Thursday, February 21, 2013

کیا ہمارا دین اقوال رجال کا نام ہے ؟؟؟



کیا ہمارا دین اقوال رجال کا نام ہے ؟؟؟

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : bashirahmed98 مراسلہ دیکھیں
یہ بات اصول حدیث سے لاعلمی کی وجہ سے کہی گئی ہے کسی روایت کے صحیح ہونے کیلئے یہ کافی نہیں‌کہ اسے کسی کتاب میں‌ذکر کردیا جائے اور اصول حدیث میں ایسا کوئی قاعدہ موجود نہیں‌ہے کہ اگر کوئی روایت لسان المیزان میں موجود ہو تو وہ صحیح بن جاتی ہے ، بلکہ اس روایت کو اصول حدیث پر پرکھنا پڑتا ہے ۔
پہلی روایت کو جس اصول پر ضعیف قرار دیا گیا ہے وہ مسلمہ اصول ہے ۔
اور دوسری روایت کو اگر 100 کتابوں میں ذکر کیا جائے پر اس کا متن اس وقت معتبر ہوگا جب وہ صحیح ثابت ہوجائے ، کسی روایت کا تاریخی کتابوں میں ہونا اس روایت کےصحیح ہونے کی دلیل نہیں ہے اور نہ ایسا کوئی اصول اہل سنت یا اھل تشیع کے کتابوں میں موجود ہے ۔
ورنہ تاریخی روایتیں‌ ایسی موجود ہیں‌ جن اگر پیش کیا جائے تو آپ خود بھی نہیں‌مانیں گے ۔


میں اپنی بات شاید صحیح طور سے سمجھا نہیں پایا اس لئے ایک بار پھر کوشش کرتا ہوں

1
۔ اصول حدیث میں سند حدیث کی جانچ پڑتال کے لئے جن کتابوں پر اعتماد کیا جاتا ہے اگر وہی کتابیں مستند نہیں تو پھر سند حدیث کی حثیت ہی مشکوک ہوجاتی ہے یا نہیں
2
۔ جب کسی محدیث کا قول کسی راوی حدیث کے لئے پیش کیا جاتا ہے تو اس قول محدث کی بھی سند کا ذکر نہیں کیا جاتا اور ایسے من وعن تسلیم کرلیا جاتا
جبکہ حدیث کے ضیف اور صحیح ہونے کا مدار روای حدیث کے بارے میں محدیثین کے اقوال پر منحصر ہے کیا یہ ڈبل اسٹینڈر نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے لئے محدیثیں کی رائے میعار اور محدیثین کی رائے بلا چوں و چرا تسلیم !!!!!

No comments:

Post a Comment