Saturday, November 24, 2012

احادیث کے نام پر قران کو مشکوک بنانے کی کوشش



احادیث کے نام پر قران کو مشکوک بنانے کی کوشش


نوشاد احمد نےلکھا۔

احادیث کے نام پر قران کو مشکوک بنانے کی کوشش

لاہور سے اہل حدیث حضرات کا ایک ماہنامہ نکلتا ہے جس کا نام ہے ’’رشد ‘‘سرپرست ہیں اس کے جناب حافظ عبد الرحمٰن مدنی ۔جون ۲۰۰۹ میں اس کا قراات نمبر حصہ اول شائع ہوا جس میں بتایا گیا ہے کہ بر صغیر پاک و ہند میں قران کرم کی جو قرات رائج ہے وہ براویت حفص ہے جبکہ مختلف اسلامی ممالک میں اس قرات کے بر عکس ’’روایت ورش ‘‘ ’’روایت دوری‘‘اور روایت قالون ‘‘میں بھی قران مجید کے نسخے موجود ہیں اور یہ لوگ صدیوں سے روایت حفص کے بجائے ان قراتوں کے ساتھ قران مجید پڑھتے چلے آرہے ہیں۔اور قران مجید کی یہ مختلف قراتیں احادیث سے ثابت ہیں ۔کیوں کہ ان حضرات کے نزدیک قران مجید اللہ نے سات حروف پر نازل کیا ہے اور اس سات حروف سے مراد اس کی سات مختلف قرائتیں ہیں اس لیئے قران مجید کو ان سات میں سے جس قرات کے ساتھ بھی پڑھا جائے درست ہے ۔قران مجید سات حرفوں میں نازل ہونے کے بارے میں کئی احادیث بھی ہیں ہم صرف یہاں ایک دو احادیث نقل کرتے ہیں۔


’’
حضرت عمر کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کی زندگی میں ہشام بن حکیم کو سورہ فرقان پڑھتے سنا۔میں نے جب ان کی قرات کی طرف کان لگائے تو وہ بہت سے ایسے بہت سے حروف پڑھ رہے تھے جو رسول اللہ نے مجھے نہیں پڑھائے تھے ۔قریب تھا کہ میں نماز ہی میں ان پر جھپٹ پڑوں،لیکن میں نے انتظار کیا یہاں تک کہ انھوں نے سلام پھیر لیا۔پھر میں نے ان کو ان کی (یا فرمایا اپنی)چادر سے کھینچا اور پوچھاکہ تمہیں یہ سورت کس نے پڑھائی ہے؟انہوں نے جواب دیا مجھے یہ سورت رسول اللہ نے پڑھائی۔میں نے ان سے کہا تم غلط کہتے ہو۔اللہ کی قسم یہ سورت جو میں نے تمہیں پڑھتے سنا ہے۔مجھے رسول اللہ نے پڑھائی ہے۔پھر میں ان کو کھینچتا ہوا رسول اللہ کے پاس لے گیااور کہا یا رسول اللہ میں نے ان کو سورہ الفرقان ان حروف پر پڑھتے ہوئے سنا جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائے حالانکہ آپ ہی نے مجھے سورہ فرقان پڑھائی ہے۔رسول اللہ نے فرمایا اے عمر انہیں چھوڑ دو۔پھر فرمایا اے ہشام تم پڑھوتو انہوں نے وہی قرات پڑھی جو میں نے انہیں پڑھتے ہوئےسنا تھا۔رسول اللہ نے فرمایا یہ سورت اسی طرح نازل کی گئی ہے ۔پھر رسول اللہ نے فرمایا یہ قران سات حروف پر نازل کیا گیا ہے جو چاہو پڑھو‘‘۔ صحیح بخاری ۲۴۱۹

امام احمد اپنی مسند میں نقل کرتے ہیں
’’
حضرت عمرو سے روایت ہے کہ ایک شخص نے قران کی ایک آیت پڑھی۔اس شخص سے عمرو نے کہا یہ آیت تو اس اس طرح ہے۔پھر اس کا ذکر رسول اللہ سے کیا توآپ نے فرمایا یہ قران سات حروف پر نازل کیا گیا ہے ۔جو حروف بھی تم پڑھو وہ درست ہے ۔لہذا آپس میں جھگڑا مت کرو۔‘‘ مسند احمد ۴۔۲۰۴
نہ جانے رسول اللہ کے زمانے میں اس اختلاف کی نوعیت کیا تھی مگر آج ہمارے سامنے ماہنامہ رشد کا قراات نمبر حصہ اول ہے جس میں مختلف اہل قلم کے مضامین ہیں اور انھوں نے سارا زور اس بات پر صرف کیا ہے کہ اختلاف قرات رسول اللہ کے زمانے میں بھی موجود تھا اوراگر آج بھی برصغیر پاک و ہند میں رائج قرات کے سوا کسی اور قرات سے قران مجید پڑھا جائے تو یہ غلط نہیں ہے
بلکہ بعض جگہ تو قران کی آیات سمجھنے کے لیئے ضروری ہے کہ مروجہ قرات کی جگہ دوسری قراتوں کو اختیار کیا جائے مثلا اسی قرات نمبر کے صفحہ نمبر ۳ پر جناب حافظ نعیم الرحمٰن ناصف فاضل جامعہ لاہور الا اسلامیہ،رکن مجلس تحقیق الا اسلامی لاہور لکھتے ہیں کہ۔۔۔
’’
تفسیر کا معنی ہے الفاظ قرانیہ کا مفہوم اس طرح پوری وضاحت سے بیان کر دیا جائےکہ اس میں کوئی ابہام یا اجمال باقی نہ رہے۔سو جہاں اس مقصد کے لیئے دیگر علوم معاون ثابت ہوتے ہیں وہیں علم قراات بھی مجمل الفاظ کی تفصیل اور ابہام کی تو ضیح کرتا نظر آتا ہے مثلا
ارشاد باری تعالی ہے :۔
وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ( سورہ النسا آیت ۱۲)
آیت مذکور میں اخ اور اخت میں ابہام ہے کہ وراثت کی تقسیم میں ذکر کیا گیا حصہ کس بھائی اور بہن کا ہے ؟حقیقی (سگے)بھائی اور بہن مراد ہیں ،علاتی(جو باپ کی طرف سے ہوں)یا اخیافی(جو ماں کی طرف سے ہوں)تو دوسری قرات میں اس کی وضاحت یوں موجود ہے۔ولہ اخ او اخت من ام۔یعنی جو اخیافی بھائی بہن ہوں ان کا وراثت میں یہ حصہ ہے۔‘‘
حافظ نعیم صاحب دوسری مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں
’’
دوسری مثال:۔قسم کا کفارہ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ
فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ
(
ایسی قسم توڑنے کا )کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو وہ اوسط درجے کا کھانا کھلائو جو تم اپنے بال بچوں کو کھلاتے ہو یا انھیں کپڑے
پہنائو یا ایک غلام آزاد کرو۔ سورہ المائدہ آیت نمبر ۸۹
آیت بالا میں بھی لفظ ’’ رقبۃ‘‘ کی وضاحت موجود نہیں کہ قسم کا کفارہ دیتے ہوئے اگر غلام آزاد کرنا مقصود ہو تو کیا غلام میں کوئی تمیز موجود ہے کہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ؟یا کسی بھی غلام کو آزاد کیا جا سکتا ہے؟تو قرات کا اختلاف ہمیں بتاتا ہے کہ اس ضمن میں غلام کا مسلمان ہونا ضروری ہے کیوں کہ دوسری قرات میں ’’رقبۃ‘‘کی صفت ’’ مومنہ‘‘سے بیان ہوئی ہے۔‘‘
آگے حافظ صاحب لکھتے ہیں۔
’’
ارشاد باری تعالیٰ ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ سورہ جمعہ آیت ۹
اے لوگو جو ایمان لائے ہو،جب پکارا جائے نماز کے لیئے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔
مذکورہ بالا آیت میں ذکر ہے کہ جب تمہیں جمعہ کے لیئے ندا دی جائے تو اللہ کے ذکر کے لیئے دوڑو ،جبکہ دوسری طرف صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے۔
’’
حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں میں ن رسول اللہ سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ جب نماز کھڑی ہو جائے تو تم دوڑ کر اس کی طرف مت آئو،بلکہ چلتے ہوئے آئو تم پر اطمینان لازم ہے۔جو پالو پڑھ لو جو رہ جائے مکمل کر لو۔‘‘مسلم ۸۵۷
اب بظاہر دو نصوص کے درمیان تعارض کی کیفییت نظر آرہی ہے۔آیت قرانی کے مطابق نماز جمعہ کے لیئے دوڑ کر آنا چاہیئے ۔جبکہ حدیث نبوی دوڑ کر آنے کے لیئے منع کر ہی ہے۔اب اگر دیگر قرات کو سامنے رکھا جائے تو یہ ظاہری تعارض آسانی سے دور ہو رہا ہے ،مثلا ایک دوسری قرات میں لفظفاسعوجس کے معنی دوڑنے کے ہیں ،کی جگہ لفظ ’ فا مضوا ‘ ہے جو اطمینان اور سکون سے چل کر آنے کا معنی دیتا ہے ۔‘‘

(
اسی قرات نمبر میں صفحہ نمبر ۱۷ سے۳۹ تک ڈاکٹر احمد عیسیٰ المعصراوی صاحب کا ایک مضمون شامل کیا گیا ہے جس کا عنوان ہے ’’ احادیث مبارکہ میں وارد شدہ قراات ۔۔۔۔ایک جائزہ‘‘ ہم اس مضمون میں سے بھی موجودہ قران سے مختلف قراتوں کی مثالیں جناب احمد عیسیٰ کے الفاظ میں ہی پیش کرتے ہیں ۔)
جناب احمد عیسیٰ فرماتے ہیں
’’
امام بخاری نے اپنی الجامع صحیح میں بہت سی قراات کا ذکر کیا ہے جن میں سے ایک حدیث کتاب التفسیر اور کتاب فضائل قران میں اس طرح مذکور ہے کہ
امام بخاری اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے ساتھی ابو الدردا کے پاس آئے تو ابو الدردا نے پوچھا تم میں سے کون حضرت عبداللہ کی قرات پڑھتا ہے؟تو انھوں نے کہا ہم سب ہی حضرت عبداللہ کی قراات پڑھتے ہیں۔تو پھر حضرت ابو الدردا نے پوچھا تم میں سے کس کو سب سے زیادہ یاد ہے؟تو انھوں نے حضرت علقمہ کی طرف اشارہ کیا ۔تو آپ نے (حضرت ابو الدردا نے)ان سے کہا آپ نے حضرت عبداللہ کو سورہ [ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ](سورہ الیل آیت ۱)کیسے پڑھتے ہوئے سنا ہے؟تو حضرت علقمہ نے جواب دیا [ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ،وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ ،وََ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ ](سورہ الیل ۱تا۳)۔
تو حضرت ابو الدردا نے فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ کو ایسے ہی پڑھتے ہوئے سنا ہے۔اور لوگ مجھ سے یہ چاہتے ہیں کہ میں [وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ ]پڑھوں لیکن اللہ کی قسم میں ان کی بات نہیں مانوں گا۔‘‘
(
نوٹ:۔ آپ کے ہمارے پاس قران مجید میں سورہ الیل کی آیت نمبر ۳ ’’ وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىہے جبکہ ابو الدردا کہ رہے ہیں کہ رسول اللہ نے اسے ’’ََ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى پڑھا ہے۔نوشاد)

آگےاحمد عیسیٰ فرماتے ہیں
’’
امام ابو دائود اپنی سنن میں تقریبا چالیس احادیث قراات سے متعلق لائے ہیں جن میں سے ایک حدیث یوں ہے کہ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم نے مجھے [إِنی انا الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ ]الذاریات ۵۸ پڑھایا ہے ۔‘‘
(
نوٹ :۔ ہمارے آپ کے پاس قران کریم میں یہ آیت یوں ہے[ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ ] ۔نوشاد)

آگے احمد عیسیٰ فرماتے ہیں
’’
معاذ بن جبل فرماتے ہیں کہ نبی کریم نے [هَلْ تسْتَطِيعُ رَبُّكَ ](المائدہ ۱۱۲ )پڑھا ہے ۔سنن ترمذی ۲۹۳۰۔الکبیر از طبرانی ۲۰۔۶۹رقم ۱۲۸۔مستدرک حاکم ۲۔۲۳۸ ‘‘
(
نوٹ آپ کے ہمارے پاس قرآن مجید میں یہ آیت یوں ہے[ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ ] یستطیع ی کے ساتھ جبکہ حدیث اس آیت کو ت کے ساتھ تستطیع کہ رہی ہے۔نوشاد)

آگے احمد عیسیٰ فرماتے ہیں
’’
ابن سیرین حضرت انس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے [أَن تَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ ]الا انفال آیت ۶۸ ۔پڑھا ہے۔(مستدرک حاکم ۲۔۲۳۹۔۲۴۰)‘‘
(
نوٹ :۔ ہمارے آپ کے پاس قران مجید میں یہ آیت یوں ہے[أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ ]یکون ی کے ساتھ جبکہ حدیث اسے تکون ت کے ساتھ کہ رہی ہے۔نوشاد)
آگے احمد عیسیٰ فرماتے ہیں
’’
عبد الرحمٰن بن ابزی سے مروی ہے کہابن ابی کعب نے فرمایا[ قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْ تفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا تجمَعُونَ ]سورہ یونس آیت ۵۸۔دونوں کلمات ’’ تفرحو ‘‘ اور ’’ تجمعون‘‘ت کے ساتھ مروی ہیں۔سنن ابی دائود۳۹۸۰‘‘
(
نوٹ:۔ آپ کے اور ہمارے پاس قران مجید میں یہ آیت یوں ہے [ قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْ یفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا یجمَعُونَ ۔]
یعنی ’’ یفرحو‘‘ ی کے ساتھ اور ’’ یجمعون ‘‘ ی کے ساتھ ۔جبکہ ابن ابی کعب ان دونوں کلمات کو ت کے ساتھ مروی کہ رہے ہیں۔نوشاد)
آگے احمد عیسیٰ فرماتے ہیں
’’
ابن ابی کعب سے مروی ہےر سول اللہ نے یوں پڑھا[ قَالَ أَخَرَقْتَهَا لِیُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ ]سورہ الکہف آیت ۷۱۔یا کے ساتھ۔ابن مردویہ بحوالہ کنز العمال۴۸۷۲۔الدر المنثور سیوطی۴۔۴۲۸۔‘‘
(
نوٹ:۔ آپ کے ہمارے پاس قران مجید میں یہ آیت یوں ہے[ قَالَ أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ ]لتغرق ل کے بعد ت کے ساتھ۔جبکہ ابن ابی کعب رسول اللہ سے منسوب کرتے ہیں کہ انھوں نے لیغرق ل کے بعد ی کے ساتھ یہ آیت پڑھی۔نوشاد)

آگے احمد عیسیٰ فرماتے ہیں
’’
ابو امامہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے [تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَنَفَطَّرْنَ مِنْهُ ]سورہ مریم آیت ۹۰۔ی اور ن کے ساتھ پڑھا ہے۔حاکم ۲۔۲۴۵۔‘‘
(
نوٹ :۔ آپ کے اور ہمارے پاس قران مجید میں یہ آیت یوں ہے[ تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ ] یتفطرن۔ ی کے بعد ت کے ساتھ۔جبکہ ابو امامہ کہ رہے ہیں کہ رسول اللہ نے اسے ’’ ینفطرن‘‘ ی کے بعد ن کے ساتھ پڑھا ہے۔نوشاد)
آگے احمد عیسیٰ فرماتے ہیں
’’
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ تلاوت فرماتے وقت پڑھا کرتے تھے [ وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِظَنِينٍ ]ظا کے ساتھ۔سورہ تکویر آیت ۲۴۔مستدرک حاکم ۲۔۲۵۲ ۔‘‘
(
نوٹ آپ کے ہمارے پاس قران مجید میں یہ آیت یوں ہے [ وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ ] ’’بضنین ‘‘ب کے بعد ض کے ساتھ۔جبکہ حاکم حضرت عائشہ سے منسوب کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے اسے ’’ بظنین ‘‘ ب کے بعد ظ کے ساتھ پڑھا ہے۔نوشاد)
آگے احمد عیسیٰ فرماتے ہیں
’’
ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم تلاوت کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ[ کلابَل لَّا یکرِمُونَ الْيَتِيمَ ۔وَلَا یَحَاضُّونَ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ ۔وَیاأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَّمًّا ۔وَیُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا ]]
تمام مقامات پر ی کے ساتھ۔سورہ الفجر آیات ۱۷ تا ۲۰۔مستدرک حاکم ۲۔۲۵۵۔‘‘
(
نوٹ:۔ ہمارےآپ کے پاس قران مجید میں یہ آیات یوں ہیں[ کلا بَل لَّا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ۔وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ ۔وَتَاْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَّمًّا ۔وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا ]]
تمام مقامات پر ت کے ساتھ ’’ تکرمون‘‘ ’’ تحاضون‘‘ ’’ وتاکلون‘‘ ’’ وتحبون‘‘۔جبکہ روایت ان الفاظ کو ی کے ساتھ ’’یکرمون‘‘ ’’یحاضون‘‘ ’’ویاکلون‘‘ ’’ ویحبون‘‘ رسول اللہ کی تلاوت کہ رہی ہے۔نوشاد)

عرض نوشاد
آپ نے دیکھا کہ قران مجید کی مختلف قراتوں کے جواز پر احادیث استعمال کر کے کیسے یہ بتایا جا رہا ہے کہ جو قران آپ کے ہمارے پاس موجود ہے اس میں موجود آیات کے الفاظ کے سوا اور بھی ان سے مختلف الفاظ ہیں جو کہ رسول اللہ سے منقول ہیں ۔اور ان مختلف الفاظ کے پڑھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتاکیوں کہ بقول ان کے رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ قران سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔اس لیئے اگر موجودہ قران مجید میں موجود الفاظ کی جگہ احادیث میں دوسرے منقول الفاظ بھی پڑھے جائیں تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔اب آپ کہتے رہئے کہ قران مجید میں ایک شوشے کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی ہے اور یہ جس طرح رسول اللہ پر نازل ہوا تھا اسی طرح ہمارے پاس موجود ہے اور سورہ حجر میں اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ۔۔۔
’’
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ سوہ الحجر آیت نمبر ۹
بے شک ہم نے ہی اس ذکر(قران)کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘
مگر ان حضرات کا دعویٰ ہے کہ نہیں قران کی مختلف قراتیں تواتر کے ساتھ احادیث سے ثابت ہیں اس لیئے قران کو موجودہ قرات کے علاوہ دیگر قراتوں میں پڑھ لینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ بعض جگہ تو قران کی سمجھ کے لیئے ضروری ہے کہ مروجہ قرات کی جگہ
دوسری قراتوں کو اختیار کیا جائے جیسے حافظ نعیم صاحب کی تحریر سے ہم نے ثابت کیا ہے۔
اس مضمون میں ہم نےاہل حدیث حضرات کے شائع کردہ قراات نمبر کے حصہ اول کے با لکل ابتدائی صفحات سے آپ کو یہ دکھایا ہے کہ کیسے احادیث کے نام پر قران کو مشکوک بنانے اور اس میں وہ الفاظ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو اس میں موجود نہیں ہیں ۔اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ احادیث کے نام پر قران مجید کی خدمت کی جا رہی ہے یا قران مجید کو مشکوک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

عبداللہ حیدر نےلکھا۔

السلام علیکم،
نوشاد بھائی کی باتوں پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ دعا کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے خول سے نکلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ان کی الجھنیں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت سے ہی دور ہو سکتی ہیں۔
درج ذیل لنک سے قرآن مجید بروایت ورش ڈاؤن لوڈ کریں جسے کنگ فھد قرآن کمپلیکس نے شائع کیا ہے:
مصحف برواية ورش ط-مجمع الملك فهد.rar - 4shared.com - online file sharing and storage - download
اور اس لنک سے قاری محمود خلیل الحصری کی آواز میں مکمل قرآن مجید اتار سکتے ہیں جو اسی قراءت کے مطابق تلاوت کیا گیا ہے:
http://www.islamway.com/?iw_s=Quran&iw_a=view&id=181
والسلام علیکم

فاروق سرورخان نے  لکھا۔

برادر نوشاد احمد، سلام علیکم،

اللہ تعالی آپ کو اس نیک کام کی جزائے خیر عطا فرمائیں‌ کہ آپ نے ایک بہترین معاملہ سب کے سامنے پیش کیا۔ اللہ تعالی کی الفاظ‌ میں قرآن حکیم ---- الفرقان --- ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جو دوسری کتب کے لئے کسوٹی ہے۔ یہ فرق بتاتی ہے سچ اور جھوٹ‌کا۔ ہم روایات کی کتب کو قرآن کے محدب عدسے سے دیکھیں‌گے نا کہ ان کتب کی مدد سے قرآن حکیم کو؟؟؟
 
آج ساری دنیا میں قرآن حکیم اپنی اصل صورت میں‌ملتا ہے۔ کہ یہ اللہ تعالی کا فرمان ہے اور اللہ تعالی خؤد اس کی حفاظت فرما رہے ہیں۔ کیا ان روایات سے قرآن حکیم کسی طور بھی تبدیل ہوسکتا ہےِ؟
ممکن ہی نہیں۔
 
آپ ‌خود دیکھ لیجئے کہ ایک ہی کتاب میں‌ایک ہی افراد کی بیان کی ہوئی ایک ہی روایت کے تین تین متن ہوتے ہیں۔ یہ کتب روایات ٹھیک سے یہ بھی نہیں‌ بتا پاتی ہیں کہ قرآن رسول اللہ نے مکمل کس صورت میں‌کاتبوں سے لکھوایا تھا؟؟؟
 
ان کتب روایات میں 25 سے زائید سورتوں کی تشریح‌موجود نہیں‌۔
 
تو یہ کتب کس طور پر یہ تعین کرسکتی ہیں‌کہ قرآن حکیم میں‌ درست کیا ہے۔

قرآن حکیم مسلمان کے سینے میں‌محفوظ ہے۔ کوئی آج تک اس کو تبدیل نہیں‌کرسکا۔ اور نا ہی کرسکے گا۔ یہ روایات خود ان ہی کتب کی بے ساختہ "مظبوطی" کا ثبوت ہیں۔

آپ کا ایک بار پھر شکریہ
والسلام

No comments:

Post a Comment