Thursday, May 16, 2013

آج کا مسلمان قرآن سمجھنے کے ليے تيار نہيں۔




آج کا مسلمان قرآن سمجھنے کے ليے تيار نہيں۔

 

﴿ اے مسلمانو! قرآن کا ترجمہ تو پڑھو

﴿برائے مہربانی غلط فہمی دور کرليں ﴾ يہ غلط فہمی کيا ہے؟ اِس موضوع پر بات کرنے سے پہلے، ہم قرآن کی دو مثاليں پڑھتے ہيں:

مثال نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے۔ اِس کو غور سے سنو کہ جن لوگوں کوتم خدا کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے، اگرچہ اس کے لئے سب جمع ہوجائیں اور اگر ان سے کوئی مکھی چھین کر لے جائے تو اسے اس سے چھڑا نہیں سکتے طالب اور مطلوب (یعنی عابد اور معبود دونوں) گئے گزرے ہیں۔ (سورۃ االحج -73)

مثال نمبر 2 : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: جن لوگوں نے خدا کے سوا (اوروں کو) کارساز بنا رکھا ہے ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک (طرح کا) گھر بناتی ہے اور کچھ شک نہیں کہ تمام گھروں سے کمزور مکڑی کا گھر ہے کاش یہ (اس بات کو) جانتے۔ ( سورۃ العنکبوت-41)

﴿ غلط فہمی ﴾ جب کچھ مسلمان بھا ئيوں سے (جو کہ ايک مذہبی تنظيم سےوابستہ ہيں)، کہا گيا کہ قرآن سمجھ کر پڑھيں اُنہوں نے يہ آيت پڑھی:
يُضِلُّ بِهٖ كَثِيْرًا ۙ وَّيَهْدِىْ بِهٖ كَثِيْرًاۭ
﴿ترجمہ؛ اس سے (خدا) بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو ہدایت بخشتا ہے ﴾

اور کہا کہ قرآن کا ترجمہ پڑھ کر انسان گمراہ ہو سکتا ہے اس لئے ترجمہ خود نہيں پڑھنا چاہيے بلکہ قرآن سمجھنے کے لئے کسی ماہر اوربا عمل بزرگ کے پاس جائيں۔اِس نظريہ کا بہت بڑا حصہ غلط ہے اور تھوڑا سا درست۔ آيئے پہلے غلط د يکھتے ہيں۔

﴿ غلط حصہ ﴾ دعویٰ غلط اس وجہ سے ہے کہ ميرےيہ مسلمان بھائی پوری آيت نہيں بلکہ آيت کا چھوٹا سا حصہ پڑھ کر خود بھی اوردوسروں کو بھی قرآن سمجھنے سے محروم رکھنے کا سبب بنتےہيں ۔ جب ہم مکمل آيت پڑھتے ہيں تو ہميں پتہ چلتا ہے کہ يہ گمراہی والی بات اُوپر لکھی گئی دو مثا لوں کے بارے ميں ہے“ نہ کہ قرآن کے بارے ميں”۔ فاسق اور نافرمان کفار نے ان مثالوں سے ہدايت حاصل کرنے کی بجائے کٹ حُجتی کی راہ اختيار کی اور پوچھا کہ خداجيسی بڑی ہستی کی ايسی چھوٹی اور حقير مخلوق کی مثال بيان کرنے سے کيا مراد ہےتو اللہ تعالیٰ نےجواب نازل کيا۔ }
( “
يُضِلُّ بِهٖ كَثِيْرًا ۙ وَّيَهْدِىْ بِهٖ كَثِيْرًاۭ” اس کا ايک چھوٹا حصہ ہے)
{
اب ہم جواب ميں نازل کی گئی پوری آيت پڑتے ہيں:
اِنَّ اللّٰهَ لَا يَسْتَحْىٖٓ اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۭ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَيَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ ۚ وَاَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَيَقُوْلُوْنَ مَاذَآ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهٖ كَثِيْرًا ۙ وَّيَهْدِىْ بِهٖ كَثِيْرً ا وَمَا يُضِلُّ بِهٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِيْنَ (سورۃ البقرہ -26 )
ترجمہ: خدا اس بات سے عار نہیں کرتا کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز (مثلا مکھی مکڑی وغیرہ) کی مثال بیان فرمائے۔ جو مومن ہیں وہ یقین کرتے ہیں کہ وہ ان کے پرودرگار کی طرف سے سچ ہے اور جو کافر ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس مثال سے خدا کی مراد ہی کیا ہے، اس(مثال) سے (خدا) بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو ہدایت بخشتا ہےاور گمراہ بھی کرتاہے تو نافرمانوں کو ہی کرتا ہے ۔

اب تک تين باتيں ثابت ہوئيں۔
(
نمبر1) يُضِلُّ بِهٖ كَثِيْرًا ۙ وَّيَهْدِىْ بِهٖ كَثِيْرًاۭ مثال کے بارے ميں ہے قرآن کے بارے ميں نہيں۔
(
نمبر2)فاسق اور نافرمان کٹ حجتی اور بد نيتی کی وجہ سے مزيد گمراہ ہو گا۔
(
نمبر3 )مومن اپنی نيک نيتی کی وجہ سے مزيد ہدايت پائے گا۔ کيونکہ وہ قرآن کے ساتھ مذاق نہيں کرتا بلکہ سمجھ کر پڑھتا ہے ، جس طرح دوسری کتابيں پڑھتا ہے بلکہ اُن سے بڑھ کرسمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔

﴿ درست حصہ ﴾ دعویٰ کا درست حصہ يہ ہے کہ جب قرآن کا تر جمہ پڑھيں تو جہاں سمجھ نہ آئے وہاں علماء کرام سے پوچھيں، خود اندازہ نہ لگا ئيں۔ جيسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔۔۔
اگر تم نہیں جانتے تو جو یاد رکھتے ہیں ان سے پوچھ لو۔ (سورۃ الانبياء،7)
﴿ قرآن کے آسان اور عام فہم ہونے کے بارے ميں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سب تعریف خدا ہی کو ہے جس نے اپنے بندے (محمد ) پر کتاب نازل کی اور اس میں کسی طرح کا ٹيڑھا پن اور پیچیدگی نہ رکھی ۔ سیدھی (اور آسان اتاری) تاکہ عذاب سخت سے جو اسکی طرف سے (آنے والا) ہےڈرائے اور مومنوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں خوشخبری سنائے ،کہ ان کے لیے (ان کے کاموں کا) نیک بدلہ (یعنی بہشت) ہے۔ (سورۃ الکھف۔1,2)

٭ ۔۔۔۔ ہم نے قرآن سمجھنے کے لئے آسان کردیا ، توکوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟ (پارہ نمبر 27سورة القمر، آیت نمبر 40,32,22,17)

قصے کہانياں بنياد ہو جس کی ، آخر وہ ہے دين کيسا
مسلمان ہو کر قرآن نہ سمجھے ، قرآن کا وہ ہے امين کيسا

کوئی بھی عقل مند انسان ، اپنے لئے کانٹے بو نہيں سکتا
مسلمان ہو اور قرآن نہ سمجھے ، ايسا ہو ہی نہيں سکتا

مختصراً يہ کہ قرآن کو پڑھے بغیر یہ کہہ دینا کہ یہ مشکل ہے، قرآن کے ساتھ کھلی بےانصا فی ہے ۔ اور اپنے ہی اُوپر ظلم ِعظيم ہے۔اللہ تعالی ٰ قرآن کے آسان ہونے کے بارے میں بار بار اعلان فرما رہا ہے ۔ اِس اعلان موجودگی ميں قرآن کو مشکل کہنا اللہ تعالیٰ کے فرمان کو جھٹلا دينا ہےاورانجانے ميں يا جان بوجھ کر کھلی قرآن دشمنی ہے ۔ توبہ کرنے کا وقت آج ہے ،موت کے بعد نہيں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔

رسول() اور اصحابؓ رسول()۔۔۔ قرآن کی خاطر۔۔۔
بدر اور کربلاجيسے معرکے سجاتے رہے ہيں ،
آج کا مسلمان قرآن سمجھنے کے ليے تيار نہيں۔۔۔۔“ واہ رے مسلمان

نا صر محمود (پرومو ٹر ترجمہء قرآن)

 

No comments:

Post a Comment