Saturday, November 17, 2012

”صحیح بخاری میں روایت شدہ ،ابتدائے وحی کے بیان میں ورقہ بن نوفل کے پاس جانے والے واقعہ پر اعتراض کاجائزہ “کا جواب



صحیح بخاری میں روایت شدہ، ابتدائے وحی کے بیان میں ورقہ بن نوفل کے پاس جانے والے واقعہ پر اعتراض کاجائزہ  کا جواب

پہلے  عادل سہیل کا مضمون پڑھ لیں،  پھر مضمون کا جواب پڑھ لیں۔

بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
بِسّم اللہِ و الحَمدُ لِلہِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلٰی مَن لا نَبی بَعدَہُ والذی لَم یَتکلم مِن تِلقاء نَفسہِ و لَم یَکن کَلامُہ اِلَّا مِن وَحی رَبہُ
اللہ کے نام سے آغاز ہے اور تمام سچی تعریف صرف اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں اور جس نے نفس کی خواہش کے مطابق بات نہیں کی اور جس کی بات سوائے اُس کے رب کی وحی کے اور کچھ نہ ہوتی تھی
چند ہی روز پہلے میں نے صحیح بخاری کی وہ روایت جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر وحی کے نزول کی ابتداء کا واقعہ بیان ہوا ہے ،وحی کے نزول کی ابتداء کے واقعہ کی روایات صحیح بخاری میں تین مختلف کتب کے ابواب میں مروی ہے ، جن میں سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ، کتاب التعبیر کے پہلے بات والی روایت کے ایک اضافی حصے کی بنا پر اس واقعے کو مشکوک بنایا جاتا ہے اور اس پر اور پھر اسے بنیاد بنا کر صحیح بخاری اور دیگر کتب احادیث پر اعتراضات کیے جاتے ہیں ، اُس روایت کے بارے میں پائے جانے والے شک ، اور اس شک کی بنا پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب بعنوان ’’’’’صحیح بخاری کی ایک روایت میں اضافی حصے کی تحقیق ‘‘‘‘‘ پیش کیا تھا ،اُس کی تفصیل وہاں پڑھی جا سکتی ہے ، اس جواب کے بعد بھتیجے عبداللہ حیدر کی طرف سے یہ خبر کی گئی کہ کچھ لوگ اِس روایت پر اس لیے بھی اعتراض کرتے ہیں ، اور اس لیے بھی اس کا انکار کرتے ہیں کہ اس روایت میں نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ورقہ بن نوفل کے پاس جا کر اس سے کچھ دریافت کرنا سُورت یونس کی آیت رقم 94 کے خلاف ہے ، لہذا یہ واقعہ سچا نہیں ،

میں اس خلافء قران ، قران فہمی پر مبنی اعتراض کے جواب میں یہ کہتا ہوں کہ ،،،،،
صحیح بخاری شریف میں وحی کی ابتداء کے بارے میں بیان کردہ واقعہ بالکل درست ہے ، اور اس میں کچھ بھی خلاف قران نہیں ہے ،
اس واقعہ میں بیان کردہ یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ پہلی وحی کے نزول کے فوراً بعد اُم المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں ،
اور اللہ تبارک و تعالی ٰ پر توکل کرتے ہوئے یہ کہتا ہوں کہ جو لوگ اس بات کا انکار کرتے ہیں یا اس پر اعتراض کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ،
وہ لوگ سورت یُونس کی آیت رقم 94کو اپنی نا سمجھی کی دلیل بناتے ہیں ، میں کہتا ہوں کہ ،،،
سورت یُونس(10) کی یہ آیت رقم 94 (((((فَإِنْ كُنْتَ فِي شَكٍّ مِمَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكَ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ ::: اور اگر تُم اُس کے بارے میں شک میں ہو جو ہم نے تُمہاری طرف اتاری ، تو تُم اُن لوگوں سے پوچھ لو جو تُم سے پہلے(والی آسمانی) کتاب پڑھتے ہیں ، یقیناً تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے حق آیا ہے لہذا تُم شک کرنے والوں میں سے مت بنو)))))اُن لوگوں کے اعتراض کے لیے کوئی دلیل نہیں بنتی ،
::::::: سب سے پہلی بات تو یہ جو کہ اِن شاء اللہ اعتراض کرنے والوں کے اعتراض کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے کہ پہلی وحی کے نزول کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اُس عجیب اور اجنبی واقعہ کے بارے میں جاننے کے لیے ، ورقہ بن نوفل کے پاس لے جایا جانا سورت یونس کی اس آیت مبارکہ سے بہت پہلے کا واقعہ ہے ، جو کسی بھی طور اس آیت مبارکہ کے منافی نہیں سمجھا جا سکتا ہے ،
کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی اُس وقت انہیں وحی کے نزول کے بارے میں علم نہ تھا ، وہ معاملہ ان کے لیے بالکل نیا اور نا معلوم تھا ، اس لیے عام معمول کے مطابق ان کی بیگم محترمہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا انہیں ایسے شخص کے پاس لے کر گئیں جو اس قسم کے معاملات کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا تھا ،
پس اس واقعہ میں سورت یونس کی آیت مبارکہ کی کوئی مخالفت نہیں ، دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس ّیت مبارکہ کے نزول کے بعد ، یا اس سے پہلے ہی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو ان کے رسول ہونے کا ، اور اللہ کی طرف سے ان پر وحی نازل ہونے کا علم ہو گیا ، تو کیا اُس کے بعد وہ کسی وحی کی تصدیق کے لیے کسی کافر یا کسی بھی اور شخص کے پاس گئے ؟؟؟ یا کسی شخص سے اس کی تصدیق کروانے کی کوئی کوشش فرمائی ؟؟؟
ہر گز نہیں ، پس سورت یونس کی اس آیت مبارکہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے جائے جانے اور وحی کے نزول کے واقعے کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش والے واقعہ سے کچھ اختلاف نہیں ،
سُورت یونس کی آیت رقم 94 کی علماء کرام نے تین تفاسیر پیش کی ہیں ، جن میں سے سب سے پہلی اور درست یہ ہے کہ :::
::::::: اس آیت مبارکہ میں (((((فَإِنْ كُنْتَ فِي شَكٍّ مِمَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ ،،،،، ::: اور اگر تُم اُس کے بارے میں شک میں ہو جو ہم نے تُمہاری طرف اتاری،،،،، ))))) میں مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نہیں ہیں ، بلکہ اُن کی اُمت اور قران کریم کا ہر قاری اور سامع ہے ،
جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے (((((يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا:::اے نبی ، اللہ (کی ناراضگی اور عذاب )سے بچییے ، اور کافروں اور منافقوں کی تابع فرمانی مت کیجیے(گا) ، بے شک اللہ بہت زیادہ علم رکھتا ہے اور حِکمت والا ہے)))))سُورت الاحزاب(33) ، کی پہلی آیت ،
اور فرمایا ہے (((((وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ وَدَعْ أَذَاهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا ::: اور (اے نبی) آپ کافروں اور منافقوں کی تابع فرمانی مت کیجیے (گا)، اور ان لوگوں کی طرف سے تکلیف دینے کی کوئی پرواہ مت کیجیے اور اللہ پر توکل کیجیے اور اللہ کا (ہی) کارساز ہونا کافی ہے)))))سُورت الاحزاب (33)/آیت 48،
کیا اِن دو آیات مبارکہ سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ معاذ اللہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کافروں اور منافقوں کی اطاعت کرتے تھے ؟؟؟
یا معاذ اللہ اُن کی طرف سےیہ اندیشہ تھا کہ وہ کافروں اور منافقوں کی تابع فرمانی کرتے ؟؟؟
قطعا نہیں ، اس آیت مبارکہ کا بھی یہی معاملہ ہے کہ خطاب نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے کیا گیا ہے اور مُراد دیگر لوگ ہیں ،
(((((وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ::: یقیناً (اے نبی)آپ کی طرف اور جو(نبی اور رسول ) آپ سے پہلے ہو گذرے اُن کی طرف یہ وحی کیا گیا کہ اگر تُم نے شرک کیا تو تُمہارے سارے ہی عمل غارت ہو جائیں گے اور تُم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جاؤ گے)))))سُورت الزُمر(39)/آیت 65،
کیا اِس آیت مبارکہ سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ معاذ اللہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے اس بات کا اندیشہ تھا کہ وہ شرک کریں گے ؟؟؟
قطعا نہیں ، پس اس آیت مبارکہ کا بھی یہی معاملہ ہے کہ خطاب نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے کیا گیا ہے اور مُراد دیگر لوگ ہیں ،
اور یہی معاملہ ہے سُورت یونس کی آیت رقم 94 کا ،
اسی سُورت یونس میں ہی اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو یہ حکم دِیا ہے کہ (((((قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي شَكٍّ مِّن دِينِي فَلَا أَعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِنْ أَعْبُدُ اللَّهَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ::: اے (نبی)فرما دیجیے کہ اے لوگو اگر تُم میرے دِین کے بارے میں شک کرتے ہو تو (مجھے اِس میں کوئی شک نہیں لہذا)میں اُن کی عبادت نہیں کرتا(اور نہ ہی کروں گا) جن کی اللہ کے علاوہ تُم لوگ عبادت کرتے ہو،لیکن میں تو اللہ کی عبادت کرتا ہوں(اور کروں گا)جو تُم لوگوں کو موت دیتا ہے اور مجھے (یہی)حکم دیا گیا ہے کہ میں اِیمان والوں میں سے ہو رہوں )))))سُورت یُونس(10)/آیت 104،
اس آیت مبارکہ میں خود اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی طرف سے ہی یہ واضح فرما دیا گیا ہے نبی اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اُن کی طرف نازل ہونے والی وحی کے بارے میں کوئی ادنیٰ سا بھی شک نہیں رکھتے تھے ، پس یہ بھی ثابت ہوا کہ سورت یونس کی آیت رقم 94 میں (((((فَإِنْ كُنْتَ فِي شَكٍّ مِمَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ ،،،،، ::: اور اگر تُم اُس کے بارے میں شک میں ہو جو ہم نے تُمہاری طرف اتاری،،،،، ))))) میں مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نہیں ہیں ، بلکہ اُن کی اُمت اور قران کریم کا ہر قاری اور سامع ہے ،
اِن شاء اللہ یہ معلومات آپ کے سامنے لائے جانے والے شک کو دُور کرنے کے لیے کافی و شافی ہو ں گئی ، و الحمد للہ الذی لا تتم الصالحات الا بعونہ، والسلام علیکم۔ عادل سہیل

اس روایت کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداء سونے کی حالت میں سچے خواب کے ذریعہ ہوئی۔
اب سوال یہ ہے کہ جب وحی کی ابتدا ہوئی اس وقت غالباً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ولادت بھی نہیں ہوئی تھی پھریہ بات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو کس نے بیان کی ؟؟؟

کتاب امام  بخاری  کا  ختم  نبوت  پر ڈاکہ

یہاں میں بخاری جلد اول کے باب کیف کان بدأ الوحی کی حدیث نمبر3 پر تبصرہ کرنا چاہتا ہوں ۔ چونکہ حدیث خاصی لمبی ہے اس لئے طوالت کی وجہ سے اس کا سارا متن نقل نہیں کررہا ہوں۔اس لئے متعلقہ جملے نقل کرکے تبصرہ کرتاچلوں گا ۔
 یہ حدیث وحی کی ابتدائی کیفیت بیان کرنے کے لئے بنائی گئی ہے ۔
 اس کی روایت حضرت بی بی عائشہؓ کی طرف منسوب کی گئی ہے جبکہ وحی کی ابتداء کا تعلق ،عمرؓ اور رفاقت رسول کے لحاظ سے بی بی خدیجہؓ سے بنتا ہے ۔

بہرحال حدیث کے ابتدائی الفاظ یہ ہیں کہ :
اول مابدی بہ رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم من الوحی الرؤیا الصالحہ فی النوم ۔
 وحی کی ابتدا رسول ؐ  کو نیک صالح خوابوں سے کرائی گئی اور وہ خواب ایسے تھے کہ
 لایری الا جاء ت مثل فلق الصبح
یعنی وہ خواب صبح صادق کی طرح صاف اور واضح ہوتے تھے۔

جناب معزز قارئین !
 حدیث ساز امام لوگ وحی کی ابتدا ء کو خوابوں سے جو ملا رہے ہیں تو یہ ان کی ایک بہت بڑی اور گہری سازش ہے کہ رویاء صالحہ یعنی نیک خوابوں کو وحی سے خلط ملط کرنے کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں ۔ اس سازش کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ بخاری صاحب کے مجموعہ حدیث کے
 باب الرویاء الصالحہ جزء من ستتہ و اربعین جز ئا من النبوۃ
پڑھ کر دیکھیں جس میں بخاری صاحب نے نیک خوابوں کو نبوت کا چھیالیسواں حصہ قرار دے کر ختم نبوت کا کھلم کھلا انکار کیا ہے اور وہاں لائی ہوئی حدیث میں ابو ہریرہ کے نام سے روایت لکھی ہے کہ نبوت میں سے اب صرف نیک صالحہ خواب ہی باقی بچے ہیں ۔

 جناب قارئین کرام !
 وہاں کی چار حدیثوں میں سے ایک حدیث کا راوی امام زہری صاحب ہے تو یہاں ابتداء والی حدیث نمبر3کے راویوں میں بھی زہری صاحب موجود ہیں اور یہاں بھی نبوت اور رسالت کے مشن میں دراڑ ڈالنے کے لئے وحی کی ابتداء نیک صالح خوابوں سے کرارہے ہیں ۔

 قارئین کرام !
 خواب خواب ہوتے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ وہ سارے واجب التعمیل ہوں چہ جائیکہ وہ صالحین اور نبیوں کے ہی کیوں نہ ہوں جس طرح حضرت ابراہیم کا خواب دیکھنا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کررہے ہیں اور آپ نے خواب کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے لٹایا تو حکم ربی آیا کہ اے ابراہیم تو نے اپنا خواب سچا کردکھایا ۔ یہ تیرا خواب تھا ہمارا حکم نہیں تھا ۔ ہم اسماعیل کو اس سے بھی زیادہ اور بڑھ کر ذبح عظیم کے لئے قبول کررہے ہیں یعنی اپنے گھر کا پاسبان بنانا چاہتے ہیں ۔
امام بخاری کی حدیث نمبر3میں زہری اینڈ کمپنی مزید لکھتے ہیں کہ
 ثم حبب الیہ الخلا ء وکان یخلوا بغار حراء فیتحنث فیہ وھوالتعبد اللیالی ذوات العدد قبل ان ینزع الی اھلہ ویتزود لذالک ثم یرجع الی خدیجہ فیتزودلمثلھا۔
حدیث کے اس حصہ میں حدیث سازوں نے خوابوں کی اہمیت جتانے کے بعد دواور خانقاہی نظام کی چیزیں متعارف کرانے کی کوشش کی ہے ۔ایک تنہائی پسندی اور دوسراغاروں میں زندگی گزارنے کو بھی اہمیت دی ہے۔ جس سے یہ لوگ نبوت کو خلوت نشینی ،ترک دنیا والے زہد اور غاروں میں رہنے کا ایک ارتقائی عہدہ قرار دینے کی سازش کررہے ہیں اور نبوت اور رسالت کی تحریک کو یہ لوگ کائنائی قیادت سے ہٹا کرغاروں میں بند کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے عالمی سرمایہ دار اور جاگیر دار آقاؤں کے لئے لوگوں کے استحصال کے راستے کھلے رہیں اور ان کی استحصالیت کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ رہے ۔
حدیث ساز اور فقہ ساز اماموں نے اس طرح کے مذاہب انبیاء ؑ کے مقابلہ میں ہر دور میں بنائے ہیں ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہر دور کے فرعونوں نے اپنے دور کے موسیٰ کے مقابلے میں اپنے ہامانوں سے وحی کی تعلیم کے مقابلے میں جھوٹے مذاہب بنواکر اپنی اپنی خدائی مسلط رکھنے کے حیلے کئے ہیں لہٰذاان ہامانوں کے باطل مذاہب جن کے ذریعے لوگوں کو غاروں میں چھپ کر پتھروں یا مالاؤں کے دانوں پر اللہ کے ناموں کی گنتی کو ذکراللہ قرار دیاجاتا ہے ان غلط تصورات کو مٹانے کے لئے اللہ نے اپنے آخری نبی کے لئے فرمایا :
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (61:9)
وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے اور سب دینوں پر غالب کرے خواہ مشرکوں کو برا ہی لگے۔
میرا یہ رسول دین حق اور ہدایت والے دین کے ساتھ آرہاہے جو جملہ باطل مذاہب کو مٹائے گا اور دین حق کو ان سب پر غالب کرے گا۔

 محترم قارئین!
 رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم اور اس کے اصحابؓ نے یہ سب کچھ کرکے دکھایا ۔ دنیا سے قیصریت ،کسرویت اور قارونیت کو ختم کرکے دکھایا ۔ صدیوں تک اس انقلاب نے انسانوں کو غلامی سے آزاد کئے رکھا۔ جس سے اللہ کا وعدہ سچا ثابت ہوا ۔ لیکن شکست خوردہ مافیا نے اپنے کرائے کے دانشوروں سے قرآن کے مقابلہ میں قرآن کے فلسفہ حیات کو رد کرنے کے لئے قرآن کی تفسیر اور تشریح کے نام پر رسول اللہ اور اس کے صحابہ کرام سے منسوب کردہ احادیث اور فقہ کے علوم ایجاد کئے جنہیں وہ باطنی طریقوں سے تقیہ کے نام پر زیر زمین چھپا کر لکھتے رہے اور جب منگولوں اور تاتاریوں کے ہاتھوں مسلمان مکمل طور پر شکست کھا گئے۔ اور سقوط بغداد کے بعد اقتدار اعلیٰ کھو بیٹھے تو کسروی اساورہ کے امامیاتی علوم کے دفینے رفتہ رفتہ تقیہ کے نقاب اتار کر مسلمانوں کی درسگاہوں اور عدالتوں پر سے قرآن کو ہٹا کر خود براجمان ہوگئے جس طرح آج مساجد کے اندر قرآن حکیم کے نسخے الماریوں میں بند ہیں۔
اگر کوئی انہیں پڑھتا بھی ہے تو بن سوچے سمجھے طوطے کی طرح رٹنے کو ثواب سمجھ کر پڑھتا ہے اور قرآن کی بجا ئے سمجھنے سمجھانے کے لئے مساجد کے منبروں پر رائیونڈ اور نظام الدین اولیاء دہلی کے مراکز کی تبلیغی جماعت کے کورس کی کتاب قبضہ کئے بیٹھی ہے۔
اس نام نہاد خلوت نشینی اور غاروں میں رہنے کی اہمیت کے لئے صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ جس شخصیت کو اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین کا تاج پہناکر حکمران بنانا ہے اس کے لئے بخاری اور اس کے استاد راوی صاحبان لکھتے ہیں کہ ثم حبب الیہ الخلا ء اسے خلوت نشینی محبوب ہوگئی اور وہ غار حرا میں اکیلے جاکر عبادت کرتے تھے ۔

معزز قارئین!
 غور فرمایا جائے کہ جس شخصیت سے کل اعلان کرانا ہے کہ :
قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
ۖ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (7:158)
(اے محمدﷺ) کہہ دو کہ لوگو میں تم سب کی طرف خدا کا بھیجا ہوا (یعنی اس کا رسول) ہوں۔ (وہ) جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی زندگانی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ تو خدا پر اور اس کے رسول پیغمبر اُمی پر جو خدا پر اور اس کے تمام کلام پر ایمان رکھتے ہیں ایمان لاؤ اور ان کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پاؤ۔
قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا
 اے لوگو! بلا شبہ میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔
 تو کیا جس شخص کوگم کردہ راہ انسانوں کی رہنمائی اور انہیں راہ راست پر لانے کے لئے منتخب کیا ہووہ خلوت گاہیں اور غاروں کو پسند کر ے گا؟ بگڑی ہوئی انسانیت کی اصلاح کے لئے اور نیا جہان آباد کرنے اور فرعونیت سے ٹکر لینے کے لئے انقلابی ساتھیوں اور لشکروں کی بھرتی کرنے والا ایسا آدمی ہوگا جو غاروں کی خلوت گاہوں کو محبوب رکھتا ہو ۔؟ مقام نبوت و رسالت ایسا ہے جس کا اہل شخص دنیا کے فرعونوں اور ہامانوں کو میدانوں میں، کھلی فضاؤں میں جنگ لڑنے کا چیلنج کرے ۔ مگر بخاری ، زہری اور طبری اینڈ کو اپنی حدیثوں کے ذریعے رسول انقلاب کو بڑی فنکاری اور ہنر مندی سے جنگی میدانوں کے قرآنی تعارف سے موڑ کر غاروں کی خلوت گاہوں کا خانقاہی نشان بنانا چاہتے ہیں ۔ یہاں سے اندازہ لگایا جائے کہ قرآن والے رسول اور حدیثوں والے رسول میں کتنا فرق ہے ۔ حدیثوں والاان کا رسول بقول بخاری فرماتا ہے فتنے کے دنوں میں کچھ بکریا ں لے کر پہاڑ کی چوٹی پر جا کر زمانے والوں سے کٹ کر سو جاؤ جبکہ قرآن والا اللہ کا رسول دنیا کے فتنہ بازوں اور انقلاب دشمنوں کو للکار تا ہے کہ :
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ
ۖ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ (2:193)
اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہنا کہ فساد نابود ہوجائے اور (ملک میں) خدا ہی کا دین ہوجائے اور اگر وہ (فساد سے) باز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں (کرنی چاہیئے) ۔
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ
ۚ فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (8:39)
اور ان لوگوں سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ (یعنی کفر کا فساد) باقی نہ رہے اور دین سب خدا ہی کا ہوجائے اور اگر باز آجائیں تو خدا ان کے کاموں کو دیکھ رہا ہے۔
 وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ (2:193) (8:39)
 لڑو ان فتنہ بازوں سے یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور نظام الٰہی قائم ہوجائے ۔

میں قارئین سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ غور فرمائیں اور فیصلہ کریں کہ حدیثوں والے مذہب ورسول میں اور قرآن والے اسلام ورسول میں کتنا فرق ہے۔ بخاری کی حدیث نمبر 3میں مزید لکھا ہے کہ :
حتی جاء الحق وھو فی غار حرا ء فجاۂ الملک فقال اقرأ فقال قلت ماانا بقارئ قال فاخذنی فغطنی حتی بلغ منی الجہد ثم ارسلنی فقال اقرأ فقلت ماانا بقارئ فاخذنی فغطنی الثانیہ حتی بلغ منی الجہد ثم ارسلنی فقال اقراء فقلت ماانا بقارئ قال فاخذنی فغطنی الثالثہ ثم ارسلنی فقال اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ خَلَقَ الِاْ نْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَ کْرَمُ فرجع بھا رسول اللہ یرجف فوادہ۔
 رسول اللہ پر غار حرا میں پہلی وحی آئی ۔ ملائکہ نے آکر کہا کہ اقرأ یعنی پڑھ۔ تو رسول اللہ نے اسے کہا کہ میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔تو اس نے مجھے پکڑ کر زور سے بھینچا اس حد تک کہ مجھے تکلیف پہنچی بعد میں پھر کہا کہ پڑھ ۔ میں نے پھر دوبارہ کہا کہ میں ان پڑھ ہوں تو اس نے پھر پہلے کی طرح پکڑ کر بھینچا جس سے مجھے بڑی تکلیف پہنچی ۔ اس کے بعد پھر تیسری بار بھی کہا کہ پڑھ ۔
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (96:1)
(اے محمدﷺ) اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے (عالم کو) پیدا کیا۔
 خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (96:2)
جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا۔
اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (96:3)
پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے۔
 تو حضور ؐ نے دھڑکتے ہوئے دل سے وہی کچھ پڑھا جو جبریل نے کہا ۔

قارئین کرام !
 یہاں ان حدیث ساز راویوں کی کاریگری کھل کر سامنے آئی ہے ان کی اس حدیث میں آپ نے ابھی پڑھا کہ اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے ایسے شخص کو پڑھنے کا حکم دے رہے ہیں جو ان پڑھ ہے ۔ تو کیا اللہ تعالیٰ اس بات سے بے خبر تھے کہ میں کس کو پڑھنے کا حکم دے رہا ہوں جو پڑھا ہوا بھی نہیں ہے ۔ کیا یہ اللہ تعالیٰ کی شان اور مرتبہ کے ساتھ ان حدیث سازوں کا مذاق نہیں ہے ؟ کیا ان حدیثیں بنانے والوں کا پول اس بات سے کھل نہیں جاتا کہ حضور ؐ اقدس نبوت ملنے سے پہلے لکھنا پڑھنا جانتے تھے ۔ ان پڑھ نہیں تھے، یہ بات تو خود قرآن نے بھی بتائی ہے اور وہ بھی دشمنوں کی زبان سے ایسی شہادت دلائی ہے کہ ان حدیث ساز وں کو ایسی حدیثیں بنانے پر ہر شخص کہہ سکے کہ تم نے یہ جھوٹی حدیث بنائی ہے قرآن کا فرمان یہ ہے کہ :
وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا (25:5)
اور کہتے ہیں کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جس کو اس نے لکھ رکھا ہے اور وہ صبح وشام اس کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔
یعنی دشمن کہتے ہیں کہ یہ رسول ؐ پہلے خود پچھلے زمانہ کے لوگوں کے قصے لکھ کر پھر صبح و شام اپنے ساتھیوں کو وحی کا کلام کہہ کر لکھواتا ہے ۔

محترم قارئین!
 اب بتائیے کہ حضوؐر کے زمانے کے مخالفین کی شہادت قرآن نے بتائی ہے کہ وہ بھی جانتے تھے کہ محمد ؐ لکھنا پڑھنا جانتے ہیں ۔تو اس طرح قرآن حکیم کی اس ایک آیت مبارکہ نے ہی بخاری اور اس کے اساتذہ زہری اینڈ کمپنی کی بنائی ہوئی حدیث جعلی اور جھوٹی ثابت کردی ۔
حدیث ساز فیکٹری والوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ پھر حضوؐر غار سے نکل کر جلدی جلدی گھر کو گئے اور بی بی خدیجہ سے فرمایا کہ جلدی جلدی مجھے کمبل اوڑھاؤ۔جب کچھ دیر بعد خوف کی کیفیت کم ہوئی توبی بی صاحبہ سے غار میں پیش آ یا ہواماجرا بیان کیا اور فرمایا کہ مجھے خطرہ ہے میں ڈرتا ہوں ۔ تو جواب میں بی بی صاحبہ فرماتی ہیں
کلا واللہ ما یخزیک اللہ ابدا ۔
 ہر گز نہیں ! اللہ آپ کو کبھی بھی خوار نہیں کرے گا آپ تو صلہ رحمی کرنے والے اور کمزوروں کی مدد کرنے والے، غریبوں کے لئے کمانے والے اور مہمان نواز اور حق کی راہ میں تکلیفیں برداشت کرنے والے ہیں اللہ آپ کو کیسے خوار کرے گا ۔
اس گفتگو سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جبرئیل سے ملاقات کا رسول پر ایسا منفی اثر پڑا جو حدیث بنانے والوں نے دکھایا ہے۔ کہ رسول کا دل کانپنے لگا اور گھر پہنچ کر بھی خوف طاری رہا اوروحی سے اسے اپنے خوار ہونے کا ڈر تھا ۔

جناب قارئین !
 حدیث کے ان جملوں کو اکٹھا کر کے سوچیں کہ رسول وحی کا کیا اثر لے رہے ہیں ۔جب کہ اس ملاقات کا قصہ گھڑنے والوں کے منہ پر مارنے کے لئے قرآن نے بتایا ہے کہ وہ تو ایک کیف بھری ملاقات تھی۔
مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى (53:11)
جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ مانا ۔
 محمد کو رسالت کا جو اعزاز ملا، مقام و مرتبہ ملا منزل ملی یعنی جو کچھ بھی آنکھوں نے دیکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مقام رسالت پر فائز فرمایا ہے تو دل نے بھی اس مشاہدہ کی تصدیق کی یعنی نبی دل سے اپنے اوپر وحی آنے کی تصدیق کرچکے اور ایمان لائے اور جبرئیل کی ملاقات کو نہ جھوٹ سمجھا اور نہ غلط قرار دیا بلکہ
آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ
ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (2:285)
رسول (خدا) اس کتاب پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور مومن بھی۔ سب خدا پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں (اورکہتے ہیں کہ) ہم اس کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور وہ (خدا سے) عرض کرتے ہیں کہ ہم نے (تیرا حکم) سنا اور قبول کیا۔ اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
 آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ
اپنے اوپر نازل کردہ کلام پر سب سے پہلے خود ایمان لے آئے۔
 اب جولوگ حدیثوں کو ہی دین کی تفصیل و تعبیر قرار دیتے ہیں وہ ذرا سوچیں کہ اس حدیث میں زہری نے کیا زہر بھرا ہے کہ رسولؐ تواپنے اوپر نازل ہونے والے کلام پر سب سے پہلے خود ایمان لے آئے مگرزہری کہہ رہا ہے کہ: بی بی صاحبہ تسلی دے رہی ہیں کہ ڈرو نہیں اللہ تمہیں خوار نہیں کرے گا ۔ کیا حدیث میں بتائی ہوئی رسول کی یہ کیفیت
آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ
سے میل کھاتی ہے ؟
 حدیث کے قصے میں تو رسول کے لئے جبرئیل کا تصور ہی خوف زدگی والا وحشت ناک بنا دیا ہے ۔
حدیث میں حضوؐر کی حیثیت ایسی بتائی گئی ہے کہ جیسے آج کل کے دور میں کچھ مریضوں کو دماغی دورے پڑتے ہیں تو گھر کی بڑی بو ڑھی گاؤں کے کسی پروہت ، تعویذی ملا یا کسی خانقاہی پیر سے ماجرا بیان کرکے کوئی  نسخۂ  شفاء  لے کرآتی ہے ۔بالکل اسی طرح بخاری کی حدیث میں دکھایا گیا ہے کہ حضوؐر کی زوجہ بی بی خدیجہ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئی جو ایام جاہلیت میں عیسائی ہو چکے تھے اور بوڑھے ہونے کی وجہ سے نابینا بھی تھے اور ان سے کہا کہ اے میرے بھائی اپنے بھتیجے کی بات سنو! تو اس نے رسول اللہ سے کہا کہ تم رسول بن چکے ہو یہ وہ ناموس ہے جو موسیٰ پر نازل ہوا تھا ۔
اب بتائیے کہ ایک فرضی شخص ورقہ بن نوفل کے نام سے یہ جھوٹی حدیث بناتے وقت زہری اینڈ کو نے ناموس رسالت کی تشبیہہ حضرت موسیٰ سے دی ہے یہ تمثیل بھی کوئی تو معنی رکھتی ہوگی۔ میرے خیال میں یہ حدیث ساز ٹولہ اس سے بھی حضوؐر کی تنقیص کا پہلو ظاہر کرنے کی ٹھانے ہوئے ہے ۔ وہ یہ کہ حضرت موسیٰ پر جوپہلی وحی قرآن نے
بیان کی ہے اس میں موسیٰ سے رب تعالیٰ فرماتے ہیں کہ :
إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ
ۖ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى (20:12)
میں تو تمہارا پروردگار ہوں تو اپنی جوتیاں اتار دو۔ تم (یہاں) پاک میدان (یعنی) طویٰ میں ہو۔
اس پہلی وحی میں اس سے آگے موسیٰ سے سوال کیا جا تا ہے کہ اے موسیٰ تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے توموسیٰ اللہ کی محبت اور چاہت میں صرف ضروری جواب پر اکتفا کرنے کی بجائے جواب کو بہت لمبا کرگئے ہیں کہ میرے ہاتھ میں لاٹھی ہے میں اسے بہت سارے کاموں میں استعمال کرتا ہوں ۔ بکریا ں چراتے چراتے تھک جاتا ہوں تو اس پر تکیہ لگا کر کھڑا ہوتا ہوں، بکریوں کو موڑنے کا کام لیتا ہوں ،اس سے میری کئی اور حاجتیں بھی پوری ہوتی ہیں ۔ اس طرح حدیث سازلوگوں نے ثابت کیا ہے کہ موسیٰ کو پہلی وحی میں ہی اللہ سے ایسی لگن ہوجاتی ہے کہ وہ اپنی حاجتیں گنوانا شروع کردیتے ہیں جب کہ اس حدیث کے رو سے آخری رسولؐ پہلی وحی کے وقت خوف زدہ ہوکر بھاگ اٹھتے ہیں اور اپنی بیوی کے پاس پہنچ کر کہتے ہیں کہ میں خوف زدہ ہوں مجھے کمبل اُڑھاؤ ۔
اس حدیث کے آخری حصہ میں بخاری صاحب نے زہری صاحب کی سند سے لکھا ہے کہ اس پہلی وحی کے بعد کافی عرصہ تک وحی کا سلسلہ منقطع رہا تو اس عرصہ میں حضوؐر کہیں جار ہے تھے کہ اچانک آسمان سے آواز سنائی دی ۔میں نے اوپر دیکھا تو وہی فرشتہ جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا وہ زمین اور آسمان کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا نظر آیا ۔ مجھ پر پھر اس کا رعب چھاگیا اور میں یہ ماجرا دیکھتے ہی واپس گھر کو لوٹ آیا اور آ کر کہا کہ زملونی زملونی مجھے کمبل اُڑھاؤ ۔پھر اس کے بعد سورت مدثر نازل ہوئی۔

جناب قارئین کرام !
قرآن حکیم کا اسلوب بتاتا ہے کہ اللہ کو اپنے رسول اوراس کے ساتھیوں کی پریشانی کبھی بھی گوارا نہیں ہوتی تھی ۔جب بھی کبھی ایسی صورت حال پیدا ہوئی تو قران حکیم بتاتا ہے کہ :
ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنْزَلَ جُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُوا
ۚ وَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ (9:26)
پھر خدا نے اپنے پیغمبر پر اور مومنوں پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی (اور تمہاری مدد کو فرشتوں کے) لشکر جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے (آسمان سے) اُتارے اور کافروں کو عذاب دیا۔ اور کفر کرنے والوں کی یہی سزا ہے۔
 ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ
اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر سکون اور طمانیت قلب نازل کرتا ہے ۔ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ وحی اور حامل وحی فرشتہ رسول اللہ کے لئے خوف اور ڈر پیدا کرنے والا نہیں ہوتا بلکہ سکون قلب پیدا ہوتا ہے ۔

فتنۂ انکارِ قرآن ،  کب اور کیسے ؟

Fitna Inkar e Quran, Rejection of Quran, When & How?
Fitnah Inqar e Quran Kab or Kaisay

از قلم : عزیزاللہ بوھیو
Azizullah Bohio

No comments:

Post a Comment