Thursday, January 24, 2013

مسلمان کو قرآن کے نزدیک نہ آنے دیا جائے۔


مسلمان کو قرآن کے نزدیک نہ آنے دیا جائے۔


ایک افسانوی حقیقت

کہانی شروع ہوتی ہے تقریباً 300 برس پہلے یعنی 1710ء میں۔ اس کے مصنف ہیں ایک انگریز جاسوس ، آرتھر ہمفرے Hempher Arthur اور دستاویز کیا ہے ؟ وہ رپورٹ جو ترکی سے ہمفرے نے خفیہ طور پر برطانوی حکومت کو بھیجی تھی اور اس رپورٹ کی ایک کاپی اپنے خاندانی اثاثے کے طور پر لندن میں اپنی فیملی کو ارسال کی تھی (1720ء) خلافت عثمانیہ ترکی کے جاسوسوں نے اس رپورٹ کو کاپی کرلیا اور 275 سال بعد 1995ء میں شائع کیا ۔
آٹھارویں صدی عیسوی مسلمانوں کی خلافت عثمانیہ کے زوال کا زمانہ ہے ۔ اس زوال کو سنبھلنے کا موقع نہ دینے بلکہ تیز تر کرنے میں برطانوی حکومت نے جو گھناؤ نا کردار ادا کیا اس داستان کا خلاصہ ہم سے کم اور آرتھر ہمفرے سے زیادہ سنئے۔ ہمفرے کہہ گیا ہے کہ مجھ جیسے سینکڑوں ہمفرے بلکہ ہزاروں ہمفرے عالم اسلام میں ہمیشہ بروئے کار رہیں گے۔

پہلے دیکھتے ہیں لندن کی ایک خفیہ عمارت ۔

عراق میں ایک جاسوسی مشن سے واپسی پر ہمفرے ہمیں ایک عجیب منظر دکھا رہا ہے ۔ یہ عمارت برطانوی نو آبادیوں کی وزارت کا مرکز ہے یعنی منسٹری آف کالونیز ۔ انتہائی وسیع وعریض عمارت کے اندر بل کھاتی ہوئی راہداریوں سے گزر کر ہم ایک بہت بڑے ہال میں پہنچتے ہیں ۔ سیاہ رنگ کی چمکتی ہوئی بڑی سی گول میز کے گر د افراد بیٹھے ہیں۔ پہلا فرد کون ہے ؟ خلافت عثمانیہ کے مسلم تاجدار کے بہروپ میں ایک انگریز ۔ یہ شخص انگریزی کے علاوہ ترکی اتنی روانی اور خوبی کے ساتھ بولتا ہے اور لباس اور وضع قطع سے خلیفۂ اسلام کے اتنا مشابہ ہے کہ قریبی جاننے والے بھی دھوکہ کھا جائیں ۔ دوسرے صاحب استنبول کے شیخ الاسلام کا چغہ اور داڑھی سجائے بیٹھے ہیں ۔ تیسرے صاحب ہو بہو شاہ ایران نظر آتے ہیں چوتھے ایران کے وزیر داخلہ ہیں ۔ پانچویں نجف کے شیعہ آیت اللہ ۔ آخر الذ کر تینوں افراد انگریزی کے ساتھ ساتھ فارسی روانی سے بول رہے ہیں ۔ ان پانچوں افراد کے ساتھ ایک ایک فوجی کلرک بھی بیٹھا تھا جو انگریز جاسوسوں کی حاصل کردہ معلومات ان پانچوں افراد کو پہنچا رہا تھا ۔
ہمفرے کہتا ہے کہ ان پرسرار لوگوں کی تربیت اس خوبی سے کی گئی ہے کہ نہ صرف ان کی چال ڈھال بلکہ سوچنے سمجھنے کا ڈھنگ بھی اپنے اصل کردار جیسا ہوگیا ہے ۔ ہم استنبول ، تہران اور نجف سے خفیہ معلومات لا کر انہیں فراہم کرتے رہتے ہیں ۔ جو شخص سلطان کا بہروپیا ہے اس سے کوئی سوال کیا جائے تو عموماً وہی جواب ملے گا جو سلطان سے حاصل ہوگا۔ مثال کے طور پر جو صاحب نجف کے آیت اللہ کا ڈپلی کیٹ بنے بیٹھے تھے ، ان سے پوچھا گیا ، ’’یا شیخ ! کیا ہمارے لئے حکومت عثمانیہ سے جنگ کرنا جائز ہے ؟ کیونکہ وہ سُنی بھی ہیں اور انتہا پسند بھی ۔ ‘‘ بہروپیا آیت اللہ بولا ، ’’ نہیں ! صرف سُنی ہونے کی وجہ سے ہم ان کے خلاف جنگ نہیں چھیڑسکتے ۔ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں ہاں اگر وہ ظلم ستم کی روش اپنائیں تو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فرض ادا کرنے کے بعد ہم قوت استعمال کرسکتے ہیں ۔‘‘صاحبو ! ہمفرے لکھتا ہے کہ بالکل یہی سوال اس نے نجف میں اصل شیعہ عالم سے کیا تھا ۔ ہفرے لکھتا ہے ۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بہرو پیے آیت اللہ کا نہ صرف طرز گفتگو ویسا تھا بلکہ جواب بھی تقریباً لفظ بہ لفظ وہی تھا ۔
یہ پانچ بہروپیے اپنے اپنے رول میں کمال کی حد تک پہنچے ہوئے تھے اور اس طرح کے ماڈلز کا مقصد یہ تھا کہ ہم مسلمانوں کی منصوبہ سازی اور طرز فکر کو بر وقت نہیں بلکہ وقت سے پہلے بھانپ لیں مجھے پورا یقین ہے کہ ہماری حکومت ایک صدی کے اندر خلافت عثمانیہ کا تختہ الٹ دے گی پھر اس وسیع سلطنت کے حاکم ہم ہی ہوں گے۔
ہمارے دور اندیش رہنماؤں نے یہ طے کرلیا ہے کہ انیسویں صدی کے ختم ہونے پر یعنی 1899ء تک دنیا میں نہ اسلام باقی رہے گا اور نہ مسلمان (ہمفرے صاحب ! سوری ویری سوری) اس غرض سے ہم دنیا کے کونے کونے میں اپنے جاسوس چھوڑے ہوئے ہیں ۔ نہ صرف مقامی لیڈروں میں بہت سے ہم نے خرید رکھے ہیں بلکہ ان گنت علماء ہمارے تنخواہ دار ہیں ۔ برطانیہ میں تربیت یافتہ ہر رنگ ونسل کے افراد کو ہم نے مذہب اسلام کی تعلیم دے کر جا بجا مسجدوں میں چھوڑ رکھا ہے ۔ ہم نے کافر مسلمانوں سے اسپین کی حکومت واپس چھینی تھی تو شراب اور عورت کے ذریعے ۔ مسلمانوں کو تباہ کر نے کے لئے یہ حربہ ہم آئندہ ڈیڑھ سو برس میں استعمال کریں گے ۔
صاحبو ! اس کے بعد ہمفرے ایک ہزار صفحات پر مشتمل بڑی میز پر پھیلی ہوئی بڑے صفحات کی ایک کتاب کا ذکر کرتا ہے ۔ اس کتاب میں مسلمانوں اور عالم اسلام کی قوت کے راز بھی لکھے ہیں اور ان کی کمزوریاں بھی ۔ کمزوریوں کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیے۔
1
۔ شیعہ سنی اختلاف۔
2
۔ قوم پرستی ، عرب ایرانی ترک وغیرہ کی تقسیم ۔
3
۔ نہ صرف عوام بلکہ خواص بے ضمیر ہیں ۔
4
۔ علماء ہر جگہ جاہل ہیں اور صدیوں پرانی فقہ وتفسیر پڑھتے ہیں۔
5
۔ دنیا چھوڑ کر آخرت بنانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں ۔
6
۔ مسلمان حکمران ظالم ڈکٹیٹر ہیں ۔
7
۔ سڑکیں غیر محفوظ ہیں ۔
8
۔ گھروں ، دفتروں ، عمارتوں میں صفائی نہیں ملتی۔
9
۔ خود بھی اکثر گندے رہتے ہیں ۔
10
۔ اکثر شہر کھنڈر بن جاتے ہیں لیکن آبادی زیادہ ہے ۔
11
۔ بغاوتیں اور شور شیں عام ہیں کیونکہ عدل گم گیا ہے ۔
12
۔ غربت عام ہوتی جارہی ہے ، آرام طلبی بڑھ گئی ہے ۔
13
۔ مسلمانوں کی فوج اور ہتھیار فرسودہ ہیں ۔
14
۔ یہ لوگ خواتین کا زبردست استحصال کرتے ہیں ۔
15
۔ مسلمان اپنی بے مثال کتاب قرآن کی تعریفیں تو بہت کرتے ہیں ، سمجھتے اسے بالکل نہیں ۔ اسے پسِ پشت ڈال کر فقہ کی کتابوں ، روایات اور صوفیوں کے ملفوظات میں گھرے ہوئے ہیں ۔ صاحبو ! ہمفرے لکھتا ہے کہ اسلام کی لاتعداد خوبیوں سے ہم آگاہ ہیں لیکن ہماری حکومت اور وزارت نے طے کر رکھا ہے کہ مسلمان کو قرآن کے نزدیک نہ آنے دیا جائے ۔

عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آ شکارا شرع پیغمبر کہیں
***********

جنگل کی حویلی

نواب راحت سعید خان چھتاری 1940ء کی دہائی میں اتر پردیش (UP)کے گورنر تھے ۔ انگریز حکومت نے انہیں یہ اہم عہدہ اس لئے عطا کیا تھا کہ وہ مسلم لیگ اور کانگریس کی سیاست سے لاتعلق رہ کر انگریزوں کی وفاداری کا دم بھرتے تھے اور ان کے نہایت بہی خواہ تھے ۔ لہٰذا علی گڑھ کا جو بھی کلکٹر نیا آتا تھا نواب صاحب سے برابر ملتا رہتا تھا اور کبھی کبھی آگرہ کا کمشنر بھی ملتا تھا۔ ان سب انگریز افسروں کے نواب صاحب سے عمدہ تعلقات تھے اور واپس انگلستان جا کر بھی رابطہ رکھتے تھے ۔
نواب چھتاری اپنی یادداشتیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک بار برطانوی حکومت نے ہندوستانی صوبوں کے سب گورنروں کو مشورے کے لئے انگلستان بلایا تو نواب صاحب بھی بحیثیت گورنر انگلستان گئے ۔ جب نواب صاحب لندن پہنچے تو جو کلکٹر اور کمشنر ان کے پرانے ملاقاتی تھے اور ریٹائر ہو کر انگلستان چلے آئے تھے نواب صاحب سے ملنے آئے ۔ ان میں سے ایک کلکٹر جو نواب صاحب سے بہت مانوس تھا اس نے کہا ،’’نواب صاحب ! آپ یہاں تشریف لائے ہیں تو آئیے میں آپ کو یہاں کے عجائب خانے دکھادوں جن میں ہزاروں برس پرانی ایسی چیزیں ہیں جو آپ نے کبھی دیکھی اور سنی نہ ہوں گی ۔‘‘نواب صاحب نے کہا ، ’’عجائب خانے تو میں نے سب دیکھ لئے ہیں ، حکومت نے دکھادئیے ہیں اور یہاں جو بھی آتا ہے دیکھ کر ہی جاتا ہے البتہ اگر تم کچھ دکھانا ہی چاہتے ہو تو ایسی چیز دکھاؤ جو یہاں سے کوئی اور دیکھ کر نہ گیا ہو ۔ ‘‘
انگریز کلکٹر نے کہا ، ’’نواب صاحب ! ایسی کون سی چیز ہوسکتی ہے جسے کوئی اور دیکھ کر نہ گیا ہو ؟........میں سوچ کر پھر بتاؤں گا ۔‘‘دو روز بعد وہ آیا اور اس نے کہا کہ ’’نواب صاحب ! میں نے سوچ لیا اور معلومات بھی حاصل کرلی ہیں ۔میں اب آپ کو ایسی چیز دکھاؤں گا جو اور کوئی یہاں سے دیکھ کر نہیں گیا ۔‘‘
اس پر نواب صاحب خوش ہوگئے اور کہا ،’’ بس ٹھیک ہے ۔‘‘
انگریز کلکٹر نے نواب صاحب سے پاسپورٹ مانگا اور کہا کہ ’’ وہ جگہ دیکھنے کے لئے حکومت برطانیہ سے اجازت لینی ہوتی ہے اس لئے پاسپورٹ کی بھی ضرورت ہوگی۔‘‘دو روز بعد وہ انگریز کلکٹر نواب صاحب کا اور اپنا تحریری اجازت نامہ لے کر آیا اور کہا ہم کل صبح چلیں گے لیکن میری موٹر میں ۔ سرکاری موٹر لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔
اگلی صبح نواب صاحب اور وہ انگریز منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ شہر سے باہر نکل کر بائیں طرف جنگل شروع ہوا۔ جنگل میں ایک پتلی سی سڑک تھی ۔ جوں جوں چلتے گئے جنگل گھنا ہوتا گیا ۔ سڑک کی دونوں جانب نہ کوئی پیدل چلتانظر آیا نہ کوئی ٹریفک ، کسی طرح کی آمد و رفت کا سلسلہ نہیں تھا ۔ نواب صاحب حیران بیٹھے اِ دھر اُدھر دیکھ رہے تھے ۔ چلتے چلتے کوئی آدھ گھنٹہ گزرا تو نواب صاحب نے دریافت کیا ،’’کیا دکھانے لے جارہے ہو ؟ کوئی جنگلی جانور ہے یا کوئی تالاب جس میں خاص قسم کے جانور ہیں ؟ اس طرف آبادی ہے نہ آمد ورفت، ابھی اور کتنا فاصلہ چلنا ہے ؟‘‘
انگریز نے کہا ،’’ بس تھوڑی دیر بعد وہ جگہ آئے گی ۔‘‘تھوڑی دیر بعد ایک بہت بڑا دروازہ سامنے نظر آیا جو ایک بڑی عمارت کے مین گیٹ کی طرح تھا ۔ اس میں آگے اور پیچھے دروازے تھے اور دونوں طرف فوجی پہرہ تھا ۔ انگریز کلکٹر نے موٹر سے اتر کر پاسپورٹ اور تحریری اجازت نامے دکھائے ۔ انہوں نے یہ رکھ لئے اور اندر آنے کی اجازت دے دی اور حکم دیا کہ اپنی موٹر وہیں چھوڑ دیں اور اندر جو فوجی موٹر یں کھڑی ہیں ان میں سے کوئی لے لیجئے ۔نواب صاحب اور انگریز کلکٹر ان پہرہ داروں کی دی ہوئی موٹر میں بیٹھ گئے اور اس پتلی سڑک پر آگے چلتے گئے ۔ نواب صاحب نے دیکھا کہ یہ دروازہ کسی عمارت کا نہیں تھا اور اس کی دونوں طرف دیواروں کی بجائے بہت گھنی جھاڑیاں اور کانٹے دار درخت تھے جن میں سے کسی کا گزرنا ممکن نہ تھا ۔
موٹر چلتی رہی مگر گھنے جنگل اور کانٹے دار جھاڑیوں اور درختوں کی دیوار کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا تھا ۔ نواب صاحب نے گھبرا کر پوچھا ،’’کب وہاں پہنچیں گے؟ ‘‘انگریز نے کہا ،’’ بس منزل آنے والی ہے ۔‘‘دور ایک اور سرخ پتھر کی بڑی سی عمارت نظر آئی ۔ عمارت سے تھوڑے فاصلے پر انہوں نے موٹر چھوڑ دی اور پیدل عمارت کی طرف بڑھے تو انگریز کلکٹر نے نواب صاحب سے کہا ،’’ اس عمارت میں جب داخل ہوں گے تو ہر چیز دیکھئے سنئے مگر آپ کسی سے کسی قسم کا کوئی سوال نہیں کریں گے ۔ آپ یہاں صرف کچھ دیکھنے آئے ہیں بولنے کی یا سوال کرنے کی بالکل اجازت نہیں ہے ۔ بالکل خاموش رہنا ہے ۔ آپ کو جو کچھ دریافت کرنا ہو وہ مجھ سے بعد میں پوچھ لیجئے گا ۔‘‘
نواب صاحب نے کہا ،’’ اچھا ،ٹھیک ہے ۔‘‘عمارت کے شروع میں وسیع دالان تھا اس کے پیچھے متعدد کمرے تھے۔ دالان میں داخل ہوئے تو ایک نوجوان باریش عربی کپڑے پہنے سر پر عربی رومال لپیٹے ایک کمرے سے نکلا، دوسرے کمرے سے ایسے ہی دو نوجوان اور نکلے۔ پہلے نے عربی لہجے میں کہا ، ’’ السلام وعلیکم ‘‘ دوسروں نے جواب دیا ’’ وعلیکم السلام ! کیا حال ہے ؟‘‘ نواب صاحب حیران رہ گئے ۔ جب لڑکے ان کے قریب سے گزرے تو نواب صاحب نے کچھ دریافت کرنا چاہا مگر کلکٹر نے فوراً اشارے سے منع کردیا۔ پھر کلکٹر نے انہیں ایک کمرے کے دروازے پر لے جا کر کھڑا کیا۔ دیکھا کہ اندر مسجد جیسا فرش بچھا ہے اور اس پر عربی لباس میں متعدد طلباء بیٹھے ہیں اور ان کے سامنے ان استاد بالکل اسی طرح بیٹھے سبق پڑھا رہے ہیں جیسے اسلامی مدارس میں استاد پڑھاتے ہیں۔ طلباء عربی میں اور کبھی انگریزی میں استاد سے سوال بھی کرتے تھے۔
انگریز کلکٹر نے نواب صاحب کو سب کمرے دکھائے اور ہر کمرے میں جو تعلیم دی جا رہی تھی وہ بھی بتائی ۔ نواب صاحب نے دیکھا کہ کسی کمرے میں قرآن مجید پڑھایا جارہا ہے، کہیں قرأت سکھائی جارہی ہے، کہیں معنی وتفسیر کا درس ہورہا ہے، کہیں احادیث پڑھائی جارہی ہے، کسی جگہ بخاری شریف کا درس ہورہا ہے تو کہیں مسلم شریف کا ، کہیں مسئلے مسائل سکھائے جارہے ہیں اور کہیں اصطلاحات کی وضاحت اور کہیں مناظرہ ہورہا ہے۔ ایک کمرے میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان مناظرہ ہورہا ہے ،ایک اور کمرے میں فقہی مسائل پر بات ہورہی ہے۔ سب سے بڑے کمرے میں قرآن کا ترجمہ کرنا مختلف زبانوں میں سکھایا جارہا ہے۔
نواب صاحب نے نوٹ کیا کہ باریک باریک مسئلے مسائل پر ہر جگہ زور ہے مثلاً غسل کا طریقہ ، وضو ، نماز ، روزہ اورسجدہ سہو کے مسائل ، وراثت اور رضاعت کے جھگڑے، لباس اور داڑھی کی وضع قطع ، گا گا کر آیات پڑھنا ، غسل خانے کے آداب ، گھر سے باہر جانا آنا ورد کے ساتھ، لونڈی غلاموں کے مسائل ، حج کے مناسک ، بکرا دنبہ کیسا ہو؟ چھری کیسی ہو؟ کوّا حلال ہے یا حرام ، حج بدل اور قضا نمازوں کی بحث ، عید کا دن کیسے طے کیا جائے اور حج کا کیسے؟ میز پر بیٹھ کر کھانا ، پتلون پہننا جائز ہے یا ناجائز ، عورت کی پاکی ناپاکی کے جھگڑے، حضوؐرکی معراج روحانی تھی یا جسمانی ؟ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھی جائے گی یا نہیں ، تراویح آٹھ ہیں یا بیس ؟ نمازکے دوران وضو ٹوٹ جائے تو آدمی کیا کرے ؟ سود مفرد جائز ہے یا ناجائز ؟ اعتکاف کے مسائل ، تجوید ، مسواک کا استعمال ، روزہ ٹوٹنے جڑنے کے معاملے ، عورت برقعہ پہنے یا چادر اوڑھے ، اونٹ پر بہن بھائی بیٹھیں تو آگے بہن ہو یا بھائی ؟ وظیفے کون سے پڑھے جائیں ؟ وغیرہ وغیرہ ۔
ایک استاد نے سوال کیا پہلے عربی پھر انگریزی اور آخر میں نہایت شستہ اردو میں کہ ’’ جماعت اب یہ بتائے کہ جادو ، نظر بد ، تعویذ گنڈہ ، آسیب کا سایہ برحق ہے یا نہیں؟‘‘ پینتیس چالیس طلباء کی یہ جماعت بیک آواز پہلے انگریزی میں بولی ’’True, True‘‘ پھر عربی میں جواب دیا ’’صح، مضبوط ‘‘ پھر اردو میں ’’برحق ، برحق‘‘۔
پھر ایک طالب علم نے کھڑے ہو کر سوال کیا ،’’الاستاد! عبادت کے لئے نیت ضروری ہوتی ہے تو مردہ لوگوں کا حج بدل کیسے ہوسکتا ہے ؟ قرآن تو کہتا ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے ۔‘‘ استاد بولے ،’’ قرآن کی بات مت کرو ، روایات میں مسئلے ڈھونڈا کرو ، جادو ، نظر بد ، تعویذ ، آسیب ، وظیفے ، ورد اور استخارے میں مسلمانوں کا ایمان پکا کردو اور استادوں میں ، ہاتھ کی لکیروں میں ، مقدر اور نصیب میں ۔‘‘
یہ سب کچھ دیکھ کر نواب صاحب بہت حیران ہوئے ۔ ان کا جی چاہتا تھا کہ ایک آدھ کوئی سوال کریں مگر کلکٹر ان کو اشارے سے روک دیتا تھا ۔ یہ سب کچھ دیکھ کر جب واپس ہوئے تو نواب صاحب نے انگریز کلکٹر سے پوچھا ،’’اتنا بڑا دینی مدرسہ ہے جس میں اسلام کے ہر پہلو کی اس قدر عمدہ تعلیم دی جارہی ہے اور باریک سے باریک باتیں سکھائی جارہی ہیں ۔ آخر یہ مسلمان طلباء کو اس طرح علیحدہ کیوں بند رکھا ہے ؟ اتنے عظیم دینی مدرسہ کو آپ نے چھپا کر کیوں رکھا ہے ؟‘‘
تب انگریز کلکٹر نے جواب دیا ،’’ ان سب میں کوئی مسلمان نہیں یہ سب عیسائی مشنری ہیں ۔‘‘نواب صاحب کو مزید حیرت ہوئی اور انہوں نے اس کی وجہ دریافت کی تو کلکٹر نے بتایا ، ’’تعلیم مکمل ہونے کے بعد انہیں مسلمان ممالک میں خصوصاً مشرقِ وسطیٰ ، ترکی ، ایران اور ہندوستان بھیج دیا جاتا ہے ۔ وہاں پہنچ کر یہ لوگ کسی بڑے شہر کی کسی بڑی مسجد میں جاکر نماز میں شریک ہوتے ہیں اور نمازیوں سے کہتے ہیں کہ وہ یورپی مسلمان ہیں انہوں نے مصر میں جامعہ الازہر میں تعلیم پائی ہے اور مکمل عالم ہیں ۔ یورپ میں اتنے اسلامی ادارے موجود نہیں ہیں جہاں وہ تعلیم دے سکیں اور نہ مسجدیں ہیں اس لئے جلاوطنی اختیار کی ہے ۔ وہ سردست تنخواہ نہیں چاہتے ، صرف کھانا ، کپڑا اور سرچھپانے کی جگہ درکار ہے اور وہ مسجد میں موذن یا پیش امام یا بچوں کے لئے قرآن مجید کے معلم کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے لئے تیار ہیں ۔ اگر کوئی بڑاتعلیمی ادارہ ہو تو اس میں استاد کی حیثیت سے کام کرسکتے ہیں ۔ ان میں سے کسی کو مسجد یا مدرسہ میں رکھ لیا جاتا ہے تو مقامی لوگ بطور امتحان ان سے مسئلہ مسائل بھی معلوم کرتے ہیں اور وہ کافی وشافی جواب دیتے ہیں ۔ کچھ عرصہ بعد جب کوئی اختلافی مسئلہ آتا ہے تو لوگ ان کے معتقد بن جاتے ہیں اور وہ اس اختلافی مسئلہ پر ان کی دو پارٹیاں یا فرقے بنا کر خوب اختلاف پیدا کرتے ہیں اور اس طرح مسلمانوں کو آپس میں لڑاتے ہیں یعنی اس ادارے کا سب سے اولین مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو باہم لڑاؤ۔‘‘انگریز کلکٹر نے نواب صاحب کو یہ کہہ حیران کردیا کہ اس عظیم مدرسہ کا بنیادی ہدف یہ ہے کہ ۔
1
۔مسلمانوں کو روایات ، نظری مسائل اور ذکر کے وظیفوں میں الجھا کر قرآن سے دور رکھا جائے ۔
2
۔حضورؐ کا درجہ جس طرح بھی ہوسکے گھٹایا جائے ۔ کبھی یہ کہو کہ آپؐ (نعوذ باللہ) رجل مسحور یعنی جادو زدہ تھے ۔ کبھی حدیثوں کے حوالے سے یہ کہو کہ آپؐ نے بچی سے نکاح فرمایا تھا اور یہ کہ آپ ہر رات اپنی گیارہ بیویوں کا دورہ فرمایا کرتے تھے ۔
نواب چھتاری کو انگریز کلکٹر نے یہ بھی بتایا 1920ء میں ’’رنگیلا رسول‘‘ نامی کتاب راجپال سے اسی ادارے نے لکھوائی تھی۔ اس سے کئی برس پہلے مرزا غلام احمد قادیانی اور بہاء اللہ کو نبی بنا کر کھڑا کرنے والا یہی ادارہ تھا اور ان کتابوں کی بنیاد لندن کی اسی عمارت سے تیار ہو کر جاتی تھی ۔ خبر ہے کہ سلمان رشدی کی کتاب لکھوانے میں بھی ان کا ہاتھ ہے اور وہ آج کل انہی لوگوں کی تحویل و حفاظت میں ہے۔
***********

جنگل کی حویلی والے سے ملاقات

ذیل کا واقعہ جناب حسین امیر فرہاد ، مدیر ماہنامہ ’صوت الحق ،پشاور کو ، کویت میں پیش آیا یہ 1979 ؁ء کا واقعہ ہے ۔فرماتے ہیں: ان دنوں میں کویت کی ایک کمپنی میں پبلک رلیشن آفیسر (مندوب علاقات العامہ) تھا ۔ ہماری کمپنی کے ڈائریکٹر نے سری لنکا سے گھر کے کام کاج کے لئے خادمہ منگائی تھی ۔ دوسرے دن مجھ سے کہا کہ اس خادمہ کو واپس بھیج دو۔ وہ ہمارے کسی کام کی نہیں کیونکہ نہ عربی جانتی ہے نہ انگریزی ۔ میں اس کے ڈاکو منٹ لے کر منطقہ دبلو ماسیہ گیا تو پتہ چلا کہ فی الحال سری لنکن ایمبیسی نہیں ہے البتہ برٹش کونسل سری لنکن معا ملات کو ڈیل کرتا ہے ۔
برٹش کونسل میں استقبالیہ نے میرا کارڈ دیکھا تو مسٹرولسن سے ملایا۔ وہ بڑے تپاک سے ملے، بٹھایا۔ جب اس نے اندازہ لگایا کہ میں انڈین یا پاکستانی ہوں تو اردو میں کہا،’’میں کیا خدمت کرسکتا ہوں؟‘‘ میں نے سری لنکن خادمہ کے بارے میں بتایا تو اس نے کہا ،’’ کوئی پرابلم نہیں ، اسے ہم رکھ لیں گے۔ آپ کا جو کچھ خرچہ آیا وہ ہم ادا کردیں گے۔ یہ بتاؤ کہاں کے رہنے والے ہو ؟‘‘ میں نے کہا پاکستان کا ۔ کہا ،’’ بہت بڑا ملک ہے ۔‘‘ میں نے کہا ، پشاور کا رہنے والا ہوں ۔ پشتو میں بولا ،’’ لو یہ ضلع دہ‘‘ (بڑا ضلع ہے ) میں نے بتایا ، نوشہرہ کا ۔ کہنے لگا ،’’بڑی تحصیل ہے۔ گاؤں کون سا ہے؟‘‘ جب میں نے گاؤں کا نام بتایا تو اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک پیدا ہوئی ۔ پھر ایک ایک کا پوچھنے لگا۔ میں نے بتایا کہ کون مرگیا ہے ، کون زندہ ہے ۔ میں نے سوچا ، ہوسکتا ہے یہ نوشہرہ چھاؤنی میں انڈین آرمی میں رہا ہو یا رسالپور میں ۔ اس لئے ہمارے گاؤں والوں کو جانتا ہے جو اکثر چھاؤنی میں ملازمت کرتے رہے ہیں لیکن اس کی عمر زیادہ نہیں تھی۔
مگر اس نے کچھ اور کہانی سنائی ۔ پہلے اُس نے کافی منگائی ، انٹر کام پر ریسپشن سے کہا کہ میرے پاس کسی کو مت بھیجنا ۔ وہ اتنا خوش تھا کہ میں بیان نہیں کرسکتا ۔ کافی کے دوران اس نے بتایا کہ میں آپ کے گاؤں کے محلہ عیسیٰ خیل میں چار سال تک پیش امام رہا ہوں ۔ میں نے پوچھا ،’’ کیا آپ مسلمان ہیں ؟‘‘ اس نے کہا ،’’ میں نے چار سال تک آپ کے گاؤں کا نمک کھایا ہے ۔ آپ کے گاؤں والوں نے مجھے بڑی عزت دی ہے ۔ میں آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گا، میں عیسائی ہوں یعنی اہل کتاب۔‘‘
پھر میرا اس کا آنا جانا رہا ۔ وہ مجھے بالکل اپنا ہم وطن سمجھتا رہا ۔ وہ تقریباً میرا ہم عمر تھا اور تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ ہمارے ہاں پاکستان بننے کے بعد رہا تھا ۔ ایک دن میں نے پوچھا کہ آپ پٹھانوں کا کھانا کیسے کھاتے رہے ؟ کہا ،’’ آپ لوگوں کا کھانا اتنا مزیدار ہوتا ہے کہ میں یہاں کویت میں بھی گھر جاتے ہوئے ایرانی تندور سے روٹی لے کر موٹر میں روکھی کھاتا رہتا ہوں۔جب میں کویت سے آرہا تھا تو میں نے اس سے وہی سوال پوچھا جسے وہ ہمیشہ ٹالتا رہا تھا ۔ میں نے کہا ،’’ اب تو بتادو کہ آپ کرسچن ہو کر پٹھانوں کے گاؤں میں روکھی سوکھی کھاتے رہے اور پیش امام کی خدمات انجام دیتے رہے ،آخر کیوں؟‘‘
کافی دیر تک سر جھکائے سوچتا رہا ۔پھر سر اٹھا کر میری آنکھوں میں جھانکتا رہا ۔ کہنے لگا،’’ اپنے ملک کے مفادات کی خاطر بعض اوقات بہت کچھ کرنا پڑتا ہے اور جوانی ہوتی ہی ہے ایڈونچر پسند۔ہمارے ہاں لندن کے مضافات میں ایک مرکزہے جہاں شکل وشباہت دیکھ کر ہمیں بیرونی مذاہب اور زبانوں کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ وہاں سے فارغ التحصیل ہو کر ہمیں بھیجا جاتا ہے ۔ میری ماں اٹالین تھی اس لئے میرے بال کالے ہیں ۔ مجھے آپ کے ہاں بھیجا گیا تھا ۔ بہر حال یہ قصہ پارینہ ہے ۔ اب اس قسم کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ شاید آپ کو علم نہ ہو کہ افغانستان کا ملا شور بازار بھی اسی مرکز کا پروردہ تھا ۔‘‘
گاؤں آکر میں نے محلہ عیسیٰ خیل کے بزرگوں کو یہ واقعہ سنایا تو طالب گل نے کہا کہ مجھے شک پڑاتھا مگر سب ہی کہہ رہے تھے کہ چترالی ہے ۔(یہاں اکثر چترالی مولوی پیش امام ہیں اور وہ گورے بھی ہیں بالکل انگریزوں کی طرح) طالب گل نے کہا کہ چلو بھائی اب چار سال کی نمازیں لوٹائیں جو ہم نے انگریز کی پیچھے پڑھی ہیں ۔ خانہ خراب ہو اس کا ۔ جب میں نے جنگل کی حویلی کا واقعہ پڑا تو مجھے یقین ہوگیا کہ مسٹرولسن ضرور جنگل کی حویلی کے پروردہ تھے۔
*************

تبصرہ

آپ کو غازی علم دین کے مقدمہ اور راجپال کی شائع کردہ بدنامِ زمانہ کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘ کی تفاصیل شاید معلوم ہوں، غازی علم دین نے جو راجپال کو قتل کیا تو راجپال کا جرم صرف پریس کے مالک ہونے کے ناطے پبلشر اور پرنٹر ہونے کی وجہ سے تھا۔ جب غازی علم دین کی رہائی کا مقدمہ محمد علی جناح صاحب کو دیا گیا جو انہوں نے پچیس ہزار روپے پر بطور فیس کے لڑنا قبول کیاتھا، جناح صاحب نے جب کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘ پڑھی تو مقدمہ دینے والوں سے سوال کیا کہ اس کتاب میں رسول اﷲ ﷺ سے منسوب جن حدیثوں کے حوالے دیئے گئے ہیں کیا واقعی ایسی احادیث کتب احادیث میں موجود ہیں؟ تو پیروی کرنے والوں نے کہا کہ ہاں حدیثیں تو ہیں، اس پر جناح صاحب نے کہا کہ اگر آپ ان حدیثوں سے دستبردار ہونگے تو میں غازی علم دین کو چھڑا سکوں گا، ورنہ تو یہ سزا سے نہیں بچ سکے گا، اس پر غازی کے پرستاروں نے حدیثوں سے دستبردار ہونے سے انکار کیا اور مقدمہ چلا ، پھر غازی علم دین کو پھانسی کی سزا دی گئی۔
آپ کو شاید یہ بھی یاد ہو کہ ان دنوں بادشاہی مسجد لاہورکے پیش امام نے غازی علم دین کو پھانسی دیئے جانے کے بعد کورٹ کو درخواست دی کہ آپ نے علم دین کو تو پھانسی پر لٹکا دیا، اب بھلا اس کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘ کو تو بحق سرکار ضبط کیا جائے، تو جج نے جواب میں مولانا صاحب کو کہا کہ جب اس کتاب میں مندرجہ روایات احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں تو اس ایک کتاب پر بندش سے کیا فرق پڑے گا؟ پھر شاہی مسجد کے خطیب عالم دین نے جج کو کہا کہ امت مسلمہ کے عالم دین کی حیثیت سے میں لکھ کر دیتا ہوں کہ اس کتاب میں لائی ہوئی احادیث سب غلط اور جھوٹی ہیں، اس لئے اس کتاب کو ضبط کیا جائے۔ اس کے بعد جج صاحب نے اس کتاب کی ضبطی کا حکم تو جاری کیا، لیکن اس کے بعد خطیب شاہی مسجد لاہور جنہوں نے ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لئے بڑی جرأت اور غیرت کا یہ مظاہرہ کیا تھا پہلے تواسے شاہی مسجد کی امامت کی نوکری سے اسے ہٹا دیا گیا اور بعد میں انہیں کسی نے قتل کر دیا۔
کتاب انسائیکلو پیڈیا آف پاکستان میں جو لکھا ہے کہ امتیاز علی تاج کو ۱۹۷۰ ؁ میں اسے کسی نامعلوم شخص نے قتل کر دیا تھا، وہ اردو ڈراموں کے شیکسپیئر کے طور پر مشہور تھا۔
اس رائٹر کے بارے میں بعض اہلِ مطالعہ کا خیال ہے کہ اس بدنام زنامہ کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘ کا مصنف جو مشہور کیا ہوا ہے کہ سوامی شردہانند تھا، یہ غلط ہے، اصل اور مخفی مصنف امتیاز علی تاج تھا اور اس کے قتل کا پس منظر بھی اس کی یہ تصنیف تھی جسے قاتل شخص نے بھانپ لیا تھا اور امتیاز علی تاج کا تعلق اثناء عشری مسلک سے تھا اور حساس اہلِ مطالعہ نے لکھا ہے کہ کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘ کا مواد یعنی احادیث کی کتابوں سے ان کا اسختراج اور نشاندہی برطانیہ کی انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کی جنگل کی حویلی کے نام سے مشہور ادارے کی کارستانی ہے، اور سوامی شردہانند شدہی سنگھٹن تحریک سے وابستہ ہونے کے حوالہ سے ہندو مسلم اتحاد کا بھی پرچارک تھا ، اگر یہ بات تسلیم کی جائے کہ اس بدنام زمانہ کتاب کا مصنف سوامی شردہانند تھا تو پھر غازی علم دین نے اسے کیوں نہیں مارا؟ اکیلے پبلشر کو کیوں مارا؟ بڑا مجرم تو مصنف بھی ہے۔
اس بدنامِ زمانہ کتاب کی روایات کی تصحیح کرنے والا عالم دین علامہ تاج ورنجیب آبادی فاضل دیوبند اور پروفیسر دیال سنگھ کالج لاہور بتایا جاتا ہے، اس لئے یہ ہوسکتا ہے کہ کتاب کا نام بتائے بغیر اس سے صرف اس میں نقل کردہ روایات کی ان کے مأخذ والی کتابوں سے ٹیلی کرنے اور صحت نقل کی تصحیح کرائی گئی ہو، جو کہ ہر عالم کرسکتا ہے، جس طرح کہ غازی علم دین کی رہائی کا مقدمہ لڑنے والوں سے جناح صاحب نے سوال کیا کہ یہ احادیث کتب احادیث میں موجود ہیں؟ جواب میں کہا کہ ہاں بالکل موجود ہیں، میں عزیز اﷲ کتاب کے مصنف کے لئے سوامی شردہانند پنڈت چمپوتی اور امتیاز علی تاج ان کے سب ناموں کو قبول نہیں کرسکتا، اس لئے کہ کتاب کے نام میں جو تبراکی معنویت ہے اس کا متحمل ہونا کوئی آسان مسئلہ نہیں ہے، یہ کام صرف برسرِ اقتدار عالم نصرانیت کی جنگل والی حویلی ہی کراسکتی ہے، جس کی بانی حکومت برطانیہ تھی اور ان کو برصغیر میں مذہب کے نام پر ہندو مسلم فسادات کراکر نفرتوں کے بیج سے بٹوارہ بھی کرانا تھا۔
*************

حُجت صر ف قرآن ہے، ’’اساورہ‘‘نے قرآن چوری کرلیا

اس کتاب کا نام حُجت صرف قرآن ہے، حُجت کے معنی آپ بہتر جا نتے ہیں، پھر بھی جو حضرات نہیں جا نتے ان کی آسانی کے لئے وضا حت پیش خد مت ہے۔ دلیل بر ہان سے کسی مسئلے کو حل کرنے یا کسی کو مطمئن کرنے کی اتھارٹی۔
to overcome by argument or proof to convince,
بلا شبہ وہ قر آن کریم ہی ہے کوئی دوسری اتھارٹی نہیں۔ دوسرا لفظ جو آپ کو بار بار اس کتاب میں ملے گا وہ ہے وحی متلو اور غیر متلو وحی جلی اور و حی خفی۔ اﷲ نے اپنی آ خری کتاب قر آن کر یم میں وحی کی یہ تقسیم نہیں رکھی مگر مفاد پرستوں نے اپنے مفاد کی با ت کو منوا نے کے لئے اپنے ’’کہے‘‘ کو منزّل من اﷲ ثا بت کر نے کے لئے یہ الفاظ ایجاد کئے۔ متلو کے معنی ہوئے جس کی تلاوت کی جا ئے، اور جلی ہوئی وہ وحی جو قر آن کے دفعتین میں جلی حروف کے ساتھ نظر آ تی ہے۔ وحی غیر متلو ان کے اصطلاح میں وہ وحی ہے جس کی تلا وت تو نہیں کی جا تی ،لیکن وہ وحی کا در جہ رکھتی ہے۔حرف عام میں اس کا نام حدیث ہے۔ یعنی وہ روایات جو مسلمانوں میں حدیث کے نام سے مشہور ہیں۔ اسی طرح وحی خفی پو شیدہ یعنی قر آن کی طرح ظا ہر نہیں ہے، مخفی ہے۔ اسی قسم کے نا موں کے متعلق قر آن کر یم نے تو بہت پہلے فیصلہ دے دیا تھا کہ
قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ رِجْسٌ وَغَضَبٌ ۖ أَتُجَادِلُونَنِي فِي أَسْمَاءٍ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا نَزَّلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ ۚ فَانْتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ (7:71)
۔۔۔ یہ نام ہیں جو تم نے اور تمہارے با پ دادا نے رکھ لئے ہیں اﷲ کی طرف سے انہیں تصدیق کی کوئی سند نہیں ملی ہے۔ اﷲ کہتا رہے مگر مفا دا ت پیروں کی رسّی بن کرمسلما نوں کو آزاد نہیں ہونے دیتے۔
ایک لفظ آپ کے سا منے آ ئے گا ’’اساورہ‘‘ ان کی تعداد چار ہزار کے قر یب تھی یہ ایران کے بادشاہ یزد گرد کے مشیر یا دانشور تھے یہی وہ گروہ تھا جن کو شاہ نے پن چکی میں مارے جانے سے پہلے حکم دیا تھا کہ یہ ننگے پاہ عرب اتنے طاقتور نہ تھے کہ ایران کو فتح کر تے جاؤ ان میں گھل مل کر رہو یہ کہہ کر کہ ہم سٹڈی کر کے ایمان لا نا چا ہتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے اجازت دی انہوں نے اپنے مر کز خبر دی کہ عربوں کے غلبے کی ایک ہی وجہ ہے شاخیں دو ہیں، قرآن کی و جہ سے ہمیں شکست ہوئی، اور یہ کہ عر ب تقد یر کو نہیں مانتے۔ مرکز سے حکم ہوا کہ قرآن چوری کر لو اور ان کو اپنے ڈھب پر لا ؤ۔ عزیزان من قرآن چوری ہو گیا وہ قرآن جو عمل کے لئے تھا اب ہمارے سا تھ ثوابوں کی کتاب رہ گئی ہے۔ اور ہم تقد یر کے بھی قائل ہو گئے ہیں۔ ہم تباہ و برباد ہو گئے۔ ہماری عظمت رفتہ کی داستانیں رہ گئیں۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ
*************

بحوالہ:۔ اسلام کے مجرم از ڈاکٹر شبیر احمد ۔ ص 95 تا 100
بحوالہ:۔ تبصرہ از مولانا عزیز اﷲ بوہیو
بحوالہ:۔ حُجّت صر ف قرآن ہے از مولانا عزیز اﷲ بوہیو

آیئے مل کے قرآن کریم کو پوری دنیا میں عام کریں


معاملہ ایک قتل کا :: معاملہ کئی قتلوں کا

شہادت خلفاء راشدین
جنگ جمل و صفین
معاملہ ایک قتل کا
حجاج بن یوسف
مختار بن عبید الثقفی
عبدالملک بن مروان
السفاح
خلافت عثمانیہ ترکی
خطیب شاہی مسجد لاہور
امتیاز علی تاج

معاملہ ایک قتل کا

36 -
سنت کا بیان : ( 178 )
خلفاء کا بیان

حدثنا سوار بن عبد الله حدثنا عبد الوارث بن سعيد عن سعيد بن جمهان عن سفينة قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم خلافة النبوة ثلاثون سنة ثم يؤتي الله الملک أو ملکه من يشا قال سعيد قال لي سفينة أمسک عليک أبا بکر سنتين وعمر عشرا وعثمان اثنتي عشرة وعلي کذا قال سعيد قلت لسفينة إن هؤلا يزعمون أن عليا عليه السلام لم يکن بخليفة قال کذبت أستاه بني الزرقا يعني بني مروان

سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1242 حدیث مرفوع مکررات 8
سوار بن عبد اللہ، عبدالوارث بن سعید، سعید بن جمہان، سفینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نبوت کی خلافت تیس سال رہے گی پھر اللہ تعالیٰ جسے چاہیں گے اسے ملک یا فرمایا کہ اس کا ملک اسے عطا کریں گے سعید کہتے ہیں کہ سفینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ تم شمار کرلو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت دو سال حضرت عمر کی دس سال اور حضرت عثمان کی بارہ سال اور اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ساڑھے پانچ برس اور چھ ماہ حضرت حسن کی کل ملا کر تیس سال ہوئے سعید کہتے ھیں کہ میں نے حضرت سفینہ سے کہا کہ یہ بنوامیہ کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ نہیں تھے تو انہوں نے فرمایا کہ ایسا جھوٹ ہے جو بنی زرقاء وبنو امیہ کی چوتڑوں نے نکالا ہے۔

Narrated Safinah:
The Prophet (peace_be_upon_him) said: The Caliphate of Prophecy will last thirty years; then Allah will give the Kingdom of His Kingdom to anyone He wills.

ایک انتہائی تلخ حقیقت! جس سے ہر زمانے میں نظریں چرائی جاتی ہیں۔

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : بلال الراعی مراسلہ دیکھیں
سوچن والی گل اے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : فیصل ناصر مراسلہ دیکھیں
کیا سوچنا ہے ؟

Study Hadith In The Light Of Quran; Do Not Study Quran In The Light Of Hadith, But In The Light Of Quran Itself

قرآن حدیث پر حاکم ہے نہ کہ حدیث قرآن پر حاکم ہے !!!

محترم نورالدین صاحب نے کہا : "ایک انتہائی تلخ حقیقت! جس سے ہر زمانے میں نظریں چرائی جاتی ہیں۔"

احادیث میں فحش گوئی کے باعث انگلش مترجم نے شرما کر ترجمہ ہی پورا نہیں کیا !!!

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : rana ammar mazhar مراسلہ دیکھیں
معاملہ ایک قتل کا :: معاملہ کئی قتلوں کا
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ نہیں تھے تو انہوں نے فرمایا کہ ایسا جھوٹ ہے جو بنی زرقاء وبنو امیہ کی چوتڑوں نے نکالا ہے۔
Narrated Safinah:
The Prophet (peace_be_upon_him) said: The Caliphate of Prophecy will last thirty years; then Allah will give the Kingdom of His Kingdom to anyone He wills.

احادیث میں فحش گوئی کے باعث انگلش مترجم نے شرما کر ترجمہ ہی پورا نہیں کیا !!!

آن لائن لنک

http://saha-e-sittah.com/search.php?...bno=1221&jno=3

http://saha-e-sittah.com/search.php?...f=19210&p=4356


ایسی احادیث‌سے کب جان چھڑوائی جائے گی۔ابھی تک کتابوں میں چھپ رہی ہیں۔


خاص طور پر محترم ناصر نعمان صاحب کے جواب کا انتظار ہے۔!!!

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : بلال الراعی مراسلہ دیکھیں
ایسی احادیث‌سے کب جان چھڑوائی جائے گی۔ابھی تک کتابوں میں چھپ رہی ہیں۔

محترم شکاری صاحب، محترم ناصر نعمان صاحب، محترم سہیل عادل صاحب، آپ کے جواب کا انتظار ہے۔ خاص طور پر محترم ناصر نعمان صاحب کے جواب کا انتظار ہے۔!!!
اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : ناصر نعمان مراسلہ دیکھیں
رانا عمار صاحب ۔۔۔۔ اپنی زبان کو لگام دیجیے ۔۔۔۔۔ اور بزرگوں کے لئے الفاظوں کا استعمال اچھی طرح سوچ سمجھ کر کیجے ۔
ہماری ناظمین حضرات سے پرزور اپیل ہے کہ وہ رانا عمار صاحب کو خصوصی طور پر سختی سے پابند فرمائیں‌کہ وہ آئندہ کسی بھی بزرگ کے خلاف کوئی بھی نازیبا الفاظ کا استعمال نہ کریں ۔۔۔اور اوپر پیش کی گئی کوٹ کو ڈیلیٹ فرمائیں جزاک اللہ


السلام علیکم

محترم یہ مسائل آنلائن پر ڈسکس کرنے والے نہیں ہیں جنہیں آپ یہا‌ں پر پیش کر رہے ہیں، آپ جہاں پر قیام پذیر ہیں وہیں پر اگر کسی سے آمنے سامنے ڈسکس کریں تو آپ کو جوابات مل سکتے ہیں۔

اس کی مثال بالکل ایسے ہی ھے کہ کسی بھی فیلڈ کے سپیشلائز سے آپ اسی فیلڈ کی کتابیں پڑھ کر اسی کے سامنے غلطیاں نکالنیں بیٹھ جائیں تو جو علم اس نے بیس سے پچیس سال میں حاصل کیا وہ آپ سے اس پر کیا بات کرے گا اور کس طرح سمجھائے گا، یقیناً وہ آپ کے سوالوں پر آپ کو آپکے حال پر چھوڑ دے گا۔

والسلام


کیا اسلام ایک خفیہ دین ہے جیسا کہ تصوف میں سکھایا جاتا ہے، سپیشلائز باطنی معنی بتائیں گے ؟؟؟

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : کنعان مراسلہ دیکھیں
السلام علیکم
محترم یہ مسائل آنلائن پر ڈسکس کرنے والے نہیں ہیں جنہیں آپ یہا‌ں پر پیش کر رہے ہیں، آپ جہاں پر قیام پذیر ہیں وہیں پر اگر کسی سے آمنے سامنے ڈسکس کریں تو آپ کو جوابات مل سکتے ہیں۔
اس کی مثال بالکل ایسے ہی ھے کہ کسی بھی فیلڈ کے سپیشلائز سے آپ اسی فیلڈ کی کتابیں پڑھ کر اسی کے سامنے غلطیاں نکالنیں بیٹھ جائیں تو جو علم اس نے بیس سے پچیس سال میں حاصل کیا وہ آپ سے اس پر کیا بات کرے گا اور کس طرح سمجھائے گا، یقیناً وہ آپ کے سوالوں پر آپ کو آپکے حال پر چھوڑ دے گا۔
والسلام

کیا اسلام ایک خفیہ دین ہے جیسا کہ تصوف میں سکھایا جاتا ہے، سپیشلائز باطنی معنی بتائیں گے مسائل تصوف کے ؟؟؟


اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : rana ammar mazhar مراسلہ دیکھیں
کیا اسلام ایک خفیہ دین ہے جیسا کہ تصوف میں سکھایا جاتا ہے، سپیشلائز باطنی معنی بتائیں گے مسائل تصوف کے ؟؟؟

السلام علیکم

محترم تعارف میں لکھی کسی بھی عبارت پر آپ نشانہ زنی نہیں کر سکتے ورنہ آپکا مراسلہ پر بہت کچھ باقی تھا لکھنے کو مگر تعارف تھا اس لئے ضروری نہیں تھا کہ کچھ بھی اس سے زیادہ لکھا جائے اور اس پر پہلے میں نے ایک تمہید بھی باندھی تھی جسے آپ شائد سمجھ نہیں پائے ورنہ آپ نے اپنی جو تعلیم پیش کی ھے اس پر میں اس سے پہلے والے مراسلہ میں ہی بیان کر چکا تھا اسی مراسلہ کو ایک مرتبہ پھر پڑھ لیں شائد آپکو اپنے بارے میں کچھ سمجھ آ جائے۔ اگر آپ اس فارم میں ٹھہر گئے تو آگے بہت سے مواقع ملیں گے۔

والسلام


جواب : سوری، جاہل آدمی کیا تعلیم پیش کرئے گا۔

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : کنعان مراسلہ دیکھیں
السلام علیکم
محترم تعارف میں لکھی کسی بھی عبارت پر آپ نشانہ زنی نہیں کر سکتے ورنہ آپکا مراسلہ پر بہت کچھ باقی تھا لکھنے کو مگر تعارف تھا اس لئے ضروری نہیں تھا کہ کچھ بھی اس سے زیادہ لکھا جائے اور اس پر پہلے میں نے ایک تمہید بھی باندھی تھی جسے آپ شائد سمجھ نہیں پائے ورنہ آپ نے اپنی جو تعلیم پیش کی ھے اس پر میں اس سے پہلے والے مراسلہ میں ہی بیان کر چکا تھا اسی مراسلہ کو ایک مرتبہ پھر پڑھ لیں شائد آپکو اپنے بارے میں کچھ سمجھ آ جائے۔ اگر آپ اس فارم میں ٹھہر گئے تو آگے بہت سے مواقع ملیں گے۔
والسلام

اگر کسی سے آمنے سامنے ڈسکس کریں تو آپ کو جوابات مل سکتے ہیں۔

جواب : ڈسکس کیا ہے جواب نہیں ہے، اگر آپ کو معلوم ہے تو بتا دیں، یا میل کر دیں۔

جسے آپ شائد سمجھ نہیں پائے

جواب : اگر آپ کو معلوم ہے تو بتا دیں، سمجھا دیں۔

محترم تعارف میں لکھی کسی بھی عبارت پر آپ نشانہ زنی نہیں کر سکتے۔

جواب : سوری۔

ورنہ آپ نے اپنی جو تعلیم پیش کی ھے۔

جواب : سوری،  آدمی کیا تعلیم پیش کرئے گا۔

اگر آپ اس فارم میں ٹھہر گئے تو آگے بہت سے مواقع ملیں گے۔

جواب : سوری، اگر ٹھہر گئے۔


کبھی ہندو تو کبھی سکھ دس دس سال تک نماز پڑھاتے رہتے ہیں تو کبھی عیسائی یار یہ ہم مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا کرتے ہیں۔ احادیث میں تبدیلی اوپر سے ہماری تاریخی اتنی مسخ ہے کہ عام مسلمان بندوں کا ایمان ڈگمگا جائے


عزیزان من قرآن چوری ہو گیا وہ قرآن جو عمل کے لئے تھا اب ہمارے ساتھ ثوابوں کی کتاب رہ گئی ہے۔

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : wajee مراسلہ دیکھیں
کبھی ہندو تو کبھی سکھ دس دس سال تک نماز پڑھاتے رہتے ہیں تو کبھی عیسائی یار یہ ہم مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا کرتے ہیں۔ احادیث میں تبدیلی اوپر سے ہماری تاریخی اتنی مسخ ہے کہ عام مسلمان بندوں کا ایمان ڈگمگا جائے

یار یہ ہم مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا کرتے ہیں۔

حالیہ سالوں میں انڈین مولوی امام بغیر ختنہ بھی پکڑے گے ہیں۔

نائن الیون کے بعد سے درجنوں امریکی دانشور ۔ ادارے اسلام کے خلاف سرگرم ہیں

عزیزان من قرآن چوری ہو گیا وہ قرآن جو عمل کے لئے تھا اب ہمارے ساتھ ثوابوں کی کتاب رہ گئی ہے۔

حضرت علي رضي اللہ تعالي عنہ كا جمع كردہ مبينہ قرآن اور آج كا قرآن۔۔۔؟

تاریخ اتنی مسخ :

معاملہ ایک قتل کا

یزید کا معاملہ

اور ماضی کا فتنہ وضع حدیث !!!


پہلے مراسلہ میں نواب صاحب اور انگریز کلکٹر کا جو واقعہ شئیر ہوا ہے وہ اردو ڈائجسٹ پر بھی کئی دہائی قبل پیش ہو چکا ہے۔

میں رانا صاحب سے بھی معذرت چاہوں گا اور باقی احباب سے بھی کہ مسئلہ نہ قرآن پر عمل کرنے کا ہے اور نہ ہی کسی کو اس پر اعتراض ہے۔ ۔ ۔ اور نہ ہی کوئی اس سے منع کرتا ہے۔ مسئلہ ہمارے attitude کا ہے۔

ہم سب کا attitude قرآن کی طرف نہایت شدت پسندانہ ہے۔ بشمول قرآن کی دعوت دینے والے رانا صاحب اور فاروق سرور خان صاحب کے۔
ہر کوئی یہی دعویٰ ہی کرتا ہے کہ وہ قرآنی احکام پر عمل کرتا ہے۔ خواہ وہ قرآنسٹ ہو یا کہ کوئی محدث۔ ہمارا attitudeاختلاف کے وقت نہایت غلط ہوتا ہے۔ مثلاً پردے کا معاملہ ہی لے لیں۔ کوئی محض حجاب کو پردہ گردانتا ہے اور عین قرآنی سمجھتا ہے تو کوئی برقعہ کو عین قرآنی منشا سمجھتا ہے۔ دونوں کی دلیل قرآن ہی ہے۔ ہر کوئی قرآن و حدیث سے ہی استنباط کر رہا ہوتا ہے۔لیکن مسئلہ شروع ہو جاتا ہے جب ہم اس موضؤع پر اختلاف کرتے ہیں۔ تب قرآنسٹ اور محدث حضرات کے سر کے بال غصے سے کھڑے ہو جاتے ہیں، کانوں سے دھویں سے نکلتے محسوس ہوتے ہیں اور الفاظ آگ کے شرارے بن جاتے ہیں (فورم پر تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے)

جس attitude پر ملاؤں جو بُرا بھلا کہا جاتا ہے ویسا ہی ۔۔۔ بعینہ ویسا ہی ہمارے قرآنسٹ حضرات بھی attitudeدیتے ہیں۔ ہمارے روایتی ملا حضرات ایک دوسرے پر فتووں کی بارش کرتے ہین، ان پر اسلام دشمن، خلاف اسلام اور دائرہ اسلام سے خآرج ہونے کی باتیں کرتے ہیں تو ہمارے قرآنسٹ حضرات بھی اسی سے ملتی جُلتی باتیں کرتے ہیں وہ بھی اپنے مخالفین کو یہودی ، یہودی سازش کے پروردہ، یہودی روایات کے پیرو کار قرار دینے میں کوئی کوتاہی نہیں برتتے۔
میں جب غیر جانبدار ہو کر دیکھتا ہوں تو مجھے دونوں گروہوں کی اخلاقیات میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔

نہ ہی نام نہاد محدثین پر احادیث میں موجود اسوہ رسول کا کوئی اثر ہوتا محسوس ہوتا ہے اور نہ ہی نام نہاد قرآنسٹ حضرات پر قرآن کا کوئی عملی پہلو نظر آ رہا ہوتا ہے کہ جس کو دیکھ کر ہم متاثر ہو سکیں۔

دنیا میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو محض دلیل سے متاثر ہو کر اپنے نظریات بدل لیتے ہیں۔ لیکن چند لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دلیل کے ساتھ ساتھ کردار بھی دیکھتے ہیں۔ قران کی تعلیمات پھیلنے میں خود قرآن کا اتنا بڑا کردار شاید نہ ہو جتنا قرآن کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اور انکے کردار سے دکھائی دینا اثر انداز ہوتا ہو گا۔

ایک جھوٹا، خائن، بد اخلاق، جتنا مرضی قرآن پڑھتا اور قرآن قرآن اور حدیث حدیث چلاتا رہے۔ ۔ ۔ اس کی پکار ریت کی کچی دیوار کی مانند ہو گی۔ جو معمولی سے جھونکے سے گر جائے گی۔


ایک جھوٹا، خائن، بد اخلاق، جتنا مرضی قرآن پڑھتا اور قرآن قرآن اور حدیث حدیث چلاتا رہے۔

پردے کا معاملہ ہی لے لیں، عورت کا مقام، اسلام کی نظر بصیرت میں، عورت کی شخصیت اور پردہ کے لحاظ سے

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : حیدر مراسلہ دیکھیں
ہر کوئی یہی دعویٰ ہی کرتا ہے کہ وہ قرآنی احکام پر عمل کرتا ہے۔ خواہ وہ قرآنسٹ ہو یا کہ کوئی محدث۔ ہمارا attitude اختلاف کے وقت نہایت غلط ہوتا ہے۔ مثلاً پردے کا معاملہ ہی لے لیں۔ کوئی محض حجاب کو پردہ گردانتا ہے اور عین قرآنی سمجھتا ہے تو کوئی برقعہ کو عین قرآنی منشا سمجھتا ہے۔ دونوں کی دلیل قرآن ہی ہے۔ ہر کوئی قرآن و حدیث سے ہی استنباط کر رہا ہوتا ہے۔لیکن مسئلہ شروع ہو جاتا ہے جب ہم اس موضؤع پر اختلاف کرتے ہیں۔ تب قرآنسٹ اور محدث حضرات کے سر کے بال غصے سے کھڑے ہو جاتے ہیں، کانوں سے دھویں سے نکلتے محسوس ہوتے ہیں اور الفاظ آگ کے شرارے بن جاتے ہیں (فورم پر تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے)

No comments:

Post a Comment