Monday, May 27, 2013

جدیدسائنس اسلام کی دَین ہے مگرمسلمان کہاں کھڑے ہیں ؟



جدیدسائنس اسلام کی دَین ہے مگرمسلمان کہاں کھڑے ہیں ؟

ڈاکٹرغطریف شہباز ندوی *

اسلام ایک انقلابِ فکرونظرکا نام ہے ۔جب اسلام آیاتودنیاروایتی دورسے نکل کرسائنسی دورمیں داخل ہوگئی ۔قرآن میں انسان کو جا بجا غوروفکراورتعقل پرابھاراہے ۔جابجایعقلون تعقلون اورتفکرون (یہ لوگ عقل سے کام نہیں لیتے یاتم غورنہیں کرتے )کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔بعض اسکالروں نے لکھاہے کہ قرآن نے عقل وفکرکے صیغے کم سے کم 500مرتبہ استعمال کیے ہیں ۔اسی سے پتہ چلتاہے کہ غو ر و فکرکرناخداکی ایک عظیم الشان نعمت ہے جس کا کوئی بدل نہیں ہوسکتاہے ،اس سے کام لینے اورغورفکرکرنے پربہت زیادہ ابھاراگیاہے ۔ خودرسول اکرم صحابہؓ کواس بات کی تعلیم دیتے تھے کہ وہ عقل سے کام لیں اورغوروفکرکیاکریں ۔قرآن نے ان بندوں کی بڑی تعریف فرمائی ہے جوکائنات میں غوروفکرکرتے ہیں اوراللہ کی آیات پر تدبرکرتے ہیں ۔ جولوگ عقل سے کام نہیں لیتے اپنے دماغ کا استعمال نہیں کرتے اوراپنے باپ داداکی اندھی تقلیدکیے چلے جاتے ہیں ان کوقرآن نے وہ چوپایوں سے بھی زیادہ بدعقل قراردیاہے ۔

جب اسلام آیاتوپوری دنیامیں اسطورہ کارواج تھا۔میتھالوجی کے تصورات وخرافات عام تھے جن میں یونانی میتھالوجی ،ہندی میتھالوجی ،رومی صنمیات اوراسرائیلی خرافی قصے زبان زدعام تھے ۔کائنات کی اشیاء ،اجرام فلکی ،شجروحجر،سمندراورآسمان سب کوانسان ہیبت کی نظرسے دیکھتااوران کودیوی دیوتاسمجھ بیٹھتاتھا۔یونانیوں نے جومنطق وفلسفہ ایجادکیاتھااس میں بھی عقل عام سے دورازکاربحثیں تھیں،استقرائی دلیلوں پر زوردیاجاتاتھا۔غرض انسان اس کائنات کوحیرت کی نظرسے دیکھتاتھا۔اورجس چیز کوانسان حیرت وسرگشتگی سے دیکھے اس کووہ اپنادیوتاتوبناسکتاہے کبھی اس کواپنی تحقیق وتفتیش اوررسرچ کا موضوع نہیں بناسکتاہے۔حضوراکرم کے کم سن بیٹے حضرت ابراہیم کا انتقال ہواتواسی دن سورج کوگہن لگ گیا۔لوگوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ نبی آخرالزمان کے بیٹے کے غم میں سورج چاندکوبھی غم ہوااورگہن لگ گیا۔آپ نے کے کانوں میں بھی یہ بات پہنچی توآپ نے صحابہؓ کوجمع کرکے خطبہ دیاا ور فرمایا کہ یہ چاندسورج خداکی نشانیاں ہیں وہ کسی کی موت سے گہن آلودنہیں ہوتے بلکہ طبیعی قوانین کی کارفرمائی سے ایساہوتاہے ۔میرامطلب یہ ہے کہ ایک توہم کے پیداہونے سے پہلے ہی آپ نے اس کا خاتمہ کردیا۔کیونکہ توہمات کے رہتے ہوئے انسان عقل سے اورغوروفکرسے کام نہیں لے سکتا۔وہم عقل پر تالاڈال دیتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام کے آنے تک انسانی علوم وفنون،آرٹ اورفکرکا قافلہ جامدبن کرایک منزل پر رکاہواتھا۔یہ اسلام تھا جس نے اس فکرانسانی کے اس رکے ہوئے قافلے کوPush کیا۔اس کوبتایاکہ کائنات اوراس کی اشیاء اس کے لیے مسخرکی گئی ہیں ،اس کوان سے کام لیناہے ،وہ اس کی عبادت وپوجا کا محل نہیں بلکہ ان کواس کی تحقیق واکتشاف اورتفتیش کا محل بنناچاہیے ۔اسلام نے انسان کواستخراجی اصول دیے ۔اس کومشاہدہ سکھایااورفکروتعقل کے میدان میں یہ اسلام کی اتنی بڑی دَین تھی کہ اس کے برابرکوئی دَین نہیں ہوسکتی ،چنانچہ اب جوانسان نے کائنات کوتسخیرکی نظرسے دیکھا،اس کی قوتوں کامشاہدہ کیا۔اپنے فکروتعقل کی قوتوں کومہمیز کیااس نے پوری دنیامیں اکتشاف واختراع کی ایک نئی دنیاآبادکردی ۔

صدراسلام کی ابتدائی چندصدیوں میں ہی عرب علماء وفضلاء نے صنعت وحرفت ،معاش واقتصاد،کیمیااورطبیعات ، جغرافیہ ،ہیئنت ،حساب ریاضی ،اقلیدس ،حکمت ،طب ،جراحت ،پیمائش،تاریخ ،اصول تاریخ وتمدن ،موسیقی ،آلات طرب،شعروادب ،بلاغت واصول صرف ونحووغیرہ علوم وفنون کوکہاں سے کہاں تک پہنچادیا۔اس وقت اسلامی دنیامیں دین ودنیاکی تفریق نہ ہوئی تھی اورسائنس وریاضیات کوبھی ایک دینی علم کی حیثیت سے حاصل کیا جاتا تھا کیونکہ نمازوں کے اوقات کوجاننے کے لیے آلات پیمائیش وحساب کی ضرورت تھی تقویمیں بنانے کی ضرورت ایک دینی ضرورت تھی۔اس وقت مسلمان دنیاسے آگے چلتے تھے پوری دنیاان سے اپناوقت معلوم کرتی تھی۔اس وقت جتنی اہمیت ایک حدیث کے عالم کویاتفسیرکے عالم کودیجاتی تھی اتنی ہی ریاضی وحساب اورجغرافیہ وسائنس کے عالم کودی جاتی تھی ۔کیایہ کوئی محض اتفاق تھاکہ امام ابوجعفرصادق کے شاگردجہاں ایک طرف امام اعظم ابوحنیفہ ہیں وہیں جابربن حیان جیساعظیم کیمیاداں بھی امام صادق کی مجالس کا حاضرباش ہے !اس دورمیں جہاں سیاسی مسائل اورانقلابات تمدن سے بے نیاز علماء وادباء نے قرآن کے علوم کی ،حدیث کے علوم کی خدمت کی ،فقہ کے گیسوسنوارے ،ادب وشعر کی بزم آراستہ کیں وہیں ابن سینا،فارابی ،ابن مسکویہ ،جابربن حیان ،موسیٰ رازی ،بتانی ،یعقوب بن اسحاق الکندی ،ابوعمروالجاحظ ، عباس بن فرناس ،ابوحنیفہ دینوری ،ابوالحسن المسعودی ،ابوبکرالمقدسی ،ابن بطوطہ ،محمدبن موسی دمیری ،ابن ماجد،البیرونی ،محمدالادریسی ،ابوالقاسم زہراوی ،ابن الیہثم ،ابن بیطار،ابن خلدون اورابن رشداوران جیسے کتنے ہی اساطین علم وفکرہیں جنہوں نے اسلامی جوش وجذبہ کے ساتھ علوم وفنون کی گرم بازاری کی اورایک نئی سائنس کی دنیاآبادکردی ان کے ترقی دیے گیے علوم وفنون میں علم طبیعیات ، معدنیات،ارضیات،علم زراعت ،طب وکیمیابصریات وغیرہ ہیں۔ان کی عربی کتابوں کے ترجمے بڑے پیمانے پر سولہویں صدی میں یوروپ پہنچے اورلاطینی میں ترجمہ ہوئے اس کے بعدفرنچ ،انگریزی وجرمن میں ۔جس زمانہ میں پیرس اورلندن چھوٹے چھوٹے شہرہواکرتے راتوں کوتاریک رہتے اس وقت قرطبہ ،قیروان،استنبول ،قاہرہ اوربغداد اوردہلی ملینوں انسانوں کے مسکن تھے ،جہاں شاہراہوں پر چراغاں رہتاجہاں الف لیلوی سماں چھایا رہتا ۔ جہاں کشادہ محلات ،مساجدکے بلندمینارے اونچی حویلیاں اورامراء کی ڈیوڑھیاں مرصع رہتیں۔شہرکے بازاروں میں وہ چکاچوندہوتی کہ لگتاکہ برقی قمقموں میں شہر نہایا ہوا ہے ۔ جہاں بیمارستانات میں سیکنڑوں اطبا ء اوران کے شاگردمریضوں کی دیکھ بھال اورنئی دواؤں کی تحقیق اورتیاری میں لگے رہتے اورایک نیاتمدن خلق کرتے رہتے۔یوروپ کے سمندروں میں عثمانی امیرالبحرکے بیڑے مغربیوں کولرزاں وترساں رکھتے ۔عربی زبان پوری دنیامیں رائج تھی وہ وقت کی زندہ زبان تھی اورشاہ فرانس کے نمائندے ،کلیسائے اعظم کے سفیراورمغرب کے بڑے بڑے علماء قرطبہ واشبیلیہ اورطلیطلہ کی درسگاہوں سے عربی رسوم وآداب کے ساتھ علوم وفنون کوسیکھنے میں فخرمحسوس کرتے تھے۔اسی لیے مغربی اسکالرجارج سارٹن کہتاہے کہ ’’گیارہویں صدی عیسوی میں علم وحکمت کا حقیقی ارتقامسلمانوں کا رہین منت تھا‘‘۔

اس کے بعدیوروپ والوں نے مسلمانوں کی تحقیقات کوزادراہ بناکراپناسائنسی سفرشروع کیا اور دو صدیوں میں یعنی سولہویں اورسترہویں صدیوں میں وہ دنیاسے آگے نکل چکے تھے۔اس عرصہ میں مسلمانوں میں شعوری یاغیرشعوری طورپر تجربہ ومشاہدہ کی قوتیں کمزورپڑچکی تھیں۔عجمی تصوف کی خرافات نے سب سے پہلے اسلام کی اسی بنیادپر تیشہ چلایاجس کوقرآن نے قائم کیاتھااوروہ تھا عقل سے کام لیناوحی سراسرغوروفکراورتعقل وتدبرکی دعوت تھی ۔وہ آزاد ئفکرکی دعوت تھی جبکہ مسلمانوں کی موجودہ بوسیدہ مذہبی فکر میں پہلاسبق ہی یہاں سے شروع ہوتاہے کہ ’’بڑے‘‘ جوکہ دیں اسی پر آمناوصدقناکہناجزوایمان ہے ۔جس دین کوآسمانوں پر کمندڈالنے والا بنایا گیا تھااس کے حاملین اولیا،قطب ،پیر،ابدال کے جیسے جاہلی واہموں کے چکرمیں مبتلاہوکررہ گئے ہیں ۔اب انہوں نے جھوٹی متصوفانہ کرامات کشف اورجعلی الہاموں کے سایہ میں رہنے میں عافیت جانی ا ور زندگی کے کاروزارسے کاٹ دینے والانیادین تخلیق کرلیاجومحمدرسول اللہ پر اترے دین سے قطعی طورپر مختلف تھا۔جن لوگوں نے اس صورت حال سے پیچھاچھڑاناچاہاان کوبھی بے سروپا روایات کے جنگل سے نجات نہ مل سکی اوروہ اٹھے تھے فکراسلامی کی تجدیدکرنے مگراس میں نئی نئی فرقہ بندیوں کے ظہورکا سبب بن گئے ۔روایات کے طومارمیں قرآن سے روشنی لیناان کے لیے بھی ممکن نہ رہاانہوں نے بھی خودساختہ قواعد اور جعلی تفسیری روایات کے طومار کو عملاقرآن پر حاکم بنادیا۔نتیجہ یہ ہواکہ کہاں تو محمدبن عبداللہ کے متبعین کے ہاتھ میں دنیاکی کمان دی دی گئی تھی اورکہاںیہ ہواکہ ان بے چاروں کے ہاتھ سے وقت کی لگام پھسلی جاتی تھی اوریہ پھربھی دواداروکے لیے اسی ’’چنیابیگم ‘‘سے رجوع کرتے تھے جس کے سبب بیمارہوئے تھے ۔ کہاں تو سولہویں صدی میں عثمانی ترک ویاناکامحاصرہ کرتے ہیں اورکہاں سوسال سے بھی کم مدت میں یوروپ وایشیامیں اپنے سارے مقبوضات کھودیتے ہیں ۔ اورجب بھی کسی پُرعزم خلیفۂ وقت نے وقت کے دھارے کے ساتھ چلنے کی کوشش کی اپنی فوج کی نئی تنظیم کی نئے اسلحہ یوروپ سے منگوائے فوراکسی شیخ الاسلام نے فتوی دیدیاکہ یہ غیراسلامی حرکت ہے ۔کسی عالمِ دین نے کہاکہ ٹیلی فون میں شیطان بولتاہے ۔کسی نے فتوی دیاکہ ٹرین میں یاہوائی جہاز میں نماز نہ ہوگی کیونکہ سجدہ کی تعریف اس پر صادق نہیں آئے گی ۔

وقت کی طنابیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل چکی تھیں لیکن ان کے علماء اب بھی ان کویہی باورکرائے جارہے تھے کہ بہت جلدایک آنے والاآئے گا ور سارے دلدردورکردے گا۔ایک پر ایک سانحہ ہوتاگیا۔ایشیااورافریقہ کے ممالک ایک ایک کرکے مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئے وہ پھربھی سراپاانتظاربیٹھے رہے ۔جب دشمن ان کے قلعوں پر بمباری کرتااوران کے مورچوں کوتوڑتاتوان کے علماوفقہاء ختم بخاری کرتے ،ختم خواجگاں کا تیربہدف فارمولادیتے مگرکچھ نہیں ہوتا۔جلدہی وہ وقت آیاکہ سیکولرمغربی تہذیب پوری دنیاپر حاوی ہوگئی ۔ انٹرنیٹ اوردوسرے جدیدذرائع مواصلات سے نئی ثقافت کا جوطوفان اٹھاوہ سب کچھ بہالے گیا۔اورکل جس سائنس نے ہماری انگلیاں پکڑکرچلناسیکھاتھاآج اس صورت حال میں اتنا زبردست فرق واقع ہوگیا ہے کہ آج اسلام اورسائنس کوحریف سمجھاجارہاہے ۔آج تہذیب وتمدن کے قافلہ میں مسلمان سب سے پیچھے ہیں ۔کل وہ پوری انسانی علمی وفکری میراث کے وارث تھے آج وہ اپنی ہی وراثت سے گریزاں ہیں۔آج ان کے واعظ اورمولوی ان کوعقل سے کام نہ لینے کا درس دیتے ہیں کہتے ہیں کہ دین میں عقل کا کیاکام ۔کل مسلمانوں کے لیے دینی علم ایک اکتشافی علم تھا اوراس کے سہارے وہ کائنات پر کمندڈالتے تھے ۔آج علم ان کے لیے تنخواہوں بھتوں اوراعلی مراتب کے حصول کا اورجھوٹی شہرت کا ذریعہ ہے۔آج مسلمان یونیورسٹیاں،مسلم ممالک کے سائنس کے ادارے ،تحقیق ورسرچ کے ادارے ،مسلم اخبارات اورمسلم لیبل لگی ہوئی ہرچیز دنیامیں تھرڈکلاس مانی جاتی ہے۔عرب ممالک کے لوگوں کویہ زعم ہے کہ اپنے پیٹروڈالرکے بل پر دنیاکے علم وفن کوخریدسکتے ہیں مگرنادان نہیں جانتے کہ علم وفن کے لیے پیسہ کی نہیں جگرکاوی کی ضرورت ہوتی ہے۔کوئی ٹاپ درجہ کی یونیورسٹی مسلم ممالک میں موجودنہیں۔جتنے سائنسداں ساری مسلم دنیاپیداکرتی ہے اتنے توصرف اکیلے چھوٹے سے اسرائیل کے اندرہیں۔خوداسلامیات کے شعبے میں مسلم ممالک کی جامعات کے شعبوں کی مجموعی کارکردگی پر مغرب کاصرف ایک مستشرق بھاری پڑجاتاہے ۔اس لیے کہ مستشرق کی اپنی تحقیق اوراپنی محنت ہوتی ہے اورہماری جامعات کے پروفیسران اوراساتذہ اپنے رسرچ اسکالروں سے محنت کراکران سے جبراوقہرمضامین لکھواکراپنے نام سے شائع کرتے ہیں، ظاہرہے کہ مانگے کایہ اجالا کیاخاک روشنی دے گا اوراس کا کیاعلمی مقام ہوگا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
*
سب ایڈیٹرافکارملی ،مصنف ،مترجم اورڈائرکٹرفاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیزC-303/3 شاہین باغ جامعہ نگرنئی دہلی ۲۵
ای میل :mohammad.ghitreef@gmail.com

Thursday, May 16, 2013

آج کا مسلمان قرآن سمجھنے کے ليے تيار نہيں۔




آج کا مسلمان قرآن سمجھنے کے ليے تيار نہيں۔

 

﴿ اے مسلمانو! قرآن کا ترجمہ تو پڑھو

﴿برائے مہربانی غلط فہمی دور کرليں ﴾ يہ غلط فہمی کيا ہے؟ اِس موضوع پر بات کرنے سے پہلے، ہم قرآن کی دو مثاليں پڑھتے ہيں:

مثال نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے۔ اِس کو غور سے سنو کہ جن لوگوں کوتم خدا کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے، اگرچہ اس کے لئے سب جمع ہوجائیں اور اگر ان سے کوئی مکھی چھین کر لے جائے تو اسے اس سے چھڑا نہیں سکتے طالب اور مطلوب (یعنی عابد اور معبود دونوں) گئے گزرے ہیں۔ (سورۃ االحج -73)

مثال نمبر 2 : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: جن لوگوں نے خدا کے سوا (اوروں کو) کارساز بنا رکھا ہے ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک (طرح کا) گھر بناتی ہے اور کچھ شک نہیں کہ تمام گھروں سے کمزور مکڑی کا گھر ہے کاش یہ (اس بات کو) جانتے۔ ( سورۃ العنکبوت-41)

﴿ غلط فہمی ﴾ جب کچھ مسلمان بھا ئيوں سے (جو کہ ايک مذہبی تنظيم سےوابستہ ہيں)، کہا گيا کہ قرآن سمجھ کر پڑھيں اُنہوں نے يہ آيت پڑھی:
يُضِلُّ بِهٖ كَثِيْرًا ۙ وَّيَهْدِىْ بِهٖ كَثِيْرًاۭ
﴿ترجمہ؛ اس سے (خدا) بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو ہدایت بخشتا ہے ﴾

اور کہا کہ قرآن کا ترجمہ پڑھ کر انسان گمراہ ہو سکتا ہے اس لئے ترجمہ خود نہيں پڑھنا چاہيے بلکہ قرآن سمجھنے کے لئے کسی ماہر اوربا عمل بزرگ کے پاس جائيں۔اِس نظريہ کا بہت بڑا حصہ غلط ہے اور تھوڑا سا درست۔ آيئے پہلے غلط د يکھتے ہيں۔

﴿ غلط حصہ ﴾ دعویٰ غلط اس وجہ سے ہے کہ ميرےيہ مسلمان بھائی پوری آيت نہيں بلکہ آيت کا چھوٹا سا حصہ پڑھ کر خود بھی اوردوسروں کو بھی قرآن سمجھنے سے محروم رکھنے کا سبب بنتےہيں ۔ جب ہم مکمل آيت پڑھتے ہيں تو ہميں پتہ چلتا ہے کہ يہ گمراہی والی بات اُوپر لکھی گئی دو مثا لوں کے بارے ميں ہے“ نہ کہ قرآن کے بارے ميں”۔ فاسق اور نافرمان کفار نے ان مثالوں سے ہدايت حاصل کرنے کی بجائے کٹ حُجتی کی راہ اختيار کی اور پوچھا کہ خداجيسی بڑی ہستی کی ايسی چھوٹی اور حقير مخلوق کی مثال بيان کرنے سے کيا مراد ہےتو اللہ تعالیٰ نےجواب نازل کيا۔ }
( “
يُضِلُّ بِهٖ كَثِيْرًا ۙ وَّيَهْدِىْ بِهٖ كَثِيْرًاۭ” اس کا ايک چھوٹا حصہ ہے)
{
اب ہم جواب ميں نازل کی گئی پوری آيت پڑتے ہيں:
اِنَّ اللّٰهَ لَا يَسْتَحْىٖٓ اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۭ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَيَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ ۚ وَاَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَيَقُوْلُوْنَ مَاذَآ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهٖ كَثِيْرًا ۙ وَّيَهْدِىْ بِهٖ كَثِيْرً ا وَمَا يُضِلُّ بِهٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِيْنَ (سورۃ البقرہ -26 )
ترجمہ: خدا اس بات سے عار نہیں کرتا کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز (مثلا مکھی مکڑی وغیرہ) کی مثال بیان فرمائے۔ جو مومن ہیں وہ یقین کرتے ہیں کہ وہ ان کے پرودرگار کی طرف سے سچ ہے اور جو کافر ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس مثال سے خدا کی مراد ہی کیا ہے، اس(مثال) سے (خدا) بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو ہدایت بخشتا ہےاور گمراہ بھی کرتاہے تو نافرمانوں کو ہی کرتا ہے ۔

اب تک تين باتيں ثابت ہوئيں۔
(
نمبر1) يُضِلُّ بِهٖ كَثِيْرًا ۙ وَّيَهْدِىْ بِهٖ كَثِيْرًاۭ مثال کے بارے ميں ہے قرآن کے بارے ميں نہيں۔
(
نمبر2)فاسق اور نافرمان کٹ حجتی اور بد نيتی کی وجہ سے مزيد گمراہ ہو گا۔
(
نمبر3 )مومن اپنی نيک نيتی کی وجہ سے مزيد ہدايت پائے گا۔ کيونکہ وہ قرآن کے ساتھ مذاق نہيں کرتا بلکہ سمجھ کر پڑھتا ہے ، جس طرح دوسری کتابيں پڑھتا ہے بلکہ اُن سے بڑھ کرسمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔

﴿ درست حصہ ﴾ دعویٰ کا درست حصہ يہ ہے کہ جب قرآن کا تر جمہ پڑھيں تو جہاں سمجھ نہ آئے وہاں علماء کرام سے پوچھيں، خود اندازہ نہ لگا ئيں۔ جيسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔۔۔
اگر تم نہیں جانتے تو جو یاد رکھتے ہیں ان سے پوچھ لو۔ (سورۃ الانبياء،7)
﴿ قرآن کے آسان اور عام فہم ہونے کے بارے ميں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سب تعریف خدا ہی کو ہے جس نے اپنے بندے (محمد ) پر کتاب نازل کی اور اس میں کسی طرح کا ٹيڑھا پن اور پیچیدگی نہ رکھی ۔ سیدھی (اور آسان اتاری) تاکہ عذاب سخت سے جو اسکی طرف سے (آنے والا) ہےڈرائے اور مومنوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں خوشخبری سنائے ،کہ ان کے لیے (ان کے کاموں کا) نیک بدلہ (یعنی بہشت) ہے۔ (سورۃ الکھف۔1,2)

٭ ۔۔۔۔ ہم نے قرآن سمجھنے کے لئے آسان کردیا ، توکوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟ (پارہ نمبر 27سورة القمر، آیت نمبر 40,32,22,17)

قصے کہانياں بنياد ہو جس کی ، آخر وہ ہے دين کيسا
مسلمان ہو کر قرآن نہ سمجھے ، قرآن کا وہ ہے امين کيسا

کوئی بھی عقل مند انسان ، اپنے لئے کانٹے بو نہيں سکتا
مسلمان ہو اور قرآن نہ سمجھے ، ايسا ہو ہی نہيں سکتا

مختصراً يہ کہ قرآن کو پڑھے بغیر یہ کہہ دینا کہ یہ مشکل ہے، قرآن کے ساتھ کھلی بےانصا فی ہے ۔ اور اپنے ہی اُوپر ظلم ِعظيم ہے۔اللہ تعالی ٰ قرآن کے آسان ہونے کے بارے میں بار بار اعلان فرما رہا ہے ۔ اِس اعلان موجودگی ميں قرآن کو مشکل کہنا اللہ تعالیٰ کے فرمان کو جھٹلا دينا ہےاورانجانے ميں يا جان بوجھ کر کھلی قرآن دشمنی ہے ۔ توبہ کرنے کا وقت آج ہے ،موت کے بعد نہيں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔

رسول() اور اصحابؓ رسول()۔۔۔ قرآن کی خاطر۔۔۔
بدر اور کربلاجيسے معرکے سجاتے رہے ہيں ،
آج کا مسلمان قرآن سمجھنے کے ليے تيار نہيں۔۔۔۔“ واہ رے مسلمان

نا صر محمود (پرومو ٹر ترجمہء قرآن)