Monday, November 26, 2012

وحی غیر متلو و مثله معه پر حاکم محدثوں کے متعارض اقوال




وحی غیر متلو  و مثله معه  پر حاکم محدثوں کے متعارض اقوال


ایک ہی محدث کے حدیث کی تصحیح میں متعارض اقوال۔ کونسا لیا جائے ؟


السلام علیکم

کبھی ایک ہی محدث کے حدیث کی تصحیح میں متعارض اقوال سامنے آتے ہیں۔ کونسا لیا جائے۔ جیسے


حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب ، ثنا العباس بن محمد بن حاتم الدوري ، ثنا أبو عامر عبد الملك بن عمر العقدي ، ثنا كثير بن زيد ، عن داود بن أبي صالح قال : : ( أقبل مروان يوماًفوجد رجلاً واضعاً وجهه على القبر فأخذ برقبته و قال : أتدري ما تصنع ؟ قال : نعم فأقبل عليه فإذا هو أبو أيوب الأنصاري رضي الله عنه فقال : جئت رسول الله صلى الله عليه و سلم و لم آت الحجر سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول :لا تبكوا على الدين إذا وليه أهله و لكن ابكوا عليه إذا وليه غير أهله .).

اس اثر کو امام حاکم صحیح کہتے ہیں اور ذہبی ان سے اتفاق کرتے ہیں۔ مگر ذہبی خود المیزان میں داود بن ابى صالح کے متعلق کہتے ہیں

داود بن ابى صالح حجازى لا يعرف له عن ابى ايوب الانصارى روى عنه الوليد بن كثير فقط

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مجھول کی روایت کو ذہبی خود دوسری جگہ صحیح مانیں۔

اسی طرح ابو امامہ رضی اللہ عنہ والی تلقین المیت والی روایت کو ابن حجر نے صحیح کہا ”تلخیص:796"

مگر [الفتوحات الربانية 4/196] میں فرماتے ہیں
هذا حديث غريب و سند الحديث من الطريقين ضعيف جدا.

اب معمہ یہ ہے بریلوی تصحیح والے قول کو ترجیح دیتے ہیں اور سلفی تضعیف۔عام آدمی کیا مانے؟ اس کو تو جو اس کا مولوی بتائے وہی مانے گا۔

از قلم islamdefender

کسی بھی امام کے کسی ایک مسئلہ کے بارہ میں دو متعارض اقوال ہوں تو ان میں تطبیق دی جائے گی ۔ اگر ممکن نہ ہو تو کسی قرینہ یا دلیل کی بناء پر ایک قول کو ترجیح دی جائے گی ۔ یا متأخر کو ناسخ اورمتقدم کو منسوخ قرار دیا جائے گا ۔

جہالت اور توثیق کے مابین تو کوئی تعارض ہی نہیں ہے ۔

از قلم رفیق طاھر

No comments:

Post a Comment