Friday, November 16, 2012

صحیح بخاری کی احادیث میں قصے کہانیوں کی ملاوٹ


صحیح  بخاری  کی  احادیث  میں قصے  کہانیوں  کی  ملاوٹ

عادل  سہیل نے  لکھا:
اِس لیے ، اِس روایت میں سے صِرف یہ قصہ بطور حدیث ثابت نہیں ہوتا۔

صحیح بخاری کی ایک روایت میں اضافی حصے کی تحقیق
بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
بِسّم اللہِ و الحَمدُ لِلَّہِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلٰی مَن لا نَبی بَعدَہُ والذی لَم یَتکلم مِن تِلقاء نَفسہِ و لَم یَکن کَلامُہ اِلَّا مِن وَحی رَبہُ
اللہ کے نام سے آغاز ہے اور تمام سچی تعریف صرف اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں اور جس نے نفس کی خواہش کے مطابق بات نہیں کی اور جس کی بات سوائے اُس کے رب کی وحی کے اور کچھ نہ ہوتی تھی
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی بات کا انداز بیان اس میں کوئی اور بات شامل کر دیتا ہے اور سننے پڑھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ ساری ہی بات ایک ہی شخصیت ، یا ایک ہی معاملے ، یا ایک ہی مسئلے کے بارے میں ہے ،
اس قسم کے مَیل جول (مکس اپ)کی مثال صحیح بخاری کی ایک روایت ہے ، جسے سمجھنے میں کچھ غلط فہمی ہوتی ہے اور کچھ لوگ اس ساری ہی روایت کی صحت اور اس میں بیان شدہ واقعات کے بارے میں مشکوک ہو جاتے ہیں ، اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اسی قسم کی نا سمجھی کی بنا پر صحیح بخاری یا ساری ہی کتب احادیث کے بارے میں مشکوک ہوجاتے ہیں، اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ تحقیق کے بغیر ہی اپنے شکوک و شبہات کو حرفء آخر سمجھ کر ان کی تشہیر کرتے ہیں،
اور کچھ ایسے بھی ہیں جو شاید تحقیق و تاکید کی کوشش کرتے ہیں اور نامکمل معلومات حاصل کر کےیہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے تحقیق مکمل کر لی ، اور اس روایت یا کسی بھی اور روایت یا مسئلے کے بارے میں ایک دو محقق أئمہ رحمہما اللہ کی کچھ باتوں کو اِسی طرح نا مکمل طور پر سمجھے بغیر اُس روایت یا مسئلے کے حل کی صحت کے بارے میں ، اور پھر اس کی بنا پر صحیح بخاری یا دیگر کتب احادیث کی صحت کے بارے میں، اور أئمہ کرام کے کلام کے بارے میں مشکوک اور پریشان ہو کر اپنے شکوک اور پریشانیوں کو نشر کرتے ہیں،
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو ہر شر سے محفوظ رکھے ،
اِن شاء اللہ ، میں اس مضمون میں صحیح بخاری کی اُس روایت کے بارے میں پائے جانے والے اِسی قسم کے شکوک کے اِزالے کی کوشش کرنے والا ہوں ، اور اِن شاء اللہ اُن نا مکمل معلومات کی تکمیل اور وضاحت بھی کروں گا جنہیں مجھ جیسے طالب علم تحقیق و تاکید کے دوران پا کر اس روایت کے ، اور صحیح بخاری کے بارے میں کچھ شکوک کی طرف مائل ہونے لگتے ہیں ،
اُس روایت کو ’’’ حدیث بدء الوحی و فترتہ‘‘‘ بھی کہا جاتاہے ، اس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر وحی کے نزول کی ابتداء اور پھر اُس کے نزول میں آ جانے والی رکاوٹ کے واقعات کا بیان ہے ،
روایت درج ذیل ہے :::
أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - مِنَ الْوَحْىِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِى النَّوْمِ ، فَكَانَ لاَ يَرَى رُؤْيَا إِلاَّ جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ، فَكَانَ يَأْتِى حِرَاءً فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ - وَهْوَ التَّعَبُّدُ - اللَّيَالِىَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ ، وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَتُزَوِّدُهُ لِمِثْلِهَا ، حَتَّى فَجِئَهُ الْحَقُّ وَهْوَ فِى غَارِ حِرَاءٍ فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فِيهِ فَقَالَ اقْرَأْ . فَقَالَ لَهُ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم -(((((( فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِى فَغَطَّنِى حَتَّى بَلَغَ مِنِّى الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِى . فَقَالَ اقْرَأْ . فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ . فَأَخَذَنِى فَغَطَّنِى الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّى الْجَهْدَ ، ثُمَّ أَرْسَلَنِى فَقَالَ اقْرَأْ . فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ . فَغَطَّنِى الثَّالِثَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّى الْجَهْدُ ، ثُمَّ أَرْسَلَنِى فَقَالَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِى خَلَقَ ، حَتَّى بَلَغَ مَا لَمْ يَعْلَمْ)))))،
فَرَجَعَ بِهَا تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ فَقَالَ (((((زَمِّلُونِى زَمِّلُونِى))))) ،
فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ فَقَالَ ((((((يَا خَدِيجَةُ مَا لِى)))))وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ وَقَالَ (((((قَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِى)))))،
فَقَالَتْ لَهُ كَلاَّ أَبْشِرْ ، فَوَاللَّهِ لاَ يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا ، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ ، وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ ، وَتَقْرِى الضَّيْفَ ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ ،
ثُمَّ انْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قُصَىٍّ - وَهْوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ أَخُو أَبِيهَا ، وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِى الْجَاهِلِيَّةِ ، وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعَرَبِىَّ فَيَكْتُبُ بِالْعَرَبِيَّةِ مِنَ الإِنْجِيلِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ ، وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِىَ ،
فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ أَىِ ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ . فَقَالَ وَرَقَةُ ابْنَ أَخِى مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - مَا رَأَى فَقَالَ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِى أُنْزِلَ عَلَى مُوسَى ، يَا لَيْتَنِى فِيهَا جَذَعًا أَكُونُ حَيًّا ، حِينَ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ ،
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - (((((أَوَمُخْرِجِىَّ هُمْ))))) ،
فَقَالَ وَرَقَةُ نَعَمْ ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلاَّ عُودِىَ ، وَإِنْ يُدْرِكْنِى يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا . ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّىَ ، وَفَتَرَ الْوَحْىُ فَتْرَةً،
حَتَّى حَزِنَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم ، فِيمَا بَلَغَنَا حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا كَىْ يَتَرَدَّى مِنْ رُءُوسِ شَوَاهِقِ الْجِبَالِ ، فَكُلَّمَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ لِكَىْ يُلْقِىَ مِنْهُ نَفْسَهُ ، تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا . فَيَسْكُنُ لِذَلِكَ جَأْشُهُ وَتَقِرُّ نَفْسُهُ فَيَرْجِعُ ، فَإِذَا طَالَتْ عَلَيْهِ فَتْرَةُ الْوَحْىِ غَدَا لِمِثْلِ ذَلِكَ ، فَإِذَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ ،
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ( فَالِقُ الإِصْبَاحِ ) ضَوْءُ الشَّمْسِ بِالنَّهَارِ ، وَضَوْءُ الْقَمَرِ بِاللَّيْلِ
یہ واقعات صحیح بخاری میں تین مقامات پر منقول ہیں ،
::::::: (1) ::::::: صحیح البخاری حدیث رقم 3 ، کتاب بد الوحی ، باب 3 ،
یہاں اِس کی سند درج ذیل ہے :::
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ۔رضی اللہ عنھا ۔ أَنَّهَا قَالَتْ
اور روایت یہاں تک ہے کہ :::
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم (((((أَوَمُخْرِجِىَّ هُمْ ))))) فَقَالَ وَرَقَةُ نَعَمْ ،لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلاَّ عُودِىَ ، وَإِنْ يُدْرِكْنِى يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا . ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّىَ وَفَتَرَ الْوَحْىُ .
::::::: (2) ::::::: صحیح البخاری حدیث رقم 4953 ، کتاب التفسیر ، میں سے (تفسیر ) - 96سورة اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِى خَلَقَ،،، میں سے پہلا باب بعنوان ، و قال قتیبہ ،
اس روایت کو امام بخاری رحمہُ اللہ نے دو اسناد کے ساتھ ذِکر کیا ہے جو کہ درج ذیل ہیں :::
حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ،
حَدَّثَنِى سَعِيدُ بْنُ مَرْوَانَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِى رِزْمَةَ أَخْبَرَنَا أَبُو صَالِحٍ سَلْمَوَيْهِ قَالَ حَدَّثَنِى عَبْدُ اللَّهِ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ قَالَ أَخْبَرَنِى ابْنُ شِهَابٍ أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَتْ
اور یہ روایت بھی تقریباً پہلے ذِکر کردہ روایت والے ہی الفاظ پر ختم ہو جاتی ہے کہ :::
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم (((((أَوَمُخْرِجِىَّ هُمْ ))))) فَقَالَ وَرَقَةُ نَعَمْ ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلاَّ عُودِىَ ، وَإِنْ يُدْرِكْنِى يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا . ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّىَ ، وَفَتَرَ الْوَحْىُ فَتْرَةً حَتَّى حَزِنَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم
اس مذکورہ بالا دوسری روایت میں آخر میں سرخ رنگ سے ظاہر کیے گئے الفاظ کا اضافہ ہے ، جو کہ پہلی روایت سے کسی اختلاف والا مفہوم نہیں رکھتا ، بلکہ محض ایک اضافی خبر ہے ،
::::::: (3) :::::::
صحیح البخاری حدیث رقم 6982 ، کتاب التعبیر ، پہلا باب ،
یہی وہ روایت ہے جس کے سمجھنے میں مشکل کا اور جس میں بیان کردہ واقعے کے آخری حصے کے بارے میں شبہات کا اظہار ہوتا ہے ،
اس روایت کو بھی امام بخاری رحمہُ اللہ نے دو اسناد کے ساتھ ذِکر کیا ہے جو کہ درج ذیل ہیں :::
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ .
وَحَدَّثَنِى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ قَالَ الزُّهْرِىُّ فَأَخْبَرَنِى عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ - رضى الله عنها -
یہ روایت بھی پہلے ذِکر کردہ دونوں روایات کی طرح ایک ہی واقعہ کا بیان لیے ہوئے ہے اور یہ تیسری روایت بھی دوسری روایت کے اختتام تک ، پہلی اور دوسری روایت کے جیسی ہی ہے ، کہ اِس میں کوئی اضافہ یا اختلاف نہیں ، یعنی تینوں ہی روایات یہاں تک تقریباً ایک ہی جیسی ہیں کہ :::
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم (((((أَوَمُخْرِجِىَّ هُمْ ))))) فَقَالَ وَرَقَةُ نَعَمْ ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلاَّ عُودِىَ ، وَإِنْ يُدْرِكْنِى يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا . ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّىَ ، وَفَتَرَ الْوَحْىُ فَتْرَةً حَتَّى حَزِنَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم
اِس کے بعد اِس تیسری روایت میں ایک اور خبر داخل ہے جو کہ اُس روایت کو غیر مناسب بناتی ہے ، اور سمجھنے والوں کے لیے مشکل کا سبب بنتی ہے ، وہ خبر روایت میں مذکور الفاظ کے مطابق درج ذیل ہے :::
فِيمَا بَلَغَنَا حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا كَىْ يَتَرَدَّى مِنْ رُءُوسِ شَوَاهِقِ الْجِبَالِ ، فَكُلَّمَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ لِكَىْ يُلْقِىَ مِنْهُ نَفْسَهُ ، تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا . فَيَسْكُنُ لِذَلِكَ جَأْشُهُ وَتَقِرُّ نَفْسُهُ فَيَرْجِعُ ، فَإِذَا طَالَتْ عَلَيْهِ فَتْرَةُ الْوَحْىِ غَدَا لِمِثْلِ ذَلِكَ ، فَإِذَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ . قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ( فَالِقُ الإِصْبَاحِ ) ضَوْءُ الشَّمْسِ بِالنَّهَارِ ، وَضَوءُالْقَمَرِ بِاللَّيْلِ .
ان تینوں روایات کا مرکزی راوی امام ابن شہاب الزُھری رحمہُ اللہ ہیں ، آپ تینوں روایات کی اسناد کو دیکھیے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ امام ابن شہاب الزُھری رحمہُ اللہ سے یہ روایت تین مختلف راویوں نے کی ہے ،
(1)
عقیل (بن خالد )رحمہُ اللہ ،
(2)
یُونس بن یزید رحمہُ اللہ ،
(3)
مُعمر (بن راشد الازدی) رحمہُ اللہ ،
اور تیسری روایت میں مذکور پہاڑوں کی چوٹیوں پر جانے والے حصے کا اضافہ صِرف اُس روایت میں ہے جو معمر رحمہُ اللہ نے بیان کی ہے ،
اس تیسری روایت کو امام بخاری رحمہ ُ اللہ نے دو اسناد کے ساتھ پیش کیا ہے ،
ایک سند تو عقیل کا ابن شھاب کے ذریعے بیان کرنا ہے ،
اور دوسری سند عبدالرزاق کا معمر کے ذریعے ، اور معمر کا ابن شھاب کے ذریعے بیان کرنا ہے ،
اور پہلی سند یعنی عقیل کا ابن شہاب کے ذریعے بیان کرنےوالی سند کے ذریعے امام بخاری رحمہُ اللہ نے یہ واقعہ اپنی صحیح میں دیگر دو روایات سے پہلے ‘‘‘ کتاب بد الوحی ، باب 3’’’میں روایت کیا ہے ، جس کا ذِکر میں نے اس مضمون میں بھی سب سے پہلی روایت کے طور پر کیا ہے،
اور اس پہلی روایت میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر جانے والے قصے کا کوئی ذِکر نہیں ، جِس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ یہ قصہ عقیل رحمہ ُ اللہ کی روایات میں سے نہیں ،
اس نکتے کی وضاحت امام ابن حجر العسقلانی رحمہ ُ اللہ نے کی ،
لہذاپہاڑوں کی چوٹیوں پر جانے والا یہ قصہ معمر رحمہُ اللہ کے بیانات میں سے ہے ،
امام ابن حَجر العسقلانی رحمہُ اللہ نے ‘‘‘‘‘ فتح الباری شرح صحیح البخاری / کتاب التعبیر کے پہلے باب(مجلد 12کے صفحہ رقم 450) ’’’’’ میں اِس قصے والی روایت کی شرح میں اِس قصے کی بڑی باریک بین تحقیق پیش کی ہے ، جس میں مذکورہ بالا نکتہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ‘‘‘‘‘وقوله هنا فترة حتى حزن النبي صلى الله عليه و سلم فيما بلغنا هذا وما بعده من زيادة معمر على رواية عقيل ويونس وصنيع المؤلف يوهم انه داخل في رواية عقيل::: اور یہاں راوی (امام الزہری رحمہُ اللہ )کا یہ کہنا کہ، وحی رک گئی یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم غمگین ہوئے ، اور جو کچھ (بات)ہم تک پہنچی ہے (اُس میں یہ خبر بھی ہے کہ)،،، اور اس کے بعد جو کچھ کہا ہے ، یہ سب باتیں معمر کی روایت میں سے عقیل اور یونس کی روایات پر اضافہ ہیں ، اور مؤلف (امام بخاری رحمہُ اللہ )کی طرف سے اس اضافی بات کو(روایت کے ساتھ ) یوں بیان کرنے سے (بظاہر عام نظر سے پڑھنےو الے قاری کو )یہ وھم ہوتا ہے کہ یہ سب باتیں عقیل کی روایت میں (بھی )شامل ہیں’’’’’ ،
اور یہ بھی لکھا ہے کہ ‘‘‘‘‘ اس ثبوت سے زیادہ قوی ثبوت یہ ہے کہ ابتدائے وحی کے واقعہ والی یہ روایت امام ابو نعیم نے اپنی مستخرج میں بھی امام بخاری رحمہُ اللہ کے شیخ یحی بن بکیر رحمہُ اللہ کے ذریعے براستہ عقیل براستہ الزُہری روایت کی ہے ، اور اس میں بھی یہ اضافی قصہ نہیں ہے ’’’’’،
اور مزید بھی ایسے کئی نکات پیش کیے ہیں جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ، یہ اضافی قصہ صرف معمر بواسطہ الزہری والی روایت میں ہی ہے اور اس قصہ کی کوئی سند اِیمان والوں کی امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا تک میسر نہیں ، اور نہ ہی عبداللہ ابن عناس رضی اللہ عنہما کی روایت کے طور پر ثابت ہوتا ہے ،
اِس لیے ، اِس روایت میں سے صِرف یہ قصہ بطور حدیث ثابت نہیں ہوتا ،
امام الالبانی رحمہُ اللہ نے اپنی ‘‘‘ سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ و الموضوعۃ /حدیث رقم 1052، اور حدیث رقم 4858 ’’’ میں سابقہ أئمہ محدثین رحمہم اللہ کی تحقیق کو مد نظر رکھتے ہوئے اِس روایت کے آخری اضافی حصے کی روایات اور ان کی اسناد کی مزید تحقیق پیش کی ہے ،
جِس میں اُس روایت کی بھی تحقیق ہے جو عبدا للہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی کی گئی ہے ، کہ وہ روایت بھی کمزور ہے ، میں یہاں اُس روایت کا ، اور اس کی تحقیق کا ذِکر کر کے مضمون کو مزید بوجھل نہیں بنانا چاہتا ، لہذا اِن شاء اللہ ، بات کو صرف صحیح بخاری کی اس کتاب التعبیر والی روایت کے بارے میں ہی بات تک ہی محدود رکھوں گا ،
اِن أئمہ کرام رحمہما اللہ کی تحقیق کا حاصل کلام یہ ہے کہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر جانے والے اضافی قصے کا بیان معمر رحمہُ اللہ کا اپنا نہیں ہے ، بلکہ اِمام الزُہری رحمہ ُ اللہ کا ہے ، جو کہ معمر رحمہُ اللہ نے امام الزُہری رحمہُ اللہ سے سنا ، اور اِمام الزُہری نے بھی کسی سے سُنا ہے لیکن اُس کی سند ذِکر نہیں کی ، اس لیے یہ قصہ صرف اسی روایت میں درج ہوا جو روایت معمر رحمہُ اللہ کی امام الزُہری کے ذریعے بیان شدہ ہے،
اور یہ قصہ امام الزُہری رحمہُ اللہ نے بھی کسی سے سُنا ، جس کا اظاہر انہوں نے ‘‘‘فیما بلغنا::: جو کچھ (بات)ہم تک پہنچی ہے اُس میں (یہ خبر بھی ہے کہ ) ’’’ کہہ کر کیا، اور اِس مجہول انداز میں اُس قصے کو نقل کیا ، کسی راوی کا نام ذِکر نہیں فرمایا ،
محترم قارئین کرام ، یہ بات تو اسلامی علوم کا ایک ادنیٰ سا طالب علم بھی جانتا ہے کہ قران کریم کے علاوہ اللہ تعالیٰ ، اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، اور ان کے بعد میں آنے والے أئمہ اور علماء کرام سے منسوب ایسی کسی بات، ایسے کسی فعل کی درستگی تسلیم نہیں کی جا سکتی جس کی کوئی سند ہی منقول نہ ہو ،
سند موجود ہونے ، اور پھر اُس کی درستگی کے بعد ہی متن کی درستگی کی پرکھ کا کوئی اور سلسلہ شروع ہونے کا امکان ہوتا ہے ، کیونکہ اگر کوئی ایسا متن سنداً ہی ثابت نہیں ہوتا تو پھر اس کی درستگی اور نا درستگی کے بارے میں بات کرنا اپنا اور دوسروں کے وقت کا ضیاع ہی ہے ،اور ایسی کسی غیر ثابت شدہ بات کی شرح اور تفسیر کرنے کروانے میں بھی وقت لگانا کچھ فائدہ مند نہیں ،
پس ، اِس صحیح بخاری کی اس روایت میں مذکور پہاڑوں کی چوٹیوں پر جانے والے واقعہ کا بیان ایسا ہے جو کہ امام الزھری نے بلا سند بیان کیا ہے ،لہذا یہ قصہ إمام الزُہری رحمہُ اللہ کے مراسیل میں سے ہوا ، اور تابعی بالخصوص بعد کے زمانے والے (صغار التابعین)کی مرسل روایات کمزور مانی جاتی ہیں ، پس قصہ صحیح ثابت شدہ نہیں ،اور اس قصہ کی کوئی صحیح ثابت شدہ گواہی بھی نہیں ملتی ،
لہذا یہ قصہ درست نہیں ، اور صحیح بخاری کی اس روایت میں یہ قصہ‘‘‘ مدرجہ ’’’ ہے ، یعنی راوی کی طرف سے حدیث کے متن میں ایسا اضافہ ہے جو بذات خود اُس حدیث کا حصہ نہیں ہے ،
یہاں تک یہ بات تو واضح ہوئی کہ یہ واقعہ درست نہیں ، لیکن صحیح بخاری ، امام بخاری رحمہُ اللہ اور ان کے راویوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والے ، یہ سوال جوں کےتُوں ہی رہے کہ :::
::::::
امام ابن شہاب الزُہری رحمہُ اللہ نے یہ واقعہ اِس انداز میں کیوں ذِکر کیا ؟؟؟
::::::
اور امام بخاری رحمہ ُ اللہ نے ایسا بلا سند واقعہ کیوں اپنی ‘‘‘صحیح ’’’ میں روایت کیا ؟؟؟
::::::
پہلے سوال کا جواب میں کچھ معمولی سے تفصیل کے ذریعے حافظ راوی کی مرسل روایت کے اسباب جاننے کی ضرورت ہے ،
میں نے ابھی ابھی کہا ہے کہ تابعین رحمہم اللہ اور بالخصوص صغار التابعین یعنی بعد کے زمانے والے تابعین رحمہم اللہ کی مرسل روایات قابل قبول نہیں ہوتیں ، اور خاص طور پر ایسے راوی کی جس کا حافظہ مضبوط رہا ہو ، اب ہمارے سمجھنے کی بات جو کہ ہمارے مذکورہ بالا سوالات میں سے پہلے سوال کا جواب ہے ، وہ یہ ہے کہ تابعین رحمہم اللہ کی طرف سے مرسل روایات کے اسباب کیا ہوتے تھے؟
امام یحی بن سعید القطان رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ ‘‘‘‘‘مُرسل الزهري شرٌّ من مرسل غيره ؛ لأنه حافظ، وكلما قدر أن يُسَمِّيَ سَمَّى، وإنما يترك من لا يحسن أو يستجيز أن يُسَمِّيَه ::: ز ُہری کی مُرسل روایت کسی اور کی نسبت زیادہ غیر مناسب ہے کیونکہ ز ُہری حافظ تھے ، اور جب بھی اُنہوں نے (کسی راوی کا)نام لینا چاہا نام لیا ، ز ُہری صرف کسی ایسے ہی راوی کا نام نہیں لیتے تھے جِس راوی (کے حفظ )کو وہ مضبوط نہ سمجھتے تھے ، یا کسی اور سبب سے اُس کا نام ظاہر کرنا مناسب نہ سمجھتے تھے’’’’’، تاریخ مدینہ دمشق ، للابن ھبۃ اللہ ،
اسی قسم کی وضاحت امام ابن رجب رحمہُ اللہ نے بھی، امام یحی بن سعید القطان رحمہُ اللہ کے اقوال کی شرح کرتے ہوئے کی ہے کہ ‘‘‘‘‘أن الحافظ إذا روى عن ثقة لا يكاد يترك اسمه ، بل يسميه ، فإذا ترك اسم الراوي دل إبهامه على أنه غير مرضي ، وقد كان يفعل ذلك الثوري وغيره كثيراً ، يكنون عن الضعيف ولا يسمونه ، بل يقولون : عن رجل )) . وهذا معن قول القطان : (( لو كان فيه إسناد لصاح به )) . يعني لو كان أخذه عن ثقة لسماه وأعلن باسمه:::جب کوئی حافظ راوی کسی با اعتماد راوی کی روایت بیان کرتاہے تو اُس کا نام بتانا ترک نہیں کرتا ، بلکہ اُس کا نام بتاتا ہے ، اور اگر کوئی حافظ راوی (روایت بیان کرتے ہوئے اُس کے ) راوی کا نام نہ بتائے تو اس حافظ راوی کا یہ مبہم انداز اِس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ (جس راوی کا نام یہ حافظ بتا نہیں رہا ) وہ روای (اس حافظ کے مطابق ) قابل اعتماد نہیں ، اور (امام سفیان )الثوری ، اور دیگر کئی (حافظ راوی )اس طرح (بھی روایات بیان) کیا کرتے تھے ، کہ کسی کمزور راوی کا نام لینے کی بجائے اشارۃ ً ذِکر کرتے ، جیسا کہ ‘کسی شخص نے بتایا ’ وغیرہ کہہ دیتے ،
اور یہ ہی معنی ہے (امام یحی بن) القطان کی اس بات کا کہ‘‘‘ اگر کسی مُرسل بات کے لیے (اچھی صالح) سند ہوتی تو وہ (حافظ راوی)اُس سند کو بآواز بلند ذِکر کرتے ’’’ ، یعنی اگر مُرسل روایت بیان کرنے والے حافظ راوی نے وہ روایت کسی با اعتماد راوی سے سنی ہوتی تو ضرو ر اُس راوی کا نام لیتا ، اور (بلکہ) اُس راوی کے نام کا اعلان کرتا’’’’’، شرح علل الترمذی ، اِمام عبدالرحمٰن بن احمد ابن رجب ،
پس ، کسی سچے ، با اعتماد راوی کی طرف سے، کسی موضوع سے متعلق کوئی خبر بغیر سند کے سنانا عموماً اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ اِس موضوع سے متعلق یہ خبر بھی ہے ، لیکن اس کی درستگی اُن کے پاس اچھی طرح سے ثابت نہیں ہے ، اسی لیے وہ کسی راوی کا نام نہ لیتے ، اور خبر اس لیے سناتے اگر کہیں بعد میں اس خبر کی درستگی یا نا درستگی کا پتہ کیے جانے پر کام کیا جائے تو میری یہ بات میں مددگار ہو سکے ،
اور یہی سبب ہے کہ اِمام الزہری رحمہ ُ اللہ نے ، پہاڑوں کی چوٹیوں پر جانے والا قصہ جو اِس طرح مجھول انداز میں ذِکر کیا ہے تو یہ اُن کی طرف سے اِس قصے کی نا درستگی کی طرف اشارہ ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
::::::
دوسرے سوال کا جواب دو حصوں میں جانیے ،
::::::
پہلا حصہ تو یہ مذکورہ بالا پہلے سوال کا جواب ہی ہے ،
::::::
اور دوسرے حصے میں بالخصوص امام بخاری رحمہُ اللہ کے علمی اور اخلاقی منھج بارے مطابق یہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ امام بخاری رحمہ ُ اللہ کی بہترین اور عمیق فقہ کے حِکمت والا اندازء رَد رہا ہے کہ وہ کسی روایت کے بعد میں کسی ایسی بات کا ذِکر کرتے ہیں جو کہ اُس صحیح روایت کے خلاف ہوتا ہے ، یعنی ، اُس صحیح روایت کو دلیل بنا کر وہ اُس بات کو غلط ثابت کرتے ہیں ،
اِس کی ایک مثال تو ‘‘‘‘‘صحیح البخاری کی پہلی حدیث پر اعتراضات کا جائزہ، الحمد للہ یہ حدیث شریف قران حکیم کے عین مطابق ہے’’’’’میں پیش کر چکا ہوں ،
اُمید ہے کہ اِن شاء اللہ یہ سب مذکورہ بالا معلومات یہ جاننے، اور سمجھنے کے لیے کافی ہوں گی ، کہ اس مضمون میں زیر مطالعہ لائی گئی صحیح بخاری کی وحی کی ابتداء اور پھر وحی کے نزول میں رکاوٹ کے زمانے کے واقعات سے متعلق یہ روایت جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا دکھ کی وجہ سے پہاڑوں کی چوٹیوں پر تشریف لے جانے کےقصے کا ذِکر ہے ، یہ روایت ، اِس قصے کے ذِکر کے علاوہ امام بخاری رحمہ ُ اللہ کی شرائط ، اور امام مسلم رحمہُ اللہ شرائط کے مطابق بالکل صحیح ثابت شدہ ہے ،و للہ الحمد ،
اور اس طرح یہ شک بھی دُور ہو جاتا ہے کہ اِمام بخاری رحمہُ اللہ نے اپنی صحیح میں کوئی ضعیف روایت بھی بطور صحیح روایت لکھی ہے ، اور یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ایسی چند ایک روایات جو صحیح بخاری میں تو ہیں لیکن امام بخاری کی شرائط کے مطابق صحیح نہیں ہیں ، وہ روایات اِمام بخاری نے اُن روایات پر رد کرتے ہوئے ذِکر کی ہیں ۔ و الحمد للہ ، الذی لا تتم الصالحات الا بعونہ ،
آخر میں ، اس ضروری نکتے کی طرف آپ سب کی مکمل توجہ مبذول کرنا چاہتا ہوں کہ یہ سب تحقیقات اس معاملے کی واضح گواہی ہیں کہ ہمارے محدثین کرام رحمہم اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے منسوب روایات کو یُوں ہی جمع نہیں کر چھوڑا ، بلکہ انتہائی باریک بینی اور جانفشانی سے ان روایات کو پرکھا ہے حتیٰ کہ ان کے اجزاء تک کو بھی پرکھا ہے ، لہذا خوب یاد رکھیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے آخری دِین ، آخری شریعت کے دوسرے مصدر ، سُنّتء رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پرکھ ، صفائی اور حفاظت کے لیے بہت عظیم الشان کام لیا ہے ، اور لے رہا ہے ،
اگر کوئی اپنی جہالت ، نالائقی یا ضد اور تعصب کی وجہ سے محدثین کرام رحمہم اللہ کی محنتوں کو سمجھتا نہ ہو ، یا سمجھ کر بھی نا سمجھ بنتا ہو تو وہ اُس شخص میں کمی اور نقص کی علامات میں سے ہے ، بلکہ اگر اسی حال میں مر جائے تو آخرت کی زندگی میں اُس کی بد بختی کی علامات میں سے ہے ،
کسی شخص کی جہالت ، نالائقی ، ضد ، تعصب ، خودپرستی ،وغیرہ محدثین کرام رحمہم اللہ کے کام میں کمی یا نقص کی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی روایات حدیث کو بالکلیہ رد کردینے کی کوئی دلیل ہے ، اور نہ ہی صحیح ثابت شدہ احادیث مبارکہ پر اعتراضات وارد کرنے یا اُن کا انکار کرنے کی کوئی سبب ہے ،
اللہ جلّ و علا ، ہم سب کو ، اور ہمارے ہر مسلمان بھائی اور بہن کو اُس کا دِین اُسی طرح سمجھنے ، اپنانے اور اُس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطاء فرمائے جِس طرح اللہ نے یہ دِین اپنے نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک پر نازل فرمایا ، اور اُن کی ذات مبارک کے اقوال ، افعال اور تقاریر کے ذریعے اُس کی شرح ، تفسیر اور تکمیل فرمائی ، اور اسی کے عین مطابق عمل پیرائی کی حالت میں موت نصیب فرمائے ، والسلام علیکم۔ عادل سہیل

اب مضمون کا جواب پڑھ لیں۔



اس روایت کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداء سونے کی حالت میں سچے خواب کے ذریعہ ہوئی۔
اب سوال یہ ہے کہ جب وحی کی ابتدا ہوئی اس وقت غالباً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ولادت بھی نہیں ہوئی تھی پھریہ بات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو کس نے بیان کی ؟؟؟

کتاب امام  بخاری  کا  ختم  نبوت  پر ڈاکہ

یہاں میں بخاری جلد اول کے باب کیف کان بدأ الوحی کی حدیث نمبر3 پر تبصرہ کرنا چاہتا ہوں ۔ چونکہ حدیث خاصی لمبی ہے اس لئے طوالت کی وجہ سے اس کا سارا متن نقل نہیں کررہا ہوں۔اس لئے متعلقہ جملے نقل کرکے تبصرہ کرتاچلوں گا ۔
 یہ حدیث وحی کی ابتدائی کیفیت بیان کرنے کے لئے بنائی گئی ہے ۔
 اس کی روایت حضرت بی بی عائشہؓ کی طرف منسوب کی گئی ہے جبکہ وحی کی ابتداء کا تعلق ،عمرؓ اور رفاقت رسول کے لحاظ سے بی بی خدیجہؓ سے بنتا ہے ۔

بہرحال حدیث کے ابتدائی الفاظ یہ ہیں کہ :
اول مابدی بہ رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم من الوحی الرؤیا الصالحہ فی النوم ۔
 وحی کی ابتدا رسول ؐ  کو نیک صالح خوابوں سے کرائی گئی اور وہ خواب ایسے تھے کہ
 لایری الا جاء ت مثل فلق الصبح
یعنی وہ خواب صبح صادق کی طرح صاف اور واضح ہوتے تھے۔

جناب معزز قارئین !
 حدیث ساز امام لوگ وحی کی ابتدا ء کو خوابوں سے جو ملا رہے ہیں تو یہ ان کی ایک بہت بڑی اور گہری سازش ہے کہ رویاء صالحہ یعنی نیک خوابوں کو وحی سے خلط ملط کرنے کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں ۔ اس سازش کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ بخاری صاحب کے مجموعہ حدیث کے
 باب الرویاء الصالحہ جزء من ستتہ و اربعین جز ئا من النبوۃ
پڑھ کر دیکھیں جس میں بخاری صاحب نے نیک خوابوں کو نبوت کا چھیالیسواں حصہ قرار دے کر ختم نبوت کا کھلم کھلا انکار کیا ہے اور وہاں لائی ہوئی حدیث میں ابو ہریرہ کے نام سے روایت لکھی ہے کہ نبوت میں سے اب صرف نیک صالحہ خواب ہی باقی بچے ہیں ۔

 جناب قارئین کرام !
 وہاں کی چار حدیثوں میں سے ایک حدیث کا راوی امام زہری صاحب ہے تو یہاں ابتداء والی حدیث نمبر3کے راویوں میں بھی زہری صاحب موجود ہیں اور یہاں بھی نبوت اور رسالت کے مشن میں دراڑ ڈالنے کے لئے وحی کی ابتداء نیک صالح خوابوں سے کرارہے ہیں ۔

 قارئین کرام !
 خواب خواب ہوتے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ وہ سارے واجب التعمیل ہوں چہ جائیکہ وہ صالحین اور نبیوں کے ہی کیوں نہ ہوں جس طرح حضرت ابراہیم کا خواب دیکھنا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کررہے ہیں اور آپ نے خواب کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے لٹایا تو حکم ربی آیا کہ اے ابراہیم تو نے اپنا خواب سچا کردکھایا ۔ یہ تیرا خواب تھا ہمارا حکم نہیں تھا ۔ ہم اسماعیل کو اس سے بھی زیادہ اور بڑھ کر ذبح عظیم کے لئے قبول کررہے ہیں یعنی اپنے گھر کا پاسبان بنانا چاہتے ہیں ۔
امام بخاری کی حدیث نمبر3میں زہری اینڈ کمپنی مزید لکھتے ہیں کہ
 ثم حبب الیہ الخلا ء وکان یخلوا بغار حراء فیتحنث فیہ وھوالتعبد اللیالی ذوات العدد قبل ان ینزع الی اھلہ ویتزود لذالک ثم یرجع الی خدیجہ فیتزودلمثلھا۔
حدیث کے اس حصہ میں حدیث سازوں نے خوابوں کی اہمیت جتانے کے بعد دواور خانقاہی نظام کی چیزیں متعارف کرانے کی کوشش کی ہے ۔ایک تنہائی پسندی اور دوسراغاروں میں زندگی گزارنے کو بھی اہمیت دی ہے۔ جس سے یہ لوگ نبوت کو خلوت نشینی ،ترک دنیا والے زہد اور غاروں میں رہنے کا ایک ارتقائی عہدہ قرار دینے کی سازش کررہے ہیں اور نبوت اور رسالت کی تحریک کو یہ لوگ کائنائی قیادت سے ہٹا کرغاروں میں بند کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے عالمی سرمایہ دار اور جاگیر دار آقاؤں کے لئے لوگوں کے استحصال کے راستے کھلے رہیں اور ان کی استحصالیت کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ رہے ۔
حدیث ساز اور فقہ ساز اماموں نے اس طرح کے مذاہب انبیاء ؑ کے مقابلہ میں ہر دور میں بنائے ہیں ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہر دور کے فرعونوں نے اپنے دور کے موسیٰ کے مقابلے میں اپنے ہامانوں سے وحی کی تعلیم کے مقابلے میں جھوٹے مذاہب بنواکر اپنی اپنی خدائی مسلط رکھنے کے حیلے کئے ہیں لہٰذاان ہامانوں کے باطل مذاہب جن کے ذریعے لوگوں کو غاروں میں چھپ کر پتھروں یا مالاؤں کے دانوں پر اللہ کے ناموں کی گنتی کو ذکراللہ قرار دیاجاتا ہے ان غلط تصورات کو مٹانے کے لئے اللہ نے اپنے آخری نبی کے لئے فرمایا :
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (61:9)
وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے اور سب دینوں پر غالب کرے خواہ مشرکوں کو برا ہی لگے۔
میرا یہ رسول دین حق اور ہدایت والے دین کے ساتھ آرہاہے جو جملہ باطل مذاہب کو مٹائے گا اور دین حق کو ان سب پر غالب کرے گا۔

 محترم قارئین!
 رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم اور اس کے اصحابؓ نے یہ سب کچھ کرکے دکھایا ۔ دنیا سے قیصریت ،کسرویت اور قارونیت کو ختم کرکے دکھایا ۔ صدیوں تک اس انقلاب نے انسانوں کو غلامی سے آزاد کئے رکھا۔ جس سے اللہ کا وعدہ سچا ثابت ہوا ۔ لیکن شکست خوردہ مافیا نے اپنے کرائے کے دانشوروں سے قرآن کے مقابلہ میں قرآن کے فلسفہ حیات کو رد کرنے کے لئے قرآن کی تفسیر اور تشریح کے نام پر رسول اللہ اور اس کے صحابہ کرام سے منسوب کردہ احادیث اور فقہ کے علوم ایجاد کئے جنہیں وہ باطنی طریقوں سے تقیہ کے نام پر زیر زمین چھپا کر لکھتے رہے اور جب منگولوں اور تاتاریوں کے ہاتھوں مسلمان مکمل طور پر شکست کھا گئے۔ اور سقوط بغداد کے بعد اقتدار اعلیٰ کھو بیٹھے تو کسروی اساورہ کے امامیاتی علوم کے دفینے رفتہ رفتہ تقیہ کے نقاب اتار کر مسلمانوں کی درسگاہوں اور عدالتوں پر سے قرآن کو ہٹا کر خود براجمان ہوگئے جس طرح آج مساجد کے اندر قرآن حکیم کے نسخے الماریوں میں بند ہیں۔
اگر کوئی انہیں پڑھتا بھی ہے تو بن سوچے سمجھے طوطے کی طرح رٹنے کو ثواب سمجھ کر پڑھتا ہے اور قرآن کی بجا ئے سمجھنے سمجھانے کے لئے مساجد کے منبروں پر رائیونڈ اور نظام الدین اولیاء دہلی کے مراکز کی تبلیغی جماعت کے کورس کی کتاب قبضہ کئے بیٹھی ہے۔
اس نام نہاد خلوت نشینی اور غاروں میں رہنے کی اہمیت کے لئے صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ جس شخصیت کو اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین کا تاج پہناکر حکمران بنانا ہے اس کے لئے بخاری اور اس کے استاد راوی صاحبان لکھتے ہیں کہ ثم حبب الیہ الخلا ء اسے خلوت نشینی محبوب ہوگئی اور وہ غار حرا میں اکیلے جاکر عبادت کرتے تھے ۔

معزز قارئین!
 غور فرمایا جائے کہ جس شخصیت سے کل اعلان کرانا ہے کہ :
قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
ۖ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (7:158)
(اے محمدﷺ) کہہ دو کہ لوگو میں تم سب کی طرف خدا کا بھیجا ہوا (یعنی اس کا رسول) ہوں۔ (وہ) جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی زندگانی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ تو خدا پر اور اس کے رسول پیغمبر اُمی پر جو خدا پر اور اس کے تمام کلام پر ایمان رکھتے ہیں ایمان لاؤ اور ان کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پاؤ۔
قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا
 اے لوگو! بلا شبہ میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔
 تو کیا جس شخص کوگم کردہ راہ انسانوں کی رہنمائی اور انہیں راہ راست پر لانے کے لئے منتخب کیا ہووہ خلوت گاہیں اور غاروں کو پسند کر ے گا؟ بگڑی ہوئی انسانیت کی اصلاح کے لئے اور نیا جہان آباد کرنے اور فرعونیت سے ٹکر لینے کے لئے انقلابی ساتھیوں اور لشکروں کی بھرتی کرنے والا ایسا آدمی ہوگا جو غاروں کی خلوت گاہوں کو محبوب رکھتا ہو ۔؟ مقام نبوت و رسالت ایسا ہے جس کا اہل شخص دنیا کے فرعونوں اور ہامانوں کو میدانوں میں، کھلی فضاؤں میں جنگ لڑنے کا چیلنج کرے ۔ مگر بخاری ، زہری اور طبری اینڈ کو اپنی حدیثوں کے ذریعے رسول انقلاب کو بڑی فنکاری اور ہنر مندی سے جنگی میدانوں کے قرآنی تعارف سے موڑ کر غاروں کی خلوت گاہوں کا خانقاہی نشان بنانا چاہتے ہیں ۔ یہاں سے اندازہ لگایا جائے کہ قرآن والے رسول اور حدیثوں والے رسول میں کتنا فرق ہے ۔ حدیثوں والاان کا رسول بقول بخاری فرماتا ہے فتنے کے دنوں میں کچھ بکریا ں لے کر پہاڑ کی چوٹی پر جا کر زمانے والوں سے کٹ کر سو جاؤ جبکہ قرآن والا اللہ کا رسول دنیا کے فتنہ بازوں اور انقلاب دشمنوں کو للکار تا ہے کہ :
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ
ۖ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ (2:193)
اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہنا کہ فساد نابود ہوجائے اور (ملک میں) خدا ہی کا دین ہوجائے اور اگر وہ (فساد سے) باز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں (کرنی چاہیئے) ۔
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ
ۚ فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (8:39)
اور ان لوگوں سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ (یعنی کفر کا فساد) باقی نہ رہے اور دین سب خدا ہی کا ہوجائے اور اگر باز آجائیں تو خدا ان کے کاموں کو دیکھ رہا ہے۔
 وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ (2:193) (8:39)
 لڑو ان فتنہ بازوں سے یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور نظام الٰہی قائم ہوجائے ۔

میں قارئین سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ غور فرمائیں اور فیصلہ کریں کہ حدیثوں والے مذہب ورسول میں اور قرآن والے اسلام ورسول میں کتنا فرق ہے۔ بخاری کی حدیث نمبر 3میں مزید لکھا ہے کہ :
حتی جاء الحق وھو فی غار حرا ء فجاۂ الملک فقال اقرأ فقال قلت ماانا بقارئ قال فاخذنی فغطنی حتی بلغ منی الجہد ثم ارسلنی فقال اقرأ فقلت ماانا بقارئ فاخذنی فغطنی الثانیہ حتی بلغ منی الجہد ثم ارسلنی فقال اقراء فقلت ماانا بقارئ قال فاخذنی فغطنی الثالثہ ثم ارسلنی فقال اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ خَلَقَ الِاْ نْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَ کْرَمُ فرجع بھا رسول اللہ یرجف فوادہ۔
 رسول اللہ پر غار حرا میں پہلی وحی آئی ۔ ملائکہ نے آکر کہا کہ اقرأ یعنی پڑھ۔ تو رسول اللہ نے اسے کہا کہ میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔تو اس نے مجھے پکڑ کر زور سے بھینچا اس حد تک کہ مجھے تکلیف پہنچی بعد میں پھر کہا کہ پڑھ ۔ میں نے پھر دوبارہ کہا کہ میں ان پڑھ ہوں تو اس نے پھر پہلے کی طرح پکڑ کر بھینچا جس سے مجھے بڑی تکلیف پہنچی ۔ اس کے بعد پھر تیسری بار بھی کہا کہ پڑھ ۔
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (96:1)
(اے محمدﷺ) اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے (عالم کو) پیدا کیا۔
 خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (96:2)
جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا۔
اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (96:3)
پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے۔
 تو حضور ؐ نے دھڑکتے ہوئے دل سے وہی کچھ پڑھا جو جبریل نے کہا ۔

قارئین کرام !
 یہاں ان حدیث ساز راویوں کی کاریگری کھل کر سامنے آئی ہے ان کی اس حدیث میں آپ نے ابھی پڑھا کہ اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے ایسے شخص کو پڑھنے کا حکم دے رہے ہیں جو ان پڑھ ہے ۔ تو کیا اللہ تعالیٰ اس بات سے بے خبر تھے کہ میں کس کو پڑھنے کا حکم دے رہا ہوں جو پڑھا ہوا بھی نہیں ہے ۔ کیا یہ اللہ تعالیٰ کی شان اور مرتبہ کے ساتھ ان حدیث سازوں کا مذاق نہیں ہے ؟ کیا ان حدیثیں بنانے والوں کا پول اس بات سے کھل نہیں جاتا کہ حضور ؐ اقدس نبوت ملنے سے پہلے لکھنا پڑھنا جانتے تھے ۔ ان پڑھ نہیں تھے، یہ بات تو خود قرآن نے بھی بتائی ہے اور وہ بھی دشمنوں کی زبان سے ایسی شہادت دلائی ہے کہ ان حدیث ساز وں کو ایسی حدیثیں بنانے پر ہر شخص کہہ سکے کہ تم نے یہ جھوٹی حدیث بنائی ہے قرآن کا فرمان یہ ہے کہ :
وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا (25:5)
اور کہتے ہیں کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جس کو اس نے لکھ رکھا ہے اور وہ صبح وشام اس کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔
یعنی دشمن کہتے ہیں کہ یہ رسول ؐ پہلے خود پچھلے زمانہ کے لوگوں کے قصے لکھ کر پھر صبح و شام اپنے ساتھیوں کو وحی کا کلام کہہ کر لکھواتا ہے ۔

محترم قارئین!
 اب بتائیے کہ حضوؐر کے زمانے کے مخالفین کی شہادت قرآن نے بتائی ہے کہ وہ بھی جانتے تھے کہ محمد ؐ لکھنا پڑھنا جانتے ہیں ۔تو اس طرح قرآن حکیم کی اس ایک آیت مبارکہ نے ہی بخاری اور اس کے اساتذہ زہری اینڈ کمپنی کی بنائی ہوئی حدیث جعلی اور جھوٹی ثابت کردی ۔
حدیث ساز فیکٹری والوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ پھر حضوؐر غار سے نکل کر جلدی جلدی گھر کو گئے اور بی بی خدیجہ سے فرمایا کہ جلدی جلدی مجھے کمبل اوڑھاؤ۔جب کچھ دیر بعد خوف کی کیفیت کم ہوئی توبی بی صاحبہ سے غار میں پیش آ یا ہواماجرا بیان کیا اور فرمایا کہ مجھے خطرہ ہے میں ڈرتا ہوں ۔ تو جواب میں بی بی صاحبہ فرماتی ہیں
کلا واللہ ما یخزیک اللہ ابدا ۔
 ہر گز نہیں ! اللہ آپ کو کبھی بھی خوار نہیں کرے گا آپ تو صلہ رحمی کرنے والے اور کمزوروں کی مدد کرنے والے، غریبوں کے لئے کمانے والے اور مہمان نواز اور حق کی راہ میں تکلیفیں برداشت کرنے والے ہیں اللہ آپ کو کیسے خوار کرے گا ۔
اس گفتگو سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جبرئیل سے ملاقات کا رسول پر ایسا منفی اثر پڑا جو حدیث بنانے والوں نے دکھایا ہے۔ کہ رسول کا دل کانپنے لگا اور گھر پہنچ کر بھی خوف طاری رہا اوروحی سے اسے اپنے خوار ہونے کا ڈر تھا ۔

جناب قارئین !
 حدیث کے ان جملوں کو اکٹھا کر کے سوچیں کہ رسول وحی کا کیا اثر لے رہے ہیں ۔جب کہ اس ملاقات کا قصہ گھڑنے والوں کے منہ پر مارنے کے لئے قرآن نے بتایا ہے کہ وہ تو ایک کیف بھری ملاقات تھی۔
مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى (53:11)
جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ مانا ۔
 محمد کو رسالت کا جو اعزاز ملا، مقام و مرتبہ ملا منزل ملی یعنی جو کچھ بھی آنکھوں نے دیکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مقام رسالت پر فائز فرمایا ہے تو دل نے بھی اس مشاہدہ کی تصدیق کی یعنی نبی دل سے اپنے اوپر وحی آنے کی تصدیق کرچکے اور ایمان لائے اور جبرئیل کی ملاقات کو نہ جھوٹ سمجھا اور نہ غلط قرار دیا بلکہ
آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ
ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (2:285)
رسول (خدا) اس کتاب پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور مومن بھی۔ سب خدا پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں (اورکہتے ہیں کہ) ہم اس کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور وہ (خدا سے) عرض کرتے ہیں کہ ہم نے (تیرا حکم) سنا اور قبول کیا۔ اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
 آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ
اپنے اوپر نازل کردہ کلام پر سب سے پہلے خود ایمان لے آئے۔
 اب جولوگ حدیثوں کو ہی دین کی تفصیل و تعبیر قرار دیتے ہیں وہ ذرا سوچیں کہ اس حدیث میں زہری نے کیا زہر بھرا ہے کہ رسولؐ تواپنے اوپر نازل ہونے والے کلام پر سب سے پہلے خود ایمان لے آئے مگرزہری کہہ رہا ہے کہ: بی بی صاحبہ تسلی دے رہی ہیں کہ ڈرو نہیں اللہ تمہیں خوار نہیں کرے گا ۔ کیا حدیث میں بتائی ہوئی رسول کی یہ کیفیت
آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ
سے میل کھاتی ہے ؟
 حدیث کے قصے میں تو رسول کے لئے جبرئیل کا تصور ہی خوف زدگی والا وحشت ناک بنا دیا ہے ۔
حدیث میں حضوؐر کی حیثیت ایسی بتائی گئی ہے کہ جیسے آج کل کے دور میں کچھ مریضوں کو دماغی دورے پڑتے ہیں تو گھر کی بڑی بو ڑھی گاؤں کے کسی پروہت ، تعویذی ملا یا کسی خانقاہی پیر سے ماجرا بیان کرکے کوئی  نسخۂ  شفاء  لے کرآتی ہے ۔بالکل اسی طرح بخاری کی حدیث میں دکھایا گیا ہے کہ حضوؐر کی زوجہ بی بی خدیجہ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئی جو ایام جاہلیت میں عیسائی ہو چکے تھے اور بوڑھے ہونے کی وجہ سے نابینا بھی تھے اور ان سے کہا کہ اے میرے بھائی اپنے بھتیجے کی بات سنو! تو اس نے رسول اللہ سے کہا کہ تم رسول بن چکے ہو یہ وہ ناموس ہے جو موسیٰ پر نازل ہوا تھا ۔
اب بتائیے کہ ایک فرضی شخص ورقہ بن نوفل کے نام سے یہ جھوٹی حدیث بناتے وقت زہری اینڈ کو نے ناموس رسالت کی تشبیہہ حضرت موسیٰ سے دی ہے یہ تمثیل بھی کوئی تو معنی رکھتی ہوگی۔ میرے خیال میں یہ حدیث ساز ٹولہ اس سے بھی حضوؐر کی تنقیص کا پہلو ظاہر کرنے کی ٹھانے ہوئے ہے ۔ وہ یہ کہ حضرت موسیٰ پر جوپہلی وحی قرآن نے
بیان کی ہے اس میں موسیٰ سے رب تعالیٰ فرماتے ہیں کہ :
إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ
ۖ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى (20:12)
میں تو تمہارا پروردگار ہوں تو اپنی جوتیاں اتار دو۔ تم (یہاں) پاک میدان (یعنی) طویٰ میں ہو۔
اس پہلی وحی میں اس سے آگے موسیٰ سے سوال کیا جا تا ہے کہ اے موسیٰ تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے توموسیٰ اللہ کی محبت اور چاہت میں صرف ضروری جواب پر اکتفا کرنے کی بجائے جواب کو بہت لمبا کرگئے ہیں کہ میرے ہاتھ میں لاٹھی ہے میں اسے بہت سارے کاموں میں استعمال کرتا ہوں ۔ بکریا ں چراتے چراتے تھک جاتا ہوں تو اس پر تکیہ لگا کر کھڑا ہوتا ہوں، بکریوں کو موڑنے کا کام لیتا ہوں ،اس سے میری کئی اور حاجتیں بھی پوری ہوتی ہیں ۔ اس طرح حدیث سازلوگوں نے ثابت کیا ہے کہ موسیٰ کو پہلی وحی میں ہی اللہ سے ایسی لگن ہوجاتی ہے کہ وہ اپنی حاجتیں گنوانا شروع کردیتے ہیں جب کہ اس حدیث کے رو سے آخری رسولؐ پہلی وحی کے وقت خوف زدہ ہوکر بھاگ اٹھتے ہیں اور اپنی بیوی کے پاس پہنچ کر کہتے ہیں کہ میں خوف زدہ ہوں مجھے کمبل اُڑھاؤ ۔
اس حدیث کے آخری حصہ میں بخاری صاحب نے زہری صاحب کی سند سے لکھا ہے کہ اس پہلی وحی کے بعد کافی عرصہ تک وحی کا سلسلہ منقطع رہا تو اس عرصہ میں حضوؐر کہیں جار ہے تھے کہ اچانک آسمان سے آواز سنائی دی ۔میں نے اوپر دیکھا تو وہی فرشتہ جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا وہ زمین اور آسمان کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا نظر آیا ۔ مجھ پر پھر اس کا رعب چھاگیا اور میں یہ ماجرا دیکھتے ہی واپس گھر کو لوٹ آیا اور آ کر کہا کہ زملونی زملونی مجھے کمبل اُڑھاؤ ۔پھر اس کے بعد سورت مدثر نازل ہوئی۔

جناب قارئین کرام !
قرآن حکیم کا اسلوب بتاتا ہے کہ اللہ کو اپنے رسول اوراس کے ساتھیوں کی پریشانی کبھی بھی گوارا نہیں ہوتی تھی ۔جب بھی کبھی ایسی صورت حال پیدا ہوئی تو قران حکیم بتاتا ہے کہ :
ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنْزَلَ جُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُوا
ۚ وَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ (9:26)
پھر خدا نے اپنے پیغمبر پر اور مومنوں پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی (اور تمہاری مدد کو فرشتوں کے) لشکر جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے (آسمان سے) اُتارے اور کافروں کو عذاب دیا۔ اور کفر کرنے والوں کی یہی سزا ہے۔
 ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ
اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر سکون اور طمانیت قلب نازل کرتا ہے ۔ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ وحی اور حامل وحی فرشتہ رسول اللہ کے لئے خوف اور ڈر پیدا کرنے والا نہیں ہوتا بلکہ سکون قلب پیدا ہوتا ہے ۔

فتنۂ انکارِ قرآن ،  کب اور کیسے ؟

Fitna Inkar e Quran, Rejection of Quran, When & How?
Fitnah Inqar e Quran Kab or Kaisay

از قلم : عزیزاللہ بوھیو
Azizullah Bohio

No comments:

Post a Comment