Tuesday, February 12, 2013

علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھیؒ

علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھیؒ
1923-2005

اس عالم ربانی کا تذکرہ جس نے پوری زندگی بوریائے فقر پر بیٹھ کر قرآن و سنت کی خدمت کی ڈاکٹرغطریف شہباز ندوی *
صدیاں ہوتی ہیں وقت کے ایک عظیم عالم (ابن تیمیہؒ ) کی وفات پر دمشق کے میناروں سے آواز بلند ہو ئی تھی الصلاۃ علی ترجمان القرآن(ترجمان قرآن کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی)
۴۲جنوری ۵۰۰۲ء کو ہندوستان کو بھی حق تھا کہ اس کے گوشہ گوشہ سے بھی یہی آواز بلند ہوتی، کہ وقت کے ابن تیمیہ ،ترجمان قرآن وسنت، محدث عصر علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھیؒ نے اسی دن دنیاکو خیر باد کہا۔ ان کی وفات پر ایک عظیم علمی روایت کا خاتمہ ہوا ۔یہ کو ئی معمولی حادثہ نہ تھا کہ اس پریوں ہی گزجایاجائے ،لیکن مسلمانان ہند اپنے علمی وفکری زوال وانحطاط کے جس مقام پر ہیں وہاں یہ کوئی تعجب کی بات نہ تھی کہ کسی کو پتہ ہی نہیں چلاکہ کیا ہوگیا۔ گرچہ یہ حقیقت ہے کہ ہم ایک عہد فراموش دور میں جی رہے ہیں جہاں پرہر چیز کو بھلا دیاجاتاہے۔ تاہم عوام تو عوام، علماء ، ارباب مدارس، اسلامی تحریکوں اور اسلامی علوم کے طلبہ کا ایسے گوہر نایاب اور متاع بے بہا کے بارے میں تجاہل، تغافل اور ناآشنائی کا یہ رویہ جس کا ایک عمومی مشاہدہ کیا گیا ،ایک ملی المیہ اور ہماری علمی تاریخ کے ایک عبرت ناک باب سے کم نہیں ۔خصوصاً ایسے دور میں جہاں درباری مدعیان علم، اور مختلف فرقوں، جماعتوں ، تنظیموں اور اداروں کے قائدین پرروزسیمینار ہوتے ہیں۔ اور اخباری شہرت رکھنے والے ہما وشما پر خصوصی گوشے اور نمبرات شائع کیے جاتے ہیں۔!!

خاندان :
عہد اسلامی میں شمالی ہند میں جو لوگ مسلمان ہوئے تھے ان میں برہمنوں وراجپوتوں اور گوجروں سے نکلی ہوئی بہت سی برادریاں بھی ہیں، انہیں میں ایک چودھری برادری ہے ۔جن کاآبائی پیشہ کاشتکاری ہے ۔موضع توڑی ضلع غازی آباد میں سکونت پذیر اسی برادری کے ایک متوسط درجہ کے خاندان میں آپ کی ولادت ہوئی تھی۔ آپ کے پردادا کریم بخش خاں اچھے خاصے زمین دار تھے جو ایک حادثہ کے نتیجہ میں اپنی ساری آراضی گنوابیٹھے تھے۔دادا ملاجی عبداللطیف ایک نیک دل اور سیدھے سادے دیندار کسان تھے جنہوں نے خود تو معمولی دینی تعلیم پائی تھی لیکن اپنے بچوں کو اچھی دینی و قرآنی تعلیم سے آراستہ دیکھنے کی بڑی تمنا اور آرزو تھی ۔والد حافظ بشیر احمد علاقہ کے انتہائی جید حافظ وقاری تھے جن کے حفظ کا دور دور تک شہرہ تھا۔ والدہ زبیدہ خاتون بھی نہایت عابدہ زاھدہ خاتون تھیں۔ اوپر کے شجرہ کے بارے میں کوئی زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ نہ خودمولانا نے کہیں تذکرہ کیا اور نہ وہ شجروں اور نسبتوں وغیرہ کے وہ قائل تھے کہ بقول امام الہند مولاناابو الکلام آزادؒ :
’’ اسلا م نے ساری نسبتوں اور ا متیازوں کو مٹا کر صرف اپنی ایک نسبت نوع انسانی کو عطا کی اور اس نسبت سے بڑھ کر اور کون سی نسبت ہوسکتی ہے جس کی ایک مسلمان کو تلاش ہو؟ انسان کے لیے معیار شرف جوہر ذاتی اور خود حاصل کردہ علم وعمل ہے نہ کہ اسلاف کی روایت یا رینہ اور نسب فروشی کا غرور باطل ۔ہم کو ایسا ہونا چاہیے کہ ہمارے نسب سے ہمارے خاندان عزت پائیں نہ کہ ہم اس کے شرف رفتہ کے محتاج ہوں! ارباب ہمت نے ہمیشہ اپنی راہ خود نکالی ہے(تذکرہ صفحہ
۶۲)

تعلیم و تربیت :
مولانا شبیر احمد ازہر نے کم سنی میں ہی قرآن پاک حفظ کرلیا تھا۔حفظ کے بعد میرٹھ شہر کے معروف عربی مدرسہ امدادالاسلام میں داخل کیے گیے ۔جہاں۷۱۔۸۱سال کی عمرمیں ہی علوم دینیہ کے اکتساب سے فارغ ہوگئے ۔ اس وقت کے مروجہ درس نظامی کے پورے کورس کی تکمیل، جو ۲۱سال کو محیط ہوتا تھا، انھوں نے صرف ۵سال میں کرلی تھی۔ ان کے خاص استاد مولانا شاہ اختر خان امروہوی تھے۔ جن کے خاص استاد کانام بھی شبیر احمد تھا اورجو شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی کے شاگرد بھی تھے۔ شاہ اختر خان ؒ نے ان کو پورا قرآن صرفی و نحوی ترکیب کے ساتھ پڑھایا ،اور حدیث و فقہ کی منتخب کتابیں خصوصی طور پر پڑھائیں۔اپنے اس شاگرد پر ان کی خصوصی نظر عنایت تھی ۔وہ اپنے اور شاگرد دونوں کی مناسبت سے کہا کرتے کہ’’ شبیر سے لیا اور شبیر کو دے دیا ‘‘۔مروجہ علوم کی تکمیل شاہ اختر خان صاحب سے کرنے کے بعد انہیں کی ایماء پردارالعلوم دیوبند سے دورۂ حدیث کیا۔ وہاں خاص اساتذہ میں شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہویؒ مولانا فخرالحسنؒ اور حضرت مولاناحسین احمدمدنیؒ تھے۔دیوبند سے فراغت سن ۳۵۳۱ھ میں ہوئی جب کہ آپ کی عمر صرف ۹۱ سال تھی۔

تدریسی خدمات :
دیوبند سے سندفضیلت کے حصول کے بعد آپ نے مختلف مدارس اور اداروں میں علوم اسلامیہ کی تعلیم وتدریس کا آغاز کیا اور تقریباً ۵۷سال کی عمر ہونے تک ہندوستان کے بڑے اور اہم مدارس میں تدریس کی خدمات انجام دیں، ۰۳ سال سے زائد صحیح بخاری پڑھائی۔ ان مدراس اور اداروں میں جامعہ تعلیم الدین ڈھابیل گجرات ، جامعہ ندوۃ العلماء لکھنؤ، جامعۃ الرشاد اعظم گڑھ، مدرسۃ الاصلاح سرائے میراعظم گڑھ، ریاض العلوم دہلی، جامعہ امدادیہ مراد آباد ،نورالاسلام صدرمیرٹھ، جامعہ ندوۃ السنہ کیرالا اور جامعۃ الصالحات رامپور، مدرسہ عربیہ چلہ امروہہ اور دوسرے بہیترے مدارس اور ادارے شامل ہیں۔
علوم اسلامیہ، قرآن وحدیث، تفسیر، اصول، فقہ، اصول حدیث وتفسیر، فلسفہ ومنطق اور ادب عربی،بلاغت اور علم عروض میں بھی زبردست تبحر حاصل تھا۔ ساتھ ہی طب یونانی، بنوٹ، گھڑسواری وشمشیر زنی میں بھی انھیں مہارت وحذاقت تامہ حاصل تھی۔ یادداشت اور قوت استحضار اتنی تھی کہ جو چیزیں
۰۵، ۰۶ سال پہلے پڑھی تھیں وہ بلا کتاب دیکھے پڑھادیا کرتے تھے۔ ابتدائی درجوں کی تمام کتابیں انھوں نے خود راقم کو پڑھائیں ،چنانچہ ان کے اس کمال کا خوب تجربہ ہوا۔ یوں تو تمام علوم کا استحضار تھا لیکن علو م قرآن اور علوم سنت سے خصوصی شغف تھا یہی دونوں زندگی بھر اوڑھنا بچھونا رہے۔

علمی خدمات :
اردو عربی اور فارسی لکھنے اور بولنے کی زبردست صلاحیت تھی، عربی واردو بے حد روانی سے اور بے تکان لکھتے چلے جاتے۔ انھوں نے زندگی کے آخری دن تک لکھا۔ ان کے گہربار قلم سے کتاب وسنت کے علوم سے متعلق درج ذیل شاہ کار کتابیں نکلیں:

۱۔ تفسیر مفتاح القرآن مکمل اردو جس کے سورۂ آل عمران تک صرف ۶اجزاء ابھی تک طبع ہوئے ہیں، باقی مسودات کی شکل میں ہیں۔۔اس تفسیر کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ :
*۔تفسیری روایات پر روایت ودرایت کے مسلمہ اصولوں کے مطابق تحقیقی کلام کیا گیاہے۔
*۔دوسری بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اسرائیلیات سے مکمل طور پر خالی ہے۔
*۔تیسری خصوصیت یہ کہ اس میں قرآن کی تفسیر صحیح احادیث ،نظم قرآن ،کلام عرب اور عربیت کوسامنے رکھ کر کی گئی ہے۔ مفسر گرامی نے سابق مفسرین کی رایوں سے بہت زیادہ اختلاف کیا ہے۔ اور اپنی ہرتحقیق اور رائے میں قرآن اور صحیح احادیث کو دلیل راہ بنایاہے۔
*۔اس کی چوتھی خصوصیت ہے کہ اس میں فقہی مسائل میں کسی ایک مسلک کا التزام نہیں کیا گیا بلکہ جو مسلک بھی دلیل کے لحاظ سے قوی معلوم ہو ا اسے اختیار کیا گیا ۔
۲۔ الکلم الطیب(مفردات القرآن)،اس سے قبل میرٹھ کے مولاناقاضی زین العابدین مرحوم کے ساتھ ایک قاموس القرآن کوئی ۰۶ برس پہلے بھی ترتیب دیاتھا۔ناتمام رہ گئی۔
۳۔ مفتاح القرآن (عربی) سورۃ فاتحہ طبع ہوئی، آل عمران تک غیر مطبوعہ ہے۔
۴۔ کلمات المثانی (قرآن ڈکشنری )آسان اسلوب میں متوسط درجہ کے لوگوں کو سامنے رکھ کرلکھی ہے۔
۵۔ قرآن کی حجتیں۔ (وفات کے وقت تک اس پرکام کررہے تھے)
۶۔ تحفۃ القاری بشرح صحیح البخاری عربی، مکمل(۹۱جلدیں)
۷۔ شرح مسند احمد بن حنبل اردو(۶۱جلدیں)
۸۔اقوم المسالک شرح مؤطا مالک(اردو ۶جلدناتمام)
۹۔ بخاری کا تحقیقی مطالعہ (بعض احادیث کی تحقیق وتنقید) ۳،اجزاء
۰۱۔ صحیح مسلم کا تحقیقی مطالعہ، ناتمام
۱۱۔شہات عثمان کا تاریخی پس منظر
۲۱۔ حدیث الافک العظیم (اردو میں تفسیر سورۂ نور کے نام سے طبع ہوئی )عربی غیر مطبوع ہے۔
۳۱۔ احادیث دجال کا تحقیقی مطالعہ (ظہور مہدی، خروج دجال اور نزول مسیح کی تحقیق)
۴۱۔ حدوداللہ ۔ (تاوفات زیرتصنیف تھی)

شخصی احوال واوصاف :
نوخیزی ونوجوانی کی عمر بڑے جوش وولولہ کی اور مجاہدانہ تھی صحت نہایت قابل رشک، گھڑسواری شمشیر زنی اور بنوٹ کے ماہرتھے اور شکار کھیلا کرتے، ۷۴۹۱ء کے مسلم کش فسادات میں (بطور خاص جب گڑھ مکتیسور جل رہاتھا) انھوں نے اپنی قوت بازو، جرأت وشجاعت اور ہمت سے کئی مسلم لڑکیوں کو شرپسند ہندوؤں اور سکھوں کے ہاتھ سے بچایا تھااور ان کے چنگل سے چھڑا کر لائے اس کی پوری داستان اپنے ایک ناول ’غم بالائے غم ‘میں رقم کی تھی (جو افسوس کہ ضائع ہوگیا)اسی طرح انہوں نے عربی کے ایک تاریخی ناول واسلاماہ کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا ۔لیکن وہ بھی چھپ نہیں سکا۔



گھریلو زندگی:


۱۷ سال کی عمر میں ہی موضع ٹیالہ (غازی آباد) میں شادی ہوگئی، اور چار برس بعد پہلی بچی عمارہ کی آمد ہوئی،جو اب حجن آپا عمارہ کہلاتی ہیں ۔دوسری بچی کی پیدائش میں اھلیہ کا انتقال ہوگیا تو میرٹھ کے موضع رائدھنہ میں ان کے ماموں چودھری اوصاف احمد کی دختر نیک اختر نفیسہ بیگم (میری والدہ محترمہ )سے شادی ہوئی ۔ مولانا کے بقیہ لڑکے لڑکیاں انھیں کے بطن سے تولد ہوئی ہیں۔جن میں ہم پانچ بھائی اور چار بہنیں ہیں۔سبھی بچوں کو دینی تعلیم دلائی ،حفظ قرآن کے علاوہ سبھی کو عربی زبان اورعلوم اسلامیہ کی تعلیم دلانے کی کوشش کی مگراس سلسلہ میں خاطرخواہ کامیابی نہیں ملی۔

علمی امتیازات و خصائص :
علوم عربیہ واسلامےۃ میں تبحر کے ساتھ ہی علامہ اردو، فارسی وعربی کے ایک بڑے شاعر بھی تھے۔ انھوں نے جو مختصر دیوان چھوڑا ہے اس میں اردو کے علامہ فارسی کی بھی بعض غزلیں ہیں۔ فن عروض کے امام تھے اسی طرح نحو وصرف میں بھی بے نظیر مہارت پائی تھی۔ عام طور پر عربی مدارس میں ابتداکے کئی سال نحو صرف کی تعلیم میں ضائع کیے جاتے ہیں۔ علامہ کا طریقہ تعلیم انتہائی آسان، شگفتہ اور عملی تھا محض ایک سال میں کتابوں کے بجائے کاپیوں پر قواعدو مثالیں لکھوا کر وہ صرف ونحو کی ضروری تعلیم دے دیا کرتے۔ اپنے بہت سے تلامذہ کو انھوں نے اسی طرح تعلیم دی خود راقم نے ان سے ایک سال پڑھ کر عربی چہارم میں داخلہ لے لیاتھا۔
علامہ میرٹھی کی ایک بڑی علمی خصوصیت، جوانھیں معاصرین واقران سے ممتاز کرتی ہے وہ علوم اسلامیہ اور بطور خاص قرآن وحدیث کا وسیع مطالعہ تھا اور وہ بھی اول درجے کے مصادر ومراجع سے۔ انھوں نے کبھی دوسرے او ر تیسرے درجہ کی کتابوں کو ہاتھ نہیں لگایا۔ علوم قرآن سے متعلق ہمیشہ متقدمین کی نمایندہ اور بلند پایہ کتابیں اور تفسیر یں ان کے زیر مطالعہ رہیں۔ ابن جریر طبریؒ ، ابن کثیرؒ ، بیضاویؒ ، رازؒ ی وزمحشریؒ اور ابو حیان الاندلسیؒ کا مطالعہ کرتے اور مؤخرالذکر کو زیادہ پسند کرتے اورطالبان قرآن کو اس سے استفادہ کامشورہ دیتے۔ شاہان دہلی (شاہ عبد القادؒ ر وشاہ رفیع الدینؒ ) کے ترجمے انھیں زیادہ پسند تھے۔ نیز اردو کے سبھی متداول تراجم وتفاسیر کو دیکھا تھا، لیکن سبھی کے بارے میں ناقدانہ رائے رکھتے تھے۔
حدیث کے باب میں، صحاح ستہ اور دیگر امہات کتب پر گہری نگاہ تھی۔ رجال کے دفتر از برتھے، مؤطا، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابوداؤد، ابن ماجہ، دارمی، مسند احمد وبیہقی فتح الباری و تہذیب التہذیب وغیرہ مسلسل مطالعہ میں رہیں۔ ساتھ ہی معاصرین کی چیزیں بھی دیکھتے رہتے۔ شرح مسند احمد بن حنبل لکھنی شروع کی تو مولانا عبداللہ رحمانی مبارک پوریؒ شارح مشکوۃ اور علامہ حبیب الرحمٰن محدث اعظمیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اوران سے استفادہ کیا۔ بخاری پر انتہائی گہری نظر تھی اس کی جلالت قدر کے بارے میں خود لکھتے ہیں :
’’کتاب اللہ قرآن کریم کے بعدصحیح بخاری کے علاوہ مجھے کسی کتاب میں دلکشی محسوس نہیں ہوتی یہ میرا چالیس سالہ مستقل احساس ہے۔‘‘ (میرامطالعہ ص
۰۹۱، مرکزی مکتبہ اسلامی )
فقہ میں بھی یہی حال تھا ، بطور خاص فقہ حنفی کے امہات کا گہرا استحضار تھا۔ اس لیے تقابلی فقہ کی معروف کتاب بدا ےۃ المجتہد سے خوش نہ تھے کہ صاحب بداےۃ نے حنفی نقطہ نظر پیش کرنے میں غلطیاں کی ہیں، اسی طرح متاخرین ومعاصرین علماء کی چیزیں ان کے نزدیک غیر معیاری تھیں۔ علم فقہ پر زبردست گرفت اور مجتہدانہ نظر کے باوجود ان کی دل چسپی اصل میدان قرآن وحدیث اور ان سے متعلقہ علوم تھے جس کو اپنے ایک شعر میں یوں تعبیر کیا ہے۔
جز کلام یارہر تقریر بار گوش ہے
جز رخ جاناں کوئی منظر نہیں بھاتا مجھے

علمی زندگی کے تین دور :
 راقم کے خیال میں علامہ کی علمی زندگی کوتین ادوار میں بانٹا جاسکتا ہے، پہلے دور میں وہ فقہاء حنفیہ کے خوشہ چیں ہیں لیکن نصوص کے راست مطالعہ و تحقیق اور تطبیق وترجیح کے بعد اگر دوسرے نتیجہ پر پہنچے ہیں تو پورے اعتماد اور جرأت کے ساتھ ان سے اختلاف بھی کرتے ہیں اور دوسرے مسالک کو ترجیح دیتے ہیں، ان کی ’’اقوم المسالک الی مؤطا امام مالک‘‘ اس کی بین مثال ہے ۔البتہ حدیث کے مسلسل ومطالعہ وتحقیق نے انھیں تقلید جامدسے دور کردیا تھااور کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے سلفیت یا عدم تقلید کی طرف قدم بڑھائے، رفع الیدین، طلاق ثلاثہ اور عبادا ت کے زیادہ تر نزاعی مسائل میں اخیر تک ان کی رایے محدثین کے مسلک سے قریب تررہی ہے۔ انھوں نے خبر واحد کے فقہاء کے ظنیت کے نظریہ کا علمی تعاقب کیا (ملاحظہ ہو رسالہ تقریب المأ مول فی حدیث الرسول بر نہایت التحقیق شرح مسند ابو بکر صدیق صفحہ ۹۱تا۵۷) اخیر تک ان کی یہی قطعی تحقیق تھی کہ خبر واحد اگر صحیح ثابت ہے، تو قطعی الدلالت ہوتی ہے۔ یہ زندگی کا دوسرا دور تھا، تیسرا دور وہ ہے جب انھوں نے علوم حدیث پر بے مثال تبحر حاصل کرلیا، علم الرجال کا وسیع مطالعہ کیا اور قرآن پاک کے مسلسل تحقیقی مطالعہ وتدبر نے فکر ونظر میں زبردست بصیرت پیداکردی تھی۔ اب انھوں نے روایت ودرایت کے لحاظ سے ذخیرۂ حدیث پر گہری نظر ڈالی، ایک ایک حدیث کو پرکھا، جانچا، مثالب کو تایا، مطاعن کو دیکھا حتی کہ خود اس فن پر ایک سند اور مرجع بن گئے۔

نقد حدیث :
کتب حدیث میں حدیث کی سب سے اہم کتاب صحیح بخاری کو انھوں نے سب سے زیادہ پڑھا اور پڑھایا۔ قرآن کے بعد یہی کتاب انھیں سب سے زیادہ محبوب تھی، لیکن اس کے سلسلہ میں علماء کا جو ایک غیر علمی اور خالص اندھی تقلید کا رویہ ہے کہ ’’ بخاری میں جو کچھ ہے وہ سب صحیح ہے اِس پر تنقید نہیں کی جاسکتی‘‘ اس سے انھیں ذرا بھی اتفاق نہ تھا، بخاری و مسلم کی علمی عظمت وجلالت قدر کے پورے اعتراف کے باوجود ان کی سوچی سمجھی اور تحقیقی رائے یہ تھی کہ ان میں بھی متعدد کمزور اور غلط روایتیں جگہ پا گئی ہیں۔اس رائے کا انہوں نے نہایت جرأت سے اظہار بھی کیاچنانچہ اپنی ’’ تحفۃ القاری‘‘ میں تفصیل سے ان روایات پر محدثانہ کلام کیاہے، اور ان تحقیقات کا خلاصہ بخاری کا مطالعہ (۳،اجزاء) میں اردو زبان میں پیش کردیاہے۔اس کے علاوہ صحیح مسلم کا تحقیقی مطالعہ بھی کیاہے جوناتمام رہ گیا۔مگراس میں بھی 40سے زیادہ احادیث کاتحقیقی مطالعہ آگیاہے ۔ اس سلسلہ میں نام نہاد اجماع یا جمہور کے اتفاق کی انہوں نے کوئی پروا نہیں کی۔اور اسی وجہ سے بعض علمی طور پر کوتاہ قداور متعصب اہل حدیث علماء علامہ کو بھی منکرین حدیث کی صف میں لے جاکر کھڑاکرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔اورِشاید ایسے ہی کم ظرفوں اور کم علموں کے لیے کہا گیا ہے کہ ؂ شعرمن بمدرسہ کے برد
زندگی کے تیسرے دور میں علامہ کا حاصل مطالعہ یہ تھا کہ اکثر اختلافی مسائل میں فقہائے امصار میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ کی فقہی بصیرت وامامت بدر جہا فائق ہے، ان کی رائے محدثین کے مسلک کے مقابلہ میں زیادہ لائق ترجیح ہے۔ کیونکہ امام ابوحنیفہ ؒ ظاہرنصوص کی بجائے مقاصد شریعت اور روح دین کو بالعموم سامنے رکھتے ہیں اور احادیث کے رد و قبول کے سلسلہ میں ان کا معیار
criteriaدوسروں کے مقابلہ میں زیادہ سخت ہے ۔اخیر کی تحریروں میں یہ رجحان صاف محسوس کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ فقہاء حنفیہ کی تقلید جامد کرنے لگے تھے، بلکہ متعدد مسائل میں ان سے اختلاف کیاہے۔

ذوق اجتہاد :
]کتاب وسنت کے مسلسل تحقیقی مطالعہ نے ان کے اندر اجتہادی بصیرت پیداکی انھوں نے متعدد مسائل میں جمہورسے کھلا ہوااختلاف کیا۔ قرأآت سبعہ کا مسئلہ، اجماع کا ثبوت، نسخ کا مسئلہ، تحویل قبلہ، واقعہ افک، خبر واحد کی ظنیت کا مسئلہ وغیرہ کے علاوہ سیکڑوں احادیث اور آیات کی تشریح و توضیح میں وہ جمہورسے بالکل الگ رائے رکھتے ہیں اوران کا جرأت کے ساتھ اظہار بھی کیاہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ متاخرین میں ان کے تفردات سب سے زیادہ ہیں تو غالباً بے جانہ ہوگا نہ اس میں کوئی مبالغہ ہوگا، یہ تفردات یا اجتہادی رائیں دراصل ان کی دراکی ، وسعت مطالعہ، تخلیقی ذہن، فکری شادابی، حاضر دماغی ،علوم کے استحضار اور اعتماد ذاتی کی پیداوار ہیں۔
مسائل کے سلسلہ میں ان کی نظر جزئیات سے زیادہ کلیات پر رہتی تھی۔ فقہی نقطہ نظر میں وسعت تھی ہر حال میں کسی ایک مسلک کی تقلید و تنقید کو ضروری خیال نہیں کرتے تھے۔ علمی اختلاف و تحقیق ان کی نظر میں علماء کی متوارث چیز تھی۔ چنانچہ انھوں نے محدثین کی رایوں اور فقہاء کے اجتہاد ات سے خوب خوب اختلاف کیا ہے۔ فقہاء حدود سے محدود معنی لیتے ہیں۔ علامہ نے اس کو پوری شریعت کے مترادف قراردیا ہے اور اسی تصورپر ان کی کتاب حدود اللہ مبنی ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشاجرات کے سلسلہ میں ان کی رائے جمہور سے الگ ہے، مروان، یزید اور حجاج بن یوسف ثقفی کے بارے میں بھی ان کی تحقیق الگ تھی۔ وہ ان حضرات کے اقدامات کو کسی حد تک جواز کی حد میں داخل سمجھتے تھے ۔شیعیت کو وہ اسلام کا سب سے بڑا داخلی انحراف سمجھتے تھے ۔ مولانا مودودیؒ کی کتاب ’خلافت وملوکیت ‘سے مطمئن نہ تھے بلکہ ا س مسئلہ میں ان کا نقطۂ نظر ٹھیک وہی تھا جوامام ابن تیمیہؒ اور صاحب العواصم من القواصم قاضی ابن العربیؒ کا ہے۔ِ




شیدائے قرآن:

علامہ کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وقت کی بڑی قدر کرتے تھے، ضیاع وقت سے انھیں بڑی نفرت تھی۔ سفر میں ہوں، حضر میں، شہر میں ہوں یا گاؤں میں بس ہر وقت مطالعہ غوروفکر، ہر وقت کچھ نہ کچھ تحریر، لائٹ موجود ہے تو بہتر، نہ آرہی ہو تو لالٹین کی روشنی کام آئے گی۔ سفر میں زیادہ وقت تلاوت قرآن میں گزارتے، مجلسوں اور جلسوں جلوسوں سے حتی کہ لوگوں کے زیادہ خلا ملا سے بھی وحشت ہوتی تھی یہی وجہ ہے کہ حدیث اور قرآنیات پر اتنے بڑے بڑے کام انجام دے دیے جو بڑی بڑی اکیڈمیوں اور اداروں کے کرنے کے ہیں۔ ٹرین سے سفر کررہے ہیں یا بس سے کہیں جارہے ہیں تو بے تکی اور فضول باتوں کی بجائے قرآن پاک کی تلاوت کررہے ہیں۔ان کی تلاوت قرآن نری تلاوت نہیں تدبر کی تلاوت ہوتی تھی ،قرآن کا ترجمہ اور تفسیر مستقل پڑھتے رہتے تھے۔تلاوت کے دوران اکثر آنکھوں سے آنسو ٹپکتے یہی حال نمازمیں قرائت کے وقت ہوتاتھا۔قرآن ان کے لیے اصل مصدر و مرجع تھاتمام علوم اسلامیہ میں وہ قرآن وصحیح حدیث ہی کوحکم بناتے اور ان دونوں ہی کی طرف رجوع کرتے تھے۔
نمازوں کے بعد دیر تک مسنون اور اذکار کا اہتمام ہمیشہ رہا، جہاں رہتے اور جس کمرے میں بیٹھتے وہ صبح سے شام تک قال اللہ وقال الرسول کے ترانوں اور تلاوت قرآن کے زمزموں سے گونجاکرتی۔ ان کی نوجوانی کے ایام میں ذرائع مواصلات محدود تھے اس وقت گھوڑے یا پیدل سفر کرتے اور دوران سفر بڑی سے بڑی مسافت تلاوت قرآن میں طے کرلیتے۔ہر رمضان المبارک میں کئی کئی قرآن ختم کرتے۔ طریقہ یہ ہوتا کہ عشا کے بعد تراویح میں الگ قرآن پڑھتے، تہجد میں الگ، دن حافظ عبدالخالق صاحب (رادھنہ گاؤں کی جامع مسجد کے امام اور ہمارے حفظ قرآن کے استاد)کو مستقل کئی کئی پارے سنایا کرتے، زندگی کے آخری ایام تک حافظہ قابل رشک رہا، قرآن انتہائی پختہ یادرہا اور اسی شان سے اس کی تلاوت جاری رہی حتی کہ وفات کے وقت بھی قرآن کی تلاوت دیر تک کرتے رہے تھے۔

شخصیت پرستی سے اجتناب :
راقم نے اپنے شعور کے بعدتقریبا۰۲ سالوں سے انھیں مسلسل دیکھا اور برتاہے۔مسلمانوں میں شخصیت پرستی ایک مرض کی طرح پھیل گئی ہے، مختلف مکاتب فکر، فقہی مسالک، جماعتیں اور تنظیمیں وغیرہ مختلف شخصیتوں کی اسیر ہیں اور انہیں کی عینک سے دین کو دیکھتی اور سمجھتی و سمجھاتی ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول کو سبھی نے پس پشت ڈال رکھا ہے کہ انظر الی ماقال ولا تنظر الی من قال (یہ دیکھو کہ کیا کہا یہ نہ دیکھو کہ کس نے کہا) لیکن والد صاحب ؒ کے متعلق یہ عاجز پورے وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ شخصیت پرستی کے مرض سے اللہ نے انھیں پورے طور پر محفوظ رکھا تھا۔ ماضی کی طرح اس صدی میں بڑی بڑی شخصیات ہوئی ہیں۔ لیکن والد صاحب علوم میں رسوخ کے اس درجہ پر تھے کہ ماضی وحال کی کسی بڑی سے بڑی شخصیت سے انھیں مرعوب نہیں دیکھا۔
اپنے اساتذہ کا ذکر احترام سے کرتے لیکن دواستادوں مولانا اخترشاہ خانؒ امروہوی اور مولانا حسین احمد مدنیؒ کا تذکرہ بڑے ہی احترام کے ساتھ کرتے ۔انہیں دونوں سے زیادہ متأثر بھی رہے۔ ماضی قریب کے علماء میں مولاناحمیدالدین فراہیؒ سے بہت مسائل میں اختلاف کے باوجود ان کا ذکر بلند کلمات میں کرتے کہ بر صغیر میں قرآن پر راست غور وفکر اور اکتساب کی مبارک فضا کا آغاز انہیں سے ہوا ۔اس چیز کو بہت بڑا کارنامہ قرار دیتے تھے۔ قدیم مفسرین میں ابو حیان اندلسیؒ کو زیادہ پسند کرتے اور طالبان قرآن کو اس کے مطالعہ کا مشورہ دیتے، قرآن سے امت کی دوری کا بڑا سبب اسرائیلیات کے رواج ،تصوف کی خرافاتوں کے ساتھ واعظوں کی داستان گوئی اور راویان حدیث کی روایت بازی کو قرار دیتے تھے۔ ماضی کے علماء وائمہ میں سب سے زیادہ قائل امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے تھے بلکہ یہ تک فرماتے کہ امامت کے حقیقی مصداق صرف ابو حنیفہؒ ہیں۔ تاہم متاخرین حنفیہ پر خوب تنقیدیں بھی کی ہیں۔یہ ان کی تحقیقی رائے تھی جس تک اپنے وسیع وطویل مطالعہ کے بعد پہنچے تھے۔

حق گوئی :
 علامہ ایک مفلوک الحال گھرانہ میں پلے بڑھے، لیکن ابتداء ہی سے غیرت ، توکل ، خودداری اور قلندری کی شان تھی جس میں زندگی بھر فرق نہیں آنے دیا۔ جب نئے نئے پڑھ کر وطن واپس آئے تو بعض رشتہ داروں اور احباب کے کہنے پر للیانہ گاؤں میں ایک مدرسہ ازہر العلوم کھولا۔ کچھ عرصہ بعد ایک مسودہ (بیان اللسان) میرٹھ کے قاضی زین العابدینؒ کو فروخت کرکے ۰۵۹۱ء ؁ حج کے لیے تشریف لے گئے، کلمہ حق کہنے اور غلط کوغلط بتانے میں انتہائی بے باکی اور جرأت کی دولت سے مالا مال تھے۔ اسی دوران علماء دیوبند کا ایک حلقہ اور ان کے مسترشدین مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی پر ناروا قسم کی تنقیدیں کرنے اور گمراہ پروپیگنڈے میں مشغول تھے، لیکن مولانا نے نہ صرف یہ کہ اپنے استاد وں اور مشائخ سے اس معاملہ میں کھل کر اختلاف کیابلکہ بہت سی چیزوں میں پوری جرأت وقوت کے ساتھ جماعت اور مولانا مودودیؒ کی حمایت کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ علاقہ کے بعض فتنہ بازمولویوں اور پیروں نے عوام کو ان کے خلاف بھڑکادیا اور انھیں’’مودودیا‘‘ مشہور کردیا، لوگوں نے مدرسہ کا تعاون چھوڑدیا۔ حج سے واپس آنے کے بعد اس صورت حال کا سامنا ہواتو مدرسہ کو خیر آباد کہہ کر پھر سے درس وتدریس اختیار کرلی، حیدرآباد گئے، وہاں کریم نگر میں جماعت اسلامی کی نگرانی میں دارالہدی نامی مدرسہ کھولا گیا جس کے پہلے استادآپ ہی تھے۔ وہیں جماعت سے باقاعدہ وابستگی ہوئی اور رکن بنے لیکن خالص علمی افتاد طبع ہونے اور فکری اختلاف کی بنا پر جلدہی اس تحریک کے جھمیلوں سے نکل آئے۔دراصل انہیں مولانامودودی کے کئی بے دلیل تصورات سے شدیداختلاف تھامثلایہ کہ انسان اللہ کاخلیفہ ہے اورانبیاء کی بعثت کا اصل مقصدحکومت الٰھیہ کا قیام تھا۔ان مسائل پر اوران کے دوسرے بعض علمی مسائل پر انہوں نے مولانامودودی سے مراسلت بھی کی تھی ۔(افسوس کہ وہ مراسلت محفوظ نہیں رہ سکی ورنہ دونوں بزرگوں کے خیالات کا تقابلی مطالعہ کیاجاتا) اس کے بعد مولانا مجیب اللہ ندوی ؒ صاحب کے ساتھ مل کر جامعۃ الرشاد اعظم گڑھ کی بنا وتکوین میں بھی حصہ لیا۔

شان قلندری :
زندگی بھر مدارس اسلامیہ میں قلیل تنخواہ پر علوم اسلامیہ کی خدمت کی کبھی سرمایہ داروں اور ثروت مندوں کا رخ نہیں کیا ۔کبھی جماعتوں، تنظیموں اور ملی اداروں کے ارباب حل وعقد کی جبہ سائی اور کفش برد اری کا تصور بھی حاشیہ خیال میں نہیں آیا۔کتابیں لکھتے رہے، الماریوں میں مسوادات کی شکل میں جمع ہوتی رہیں لیکن یہ نہیں ہوا کہ کسی کی جھوٹی خوشامد یا جھوٹی تنقید کرکے اپنی تحریر چھپوانے کا سامان کریں۔چنانچہ مولانا اسعد مدنیؒ صدر جمیعت علماء ہند (جو شیخ زادہ بھی تھے) کی اس پیشکش کو ٹھکرادیا کہ تفسیر میں مودودی ؒ صاحب پر تنقید کی جائے تو طباعت کے مصارف ہم اٹھائیں گے۔ جماعت اسلامی حلقہ آندھرا پردیش کا وفد یہ تجویز لے کر آیا کہ اپنی تفسیر سے مولانا مودودیؒ پر تنقیدیں نکال دیں تو وہ اس کی اشاعت میں تعاون کریں گے، اس وفد کو بھی لوٹا دیا۔ مگر عدل وانصاف، امانت ودیانت اور علمی وقاروغیر ت پر آنچ نہ آنے دی ۔ مدارس کے ارباب اہتمام سے بھی اکثر تصام ہوجاتا، وہ چاہتے کہ آپ ٹھیک تقلیدی مزاج کے ساتھ ہی کام کریں لیکن علامہ شان قلندری وبے نیازی کے ساتھ بڑے بڑوں کو خاطر میں نہیں لاتے، نہ مرعوب ہوتے نہ اپنی کسی رائے سے دست بردار ہوتے۔ معاصرین میں یہ شان بے نیازی ان کا امتیاز تھی۔

تزکیہ و احسان :
علامہ میرٹھیؒ کے اساتذہ وشیوخ میں بیعت واردات کی مستحکم روایت ہے، لیکن تحقیقی ذہن، شخصیت پرستی سے نفور اور قرآن سے شغف یہ ان کی شخصیت کے عناصر ترکیبی تھے اس لیے جہاں تک راقم کو معلوم ہے وہ کسی حلقہ ارادت سے وابستہ سکہ بند صوفی نہ تھے البتہ بعض لوگوں کی زبانی معلوم ہواکہ وہ مولانا عبد القادر رائپوریؒ سے بیعت ہوئے تھے۔تاہم ان کے جن احوال ومقامات کا مشاہدہ ۰۲ سالوں سے ہوتا رہا ہے ان کو سامنے رکھ کر بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ ذات نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے عشق، تقوی وپرہیز گاری، انابت اور رجوع الی اللہ کی جو کیفیت ان کو حاصل تھی وہ موجودہ دور کے مروجہ حلقائے طریقت ومشیخت کے لوگوں کو شایدنصیب ہوتی ہو۔
تزکیہ وسلوک ’’ھوھو‘‘ کرنے یا الااللہ کی بے روح ضربیں لگانے، بزرگوں کے عرس اور ان کے مزاروں پر چلہ کشی کا نام نہیں، وہ تو دراصل عرفان ذات، جذب وشوق اور خدا کے لیے جذبات محبت سے عبارت ہے۔ اس کے لیے جزبہ شکر اور والہانہ عقیدت سے ہی سلوک کا جوہر تیار ہوتاہے، محبت کا اعلی درجہ وہ ہے جو بندہ کو اپنے خالق ومالک اور پالن ہار سے ہوتی ہے اور اس محبت کے بغیر تو ایمان بھی معتبر نہیں۔ کسی شخص کے ظاہری احوال اور کاموں کو دیکھ کر اگر اس کے باطن کے بارے میں رایے قائم کرنا درست ہو تو مبالغہ کہا جاسکتاہے کہ حب مال، حب جاہ اور تنگ دلی سے ان کے قلب کو صاف کردیاگیا تھا اور وہ انشاء اللہ ومن یوق شح نفسہ فاولئک ہم المفلحوں(جو لوگ نفس کی تنگی سے بچا دیے گئے وہی کامیاب ہیں۔تغابن:
۶۱) کے خاص مصداقوں میں سے ہوں گے ۔ ان کے چہرہ سے پاکیزگی جھلکتی اور پیشانی سے نور کی بارش ہوتی تھی۔

حادثہ وفات :
ڈیڑھ سال قبل نماز کو جاتے ہوئے راستہ میں گرگئے تھے، دوچار دن تو کچھ معلوم نہ ہوا پھر دائیں ٹانگ میں درد محسوس ہوا، جو بڑھتا ہی چلا گیا، جانچ کرانے پر معلوم ہوا کہ معمولی سا فریکچر ہے۔ علاج ہوا لیکن فائدہ نہ ہوا تو ڈاکٹروں نے آپریشن تجویز کیا، آپریشن ہوا۔ اس کے بعد توقع تھی کہ ٹانگ ٹھیک ہوجائے گی لیکن آپریشن سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پرا اور ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ‘‘ والامعاملہ ہوگیا ۔ اس بیماری میں تقریبا چودہ مہینے بستر پر رہے۔ حوائج ضروریہ بھی بستر پر کرائے جارہے تھے۔ اس کے باوجودلکھنے پڑھنے کا کام جاری تھا۔ قرآن کریم کی تلاوت وتدبر کے معمول میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ۴/جنوری ۵۰۰۲ء کو یکایک ایک حادثہ پیش آیا کہ آپ کے دوسرے صاحبزادے (میرے برادر مکرم) جناب مولانا انظارالحقؒ صاحب (بانی مدرسہ ازہر العلوم رادھنہ )اچانک علی الصباح حرکت قلب بند ہوجانے سے وفات پاگئے۔ انہوں نے عمر عزیز کی صرف ۲۴ بہاریں دیکھیں۔یہ تمام اولاد میں آپ کو سب سے زیادہ عزیز تھے۔ شروع سے آخر تک تعلیم بھی آپ نے ہی دی تھی۔ اس حادثہ فاجعہ نے زیادہ صدمہ پہنچایا۔ عید کے دوسرے دن طبیعت ناساز ہوئی تھی۔ قرآن پڑھواکر سنا، افاقہ ہوگیا۔ تیسرے دن بھی طبیعت خراب ہوگئی پھر سورہ ےٰسین پڑھوا کر سنی طبیعت بحال ہوگئی۔
۴۲/جنوی کو اچھی دھو پ نکلی تھی۔ سارے دن دھوپ میں بیٹھے ہشاش بشاش تھے۔ ’’قرآن کی حجتیں‘‘ پڑھواکر سنی۔ پھر لکھنے میں مشغول ہوگئے۔ دوپہر میں مجھے طلب کرکے اپنے مسودات دکھائے، اپنا ذخیرۂ کتب، صحاح اور ان کی شرحیں، تفسیر مفتاح القرآن اور تحفۃ القاری شرح صحیح بخاری کے مسودے خود اٹھ کر اور الماریوں کے پاس جا جا کر دیکھے۔ کون کہہ سکتا تھا کہ یہ ان کی آخری زیارت ہے۔ یہ کتابیں ہی کل زندگی کا سرمایہ تھیں۔ مغرب کے بعد لوگ ملاقات کے لیے آتے رہے، عشا کی نماز پڑھ کر روز مرہ کے اور ادووظائف پڑھے۔ پھر کچھ دیر کے لیے سوگئے۔ اور اچھی نیند سوئے۔ تقریباً ساڑھے بارہ بجے رات کو آنکھ کھلی تو وضوکرکے تلاوت قرآن شروع کی اور ایک گھنٹہ تک کرتے رہے۔ پھر بڑے بھائی سے مدرسہ ازہرالعلوم کے بارے میں باتیں کیں ۔ دو بجے سے بعد تکلیف شروع ہوئی۔ دوا وغیرہ لی، مقامی ڈاکٹر کو بلایاگیا اس نے انجیکشن لگائے اس کے بس دو تین منٹ بعد ہی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ پورے قصبہ میں صف ماتم بچھ گئی۔ آفتاب علم غروب ہوا، وقت کا امام الحدیث چلا گیا۔
جاچکی خاموش ہوکر شمع ہوئے آسماں عالم بالامیں پایاسراغ آرزو (ازہرؔ )
متعدد علمی مجلات اور تحقیقی رسالوں نے آپ کی وفات پر تعزیتی نوٹ اور شذرے شایع کیے جن میں البعث الاسلامی ندوۃالعلماء لکھنؤ،الرشاداعظم گڑھ ماہنامہ ترجمان جدید دارالعلوم (دہلی) اور اردوبک ریویو اورافکارملی خاص ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈائرکٹرفاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز C-303/3 شاہین باغ جامعہ نگرنئی دہلی انڈیا
ای میل :
mohammad.ghitreef@gmail.com
ghitreef1@yahoo.com

2 comments:

  1. Assalam o Alaikum wa Rahmatullah wa barakatoho,
    Muhtram Shaikh! sb I am student of islamic studies in Srgodha University.The topic of my thesis for Phd is" Uloom ul Quran wa Tafseer ul Quran pr ghair matboa urdu mwad" plez guide and send me the relavent material
    Aap ka deeni bhai Rafiuddin
    Basti dewan wali st. Zafar bloch old Chiniot road Jhang saddar
    03336750546 - 03016998303 Email address drfi@ymail.com

    ReplyDelete
  2. Assalam o Alaikum wa Rahmatullah wa barakatoho,
    Muhtram Shaikh! sb I am student of islamic studies in Srgodha University.The topic of my thesis for Phd is" Uloom ul Quran wa Tafseer ul Quran pr ghair matboa urdu mwad" plez guide and send me the relavent material
    Aap ka deeni bhai Rafiuddin
    Basti dewan wali st. Zafar bloch old Chiniot road Jhang saddar
    03336750546 - 03016998303 Email address drfi@ymail.com

    ReplyDelete