Friday, November 2, 2012

تعارف : عزیزاللہ بوھیو



تعارف : عزیزاللہ بوھیو

عزیزاللہ بوھیو
Azizullah Bohio
ناشر : سندھ ساگر اکیڈمی
ساکن خیر محمد بوھیو، براستہ نوشہرو فیروز ، سندھ

میں سال 1965 میں دارالعلوم کور نگی کراچی میں دورہ حدیث پڑھاہوں۔ اُس سال دورہ حدیث میں شریک کل تیس طالب علم تھے۔ محترم استاد شیخ الحدیث صاحب نے روایات والے علم حدیث سے متعلق کئی موضوعات پر فرمودات پیش کئے، جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اقوال رسول کو حدیث کا نام اس لئے دیا گیا کہ قرآن ایک قدیم کتاب ہے اس لئے رسول اللہ کے اقوال کو قدیم کے مقابلہ میں حادث اور جدید کے مفہوم کی خاطر حدیث کا نام دیا گیا تاکہ لوگ اسے بھی قرآن نہ سمجھ بیٹھیں ۔


محترم قارئین !
دسویں بار قرآن نے خود کو حدیث کے نام سے تعبیر کیا ہے اور کھلے طریقے سے اعلان فرمایا ہے کہ :
إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ (69:40)
کہ یہ (قرآن) رَسُولٍ كَرِيمٍ کی زبان کا پیغام ہے۔
إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ (81:19)
کہ بےشک یہ (قرآن) رَسُولٍ كَرِيمٍ کی زبان کا پیغام ہے۔
إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ
یعنی یہ حدیثوں سے بھرا ہوا قرآن رسول کریم کا ہی قول ہے۔

محترم استاد شیخ الحدیث کی شان میں تو میں کچھ بھی نہیں کہوں گا۔
میں چہ جائیکہ اس سال دورہ حدیث کے امتحان میں انعامی نمبروں سے پاس ہوا تھا، اس کے باوجود میں اپنے لئے اقرار کرتا ہوں کہ میں قرآن سے بالکل جاہل تھا ۔
میں جس وقت عالم فاضل ہونے کے سال سندالفراغ حاصل کرنے کے بعداس سند الفراغ کو میں اب سندالفراڈ تصور کرتا ہوں۔

میں اس موقع پر اتنا توغبی اغب اور گدھا تھا جو قرآن کے اس اعلان کہ قرآن احسن الحدیث کتاب ہے اور
اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ۚ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۗ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ حَدِيثًا (4:87)
خدا (وہ معبود برحق ہے کہ) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ قیامت کے دن تم سب کو ضرور جمع کرے گا اور خدا سے بڑھ کر بات کا سچا کون ہے؟
وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ حَدِيثًا (4:87)
والی کتاب ہے جیسے کہ قرآن کے ان دعووں کا مجھے پتہ ہی نہیں تھا ۔کہ میں استاد سے پوچھ سکوں کہ حضرت جی آپ جس قرآن کو قدیم کہہ رہے ہیں وہ توخود کو قول رسول کہہ رہاہے ۔رسول تو حادث ہے قدیم نہیں۔
قرآن تو ہم سارے حدیث پرستوں اورقرآن کو حدیث نہ ماننے والوں کو کہہ رہا ہے کہ :
أَفَبِهَذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ (56:81)
کیا تم اس کلام سے انکار کرتے ہو؟
یعنی اے دستار فراغت کے مالک کہلانے والے قرآنی حدیثوں میں تو مداہنت نہ کرو۔
وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ (56:82)
اور اپنا وظیفہ یہ بناتے ہو کہ (اسے) جھٹلاتے ہو۔
یعنی جھوٹ بول بول کر حرام رزق کھا رہے ہو ۔تم نے اپنا کھانا پینا ہی حرام بنادیا ہے۔

محترم قارئین !
میں تو قرآن سے جاہل تھا کہ استاد سے ایسا سوال نہیں پوچھا لیکن میرے 29ساتھیوں میں سے بھی کسی نے اس طرح کا کوئی سوال نہیں پوچھا۔

محترم قارئین !
میں 1983 میں حج پر گیا تھا وہاں مجھے بتایا گیا کہ مدینہ یونیورسٹی اور مکہ المکرمہ کی یونیورسٹی جامعہ ام القریٰ کے وائس چانسلرز دونوں نے لندن سے حدیث اور تفسیر میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔

آخر سارے عالم اسلام اور عالم کفر کے مدارس میں یہ موافقت اور مشابہت کیوں ہے کہ یہ سب کے سب قرآن کو اجمالی کہہ کر علم حدیث کو اس کی تفصیل قرار دے کر قرآن حکیم کے اعلان کہ :
أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا ۚ وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (6:114)
(
کہو) کیا میں خدا کے سوا اور منصف تلاش کروں حالانکہ اس نے تمہاری طرف واضع المطالب کتاب بھیجی ہے اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب (تورات) دی ہے وہ جانتے ہیں کہ وہ تمہارے پروردگار کی طرف سے برحق نازل ہوئی ہے تو تم ہرگز شک کرنے والوں میں نہ ہونا ۔
هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا ۚ
اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہاری طرف تفصیل کی ہوئی کتاب نازل کی ہے ۔
مزید فرمایا کہ
الر ۚ كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ (11:1)
الٓرا۔ یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم وخبیر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہے۔
قرآن ایسی کتاب ہے جس کی جملہ آیات نہایت پختہ اور مضبوط ہیں اور وہ تفصیل کی ہوئی ہیں ایسی ہستی کی طرف سے جو حکیم بھی ہے اور خبیر بھی ہے ۔

تو آخر کیا بات ہے کہ پُرانے سامراج کے جملہ آئمہ فقہ اور آئمہ حدیث قرآن حکیم کے اس اعلان کا انکار کرتے ہوئے مسلسل کہے جارہے ہیں کہ قرآن اجمالی کتاب ہے پھر نیا سامراج یعنی برطانوی تعلیمی ادارے بھی ان اماموں کی اتباع کررہے ہیں اور مسلم دنیا کے علمی ادارے سب کے سب آنکھیں بند کئے ہوئے ان کے پیچھے کہے جارہے ہیں کہ قرآن اجمالی کتاب ہے۔ گویا یہ بھی آیات قرآن سے کفر برت رہے ہیں۔

نئے اور پرانے سامراج کی ہم خیالی سے سبق حاصل نہیں کررہے ہیں۔ کیا ہم مسلم امت کے علماء سے یہ توقع اور امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ قرآن میں اللہ کے اس اعلان پر ایمان لاتے ہوئے اپنے مدارس کے نصاب میں تفسیر بالقرآن کو قرآن فہمی کا ذریعہ تسلیم کریں گے اور اس انداز سے درس نظامی کے بدلہ میں دینیات کا نیا نصاب رائج کریں گے۔

جناب قارئین!
کیا کروں میں اپنا گناہ آپ سے کیا چھپاؤں۔
میں نے بھی قادری طریقہ کے ایک پیر سے بیعت کی تھی اور اس کا مرید بنا تھا اور میں اس وقت بھی دستار بند جاہل تھا ۔
مطلب کہ میرے اس پیرو مرشد نے بیعت کے وقت جو تلقین فرمائی تھی وہ یہ کہ میں جملہ خلائق عالم سے خود کو کمتر اور ادنیٰ سمجھوں ۔
حتیٰ کے خنزیر اور سور سے بھی خود کو کمتر سمجھوں اور خنزیر کو اعلیٰ اور بر تر سمجھوں ۔

جناب قارئین!
اس تلقین میں تو آیت
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا (17:70)
اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔
کی صریح مخالفت اور رد ہے ۔
انسان کی اشرف المخلوقات ڈگری کا تو خانہ خراب ہو گیا۔
اب میں نے تو اپنے جاہل اور اندھے ہونے کا اقرار کر ہی لیا لیکن افسوس کہ وہ میرے والا پیر پاکستان بھر میں تفسیر قرآن کا بھی بڑا ماہر مفسر اور مشہور عالم تھا۔

No comments:

Post a Comment