Sunday, January 13, 2013

آدم کی ماں نہیں تھی تو کیا عیسیٰ کی بھی ماں نہیں تھی ؟؟؟



آدم  کی ماں  نہیں  تھی  تو  کیا  عیسیٰ  کی  بھی  ماں  نہیں تھی  ؟؟؟

إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (3:59)
عیسیٰ کا حال خدا کے نزدیک آدم کا سا ہے کہ اس نے (پہلے) مٹی سے ان کا قالب بنایا پھر فرمایا کہ (انسان) ہو جا تو وہ (انسان) ہو گئے (3:59)
The similitude of Jesus before Allah is as that of Adam; He created him from dust, then said to him: "Be". And he was. (3:59)

یہ ہیں سورۃ آلِ عمران کی وہ آیات جن کا ولادت حضرت مسیح علیہ السلام سے تعلق ہے۔


اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : کنعان
إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ
(
آل عمران : 59)
بیشک عیسٰی (علیہ السلام) کی مثال ﷲ کے نزدیک آدم (علیہ السلام) کی سی ہے، جسے اس نے مٹی سے بنایا پھر (اسے) فرمایا ’ہو جا‘ وہ ہو گیا

حضرت عیسیٰ ؑ کے باپ کا ذکر تو آیہ کریمہ (الانعام6:87) مِنْ اٰبَآءِ ھِمْ وَ ذُرِّیّٰتِھِمْ وَ اِخْوَانِھِمْ میں موجود ہے۔ یہ آیت مع تشریح پہلے پیش کی جا چکی ہے۔ اس کے علاوہ تمام انسان، پہلی پیدائش کے بعد، ایک مرد اور عورت سے پیدا ہوتے چلے آرہے ہیں، اور اس قاعدہ اور فطری قانون سے کسی بھی شخص کو مستثنیٰ نہیں کیا گیا۔
لہٰذا حضرت عیسیٰ ؑ کا بغیر باپ کے پیدا ہونا کسی طرح بھی قابل تصور نہیں۔ المسیح عیسیٰ ابن مریم، حضرت عیسیٰ کا وہ نام ہے جس سے وہ مشہور ہوئے۔ اس سے یہ مفہوم اخذ کرنا کہ وہ بغیر باپ کے پیداہوئے، قطعاَ غلط ہے۔ طاہر سورتی مرحوم کا یہ کہنا کہ:
’’
وہ مریم کا بیٹا ہو گا ‘‘ ،
’’
یہ تیری طرف منسوب ہو گا ‘‘ ،
’’
یہ بیٹا اپنی ماں کا ہو گا ( باپ کا نہیں )‘‘
اور ’’ اس بچہ کی پیدائش سے پہلے ہی یہ خبر دینا تصریح ہے کہ بچہ بغیر باپ کے ہو گا‘‘،

سب محض مغالطہ آفرینی ہے۔

آیت میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ ’’ اس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہو گا ‘‘ ۔ یہ ترجمہ خود طاہر سورتی مرحوم کا ہے ، اس سے یہ مفہوم کیسے نکلتا ہے کہ وہ مریم(اکیلی ) کا بیٹا ہو گا ، مریم سے منسوب ہو گا، ماں کا ہو گا ( باپ کانہیں ) اور بچہ بغیر باپ کے ہو گا؟ بلکہ اس کا مفہوم صرف یہ ہے کہ وہ مریم کا بیٹا کہلائے گا۔
حاشیہ (۸؂) پرویز صاحب شعلہ مستور کے صفحہ 24 میں یکلم الناس فی المھد و کھلا کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں :
’’
اور بچپنے میں اور بڑی عمر میں کلام کرے گا۔‘‘
یہ مھد اور کھل کا غلط اور غیر دیا نتدار ترجمہ ہے ۔ عربی میں پرویز صاحب کی اس اردو کا ترجمہ اس طرح ہو گا ویکلم فی الصغر و الکبر‘‘ پھر اس ترجمہ میں ایک اور تحت الشعور عقیدہ کی بنا پر جناب پرویز صاحب نے ’’ الناس ‘‘ کا ترجمہ ہی اُڑادیا جس کے معنی ہیں ’’ لوگ ‘‘ دراصل ایسی عمر میں جب کہ بچے پالنے میں رہتے ہیں بچوں سے نہیں بلکہ لوگوں سے سنجیدہ قسم کی باتیں کرنا ایک قابل غور بات ہے اور پرویز صاحب کے ذہن میں ایسا ہونا خلاف عقل ہے لہٰذا ایسے مواقع پر وہ قرآن مجید کی تاویل ہی نہیں بلکہ الفاظ کے غلط معنے بھی کر دیتے ہیں ۔ اتنا ہی نہیں وہ پورے لفظ کو غائب بھی کر دیتے ہیں چونکہ ہمارا موضوع نہ کلام ہے نہ مھدو کھل لہٰذا یہاں ہم اسی اشارہ پر اکتفا کرتے ہیں ۔ (صفحہ : ۲۵)
سوال یہ ہے کہ جب بچہ پالنے میں ہو تو کیا وہ اس کا بچپن نہیں ہوتا۔ تفسیر خازن نے و یکلم الناس فی المھد کا مفہوم ویکلم الناس صغیراً ( وہ لوگوں سے بچپن میں باتیں کرے گا ۔ ) لکھا ہے اور تفسیر مدارک التنزیل و حقائق التاویل نے ویکلم الناس طفلالکھا ہے۔ اس کا معنی بھی وہی ہے جو ویکلم الناس صغیرا کا ہے ۔ کھل کا ’’ بڑی عمر میں‘‘ ترجمہ بھی غلط نہیں۔ ادھیڑ عمر بڑی عمر ہی ہوتی ہے۔ بچپن میں لوگوں سے باتیں کرنے کا مطلب یہی ہے کہ ذہین ہو گا، اچھی اور با معنی باتیں کرے گا اور-- کھلا---(بڑی عمر میں ) لوگوں سے باتیں کرے گا کا مفہوم یہ ہے کہ دعوت اور رسالت کی باتیں کرے گا ، کیونکہ صاحب کتاب ہو گا اور نبی ہو گا۔
اگر پرویز مرحوم نے الناس کا ترجمہ نہیں کیا تو اسے سہو پر محمول کیا جا سکتا ہے ۔
قَالَتْ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ ۖ قَالَ كَذَلِكِ اللَّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (3:47)
وہ بولیں اے میرے رب ! میرے لڑکا کیوں کر ہو گا۔ حالانکہ مجھے کسی بشر نے چھوا ہی نہیں، ارشاد ہوا "اے مریم تو نے جو کچھ کہا بات اسی طرح ہے"۔
۹ ؂ اللہ جو کچھ چاہتا ہے بنا دیتا ہے، جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لیتا،
حاشیہ ۹ ؂ یہکَذٰلِکِ کا ترجمہ ہے اس میں کِ(زیر والا کاف) حضرت مریم کے لئے ہے اِسی کا ترجمہ پرویز صاحب نے صفحہ ۳۵ پر یوں کیا ہے :
’’
ارشادِ ا لٰہی ہوا کہ اسی طرح اللہ اپنی مشیت کے مطابق پیدا کر دیتا ہے۔ ‘‘
جیسا کہ ہم کَذٰلِکَ کے تحت بتا چکے ہیں یہ لفظ اپنے ما قبل کلام کی پوری تائید کے لئے استعمال ہوتا ہے یہاں کَذٰلِکِ میں کِ ( زیر والے کاف ) سے حضرت مریم ؑ کو خطاب کیا گیا ہے ( یعنی حضرت مریم ؑ نے جو کچھ پہلے کہا، اللہ ان کی بات کی پوری تائید فرماتے ہوئے بتا رہا ہے کہ واقعۃً اے مریم تجھے کسی مرد نے چھو ا تک نہیں لیکن اللہ ان ہی حالات میں جو چاہتا ہے ، بنا دیتا ہے۔
اگر جناب پرویز ، کَذٰلِکِ کی صحیح لغوی تشریح فرماتے تو اُن کی دور از حقیقت خیال آفر ینیوں کے لئے گنجائش نہ نکلتی۔ افسوس ! پرویز صاحب اپنی حدود فراموشیوں ، اور جدّت طرازیوں کو عالمانہ فضل و کمال کی دلیل سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ ہر جدّت حسن نہیں ہو تی۔ (ابن مریم اور پرویزصفحہ :۲۶ )
آپ کو معلوم ہونا چائیے کہ فرشتوں کی طرف سے لڑ کے کی بشارت ملنے پر حضرت مریم ؑ کا یہ کہنا کہ ’’ اے میرے پرور دگار ! میرے لڑکا کیوں کر ہو گا حالانکہ مجھے کسی بشر نے نہیں چھوا ‘‘ کا دوسرے لفظوں میں مطلب یہ ہے کہ لڑکا ہونے کے لئے شوہر کا چھونا ضروری ہے ، جو یہاں مفقود ہے ، تو کیا یہ رکاوٹ دور کر دی جائے گی ؟ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے کہا :
اللہ جس ( بیٹے ) کو بنانا چاہے اسے اسی طرح پیدا کرتا ہے، جیسا تیرے بیان سے ظاہر ہے ، ( یعنی عدم مس بشر کی رکاوٹ دور کرکے ، جہانتک اس کے اسباب مہیا کرنے کا تعلق ہے ) تو اللہ تعالی جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے ، تو اسے کہتا ہے ہو جا ، تب وہ کام ( اس کے قواعد کے مطابق ) ہو جا تا ہے ۔امر میں ہر کام داخل ہے، اس قاعدہ سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔ کوئی شخص یا چیز بغیر ’’ کن ‘‘ ( ہو جا ) کے، وجود میں نہیں آیا یا آئی۔ اور نہ اب اور آئندہ کبھی اس قاعدہ کے خلاف ہو گا۔ حضرت مریم ؑ کے علم میں تھا کہ کسی عورت کے اولاد ہونے کے لئے مرد کا مس ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کا قانون بھی یہی ہے اور وہ اس کے مطابق ہی جسے بنانا چاہتا ہے، بنا دیتا ہے۔ کذلک اﷲ یخلق ما یشائایک جملہ ہے ،دو جملے نہیں ، جیسا کہ طاہر سورتی مرحوم نے سمجھا ہے۔ ایک یہ کہ ’’ جو کچھ تو نے کہا بات اسی طرح ہے ‘‘ اور دوسرا یہ کہ ’’ اللہ جو کچھ چاہتا ہے ، بنا دیتا ہے۔‘‘
پرویز مرحوم کا ترجمہ ’’ اسی طرح اللہ اپنی مشیت کے مطابق پیدا کردیتا ہے‘‘ اس مفہوم کا حامل ہے کہ اسی طرح اللہ اپنی مشیت کے مطابق ( اولاد ) پیدا کر تا ہے ( جس طرح تو نے بیان کیا ہے یعنی مس بشر کے ذریعے) اس کے بعد طاہر سورتی فرماتے ہیں :
ان آیات سے دس آیتوں کے بعد ہی مندرجہ ذیل آیات بھی متعلقہ موضوع سے متعلق ہیں :
ذَلِكَ نَتْلُوهُ عَلَيْكَ مِنَ الْآيَاتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيمِ ( 3:58 )
إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ( 3:59 )
الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (3:60)
یہ ہم تجھ پر آیات اور پُر حکمت ذکر سے تلاوت کر رہے ہیں (۵۸) بے شک اللہ کے نزدیک عیسٰی ؑ کی مثال آدم کی سی ہے، اسے مٹی سے بنایا۔ پھر اس سے کہا ہو جا تو وہ ہو جا تاہے (۵۹) ( یہ) تیرے رب کی طرف سے حق ہے۔ سو تو ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہو جانا۔ (۶۰) (ابن مریم اور پرویزصفحہ:۲۷ )

مگر طاہر سورتی ، حسب معمول حاشیہ میں کوئی تشریح نہیں کرتے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آدم سے تشبیہ دینے سے کیا مقصود ہے۔ ان آیات پر غورکرنے سے معلوم ہو جا تا ہے، کہ عیسیٰ علیہ السلام مشبہ ہیں اور آدم مُشَبَّہ بِہٖ اور آگے وجہ شبہ بھی مذکور ہے، جو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا، جسے مٹی سے تیار کرنے کے بعد کہا گیا کہ ہوتا جا ( یعنی بچہ سے لڑکا، لڑکے سے جوان اور جوان سے بوڑھا ہوتا جا اور مرنے کے بعد بھی مختلف حالات میں بدلتا جا) چنانچہ وہ آدم ( اسی طرح سے ) ہوتا جاتا ہے۔ آدم کی اولاد سے عیسٰی ؑ پیدا ہوئے، جس طرح دوسرے لوگ پید اہوئے ہیں۔ آدم سے ہزاروں سالوں تک آدمی ہی پیدا ہوتے آئے ہیں اور اب بھی آدمی ہی پیدا ہوتے ہیں۔ بیچ میں ایک آدمی خدا کا بیٹا کیسے بن گیا، کیا بنا ہوا بھی خدا ہوتا ہے؟ انسانوں کو بنی آدم بھی کہا جا تا ہے، جس کا معنٰی ہے آدم کی اولاد۔ حضرت عیسیٰ ؑ بھی ابن آدم تھے۔ انجیل متی 26 : 45 - 46 میں ہے : ’’دیکھو وقت آ پہنچا ہے، اور ابن آدم گنہگاروں کے حوالے کیا جاتا ہے۔ اٹھو چلیں، دیکھو میرا پکڑوانے والا نزدیک آپہنچا ہے۔‘‘
ان آیات کا ترجمہ یہ ہے :
’’
یہ جو ہم تجھ پر ( مریم و عیسیٰ علیہما السلام کا بیان ) پڑھ رہے ہیں ، یہ باتیں آیات اور حکمت والے ذکر سے ہیں۔ بلا شبہ اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی مثال کے مانند ہے۔ اس ( خدا ) نے اس ( آدم ) کو مٹی سے پیدا کیا ، پھر اُسے کہا کہ ہوتا جا ، سووہ ( آدم اسی طرح سے ) ہوتا جاتا ہے۔ تیرے رب کی طرف سے یہی حق ہے ، پس تو شک کرنے والوں سے نہ ہونا۔‘‘ ( آل عمران، 58 تا 60 )
اللہ تعالیٰ و تسامیٰ نے ہم انسانوں کی پیدائش کو مٹی سے ہی بیان فرمایا ہے، جیسا کہ سورۃ الانعام کی آیت 2 سے واضح ہے :
هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ طِينٍ ثُمَّ قَضَى أَجَلًا ۖ وَأَجَلٌ مُسَمًّى عِنْدَهُ ۖ ثُمَّ أَنْتُمْ تَمْتَرُونَ (6:2)
(
وہی تو ہے جس نے تم کو گوندھی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ پھر ایک اجل کو تمہارے سامنے پورا کر دیا اور اَجَلِ مُسَمَّی اس ( خدا ) کے پاس ہے۔ پھر تم (ہمارے تصرف میں شک کرتے ہو۔ ) اجل مسمّی وہ معیاد مقررہ ہے جو ہر ایک کی قوت و طاقت کے لحاظ سے مقرر کی گئی ہے ،کوئی شخص اس میعاد سے زیادہ زندگی نہیں پا سکتا ۔ اگر اس دنیا میں ڈھیل ملتی ہے ، تو اسی اجل مسمّیٰ تک ہی مل سکتی ہے ، لیکن انسانی خطاؤں اور بد پرہیزیوں سے آدمی پہلے بھی فوت ہو سکتا ہے ۔ اس اجل کا پورا ہونا لوگ خود بھی معائنہ کر سکتے ہیں۔
اس آیت کریمہ کی روشنی میں آدم سے بنی آدم یعنی پہلی پیدائش کے بعد ، سب انسان بھی لئے جا سکتے ہیں، دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ حضرت عیسٰی ؑ کی پیدائش عام انسان کی پیدائش کی طرح ہو ئی، جس طرح پہلی پیدائش کے بعد تمام انسان ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا ہوتے چلے آرہے ہیں، اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام بھی بغیر ماں باپ کے پید انہیں ہوئے، اور یو ں قرآن مجید میں کوئی تضاذ نہ ہو نا ثابت ہو جا تا ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کی جسمانی تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے :
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ (23:12) المؤمنون
ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ (23:13) المؤمنون
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ (23:14) المؤمنون
ترجمہ : ’’ اور با لتحقیق ہم نے انسان کو گارے کے خلاصے سے پید اکیا ہے، پھر ہم نے اسے محفوظ جگہ میں نطفۃ بنایا پھر ہم نے نطفہ ( کے ایک حصہ کو ) علقہ بنایا ، پھر ہم نے (کسی خاص) علقہ کومضغہ بنایا۔ ہم نے اس (کے ایک حصہ) کو ہڈیاں بنایا، پھر ہم نے ان ہڈیوں کو گوشت ( و پوست ) سے ڈھانپ دیا۔ ‘‘ یہ مراتب انسان کے جسم کے حالات میں واقع ہونے والے تفاوت ہیں۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے نفخ روح کا ذکر کرنے کا ارادہ کیا تو فرمایا :
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ (23:14) المؤمنون
ترجمہ : پھر ہم نے اس کو ایک اور ( نئی ) پیدائش ( یعنی انسان ) بنا یا یہ اس بات کی تصریح ہے کہ وہ چیز جس کا نفخِ روح سے تعلق ہے وہ ایک اور جنس ہے اور جسم کے حالات میں واقع ہونے والے تغیرات سے ،جو پہلے مذکور ہوئے مختلف ہے اور اس بات کی دلیل بھی کہ روح جسم کی جنس سے نہیں ، یہ امام رازی کے دلائل میں سے ایک دلیل ہے ، جو امام رازی ؒ نے اپنی تالیف ’’ کتاب النفس والروح و شرح قوھما ‘‘میں سے لئے گئے ہیں ۔ امام رازی ؒ کا کہنا ہے کہ آیت میں لفظ من ،جسے حرف جار کہا جاتا ہے ابتداء الغاےۃ کے لئے استعمال ہوا ہے، اس لئے مفہوم یہ ہے کہ انسان کی تخلیق کی ابتدا ء اس خلاصہ سے ہوئی۔ مٹی سے نباتات پیدا ہوتے ہیں ، ان کے کھانے سے (مرد کے خصیے میں ) نطفہ پیدا ہوتا ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے قرار مکین ( محفوظ جگہ) قرار دیا ہے ۔ نطفہ کے ایک حصہ کو علقہ بنایا جا تا ہے، اسکا خاص حصہ مضغہ ( یعنی نرم بوٹی ) میں تبدیل ہو جا تا ہے اور اس بوٹی کا ایک حصہ ہڈیوں میں اور پھر ان ہڈیوں کو گوشت و پوست سے ڈھانپ دیا جا تا ہے، یہ سامان ایک اور نئی پیدائش ( انسان ) بنتاہے، جس میں ایسی روح نمودار ہوتی ہے، جو سوچنے اور صاحب اختیار بننے کے قابل ہو جاتی ہے۔ روح اللہ کے حکم سے پیدا ہوتی ہے اور اسلئے غیر مخلوق نہیں۔
اس کے بعد طاہر سورتی فرماتے ہیں :
یہ ہیں سورۃ آلِ عمران کی وہ آیات جن کا ولادت حضرت مسیح علیہ السلام سے تعلق ہے۔

)
محمدعصمت ابو سلیم(

No comments:

Post a Comment