Monday, January 21, 2013

صحیح بخاری کتاب الاکراہ کے متن میں تحریف

صحیح  بخاری کتاب الاکراہ کے متن  میں تحریف
77 - جبر کرنے کا بیان : (12)
اللہ تعالیٰ کا قول کہ مگر وہ جس پر جبر کیا گیا۔ اور اس کا قلب ایمان سے مطمئن ہے، لیکن وہ جس نے سینہ کفر کے لئے کھول دیا تو ان پر اللہ کی طرف سے غضب نازل ہوگا اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے ،
 اور فرمایا ، تقاۃ کے معنی تقیہ ہیں (یعنی کافروں کے خوف سے ایمان کا چھپانا)
 اور اللہ تعالی نے فرمایا
 ان الذین توفاھم الملاءکۃ ظالمی انفسھم قالوا فیم کنتم قالوا کنا مستضعفین فی الارض  الی قولہ  واجعل لنا من لدنک نصیرا۔
 پس اللہ تعالی نے معذور قرار دیا ان کو جو اللہ تعالی کے اوامر کے ترک سے رک نہیں سکتے اور جس شخص پر جبر کیا گیا وہ بھی کمزور ہی ہے کہ جو کچھ اسے حم دیا گیا اس کے کرنے سے رک نہیں سکتا
 اور حسن کا بیان ہے کہ تقیہ قیامت تک جاری ہے
 اور حضرت ابن عباس نے کہا کہ جس شخص پر چوروں نے زبردستی کی وہ اس کو  طلاق دے دے، تو یہ کچھ بھی نہیں ہے اور حضرت ابن عمر وابن زبیر وشعبی اور حسن نے بھی یہی کہا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اعمال نیت پر موقوف ہیں۔
حدثنا يحيی بن بکير حدثنا الليث عن خالد بن يزيد عن سعيد بن أبي هلال عن هلال بن أسامة أن أبا سلمة بن عبد الرحمن أخبره عن أبي هريرة أن النبي صلی الله عليه وسلم کان يدعو في الصلاة اللهم أنج عياش بن أبي ربيعة وسلمة بن هشام والوليد بن الوليد اللهم أنج المستضعفين من المؤمنين اللهم اشدد وطأتک علی مضر وابعث عليهم سنين کسني يوسف
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1868         حدیث مرفوع        مکررات  20   متفق علیہ 14
 یحیی بن بکیر، لیث، خالد بن یزید، سعید بن ابی بلال، بن اسامہ، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں دعا پڑھا کرتے تھے کہ اے اللہ ، عیاش بن ابی ربیعہ اور سلمہ بن ہشام اور ولید بن ولید کو (کفار کے ظلم سے) نجات دے دے، اے اللہ کمزور مسلمانوں کو نجات دیدے، اے اللہ اپنی گرفت (قبیلہ مضر پر سخت کر) اور ان کو حضرت یوسف کے قحط میں مبتلا کر دے۔
Narrated Abi Huraira:
The Prophet used to invoke Allah in his prayer, "O Allah! Save 'Aiyash bin Abi Rabi'a and Salama bin Hisham and Al-Walid bin Al-Walid; O Allah! Save the weak among the believers; O Allah! Be hard upon the tribe of Mudar and inflict years (of famine) upon them like the (famine) years of Joseph."



Reference: Easy QuranWaHadees V3.41


جنا ب قارئین!
 آگے ترجمۃ الباب کی عبارت میں امام بخاری صاحب نے تقیہ کے ثبوت اور جواز کے لئے ایک ایسی خیانت اور بیہودہ جسارت کی ہے کہ فیصلہ کس سے کرائیں یعنی ثبوت تقیہ کے لئے قرآن کی آیت 97سورۃ نساء سے لکھتے ہیں :
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَآٰءِکَۃ’‘ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ قَالُوا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ
الی قولہٖ   وَجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا ۔

 
محترمین !
 اس آیت کے نقل کرتے وقت امام بخاری صاحب نے آدھی آیت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ آگے اتنے تک پڑھتے رہو جتنے تک جملہ وَجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا 
(4:75)

محترم قارئین!
 یہ جملہ آگے ختم قرآن تک نہیں ہے ۔ دیکھئے کہ امام بخاری پڑھنے والوں کو کتنا دھوکہ دے رہاہے۔ یہ جملہ تو پیچھے اسی سورۃ کی آیت نمبر75کا حصہ ہے جب کہ یہ آیت 97نمبر ہے تو پھر کیا اسے امام بخاری کی حواس باختگی کہا جائے گا، یا قرآن سے لا علمی اور جہالت پن کہا جائے گا ،یا تراویح پڑھانے والوں حافظوں کی طرح متشابہات میں بہک جانا کہا جائے گا،یا پڑھنے والوں کو بیوقوف بنانے کی فنکاری کہاجا ئے گا۔

بعد  والوں  نے  مذکورہ  آیات  تلاش  کرکے  ان  کے  نمبر ڈال دیے  اور  پوری  پوری  آیت  لکھ  دی تاکہ معمہ حل ہوسکے۔
نیچے  دیا گیا  سکینڈ امیج ایک  ایسی  ہی  مثال  ہے۔


جب  کہ  ساتھ  ہی  اصل صحیح بخاری کا سکینڈ  امیج  بھی  دیا جا رہا  ہے  ۔
یاد  رہے   کہ قرآنی  آیات  پر پہلے  نمبر نہیں  لگائے  جاتے  تھے،  یہ بعد   کی ایجاد ہے۔

الإكراه

قول الله تعالى: "إلا من أكره وقلبه مطمئن بالإيمان ولكن من شرح بالكفر صدراً فعليهم غضب من الله ولهم عذاب عظيم" النحل: 106
وقال: "إلا أن تتقوا منهم تقاة" آل عمران: 28 : وهي تقيَّة
وقال: "إن الذين توفاهم الملائكة ظالمي أنفسهم قالوا فيم كنتم قالوا كنا مستضعفين في الأرض - إلى قوله - عفوًّا غفوراً" النساء: 97 - 99
وقال: "والمستضعفين من الرجال والنساء والولدان الذين يقولون ربنا أخرجنا من هذه القرية الظالم أهلها واجعل لنا من لدنك ولياً واجعل لنا من لدنك نصيراً" النساء: 75
فعذر الله المستضعفين الذين لا يمتنعون من ترك ما أمر الله به، والمكره لا يكون إلا مستضعفاً، غير ممتنع من فعل ما أمر به
وقال الحسن: التقيَّة إلى يوم القيامة
وقال ابن عباس، فيمن يكرهه اللصوص فيطلِّق: ليس بشيء
وبه قال ابن عمر وابن الزبير والشعبي والحسن
وقال النبي صلى الله عليه وسلم: (الأعمال بالنيَّة) [ر:1]
6541 - حدثنا يحيى بن بكير: حدثنا الليث، عن خالد بن يزيد، عن سعيد بن أبي هلال، عن هلال بن أسامة: أن أبا سلمة بن عبد الرحمن أخبره، عن أبي هريرة:
أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يدعو في الصلاة: (اللهم أنج عيَّاش ابن أبي ربيعة، وسلمة بن هشام، والوليد بن الوليد، اللهم أنج المستضعفين من المؤمنين، اللهم اشدد وطأتك على مضر، وابعث عليهم سنين كسني يوسف) [ر:961]

صحيح البخاري



محترم قارئین ، آپ صاحبان  نے یہ دونوں امیجز بغور دیکھیے۔

193 - حضرت علی بن ابی طالب کے مناقب کا بیان : (37)
حضرت علی پر تہمت
مشکوۃ شریف:جلد پنجم:حدیث نمبر 726                    
 شیعہ یہ بھی کہتے ہیں کہ " امیر المؤمنین حضرت علی نے خلفاء ثلاثہ کی بیعت میں جو شرکت کی یا انہوں نے اس موقع پر اپنی خلافت کا جو دعویٰ نہیں کیا اور یا انہوں نے خلافت بلافصل کا اپنا حق ثابت کرنے کے لئے اس حدیث سے جو استدلال نہیں کیا تو اس کا سبب " تقیہ " تھا یعنی انہوں نے ظلم کے ڈر سے حق پوشی کی مجبورًا اور بکراہت خلفا ثلاثہ کی بیعت میں شامل ہوئے اور عامہ مسلمین کے سماجی وسیاسی دباؤ کے تحت غاصبین کا یعنی ابوبکر ، عمر اور عثمان کی خلافت سے انحراف نہیں کیا اور اسی طرح معاذ اللہ یہ نادان کذب وافتراء کے ذریعہ سیدنا علی کی ذات پر بزدلی اور کم ہمتی اور نفاق کی تہمت دھرنے کے مرتکب ہوئے کیونکہ سیدنا علی جتنی زبردست افرادی وذاتی قوت رکھتے تھے اور جس بے مثال شجاعت ومردانگی کے حامل تھے اس کی بنا پر یہ بات محالات میں سے ہے کہ انہوں نے اپنی خلافت بلافصل کے لئے یہ نص سنی ہو اور موقع پر اس کو پیش کرنے اور اس پر عمل کرنے سے باز رہے ہوں ۔

193 - حضرت علی بن ابی طالب کے مناقب کا بیان : (37)
غدیر خم کا واقعہ
وعن البراء بن عازب وزيد بن أرقم أن رسول الله صلى الله عليه و سلم لما نزل بغدير خم أخذ بيد علي فقال : " ألستم تعلمون أني أولى بالمؤمنين من أنفسهم ؟ " قالوا : بلى قال : " ألستم تعلمون أني أولى بكل مؤمن من نفسه ؟ " قالوا : بلى قال : " اللهم من كنت مولاه فعلي مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه " . فلقيه عمر بعد ذلك فقال له : هنيئا يا ابن أبي طالب أصبحت وأمسيت مولى كل مؤمن ومؤمنة . رواه أحمد
مشکوۃ شریف:جلد پنجم:حدیث نمبر 718                   
 حضرت براء بن عازب اور زید بن ارقم سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب غدیر خم میں پڑاؤ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ کو جمع کیا اور جیسا کہ ایک روایت میں ہے ، اونٹوں کے پلانوں کا منبر بنا کر اس پر کھڑے ہوئے اور پھر ) حضرت علی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا : ( اے میرے اصحاب!) یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ اہل ایمان کے نزدیک میں ان کی جانوں سے زیادہ عزیز ہوں ؟ سب نے عرض کیا جی ہاں ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا : تم تو جانتے ہی ہو کہ میں ایک ایک مؤمن کے نزدیک اس کی جان سے زیادہ عزیز و محبوب ہوں ! صحابہ نے عرض کیا : جی ہاں تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ ! جس شخص کا میں دوست ہوں علی اس کا دوست ہے ۔ الہٰی تو اس شخص کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور تو اس شخص کو اپنا دشمن قرار دے جو علی سے دشمنی رکھے " اس واقعہ کے بعد حضرت عمر جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملے تو ان سے بولے ابن ابی طالب مبارک ہوتم تو صبح کے وقت بھی اور شام کے وقت بھی (یعنی ہر آن وہرلمحہ ) ہر مسلمان مرد وعورت کے دوست ومحبوب ہو۔" (احمد )

تشریح :
 " غدیرخم" ایک مقام کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ کے مابین حجفہ کے قریب واقع ہے ، مکہ سے حجفہ کا فاصلہ تقریبا ٥٠،٦٠میل ہے اور حجفہ سے " غدیرخم" تین چار میل کے فاصلے پرہے ۔١٠ھ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے سفر واپسی میں یہاں قیام فرمایا تھا اور اس وقت صحابہ کی بہت بڑی تعداد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھی جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کرکے حضرت علی کے حق میں مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے تھے ۔
یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ اہل ایمان کے نزدیک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان الفاظ کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو قرآن کریم کی اس آیت (اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ) 33۔ الاحزاب : 6) (نبی اہل ایمان کے نزدیک خود ان کی جانوں سے بھی زیادہ عزیز ومحبوب ہیں ) کی طرف متوجہ کیا ، نیز ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ تین بار ارشاد فرمائے تھے ۔
" میں ایک ایک مؤمن کے نزدیک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی العموم " اہل ایمان " کا لفظ ارشاد فرمایا تھا ، پھر اسی بات کو دوہرانے کے لئے اور زیادہ وضاحت کی خاطر " ایک ایک مؤمن " کا لفظ استعمال فرمایا ۔ بہرحال ان الفاظ کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ فرمایا کہ ایک ایک مؤمن جو مجھ کو اپنی جان سے بھی زیادہ رکھتا ہے تو اس کی ایک خاص یہ ہے کہ میں اہل ایمان کی انہی باتوں کا حکم دیتا ہوں جوان کی دینی یادنیاوی بھلائی وبہتری اور فلاح ونجات کی ضامن ہیں جب کہ ان کا اپنا نفس ، بتقضائے بشریت ان کو برائی اور بگاڑکی طرف بھی لے جانا چاہتا ہے ، اور یہ انسان کی فطرت سلیمہ کا تقاضا ہے کہ وہ جس ذات کو ہر آن اپنا خیرخواہ پاتا ہو اس کو ذات سے زیادہ عزیز ومحبوب رکھے جوہر آن یا کبھی کبھار ہی سہی بدخواہی پر آمادہ پائی جاتی ہو ۔
" الہٰی تو اس شخص کو دوست رکھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک روایت میں یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ یوں منقول ہیں :
الہم احب من حبہ وابغض من ابغضہ وانصر من انصرہ واخذل من خذلہ وادر الحق معہ حیث دار ۔
" الہٰی تو اس شخص کو محبوب رکھ جو علی کو محبوب رکھے اور اس شخص سے بغض رکھ جو علی سے بغض رکھے اور اس شخص کی مدد کر جو علی کا مدد گار ہو اس شخص کی مدد نہ کر جو علی کی مدد نہ کرے اور حق کو علی کے ساتھ رکھ کہ جدھر علی رہے ادھر ہی حق رہے ۔"

12 - طلاق کا بیان : (75)
جبر سے یا بھول کر طلاق دینے کا بیان ۔
حدثنا هشام بن عمار حدثنا سفيان بن عيينة عن مسعر عن قتادة عن زرارة بن أوفی عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم إن الله تجاوز لأمتي عما توسوس به صدورها ما لم تعمل به أو تتکلم به وما استکرهوا عليه
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 201        حدیث مرفوع        مکررات  20   متفق علیہ 6
 ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، مسعر، قتادہ، زرارہ بن اوفی، حضرت  ابوہریرہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے درگزر فرما دیا میری امت سے اس کام (وسوسوں) کو جو ان کے دلوں میں آئے الاّ یہ کہ عمل پیرانہ ہو یا زبان سے ادا نہ کرے۔ اسی طرح درگزر کیا بوجہ اکراہ کئے گئے کاموں سے ۔
It was narrated from Abu Hurairah that the Messenger of Allah P.B.U.H said: "Allah has forgiven my nation for the evil suggestions of their hearts, so long as they do not act upon it or speak of it, and for what they are forced to do."(Sahih)

امام بخاری کی فقہ کے مطابق تقیہ جائز ہے

یہ بات تو ہم علماء حدیث کے حوالہ سے کئی بار عرض کرچکے ہیں کہ فقہ البخاری فی تر۱جمہ ٖیعنی امام بخاری کا فقہی موقف ، نظریہ اور مسلک اس کی کتاب کے عنوانات میں ہے۔ تو امام بخاری صاحب نے اپنے مجموعہ احادیث بنام الصحیح البخاری کے اندر ایک کتاب بنام کتاب الاکراہ قائم کیا ہے ۔جس کا پہلاہی باب ایک لمبے چوڑے عنوان سے لکھا ہے جو ساے کا سارا تقیہ کے ثبوت اور جواز کے لئے لکھا ہے اور دلیل کے لئے قرآن حکیم کے ایسے دلائل لایا ہے جو ان پر
 
نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ
کا قرآنی جملہ بالکل سچا اور پورا اترتا ہے ۔
إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا (4:150)
جو لوگ خدا سے اور اس کے پیغمبروں سے کفر کرتے ہیں اور خدا اور اس کے پیغمبروں میں فرق کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے اور ایمان اور کفر کے بیچ میں ایک راہ نکالنی چاہتے ہیں۔

 محترم قارئین !
امام بخاری اس ترجمۃ الباب کے شروع میں سورۃ نحل کی آیت نمبر106لایا ہے کہ :
 
مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (16:106)
جو شخص ایمان لانے کے بعد خدا کے ساتھ کفر کرے وہ نہیں جو (کفر پر زبردستی) مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو۔ بلکہ وہ جو (دل سے اور) دل کھول کر کفر کرے۔ تو ایسوں پر الله کا غضب ہے۔ اور ان کو بڑا سخت عذاب ہوگا۔
یعنی جس شخص نے بھی اللہ کے احکامات کا ایمان لانے کے بعد کھلے دل سے کفر کیا انکار کیا تو یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کا غضب اور دردناک عذاب ہوگا ۔ ہاں وہ لوگ اس حکم اور سزا کے مواخذہ میں نہیں آئیں گے جن کے دل ایمان باللہ پر مطمئن ہوں اور ان سے جبرو اکراہ سے کوئی خلاف شرع کام لیا جائے ۔ایسے لوگوں کو کوئی سزا نہیں ہوگی ۔
محترم قارئین!
 امام بخاری نے اس آیت کو نقل تو کیا ہے لیکن بغیر تبصرہ کے جلد ی آگے آل عمران کی آیت 28کے درمیان کا جملہ
 
إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً
لکھ کر فوراً لکھتا ہے کہ یہی تقیہ ہے یہی جملہ تقیہ کے لئے ثبوت اور دلیل ہے ۔جس کا مطلب یہ ہے کہ خوف اور ڈر کی حالت میں تمہارے لئے ناجائز چیز( جھوٹ وغیرہ) جائز کردی جاتی ہے۔
لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ (3:28)
مؤمنوں کو چاہئے کہ مؤمنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس سے خدا کا کچھ (عہد) نہیں ہاں اگر اس طریق سے تم ان (کے شر) سے بچاؤ کی صورت پیدا کرو (تو مضائقہ نہیں) اور خدا تم کو اپنے (غضب) سے ڈراتا ہے اور خدا ہی کی طرف (تم کو) لوٹ کر جانا ہے۔
 اس لئے مناسب اور ضروری سمجھتا ہوں کہ میں یہاں پوری آیت نقل کرکے اس کا مفہوم عرض کروں پھر فیصلہ قارئین خود کریں کہ کیا قرآن حکیم جھوٹ بولنے کی اجازت دیتا ہے؟ جس طرح امام بخاری اور اس کے ہمنواؤں نے مشہور کیا ہے ۔پوری آیت ملا حظہ ہو:
لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ (3:28)
یعنی مومنوں کے لئے یہ درست نہیں ہے کہ وہ مومنوں کو چھوڑ کر کافروں سے دوستی رکھیں ۔اگر کوئی ایسا کرے گا تو پھروہ مکافات کے لئے تیار ہوجائے ۔ایسے لوگوں کے لئے اللہ کا ذمہ ختم ہو جا تا ہے۔اگر تم کفار سے ڈرتے ہو اور تمہیں ان کی طرف سے بڑا کوئی خطرہ ہے جان اور مال کے ضائع ہو جانے تک تو بھی یادرکھوکہ
وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ
 یعنی اللہ تمہیں اپنے قوانین کی خلاف ورزی سے ڈراتا ہے ۔
 وہ اس لئے بھی کہ
 
وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ
یعنی مآل کار ، بالآخرانجام تو یہ ہے کہ پھر پھرا کر اللہ کی طرف لوٹنا ہے تو پھر خوف کی حالت میں بھی سچ بولنا ہو گا۔ اور اللہ کے قوانین کی خلاف ورزی کی اجازت کسی بھی حالت میں نہیں ملے گی۔
 میں نے عرض کیاہے کہ اس سے پہلی آیت
(16:106) پر بھی امام بخاری صاحب نے صرف نقل پر اکتفا کیا اور تبصرہ نہیں کیا ۔ اس لئے کہ اس آیت میں صاف صاف ہے ۔
إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ
مجبور اور  اکراہ  کئے ہوئے لوگوں کا اپنا کوئی عمل  و  ارادہ  غیر شرعی چیز کے لئے ثابت نہیں ہے ۔
 اس لئے ان سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا۔
 جب کہ ڈر کے مارے جھوٹ بولنے ،کہنے والے کا اپنا قول اور عمل موجود ہے۔اس لئے تو آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ مجھ سے ڈر و آخر کار تو میرے دربار میں تمہیں حاضر ہونا ہے ۔جن کا آخری عدالت پر کوئی کنٹرول نہیں ان سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔

 جنا ب قارئین!
 آگے ترجمۃ الباب کی عبارت میں امام بخاری صاحب نے تقیہ کے ثبوت اور جواز کے لئے ایک ایسی خیانت اور بیہودہ جسارت کی ہے کہ فیصلہ کس سے کرائیں یعنی ثبوت تقیہ کے لئے قرآن کی آیت 97سورۃ نساء سے لکھتے ہیں :
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَآٰءِکَۃ’‘ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ قَالُوا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ  الی قولہٖ  وَجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا ۔

 محترمین !
 اس آیت کے نقل کرتے وقت امام بخاری صاحب نے آدھی آیت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ آگے اتنے تک پڑھتے رہو جتنے تک جملہ وَجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا 
(4:75)

 محترم قارئین!
 یہ جملہ آگے ختم قرآن تک نہیں ہے ۔ دیکھئے کہ امام بخاری پڑھنے والوں کو کتنا دھوکہ دے رہاہے۔ یہ جملہ تو پیچھے اسی سورۃ کی آیت نمبر75کا حصہ ہے جب کہ یہ آیت 97نمبر ہے تو پھر کیا اسے امام بخاری کی حواس باختگی کہا جائے گا، یا قرآن سے لا علمی اور جہالت پن کہا جائے گا ،یا تراویح پڑھانے والوں حافظوں کی طرح متشابہات میں بہک جانا کہا جائے گا،یا پڑھنے والوں کو بیوقوف بنانے کی فنکاری کہاجا ئے گا۔

إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (4:97)
اور جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں جب فرشتے ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز وناتواں تھے فرشتے کہتے ہیں کیا خدا کا ملک فراخ نہیں تھا کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے۔
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا (4:75)
اور تم کو کیا ہوا ہے کہ خدا کی راہ میں اور اُن بےبس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو دعائیں کیا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو اس شہر سے جس کے رہنے والے ظالم ہیں نکال کر کہیں اور لے جا۔ اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا۔ اور اپنی ہی طرف سے کسی کو ہمارا مددگار مقرر فرما۔

 محترم قا رئین !
 اصل بات یہ ہے کہ اس آیت 97 کا اگلا بقیہ حصہ
َالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (4:97)
ہے۔
 پوری آیت جس کامفہوم اور خلاصہ ہے کہ ملائکہ جب ان لوگوں کو جنہیں انہوں نے وفات دی ہوگی پوچھیں گے کہ تم کس حال میں تھے تو وہ لوگ جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہوگا وہ کہیں گے کہ ہم زمین پر کمزور بنائے گئے تھے۔
 ( بخاری صرف یہاں تک نقل کرکے پھرلکھتا ہے کہ آگے  وَجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا  تک )
 جبکہ آگے آیت ہے کہ کیا اللہ کی زمین کشادہ نہیں جو تم اس میں بذریعہ ہجرت پھیل جاتے ۔ سو ان لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے جو بہت برا مرجع ہے ۔

محترم قارئین!
 بخاری صاحب نے جب دیکھا کہ آیت کا یہ پچھلا حصہ تو تقیہ کرنے پر جہنم میں پہچانے کی بات کرتا ہے تو اس نے اپنی امامت کا ہنر دکھاتے ہوئے ایسے جملے کی طرف اشارہ کیا جو آگے پڑھنے سے اخیر قرآن تک نہ مل سکے ۔
ملاحظہ فر ما یا قارئین!
قرآن کسی بھی پھنے خان کی ٹامک ٹوئیا ں چلنے نہیں دیتا۔ اس آیت سے امام بخاری کے تقیہ کے لئے استدلال نے اسکی بددیانتی کو طشت ازبام کردیا جو کسی بھی تھوڑی سی پاسداری والے کو زخم چاٹنے کے لئے کافی ہے ۔آگے امام بخاری صاحب اپنے ترجمہ الباب میں لکھتے ہیں کہ وقال الحسن التقیہ الی یوم القیامہ یعنی حسن بصری نے فرمایا کہ تقیہ یعنی خوف کے مارے جھوٹ کہنا یہ قیامت تک جاری رہے گا۔

عزیز بھا ئیوں !
حسن بصری صاحب امام بخاری صاحب کے بھی پیشوا اور سلف صالحین میں سے ہیں۔ وہ امام بخاری کے بھی بڑے میاں ہیں۔ محترم حسن بصری صاحب قدس سرہ ٹیم کے صف اول کے پیشوا ہیں۔ وہ تصوف کے بانیوں میں سے ہیں۔ سو ان کا سارا اثاثہ تو تقیہ یعنی جھوٹ بولنے سے معرض وجود میں آیا ہے۔ سو ان لوگوں نے قرآن کے غلط حوالوں سے اللہ پر جو بہتان باندھا ہے کہ تقیہ قرآن سے ثابت ہے ۔ان کے لئے قرآن فرماتا ہے کہ :
قُلْ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ (10:69)
کہہ دو جو لوگ خدا پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں فلاح نہیں پائیں گے۔
یعنی اے نبی اعلان کردے کہ جولوگ اللہ پر جھوٹ باندھیں گے ان کی کبھی فلاح نہیں ہوگی۔سو سارے اہل ایمان سے اللہ نے فرمایا کہ :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (9:119)
اے اہل ایمان! خدا سے ڈرتے رہو اور راست بازوں کے ساتھ رہو۔
 یعنی اے ایمان والوخوف اور ڈر صرف اللہ کا رکھو اور ہمیشہ سچ بولنے والوں کا ساتھ دیا کرو دوسرے مقام پر فرمایا کہ :
 
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (33:70)
مومنو خدا سے ڈرا کرو اور بات سیدھی کہا کرو۔
یعنی اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو بات کرو وہ سیدھی اور صاف ستھری ہونی چاہیے، پکی اور پختہ ہونی چاہئیے جس میں تقیہ کا ذرا بھی شائبہ نہیں ہونا چاہیے ۔
 آخر میں امام بخاری اپنے ترجمۃ الباب میں اپنی شروع کتاب والی حدیث کو مختلف حوالوں اور مختصر عبارت سے لایا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ الاعمال بالنیتہ ، یعنی عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔میں اس حدیث کے غلط ،جھوٹ، جعلی، من گھڑت ہونے پر اسی کتاب کے حصہ اول میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔
 اس کے باوجود یہاں کچھ مزید دلائل قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں ۔اوراس سے پہلے جملہ’’ الاعمال بالنیتہ‘‘ یعنی اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ اس میں جھول کی نشان دہی یہ ہے کہ علم مناظرہ میں ایک اصطلاح زیادہ استعمال ہوتی ہے وہ یہ کہ کلمہ حق اریدبہ الباطل یعنی بات تو صحیح اور سچی کہی گئی ہے لیکن اس سے باطل مفہوم کا ارادہ کیا گیا ہے۔ بخاری کی اس حدیث میں بھی جان بوجھ کر یہ مشہور کیا گیا ہے کہ اعمال نیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ تو اس میں ان کے اندر کا چور یہ ہے کہ یہ لوگ اگر کوئی برا عمل کریں تو یہ کہہ کر جان چھڑائیں کہ عمل تو ایسا ہو گیا لیکن میری نیت اس طرح کی نہیں تھی یاان کا کوئی مخالف اچھا کام بھی کرے تاہم مخالف کے متعلق یہ کہہ کر کردار کشی کریں کہ ٹھیک ہے کام تو اچھا ہوا لیکن یہ لوگ نیت کے اچھے نہیں ہیں یعنی نیت کی تلوار سے ان کی من مانی چلتی رہے۔ اس لئے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ایک سو سے زائد بار عمل کے ساتھ صالح کو ملا کر بیان کیا ہے تو معنی یہ ہوئے کہ عمل کرنے والا سوچ سمجھ کر عمل کرے کہیں بدکرداری پر یہ نہ کہے کہ میری نیت میں ایسا ویسا نہ تھا انجانے میں غلطی ہوگئی۔ انجانے میں غلطی پر قرآن نے حکم دیا ہے کہ نیت کی آڑ میں جان چھڑانے والوں کو بتایا جائے کہ :
 
وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (6:54)
اور جب تمہارے پاس ایسے لوگ آیا کریں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو (ان سے) سلام علیکم کہا کرو خدا نے اپنی ذات (پاک) پر رحمت کو لازم کرلیا ہے کہ جو کوئی تم میں نادانی سے کوئی بری حرکت کر بیٹھے پھر اس کے بعد توبہ کرلے اور نیکوکار ہوجائے تو وہ بخشنے والا مہربان ہے۔
 یعنی جو بھی شخص تم میں سے بے خبری میں برائی کر بیٹھے تو اس پر لازم ہے کہ اس غلطی کے ازالہ کے لئے غلط پوآئنٹ پر واپس لوٹ آئے پھر سیدھی نتیجہ خیز صالح لائن پر چلے تو پھر رحم کرنے والا مالک اسے بچائے گا۔
محترم قارئین!
 قرآن کے نظریہ پر غور کریں کہ کتنا تو مضبوط ہے کہ نیت کی بہانہ بازی سے جان چھڑانے والوں کو کتنا تو جانتا ہے ۔پس حدیث الاعمال بالنیات اس لئے بھی جھوٹی ہے کہ اللہ نے قرآن میں جب عمل کے ساتھ نیت کی کہیں بھی شرط نہیں لگائی ہے تو رسول اللہ ایسی بات کیونکر فرمائیں گے جو قرآن میں نہ ہو ۔ اور جب قرآن میں ہر جگہ اللہ نے عمل کے ساتھ صالح کی شرط لگائی ہے تو رسول اللہ نے وہ قرآن والی عمل کی صفت اور شرط کیو ں بیان نہیں فرمائی؟ تیسری دلیل یہ بھی ہے کہ اعمال بالنیات میں تقیہ بازی والے جھوٹ بولنے کی مشق کی گنجائش نکل آتی ہے اور قرآن کی آئیڈیالوجی کے مطابق اٰمنوا وعملواالصا لحات سے تقیہ کے لئے کوئی چارہ نہیں کھلتا جبکہ نیت کی آڑ میں جھوٹ بولنے کے کئی مواقع مل جاتے ہیں ۔وہ اس طرح کہ کسی کے کا م کا ا گر کوئی غلط نتیجہ نکل آیا تو اس عمل والا آدمی یہ کہہ کر جان چھڑا نے کی تدبیر کرسکتا ہے کہ جی میری نیت تو صحیح تھی وغیرہ وغیرہ۔

No comments:

Post a Comment