Tuesday, January 29, 2013

قراءتوں کا اختلاف خارج از قرآن ہےـ عرضہ أخیرہ کا متن حتمی ہےـ

قراءتوں کا اختلاف خارج از قرآن ہےـ عرضہ أخیرہ کا متن حتمی ہےـ

اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو اس میں (بہت سا) اختلاف پاتے :

أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا
(4:82)

بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے؟ اگر یہ خدا کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو اس میں (بہت سا) اختلاف پاتے

Do they not consider the Qur'an (with care)? Had it been from other Than Allah, they would surely have found therein Much discrepancy.

اللہ کے کلمات کو ان کے مقامات سے بد لنے پر پابندی : جیساکہ تقدیم وتاخیر کا اختلاف کہ ایک قراء ت میں ہے ’وجاء ت سکرۃ الموت بالحق‘ اور دوسری قراء ت میں حق کا لفظ مقدم ہے ’وجاء ت سکرۃ الحق بالموت‘۔ یا. الفاظ کی کمی وبیشی کا اختلاف کہ ایک قراء ت میں کوئی لفظ کم اور دوسری قراء ت میں زیادہ ہومثلاً’وما خلق الذکر والانثی‘اور ’ماخلق‘کے بغیر صرف ’والذکر والانثی‘۔

فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً ۖ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ ۙ وَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَى خَائِنَةٍ مِنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
(5:13)

تو ان لوگوں کے عہد توڑ دینے کے سبب ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا یہ لوگ کلمات (کتاب) کو اپنے مقامات سے بدل دیتے ہیں اور جن باتوں کی ان کو نصیحت کی گئی تھی ان کا بھی ایک حصہ فراموش کر بیٹھے اور تھوڑے آدمیوں کے سوا ہمیشہ تم ان کی (ایک نہ ایک) خیانت کی خبر پاتے رہتے ہو تو ان کی خطائیں معاف کردو اور (ان سے) درگزر کرو کہ خدا احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے

But because of their breach of their covenant, We cursed them, and made their hearts grow hard; they change the words from their (right) places and forget a good part of the message that was sent them, nor wilt thou cease to find them- barring a few - ever bent on (new) deceits: but forgive them, and overlook (their misdeeds): for Allah loveth those who are kind.

انظرنا کی جگہ راعنا کہنے پر پابندی : جیساکہ بدلیت کا اختلاف کہ ایک قراء ت میں ایک لفظ ہے اور دوسری قرا ء ت میں اس کی جگہ دوسر ا لفظ ہے مثلاً ’ننشرھا‘اور ’ننشزھا‘ اور ’طلح‘اور’طلع‘۔

مِنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّينِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَأَقْوَمَ وَلَكِنْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا
(4:46)

اور یہ جو یہودی ہیں ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ کلمات کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور نہیں مانا اور سنیئے نہ سنوائے جاؤ اور زبان کو مروڑ کر اور دین میں طعن کی راہ سے (تم سے گفتگو) کے وقت راعنا کہتے ہیں اور اگر (یوں) کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور (صرف) اسمع اور (راعنا کی جگہ) انظرنا (کہتے) تو ان کے حق میں بہتر ہوتا اور بات بھی بہت درست ہوتی لیکن خدا نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کر رکھی ہے تو یہ کچھ تھوڑے ہی ایمان لاتے ہیں

Of the Jews there are those who displace words from their (right) places, and say: "We hear and we disobey"; and "Hear what is not Heard"; and "Ra'ina"; with a twist of their tongues and a slander to Faith. If only they had said: "What hear and we obey"; and "Do hear"; and "Do look at us"; it would have been better for them, and more proper; but Allah hath cursed them for their Unbelief; and but few of them will believe.

زبان کو مروڑ مروڑ کر پڑھنے پر پابندی : تاکہ تم سمجھو کہ جو کچھ وہ پڑھتے ہیں کتاب میں سے ہے حالانکہ وہ کتاب میں سے نہیں ہے۔

وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
( 3:78 )

اور ان (اہلِ کتاب) میں بعضے ایسے ہیں کہ کتاب (تورات) کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں تاکہ تم سمجھو کہ جو کچھ وہ پڑھتے ہیں کتاب میں سے ہے حالانکہ وہ کتاب میں سے نہیں ہے اور کہتے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے (نازل ہوا) ہے حالانکہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہوتا اور خدا پر جھوٹ بولتے ہیں اور (یہ بات) جانتے بھی ہیں

There is among them a section who distort the Book with their tongues: (As they read) you would think it is a part of the Book, but it is no part of the Book; and they say, "That is from Allah," but it is not from Allah: It is they who tell a lie against Allah, and (well) they know it!

کیا قرآن مجید کو اہل زبان اٹکل سے پڑھ لیتے تھے ؟

اس کے اندر نہ صرف یہ کہ اعراب نہ تھے بلکہ نقطے بھی نہ تھے، کیونکہ اس وقت تک یہ علامات ایجاد نہ ہوئی تھیں ۔اس رسم الخط میں پورے قرآن کی عبارت یوں لکھی گئی تھی:
کتاب احکمت ایتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر
اس طرز تحریر کی عبارتوں کو اہل زبان اٹکل سے پڑھ لیتے تھے

یہ ایک کہانی ہے کیونکہ:

بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ
(26:195)

اور (القا بھی) فصیح عربی زبان میں (کیا ہے)

In the perspicuous Arabic tongue.

اللہ نے تو کہا "عربی مبین" یعنی ارتقاء شدہ زبان ہے !!!
قرآن میں‌ نقاط اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے تھے !!!
لسان مبین عربی میں‌ اعراب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے تھے !!!
لسان مبین عربی لکھنے والے استاد شاگرد کا امتحان لینے کے لیے اعراب و نقاط چھوڑ دیتے تھے !!!
قرآن ارتقائی عربی میں نازل نہیں ہوا کہ پڑھنے کے لیے "اٹکل" سے کام لینا پڑے !!!
کیا آپ عربی زبان کو نقاط کے بغیر اندازے یعنی اٹکل سے پڑھ سکتے ہیں ؟؟؟

یجمعون :: تجمعون :: نقاط کے بغیر اندازے سے کیا پڑھوں ؟؟؟

یعلمون :: تعلمون :: نقاط کے بغیر اندازے سے کیا پڑھوں ؟؟؟

علامہ غامدی صاحب کا موقف:

[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ المورد کے رفقا ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔]
سوال: کیا یہ بات درست ہے کہ جاوید احمد صاحب غامدی قرآن مجید کی صرف ایک ہی قرأ ت کے قائل ہیں،حالانکہ ساری امت قرآن مجید کی سات یا دس بلکہ اس سے بھی زیادہ قرأت کی قائل ہے؟ اگر یہ بات صحیح ہے تو انھوں نے امت سے ہٹ کر یہ نقطۂ نظرکیوں اختیار کیا ہے؟ کیا امت سے ہٹ کرایسا نقطۂ نظر اختیار کرنا گمراہی نہیں ہے؟(رشیداحمد)
جواب :اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری امت میں یہ نقطۂ نظر بھی پایا جاتا ہے کہ قرآن مجید کی بہت سی قرأ تیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ امت میں بس ایک یہی نقطہ ء نظر موجود ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ قرآن مجید کی قرأ ت کے حوالے سے ہماری امت میں دو نقطہ ہائے نظر موجود ہیں۔
ایک یہ کہ قرآن مجید کی مختلف قرأ ت ہیں۔ مثلاً
۱۔ سورہ الفاتحہ کی آیت ۳ کی ایک قرأ ت ’’مِالِک یَِوْمِ الِدّیِْن‘‘ ہے
اور دوسری ’’مِالِک یَِوْمِ الِدّیِْن‘‘۔
۲۔ النساء کی آیت ۱۲کی ایک قرأ ت یہ ہے:
وَإِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلاَلَۃً أَوِ امْرَأَۃٌ، وَّلَہٗٓ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ۔
اور دوسری میں اس کے ساتھ ’من أم‘ کا اضافہ ہے:
وَإِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلاَلَۃً أَوِ امْرَأَۃٌ، وَّلَہٗٓ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ من أم۔
۳۔ المائدہ کی آیت ۸۹ کی ایک قرأ ت یہ ہے:
فَکَفَّارَتُہُ إِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسَاکِینَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَہْلِیکُمْ أَوْ کِسْوَتُہُمْ أَوْ تَحْرِیرُ رَقَبَۃٍ۔
اور دوسری میں اس کے ساتھ’مُؤْمِنَۃٍ‘ کا اضافہ ہے:
فَکَفَّارَتُہُ إِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسَاکِینَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَہْلِیکُمْ أَوْ کِسْوَتُہُمْ أَوْ تَحْرِیرُ رَقَبَۃٍ مُؤْمِنَۃٍ۔
۴۔ المائدہ کی آیت ۶کی ایک قرأ ت یہ ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلاۃِ فاغْسِلُواْ وُجُوہَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَینِ ۔
اور دوسری میں ’أَرْجُلَکُمْ‘کے بجائے ’أَرْجُلِکُمْ‘ ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلاۃِ فاغْسِلُواْ وُجُوہَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِکُمْ وَأَرْجُلِکُمْ إِلَی الْکَعْبَینِ ۔
۵۔ نساء کی آیت ۲۴ کی ایک قرأ ت یہ ہے:
فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِہِ مِنْہُنَّ فَآتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ فَرِیضَۃً۔
اور دوسری قرأ ت میں الی أ جل مسمی کے الفاظ کا اضافہ ہے:
فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِہِ مِنْہُنَّ اِلَی اَجَلٍ مُسَمًّی فَآتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ فَرِیضَۃً۔
۶۔ سورہ حج کی آیت ۵۲ کی ایک قراء ت یہ ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِیٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّی ۔
اور دوسری قرأ ت میں وَلَا مُحَدَّثٍ کا اضافہ ہے۔
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِیٍّ وَلَا مُحَدَّثٍ إِلَّا إِذَا تَمَنَّی ۔
۷۔ اسی طرح قرأ توں میں اس نوعیت کا اختلاف بھی موجود ہے کہ ایک قرأ ت میںنُنْشِزُہَا‘ کے الفاظ ہیں اور دوسری میں ’نَنْشُرُہَا‘کے، ایک میںفَتَبَیَّنُوْا‘کے الفاظ ہیں اور دوسری میں’فَتَثَبَّتُوْا‘کے اور ایک میںطَلْحٍ‘ کے الفاظ ہیں اور دوسری میں ’طَلْعٍ‘ کے۔

قرآن مجید کی قرأ توں کے حوالے سے اس طرح کے کئی اختلافات بیان کیے جاتے ہیں۔ پھر ان میں سے کچھ کو شاذ قرأ ت قرار دے کر قبول نہیں بھی کیا جاتا۔ قراء تو ں کے رد و قبول کا کوئی منصوص معیار موجود نہیں ہے۔ بس اہل فن نے مل کر کچھ شرائط طے کردی ہیں جن پر پورا اترنے والی قرأت کو قبول کیا جاتا اور باقی کو رد کیا جاتا ہے۔

یہ شرائط درج ذیل ہیں:

۱۔ قرأ ت مصحف عثمانی کے رسم الخط کے مطابق ہو۔
۲۔ وہ لغت محاورے اور قواعد زبان کے خلاف نہ ہو۔
۳۔ اس کی سند معتبر اور مسلسل واسطے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہو۔

بہرحال، مختلف قرأ توں کے اس تصور کو قبول کرنے کے بعد یہ خیال غلط قرار پاتا ہے کہ خدا کی طرف سے نازل ہونے والے قرآن کے الفاظ میں ایک زیر، زبر اور ایک شوشے کا بھی فرق نہیں ہے اور مزید یہ کہ بعض قرأ توں سے معنی و مفہوم میں بھی فرق واقع ہو جاتا ہے، بلکہ بعض جگہ شریعت کا حکم بھی بدل جاتا ہے۔

دوسری رائے :

اس سلسلے میں دوسری رائے وہ ہے جسے الزرکشی نے ’البرہان‘ میں ابوعبد الر حمن السلمی سے روایت کیا ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں:
’’
ابو بکر و عمر ، عثمان ،زید بن ثابت اور تمام مہاجرین و انصار کی قرأ ت ایک ہی تھی۔ وہ قرأت عامہ کے مطابق قرآن پڑھتے تھے۔ یہ وہی قرأ ت ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے سال جبریل امین کو دو مرتبہ قرآن سنایا۔ عرضۂ اخیرہ کی اِس قراء ت میں زیدبن ثابت بھی موجود تھے ۔دنیا سے رخصت ہونے تک وہ لوگوں کو اِسی کے مطابق قرآن پڑھاتے تھے ۔‘‘ (۱/۳۳۱ )

اسی نقطہء نظر کو السیوطی نے اپنی کتاب ’الاتقان‘ میں ابن سیرین سے اس طرح روایت کیا ہے:
’’
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی وفات کے سال جس قراء ت پر قرآن سنایا گیا، یہ وہی قراء ت ہے جس کے مطابق لوگ اِس وقت بھی قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں۔‘‘ (۱/۱۸۴ )

اس رائے کی اصل خوبی یہ ہے کہ اس میں بیان کردہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے کیے گئے ایک وعدے کا لازمی نتیجہ ہے۔

قرآن مجید میں یہ وعدہ دو جگہ بیان ہوا ہے۔ سورہ الاعلیٰ میں ارشاد باری ہے:

سَنُقْرِءُکَ فَلَا تَنْسآی اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ ، اِنَّہٗ یَعْلَمُ الْجَھْرَ وَمَا یَخْفٰی۔ (۸۷: ۶۔ ۷ )

’’
عنقریب (اِسے) ہم (پورا) تمھیں پڑھا دیں گے تو تم نہیں بھولو گے ، مگر وہی جو اللہ چاہے گا ۔ وہ بے شک ، جانتا ہے اُس کو بھی جو اِس وقت (تمھارے)سامنے ہے اور اُسے بھی جو (تم سے)چھپا ہوا ہے ۔‘‘

اور سورہ القیامۃ میں ارشاد باری ہے:

لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ، اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَ قُرْاٰنَہٗ ، فَاِذَا قَرَاْنٰہٗ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ ، ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَابَیَانَہٗ۔( ۷۵: ۱۶۔۱۹)

’’
اِس (قرآن) کو جلد پا لینے کے لیے ، (اے پیغمبر )، اپنی زبان کو اِس پر جلدی نہ چلاؤ۔ اِس کو جمع کرنا اور سنانا ، یہ سب ہماری ہی ذمہ داری ہے ۔ اِس لیے جب ہم اِس کو پڑھ چکیں تو (ہماری) اُس قراء ت کی پیروی کرو۔ پھر ہمارے ہی ذمہ ہے کہ (تمھارے لیے اگر کہیں ضرورت ہو تو) اِس کی وضاحت کر دیں ‘‘

اس وعدے کی تکمیل کی صورت میں درج ذیل تین واضح نتائج رونما ہوئے :

۱۔ قرآن مجید کی وہ قرأ ت جو زمانہ نزول میں کی جا رہی تھی اس کے بعد اس کی ایک دوسری قرأ ت کی گئی۔اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نازل شدہ جس چیز کو ختم کرنا چاہا ختم کر دیا، تب قرآن اپنی آخری اور مکمل صورت میں آپ کے پاس محفوظ ہو گیا اور اس میں کسی سہو یا نسیان کو کوئی امکان باقی نہ رہا۔
۲۔ اس دوسری قرأ ت کے بعد آپ اس کے پابند ہوگئے کہ آپ اسی کی پیروی کریں اور پہلی قرأ ت کی پیروی آپ کے لیے جائز نہ رہی۔
۳۔ اس دوسری قرأ ت ہی کے موقع پر خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو جمع و ترتیب اور شرح و وضاحت کے ہر پہلو سے بھی مکمل کر دیا۔

بخاری کی ایک حدیث میں اس دوسری قرأ ت کا ذکر اس طرح سے آیا ہے:

کان یعرض علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم القرآن کل عام مرۃ ، فعرض علیہ مرتین فی العام الذی قبض فیہ۔ ( رقم ۴۹۹۸)

’’
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر سال ایک مرتبہ قرآن پڑھ کر سنایا جاتا تھا، لیکن آپ کی وفات کے سال یہ دو مرتبہ آپ کو سنایا گیا۔‘‘

جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوئے تو اس وقت لازم تھا کہ آپ کی قرأ ت یہی ہوتی، یہی قرأت آپ خلفاے راشدین اور تمام صحابۂ مہاجرین و انصار کو سکھاتے ، وہ اِسی کے مطابق قرآن کی تلاوت کرتے اور اِس معاملے میں اُن کے درمیان کوئی اختلاف نہ ہوتا۔

اوپر ہم نے زرکشی کے حوالے سے ابو عبدالرحمن السلمی کی اور سیوطی کے حوالے سے ابن سیرین کی جو روایات بیان کی ہیں ان میں یہی بتایا گیا ہے کہ صحابہ کے ہاں فی الواقع ایسا ہی تھا۔

ان دو آرا میں سے پہلی نسبتاً زیادہ شائع و ذائع ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ عرضہ أخیرہ کی قراءت سے پہلے جو قرأ ت موجود تھیں ،وہ بھی مختلف روایات کے ذریعے سے امت میں پھیل گئیں اور علما کے ہاں اپنے روایت ہونے کی بنا پر مقبول ہو گئیں اور پھر اس اختلاف کا باعث بنیں۔

بہرحال، غامدی صاحب ان آرا میں سے دوسری رائے کے قائل ہیں، چنانچہ ان کے بارے میں یہ بات کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے کہ انھوں نے اس معاملے میں امت میں موجود آرا سے ہٹ کر کوئی نیا نقطہء نظر قائم کیا ہے۔

قرآن کریم کتاب محفوط ہے۔

قرآن کریم کتاب محفوط ہے یا نہیں ، اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خود کر دیا ہے۔ آ پ نے سورۂ حجر15: 9 کی جو آیت (بے شک ہم نے ہی اس ذکر یعنی قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں) نقل کی ہے وہ اس باب میں آخری اور فیصلہ کن بات ہے۔ ایک مسلمان کے لیے یہ آیت ہی کافی ہے ، لیکن تار یخی حقائق بھی اس بات کی تائید ہی کرتے ہیں کہ قرآن کریم جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ، ٹھیک اسی طرح آج بھی ہمارے پاس موجود ہے ۔

علامہ غامدی صاحب اپنی کتاب 'میزان' میں کہتے ہیں :

’’
لہٰذا یہ بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی قرأت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے۔اس کے علاوہ اس کی جو قرا ٔ تیں تفسیروں میں لکھی ہوئی ہیں یا مدرسوں میں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں یا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں ‘وہ سب اس فتنہ عجم کے باقیات ہیں جس کے اثرات سے ہمارے علوم کا کوئی شعبہ ‘افسوس ہے کہ محفوظ نہیں رہ سکا‘‘۔

’’قرآن وہی ہے جو مصحف میں ثبت ہے۔

غامدی صاحب حضرت ہشام بن حکیماور حضرت عمرکی روایت پر اعتراضات کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’
اول یہ کہ یہ روایت اگرچہ حدیث کی امہات کتب میں بیان ہوئی ہے ‘لیکن اس کا مفہوم ایک ایسا معما ہے جسے کوئی شخص اس امت کی پوری تاریخ میں کبھی حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔امام سیوطی نے اس کی تعیین میں چالیس کے قریب اقوال اپنی کتاب ’’الاتقان ‘‘ میں نقل کیے ہیں ‘پھر ان میں سے ہر ایک کی کمزوری کا احساس کر کے موطأ کی شرح ’’تنویر الحوالک ‘‘میں بالآخر یہ اعتراف کر لیا ہے کہ اسے من جملہ متشابہات ماننا چاہیے جن کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا…یہی معاملہ ان روایتوں کا بھی ہے جو سیدنا صدیقاور ان کے بعد سیدنا عثمانکے دور میں قرآن کی جمع و تدوین سے متعلق حدیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں ۔قرآن ‘جیسا کہ اس بحث کی ابتدا میں بیان ہوا‘اس معاملے میں بالکل صریح ہے کہ وہ براہِ راست اللہ کی ہدایت کے مطابق اور رسول اللہ کے حین حیات میں مرتب ہوا‘ لیکن یہ روایتیں اس کے بر خلاف ایک دوسری ہی داستان سناتی ہیں جسے نہ قرآن قبول کرتا ہے اور نہ عقل عام ہی کسی طرح ماننے کے لیے تیار ہو سکتی ہے ۔صحاح میں یہ اصلاً ابن شہاب زہری کی وساطت سے آئی ہیں ۔ائمہ رجال انہیں تدلیس اور ادراج کا مرتکب تو قرار دیتے ہی ہیں‘اس کے ساتھ اگر وہ خصائص بھی پیش نظر رہیں جو امام لیث بن سعدنے امام مالک کے نام اپنے ایک خط میں بیان فرمائے ہیں تو ان کی کوئی روایت بھی‘ بالخصوص اس طرح کے اہم معاملات میں قابل قبول نہیں ہو سکتی‘‘۔

’’
لہٰذا یہ بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی قرأت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے۔اس کے علاوہ اس کی جو قرأتیں تفسیروں میں لکھی ہوئی ہیں یا مدرسوں میں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں یا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں ‘وہ سب اس فتنۂ عجم کے باقیات ہیں‘‘۔

کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ‘‘ (الحجر)

’’
بے شک ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘۔

غامدی صاحب لکھتے ہیں :

’’
لہٰذا یہ بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی قرأت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے‘‘۔(۵)

اٹھو! قرآن کا دفاع کروـ

ہمیں کیاکرنا چاہئے؟ کیا ہم اس سرکش اور تباہی مچانے والے ہجوم میں ضعیف اور مسکین بن کر خاموش ہوجائیں۔ ہرگز نہیں، ہم اللہ کی توفیق سے ان لوگوں سے جہاد اور مجادلہ کریں گے اور قرآن اور عرضہ أخیرہ کے متن محمدیہ کا اس وقت تک دفاع کریں گے جب تک کہ ہمارے اندر کوئی زندگی کی رمق یا سانس باقی ہے۔

’’
میں اللہ عزوجل کے حضور گڑگڑاتے ہوئے اپنی ہتھیلیاں بلند کرتا ہوں اور قبولیت کی امید سے دعا کرتاہوں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن کریم کے متن کی حفاظت فرمائیں، جیساکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے کہ ’’ہم نے اس ذکر کونازل کیاہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘

قرآن مجید کی ترتیب :

ہمارے نزدیک قرآن مجید جس ترتیب میں ہمارے ہاں موجود ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی ترتیب سےاللہ تعالی کی رہنمائی میں اسے مرتب کر کے گئے تھے۔ یہ ترتیب اس انداز سے کی گئی ہےکہ اب اسے سمجھنے اور اس کی حکمتوں تک پہنچنے کے لیے کسی خارجی ذریعے کی ضرورت نہیں ہے۔ استاد محترم نے اپنی کتاب اصول ومبادی میں اس حوالے سے لکھا ہے:

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

سنقرئك فلا تنسی، الاماشاء الله، انه يعلم الجهر وما يخفی (الاعلی٨٧:٦۔٧)

''
عنقریب (اسے) ہم (پورا) تمھیں پڑھا دیں گے تو تم نہیں بھولو گے۔ مگر وہی جو اللہ چاہے گا۔ وہ بے شکجانتا ہے اس کو بھی جو اس وقت (تمھارے) سامنے ہے اور اسے بھی جو (تم سے) چھپا ہواہے۔''

لاتحرك به لسانك لتعجل به ٠ انعلينا جمعه وقرانه ، فاذا قرانه فاتبع قرانه ، ثم علينا بيانه (القيامه٧٥:١٦۔١٩)

''
اس (قرآن) کو جلد پا لینے کے لیے، (اے پیغمبر)، اپنیزبان کو اس پر جلدی نہ چلاؤ۔ اس کو جمع کرنا اور سنانا، یہ سب ہماری ذمہ داری ہے۔اس لیے جب ہم اس کو پڑھ چکیں تو ہماری اس قرأت کی پیروی کرو۔ پھر ہمارے ہی ذمہ ہےکہ (تمھارے لیے اگر کہیں ضرورت ہو تو) اس کی وضاحت کر دیں۔''

ان آیتوں میں قرآن کےنزول اور اس کی ترتیب وتدوین سے متعلق اللہ تعالیٰ کی جو اسکیم بیان ہوئی ہے، وہ یہہے: اولاً، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا ہے کہ حالات کے لحاظ سے تھوڑاتھوڑا کر کے یہ قرآن جس طرح آپ کو دیا جا رہا ہے، اس کو دینے کا صحیح طریقہ یہی ہے،لیکن اس سے آپ کو اس کی حفاظت اور جمع وترتیب کے بارے میں کوئی تردد نہیں ہوناچاہیے۔ اس کی جو قرأت اس کے زمانہ نزول میں اس وقت کی جارہی ہے، اس کے بعد اس کیایک دوسری قرأت ہوگی۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت اس میں سے کوئی چیزاگر ختم کرنا چاہیں تو اسے ختم کرنے کے بعد یہ آپ کو اس طرح پڑھا دیں گے کہ اس میں کسی سہو ونسیان کا کوئی امکان باقی نہ رہے گا اور اپنی آخری صورت میں یہ بالکل محفوظ آپ کے حوالے کر دیا جائے گا۔ ثانیاً، آپ کو بتایا گیا ہے کہ یہ دوسری قرأتقرآن کو جمع کرکے ایک کتاب کی صورت میں مرتب کر دینے کے بعد کی جائے گی اور اس کےساتھ ہی آپ اس بات کے پابند ہو جائیں گے کہ آیندہ اسی قرات کی پیروی کریں۔ اس کےبعد اس سے پہلے کی قرات کے مطابق اس کو پڑھنا آپ کے لیے جائز نہ ہو گا۔ ثالثاً، یہبتایا گیا ہے قرآن کے کسی حکم سے متعلق اگر شرح ووضاحت کی ضرورت ہوگی تو وہ بھی اسموقع پر کر دی جائے گی اور اس طرح یہ کتاب خود اس کے نازل کرنے والے ہی کی طرف سےجمع وترتیب اور تفہیم وتبیین کے بعد ہر لحاظ سے مکمل ہو جائے گی۔''

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف نزولی ترتیب سےقرآن مرتب کرنے نسبت :

اس اقتباس سے یہ واضح ہے کہ قرآن مجید جس شکل میں ہمارے سامنے ہے یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی دی ہوئی ہے اور اب اس کی خلاف ورزی کرنا جائز نہیں ہے۔ دوسرے یہ بات بھی اس میں بیان ہو گئی ہے کہ تدریج اور حکمت جو کچھ بھی ہم کسی حکم کے بارے میں جاننا چاہیں وہ اس میں بیان کر دیا گیا ہے اس کے لیے اب ہمیں کسی روایت یا شان نزول کی ضرورت نہیں ہے۔ باقی رہی وہ روایات جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف نزولی ترتیب سےقرآن مرتب کرنے نسبت کی گئی ہے، انھیں ہم قرآن کی محولہ بالا آیات کی روشنی میں ردکر سکتے ہیں۔ جب قرآن میں اللہ تعالی کی دی ہوئی ترتیب کا پابند کر دیا گیا ہے توحضرت علی کی طرف اس کی خلاف ورزی کی نسبت کس طرح قبول کی جا سکتی ہے۔

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : شکاری مراسلہ دیکھیں
اگر انہیں‌کوئی اعتراض ہے تو ازراہ کرم اس موضوع کے متعلق نیا دھاگا کھول کر وہاں اپنا شوق پورا کریں۔ ایسے ہر اختلافی دھاگے پر ان کی یہ روش قطرہ قطرہ کر کے پاک نیٹ فورم سے ہی سنگین شکایات کا باعث بن رہی ہے۔

قرآنِ کریم اور’’سبعہ احرف‘‘ : مختلف قراءات کے باعث "مستقل بیس قرآنِ کریم" کی اشاعت۔

قرآنِ کریم اور’’سبعہ احرف‘‘

مختلف قراءات کے باعث "مستقل بیس قرآنِ کریم" کی اشاعت۔

ایک روایت کا ترجمہ جو مسلم میں بیان کی گئی ہے ایک نظر اُس کو بھی دیکھ لیں۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں تھا تو ایک آدمی آیا وہ نماز پڑھنے لگا اس نے ایسی قراء ت کی جسے میں نے درست نہیں سمجھا پھر ایک دوسرا آدمی آیا اُس نے اس کے خلاف قراء ت کی جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو ہم سب رسول اللہ کے پاس گئے میں نے کہا بے شک اس نے ایسی قراء ت کی ہے جسے میں نے درست نہیں سمجھا اور دوسرا آیا تو اُس نے پہلے کے خلاف قراء ت کی آپ نے ان دونوں کو پڑھنے کا حکم دیا اُنہوں نے پڑھا تو آپ نے اُن دونوں کی توثیق کی۔ میرے دل میں تکذیب کا وسوسہ پیدا ہوا جو کہ زمانہ جاہلیت میں بھی کبھی پیدا نہ ہوا تھا۔ جب آپ نے میری حالت دیکھی تو میرے سینے پر ہاتھ مارا تو میں پسینہ پسینہ ہو گیا، گویا کہ خوف کی وجہ سے میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں۔ آپ نے مجھے فرمایا اے ابی! میری طرف فرشتہ بھیجا گیا کہ میں قرآن کو ایک طریقہ پر پڑھوں میں نے تکرار کی کہ میری امت پر آسانی فرمائیں۔ دوسری مرتبہ میری طرف فرشتہ بھیجا گیا کہ میں قرآن کو دو طریقوں پر پڑھوں میں نے تکرار کی کہ میری امت پر آسانی فرمائیے۔ تیسری مرتبہ میری طرف فرشتہ بھیجا گیا کہ میں قرآن کو سات قراء توں پر پڑھوں۔‘‘

اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اس روایت اور اس جیسی دوسری روایات کوناچیز بندہ بھی صحیح اور درست مانتا ہے لیکن روایت کے طور پر ’’مثل قرآن‘‘ نہیں تاہم اس روایت یا اس جیسی دوسری روایات کا جو مطلب و مفہوم عام طور پر سمجھا گیا ہے خصوصاً جو ’’اہل رشد‘‘ نے بیان کیا ہے اُس کے ساتھ مجھے مکمل اتفاق نہیں وضاحت ان شاء اللہ اپنے وقت پر آئے گی۔

جیسا کہ پیچھے ذکر کیا جا چکا ہے کہ روایت تو ایک ہے لیکن پانچ بار ذکر کی گئی ہے جس کی مصلحت امام صاحب موصوف کے ابواب واضح کر رہے ہیں۔ اس روایت کو ایک سے زیادہ بار ذکر کرنے سے جو مضمون اور الفاظ کی کمی بیشی ہے وہ بھی اپنے اندر بہت حکمت رکھتی ہے جو مفہوم بیان کرنے میں بہت مدد دیتی ہے اس کے ساتھ ہی میرے جیسے ناخواندہ اور سطحی علم رکھنے والے لوگوں میں اس کو بغور پڑھنے سے کچھ ایسے سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کا جواب ’’رشد‘‘ کے مضامین نگاروں کے ذمہ عموماً اور ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی صاحب کے ذمہ خصوصاً لازم آتا ہے امید ہے کہ وہ ہم جیسے عامی لوگوں کی تفہیم کی کوشش کریں گے تاکہ ہم جیسے لوگ بھی ’’رشد‘‘ کا مطالعہ کرتے رہیں۔ اس روایت سے فطرتاً پیدا ہونے والے سوالات درج ذیل ہیں۔

۱۔ کیا ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ جماعت کروا رہے تھے جب اُنہوں نے سورہ الفرقان پڑھی تھی اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ جماعت میں شریک تھے؟
۲۔ اگر ہشام بن حکیم جماعت کرا رہے تھے تو یہ کس وقت کی نماز تھی؟ کیونکہ وہ قرآنِ کریم کی تلاوت جہر کر رہے تھے؟
۳۔ کیا آپؐ کی موجودگی میں بھی دوسرے صحابہ کرام جماعت کرا لیا کرتے تھے؟ یا فرض کے علاوہ نوافل کی جماعت کرایا کرتے تھے؟
۴۔ اگر ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ انفرادی طور پر نمازِ نفل ادا کر رہے تھے تو کیا اُس وقت ابھی انفرادی نماز ادا کرنے والا بھی اپنی نماز میں قرآنِ کریم جہر پڑھتا تھا؟
۵۔ کوئی نمازی دورانِ نماز جب قرآن کی تلاوت کر رہا ہو تو اُس کو غلطی لگے تو دوسرے کا حق تصحیح کرانا نہیں؟ جس کو لقمہ دینا کہتے ہیں؟ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سے واقف نہیں تھے یا کوئی اور بات ہے؟ وضاحت درکار ہے۔
۶۔ کیا سورہ الفرقان اُس وقت آیات کی موجودہ ترتیب کے لحاظ سے مکمل ہو چکی تھی؟
۷۔ کیا دو یا دو سے زیادہ آدمی انفرادی طور پر اپنی اپنی نماز ادا کر رہے ہوں تو ان کو قرا ء ت جہر کرنی چاہیے یا خفی، اپنی اپنی قراء ت پر خیال رکھنا چاہیے یا دوسروں کی قراء ت پر؟ جیسا کہ صحابہ کرام نے کیا؟
۸۔ کیا آپؐ ہر ایک صحابی کو فرداً فرداً قرآنِ کریم کی آیات پڑھایا کرتے تھے اور ہر ایک کو الگ الگ الفاظ یاد کراتے تھے؟
۹۔ کیا اس روایت سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ دونوں صحابہ کرام نے مختلف طریقوں سے سورہ الفرقان کو پڑھا اور دونوں کو آپؐ نے فرمایا کہ یہ آیت یا سورت ’’اس طرح نازل ہوئی‘‘ تسلیم ہے کہ ایک کا پڑھنا تو ایسا ہی تھا جیسا کہ اس وقت قرآنِ کریم میں ہم سورہ الفرقان کو پڑھتے ہیں کیا دوسرے صحابی کا پڑھا ہوا بھی کسی جگہ محفوظ ہے اگر ہے تو کہاں ہے؟ اگر نہیں تو قرآنِ کریم محفوظ کیسے رہا؟
۱۰۔ ’’سبعہ احرف‘‘ سات حروف میں سے کسی ایک حرف پر پڑھنے سے جو آسانی مطلوب تھی اُس کا تقاضا ہے کہ ان سات حروف سے سب واقف ہوں جب ان سات میں سے ایک کے سواکسی دوسرے حرف کا علم ہی نہ ہو تو آسانی کس چیز میں ہوئی؟ کیا یہ بات مہمل نہیں ہو جاتی؟ پھر کسی مہمل بات کو آپؐ کی طرف منسوب کرنا روا ہو سکتا ہے؟
۱۱۔ ’’پورا قرآنِ کریم سات حروف پر نازل ہوا ہے‘‘ پورے قرآن کریم میں چھ ہزار سے زائد آیات ہیں کہیں سے صرف دس آیات مسلسل ’’سات حروف‘‘ پر بتا دیں تاکہ کچھ سمجھنے کی کوشش کی جائے؟
۱۲۔ جب کسی ایسی بات کی نسبت آپؐ کی طرف ہو جو آپؐ کے شایانِ شان نہ ہو تو کیا اُس سے بھی اعراض نہیں کیا جا سکتا؟ نہیں تو پھر اس آیت کا مفہوم کیا ہے کہ ’’جب تم نے ایسی بات کو سنا (جو آپ کے شایانِ شان نہیں تھی) تو تم نے کیوں نہ کہہ دیا کہ ہم کو زیب نہیں دیتا کہ اس طرح کی بات اپنی زبان پر لائیں۔ اے اللہ! تو پاک ہے یہ تو بہت بڑا بہتان ہے‘‘ (۲۴:۱۶)
۱۳۔ ایک لفظ یا جملہ قرآنِ کریم ہے لیکن قرآنِ کریم میں موجود نہیں تو اُس کو قرآنِ کریم کی طرح محفوظ کیسے کہا جا سکتا ہے؟ مثال دے کر واضح کریں تاکہ بات سمجھنا آسان ہو؟
۱۴۔ روایات میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کے واقعہ کے علاوہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو بھی اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ بالکل اسی طرح کا واقعہ پیش آیا ان دونوں واقعات میں پہلے کونسا واقعہ ہوا؟ پھر واقعہ اتنا اہم ہے کہ ایک کے بعد بھی دوسروں پر یہ بات واضح نہ ہو سکی، پھر دونوں صحابہ کرام کو تکذیب کا خیال بھی یکساں ایک جیسا آیا اور دونوں کے سینہ پر ہاتھ مارنے سے تسلی ہو گئی کیا یہ حسن اتفاق ہے؟ یا کوئی اور بات ہے۔
۱۵۔ مشاہدہ میں آنے والی باتوں میں سے جس بات کی سمجھ نہ آئے اُس کو بغیر سمجھے تسلیم کر لینا اگر ضروری ہے تو اس کا ثبوت کیا ہے؟ حالانکہ قرآنِ کریم کی ہدایت تو یہ ہے کہ ’’اور یہ وہ لوگ ہیں جب ان کو اُن کے رب کی آیتیں یاد دلائی جاتی ہیں تو ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے۔‘‘ (۲۵:۷۳) گویا اصل مفہوم کے لحاظ سے اس آیت کا مقصد اللہ کی آیات میں غور و فکر اور اثر پزیری ہے جو تفہیم کے بعد پیدا ہوتی ہے۔

قارئین کرام کہہ سکتے ہیں کہ میں نے یہ فرضی سوال پیدا کر کے روایات کی تنقیص کی ہے اور خیال نہیں کیا کہ یہ انتخاب امام بخاری جیسے جلیل القدر محدث رحمہ اللہ کا ہے اور سند کے لحاظ سے بالکل صحیح روایات ہیں ان پر اس طرح کے سوال پیدا کرنا کسی مسلمان کا شیوہ نہیں ہو سکتا؟ ہاں! قارئین کرام ایسا کہنے کا حق رکھتے ہیں بلکہ علاوہ ازیں بھی جو کچھ وہ کہنا چاہیں کہیں اور آزادی سے کہیں صرف اتنا خیال کرلیں کہ ان روایات میں جس ذاتِ اقدس کی بات کی جا رہی ہے وہ نبی اعظم و آخر کی ذات گرامی ہے جو ان روایات کے تمام راویان اور امام بخاری رحمہ اللہ سے زیادہ احترام اور تقویٰ کی حامل ہے بلکہ ایک مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے آپؐ کی طرف مشاہدہ میں آنے والی کسی ایسی بات کو منسوب کرنا جس کا کوئی مفہوم و مطلب متعین نہ ہو سکے سراسر زیادتی ہے اس طرح کسی مفہوم کو فرضی طور پر آپؐ کی طرف منسوب کرنا اس زیادتی پر مزید زیادتی ہے جس کا کوئی جواز نہیں۔ بات یقیناًکچھ ہو گی لیکن راویانِ حدیث اس کو واضح نہیں کر سکے بلکہ ان کے اس طرح کے بیانات نے قرآنِ کریم کو عام لوگوں کی نظروں میں بھی غیر محفوظ ثابت کر دیا ہے اور اہل رشد نے اس کو محفوظ کرنے کے لیے سولہ قرآن الگ الگ طباعت کرنے کے عزم کا اظہار فرمایا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ’’رشد‘‘ کے تمام مضمون نگاروں نے بھی فرضی سوال پیدا کر کے ان کے فرضی جواب دینے کی جو کوشش کی ہے وہ ایک ناکام کوشش ہے جو تمام مضامین میں واضح اور صاف نظر آ رہی ہے ہم نے یہ سوال اس لیے اُٹھائے ہیں کہ فرضی سوال اُٹھا کر فرضی جواب دینے والے ان کے جوابات بھی دیں جو روایات کو دیکھنے سے ہر ذہن میں اُٹھتے ہیں۔

ہم مختلف قراء ت کا انکار نہیں کر رہے قراء ت ایک فن ہے جس کا تعلق محض فن سے ہے اور لحن و لہجہ سے ہے قرآنِ کریم کی عبارات کو بدلنے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے قرآنِ کریم کے الفاظ میں تغیر و تبدل، کمی و بیشی اور غلط ملط کرنے کی کسی انسان کو اجازت نہیں دی جا سکتی خواہ وہ کون ہو، کہاں ہو اور کیسا ہو؟ ہمارا ایمان ہے کہ آپؐ نے بھی کبھی ایسا نہیں کیا اور نہ ایسا کرنے کا حکم دیا۔ بات اور تھی لیکن بد قسمتی سے کچھ اس طرح گڈ مڈ کر دی گئی کہ اس کو خواہ مخواہ ایک چیستاں بنا کر رکھ دیا گیا جس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔

قرآنِ کریم کو مختلف قراء حضرات کی طرف منسوب کرنا کہ فلاں نے اس طرح پڑھا اور فلاں نے اس طرح اور ہماری اس سر زمین میں فلاں قاری کی قراء ت پڑھی جاتی ہے اور فلاں فلاں علاقہ اور ملک میں فلاں فلاں قاری کی قراء ت پڑھی جاتی ہے اور یہ تمام قراء تیں آپس میں مختلف ہیں اور سب منزل من اللہ ہیں اس طرح کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں قرآنِ کریم اللہ رب کریم کا کلام ہے جو نبی اعظم و آخر کے سینہ اقدس میں نازل کیا گیا ہے شفوی اور سمعی طور پر آپؐ کے حکم کے مطابق مختلف کاتبانِ وحی نے تحریر کیا ہے جس کے باعث رسم الخط میں یقیناًفرق پایا جاتا ہے اور یہ ایک فطری چیز ہے لیکن شفوی اور سمعی صورت میں مکمل طور پر یکساں ہے یہی وجہ ہے کہ اس کے خط کو توقیفی کہا گیا ہے جس میں رد و بدل جائز نہیں۔ ہاں اس کے متن کو اس رسم الخط میں تحریر کرنے کے ساتھ ساتھ شفوی صوت کو محض لوگوں کی تفہیم کے لیے تحریراً پیش کیا جا سکتا ہے تاکہ عام لوگ بھی جو قراء حضرات سے تلقی بالقبول کے طور پر نہیں پڑھ سکتے وہ حروف کی شناخت سے تلفظ کو صحیح طور پر ادا کر سکیں جس طرح اردو خواں لوگوں کے لیے ناچیز بندہ نے قرآنِ کریم کے متن کے نیچے تجوید الحروف کے لحاظ سے صوتِ قرآنی کو درج کیا ہے جس کوملک عزیز میں مختلف ادارے طباعت کرا رہے ہیں اور بیرونِ ملک بھی اردو خواں لوگوں کی سہولت کے لیے طبع کیا جا رہا ہے۔ اور اس طرح اس کے تلفظ کو دوسری زبانوں میں بھی ان کے اپنے حروف ہجا کے ساتھ متن قرآنی کے تحت پیش کیا جا سکتا ہے اس لیے کہ قرآنِ کریم صرف عربی بولنے والوں کے لیے نہیں بلکہ تمام جہانوں کے انسانوں کے لیے یکساں ایک جیسا ہے۔ یہی وہ سہولت ہے جو روایات میں بیان کی گئی ہے۔ گویا ’’سبعہ احرف‘‘ کی تمام قراء ا تیں ہی قرآنِ کریم کے اندر موجود ہیں۔

دنیا میں جتنے حروف ہجا ایجاد کیے گئے ہیں اور مختلف لوگوں کی بول چال میں استعمال ہوتے ہیں جس سے کوئی بھی زبان یعنی بولی معرضِ وجود میں آتی ہے اُس میں ارتقا جاری رہا ہے اس طرح اُس کا رسم املائی بھی ارتقاء حاصل کرتا آیا ہے کر رہا ہے اور کرتا رہے گا لیکن قرآنِ کریم کے رسم الخط کو اس لیے توقیفی کہا گیا ہے کہ وہ رسم ارتقائی صورت کو قبول نہیں کرتا محض اس لیے کہ رسم املائی میں خواہ کتنا بھی ارتقاء ہو شفوی صوت وہی رہے گی وہ بدل نہیں سکتی کیونکہ وہ ’’تلقی بالقبول‘‘ کے تحت آپؐ سے براہ راست حاصل کی گئی ہے اور بدستور اسی طرح آگے چلتی آ رہی ہے کہ اس کی حفاظت کا وعدہ خداوندی ہے جس کے باعث اس میں تغیر و تبدل ممکن نہیں۔ ہاں! کسی علاقہ یا ملک میں بھیجے گئے مصحف اول سے قرآنِ کریم کی طباعت میں قرآنِ کریم کا کوئی لفظ قرآنِ کریم ہی کے کسی دوسرے لفظ کے مطابق بدل گیا ہو اور آگے طباعت اُس طرح ہوتی چلی آ رہی ہو تو یہ دوسری بات ہے کیونکہ قرآنِ کریم میں ہزاروں مقامات پر الفاظ و جملے قرآن کریم کی آیات میں ایکدوسرے کے ساتھ بدل کر آتے ہیں جو ہر صفحہ پر دیکھے جا سکتے ہیں جو حفاظ کے لیے متشابہ کا باعث ہوتے ہیں۔ یہ قرآنِ کریم میں اختلاف نہیں بلکہ ان کا نزول ہی اس طرح ہوا ہے۔ جب تک نزول جاری رہا اس طرح کے متشابہات کا پیدا ہونا ایک فطری امر تھا لیکن قرآنِ کریم کے نزول کی تکمیل کے بعد جب عرضہ آخیرہ میں اس کی تکمیل ہو گئی تو موجودہ ترتیب کے مطابق اگر کسی جملہ یا لفظ پر متشابہ ہوا تو مکمل تحریر نے اُس کو حل کر دیا اور قرآنِ کریم کی ترتیب وتکمیل کے بعد اس طرح کے متشابہات خود بخود ختم ہو گئے اب جو لفظ جس مقام پر آیا وہ اُس مقام پر اس طرح پڑھا جائے گا اگرچہ بدل کر پڑھنے سے بھی وہ قرآن ہی رہے گا کیونکہ قرآنِ کریم کے کسی دوسرے مقام پر موجود ہے جس کی سینکڑوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ گذشتہ روایت میں جس سورت کا ذکر کیا گیا ہے یعنی سورہ الفرقان کا اس میں بھی بدستور ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں صرف غور و فکر کی ضرورت ہے جو ہمارے ہاں مفقود ہے۔

16 /
ستمبر 2009ء کو ایک دوست کا فون آیا جس نے ’’رشد‘‘ کے قراء ات نمبر کا ذکر کیا مجھے معلوم نہیں تھا میں نے عدم علم کا ذکر کیا تو اُس نے مجھے کچھ کاغذات بھجوا دیئے جن میں بعض سوال درج تھے بعض میں واویلا تھا کہ ’’رشد‘‘ نے کیا تحریر کر دیا۔ پھر کراچی سے ایک دوست کا فون اوربعد ازیں ایک مضمون دیکھنے کے لیے ملا جس کے باعث ناچیز بندہ کی توجہ اس طرح مبذول ہوئی۔ مختصر یہ کہ میں نے ’’رشد‘‘ کی دوسری جلد منگوائی کہ پہلی ختم ہو چکی تھی جو بعد میں ایک جہانیاں کے دوست نے مجھے روانہ کر دی دونوں جلدوں کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ کام یقیناً ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ہو رہا ہے کیونکہ اتنا بڑا جو نتیجہ کے لحاظ سے محض فضول کام ہے کوئی بھی خیراتی ادارہ اپنے ذمہ نہیں لے سکتا۔

ایک عرصہ کی بات ہے کہ ایک بزرگ دوست کے ساتھ مل کر کراچی مفتی رشید احمد صاحب کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا تووہاں طلباء کو جس حال میں میں نے دیکھا باہر آ کر میں نے اپنے بزرگ دوست سے عرض کیا کہ یہ لوگ جو وہاں بیٹھے تھے طلباء تھے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ ہاں طلباء ہیں۔ میں نے عرض کیا مدرسہ کے طلباء تو معلوم نہیں ہوتے چونکہ آپ فرما رہے ہیں اس لیے مجھے خاموش رہنا ہی بہتر ہے لیکن چند ہی دنوں کے بعد معلوم ہو گیا کہ وہ طلباء نہیں تھے بلکہ طالبان تھے۔ اُس وقت افغانستان میں جہاد جاری تھا اور فلسطین و کشمیر میں بھی زور و شور سے کام ہو رہا تھا کہ ہر زبان پر طالبان، اسلام اور جہاد کا راگ شروع ہو گیا پھر جو کچھ ہوا وہ ہر آنکھ نے دیکھا اور جو کچھ ہو رہا ہے ہر آنکھ دیکھ رہی ہے تاہم ایسا ہونے کی وجوہات کا سب کو علم نہیں بلکہ بہت ہی کم لوگوں کو علم ہے۔

مختلف قراء ات کا معاملہ بھی بارہ تیرہ سو سال سے جاری ہے اور تقریباً ہر دور میں اس کا ذکر ہوتا آیا ہے ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا لیکن مختلف قراء ات کے باعث مستقل بیس قرآنِ کریم کے طبع ہونے کی بات اس نئے اسلامی جہاد کے معاً بعد شروع ہو جانا اور اس پر باقاعدہ کام کا آغاز ہونا کسی مدرسہ کے طلباء کا کام نہیں بلکہ یہ اُس تحریک کا کام ہے جو پوری اسلامی دنیا میں تمام حکمرانوں کے آنکھوں میں نمک چھڑک کر باور کرا رہی ہے کہ تمہاری آنکھوں میں کسی وبائی مرض کا عارضہ ہو رہا ہے جس کا علاج صرف اور صرف اس تحریک کے پاس ہے اور تمام اسلامی ممالک کے حکمران اس تحریک کے شکرگذار ہو رہے ہیں۔
جہاد اسلام کا کام تھا اور قرآنِ کریم اسلام کی تھیوری ہے ظاہر ہے کہ اسلام کا نام جہاں بھی اور جب بھی آئے گا تو علمائے اسلام ہی اس کا بیڑا اُٹھا سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جہاد کا کام بھی علمائے اسلام کے توسط سے شروع ہوا اور اسلامی حکومتیں ان کی نگران تھیں ، ہیں اور رہیں گی بالکل اسی طرح اب قرآنِ کریم کا کام شروع ہوا ہے تو وہ بھی علمائے اسلام ہی کے توسط سے شروع ہونا چاہیے۔ پھر جب جہاد پہلے والا جہاد نہیں رہا بلکہ وہ نئی مختلف اقسام میں تقسیم ہو گیا ہے تو قرآنِ کریم کو بھی پہلے والا قرآن نہیں رہنا چاہیے اُس کا نئی اور مختلف اقسام میں تقسیم ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ جہاد اور قرآن دونوں لازم و ملزوم ہیں جب ایک میں تغیر و تبدل ہوا ہے تو دوسرے میں آخر کیوں نہ ہو۔

آج /10 فروری 2010ء تک ’’رشد‘‘ کی تیسری جلد میں نے نہیں دیکھی وہ طبع ہو کر آ چکی ہے یا نہیں میرے علم میں نہ ہے جب تیسری جلد بھی طبع ہو کر آئے گی تو اُس کا جائزہ لینے کے بعد اس کا جائزہ گذشتہ دونوں جلدوں پر جو کچھ تحریر کیا گیا ہے اُس کے ساتھ ملایا جائے گاپھر ان شاء اللہ اس کی طباعت کا بندوبست بھی ہو گا اس طرح ’’رشد‘‘ پر جو کچھ لکھا گیا ہے ان شاء اللہ کم و بیش دو صد صفحات کی ایک جلد معرض وجود میں آ جائے گی فی الحال ’’سبعہ احرف‘‘ کا یہ ابتدائیہ کتابت کے مراحل سے گذار کر دوستوں کو بھیجا جا رہا ہے جنہوں نے بیسیوں سوالات مجھے بھیجے ہیں ان کے سوالات کے جوابات ان شاء اللہ عنقریب کتاب کے اندر ان کو مل جائیں گے بشرطیکہ اُنہوں نے مطالعہ کیا۔

فقط
والسلام
عبدالکریم اثری
یکم فروری 2010

اعربوا القرآن والتمسوا غرائبه :: مصحف نبوی پر بھی نقطے تھے !!!

1424 - اعربوا القرآن والتمسوا غرائبه :: مصحف نبوی پر بھی نقطے تھے !!!

3696 -
أخبرنا إسحاق بن سعد بن الحسن بن سفيان الشيباني ، ثنا جدي ، ثنا أبو بكر بن أبي شيبة ، ثنا أبو معاوية ، حدثني عبد الله بن سعيد المقبري ، عن أبيه ، عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : " اعربوا القرآن والتمسوا غرائبه " . " هذا حديث صحيح الإسناد على مذهب جماعة من أئمتنا ولم يخرجاه .

متون الحديث
المستدرك على الصحيحين
أبو عبد الله محمد بن عبد الله الحاكم النيسابوري
دار المعرفة

سنة النشر: 1418هـ / 1998م
رقم الطبعة: ---
عدد الأجزاء: خمسة أجزاء


رانا صاحب سے تو کوئی خاص امید نہیں۔ عام قارئین کے لئے درج بالا فتویٰ کا مکمل جواب مضمون کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے۔


اہل اشراق‘ کے قراء اتِ قرآنیہ پر حالیہ اِعتراضات


مضمون نگار:عمران اسلم٭

الاشراق‘ کے اکتوبر ۲۰۰۹ء کے شمارہ میں غامدی صاحب کے خوشہ چیں محمد رفیع مفتی صاحب نے قراء اتِ قرآنیہ سے متعلق فتویٰ دیتے ہوئے اپنی بعض نگارشات کا اِظہار کیا ہے، جس کے بنیادی نکات درج ذیل ہیں :

قراء توں کے رد و قبول کا کوئی منصوص معیار موجود نہیں ہے۔
بعض قراء توں سے معنی ومفہوم میں فرق واقع ہوجاتا ہے، بلکہ بعض جگہ شریعت کا حکم بھی بدل جاتا ہے۔
تمام لوگ قراء تِ عامہ کے مطابق قرآن پڑھتے رہے ہیں اور یہ وہی قراء ت ہے جو عرضۂ اَخیرہ میں پڑھی گئی۔

ان اِعتراضات کی حقیقت کیا ہے، بالترتیب ان کا جائزہ لیتے ہیں ۔
موصوف مفتی صاحب رقمطراز ہیں :

قراء توں کے ردّ وقبول کا کوئی منصوص معیار موجود نہیں ہے، بس اہل فن نے مل کر کچھ شرائط طے کر دی ہیں جن پر پورا اترنے والی قراء ت کو قبول کیا جاتا اور باقی کو رد کر دیا جاتا ہے۔ یہ شرائط درج ذیل ہیں :

قراء ت مصحف عثمانی کے رسم الخط کے مطابق ہو۔
لغت، محاورے اور قواعد زبان کے خلاف نہ ہو۔
اس کی سند معتبر اور مسلسل واسطے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہو۔

سب سے پہلے تو ہم اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ مفتی صاحب نے اپنے پورے فتویٰ میں بارہا لفظ قراء ت کو ’قرأت‘ لکھا ہے، حالانکہ اس سے قبل محترم حافظ زبیر صاحب اپنے مضمون میں غامدی صاحب کی اس غلطی کی جانب توجہ دلا چکے ہیں ۔ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ جس جگہ پر قراء ت کی جمع ’قراء اتاستعمال ہونی چاہیے تھی وہاں بھی ’قرأت‘ ہی سے کام چلایا گیا ہے۔ لیکن ذخیرۂ اَحادیث کے بعد لغت کی کتابوں کو کھنگالنے کے بعد بھی جس طرح ہم غامدی صاحب کے فرمان کہ ’امت میں یہ نقطۂ نظر بھی موجود ہے کہ قرآن کریم کی قراء ت صرف ایک ہے‘ میں حلقۂ اِشراق کے علاوہ کسی دوسرے شخص کا ایسا نقطۂ نظر تلاش کرنے میں ناکام رہے تھے، یہاں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہوا۔مفتی صاحب کے لفظ ’قرأت‘ پر اِصرار کی وجہ ہم تو یہی سمجھ پائے ہیں کہ وہ لفظ’ قراء ت‘ کا استعمال کر کے اپنے ’روحانی پیشوا‘ جاوید احمد غامدی صاحب کی شان میں گستاخی نہیں کرنا چاہ رہے تھے، جو اپنی کتاب ’میزان‘ میں اسے ’قرأت‘ درج کر چکے ہیں ، اورسادہ سی بات ہے کہ جب غامدی صاحب کی اندھا دھند تقلید میں اُمت کے معتد بہ طبقے کو صرف ایک ’قراء ت‘ کا قائل قرار دیا جا سکتا ہے تو اس قدر معمولی’ غلطی‘ دہرانے میں کیا مضائقہ ہے۔

جناب مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ قراء توں کے ردّ وقبول کا کوئی منصوص معیار موجود نہیں ہے بس اہلِ فن نے مل کر کچھ شرائط طے کر دی ہیں ۔ اس سلسلے میں ہم عرض کرتے چلیں کہ وہ تمام قراء ات جو ہم تک پہنچی ہیں وہ کسی منصوص معیار کے بجائے اہلِ فن کے مقرر کردہ انہی قواعد کی رو سے پہنچی ہیں ،جن میں غامدی صاحب کی اِختیار کر دہ ’قراء ت حفص‘جو اصل میں روایتِ حفص ہے، بھی شامل ہے۔ اگر روایتِ حفص ان قواعد سے ہٹ کر کسی منصوص معیار کے مطابق اہلِ اشراق تک پہنچی ہے تو ضرور آگاہ کریں تاکہ پوری اُمت اپنے اختیار کردہ مؤقف پر نظر ثانی کر سکے۔

ہم ان قواعد سے متعلق کسی قسم کی بحث سے قبل اس قدر وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ ان قواعد کو مقرر کرنے کی ضرورت کیونکر پیش آئی اور صرف انہی قواعد پر پورا اترنے والی قراء ت ہی کو قبولیت کیوں حاصل ہوئی۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں جب مختلف قراء ات سے متعلق فتنہ و فساد رونما ہونے لگا اور ایک دوسرے کی تکفیر کی جانے لگی تو انہوں نے اُمت کو فتنہ اور اِختلاف سے بچانے کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اِجماع سے تمام وہ قراء ات جو عرضۂ اَخیرہ میں منسوخ کر دی گئی تھیں یا وہ تفسیری کلمات جو بعض صحابہ نے اپنے اپنے مصاحف میں بطور حواشی درج کر رکھے تھے،کو ان تمام سے الگ کر دیا۔ پھر یہ مصاحف ماہرینِ قراء ات کی معیت میں مختلف علاقوں میں بھیج دئیے گئے اور باقی تمام مصاحف کو تلف کرنے کا حکم دے کر اس فتنہ کا دروازہ بند کر دیاگیا۔

اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تابعین رحمہم اللہ کا ایک جم غفیر جب ان قراء ات کو سیکھ کر اپنے علاقوں میں پہنچا تو ان سے سیکھنے والے ظاہر ہے کہ عدل وثقاہت اور حفظ واتقان میں ایک جیسے نہیں تھے۔ بعض جو عدالت وحفظ کے اس معیار پر نہ تھے، انہوں نے بعض قراء اتِ شاذہ اور ضعیفہ کو قرآن سے ملانا شروع کر دیا، بعض نے اِجماعِ امت سے ہٹ کر اپنے اپنے معیارات مقرر کر لیے ۔چنانچہ ایک دفعہ پھر امت میں اختلافات کا خطرہ پیدا ہوا تو ائمہ عظام کی جانب سے قرآنِ کریم کو غیرِ قرآن سے الگ کرنے کے لیے گہرے غور وخوض اور دقت نظری کے بعد چنداصولی ضوابط اور معیارات مقرر کر دئیے گئے۔پوری امت انہی اصولوں پر اعتماد کا اظہار کرتی رہی ہے اور انہی کو قراء ات کے رد وقبول کا معیار قرار دیتی رہی ہے۔ امام جزری رحمہ اللہ ان تین شرائط کے متعلق فرماتے ہیں :

اقتباس:
’’اس اصول کے مطابق جو بھی قراء ت ہوگی وہ قراء تِ صحیحہ اور ان حروف سبعہ میں سے ہے جن پر قرآن نازل ہوا، مسلمانوں پر اس کو قبول کرنا واجب ہے اور اگر تینوں شرائط میں سے کسی ایک شرط میں خلل آ جائے تو وہ قراء ت شاذہ، ضعیف یا باطل ہوگی۔‘‘ [النشر: ۲؍۹]

ایک جگہ پر فرماتے ہیں :

اقتباس:
’’ہر وہ قراء ت جو عربی( نحوی) وجہ کے موافق ہو، رسم مصحف کے مطابق ہو( خواہ یہ مطابقت تقدیری ہو) اور اس کی سند صحیح ہو تو وہ قراء ت صحیح ہوگی۔ اس کو رد کرنا جائز نہیں ہوگا۔‘‘ [منجد المقرئین: ۱۵]

ان تین قواعد کی مختصر وضاحت پیش خدمت ہے:

سند متواتر
کسی قراء ت کے صحیح ہونے کے لیے اولین معیار یہ ہے کہ شروع سے لے کر آخر تک متواتر ہو۔ جو قراء ت سنداً اس معیار پر پوری نہ اترے اسے قرآن نہیں کہا جا سکتا ، ہمارے ہاں تواتر کا وہی مفہوم درست ہے جو کہ جمہور اہل الحدیث کے ہاں معروف ہے یعنی ’ما أفاد القطع فہو متواتر‘ (اس ضمن میں تفصیلی بحث کے لیے رشد قراءات نمبر حصہ اول میں مضمون ’تواتر کا مفہوم اور ثبوت قراء ات کا ضابطہ‘ کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے نیز اس شمارہ میں مکتوب بنام حافظ عبدالمنان نور پوری حفظہ اللہ میں بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔)

مصحف عثمانی کے رسم کی موافقت
وہ مصاحفِ عثمانیہ میں سے کسی ایک کے رسم کے موافق ہو۔ یہ موافقت حقیقی بھی ہوسکتی ہے اور تقدیری بھی۔ مصحفِ عثمانی کے رسم کی اس قدر اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مہاجرین وانصار کے مشورہ سے جب تمام اُمت کو ایک رسم پر جمع کرنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے سب سے پہلے اس بات کو ملحوظ رکھا کہ مصاحف کا رسم ان تمام حروف پر مشتمل ہو جو عرضۂ اَخیرہ کے وقت باقی رکھے گئے تھے۔ اس کو ایک مثال سے یوں سمجھئے کہ سورۃ فاتحہ کی آیت { مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ }[الفاتحۃ:۳] میں [مٰلِکِ] کو[مَلِکِ ]اور [مٰلِکِ ]دونوں طرح پڑھا جا سکتا ہے اور یہ دونوں قراء ات ، متواترہ ہیں ، روایتِ حفص میں اسے [مٰلِکِ] میم پر کھڑا زبر اور روایت ورش میں [مَلِکِ] میم پر زبر کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔ لیکن جس مقام میں اختلاف قراء ت کے متعلق متواتر سند نہ ہو وہاں رسم الخط میں گنجائش کے باوجود دوسری قراء ت پڑھنا ناجائز اور حرام ہے مثلاً سورۃ الناس کی دوسری آیت رسم عثمانی کے مطابق اس طرح ہے، {مَلِکِ النَّاسِ} [الناس:۲] اس مقام پر تمام قراء مَلِکِ النَّاسِ ہی پڑھتے ہیں اسے کوئی بھی مٰلِکِ النَّاسِ نہیں پڑھتا، کیونکہ یہاں اختلافِ قراء ت منقول نہیں ہے۔

ابوبکر الانباری فرماتے ہیں :
اجتمع القراء علی ترک کل قراء ۃ مخالف المصحف۔ [البحر المحیط:۷؍۶۰]

اقتباس:
’’تمام ائمہ قراء کا اس بات پر اجماع ہے کہ ہر وہ قراء ۃ متروک(شاذ) قرار پائے گی جو رسم عثمانی کے مخالف ہوگی۔‘‘

لغتِ عرب کی کسی وجہ کی موافقت
اس شرط کو دوسری دونوں شروط کا لوازمہ قرار دیا جا سکتا ہے اور اس کا مقصود یہ ہے کہ ہر وہ قراء ت جو متواتر سند کے ساتھ منقول ہو مصحف عثمانی کے خط کے بھی موافق ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ لغتِ عرب میں بھی اس کی کوئی وجہ موجود ہو، اگرچہ وہ زیادہ معروف نہ بھی ہو۔

جاری ہے۔۔۔

یاد رہے کہ قرآن کریم کی ایسی کسی قراء ت کا وجود نہیں ہے جو متواتر ہو اور رسم عثمانی کے بھی موافق ہو لیکن لغت عرب میں اس کی کوئی وجہ موجود نہ ہو۔ اور اگر فرض کر بھی لیا جائے کہ ایک ایسی ثابت شدہ متواتر قراء ت جس میں بقیہ دونوں شروط تو پائی جا رہی ہیں لیکن لغت عرب میں اس کی کوئی وجہ نہ مل رہی ہو تو یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ پوری لغت عرب میں اس کا وجود نہیں ہے، یہ بات قطعی ہے کہ ہر وہ قراء ت جو تواتر کے ساتھ منقول ہو اور مصحف عثمانی کے موافق ہو وہ نازل کردہ قرآن ہے۔ یہ ایک ایسی قطعی دلیل ہے جو وجود لغت کا پتہ دے رہی ہے اور جس کے ثبوت میں کوئی بحث نہیں ہے۔

ابو عمرو دانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

اقتباس:
ائمہ قراء حروف قرآن کے سلسلہ میں اس بات پر اعتماد نہیں کرتے کہ وہ لفظ لغوی لحاظ سے عام مستعمل یا عربی قاعدہ کے زیادہ مطابق ہے بلکہ اس پر اعتماد کرتے ہیں کہ وہ حروف نقل وروایت کے اعتبار سے صحیح ترین اور ثبوت کے اعلیٰ معیار پر ہو، کیونکہ قراء ت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ائمہ تک کے سلسلہ تواتر (قطعیت) کی اتباع کی جا ئے گی اور اس کی طرف لوٹنا اور اسے قبول کرنا ضروری ہے۔ [جامع البیان في القراء ات السبع:ق۱۷۷؍ب]

کسی بھی قراء ت کو قبول کرنے کے لیے یہ وہ معیار اور کسوٹی ہے جو ائمہ کرام نے مقرر کیا ہے۔ جس قراء ت میں ان تین ارکان میں سے کوئی ایک بھی ناپید ہوگا اسے شاذ قرار دیا جائے گا۔ ان تین شروط کی جانچ پرکھ کے ساتھ اس خیال کی شدت کے ساتھ نفی کی جاسکتی ہے کہ امت میں کوئی ایسی قراء ت عام ہو جائے جو بطور تفسیر نقل کی گئی تھی یا عرضۂ اَخیرہ میں منسوخ کر دی گئی تھی۔

مفتی صاحب مزیدلکھتے ہیں :

’’
مختلف قراء توں کے اس تصور کو قبول کرنے کے بعد یہ خیال غلط قرار پاتا ہے کہ خدا کی طرف سے نازل ہونے والے قرآن کے الفاظ میں ایک زیر، زبر اور ایک شوشے کا بھی فرق نہیں ہے اور مزید یہ کہ بعض قراء توں میں معنی و مفہوم میں بھی فرق واقع ہوجاتا ہے، بلکہ بعض جگہ شریعت کا حکم بھی بدل جاتا ہے۔‘‘

جناب مفتی صاحب نے بڑی شدو مد کے ساتھ یہ تو دعویٰ کردیا ہے کہ قراء ات کے بدلنے سے معنی ومفہوم اور شریعت کا حکم بدل جاتا ہے لیکن اس کے لیے کسی ایک بھی قراء ت کو بطور دلیل نقل کرنا گوارا نہیں کیا۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ کسی بھی ایسی متواتر، حتیٰ کہ شاذ قراء ت کا بھی وجود نہیں ہے جس سے شریعت کا حکم بدل جاتا ہو۔ امت کے ہر دور میں اَحکام فقہ اور قواعد نحو میں مختلف قراء اتِ قرآنیہ سے بھرپور مدد لی گئی ہے، قرآن کریم کی تفسیر کے سلسلہ میں تو قرائات کو ایک اَہم ماخذ کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اور اس بات پر اِجماع نقل کیا گیا ہے کہ ہر ایک قراء ت کو مستقل آیت شمار کیا جائے گا اور اگر ان کے مابین تعارض ہوتا ہے تو ان کا تعارض بالکل اسی طرح حل کیا جا ئے گا جیسا کہ دو آیات کا کیا جاتا ہے۔ اَحکام القرآن للجصاص میں ہے:

وہاتان القرائتان قد نزل بہما القرآن جمیعا ونقلتہما الأمۃ تلقیا من رسول اﷲ ۔
’’
یہ دونوں قراء تیں ایسی ہیں کہ قرآن ان دونوں کے ساتھ نازل ہوا ہے اور امت نے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا ہے۔‘‘ [احکام القرآن للجصّاص:۲؍۳۲۵]

علامہ قنوجی لکھتے ہیں :

وقد تقرّر أن القرائتین بمنزلۃ الآیتین فکما أنہ یجب الجمع بین الآیتین المشتملۃ إحداہما علی زیادۃ بالعمل بتلک الزیادۃ، کذلک یجب الجمع بین القرائتین۔ [نیل المرام:۳۵]

اقتباس:
’’یہ بات ثابت شدہ ہے کہ دو قراء تیں دو آیتوں کی طرح ہیں ، تو جس طرح ایسی دو آیتوں کے درمیان تطبیق کرنا ضروری ہے، جن میں سے ایک آیت کسی زائد معنی پر مشتمل ہو، اسی طرح دو قراء توں میں بھی جمع وتطبیق واجب ہے۔‘‘

علامہ سیوطی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :

وتعارض القرائتین بمنزلۃ تعارض الآیتین۔ [الإتقان:۲؍۳۰]

اقتباس:
’’دو قراء توں کا تعارض دو آیتوں کے تعارض کی طرح ہے۔‘‘

تفسیر روح المعانی میں ہے:

ومن القواعد الأصولیۃ عند الطائفتین أن القرائتین المتواترتین إذا تعارضتا في آیۃ واحدۃ فلہما حکم آیتین۔[۶؍۶۶]

اقتباس:
’’اصولی قواعد میں سے ایک یہ ہے (دونوں طائفوں کے نزدیک) کہ متواتر قراء تیں جب ایک آیت میں متعارض ہو جائیں تو ان کا حکم دوآیتوں کی طرح ہے۔‘‘

مزید برآں قرآن کریم کا متنوع حروف پر نازل ہونا اُمت محمدیہ کے فضائل وخصائص میں سے ہے، کیونکہ پہلی کتبِ سماویہ ایک حرف پر نازل ہوئیں اور وہ امتیں ان کتب کو صرف ایک ہی حرف پر پڑھ سکتی تھیں اور ان متعدد اَحرف سے جہاں قرآن کریم کی تلاوت میں آسانی مقصود تھی وہاں ان میں بہت سے فوائد اور حکمتیں بھی پنہاں تھیں ۔

تمام قراء ات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہیں ۔ قراء ات کا تعدد تحریف وتغییر کا نتیجہ ہے اور نہ ہی ان سے معانی میں التباس ،تناقض یا تضاد پیدا ہوتا ہے۔ بلکہ بعض قراء ات بعض قراء ات کے معانی کی تصدیق کرتی ہیں ۔

بعض قراء ات سے متنوع معانی سامنے آتے ہیں ۔ جن میں سے ہر ایک معنی مقاصد شریعت اور بندوں کی مصلحتوں میں سے کسی مصلحت کو محقق کرنے والے حکم پر دلالت کرتا ہے۔

ایسی قراء ات میں سے ایک ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{
وَکُلَّ اِنْسٰنٍ أَلْزَمْنٰہُ طٰٓپرَہُ فِیْ عُنِقِہٖ۱ وَنُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتٰباً یَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًا } [الاسرائ:۱۳]
اس آیت مبارکہ میں لفظ یَلْقٰہُ‘ میں دو قراء ات ہیں ۔

یَلْقٰہُ‘ (بفتح الیاء والقاف مخففۃ)اس قراء ت کی صورت میں اس آیتِ مبارکہ کا معنی ہوگا کہ ہم روزِ قیامت انسان کے لئے ایک کتاب نکالیں گے جو اس کے اعمال کا صحیفہ ہوگا اور وہ آدمی اس صحیفے کے پاس اس حال میں پہنچے گا کہ وہ مفتوح (کھلا ہوا) ہو گا۔ اگر وہ شخص جنتی ہو گا تو اسے اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑے گا اور اگر جہنمی ہوگا تو اسے اپنے بائیں ہاتھ سے پکڑے گا۔

یُلَقّٰہُ‘ (بضم الیاء وتشدید القاف) اس قراء ات کی صورت میں اس آیت مبارکہ کا معنی ہوگا کہ ہم روزِ قیامت انسان کے لئے ایک کتاب نکالیں گے جو اس کے اعمال کا صحیفہ ہوگا اوروہ کتاب انسان کو اس حال میں دی جائے گی کہ وہ مفتوح (کھلی ہوئی) ہوگی۔

مذکورہ دونوں قراء ات کے معانی معمولی سے فرق سے واضح ہوتا ہے کہ بالآخر دونوں کا ایک ہی معنی ہے، کیونکہ کتاب کے پاس جانا یا کتاب کادیا جانا ایک ہی شے ہے۔ اور دونوں صورتوں میں ہی وہ کتاب مفتوح (کھلی ہوئی) ہوگی۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

{
فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ۔ فَزَادَہُمُ اﷲُ مَرَضاً ۵ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ۔ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ } [ البقرۃ:۱۰]
اس آیتِ مبارکہ میں لفظ’ یَکْذِبُوْنَ‘ میں دو قراء اتیں ہیں ۔

یَکْذِبُوْنَ‘ (بفتح الیاء وسکون الکاف وکسر الذال) اس قراء ات کی صورت میں اس کا معنی ہو گا کہ وہ اللہ تعالیٰ اور مومنوں کی طرف سے جھوٹی خبریں دیتے ہیں ۔
یُکَذِّبُوْنَ‘بضم الیاء وفتح الکاف وتشدید الذال المکسورۃ) اس قراء ات کی صورت میں اس کا معنی ہوگا کہ وہ رسولوں اور ان کی لائی ہوئی شریعت کو جھٹلاتے ہیں ۔

مذکورہ دونوں قراء ات کے معنی میں نہ تو تناقض ہے اور نہ ہی تضاد ہے بلکہ دونوں قراء ات میں سے ہر ایک نے منافقین کے اَوصاف میں سے ایک ایک وصف بیان کیا ہے۔

پہلا وصف: وہ اللہ تعالی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور لوگوں کی خبروں میں جھوٹ بولتے ہیں ۔
دوسرا وصف: وہ اللہ تعالی کی طرف سے رسولوں کی دی گئی شریعت کو جھٹلاتے ہیں ۔
اورمنافقین کے بارے میں یہ دونوں صفات ہی برحق ہیں ۔ کیونکہ انہوں نے ان دونوں صفات(کذب اور تکذیب) کو ہی اپنے اَندر جمع کر لیا تھا۔

اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ تعددِ قراء ات اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی حکمت کی بناء پر ہے۔ تحریف وتغیر کا نتیجہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی قراء ات سے معانی میں التباس، تناقض یا تضاد پیدا ہوتا ہے ، بلکہ بعض قراء ات بعض قراء ات کی تصدیق کرتی ہیں ۔

مفتی صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ تمام لوگ قراء تِ عامہ کے مطابق قرآن پڑھتے رہے ہیں اور یہ وہی قراء ت ہے جو عرضۂ اَخیرہ میں پڑھی گئی۔ اور زرکشی رحمہ اللہ کے حوالے سے ابو عبدالرحمن السلمی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے :

’’
ابو بکر وعمر، عثمان، زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اور تمام مہاجرین وانصار کی قراء ت ایک ہی تھی۔ وہ قراء تِ عامہ کے مطابق قرآن پڑھتے تھے۔ یہ وہی قراء ت ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے سال جبریلِ اَمین علیہ السلام کو دو مرتبہ قرآن سنایا۔ عرضۂ اَخیرہ کی اس قراء ت میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ دنیا سے رخصت ہونے تک وہ لوگوں کو اسی کے مطابق قرآن پڑھاتے تھے۔‘‘ [الاتقان فی علوم القرآن:۱؍۳۳۱]

حلقۂ اِشراق کی طرف سے پیش کی جانے والی قراء تِ عامہ کی دلیل اور زرکشی رحمہ اللہ کے حوالے سے ابو عبدالرحمن السلمی کے قول کی حقیقت تو حافظ زبیر صاحب اپنے مضمون’قراء تِ متواترہ … غامدی مؤقف کا تجزیہ‘ میں واضح کر چکے ہیں ۔ ہم ’شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات‘ کے مصداق مکرر عرض کیے دیتے ہیں ۔

غامدی صاحب قرآن کو ثابت کرنے چلے ہیں اور اس کے ثبوت کی دلیل کے طور پر اُن کے پاس اگر کچھ ہے تو وہ ایک تابعی کاقول ہے کہ جس کی کوئی سند بھی موجود نہیں ہے۔امام زرکشی رحمہ اللہ نے ’البرھان‘ میں اس قول کی کوئی سند بیان نہیں فرمائی ہے۔اگر توایک تابعی کایہ قول ایک سے زائد قراءات کے اِنکار پر مبنی ہے جیسا کہ غامدی صاحب کا گمان ہے تو تابعی کے ایک ایسے قول کو، کہ جس کی سند بھی موجود نہ ہو، صحاح ستہ کی قراء ا ت متواترہ کے ثبوت میں موجود صحیح، مستند ، مرفوع اور اُمت میں معروف و مقبول روایات پر ترجیح دینا، ہماری سمجھ سے بالاتر ہے ۔

امام قراء ت، امام اَبو عبد الرحمن سلمی رحمہ اللہ کی طرف اس قول کی نسبت کو درست تسلیم کر بھی لیا جائے توپھر بھی اس کا معنی و مفہوم وہ نہیں ہے جو کہ غامدی صاحب سمجھ رہے ہیں ۔امام زرکشی رحمہ اللہ نے جب اس قول کو اپنی کتاب البرھان میں بیان کیا ہے تو انہیں تو وہ بات سمجھ میں نہ آئی جو کہ غامدی صاحب اِس قول سے نکال رہے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بعض روایات میں ’قرا ء تِ عامہ‘ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی ایک روایت کے الفاظ ہیں :

عن عبد اﷲ بن مسعود أن رسول اﷲ قرأ { فَھَلْ مِن مُّدَّکِرٍ } [القمر:۱۷] مثل القراء ۃ العامۃ۔ [ صحیح البخاري، کتاب الأنبیاء، حدیث: ۳۳۴۱]

اقتباس:
’’عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے{ فَھَلْ مِن مُّدَّکِرٍ }کو قراء تِ عامہ کے مطابق پڑھاہے۔‘‘

جامعہ دمشق کے استاذ الحدیث ڈاکٹر مصطفی دیب البغا، اس روایت کی تشریح میں لکھتے ہیں :
قرائۃ العامۃ أي القرائۃ المشھورۃ التي یقرأ بھا عامۃ القراء الذین رووا القرائات المتواترۃ۔[صحیح البخاري: ۳؍۱۲۱۶، دار ابن کثیر الیمامۃ، بیروت ]

اقتباس:
’’قرا ء اتِ عامہ سے مرادوہ مشہور قراء ت ہے کہ جس کے مطابق ان عام قراء نے، کہ جنہوں نے قراء اتِ متواترہ کو نقل کیا ہے، قرآن کو پڑھا ہے ۔‘‘

پس اہل سنت کے نزدیک ’قراء تِ عامہ‘ سے مراد بھی معروف و متواترقراء ات ہی ہیں ۔واقعہ یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ کے زمانے میں بعض لوگوں کاخیال یہ تھا کہ { فَھَلْ مِن مُّدَّکِرٍ } میں مُدَّکِرٍ کواہلِ عرب کے استعمالات کی رعایت رکھتے ہوئے مذکر پڑھنا چاہیے، کیونکہ اس لفظ کا مادہ بھی ’ذکر‘ہی ہے ، لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں دو اَساسی باتوں کو واضح کیا ہے ایک تویہ کہ قرآن کی قراء ت میں اصل،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا سماع ہے نہ کہ عرب کامحاورہ، دوسری بات انہوں نے یہ بیان کی کہ مسلمانوں نے جن طرق سے قرآن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا ہے،ان سب میں یہ لفظ مُدَّکِرٍ ہی پڑھا گیاہے ۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قراء اتِ عشرہ متواترہ کے دس اَئمہ نے بھی اسے مُدَّکِرٍ ہی پڑھا ہے۔

اِمام بخاری رحمہ اللہ نے { فَھَلْ مِن مُّدَّکِرٍ } کی قراء ت کو واضح کرنے کے لیے کتاب التفسیرمیں چار اَبواب باندھے ہیں ، جن میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی چھ اَحادیث بیان کی ہیں ، انہی میں سے ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ سے یہ سوال بھی ہوا تھا کہ اس لفظ کو مذکر پڑھنا چاہیے یا مدکر؟
پس اہل سنت کے نزدیک ’قراء تِ عامہ‘ سے مراد وہ قراء ت ہے‘ جو قراء ت شاذہ نہیں ہے یعنی قراء اتِ متواترہ۔ ’قراء اتِ شاذہ کے بالمقابل ’قراء تِ عامہایک ہی ہے لیکن اپنی اَصل کے اعتبار سے یہ کئی ایک روایات پر مبنی ہے۔

علاوہ اَزیں امام ابو عبد الرحمن سلمی رضی اللہ عنہ سے صحیح اور متصل سند کے ساتھ مروی ہے کہ انہوں نے امام عاصم رحمہ اللہ کو جو قراء ت پڑھائی تھی وہ دو روایتوں ، روایتِ حفص اور روایتِ شعبہ پر مشتمل تھی۔جبکہ غامدی صاحب کی قراء تِ عامہ صرف روایت حفص کو شامل ہے۔پس اِمام ابوعبد الرحمن السلمی سے صحیح اور متصل سند کے ساتھ روایت شعبہ کا ثبوت اس بات کی دلیل کے طور پر کافی ہے کہ امام صاحب کی قراء تِ عامہ صرف روایتِ حفص پر مشتمل نہ تھی۔اس رسالہ کے بعض دوسرے مضامین میں ان اَسناد کے بارے میں تفصیلاً بحث موجود ہے۔ [رشدقراء ات نمبر:۱؍۵۱۱]

ضرورت تو اس بات کی تھی کہ اپنے مؤقف کے اِثبات کے لیے حافظ صاحب کے مضمون کا علمی طور پر محاکمہ پیش کیا جاتا اور اس کا کافی وشافی جواب دیا جاتا، لیکن چونکہ حلقۂ اشراق روز اول سے اپنے مؤقف کے خلاف محکم براہین کے ہوتے ہوئے بھی ’میں نہ مانوں ‘ کی پالیسی پر بڑی جرأت کے ساتھ کاربند رہا ہے لہٰذا یہاں بھی اپنے اُصول کی خلاف ورزی کو مناسب خیال نہیں کیا۔ بہرحال ہم علامہ زرکشی رحمہ اللہ کے حوالے سے مزید چند ایک گزارشات پیش کرتے ہیں ۔

اولاً:یہ کہ اِمام زرکشی رحمہ اللہ نے ابو عبدالرحمن السلمی کا مذکورہ قول جمع قرآن کی بحث میں ذکر کیا ہے جس سے ان کا مقصود ترتیبِ سور اور آیات کے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یکساں عمل نقل کرنا ہے نہ کہ قرآن کی قراء ات کے متعلق بحث کرنا کہ قراء تِ عامہ سے مراد صرف روایتِ حفص ہے۔

ثانیا: یہ کہ غامدی صاحب کے اِس قول سے استدلال کے مطابق تو تمام مہاجرین وانصار کی ایک ہی قراء ت یعنی روایتِ حفص ہونی چاہیے تھی اور اگر فی الواقع ایسا ہی ہے تو پھر لوگوں میں قراء ت کے حوالے سے اختلاف ہی کیوں رونما ہوا تھا ایک شخص قراء ت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ترجیح دے رہا تھا تو دوسرا قراء ت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو، حالانکہ آپ کے بقول تو ان سب کی قراء ت ایک تھی۔اس سلسلے میں علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

إن حذیفۃ قدم من غزوۃ فلم یدخل في بیتہ حتی أتی عثمان فقال: یا أمیر المؤمنین! أدرک الناس۔ قال: وما ذاک؟ قال: غزوت أرمینیۃ فإذا أہل الشام یقرئون بقرائۃ أبي بن کعب فیأتون بما لم یسمع أہل العراق وإذا أہل العراق یقرئون بقرائۃ عبداﷲ بن مسعود فیأتون بما لم یسمع أہل الشام فیکفر بعضہم بعضاً۔
’’
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی ایک غزوہ سے واپسی ہوئی تو وہ واپسی پر وہ اپنے گھر میں داخل نہیں ہوئے تاآنکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو ئے ،اور عرض کیا: اے امیر المؤمنین ! لوگوں کی خبر لیجئے۔ انہوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہا میں لڑ ائی کے سلسلے میں آرمینیا گیا ہوا تھا وہاں پہنچا تومعلوم ہوا کہ اہل شام اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قراء ت پڑھتے ہیں جسے اہلِ عراق نے نہیں سنا ہوا تھا اور اہلِ عراق عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراء ت میں پڑھتے ہیں جسے اہل شام نے نہیں سنا اس اِختلاف کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہیں ۔‘‘[عمدۃ القاری: ۱۶]

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی شاید خود اس خطرے سے آگاہ تھے۔انہیں اس بات کی اِطلاع ملی تھی کہ خود مدینہ طیبہ کے اَندر ایسے واقعات پیش آئے کہ جب مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے شاگرد اکٹھے ہوئے تو اِختلاف کی سی ایک کیفیت پیدا ہو رہی تھی۔ [ الاتقان فی علوم القرآن:۱؍۶۱]

اِس سے ثابت ہوتاہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین قراء ات کے اختلافات موجود تھے اور انہوں نے اپنے اپنے اختیارات اپنا رکھے تھے اور قراء تِ عامہ صرف روایتِ حفص کو ہی نہیں بلکہ دیگر متواترقراء ات کو بھی شامل تھی۔ اس سلسلہ میں ہم علامہ زرکشی رحمہ اللہ کے ان اَقوال کو پیش کرتے ہیں جو متعدد قراء ات قرآنیہ سے متعلق ان کا مؤقف واضح کرنے اور ناقابل تردید دلائل کے ساتھ پنجہ آزمائی کر کے ثابت شدہ قراء ات کا اِنکار کرنے والوں کے لیے کافی ہوں گے۔

امام صاحب فرماتے ہیں :

إن القراء ات توقیفیۃ ولیست اختیاریۃ۔
’’
قراء ات توقیفی ہیں نہ کہ کسی کی اپنی اختیار کردہ ہیں ۔‘‘

مزید فرماتے ہیں :

وقد انعقد الإجماع علی صحۃ قرائۃ ہؤلاء الأئمۃ وأنہا سنۃ متبعۃ لا مجال للإجتہاد فیہا۔ [البرہان فی علوم القرآن: ۱؍۳۲۲]
’’
قراء عشرہ کی قراء ت کی حجیت پر اِجماع منعقد ہو چکا ہے، یہ قراء ت، سنت متبعہ (یعنی توقیفی) ہیں اور ان میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے۔‘‘

قاضی ابوبکر رحمہ اللہ کے حوالہ سے ذکر کرتے ہیں کہ صحیح بات یہ ہے:

أن ہذہ الأحرف السبعۃ ظہرت واستفاضت عن رسول اﷲ وضبطہا عنہ الأئمۃ وأثبتہا عثمان والصحابۃ في المصحف۔ [البرہان فی فی علوم القرآن:۱؍۲۲۳]
’’
یہ سبعہ حروف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے مشہور و معروف ہیں ۔ ائمہ نے سبعہ حروف کو ضبط کیا ہے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی انہیں مصاحف میں ثابت رکھا۔‘‘

ایک جگہ پر اَحرف سبعہ سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار یوں فرماتے ہیں :
’’
سبعہ اَحرف پر انزال قرآن کی اجل حکمت اور اہم غرض یہ ہے کہ تلاوتِ قرآن کی بابت عرب پر تیسیر وآسانی پیدا کر دی جائے۔ اَحرف سبعہ پر انزالِ قرآن منجانب اللہ امت محمدیہ پر توسع ورحمت اور تخفیف وتیسیر کا معاملہ ہے، کیونکہ اگرعرب کا ہر قبیلہ فتح وامالہ، تحقیق وتخفیف، مد و قصر وغیرہ کے متلق اپنی عادی وطبعی لغت کو چھوڑ کر چار و ناچار دوسرے قبیلہ کے لغت کے موافق پڑھنے کا مکلف قرار دیا جاتا تو اس میں بہت تنگی ومشقت لازم آتی۔‘‘
[
البرہان فی علوم القرآن:۱؍۲۷۷]

لہٰذا اِمام زرکشی رحمہ اللہ کا کہنا کہ’تمام مہاجرین وانصار قراء تِ عامہ کے مطابق قرآن پڑھتے تھے‘ اس میں صرف روایتِ حفص داخل نہیں تھی بلکہ قراء تِ عامہ تمام متواتر قراء ات کو شامل تھی اور اسی کے مطابق صحابہ وتابعین اور مابعد اَدوار کے تمام لوگ متنوع قراء اتِ قرآنیہ کو سیکھتے اور سکھاتے چلے آرہے ہیں ۔

اس تمام تر وضاحت کے بعد ہم اس قدر ہی کہہ سکتے ہیں خدا تعالیٰ مفتی موصوف اور ان کے کارپردازان کو نفس مسئلہ سمجھنے کی توفیق دے اور حقائق کے ادراک کے بعد کھلے دل سے تسلیم کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین

٭_____٭_____٭


تمام وہ قراءات جو عرضۂ اَخیرہ میں منسوخ کر دی گئی تھیں ان کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش !!!

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : شکاری مراسلہ دیکھیں
رانا صاحب سے تو کوئی خاص امید نہیں۔ عام قارئین کے لئے درج بالا فتویٰ کا مکمل جواب مضمون کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
اہل اشراق‘ کے قراء اتِ قرآنیہ پر حالیہ اِعتراضات
مضمون نگار:عمران اسلم٭
الاشراق‘ کے اکتوبر ۲۰۰۹ء کے شمارہ میں غامدی صاحب کے خوشہ چیں محمد رفیع مفتی صاحب نے قراء اتِ قرآنیہ سے متعلق فتویٰ دیتے ہوئے اپنی بعض نگارشات کا اِظہار کیا ہے، جس کے بنیادی نکات درج ذیل ہیں :
قراء توں کے رد و قبول کا کوئی منصوص معیار موجود نہیں ہے۔
بعض قراء توں سے معنی ومفہوم میں فرق واقع ہوجاتا ہے، بلکہ بعض جگہ شریعت کا حکم بھی بدل جاتا ہے۔
تمام لوگ قراء تِ عامہ کے مطابق قرآن پڑھتے رہے ہیں اور یہ وہی قراء ت ہے جو عرضۂ اَخیرہ میں پڑھی گئی۔
ان اِعتراضات کی حقیقت کیا ہے، بالترتیب ان کا جائزہ لیتے ہیں ۔
موصوف مفتی صاحب رقمطراز ہیں :
قراء توں کے ردّ وقبول کا کوئی منصوص معیار موجود نہیں ہے، بس اہل فن نے مل کر کچھ شرائط طے کر دی ہیں جن پر پورا اترنے والی قراء ت کو قبول کیا جاتا اور باقی کو رد کر دیا جاتا ہے۔ یہ شرائط درج ذیل ہیں :
قراء ت مصحف عثمانی کے رسم الخط کے مطابق ہو۔
لغت، محاورے اور قواعد زبان کے خلاف نہ ہو۔
اس کی سند معتبر اور مسلسل واسطے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہو۔
سب سے پہلے تو ہم اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ مفتی صاحب نے اپنے پورے فتویٰ میں بارہا لفظ قراء ت کو ’قرأت‘ لکھا ہے، حالانکہ اس سے قبل محترم حافظ زبیر صاحب اپنے مضمون میں غامدی صاحب کی اس غلطی کی جانب توجہ دلا چکے ہیں ۔ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ جس جگہ پر قراء ت کی جمع ’قراء اتاستعمال ہونی چاہیے تھی وہاں بھی ’قرأت‘ ہی سے کام چلایا گیا ہے۔ لیکن ذخیرۂ اَحادیث کے بعد لغت کی کتابوں کو کھنگالنے کے بعد بھی جس طرح ہم غامدی صاحب کے فرمان کہ ’امت میں یہ نقطۂ نظر بھی موجود ہے کہ قرآن کریم کی قراء ت صرف ایک ہے‘ میں حلقۂ اِشراق کے علاوہ کسی دوسرے شخص کا ایسا نقطۂ نظر تلاش کرنے میں ناکام رہے تھے، یہاں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہوا۔مفتی صاحب کے لفظ ’قرأت‘ پر اِصرار کی وجہ ہم تو یہی سمجھ پائے ہیں کہ وہ لفظ’ قراء ت‘ کا استعمال کر کے اپنے ’روحانی پیشوا‘ جاوید احمد غامدی صاحب کی شان میں گستاخی نہیں کرنا چاہ رہے تھے، جو اپنی کتاب ’میزان‘ میں اسے ’قرأت‘ درج کر چکے ہیں ، اورسادہ سی بات ہے کہ جب غامدی صاحب کی اندھا دھند تقلید میں اُمت کے معتد بہ طبقے کو صرف ایک ’قراء ت‘ کا قائل قرار دیا جا سکتا ہے تو اس قدر معمولی’ غلطی‘ دہرانے میں کیا مضائقہ ہے۔
جناب مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ قراء توں کے ردّ وقبول کا کوئی منصوص معیار موجود نہیں ہے بس اہلِ فن نے مل کر کچھ شرائط طے کر دی ہیں ۔ اس سلسلے میں ہم عرض کرتے چلیں کہ وہ تمام قراء ات جو ہم تک پہنچی ہیں وہ کسی منصوص معیار کے بجائے اہلِ فن کے مقرر کردہ انہی قواعد کی رو سے پہنچی ہیں ،جن میں غامدی صاحب کی اِختیار کر دہ ’قراء ت حفص‘جو اصل میں روایتِ حفص ہے، بھی شامل ہے۔ اگر روایتِ حفص ان قواعد سے ہٹ کر کسی منصوص معیار کے مطابق اہلِ اشراق تک پہنچی ہے تو ضرور آگاہ کریں تاکہ پوری اُمت اپنے اختیار کردہ مؤقف پر نظر ثانی کر سکے۔
ہم ان قواعد سے متعلق کسی قسم کی بحث سے قبل اس قدر وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ ان قواعد کو مقرر کرنے کی ضرورت کیونکر پیش آئی اور صرف انہی قواعد پر پورا اترنے والی قراءت ہی کو قبولیت کیوں حاصل ہوئی۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں جب مختلف قراء ات سے متعلق فتنہ و فساد رونما ہونے لگا اور ایک دوسرے کی تکفیر کی جانے لگی تو انہوں نے اُمت کو فتنہ اور اِختلاف سے بچانے کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اِجماع سے تمام وہ قراء ات جو عرضۂ اَخیرہ میں منسوخ کر دی گئی تھیں یا وہ تفسیری کلمات جو بعض صحابہ نے اپنے اپنے مصاحف میں بطور حواشی درج کر رکھے تھے،کو ان تمام سے الگ کر دیا۔ پھر یہ مصاحف ماہرینِ قراء ات کی معیت میں مختلف علاقوں میں بھیج دئیے گئے اور باقی تمام مصاحف کو تلف کرنے کا حکم دے کر اس فتنہ کا دروازہ بند کر دیاگیا۔
اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تابعین رحمہم اللہ کا ایک جم غفیر جب ان قراء ات کو سیکھ کر اپنے علاقوں میں پہنچا تو ان سے سیکھنے والے ظاہر ہے کہ عدل وثقاہت اور حفظ واتقان میں ایک جیسے نہیں تھے۔ بعض جو عدالت وحفظ کے اس معیار پر نہ تھے، انہوں نے بعض قراء اتِ شاذہ اور ضعیفہ کو قرآن سے ملانا شروع کر دیا، بعض نے اِجماعِ امت سے ہٹ کر اپنے اپنے معیارات مقرر کر لیے ۔چنانچہ ایک دفعہ پھر امت میں اختلافات کا خطرہ پیدا ہوا تو ائمہ عظام کی جانب سے قرآنِ کریم کو غیرِ قرآن سے الگ کرنے کے لیے گہرے غور و خوض اور دقت نظری کے بعد چنداصولی ضوابط اور معیارات مقرر کر دئیے گئے۔پوری امت انہی اصولوں پر اعتماد کا اظہار کرتی رہی ہے اور انہی کو قراء ات کے رد وقبول کا معیار قرار دیتی رہی ہے۔ امام جزری رحمہ اللہ ان تین شرائط کے متعلق فرماتے ہیں :
ایک جگہ پر فرماتے ہیں :
ان تین قواعد کی مختصر وضاحت پیش خدمت ہے:
سند متواتر
کسی قراء ت کے صحیح ہونے کے لیے اولین معیار یہ ہے کہ شروع سے لے کر آخر تک متواتر ہو۔ جو قراء ت سنداً اس معیار پر پوری نہ اترے اسے قرآن نہیں کہا جا سکتا ، ہمارے ہاں تواتر کا وہی مفہوم درست ہے جو کہ جمہور اہل الحدیث کے ہاں معروف ہے یعنی ’ما أفاد القطع فہو متواتر‘ (اس ضمن میں تفصیلی بحث کے لیے رشد قراءات نمبر حصہ اول میں مضمون ’تواتر کا مفہوم اور ثبوت قراء ات کا ضابطہ‘ کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے نیز اس شمارہ میں مکتوب بنام حافظ عبدالمنان نور پوری حفظہ اللہ میں بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔)
مصحف عثمانی کے رسم کی موافقت
وہ مصاحفِ عثمانیہ میں سے کسی ایک کے رسم کے موافق ہو۔ یہ موافقت حقیقی بھی ہوسکتی ہے اور تقدیری بھی۔ مصحفِ عثمانی کے رسم کی اس قدر اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مہاجرین وانصار کے مشورہ سے جب تمام اُمت کو ایک رسم پر جمع کرنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے سب سے پہلے اس بات کو ملحوظ رکھا کہ مصاحف کا رسم ان تمام حروف پر مشتمل ہو جو عرضۂ اَخیرہ کے وقت باقی رکھے گئے تھے۔ اس کو ایک مثال سے یوں سمجھئے کہ سورۃ فاتحہ کی آیت { مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ }[الفاتحۃ:۳] میں [مٰلِکِ] کو[مَلِکِ ]اور [مٰلِکِ ]دونوں طرح پڑھا جا سکتا ہے اور یہ دونوں قراء ات ، متواترہ ہیں ، روایتِ حفص میں اسے [مٰلِکِ] میم پر کھڑا زبر اور روایت ورش میں [مَلِکِ] میم پر زبر کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔ لیکن جس مقام میں اختلاف قراء ت کے متعلق متواتر سند نہ ہو وہاں رسم الخط میں گنجائش کے باوجود دوسری قراء ت پڑھنا ناجائز اور حرام ہے مثلاً سورۃ الناس کی دوسری آیت رسم عثمانی کے مطابق اس طرح ہے، {مَلِکِ النَّاسِ} [الناس:۲] اس مقام پر تمام قراء مَلِکِ النَّاسِ ہی پڑھتے ہیں اسے کوئی بھی مٰلِکِ النَّاسِ نہیں پڑھتا، کیونکہ یہاں اختلافِ قراء ت منقول نہیں ہے۔
ابوبکر الانباری فرماتے ہیں :
اجتمع القراء علی ترک کل قراء ۃ مخالف المصحف۔ [البحر المحیط:۷؍۶۰]
لغتِ عرب کی کسی وجہ کی موافقت
اس شرط کو دوسری دونوں شروط کا لوازمہ قرار دیا جا سکتا ہے اور اس کا مقصود یہ ہے کہ ہر وہ قراء ت جو متواتر سند کے ساتھ منقول ہو مصحف عثمانی کے خط کے بھی موافق ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ لغتِ عرب میں بھی اس کی کوئی وجہ موجود ہو، اگرچہ وہ زیادہ معروف نہ بھی ہو۔
جاری ہے۔۔۔

جامعہ لاہور الاسلامیہ کے ’’اہل رشد‘‘ نے فتنہ کا بند دروازہ کھول دیا !!!

قرآن کریم پر پہلا حملہ ::

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں جب مختلف قراءات سے متعلق فتنہ و فساد رونما ہونے لگا اور ایک دوسرے کی تکفیر کی جانے لگی تو انہوں نے اُمت کو فتنہ اور اِختلاف سے بچانے کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اِجماع سے تمام وہ قراءات جو عرضۂ اَخیرہ میں منسوخ کر دی گئی تھیں یا وہ تفسیری کلمات جو بعض صحابہ نے اپنے اپنے مصاحف میں بطور حواشی درج کر رکھے تھے،کو ان تمام سے الگ کر دیا۔ پھر یہ مصاحف ماہرینِ قراء ات کی معیت میں مختلف علاقوں میں بھیج دئیے گئے اور باقی تمام مصاحف کو تلف کرنے کا حکم دے کر اس فتنہ کا دروازہ بند کر دیاگیا۔

قرآن کریم پر دوسرا حملہ ::

اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تابعین رحمہم اللہ کا ایک جم غفیر جب ان قراء ات کو سیکھ کر اپنے علاقوں میں پہنچا تو ان سے سیکھنے والے ظاہر ہے کہ عدل وثقاہت اور حفظ واتقان میں ایک جیسے نہیں تھے۔ بعض جو عدالت وحفظ کے اس معیار پر نہ تھے، انہوں نے بعض قراء اتِ شاذہ اور ضعیفہ کو قرآن سے ملانا شروع کر دیا، بعض نے اِجماعِ امت سے ہٹ کر اپنے اپنے معیارات مقرر کر لیے ۔چنانچہ ایک دفعہ پھر امت میں اختلافات کا خطرہ پیدا ہوا تو ائمہ عظام کی جانب سے قرآنِ کریم کو غیرِ قرآن سے الگ کرنے کے لیے گہرے غور وخوض اور دقت نظری کے بعد چنداصولی ضوابط اور معیارات مقرر کر دئیے گئے۔پوری امت انہی اصولوں پر اعتماد کا اظہار کرتی رہی ہے اور انہی کو قراء ات کے رد وقبول کا معیار قرار دیتی رہی ہے۔

مصحفِ عثمانی کے رسم کی اس قدر اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مہاجرین وانصار کے مشورہ سے جب تمام اُمت کو ایک رسم پر جمع کرنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے سب سے پہلے اس بات کو ملحوظ رکھا کہ مصاحف کا رسم ان تمام حروف پر مشتمل ہو جو عرضۂ اَخیرہ کے وقت باقی رکھے گئے تھے۔

قرآن کریم پر تیسرا حملہ ::

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اِجماع سے تمام وہ قراءات جو عرضۂ اَخیرہ میں منسوخ کر دی گئی تھیں ان کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش !!!

’’
اہل رشد‘‘ نے وہ کرنے کا عزم کیا جو ’’رشدی‘‘ نہ کر سکا

اس لیے جامعہ لاہور الاسلامیہ جن کو ’’اہل رشد‘‘ کے بہترین نام سے ہم موسوم کر رہے ہیں ان کو معروف و مشہور ’’رشدی‘‘ کا کرادار ادا نہیں کرنا چاہیے اور اپنی متداول قراء توں کو کتابوں سے اخذ کر کے ایک بنا دیں اور علمائے کرام کی قرآنِ کریم کے مفہوم کو تفہیم کرانے کی جو کوشش انہوں نے اپنے اپنے طور پر کی ہے ان کے ناموں کے ساتھ طبع کرا کر اہل علم کے لیے آسانی پیدا کر دیں تاکہ اتنی اتنی بڑی کتابوں کے مطالعہ کی بجائے وہ آپ لوگوں کی مساعی کا شکریہ ادا کریں۔ قرآنِ کریم جب بحمداللہ ایک ہے اور اس کو ایک ہی رہنا ہے تو اس کو دس، سولہ یا بیس بنانے کی ناکام کوشش کر کے مفت میں بدنامی حاصل کرنے کی بجائے ایسا کام کریں کہ آپ کو نیک نامی نصیب ہو اور یہ تب ہی ممکن ہے جب حسنات کے ذریعے سیئات کو بدلنے کی کوشش کریں، اللہ کرے بات آپ کی یعنی اہل رشد کی سمجھ میں آ جائے۔

’’
اہل رشد‘‘ سے بے نام درخواست

اہل رشد کے سامنے ہماری دوبارہ درخواست ہے کہ وہ محض ’’سبعہ احرف‘‘ کے مفہوم کو غلط طریقہ سے تفہیم کر لینے کے باعث مختلف قرآن طبع کر کے قومِ مسلم کے لیے فتنہ کاباعث نہ بنیں اس لیے کہ اس طرح قرآنِ کریم کو تو ایک سے زیادہ باور نہیں کرایا جا سکے گا کیونکہ قوم کے بے شمار لوگوں کے سینہ میں محفوظ ہے اور جس طرح وہ محفوظ ہے بالکل اسی طرح ا س کو محفوظ رہناہے کہ یہ وعدۂ الٰہی ہے اور اس کو آپ کے سینہ اقدس پر ایک دیانتدار فرشتہ نے اُتارا ہے ’’اہل رشد‘‘ جیسی کسی تحریک نے نہیں جس سے آپؐ نے لوگوں کو ڈرایا ہے اور بعض لوگوں کو خوشخبریاں سنائی ہیں اور پندرہ سو سال ہوئے یہ قرآنِ کریم ہی لوگوں کے لیے کفایت کرتا آ رہا ہے اس کے اپنے بیان کے مطابق کوئی ایسی ہدایت نہیں جو اس میں بیان نہ کر دی گئی ہو اور کوئی ایسا ڈراوا نہیں جو اس میں موجود نہ ہو۔

عبدالکریم اثری


اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : rana ammar mazhar مراسلہ دیکھیں
قرآنِ کریم جب بحمداللہ ایک ہے اور اس کو ایک ہی رہنا ہے تو اس کو دس، سولہ یا بیس بنانے کی ناکام کوشش کر کے مفت میں بدنامی حاصل کرنے کی بجائے ایسا کام کریں کہ آپ کو نیک نامی نصیب ہو اور یہ تب ہی ممکن ہے جب حسنات کے ذریعے سیئات کو بدلنے کی کوشش کریں، اللہ کرے بات آپ کی یعنی اہل رشد کی سمجھ میں آ جائے۔

’’
اہل رشد‘‘ سے بے نام درخواست

اہل رشد کے سامنے ہماری دوبارہ درخواست ہے کہ وہ محض ’’سبعہ احرف‘‘ کے مفہوم کو غلط طریقہ سے تفہیم کر لینے کے باعث مختلف قرآن طبع کر کے قومِ مسلم کے لیے فتنہ کاباعث نہ بنیں اس لیے کہ اس طرح قرآنِ کریم کو تو ایک سے زیادہ باور نہیں کرایا جا سکے گا کیونکہ قوم کے بے شمار لوگوں کے سینہ میں محفوظ ہے اور جس طرح وہ محفوظ ہے بالکل اسی طرح ا س کو محفوظ رہناہے کہ یہ وعدۂ الٰہی ہے اور اس کو آپ کے سینہ اقدس پر ایک دیانتدار فرشتہ نے اُتارا ہے ’’اہل رشد‘‘ جیسی کسی تحریک نے نہیں جس سے آپؐ نے لوگوں کو ڈرایا ہے اور بعض لوگوں کو خوشخبریاں سنائی ہیں اور پندرہ سو سال ہوئے یہ قرآنِ کریم ہی لوگوں کے لیے کفایت کرتا آ رہا ہے اس کے اپنے بیان کے مطابق کوئی ایسی ہدایت نہیں جو اس میں بیان نہ کر دی گئی ہو اور کوئی ایسا ڈراوا نہیں جو اس میں موجود نہ ہو۔

عبدالکریم اثری

محترم، سب سے پہلے تو یہ نوٹ کریں کہ عرضہ اخیرہ میں ایک ہی قراءت کے رائج اور دیگر کے منسوخ ہونے کے آپ کے یا عبدالکریم اثری صاحب کےد عویٰ کی تردید میں ہم نے جو عمران اسلم صاحب کا مضمون پیش کیا ہے۔ اس کے جواب میں آپ نے ایک لفظ نہیں کہا۔ گویا آپ کو تسلیم ہے کہ واقعی عرضہ اخیرہ میں ایک ہی قراءت رائج ہونے والے بات غلط ہے۔ ورنہ ہمارے دلائل کا جواب دیجئے۔

دوسری بات یہ ہے رانا صاحب، کہ آپ کی وساطت سے عبدالکریم اثری صاحب تک ایک پیغام بھیجنا ہے۔ اور پیغام یہ ہے کہ:

اقتباس:
کیا اثری صاحب اللہ کے سامنے حاضری کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کی قسم کھا سکتے ہیں کہ اس وقت دنیا بھر میں صرف ایک ہی روایت (حفص) پر مبنی قرآن شائع ہو رہا ہے ؟ اور دیگر روایات بس کتابوں کی حد تک ہیں؟ یا دیگر روایات میں بس چند ایک ہزار مصاحف شائع ہوتے ہیں۔ اور ہمارا جو دعویٰ ہے کہ دنیا میں کروڑوں مسلمان وہ بستے ہیں جو روایت حفص کے علاوہ دیگر روایات میں قرآن تلاوت اور حفظ کرتے ہیں۔ کیا اثری صاحب ہمارے اس دعویٰ کو برملا جھوٹ کہتے ہیں؟

اور کیا گوگل کے اس دور میں رانا صاحب یا دیگر منکرین قراءات کے لئے یہ کچھ مشکل ہے کہ سرچ کر کے دیکھ لیں کہ آیا واقعی دنیا بھر میں ایک ہی روایت پر مبنی قرآن کو قرآن سمجھا جاتا ہے یا نہیں؟؎

اس کے باوجود ضد، عناد اور تعصب میں یہ کہے جانا کہ رشد والے ایک کے بیس قرآن بنا رہے ہیں، آخرت میں جوابدہی کے احساس سے یکسر بیگانہ ہونا نہیں؟

کیا اس گراؤنڈ ریلیٹی کو تسلیم کرنے کے لئے کچھ بہت زیادہ عقل و فہم کی ضرورت ہے کہ دنیا بھر میں صرف مجمع الملک فھد ہی کروڑوں کی تعداد میں کم سے کم چار روایات پر مبنی مصاحف تقسیم کر رہا ہے؟ یہ سعودی حکومت کی وزارۃ الشون الاوقاف الاسلامیہ کی زیر نگرانی چلنے والا ادارہ ہے اور یہاں سے شائع ہونے والے مصاحف سعودی و مصری قرائے کرام کی جماعت سے مراجعت کے بعد ہی شائع ہوتے ہیں۔

کم سے کم اس ثابت شدہ حقیقت کو تو تسلیم کریں اور پھر کوئی اعتراض کریں تو بجا۔ لیکن آپ اب بھی اسی بات کا راگ جاری رکھے ہوئے ہیں کہ دنیا بھر میں ایک ہی متن قرآن رائج ہے۔

میں نے جو دوسرے دھاگے میں مختلف قراءات پر مبنی مصاحف اور آڈیو ویڈیو قراءات کے ثبوت پیش کئے تھے ، وہ دوبارہ پیش خدمت ہیں۔ ازراہ کرم یا تو ان ثبوتوں کو جھٹلائیں۔ یا ان کی تصدیق کریں اور پھر بات آگے بڑھائیں۔

اقتباس:
مختلف روایات میں‌قرإءات کے ثبوت کے لئے محدث‌کے ایک عالم دین سے رابطہ کرنے پر درج ذیل آن لائن لنکس وصول ہوئے ہیں۔ ان سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ دنیا بھر میں‌ قرآن کی ایک ہی قرإءت کے رائج ہونے اور ایک ہی املا کا جو مغالطہ دیا جاتا ہے یا جو غلط فہمی پائی جاتی ہے، وہ درست نہیں۔ یہ تمام قراءات قرآن ہی کے مختلف اسلوب تلاوت ہیں ۔ الحمدللہ۔

قاری عبد الباسط عبد الصمدکی سورۂ مریم کی یہ مشہور زمانہ تلاوت روایتِ ورش، سوسی، حفص اور خلف (چاروں روایتوں) میں مشترکہ طور پر ہے۔ کبھی حفص پڑھتے ہیں، کبھی ورش، کبھی سوسی تو کبھی خلف
چوتھے منٹ میں يٰزَكَرِيَّآءُ إِنا سنیں۔ حالانکہ آپ کے اصل قرآن میں‌ زکریا کے آخر میں ہمزہ نہیں ہے۔
٥:٤٤ میں عُتِيًّا سنیں، حالانکہ آپ کے اصل قرآن میں‌ عِتِيًّا ہے۔
٧:٤٥ پر نَبْشُرُكَ سنیں، حالانکہ آپ کے اصل قرآن میں‌ نُبَشِّرُكَ ہے۔
٩:١٥ پر خَلَقْنٰكَ سنیں، حالانکہ آپ کے اصل قرآن میں‌ خَلَقْتُكَ ہے۔
٩:٥٥ پر لِيَ ءَايَةً سنیں، یاء پر زبر اور ہمزہ پر مد کی گئی ہے۔ حالانکہ آپ کے اصل قرآن میں‌ لِيَ نہیں بلکہ لِي ہے، یاء ساکن اور اس پر مد اور ہمزہ پر مد نہیں ہے۔

اس لنک میں قاری عبد الباسط کی سورۃ البقرۃ روایت ورش میں ہے۔

اس لنک میں قاری عبد الباسط کی مشہور زمانہ سورۂ فاتحہ کی تلاوت روایت سوسی میں ہے۔ الرَّحِيم مَّلِکِ پر غور کریں۔

اس لنک میں قاری عبد الباسط عبد الصمد کی مشہور زمانہ سورۃ الکہف روایت حفص، ورش اور سوسی میں ہے۔

اس لنک میں قاری عبد الباسط عبد الصمد کی سورۃ الضحیٰ کی ویڈیو ہے، یہ روایت ورش میں ہے۔

اس لنک میں قاری عبد الباسط عبد الصمد کی مشہور زمانہ سورۃ یوسف کا حصہ (ایک ہی سانس میں کئی روایات جمع کی ہیں۔)

قاری محمد صدیق المنشاوی (استاد قاری عبد الباسط) کی روایت ورش

قاری محمد صدیق منشاوی کی سورۂ یوسف مختلف روایات میں

مزید تفصیلات کے لئے یہ اور یہ اور یہ لنک قرآنی متن کے مختلف قراءات میں‌تحریری ربط کے طور پر کام آ سکتے ہیں۔

اب محترم، ہمارا ٹھوس سوال وہیں‌قائم ہے کہ آج کے دور میں‌قرآن کیسے ثابت ہوگا؟ آپ کن عقلی و نقلی دلائل کی بنیادوں‌ پر اپنا اصلی قرآن (روایت حفص ) درست ثابت کریں‌گے اور دنیا بھر میں مروج دیگر قراءات ورش، دوری، قالون (آپ کے بقول تحریف شدہ قرآن) کو تحریف شدہ ثابت کریں گے؟

اور ہم اپنے اس سوال میں بالکل حق بجانب ہیں کہ یہی سوال آپ (اور آپ کے ہم فکر دیگر احباب) کی جانب سے حدیث کے بارے میں مسلسل اور شدت کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے۔ آج قرآن کو ثابت کرنا ہے تو کیسے ثابت کریں؟ ائمہ حرمین کی تقلید کر لیں؟ تو وہ تو خود ان مختلف قراءات کو قرآن ہی قرار دینے کے فتاویٰ دے چکے۔ اور منکرین کے حق میں کفر کے فتاویٰ بھی دے کر فارغ ہو چکے۔

کیا جن جن بنیادوں پر آپ آج تک حدیث کو ظنی کہہ کر، راویوں پر ایمان لانے کی مجبوری بیان کر کے، اللہ کے رسول تک حدیث کی سند پہنچانے کو فضول خیال کر کے، علم الحدیث کے تمام علوم کو بیک جنبش قلم کار لاحاصل قرار دے کر، مخالف قرآن کی پھبتی کس کر، عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر رد کرتے آئے ہیں، کیا انہی بنیادوں پر آپ آج قرآن کو رد کرنے کے لئے تیار ہیں؟ یا حق بات بلا تعصب ریسرچ کر کے قبول کرنے کو تیار ہوں گے؟

جس قرآن کے بارے آپ کے دعاوی جگہ جگہ بکھرے پڑے ہیں کہ نقطہ اور شوشہ کا فرق نہیں، دیگر قراءات کو تو خیر چھوڑیں، خود روایت حفص والے آپ کے اصلی قرآن میں کم سے کم چار جگہوں پر دوہرا املا موجود ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ قرآن جس کے بارے میں آپ کا دعویٰ ہے کہ خدا نے اس کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے۔ وہ دنیا بھر کے ان کروڑوں مصاحف کی صورت میں امت مسلمہ میں رائج قرآن کو غیر قرآن ماننے سے کیسے وفا ہوگا؟ (نعوذ باللہ)۔۔۔!!!

محترم، جب ہم احادیث کا ثبوت پیش کرتے ہیں راویوں کی چین اور راویان پر عدالت اور حفظ و ضبط کی جرح و تعدیل پیش کرتے ہیں، تو یہ سب آپ کے نزدیک عبث ہوتا ہے۔ آج قرآن کے ثبوت کے لئے آپ انہی قراء کی روایت کا سہارا لینے پر مجبور ہیں، یہ سند یافتہ قراء الحمدللہ قرآن کی متواتر قراءت کو رسول اللہ تک صحیح و متواتر سند سے پہنچاتے ہیں۔ آپ کے ذہن میں اگر یہ ہو کہ تاج کمپنی یا تنزیل یا حرمین سے شائع ہونے والا قرآن ہی درست ہوگا، تو یاد رہے کہ مصاحف کی درستی یہی قرائے کرام ہی کرتے ہیں۔ جب تک قاری کی تصدیقی مہر نہ ہو، اسلامی حکومتیں ایسے ناشرین کو قرآن شائع کرنے کی اجازت ہی نہیں دیتیں۔ لہٰذاہمارے نزدیک قرآن وہی ہے جو دراصل ان قرائے کرام نے ہمیں راویوں کی مستند اور متواتر چین سے ثابت کر کے بتایا اور سکھایا ہے، ان کی اتباع میں علمائے کرام اور عام مسلمان بھی اس کو قرآن مانتے ہیں، لہٰذا امت کا اجماع ہو جاتاہے۔

جو آج تک آپ ہمیں بات سمجھاتے آئے ہیں کہ قرآن تو دو جلدوں میں محفوظ کر کے اللہ کے رسول نے امت کو دیا اور حدیث نہیں دی۔ تو فائدہ کیا ہوا؟ قرآن اگر دو جلدوں میں دیا بھی گیا تھا تو آج امت میں تو کئی قرآن (نعوذباللہ) رائج ہیں۔ لہٰذا قرآن میں بھی آپ کے نظریہ کے حساب سے تو اختلافات در آئے۔ معانی میں تو تحریف ہر فرقہ کرتا ہی رہا، یہاں تو الفاظ قرآن ہی میں تحریفات واقع ہو گئیں (نعوذباللہ)۔اب جیسے آپ کا عمل تھا کہ حدیث سے اختلافات پیدا ہوتے ہیں ، یہ روایت بالمعنی ہے، وغیرہ، لہٰذا حدیث کی حجیت ہی کی تردید کردو، قرآن کے ان واضح اختلافات (نعوذباللہ) کو دیکھ کر کیا قرآن کی بھی اسی اصول کے تحت تردید کریں گے؟

کس کس اعتراض کو بیان کروں۔ آپ احادیث پر اعتراض کرتے نہیں تھکتے کہ یہ فتنہ عجم ہیں اور مسلمانوں کو کتاب اللہ سے دور کرنے کی سازش ہے۔ کون پوچھے اب آپ سے بھائی کہ زمانہ تو قیامت کی چال چل چکا ہے، یہ فتنہ عجم صرف احادیث میں ہی نہیں بلکہ قرآن میں بھی در آیا ہے ، نعوذباللہ۔ اب جیسے محدثین نے زندگیاں لگا کر صحیح کو ضعیف سے ممیز کیا، آج آپ کی باری ہے کہ اصلی قرآن کو نقلی قرآن (نعوذ باللہ) سے علیحدہ کرنے کے اصول و ضوابط پیش فرمائیے، راویوں کی تحقیق کیجئے کہ ہم تک پہنچنے والا قرآن کس سند سے پہنچ رہا ہے، ائمہ حرمین اور طاہر القادری صاحب کو تو آپ نے محدثین کی اصطلاح میں ثقہ پہلے ہی کہہ دیا ہے۔ اب جرح و تعدیل کریں، قرائے کرام میں سے کن قراء نے قرآن میں تحریف کی ، کب اور کس صدی میں ہو گئی کہ امت میں سے ایک بھی باغیرت مسلمان احتجاج کے لئے نہ اٹھا؟


تعدد قرا ئت مترادف تحریف قرآن

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : شکاری مراسلہ دیکھیں
محترم، سب سے پہلے تو یہ نوٹ کریں کہ عرضہ اخیرہ میں ایک ہی قراءت کے رائج اور دیگر کے منسوخ ہونے کے آپ کے یا عبدالکریم اثری صاحب کےد عویٰ کی تردید میں ہم نے جو عمران اسلم صاحب کا مضمون پیش کیا ہے۔ اس کے جواب میں آپ نے ایک لفظ نہیں کہا۔ گویا آپ کو تسلیم ہے کہ واقعی عرضہ اخیرہ میں ایک ہی قراءت رائج ہونے والے بات غلط ہے۔ ورنہ ہمارے دلائل کا جواب دیجئے۔
دوسری بات یہ ہے رانا صاحب، کہ آپ کی وساطت سے عبدالکریم اثری صاحب تک ایک پیغام بھیجنا ہے۔ اور پیغام یہ ہے کہ:
اور کیا گوگل کے اس دور میں رانا صاحب یا دیگر منکرین قراءات کے لئے یہ کچھ مشکل ہے کہ سرچ کر کے دیکھ لیں کہ آیا واقعی دنیا بھر میں ایک ہی روایت پر مبنی قرآن کو قرآن سمجھا جاتا ہے یا نہیں؟؎
اس کے باوجود ضد، عناد اور تعصب میں یہ کہے جانا کہ رشد والے ایک کے بیس قرآن بنا رہے ہیں، آخرت میں جوابدہی کے احساس سے یکسر بیگانہ ہونا نہیں؟
کیا اس گراؤنڈ ریلیٹی کو تسلیم کرنے کے لئے کچھ بہت زیادہ عقل و فہم کی ضرورت ہے کہ دنیا بھر میں صرف مجمع الملک فھد ہی کروڑوں کی تعداد میں کم سے کم چار روایات پر مبنی مصاحف تقسیم کر رہا ہے؟ یہ سعودی حکومت کی وزارۃ الشون الاوقاف الاسلامیہ کی زیر نگرانی چلنے والا ادارہ ہے اور یہاں سے شائع ہونے والے مصاحف سعودی و مصری قرائے کرام کی جماعت سے مراجعت کے بعد ہی شائع ہوتے ہیں۔
کم سے کم اس ثابت شدہ حقیقت کو تو تسلیم کریں اور پھر کوئی اعتراض کریں تو بجا۔ لیکن آپ اب بھی اسی بات کا راگ جاری رکھے ہوئے ہیں کہ دنیا بھر میں ایک ہی متن قرآن رائج ہے۔
میں نے جو دوسرے دھاگے میں مختلف قراءات پر مبنی مصاحف اور آڈیو ویڈیو قراءات کے ثبوت پیش کئے تھے ، وہ دوبارہ پیش خدمت ہیں۔ ازراہ کرم یا تو ان ثبوتوں کو جھٹلائیں۔ یا ان کی تصدیق کریں اور پھر بات آگے بڑھائیں۔

اس کے جواب میں آپ نے ایک لفظ نہیں کہا۔

کہوں گا !!!

پاکستان میں موجود قرآن میں کون سی قراءت ہے اور دوسری قراءت کس ملک کے قرآن میں ہے ؟؟؟

کروڑوں مسلمان انہی اختلاف قراءات پر مبنی مصاحف کو قرآن سمجھ کر پڑھ رہے ہیں۔

کون سے ملک میں دوسرے "اختلاف قراءات پر مبنی مصاحف" والا قرآن پڑھا جا رہا ہے ؟؟؟

سكين كر كے آپ صفحات پيش كر ديں ‌گے ؟؟؟

لہٰذا ہمارے سوال کا جواب دیجئے کہ امت مسلمہ اگر کسی غیر قرآن کو قرآن سمجھ کر پڑھ رہی ہے (نعوذباللہ) تو آپ اپنی اس بات سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہیں

"
اختلاف قراءات پر مبنی مصاحف" والا قرآن کہاں پڑھا جا رہا ہے جسے آپ کے خیال میں میں "غیر قرآن" کہہ رہا ہوں ؟؟؟

گوگل کے اس دور میں رانا صاحب یا دیگر منکرین قراءات کے لئے یہ کچھ مشکل ہے کہ سرچ کر کے دیکھ لیں کہ آیا واقعی دنیا بھر میں ایک ہی روایت پر مبنی قرآن کو قرآن سمجھا جاتا ہے یا نہیں ؟؎

انکار کی کیا بات ہے میں نے خود اپ لوڈ کی ہیں

اٹھو قرآن کا دفاع کرو !!!

اختلاف قرأت کی بنا پر قرآن کے الگ الگ نسخے چھاپنے کا حکم kitabosunnat.com دار الافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

Quran Khallad Qirat Multi Readings Equivalent to Distorting the Quran تعدد قرا ئت مترادف تحریف قرآن

Quran Ibn Zakwan Multi Readings Equivalent to Distorting the Quran تعدد قرا ئت مترادف تحریف قرآن

Quran Dori Qirat Multi Readings Equivalent to Distorting the Quran تعدد قرا ئت مترادف تحریف قرآن

Quran Dori2 Multi Readings Equivalent to Distorting the Quran تعدد قرا ئت مترادف تحریف قرآن

کیا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے الگ الگ علاقوں میں الگ الگ قراءت والا قرآن ارسال کیا یا ایک جیسا ؟

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : شکاری مراسلہ دیکھیں
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں جب مختلف قراء ات سے متعلق فتنہ و فساد رونما ہونے لگا اور ایک دوسرے کی تکفیر کی جانے لگی تو انہوں نے اُمت کو فتنہ اور اِختلاف سے بچانے کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اِجماع سے تمام وہ قراء ات جو عرضۂ اَخیرہ میں منسوخ کر دی گئی تھیں یا وہ تفسیری کلمات جو بعض صحابہ نے اپنے اپنے مصاحف میں بطور حواشی درج کر رکھے تھے،کو ان تمام سے الگ کر دیا۔ پھر یہ مصاحف ماہرینِ قراء ات کی معیت میں مختلف علاقوں میں بھیج دئیے گئے اور باقی تمام مصاحف کو تلف کرنے کا حکم دے کر اس فتنہ کا دروازہ بند کر دیاگیا۔

پھر یہ مصاحف ماہرینِ قراءات کی معیت میں مختلف علاقوں میں بھیج دئیے گئے !!!

کیا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے الگ الگ علاقوں میں الگ الگ قراءت والا قرآن ارسال کیا یا ایک جیسا ارسال کیا یا ایک ایک علاقہ میں الگ الگ ۷ ، ۷ ارسال کیے ؟؟؟

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : شکاری مراسلہ دیکھیں
مفتی صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ تمام لوگ قراء تِ عامہ کے مطابق قرآن پڑھتے رہے ہیں اور یہ وہی قراءت ہے جو عرضۂ اَخیرہ میں پڑھی گئی۔ اور زرکشی رحمہ اللہ کے حوالے سے ابو عبدالرحمن السلمی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے :
’’
ابو بکر وعمر، عثمان، زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اور تمام مہاجرین وانصار کی قراء ت ایک ہی تھی۔ وہ قراء تِ عامہ کے مطابق قرآن پڑھتے تھے۔ یہ وہی قراء ت ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے سال جبریلِ اَمین علیہ السلام کو دو مرتبہ قرآن سنایا۔ عرضۂ اَخیرہ کی اس قراء ت میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ دنیا سے رخصت ہونے تک وہ لوگوں کو اسی کے مطابق قرآن پڑھاتے تھے۔‘‘ [الاتقان فی علوم القرآن:۱؍۳۳۱]
پس اہل سنت کے نزدیک ’قراء تِ عامہ‘ سے مراد بھی معروف و متواترقراء ات ہی ہیں ۔واقعہ یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ کے زمانے میں بعض لوگوں کاخیال یہ تھا کہ { فَھَلْ مِن مُّدَّکِرٍ } میں مُدَّکِرٍ کواہلِ عرب کے استعمالات کی رعایت رکھتے ہوئے مذکر پڑھنا چاہیے، کیونکہ اس لفظ کا مادہ بھی ’ذکر‘ہی ہے ، لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں دو اَساسی باتوں کو واضح کیا ہے ایک تویہ کہ قرآن کی قراء ت میں اصل،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا سماع ہے نہ کہ عرب کامحاورہ، دوسری بات انہوں نے یہ بیان کی کہ مسلمانوں نے جن طرق سے قرآن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا ہے،ان سب میں یہ لفظ مُدَّکِرٍ ہی پڑھا گیاہے ۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قراء اتِ عشرہ متواترہ کے دس اَئمہ نے بھی اسے مُدَّکِرٍ ہی پڑھا ہے۔
پس اہل سنت کے نزدیک ’قراء تِ عامہ‘ سے مراد وہ قراء ت ہے‘ جو قراء ت شاذہ نہیں ہے یعنی قراء اتِ متواترہ۔ ’قراء اتِ شاذہ کے بالمقابل قراء تِ عامہ‘ ایک ہی ہے لیکن اپنی اَصل کے اعتبار سے یہ کئی ایک روایات پر مبنی ہے۔
ثانیا: یہ کہ غامدی صاحب کے اِس قول سے استدلال کے مطابق تو تمام مہاجرین وانصار کی ایک ہی قراء ت یعنی روایتِ حفص ہونی چاہیے تھی اور اگر فی الواقع ایسا ہی ہے تو پھر لوگوں میں قراء ت کے حوالے سے اختلاف ہی کیوں رونما ہوا تھا ایک شخص قراء ت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ترجیح دے رہا تھا تو دوسرا قراء ت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو، حالانکہ آپ کے بقول تو ان سب کی قراء ت ایک تھی۔اس سلسلے میں علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
إن حذیفۃ قدم من غزوۃ فلم یدخل في بیتہ حتی أتی عثمان فقال: یا أمیر المؤمنین! أدرک الناس۔ قال: وما ذاک؟ قال: غزوت أرمینیۃ فإذا أہل الشام یقرئون بقرائۃ أبي بن کعب فیأتون بما لم یسمع أہل العراق وإذا أہل العراق یقرئون بقرائۃ عبداﷲ بن مسعود فیأتون بما لم یسمع أہل الشام فیکفر بعضہم بعضاً۔
’’
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی ایک غزوہ سے واپسی ہوئی تو وہ واپسی پر وہ اپنے گھر میں داخل نہیں ہوئے تاآنکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو ئے ،اور عرض کیا: اے امیر المؤمنین ! لوگوں کی خبر لیجئے۔ انہوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہا میں لڑ ائی کے سلسلے میں آرمینیا گیا ہوا تھا وہاں پہنچا تومعلوم ہوا کہ اہل شام اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قراء ت پڑھتے ہیں جسے اہلِ عراق نے نہیں سنا ہوا تھا اور اہلِ عراق عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراء ت میں پڑھتے ہیں جسے اہل شام نے نہیں سنا اس اِختلاف کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہیں ۔‘‘[عمدۃ القاری: ۱۶]
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی شاید خود اس خطرے سے آگاہ تھے۔انہیں اس بات کی اِطلاع ملی تھی کہ خود مدینہ طیبہ کے اَندر ایسے واقعات پیش آئے کہ جب مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے شاگرد اکٹھے ہوئے تو اِختلاف کی سی ایک کیفیت پیدا ہو رہی تھی۔ [ الاتقان فی علوم القرآن:۱؍۶۱]
اِس سے ثابت ہوتاہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین قراء ات کے اختلافات موجود تھے اور انہوں نے اپنے اپنے اختیارات اپنا رکھے تھے اور قراء تِ عامہ صرف روایتِ حفص کو ہی نہیں بلکہ دیگر متواترقراء ات کو بھی شامل تھی۔ اس سلسلہ میں ہم علامہ زرکشی رحمہ اللہ کے ان اَقوال کو پیش کرتے ہیں جو متعدد قراء ات قرآنیہ سے متعلق ان کا مؤقف واضح کرنے اور ناقابل تردید دلائل کے ساتھ پنجہ آزمائی کر کے ثابت شدہ قراء ات کا اِنکار کرنے والوں کے لیے کافی ہوں گے۔
امام صاحب فرماتے ہیں :
إن القراء ات توقیفیۃ ولیست اختیاریۃ۔
’’
قراء ات توقیفی ہیں نہ کہ کسی کی اپنی اختیار کردہ ہیں ۔‘‘
مزید فرماتے ہیں :
وقد انعقد الإجماع علی صحۃ قرائۃ ہؤلاء الأئمۃ وأنہا سنۃ متبعۃ لا مجال للإجتہاد فیہا۔ [البرہان فی علوم القرآن: ۱؍۳۲۲]
’’
قراء عشرہ کی قراء ت کی حجیت پر اِجماع منعقد ہو چکا ہے، یہ قراء ت، سنت متبعہ (یعنی توقیفی) ہیں اور ان میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے۔‘‘
قاضی ابوبکر رحمہ اللہ کے حوالہ سے ذکر کرتے ہیں کہ صحیح بات یہ ہے:
أن ہذہ الأحرف السبعۃ ظہرت واستفاضت عن رسول اﷲ وضبطہا عنہ الأئمۃ وأثبتہا عثمان والصحابۃ في المصحف۔ [البرہان فی فی علوم القرآن:۱؍۲۲۳]
’’
یہ سبعہ حروف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے مشہور و معروف ہیں ۔ ائمہ نے سبعہ حروف کو ضبط کیا ہے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی انہیں مصاحف میں ثابت رکھا۔‘‘
ایک جگہ پر اَحرف سبعہ سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار یوں فرماتے ہیں :
’’
سبعہ اَحرف پر انزال قرآن کی اجل حکمت اور اہم غرض یہ ہے کہ تلاوتِ قرآن کی بابت عرب پر تیسیر و آسانی پیدا کر دی جائے۔ اَحرف سبعہ پر انزالِ قرآن منجانب اللہ امت محمدیہ پر توسع ورحمت اور تخفیف وتیسیر کا معاملہ ہے، کیونکہ اگرعرب کا ہر قبیلہ فتح وامالہ، تحقیق وتخفیف، مد و قصر وغیرہ کے متلق اپنی عادی وطبعی لغت کو چھوڑ کر چار و ناچار دوسرے قبیلہ کے لغت کے موافق پڑھنے کا مکلف قرار دیا جاتا تو اس میں بہت تنگی ومشقت لازم آتی۔‘‘
[
البرہان فی علوم القرآن:۱؍۲۷۷]

مفتی صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ تمام لوگ قراء تِ عامہ کے مطابق قرآن پڑھتے رہے ہیں اور یہ وہی قراءت ہے جو عرضۂ اَخیرہ میں پڑھی گئی۔

یہ وہی قراءت ہے جو عرضۂ اَخیرہ میں پڑھی گئی۔ واحد

یہ ایک میں سات تھیں یا ایک تھی ؟؟؟

جیسا کہ تین میں ایک، ایک میں تین ؟؟؟

ابو بکر وعمر، عثمان، زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اور تمام مہاجرین وانصار کی قراء ت ایک ہی تھی۔

اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قراء اتِ عشرہ متواترہ کے دس اَئمہ نے بھی اسے مُدَّکِرٍ ہی پڑھا ہے۔

لیکن اور جگہ اختلاف گھڑ لیا !!!

قراء تِ عامہ‘ ایک ہی ہے لیکن اپنی اَصل کے اعتبار سے یہ کئی ایک روایات پر مبنی ہے۔

جیسا کہ تین میں ایک، ایک میں تین ؟؟؟

اور جگہ جگہ اختلاف گھڑ لیا !!!

ثانیا: یہ کہ غامدی صاحب کے اِس قول سے استدلال کے مطابق تو تمام مہاجرین وانصار کی ایک ہی قراء ت (یعنی روایتِ حفص) ہونی چاہیے تھی !!!

ابو بکر وعمر، عثمان، زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اور تمام مہاجرین وانصار کی قراء ت ایک ہی تھی۔

پس اہل سنت کے نزدیک ’قراء تِ عامہ‘ سے مراد بھی معروف و متواترقراء ات ہی ہیں ۔

جیسا کہ تین میں ایک، ایک میں تین ؟؟؟

اور اگر فی الواقع ایسا ہی ہے تو پھر لوگوں میں قراء ت کے حوالے سے اختلاف ہی کیوں رونما ہوا تھا ایک شخص قراء ت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ترجیح دے رہا تھا تو دوسرا قراء ت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو،

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں جب مختلف قراءات سے متعلق فتنہ و فساد رونما ہونے لگا تو باقی تمام مصاحف کو تلف کرنے کا حکم دے کر اس فتنہ کا دروازہ بند کر دیاگیا۔

’’
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی ایک غزوہ سے واپسی ہوئی تو وہ واپسی پر وہ اپنے گھر میں داخل نہیں ہوئے تاآنکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو ئے ،اور عرض کیا: اے امیر المؤمنین ! لوگوں کی خبر لیجئے۔ انہوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہا میں لڑ ائی کے سلسلے میں آرمینیا گیا ہوا تھا وہاں پہنچا تومعلوم ہوا کہ اہل شام اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قراء ت پڑھتے ہیں جسے اہلِ عراق نے نہیں سنا ہوا تھا اور اہلِ عراق عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراء ت میں پڑھتے ہیں جسے اہل شام نے نہیں سنا اس اِختلاف کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہیں ۔‘‘

جامعہ لاہور الاسلامیہ کے ’’اہل رشد‘‘ نے فتنہ کا بند دروازہ پھر کھول دیا اور اس اِختلاف کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہیں ۔!!!

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی شاید خود اس خطرے سے آگاہ تھے۔انہیں اس بات کی اِطلاع ملی تھی کہ خود مدینہ طیبہ کے اَندر ایسے واقعات پیش آئے کہ جب مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے شاگرد اکٹھے ہوئے تو اِختلاف کی سی ایک کیفیت پیدا ہو رہی تھی۔


دوبارہ قرآن مجید میں قراء توں کا اختلاف
قرآن مجید میں قراء توں کا اختلاف

اِس سے ثابت ہوتاہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین قراء ات کے اختلافات موجود تھے اور انہوں نے اپنے اپنے اختیارات اپنا رکھے تھے اور قراء تِ عامہ صرف روایتِ حفص کو ہی نہیں بلکہ دیگر متواتر قراء ات کو بھی شامل تھی۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی کوشش ناکام ؟؟؟

اس سلسلہ میں ہم علامہ زرکشی رحمہ اللہ کے ان اَقوال کو پیش کرتے ہیں جو متعدد قراء ات قرآنیہ سے متعلق ان کا مؤقف واضح کرنے اور ناقابل تردید دلائل کے ساتھ پنجہ آزمائی کر کے ثابت شدہ قراء ات کا اِنکار کرنے والوں کے لیے کافی ہوں گے۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی کوشش ناکام ؟؟؟

إن القراء ات توقیفیۃ ولیست اختیاریۃ۔
’’
قراء ات توقیفی ہیں نہ کہ کسی کی اپنی اختیار کردہ ہیں ۔‘‘

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی کوشش ناکام ؟؟؟

’’
قراء عشرہ کی قراء ت کی حجیت پر اِجماع منعقد ہو چکا ہے، یہ قراء ت، سنت متبعہ (یعنی توقیفی) ہیں اور ان میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے۔‘‘

’’
یہ سبعہ حروف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے مشہور و معروف ہیں ۔ ائمہ نے سبعہ حروف کو ضبط کیا ہے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی انہیں مصاحف میں ثابت رکھا۔‘‘

7
سے بڑھ کر ۱۰ کیسے ؟؟؟

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی انہیں مصاحف میں ثابت رکھا۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کتنی قراءات میں "مصاحف" لکھوایا تھا ؟؟؟

نبی کریم نے کتنی قراءات میں لکھوایا تھا مکی دور میں اور مدنی دور میں ؟؟؟

کون کون سے کاتب ؓ نے کس کس روایات قراءات میں قرآن لکھا تھا ؟؟؟
__________________
كان شعبة بن الحجاج بن الورد يقول لأصحاب الحديث: "يا قوم! إنكم كلما تقدمتم في الحديث تأخرتم في القرآن"

گویا آپ کو تسلیم ہے کہ واقعی عرضہ اخیرہ میں ایک ہی قراءت رائج ہونے والی بات غلط ہے۔

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : شکاری مراسلہ دیکھیں
محترم، سب سے پہلے تو یہ نوٹ کریں کہ عرضہ اخیرہ میں ایک ہی قراءت کے رائج اور دیگر کے منسوخ ہونے کے آپ کے یا عبدالکریم اثری صاحب کےد عویٰ کی تردید میں ہم نے جو عمران اسلم صاحب کا مضمون پیش کیا ہے۔ اس کے جواب میں آپ نے ایک لفظ نہیں کہا۔ گویا آپ کو تسلیم ہے کہ واقعی عرضہ اخیرہ میں ایک ہی قراءت رائج ہونے والے بات غلط ہے۔ ورنہ ہمارے دلائل کا جواب دیجئے۔
دوسری بات یہ ہے رانا صاحب، کہ آپ کی وساطت سے عبدالکریم اثری صاحب تک ایک پیغام بھیجنا ہے۔ اور پیغام یہ ہے کہ: "۔۔۔۔"
اس کے باوجود ضد، عناد اور تعصب میں یہ کہے جانا کہ رشد والے ایک کے بیس قرآن بنا رہے ہیں، آخرت میں جوابدہی کے احساس سے یکسر بیگانہ ہونا نہیں ؟

آپ دیکھئے یہ بحث بالکل سادہ سی ہے اور اس کا حل بھی بالکل آسان ہے۔ درج بالا ایک بھی سوال کا براہ راست جواب ہمیں ان کی طرف سے کبھی نہیں مل سکتا۔

مجھے بتائیں کہ چار روایات، ۴ کے بعد باقی کتنی ہیں ؟؟؟

07 – 04 = 03
؟؟؟

10 – 04 = 06
؟؟؟

16 – 04 = 10
؟؟؟

20 – 04 = 16
؟؟؟

مجھے بتائیں کہ چار روایات میں کروڑوں مصاحف کے طبع ہونے کا ثبوت ہے، تو پھر اس کے بعد باقی کتنے "روایات قراءات قرآن" ہیں ؟؟؟

موجودہ 4 روایات قرآن كو آج ساري دنيا ديكھ سكتي ہے۔۔۔۔ تو پھر اس کے بعد باقی کی روایات "قرآن" كو كوئي نہيں ديكھ سكتا ؟؟؟

گویا آپ کو تسلیم ہے کہ واقعی عرضہ اخیرہ میں ایک ہی قراءت رائج ہونے والی بات غلط ہے۔

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : شکاری مراسلہ دیکھیں
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں جب مختلف قراء ات سے متعلق فتنہ و فساد رونما ہونے لگا اور ایک دوسرے کی تکفیر کی جانے لگی تو انہوں نے اُمت کو فتنہ اور اِختلاف سے بچانے کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اِجماع سے تمام وہ قراء ات جو عرضۂ اَخیرہ میں منسوخ کر دی گئی تھیں یا وہ تفسیری کلمات جو بعض صحابہ نے اپنے اپنے مصاحف میں بطور حواشی درج کر رکھے تھے،کو ان تمام سے الگ کر دیا۔ پھر یہ مصاحف ماہرینِ قراء ات کی معیت میں مختلف علاقوں میں بھیج دئیے گئے اور باقی تمام مصاحف کو تلف کرنے کا حکم دے کر اس فتنہ کا دروازہ بند کر دیاگیا۔

اس کے باوجود ضد، عناد اور تعصب میں یہ کہے جانا کہ رشد والے ایک کے بیس قرآن بنا رہے ہیں، آخرت میں جوابدہی کے احساس سے یکسر بیگانہ ہونا نہیں ؟

محترم، جن سولہ نسخوں کی آپ بات کر رہے ہیں وہ ریسرچ ورک ہے۔ اور پہلے ہی سے کتب احادیث‌میں‌موجود ہیں۔

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : شکاری مراسلہ دیکھیں
محترم، جن سولہ نسخوں کی آپ بات کر رہے ہیں وہ ریسرچ ورک ہے۔ اور پہلے ہی سے کتب احادیث‌میں‌موجود ہیں۔ صرف ان کو یکجا کرنا مقصود ہے تاکہ علم القرات کے طلبا اس سے مستفیض ہو سکیں۔آپ کے مضمون میں‌جو یہ اعتراض کیا گیا ہے:
تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان نسخوں پر کام صرف مدارس کے طلبا کے لئے اور وہ بھی علم القرات کے طلبا کے لئے کیا جا رہا ہے، اس کو پاکستان میں‌شائع کرنے کا واقعی کوئی پروگرام نہیں‌ہے۔ اور نہ ہی یہ عوام الناس کے لئے شائع کئے جا رہے ہیں‌کہ اس سے کوئی فتنہ پھیلنے کا امکان ہو۔ دینی مدارس کے علمإ و عوام سب ہی قرات سبعہ سے واقف ہیں، صدیوں‌سے پڑھتے پڑھاتے رہے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ہاں‌ان نسخوں کی عوامی سطح‌پر اشاعت ایک نئی بات ہوگی جو کہ کبھی منصوبہ میں‌ شامل ہی نہیں‌رہی۔ لہٰذا درج بالا مضمون کی عمارت جس بنیاد پر قائم ہے جب وہی اتنی کمزور ہے تو بقیہ عمارت کو سہارا دینے کا فائدہ نہیں۔
آپ نے میری بات کا جواب نہیں‌دیا کہ جو امت میں‌چار قرات رائج ہو چکی ہیں‌اور صدیوں‌سے قراآن کے یہ نسخے حکومتوں، مدارس، یونیورسٹیوں کی زیر نگرانی شائع ہو رہے ہیں اور دیگر ممالک میں‌انہی کو قرآن سمجھا جاتا ہے تو کیا وہ غلط ہے؟ کیا معاذ اللہ خدا قرآن کی حفاظت نہیں کر سکا؟ یا آپ ہی کا لگایا ہوا الزام غلط ہے؟

No comments:

Post a Comment