشہ ہو کہ ان کے اموال میں اس طرح سے یعنی نکاح کرنے سے خرابی پیدا ہو گی تو ان کے علاوہ دوسری عورتوں سے نکاح کرو، تم چار تک کر سکتے ہو بشرطیکہ ان میں انصاف کر سکو، ہاں یہ مشکل ہو گا اندریں وجہ بہتر یہی ہے کہ ایک عورت سے نکاح کرو، اگر زیادہ ضرورت محسوس ہو تو اپنی ملکیت میں آنے والی عورتوں میں سے کسی سے نکاح کر لو کیونکہ اس طرح انصاف نہ ہونے کا اندیشہ جاتا رہے گا کیونکہ ایک آزاد عورت ہو گی اور دوسری ملک یمین ہو گی اور دونوں کے حقوق برابر نہیں ہیں۔ آیت سے جو چیز واضح ہو رہی ہے وہ دونوں کے حقوق کا فرق ہے جس کو ہمارے علماء گرامی قدر نے اس فرق کو بغیر نکاح بیوی بنا لینے کا حق قرار دے دیا ہے حالانکہ قرآنِ کریم کی آیات میں پیچھے نکاح کا ذکر چلا آ رہا ہے۔

نیز اس جگہ قابل غور جملہ ’’مَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ‘‘ ہے اس کا جو ترجمہ کیا گیا ہے اس کو ایک نظر دیکھ لیں۔

i۔ ’’جو عورتیں (لڑائی کے قیدیوں میں سے) تمہارے ہاتھ آ گئیں ہیں‘‘ (ابوالکلام آزادؒ )

ii۔ ’’کنیزیں جن کے تم مالک ہو‘‘ (محمد رفاعیؒ )

iii۔ ’’کنیزیں جن کے مالک ہوں تمہارے دائیں ہاتھ‘‘ (پیر محمد کرم شاہؒ )

iv۔ ’’پھر وہ کنیزیں ہیں جو تمہارے قبضے میں ہوں‘‘ (عبدالرحمن کیلانی ؒ )

v۔ ’’یا لونڈی جو اپنا مال ہے‘‘ (شبیر احمد عثمانی ؒ )

vi۔ ’’یا لونڈی جو اپنا مال ہے‘‘ (مفتی محمد شفیع ؒ )

vii۔ ’’یا ان عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں‘‘ (سید مودودیؒ )

چونکہ اس جگہ عورتوں کے ساتھ نکاح کا ذکر تھا اس لیے سب نے اس جگہ ’’مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ‘‘ کا ترجمہ کنیزیں، لونڈیاں، عورتیں جو ملکیت میں آ چکی ہوں‘‘ کے الفاظ سے کیا ہے حالانکہ حقیقت میں ’’ملک یمین‘‘ کا لفظ لونڈی اور غلام دونوں کے لیے آیا ہے جیسا کہ آگے ذکر آے گا۔

چنانچہ ایک جگہ ارشاد ہے:

وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَاءِ اِلَّا مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ کِتٰبَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَاُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآءَ ذَالِکُمْ(۴:۲۴)

’’اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں جو دوسروں کے نکاح میں ہیں۔ ہاں! جو عورتیں تمہاری ملک یمین ہو چکی ہوں یہ اللہ کی طرف سے تمہارے لیے ٹھہرا دیا گیا ہے ان عورتوں کے علاوہ تمام عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں۔‘‘

ان آیات میں بھی نکاح کا ذکر چلا آ رہا ہے کہ کن عورتوں سے نکاح جائز ہے اور کن سے ناجائز و حرام اس لیے اس جگہ بھی ’’مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ‘‘ کے الفاظ سے وہ عورتیں ہی مراد لی گئی ہیں جو تمہاری ملکیت میں آ چکی ہیں یعنی لونڈیوں، کنیزوں اور ملک یمین کے نام سے ان کو موسوم کیا جاتا ہے۔

وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِنْ فَتَیٰتِکُمُ الْمُؤْمِنٰتِ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِکُمْ ط(۴:۲۵)

’’اور تم میں کوئی شخص اس کا مقدور نہ رکھتا ہو کہ آزاد مسلمان بیبیوں سے نکاح کرے تو ان عورتوں سے نکاح کر سکتا ہے جو (لڑائی کے قیدیوں میں سے) تمہارے قبضے میں آتی ہیں اور وہ مومن ہیں اللہ تمہارے ایمان کا حال بہتر جاننے والا ہے۔‘‘

’’مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ‘‘ سے اس جگہ بھی کنیزیں اور لونڈیاں ہی مراد لی گئی ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ قرآنِ کریم کی عبارت اس پر دال ہے کہ یہاں بھی عورتوں کے ساتھ نکاح کا ذکر ہے اور عام آزاد عورتوں کے ساتھ اُن کا بھی ذکر کیا گیا ہے البتہ اس جگہ نکاح کرنے کے لیے یا کسی دوسرے کو نکاح کر دینے کے لیے کنیز کا ایماندار ہونا بھی مذکور ہے اس کو بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے۔

وَاعْبُدُوااللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْءًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًاo (۴:۳۶)

’’اور اللہ کی بندگی کرو اور کسی چیز کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ اور چاہیے کہ ماں باپ کے ساتھ، پڑوسیوں کے ساتھ، خواہ قرابت والے پڑوسی ہوں یا اجنبی ہوں، نیز پاس بیٹھنے اُٹھنے والوں کے ساتھ اور ان کے ساتھ جو مسافر ہوں، یا لونڈی غلام ہونے کی وجہ سے تمہارے قبضے میں ہوں احسان اور سلوک کے ساتھ پیش آؤ، اللہ ان لوگوں کو دوست نہیں رکھتا جو اترانے والے اور ڈینگیں مارنے والے ہیں۔‘‘

اس جگہ ’’مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ‘‘ کے الفاظ سے تمام مترجمین نے لونڈی اور غلام دونوں مراد لیے ہیں اس لیے کہ اس جگہ دوسروں کے ساتھ احسان و سلوک کرنے کا ذکر ہے اس لیے اس میں دونوں مراد لیے جا سکتے ہیں کیونکہ اصولاً دونوں اقسام ’’ملک یمین‘‘ میں داخل ہیں۔

وَاللّٰہُ فَضَّلَ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ فَمَا الَّذِیْنَ فُضِّلُوْا بِرَآدِیْ رِزْقِھِمْ عَلٰی مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ فَھُمْ فِیْہِ سَوَآءٌ ط اَفَبِنِعْمَۃِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَo(۱۶:۷۱)

’’اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر بہ اعتبار روزی کے برتری دی ہے (کوئی زیادہ کماتا ہے کوئی کم) پھر ایسا نہیں ہوتا کہ جس کسی کو زیادہ روزی دی گئی ہے وہ اپنی روزی زیردستوں (لونڈی غلاموں) پر لوٹا دے حالانکہ سب اس میں برابر کے حق دار ہیں پھر کیا یہ لوگ اللہ کی نعمتوں سے صریح منکر ہو رہے ہیں۔‘‘

’’مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ‘‘ کے الفاظ سے تمام زیردست اور لونڈی و غلام سب آ گئے، کیوں؟ اس لیے کہ قرآنِ کریم کی عبارت اس کا تقاضا کرتی ہے کہ یہاں سب کو شامل کیا جائے نیز یہ آیت مہمات قرآنی سے ہے جس کے تحت بہت کچھ سما سکتا ہے ضرورت ہو تو عروۃ الوثقیٰ میں مذکورہ آیت کی تفسیر دیکھیں۔

وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْنَo اِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِھِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ فَاِنَّھُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَo (۲۳:۴،۵)

’’وہ لوگ جو اپنے ستر کی نگہداشت سے کبھی غافل نہیں ہوتے ہاں! اپنی بیویوں سے زناشوئی کا علاقہ رکھتے ہیں یا اُن سے جو اُن کی ملکیت میں آ گئی ہیں‘‘ (اور اُنہوں نے اُن سے نکاح کر لیا ہے)۔

’’مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ‘‘ سے مراد اس جگہ صرف ملک یمین عورتیں ہیں اس لیے کہ ایمان والے مردوں کی صفات ذکر کی جا رہی ہیں۔ ہاں! اگر مومنوں میں عورتوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو نظم قرآنی کے تحت ایسا کیا جا سکتا ہے اور پھر اس طرح عورتوں کی جگہ مردوں کے نکاح کی بات ہو گی تو ’’مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ‘‘ سے مراد غلام بھی لیے جا سکتے ہیں کیونکہ جس طرح مردوں کو نکاح کی ضرورت ہوتی ہے عورتوں کو بھی ہوتی ہے جس طرح مردوں کو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کا حکم ہے اسی طرح عورتوں کو بھی ہے اور دونوں کی حفاظت کا طریقہ بھی یکساں ہے۔ یہ طریق ادب ہے کہ ایسے حالات میں اکثر مزکر ہی کے صیغے استعمال ہوتے ہیں اور مرد ہی ان سے مراد لیے جاتے ہیں اگرچہ سب کو معلوم ہے کہ ضرورت بہرحال طرفین کو ایک جیسی ہوتی ہے اس لیے ہم نے ہر جگہ ’’مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ‘‘ دونوں صنفوں کا ذکر کیا ہے کیونکہ دونوں ہی اس سے مراد ہیں چاہے کسی جگہ ان دونوں میں سے کسی ایک کا مراد لیا جانا بھی صحیح ہو اس لیے کہ ان الفاظ میں کوئی فرق ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا جیسا کہ قرآنِ کریم کی آیات سے واضح ہے۔ جن بزرگوں نے اس آیت کو استشہاداً پیش کیا ہے کہ کنیز یعنی لونڈی سے نکاح کی ضرورت نہیں اُس کا ملک میں آنا ہی قائم مقام نکاح قرار دیا جاتا ہے یہ محض ان کی ضد ہے جس کا اس دنیا میں کوئی علاج نہیں۔

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِھِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوْبِھِنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِھِنَّ اَوْ اٰبَآءِ ھِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِھِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ ھِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِھِنَّ اَوْ اِخْوَانِھِنَّ اَوْ بَنِیٓ اِخْوَانِھِنَّ اَوْ بَنِیٓ اَخَوَاتِھِنَّ اَوْ نِسَآءِ ھِنَّ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُنَّ اَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ (۲۴:۳۱)

’’اور اے پیغمبر اسلام ﷺ! آپؐ ایمان والیوں سے فرما دیجئے کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنے پردوں کے مقامات کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو اس میں کھلا ہی رہتا ہے اور اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈال لیا کریں اور اپنی زیبائش کسی پر ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے باپوں کے یا اپنے خاوندوں کے باپوں کے یا اپنے بیٹوں کے اور اپنے خاوندوں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں کے یا اپنی بہنوں کے بیٹوں کے یا اپنی عام عورتوں کے جو مسلمان ہیں یا اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے یا اپنے ان ملازمین مردوں سے جو بہت بوڑھے ہو چکے ہوں اور عورتوں سے کسی قسم کی خواہش نفس نہ رکھتے ہوں۔‘‘

’’مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ‘‘ سے متعلق قرآنِ کریم کی عبارت سے بالکل واضح ہے کہ اس جگہ وہ غلام مراد ہیں جو آزاد عورتوں کے قبضہ قدرت میں آتے ہوں یعنی ان کے مملوک ہوں لیکن ہمارے اکثر مترجمین نے اس سے مراد لونڈیاں اور باندیاں ہی لی ہیں کیوں؟ اس لیے کہ وہ مردوں کے لیے بہت فیاض ہیں کہ آزاد مرد کو باندی مل جائے تو اُس کی رضا طلب کا خیال نہ کیا جائے مرد کو حق ہے کہ وہ جب چاہے اور جیسے چاہے جنسی خواہش کے لیے کنیز کو استعمال کرے لیکن آزاد عورت اگر کسی غلام کو حاصل کر لے تو وہ اپنے غلام کے سامنے بھی نہیں آ سکتی کیوں؟ اس لیے کہ وہ بدستور غیر محرم مرد ہے۔ اگر پوچھ لیا جائے کہ یہ نظریہ قرآنِ کریم کی کس آیت سے لیا گیا ہے تو جواب ملتا ہے آج تک تمام مترجمین اور مفسرین اور فقہائے اسلام اسی طرح کہتے چلے آ رہے ہیں اور اس وقت بھی متداول تفاسیر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ جب کہ ان کی یہ دلیل کوئی وزن نہیں رکھتی۔

وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ فَکَاتِبُوْھُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْھِمْ خَیْرًا(۲۴:۳۳)

’’اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو بھی تم سے مکاتبت چاہیں تو ان سے یہ عہد نامہ کر لو بشرطیکہ تم ان میں اس طرح کی صلاحیت پاؤ ‘‘۔

’’مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ‘‘ سے اس جگہ بھی لونڈی اور غلام دونوں پر مراد لیے گئے ہیں گویا جس طرح غلام اپنے مالک کو معاوضہ ادا کر کے اور آزادی طلب کرنے کا حق رکھتا ہے اسی طرح لونڈی بھی معاوضہ ادا کر کے آزادی طلب کر سکتی ہے اور ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ جو بھی آزادی حاصل کرنے کے لیے معاوضہ ادا کرنا چاہے تو اُس کی بات مان لو بلکہ اس کی مزید مدد بھی کرو تاکہ اُس کو آزادی حاصل ہو جائے کیونکہ اسلام ہر حال میں آزادی دینے کے حق میں ہے اُس کی جو صورت بھی ہو اسلام اُس کے حق میں ہے۔

9۔ یٰاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِیَسْتَاذِنْکُمُ الَّذِیْنَ مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ وَالَّذِیْنَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْکُمْ ثَلٰثَ مَرَّاتٍ ط (۲۴:۵۸)

’’اے ایمان والو! تمہارے باندی غلام اور وہ بچے جو سن بلوغ کو نہیں پہنچے انہیں تین وقتوں میں تم سے اجازت لینی چاہیے۔‘‘

’’مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ‘‘ کے الفاظ سے اس جگہ مراد غلام اور لونڈی دونوں لیے گئے ہیں اور خصوصاً علامہ مودودی صاحب نے اس پر جو حاشیہ دیا ہے اُس میں تحریر کیا ہے کہ ’’اس سے مراد لونڈیاں اور غلام دونوں ہیں کیونکہ لفظ عام استعمال کیا گیا ہے۔‘‘ یہ بات اپنی سمجھ میں نہیں آتی کہ گذشتہ آٹھ جگہ پر جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ خاص کیونکر ہیں اور یہ عام کیسے ہو گئے ہیں کیا حرف ’’ما‘‘ نے ان کو خاص کیا ہے یا کوئی اور قاعدہ ہے کوئی صاحب علم بتا دیں تو ان کا شکریہ۔

10۔ ضَرَبَ لَکُمْ مَثَلًا مِّنْ اَنْفُسِکُمْ ط ھَلْ لَّکُمْ مِّنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ شُرَکَآءَ فِیْ مَا رَزَقْنٰکُمْ فَاَنْتُمْ فِیْہِ سَوَآءٌ تَخَافُوْنَھُمْ کَخِیْفَتِکُمْ اَنْفُسَکُمْ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَعْقِلُوْنَo (۳۰:۲۸)

’’ تمہارے لیے تمہارے (روز مرہ کے) حالات میں سے ایک مثال بیان کی جاتی ہے تم بتاؤ کیا تمہارے لونڈی غلاموں میں سے کوئی تمہارا اس مال و دولت میں شریک ہے جو ہم نے تم کو دیا ہے کہ تم سب اس میں برابر کے شریک ہو؟ کیا تم ان (لونڈی غلاموں) سے ڈرتے ہو جیسے تم اپنوں سے ڈرتے ہو، اس طرح ہم نشانیاں کھول کھول کر ان لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں۔‘‘

اس جگہ بھی ’’مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ‘‘ سے لونڈی غلام دونوں ہی مراد لیے گئے ہیں چاہے بعض نے ترجمہ میں لفظ صرف غلاموں کا استعمال کیا ہو۔

11۔ یٰاَ یُّھَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَکَ اَزْوَاجَکَ الّٰتِیٓ اٰتَیْتَ اُجُوْرَھُنَّ وَمَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ مِمَّا اَفَاءَ اللّٰہُ عَلَیْکَ (۳۳:۵۰)

’’اے پیغمبر اسلام ! ہم نے آپؐ کے لیے آپؐ کی بیویاں جن کو آپؐ مہر دے چکے ہیں حلال کر دی ہیں اور وہ عورتیں بھی جو آپؐ کی ملک میں ہیں (اور آپ اُن سے نکاح کر چکے ہیں)‘‘۔

اس جگہ ’’وَمَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ‘‘ سے مراد آپ کی کنیزیں یعنی لونڈیاں ہی مراد لی جا سکتی ہیں کیونکہ قرآنِ کریم کی عبارت کا اس جگہ یہی تقاضا ہے کہ آپؐ مرد ہیں اور آپؐ کو ان سے نکاح کرنے کی اجازت کا اس جگہ ذکر کیا گیا ہے جس سے یہ بات تو روزِ روشن کی طرح واضح ہے کنیز یعنی لونڈی سے مالک چاہے تو اُس کی مرضی سے نکاح کر سکتا ہے اور اُس کا حق مہر دینا بھی لازم و ضروری ہے ہاں! قرآنِ کریم کی دوسری عبارت سے اور روایات سے یہ بات بھی سمجھی جا تی ہے کہ آزاد کر کے نکاح کرنے سے اجر و ثواب بھی حاصل ہوتا ہے اور فقط نکاح کرنے سے اُس کے حقوق آزاد عورت کے ساتھ نکاح کے برابر حاصل نہیں ہوتے اور وہ بدستور کنیز یعنی لونڈی والی خدمت بھی ادا کرتی رہے گی۔

غور کرنے کی بات تو یہ ہے کہ جب نبی اعظم و آخر ﷺ کو بھی کنیز کے ساتھ نکاح ضروری ہے اگر بطور بیوی اُس کو رکھنا ضروری ہو تو دوسرے لوگ اس سے مستثنیٰ کیوں کر ہو سکتے ہیں اور علمائے اسلام نے ان کے لیے بغیر نکاح بطور بیوی استعمال کرنا کیسے جائز قرار دے دیا ہے اور ایسی بات جو کتاب و سنت کے سراسر خلاف ہے ان کو کرتے ہوئے شرم کیوں نہیں آئی؟

12۔ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْھِمْ فِیٓ اَزْوَاجِھِمْ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ لِکَیْلَا یَکُوْنَ عَلَیْکَ حَرَجٌ ط (۳۳:۵۰)

’’بلاشبہ ہم کو معلوم ہے جو ہم نے ان پر ایمان والوں پر ان کی بیویوں اور ملک یمین کے متعلق مقرر کر دیا ہے تاکہ آپؐ پر کوئی تنگی نہ ہو‘‘۔ (۳۳:۵۰)

مذکورہ مقام پر بھی ایمان والوں کی بیوی کے ساتھ ہی ان کا ذکر کیا گیا ہے لہٰذا اس جگہ بھی ’’مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ‘‘ سے مراد ان کی کنیزیں اور لونڈیاں ہی مراد لی جا سکتی ہیں کیونکہ ’’عَلَیْھِمْ‘‘ کی ضمیر کا تقاضا مردوں سے ہے اور مردوں کو نکاح جس طرح آزاد عورتوں سے کرنا ہے ایسے ہی اپنی کنیزوں اور لونڈیوں سے بھی وہ کرنے کے مجاز ہیں چاہے ان کی اپنی کنیزیں ہوں یا دوسرے ایمان والے اپنی کنیزوں سے ان کو نکاح کی اجازت دے دیں اگر اُن کو اس طرح کا نکاح پسند ہو چاہے وہ آزاد ہوں یا غلام۔

13۔ لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَآءُ مِنم بَعْدُ وَلَآ اَنْ تُبَدَّلَ بِھِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَبَکَ حُسْنُھُنَّ اِلَّا مَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ (۳۳:۵۲)

’’(اے پیغمبر اسلام!) ان کے علاوہ اور عورتیں آپؐ کے لیے جائز نہیں اور نہ ہی یہ کہ آپؐ اُن کی جگہ دوسری بیویوں کو لے لیں (یعنی ان کو چھوڑ کر کسی اور سے نکاح کر لیں) خواہ ان کا حسن آپؐ کو کتنا ہی اچھا لگے۔ ہاں! وہ جو آپؐ کی ملک یمین ہیں (اُن سے نکاح کی اجازت ہے)‘‘۔

ظاہر ہے کہ یہ حکم بھی نبی اعظم و آخر ﷺ کے لیے خاص ہے کہ اُس حکم نے نازل ہو کر آپؐ پر پابندی عائد کر دی ہے کہ آپؐ اس کے بعد کسی بھی آزاد عورت سے خواہ وہ آپؐ کی رشتہ دار ہو یا غیر رشتہ دار نکاح نہیں کر سکتے اور نہ ہی جن عورتوں سے پہلے آپؐ نکاح کر چکے ہیں ان میں سے کسی کو چھوڑ کر اُس کی جگہ کسی دوسری کو لا سکتے ہیں لیکن کنیز اور لونڈی اس حکم سے مستثنیٰ ہے کہ آپؐ نکاح کرنا چاہیں تو کسی کنیز سے نکاح کر سکتے ہیں اندریں وجہ اس جگہ بھی ’’مَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ‘‘ سے مراد لونڈی اور کنیز ہی لی جا سکتی ہے غلام مراد نہیں لیا جا سکتا۔

14۔ لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِي آبَائِهِنَّ وَلَا أَبْنَائِهِنَّ وَلَا إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ أَخَوَاتِهِنَّ وَلَا نِسَائِهِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ ۗ وَاتَّقِينَ اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا (۳۳:۵۵)

’’ان عورتوں یعنی نبی کریم ﷺ کی بیویوں پر کچھ گناہ نہیں اگر وہ اپنے باپوں کے سامنے آئیں اور نہ اپنے بیٹوں کے سامنے، نہ اپنے بھائیوں کے سامنے اور نہ اپنے بھائیوں کے بیٹوں کے سامنے اور نہ اپنی بہنوں کے بیٹوں کے سامنے اور نہ ہی اپنی عورتوں کے سامنے اور نہ اپنے ملک یمین کے سامنے آنے جانے میں کوئی گناہ ہے اور اللہ سے ڈرتی رہیں۔‘‘

اس جگہ مخاطب آپؐ کی ازواجِ مطہرات ہیں کہ وہ کن کن لوگوں کے سامنے آ جا سکتی ہیں لہٰذا اس جگہ ’’مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُنَّ‘‘ سے مراد لونڈی اور غلام دونوں ہی مراد لیے جائیں گے بلکہ قرینہ اس بات کا موجود ہے کہ اس جگہ مخصوص غلام ہی مراد لیے جائیں کیونکہ ذکر خصوصا ان مردوں کا ہے جن سے حجاب لٹکانا ضروری نہیں ہے اور صحیح روایات سے یہ بات روزِ روشن کی طرح ثابت ہے لیکن ہمارے علمائے گرامی قدر اس کو تسلیم نہیں کرتے اور تفصیلات کا یہ موقع نہیں۔

15۔ وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْنَo اِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِھِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ فَاِنَّھُمْ غَیْرُ مُلُوْمِیْنَo (۷۰:۳۰)

’’اور وہ لوگ جو اپنے پردوں کے مقام کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی آزاد بیویوں اور منکوحہ لونڈیوں کے تو ان پر اس طرح کا کوئی الزام نہیں‘‘۔

ٗٗ یہ مقام بھی ان مقامات میں سے ہے جن میں ’’مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ‘‘ سے دونوں اقسام یعنی لونڈی اور غلام مراد لیے جا سکتے ہیں کیونکہ جس طرح مردوں کو اپنے پردے کے مقامات کی حفاظت کا حکم ہے بالکل اسی طرح عورتوں کو بھی اپنے پردے کے مقامات کی حفاظت کا حکم ہے اگرچہ اس جگہ فقط مردوں کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کیونکہ ضمائر مذکر استعمال کی گئی ہیں لیکن قرآنِ کریم میں اکثر جگہ مخاطب مردوں ہی کو کیا جاتا ہے لیکن ضمناً عورتیں بھی ان احکام میں برابر کی شریک ہوتی ہیں۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ آزاد مرد اگر ضرورت کے مطابق لونڈیوں سے نکاح کر سکتے ہیں تو آزاد عورتیں بھی اگر غلام مردوں سے نکاح کرنا چاہیں تو ان کو بھی کسی طرح کی کوئی رکاوٹ نہیں ہے چاہے علمائے اسلام اس حقیقت کو تسلیم نہ کریں۔

جس طرح اس جگہ اگرچہ مخاطب مردوں کو کیا گیا ہے اس طرح آیت بتیس تا پینتیس میں بھی مردوں ہی کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ ’’جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس کرتے ہیں۔ اور جو لوگ اپنی گواہیوں پر قائم رہتے ہیں۔ اور جو لوگ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو جنت میں عزت سے رہیں گے‘‘ ظاہر ہے کہ اس جگہ مراد جس طرح مرد ہیں بالکل اسی طرح مردوں کے ساتھ عورتیں بھی ہیں پھر ان احکام میں اگر عورتیں شامل ہیں تو آیت تیس اور اکتیس میں عورتیں کیوں شریک نہیں ہو سکتیں ہاں! بغیر کسی دلیل کے محض ضد کے لیے علمائے کرام تسلیم نہ کرنا چاہیں تو اس کا کوئی علاج اس دنیا میں نہیں۔ اللہ رب کریم سے دُعا ہے کہ وہ سمجھ کی توفیق عطا فرما دے۔

قرآنِ کریم کے جن پندرہ مقامات کا مختصر ذکر پیچھے کیا جا چکا ہے جن میں ’’مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ‘‘ ’’مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ‘‘ ’’مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُنَّ‘‘ جیسے الفاظ کا تذکرہ کیا گیا ہے جس سے روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ قرآنِ کریم میں علامتی زبان کس کثرت اور وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے لیکن قومِ مسلم کو جس طرح اس سے فائدہ حاصل کرنا چاہیے تھا نہیں کیا جس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔

مختصر بات یہ ہے کہ لونڈیوں اور غلاموں کا مسئلہ قبل از اسلام موجود تھا اسلام نے اس امتیاز کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جس کی کوششوں کی برکت سے آج یہ مسئلہ پوری دنیا سے معدوم ہو چکا ہے اسلام نے یہ حقیقت واضح کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے کہ آزاد مرد اور عورتیں جس طرح انسان ہیں بالکل اسی طرح لونڈی اور غلام بھی انسان ہیں اور سب کی نسل اور اصل ایک ہے اس لیے ان میں جو امتیاز قائم ہو چکا تھا اس کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے اس کو بحمداللہ بالکل معدوم کر دیا ہے لیکن افسوس کہ علمائے اسلام آج بھی اس امتیاز کو باقی رکھنے کی سرتوڑ کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں یہاں تک کہ ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں کوئی کسر باقی اُٹھا نہیں رکھتے گویا سب کے سب یا ان کی اکثریت بے لذت گناہ میں برابر کے شریک ہیں ۔ یہ مضمون اس کی تفصیلات کا متحمل نہیں تفصیل مطلوب ہو تو تفسیر القرآن عروۃ الوثقیٰ سے محولہ مقامات دیکھے جا سکتے ہیں جن کو دیکھنے سے ان شاء اللہ اس سلسلہ میں تشنگی باقی نہیں رہے گی۔

عبدالکریم اثری**

**: Imam Jamia Masjid Ahle-Hadith, Jinnah Street, Gujrat, Punjab, Pakistan

No comments:

Post a Comment