Tuesday, January 1, 2013

ولادت عیسیٰ کس طرح ؟

ولادت عیسیٰ  کس طرح ؟


اس مسئلہ ولادت عیسیٰ میں یعنی انکے نعوذ باللہ بن باپ کے پئدا ہونے کے ڈھکو سلہ کی ایجاد ان لوگوں نے کی ہے جنکے بارے میں رب پاک نے فرمایا کہ یہ لوگ

يُحَرِّفُون َ الْكَلِمَ مِن بَعْدِ مَوَاضِعِهِ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَـذَا فَخُذُوهُ
(41-5)
یعنی یہ لوگ علم وحی میں لفظی تحریفیں ور معنوی ہیر پھیر کرنے والے ہیں۔ اور یہ کیوں کرتے ہیں؟

وہ بھی عرض کیا کہ یہ اسلئے کہ بندوں کو اللہ کے ساتھ ملاکر اور انہیں اللہ کے اختیارات دیکر پھر انکے ناموں سے ایسی باتیں، روایات، حدیثیں منسوب کی جائیں جن سے علم وحی کا رد ثابت ہوتا ہو اور اسکی تنسیخ ثابت ہوتی ہو، اسی وجہ سے تو اللہ عز وجل یوم حساب کے وقت جناب عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھے گا کہ

أَأَنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـهَيْنِ مِن دُونِ اللّهِ
(116-5)
یعنی کیا آپ نے لوگوں کو کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سواء دوسرا اور تیسرا اللہ قرار دیکر مانو؟

مطلب کہ یہ سب ہیرا پھیرییں اسلئے ہیں کہ علم وحی کے قوانین سے جان چھڑائی جائے‘‘ اب آئیں اصل مسئلہ کی طرف جو یہ ہے کہ

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ‘‘
(13-49)
یعنی اے انسانو! اے لوگو: ہم نے آپکو مرد اور عورت سے پئدا کیا ہے۔ ہمنے آپکو مذکر اور مؤنث کے (میلاپ سے) تخلیق کیا ہے۔۔۔۔۔۔

اب اس جملہ میں تخلیق آدم کا قانون بیان کیا گیاہے۔ انسان کی پئدائش کا محکم اصول بیان کیا گیا ہے‘‘ یہ قانون اور اصول قائدہ کلیہ ہے اسمیں سب انسان شامل ہیں کسی کی بھی استثنی نہیں ہے اور نہ ہی اسمیں کوئی معنوی اشتباہ ہے جو اس قانون کو علمی شبہات سے شمارکیا جاسکے کوئی ماں کا لال کوئی پھنے خان، کوئی خود کو اٹھارہ بیس علموں کا دستار بند عباؤں قباؤں کے یونیفارم والا، جناب عیسیٰ علیہ السلام کے انسان ہونے کی نفی نہیں کرسکتا، عیسیٰ علیہ السلام کے لئے یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ انسان نہیں ہے، سو جب جناب عیسیٰ علیہ السلام کو انسان مانا جائیگا تو اسکی تخلیق اور پئدائش پر اللہ کے قانون تخلیق،

إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى
(13-49)
نراور مادہ سے پئدا ہونے کو ماننا پڑے گا

،، اک نقطے وچ گل مکدی اے‘‘ اور اللہ کے اس دائمی ابدی ازلی جامع قانون میں کبھی بھی کسی کے لئے بھی تبدیلی نہیں آسکتی، اسکے لئے بھی اللہ کا اعلان ہے کہ

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
(30-30)
یعنی غلط سلط قوانین سے مونہ موڑتے ہوئے ہمارے دین حنیف یعنی قانون فطرت جو صدیوں سے یکسانیت کے ساتھ آرہا ہے جس قانون پئدا ئش کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی پھر چاہے اللہ کا نظام زندگی والا قانون ہو یا یہ تخلیق اور پیدائش والا قانون ہو)

ذالک الدین القیم
یہی قانون ہمیشہ رہنے والا مضبوط اور سیدھا قانون ہے

لاتبدیل لخلق اللہ
اس قانون تخلیق میں کبھی کوئی تبدیل نہیں آنی۔


ماں کے نام سے ابن مریم کیوں؟ باپ کے نام سے کیوں نہیں؟
اب اس مئلہ میں بات رہتی ہے قرآن دشمن عالمی سامراج کی تربیت یافتہ امامی علوم کے فاضل لوگوں کے التباسات اور علمی تھڈوں کی کہ جو ان آیات کریمہ سے وہ مغالطے پیدا کرتے ہیں کہ

إِذْ قَالَتِ الْمَلآئِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ
(45-3)
یعنی جب ملائکہ نے کہا کہ اے مریم اللہ تجھکو خوشخبری دیتا ہے اپنے ایک کلمہ کی (فیصلہ کی) اس بشارت والے کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہے جو دنیا اور آخرت میں وجاہت والا اور مقربین میں سے ہوگا۔

اس آیت میں جو عیسیٰ کے پئدا ہونے سے پہلے ہی اسے ابن مریم کہا گیا ہے، اس کو دلیل بناکر امامی علوم کے فاضل صاحبان عیسیٰ کو بن باپ والا ٹھراتے ہیں (نعوذ باللہ)

محترم قارئین!
قرآن حکیم جیسے کہ ولادت جناب عیسیٰ علیہ السلام سے انداز اچھہ سؤ سال بعد میں نازل ہوا ہے اسلئے لوگوں نے بعد ولادت مسیح علیہ السلام سے اپنے اسلوب رواج اور محاوروں میں لقب مسیح اور نام عیسیٰ اور کنیت ابن مریم سے پکارا اور مشہور کیا وہ بھی اس نیپت سے نہیں کہ ابن مریم کہنے سے کوئی یہ ہستی بن باپ اور بے پدر ہے بلکہ اس وجہ سے کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کی ماں اسکے والد سے مرتبہ میں بہت ہی برتر ہوگی اور تھی جسے اللہ نے اعزاز دیا کہ ان اللہ اصطفاک علی نساءالعالمین ویسے تو قارئین کو یاد ہوگا کہ جناب مریم علیھا السلام کی والدہ نے جب منت مانی تھی کہ اے اللہ مجھے جو پیٹ میں حمل ہے یہ بیٹا جب تولد پذیر ہوگا تو میں اسے خدمت دین کیلئے وقف کرونگی اور اسے ہیکل (درگاھ اور عبادتگاہ) والوں کے حوالے کرونگی،، پھر جب اسے اس حمل سے لڑکی پیدا ہوئی تو

قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثَى وَاللّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالأُنثَى
(36-3)
یعنی امراٗۃ عمران نے کہا کہ اے میرے رب میں نے تو لڑکی کو جنا ہے

(
آگے فرمان ہے کہ) اللہ زیادہ جانتا ہے اس حقیقت کو جو اسنے بیٹی کو جنم دیا اور اگر جو یہ بیٹا جنتی تو وہ اس بیٹی کے برابر ہر گز نہ ہوسکتا،،

پھر آگے چلکر جو مریم علیھا السلام نے ہیکل کے پادریوں کی جو اسکی جوانی کو پہنچنے کے وقت نظریں خراب دیکھیں، چونکہ تاریخ نے جناب مریم کی زندگی اور مریم کے ساتھ بڑی نا انصافی کی ہے اس حد تک جو خود من گھڑت انجیل میں بھی جناب عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی والدہ سے بے ادبی اور گستاخانہ لہجہ میں بات کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے

ملاحظہ فرمائیں، انجیل متی (12-48-50)
(
میں لکھا ہے کہ) کسی نے اس سے کہا دیکھ تیری ماں اور تیرے بھائی باہر کھڑے ہیں اور تجھ سے باتیں کرنی چاہتے ہیں اس نے خبر دینے والے کے جواب میں کہا کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی اور اپنے شاگردوں کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا دیکھو میری ماں اور میرے بھائی یہ ہیں۔ کیونکہ جو کوئی میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلے وہی میرا بھائی اور بہن اور ماں ہے۔

ایک جگہ بی بی مریم نے اپنے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام سے کچھ کہنا چاہا تو آپنے اسے جواب میں کہا کہ اے عورت! مجھے تجھ سے کیا کام ہے،،
(
یوحنا 4:2)

یاد رہے کہ اللہ کے ہاں جناب بیبی مریم اپنے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام کو جننے سے پہلے ہی بڑے مرتبہ پر فائز ہے جو اسے علم وحی سے یہ سرٹیفکیٹ ملا ہوا ہے کہ

وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاء الْعَالَمِينَ
(42-3)
یعنی جب ملائکہ نے کہا اے مریم تحقیق اللہ نے تجھ کو امتیاز بخشا ہے اور تجھے جہانوں کی عورتیں میں سے منتخب فرمایا ہے۔

انا جیل اور عیسائیوں کی تاریخ نے جناب عیسیٰ کو اپنی والدہ سے انداز ادبی والے دکھائے ہیں جواللہ نے عیسیٰ السلام کی زبانی ان من گھڑت اناجیل کے الزامات کی تردید کرائی کہ

وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا
(32-19)
یعنی میں اپنی والدہ سے نیک سلوک کرنے والا ہوں اور اللہ نے مجھے اسکے ساتھ سخت گیری والے طریقہ سے چلنے والا بدبخت نہیں بنایا۔

جناب قارئین!
دیکھو کہ اللہ عزوجل کی کتاب قرآن حکیم کہ وہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت پر سے من گھڑت انا جیل اور کھوٹی تاریخ کے الزامات کس طرح تو کھرچ کھرچ کر صاف کر رہا ہے، میں نے بات شروع کی تھی ہیکل کے بدچلن پادریوں کی جنہوں نے جنابہ مریم کو بری نظروں سے دیکھنا شروع کیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ

ذَلِكَ مِنْ أَنبَاء الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيكَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُون أَقْلاَمَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ
(44-3)
یعنی یہ تاریخ اور غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپکی طرف وحی کر رہے ہیں اور آپ کوئی انکے ہاں موجود نہیں تھے جب وہ اپنے قلم پھینک کر فال نکال رہے تھے)

کہ کون کفالت کرے مریم کی اور اے نبی! نہ ہی انکے اس جھگڑے کے وقت آپ انکے پاس موجودتھے،

ایسے ماحول میں رہ کر بی بی مریم نے جس عفت و پاکدامنی کے ساتھ حالات اور ماحول سے ٹکر کھائی ہے اسی کے پیش نظر تو قرآن نے اسے تمغہ طہارت اور نساء عالمین پر اصطفاءاور انتخاب کا اعزاز بخشا ہے، مریم کے یہی اعزازات ہیں جن کی بناپر اللہ نے مریم کی ماں سے کہا کہ لیس الذکر کالانثی یعنی جو تو اگر بیٹا جنتی تو وہ لڑکا اس لڑکی جیسا مخالف حالات سے ٹکر کھانے والا نہ ہوتا،، تو یہ مریم کا مقام و مرتبہ اسے شادی سے پہلے حاصل ہوچکا تھا اسیوجہ سے اسکے رشتہ دار شوہر یوسف درکھاں کا اتنا مقام اور ناموس شہرت کو نہیں پہنچ پایا تھا جو انکے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت ماں کے مقابلہ میں ایک غیر مشہور باپ کی طرف ہوتی،

دنیا میں کئی ایسی عورتیں ہیں جنکی شہرت اپنے شوہروں سے اتنی تو زیادہ ہےجو کئی سارے دنیا والے ایسی عورتوں کے شوہر وں کی پہچان بھی نہیں رکھتے اور نہ ہی انکے اولاد کو بن باپ کے کہتے ہیں، مثال کے طور پر ہندستان کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی نے بڑی شہرت پائی اور وہ بھی ملک کی نامور وزیر اعظم ہوئی اور اسکو جو اپنے شوہر سے بیٹا راجیو گاندھی پئدا ہوا تھا وہ بھی ملک کا وزیر اعظم بنا تھا، اور راجیو کی ماں کی شہرت راجیو کے باپ فیروز گاندھی سے بدر جہا زیادہ تھی اتنی حد تک جو راجیو بیٹا اندرا تو مشہور ہے راجیو بیٹا فیروز کئی سارے لوگ نہیں جانتے اور نہ ہی راجیوکو کوئی بن باپ کے پکارتا ہے

اسیلئے اللہ پاک نے فرمایا کہ

فَوَرَبِّ السَّمَاء وَالْأَرْضِ إِنَّهُ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَا أَنَّكُمْ تَنطِقُونَ
(23-51)
یعنی پھر آسمان اور زمین کے رب کی قسم کہ یہ قرآنی محاورات واستعارات ایسے تو سچ اور برحق ہیں جسطرح تم لوگ اپنی بولیوں میں محاوروں سے کنایوں سے آپس میں باتیں کرتے ہو،،

دنیا والو تم نے مریم کی عظمت پر بڑے ظلم ڈھائے ہیں کچھ شرم کرو! مریم تو اپنے نامور بیٹے عیسیٰ علیہ السلام کو جننے سے پہلے ایسے مقام و مرتبہ کو پہنچ چکی ہے جو اسکی دہلیز پر اللہ کے ملائک آکر سلوٹ کرتے ہیں

وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاء الْعَالَمِينَ
(42-3)
(
ترجمۃ ابھی گذرچکا ہے) کہ عیسیٰ کی نانی کی دعا دنیا بھر کے پادریو! پنڈتو! مولویو! مریم کو بغیر شوہر کے بیٹا جننے والی کہتے وقت کچھ تو حیا کرو!

مریم جب اپنی ماں امراٗۃ عمران کی گود میں جنم لیتی ہے تو اسکی ماں اس وقت اسکیلئے کہتی ہے کہ

وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وِإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
(36-3)
یعنی میں اپنی بچی کا نام مریم رکھتی ہوں اور اے میرے رب! میں اپنی بچی کو تیری پناہ میں دیتی ہوں (نیز جب یہ میری بیٹی جوان ہوکر شادی کریگی اور بچے جنے گی تو ) اسکے بچوں کو بھی میں تیری پناہ میں دیتی ہوں شیطان راندہ رجیم کے شر سے۔

بہرحال ماں کے نام سے پکارے جانے پر کسی کو بن باپ کے پئدا ہونے والا کہنا یہ صرف عیسیٰ اور مریم کے ساتھ ظلم ہے قرآن میں جناب ہارون علیہ السلام بھی اپنے بھائی جناب موسیٰ علیہ السلام کو کہتے ہیں کہ

يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي
(94-20)
یعنی اے اماں کے بیٹے میری داڑھی اور سر کو نہ پکڑ ۔۔۔۔

یہاں کسی نے موسیٰ وہارون علیھما السلام کو کبھی بھی بن باپ والا نہیں پکارا۔


عیسیٰ علیہ السلام کے باپ کا ذکر علی الانفراد قرآن نے اسلئے نہیں کیا جو ضرورت نہ پڑی

قرآن حکیم کافنی ادبی بلاغت کا اصول ہے کہ وہ کسی چیز لفظ یا مسئلہ کو بغیر ضرورت کے ذکر نہیں کرتا پورے قرآن میں کہیں بھی کوئی جملہ اور لفظ تو کیا ایک حرف بھی زائد اور فضول نہیں ہے ہر حرف اپنی اپنی جگہ پر مقصدیت والا ہے اپنا اپنا مفہوم دینے والا ہے۔

قرآن حکیم میں کئی جگہوں پر صرف ماؤں کے ذکر کی ضرورت پڑی ہے تو وہاں وہاں اللہ نے صرف ماؤں کا ہی ذکر کیا ہے جیسے کہ

يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ
(6-39)
وَإِذْ أَنتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ
(32-53)
مَّا هُنَّ أُمَّهَاتِهِمْ
( 2-58 )
ایسے مثال قرآن میں کئی سارے ہیں۔ تو اب ان موقعوں پر یہ نہیں کہا جائیگا کہ ان مثالوں میں صرف ماؤں کا ذکرہے تو ایسی سب مائیں شوہر کے بغیر مائیں بنی ہونگی اسلئے کہ قرآن نے شوہروں کا ذکر نہیں کیا،،

دنیا والو! یہ کتاب فتو نتھو کی نہیں ہے

وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَہے
(192-26)
یہ کتاب رب العالمین کی نازل کردہ ہے۔

عیسیٰ علیہ السلام کے باپ کا ذکر قرآن میں

وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَى وَعِيسَى وَإِلْيَاسَ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ ۝ وَإِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا وَكُلاًّ فضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَ ۝ وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
(85
تا 87-6)
خلاصہ اوپر ذکریا اور یحیٰ اور عیسیٰ اور الیاس (علیھم السلام) یہ سب صلحاء میں سے تھے اور اسماعیل اور الیسع اور یونس او رلوط (علیھم السلام) اور ان سب کو ہمنے اقوام عالم پر فضیلت دی اور انکے باپ دادوں میں سے اور انکی نسلوں سے اور انکے بھائیوں سے اور ہم نے ان سب کو منتخب کیا اور ہمنے انکو ہدایت عطا کی سیدھی راہ کی طرف (ترجمہ ختم)

جناب قارئین!
اس کلام ربی پر غور فرمائیں اس میں جملہ انبیاء علیھم السلام کیلئے چار عدد تعارفی اعزازات کا ذکر ہے ایک یہ ہے کہ یہ سارے رسول صالحین تھے رفارمر تھے۔ دوسرا اعزاز کہ ان سب کو اقوام عالم پر فضیلت دی۔ تیسرا اعزاز یہ کہ انکے آباءواجداد اور اولاد اور بھائیوں کو منتخب کیا، چوتھا یہ کہ ان سبکو صراط مستقیم کی طرف ہدایت دی آپ نے غور کیا ہوگا کہ انبیاء علیھم السلام کی اس فہرست میں جناب عیسیٰ علیہ السلام کا بھی ذکر ہے پھر ان جملہ انبیاءکے آباء و اجداد اولاد اور بھائیوں کا بھی ذکر ہے، سواگر امامی روایات والے علوم کے کہے مطابق نعوذ باللہ اگر عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے قانون تخلیق (13-49) کے خلاف پئدا ہوئے ہوتے اور اسکا کوئی باپ دادا نہ ہوتا تو قرآن حکیم ضرور اس اعزازات والی تعارفی فہرست میں آباء کے ذکر کے ساتھ اسکی الا عیسیٰ کے ساتھ استثنی کرتے،،

قرآن حکیم مفصل کتاب ہے، قرآن نے اپنے بیان مسائل اور حقائق میں کبھی کہیں کوئی ابھام نہیں چھوڑا، غور اور تدبر کرنے والے لوگ سوچیں کہ جب لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب لانے کا قرآن حکیم نے ذکر کیا پھر اس عذاب سے جناب لوط علیہ السلام اور اسکے اہل خانہ کی نجات کا ذکر کیا کہ

فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ أَجْمَعِينَ ۝ إِلَّا عَجُوزًا فِي الْغَابِرِينَ
(177-017-26)
یعنی ہم نے لوط علیہ السلام اور اسکے جملہ اہل خانہ کو نجات دی، سواء اس پیچھے رہ جانے والی بڑھیا کے،،

قرآن کے اوپر اپنی بنائی ہوئی حدیثوں کو امامی علم روایات کو غالب حاکم اور قاضی بنانے والو! آنکھیں پھاڑ کے اس کتاب کو پڑھو تنخواہیں دینے والوں کی عینکوں کو اتار کر غور و فکر کرو اور دیکھو کہ اس کتاب میں کتنی تو باریکیں ہیں۔

عیسیٰ اور اسکی والدہ کے ساتھ ظلم
جناب موسیٰ علیہ السلام بچپنے میں دریاء سے ملا پھر بھی وہ بن باب والا نہ کہلایا ، جبکہ اسکی ولدیت اس وقت معلوم بھی نہیں تھی موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام بڑے ہوکر دونوں کی کنیت انکی ماں کے نام سے مشہور ہوئی تھی چہ جائیکہ انکا والد بھی عمران نامی اپنے قبیلہ کا بہت نامور سردار تھا جسکا قرآن حکیم نے بھی ذکر کیا ہے۔

ان اللہ اصطفی اٰدم و نوحا واٰل ابراھیم واٰل عمران علی العالمین
(133-3)
اگرچہ قرآن میں عمران کیلئے موسیٰ علیہ السلام کے باپ ہونے کا ذکر نہیں ہے لیکن یہ حقیقت تو مسلمات میں سے ہے موسیٰ اور ھارون علیہا السلام اٰل عمران میں سے تھے جسطرح کہ مریم بھی اٰل عمران میں سے ہے۔

عیسیٰ یا کسی کی بھی پئدائش بن باپ کے نہیں ہوسکتی


قرآن حکیم کی طرف سے تخلیق انسان کیلئے ایک قائدہ اور قانون کی وضاحت

فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ مِمَّ خُلِقَ ۝ خُلِقَ مِن مَّاء دَافِقٍ۝ يَخْرُجُ مِن بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ
(5
تا 7-86)
یعنی لازم ہے کہ انسان غور کرے کہ وہ کن اجزاء سے پیدا کیا گیا ہے، پیدا کیا گیا ہے ایسے پانی سے جو جمپ کی طرح ٹپکا ہے اور وہ نکلتا ہے باپ کی پیٹھ سے اور (ماں کی) سینہ والی ہڈیوں سے۔

محترمہ قارئین!
اس موضوع کیلئے بائلاجی کے علماءسے رجوع کیا جائے وہ نہایت ہی مدلل طریقہ سے آپکو فلسفہ تخلیق سمجھا سکتے ہیں کہ بغیر مرد انسان کے اکیلی عورت بچہ پیدا نہیں کر سکتی، آجکل جو ٹیوب کے ذریعے بچے پئدا کرنے کی سائنس مشہور ہوئی ہے اسمیں بھی مرد اور عورت دونوں کی منی کا ملانا لازم ہے مطلب کہ تخلیق کے عمل میں انسانی جوڑا لازم ہے اسکیلئے فرمایا کہ

وَاللَّهُ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا
(11-35)

امامی علوم کی روایات نے جو مشہور کیا ہے جسکا ایک اقتباس تفسیر بیضاوی سے ہے کہ

اتا ھا جبریل متمثلا بصور شاب امرد سوی الخلق لستانس بکلامہ ولعلہ لیھیج شھوتھا فتحدر نطفتھا الی رحمھا ۔

پھر تفسیر مدارک میں ہے کہ تمثل لھافی صورۃ اٰدمی شاب امرد وطیئی الوجہ، جعد الشعر یعنی فرشتہ جبریل
ایک خوبصورت بے ریش لڑکے کی شکل میں گنگھریالے بالوں والے نوجوان کی شکل میں مریم کے سامنے آیا اسلئے کہ اسکی شہوت کو جنبش آئے جس سے اسکا نطفہ اسکی رحم میں پہنچے جس سے حمل ہو (اللہ کی پناہ ایسی تبرائی روایات سے) جناب یہاں سوال ہے کہ کیا بیبی صاحبہ اسے فرشتہ سمجھتی تھی؟ اگر ہاں تو پھر مریم تو جانتی تھی کہ ملائک ملائک ہوتے ہیں انکی ساتھ شہوت کے ہیجان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: اور اگر اسے ملائک سمجھنے کے بجائے انسان سمجھتی تھی تو یہ سراسر جھوٹ ہے جو مریم کسی نوجوان کو دیکھ کر شہوانی جذبات میں آجائے وہ اس دلیل سے کہ مریم کو اللہ نے طہرک علی نساء العالمین کے خطاب اور اعزاز سے نوازا ہے یعنی مریم اتنی پار ساتھی جو اسنے ایک بار خواب میں بھی اللہ کے ایک ملائک کو کامل الاعضاء انسانی شکل مین دیکھا تو دیکھتے ہی خواب کی حالت میں اسے وارننگ دی کہ خبردار اگر تجھے کوئی خوف خداہے تو مجھ سے ہٹ کر رہو میں آپ کے قرب سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں

فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا ۝ قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَن مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيًّا
(17-18-19)

جناب قارئین!
امامی علوم نے جتنے بھی قصے لکھے ہیں کہ مریم کو اسکے بیٹے عیسیٰ کا حمل جبریل کی پھونک مارنے سے ہوا ہے وہ ٹوٹل امامی جھوٹ اور امامی زٹلیات ہیں ایسی خرافات کا پوسٹ مارٹم حاضر ہے۔

نفخ روح
محترم قارئین!
پیدائش کے وقت انسان کے اندر روح کے پھونکنے کی بات قرآن حکیم نے کل پانچ عدد بار ذکر کی ہے، تین عدد عام جملہ انسانوں یعنی مردوں اور عورتوں کیلئے یکساں ذکر کی ہے اسکا احاطہ یوں سمجھا جائے کہ دنیا کے پہلے انسان پہلی عورت اور پہلے مرد سے لیکر دنیا کے فنا ہونے تک جو آخری مرد یا عورت پئدا ہونگے ان سب کیلئے اس بات کا ذکر تین بار ہوا ہے، چوتھی بار اور پانچویں بار کا ذکر تو جناب جناب عیسیٰ علیہ السلام کے حوالہ سے ہوا ہے ان دو بار میں سے پہلی بار

وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِن رُّوحِنَا
(91-21)
یعنی ہمنے مریم کے اندر جب اسنے شادی کی پھونکا اپنے روح میں سے، دوسری بار

وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا
(12-66)
اس آیت کریمہ میں فیھا یعنی ضمیر واحد مؤنث کے بجاء فیہ واحد مذکر لایا گیا ہے اس سے دونوں بار مراد جناب عیسیٰ علیہ السلام ہیں وہ اسطرح کہ جب فیھا والا ضمیر واحد مونث بظاہر بی بی مریم کی طرف مناسب لگتا ہے لیکن بیبی صاحبہ کا اپنا روح تو اسے اسوقت مل چکا تھا جب وہ خود اپنی ماں کے پیٹ میں جنم لے چکی تھیں، اسکو یہ روح جسکا ذکر آیات (91-21) اور (12-66) میں دو مقام پر آیا ہے اسکا تعلق اسکے حمل والے بچہ کے ساتھ ہے پھر سوال ہوسکتا ہے کہ دونوں دفعہ ضمیر واحد مذکر والا لانا چاہیے تھا، اسکا جواب یہ ہے کہ پیٹ کے اندر جو بچہ مذکر ہے اسکیلئے جب روح ڈالنے کی بات واحد مؤنث کے ساتھ کی گئی تو وہ بھی درست ہے کہ روح بچہ عیسی مذکر میں اور وہ اپنی ماں کے پیٹ کے اندر، تو بچہ کے ماں کے پیٹ کے اندر ہونے کی وجہ سے ضمیر واحد مؤنث کا بھی درست استعمال کہا جائیگا اسوقت تک یہ درست ہوگا جب تک وہ اپنی ماں کے پیٹ سے باہر نہیں نکلا،، یہ ایسا استعمال باہر متولد ہونے کے بعد درست نہیں ہوگا۔

تو نفخ روح سے مراد وہ نرینہ نوع کا نطفہ نہیں ہے جس سے مؤنث کو حمل ہوتا ہے اسلئے کہ وہ حمل والا نطفہ تو مؤنث کے اندر اسکے زوج کی طرف سے آتا ہے جبکہ روح اللہ کی طرف سے ملتا ہے جو مونہ کی طرف سے داخل کیا جاتا ہے نیچے کی طرف سے نہیں ۔ اس گذارش کے بعد آیت

والتی احصنت فرجھا فتفجنا فیھا من روحنا
سے مراد یہ ہے کہ جب مریم نے بذریعہ نکاح اور شادی کے اپنے فرج کو محفوظ و مصئون بنایا اور شوہر والی بنگئی پھر زن و شوہر کے نطفہ کے امتزاج کے بعد یہ مرحلہ آیا کہ اسکو حمل اور

فنفخنا فیہ من روحنا
(12-66)
ہم نے مریم کے پیٹ کے اندر جو کچھ تھا اسمیں اپنا روح پھونکا یہاں روح کی معنیٰ یہ نہ سمجھی جائے کہ زن و شوہر کے نطفے جن کے لئے قرآن حکیم نے فرمایا ہے

فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ مِمَّ خُلِقَ ۝ خُلِقَ مِن مَّاء دَافِقٍ ۝ يَخْرُجُ مِن بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ
(5
تا 7 -86)
یعنی لازم ہے کہ انسان غور کرے کہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے، وہ پیدا کیا گیا ہے اس پانی سے جو اچھل کر آنیوالا ہے مرد کی پیٹھ کی ہڈیوں کی جانب سے اور مؤنث کی سینہ کی ہڈیوں کی جانب سے۔

تخلیق کی اس سائنس کے انکشاف سے یہ فیصلہ قرآن نے ثابت کردیا کہ مؤنث کے پیٹ کا حمل نطفہ سے ہوتا ہے روح سے نہیں ہوتا، روح تو وہ مخصوص عطیہ ہے جو خاص انسان کی خصوصی میرٹ سے تعلق رکھتا ہے جس سے وہ ولقد کرمنا بنی آدم کے مرتبہ کو پہنچا ہے انسانی روح تو ہر مؤمن و کافر کو حاصل ہوتا ہے۔ اور قرآن حکیم میں روح القدس، روح الامین، روحامن امرنا کے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں تو روح القدس اور روحا من امرنا کی معنی علم وحی ہےاور روح الامین کی معنیٰ جبریل سے،

امامی علوم کے مفسرین جو لوگ قرآن کی تفسیر امامی روایات کے تابع کرتے ہیں اور وہ جو کہتے ہیں کہ مریم کے اندر جبریل نے روح کو پھونکا، انکی یہ بات عقل نقل دونوں کے خلاف ہے قرآن حکیم میں تخلیق آدم کے حوالہ سے تین بار مؤمن اور کافر جملہ انسانوں کے لئے اللہ پاک نے فرمایا کہ

فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي ( 72-38 ) (9-32) 29-15)
یعنی ہربار فرمایا کہ انسان میں جب میں نے اپنے روح میں سے پھونکا۔

تو ان آیات کریمہ سےجبریل کیلئے کوئی ایک بھی آدمی نہیں بچتا جسکو وہ آکر روح ڈالے، اور نفخ کا لفظ قرآن حکیم میں کئی بار آیا ہے لیکن کہیں ایک بار بھی جبریل کے ساتھ اسکا استعمال نہیں ہوا،، اور یہ بات بھی سوچنے کی ہے اور امامی علوم کے دستار بند مذہب کے ٹھیکیداروں سے سوال ہے کہ قرآن میں ابھی جو حوالہ جات آپنے ملاحظہ فرمائے کہ جمیع انسانوں میں اللہ پاک اپنے روح میں سے روح پھونکنے کی بات فرما رہا ہے جن جمیع انسانوں میں سارے کافر اور اللہ کے دشمن انبیاء علیھم السلام کے دشمن سب لوگ آجاتے ہیں ان سب میں رب فرماتا ہے میں نے ان میں اپنے روح میں سے روح پھونکا ہے تو مولوی صاحبو! آپ لوگ جناب عیسیٰ علیہ السلام کے کو نسے خیر خواہ ہوئے جو اسیکیلئے آپ اللہ کی طرف سے اسمیں روح پھونکنے کا انکار کرکے اسے جبریل کے حوالے کر رہے ہو؟۔

انسان کے اندر اللہ کے روح سے کیا مراد ہے؟

روح کی مکمل تشریح اور تعریف مستقل طور پر بہت طویل ہوگی اور یہ موضوع بہت لمبا ہوگا اس مضمون میں جو کہ مختصرا مکمل کرنا ہے وہ نہیں سما سکیگا میں اسکا نہایت مختصر خلاصہ پیش کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ روح کی معنی کا حاصل مطلب عقل اور اختیار ہے۔ اسے الوہیاتی توانائی بھی تعبیر کیا گیا اس معنی کے بھی بہت سارے حواشی اور بین السطور ہیں یہ معنی جب سمجھ میں آئے گی جب سجدہ کی معنیٰ جو قرآن نے سکھائی ہے (50-16) اسے سمجھا جائیگا جو یہ ہوئی کہ او امر اور نواہی کی تعمیل اور امپلیمنٹ۔

احصان- الحصون- محصنات

احصان، کسی چیز کی حفاظت کرنا، یہ مصدری صیغہ کا وزن ہے۔

الحصن حفاظتی کوٹ قلعہ جسکا جمع حصون آیا ہے
(2-59)

اور

لَا يُقَاتِلُونَكُمْ جَمِيعًا إِلَّا فِي قُرًى مُّحَصَّنَةٍ
(14-59)
یہ بھی قلعہ بند شہروں کی معنی میں آیا ہے۔

وَعَلَّمْنَاهُ صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُم مِّن بَأْسِكُمْ
(80-21)
یہاں بھی حفاظت کی معنی میں یہ صیغہ استعمال ہوا ہے۔ سورت النور میں جو آیا ہے کہ

وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاء إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا
(33-24)
خلاصہ اور اپنی ماتحت لونڈیوں نوکرانیوں، خاندانی یتیم لڑکیوں کو جو تمہاری زیرسرپرستی میں ہیں اگر وہ ارادہ کریں اپنی حفاظت کیلئے شادی کا تو آپ انپر جبر نہ کریں شادی سے روکنے کیلئے، اس لالچ پر کہ وہ ہمیشہ تمھاری نوکرانی رہ کر تمھارے دنیاوی مفادوں کا مشینی پرزہ بنی رہیں۔

اس مقام پر تحصن کا صیغہ نکاح اور شادی کی معنوں میں آیا ہے سورت النساء میں جو آیا ہے کہ

وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ كِتَابَ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاء ذَلِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
(24-4)
خلاصہ (اگلی آیت کریم سےمحرمات عورتوں کی فہرست بتائی جا رہی ہے حرمت علیکم کے حکم سے سو اس آیت میں)

المحصنات سے مراد وہ عورتیں ہیں جو کسی کے نکاح میں شادی شدہ ہیں انکے ساتھ بھی بغیر طلاق کے اور عدۃ گذرنے کے شادی کرنا حرام ہے سواء ان لونڈیوں کے جو آپ کے معاشرہ میں پہلے رواج کے مطابق موجود ہیں یہ ہے اللہ کا قانون جو آپکے اوپر لاگو ہے۔ ان عورتوں کے علاوہ بقیہ اقسام سب حلال ہیں لیکن ان کے لئے شرط ہے کہ انہیں نکاح کرتے وقت انکا حق مہر ادا کرینگے لیکن یہ نکاح محصنین ہو مسافحین نہ ہو

محصنین کی یہاں معنی ازد واجیت کا وہ رشتہ جسمیں طلب اولاد۔ دائمی رفاقت اور طبائع کی ناموافقت سے اگر کشیدگی پئدا ہو تو جدائی کی صورت میں طلاق اور طلاق کے بعد عدت اور اگر دوران ازدواجیت وفات ہوجائے تو ورثہ کے قوانین کی روشنی میں مقرر کردہ حصہ ملکیت دینا یہ سب محصنین کی معنی میں آتا ہے

ویسے بھی نکاح و شادی بیاہ کا مقصد صرف منی کا ضائع کرنا نہیں ہوتا،

اسیلئے محصنین کے بعد فرمایا غیر مسافحین یعنی نکاح اور شادی کے مقاصد جو اوپر بیان کئے گئے انکے علاوہ عورتوں سے جو میلاپ ہوگا وہ سفح کی معنی میں ہوگا جسکی معنی ہے پانی بہانا، تو یہ زنا کے مفہوم میں بات آئیگی۔

اسکے بعد قرآن نے سفح کو ممنوع قرار دینے کے بعد پھر سے عورتوں کو نکاح میں مہر دینے کی بات کو دوبارہ لایا نئے الفاظ سے کہ

فااستمتعتم بہ منھن فاٰتوھن اجورھن
یعنی آپ جو اپنی بیویوں سے نفع حاصل کرتے ہو (جو وہ آپکا گھریلو کا کاج اور حفاظت کا کام دیتی ہیں) تو انکو انکی اجرت اللہ کی طرف سے فرض سمجھتے ہوئے ادا کرو یہاں بھی قرآن حکیم نے مہر ہی کو اجرت سے تعبیر فرمایا ہے یہ اسلئے نزول قرآن کے زمانہ میں عربی زبان کا اس دور کا یہ انکا محاورہ تھا ورنہ بیوی کوئی نوکرانی نہیں ہوتی جو خاوند کے گھر میں اجرت پر کام کرتی ہو‘‘

اسلئے آگے یہ بھی فرمایا کہ میاں بیوی شادی کے بعد اگر آپس میں خوش اسلوبی سے رہیں اور بیوی اپنے مقرر کردہ مہر میں سے رقم میں کچھ رعایت کرے تو اسمیں بھی کوئی حرج نہیں ہے اسلئے کہ قوانین خداوندی بڑی علمیت اور حکمت پر مشتمل ہیں۔

جناب قارئین!
اسکے بعد والی آیت میں

وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلاً أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ
(25-4)
میں محصنات سے مراد وہ کنواری عورتیں مراد ہیں جو اپنی عصمت عفت و پاکدامنی کی حفاظت کئے ہوئے ہیں۔

اس ساری تگ و دود سے مقصد محصنات کو جو امامی علوم والوں نے بی بی مریم کو خواہ مخوا ہ کنواراپن کی معنی میں بند کیا ہوا ہے اسکی تردید ہے، قارئین کو اسکا پس منظر سمجھانا مقصود ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ بی بی مریم کے حوالہ سے آپ ابھی ابھی پڑھکر آئے کہ دوبار قرآن نے بتایا کہ احصنت فرجھا فنفخنافیہ من روحنا، یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ شادی اور نکاح کے بغیر نفخ روح ہو نہیں سکتا، اور احصنت فرجھا کی معنی بھی شادی ہے اوپر جو ذکر ہوا کہ جمیع انسانوں عورتوں مردوں میں انکے پئدائش کے وقت ہمنے اپنا روح پھونکا ہے (9-32) (29-15) یہ تو ہوا سب کا اپنا روح یہ روح تو بی بی مریم میں اپنا والا پہلے ہی موجود ہے جب ہی تو وہ انسانی پیکر میں زندہ ہے، اب جو بحث ہے وہ ہے حمل والے بچہ کے دوسرے روح کی ہے، جو سواء زوج کے اس کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے، یہ ثبوت ہے اس ماجرا کا کہ ہر نوع مخلوق کی مؤنث کو اسی کے نوع مذکر سے ہی ولد پئدا ہو سکتا ہے غیر نوع کے مذکر سے مؤنث کو ولد پیدا نہیں ہو سکتا،، جیسے کہ امامی علوم والوں نے غیر نوع والے فرشتہ جبریل کی پھونک سے عیسی علیہ السلام کا متولد ہونا بنایا ہے۔

رہی یہ بات کہ ان امامی علوم کے دستاربند لوگوں کا یہ کہنا کہ اللہ کو تو طاقت ہے وہ ہر شی پر قادر ہے اگر وہ چاہے تو بن باپ کے کسی کو بیٹا دے سکتا ہے، تو انکی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ فیصلے بدلنے والے آپ جیسے لوگ ہیں ۔

ہماری معلومات میں کئی مثالیں ہیں جن میں کوئی ایک مثال بھی میں یہاں ذکر نہیں کرتا کہ کہ آپکی علمی مراکزسے کئی ایسی فتوائیں جاری ہوئی ہیں جو خود آپکی اپنی پہلی فتوائوں کا رد ہیں ایسے کیوں ہوا؟ کن اسباب سے ہوا؟، اگر دفتر کھلا تو پھر سنبھل کر قدم رکھنا۔ لیکن اللہ عزوجل اپنے بارے میں اعلان فرماتے ہیں کہ

مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ
(29-50)
یعنی میں اللہ اپنے فیصلوں کو، قول کو بدلا نہیں کرتا

مولوی لوگوں کا یہ کہنا کہ عیسی علیہ السلام کی ولادت بغیر باپ کے یہ کرامت اور معجزہ سے شمار کی جائے گی یہ تو ان کا قول اللہ کیلئے گالی ہوجائیگا، وہ اسلئے کہ آیت میں رب پاک نے فرمایا کہ میں اگر اپنے قوانین بدلوں گا تو یہ بندوں پر ثلم ہوجائیگا اور میں ظالم نہیں ہوں اسکے باوجود مولوی لوگ بضد ہیں کہ ولادت عیسیٰ غیر فطری ہوئی ہے،،

مزید یہ کہ قانون تخلیق کے متعلق مستقل طور پر خصوصیت کے ساتھ فرمایا کہ

فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
(30-30)
یعنی اللہ کا قانون پیدائش وہی ہے جسپر لوگ پیدا ہوتے ہوئے آرہے ہیں، لاتبدیل لخلق اللہ، اللہ کے قانون تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں آنی۔

إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ كَمَثَلِ آدَمَ
قرآن حکیم کی اس علمی تمثیل کہ اللہ کے ہاں عیسیٰ کی تخلیق ایسے ہے جسطرح آدم کی پیدائش ہے۔

اس قرآنی رہنمائی کو بھی قرآن دشمن روایت پرست گروہ نے آدم و عیسیٰ دونوں کی پئدائش کو غیر فطری اور اللہ قانون تخلیق کے مطابق نہیں مانا جو

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى
(13-49)
ہے یعنی ہم نے جمیع انسانوں کو نر و مادہ کے امتزاج سے بنایا،

اس قانون کو امامی علوم کے فرقوں والے باء پاس کرکے جاتے ہیں، میری یہ بات سمجھنے کیلئے امامی علوم کے ایک مغالطے کو سمجھنے اور اور اپنی معلومات کو درست کرنے کی ضرورت ہے، جو مغالطہ یہ ہے کہ علم روایات کے ذریعے یہ ڈھکو سلہ مشہور کیا گیا ہے کہ اٰدم صرف پہلے پیدا ہونے والے شخص کا نام ہے۔ اور ملائکہ کو جو حکم دیا گیا کہ اٰدم کو سجدہ کرو اور وہ آدم جو مسجود ملائک تھا ۔ صرف وہ پہلا والا اکیلا آدمی مسجود ملائک آدم نامی تھااور بس،،

جبکہ قرآنی حقیقت یہ ہے کہ کائنات کے پہلے آدمی سے لیکر قیامت تک آخری پیدا ہونے والے انسان تک سارے کے سارے جملہ لوگ جملہ انسان آدم ہیں، اور یہ سارے آدم مسجود ملائکہ ہیں، اٰدم صرف پہلے اکیلے آدمی کا نام نہیں ہے، آدم جملہ انسانوں کا نوعی نام ہے، اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کا نام آدم رکھے یا رکھتے بھی ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ثبوت یہ ہے کہ اللہ عز وجل نے خود اپنی کتاب قرآن میں جملہ انسانوں کا اجتماعی اور نوعی نام آدم رکھا ہے،، ملاحظہ فرمائین!

وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلآئِكَةِ اسْجُدُواْ لآدَمَ
(11-7)
یعنی ہمنے پہلے آپکو تخلیق کیا، (تخلیقی مراحل کی تکمیل کے بعد) پھر ہمنے آپکی تصویر بنائی پھر روح پھونکی، پھر ہمنے ملائکہ کو کہا کہ اب اٰدم کا حکم مانو، آدم کے حکم کی تعمیل کرو۔

اب ذرا تخلیقی مراحل پر نظر کریں جنکے لئے فرمایا گیا کہ

ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ
(14-23)
یعنی اور ہمنے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا پھر ہمنے اسکو مضبوط ٹھیرنے کی جگہ میں نطفہ بناکر رکھا، پھر ہم نے نطفہ کو لوتھڑا بنایا، پھر اس لوتھڑے سے گوشت کا ٹکڑا بنایا پھر اس گوشت کے ٹکڑے میں ہڈیاں بنائیں، پھر ان ہڈیوں کو پہنایا گوشت، (یہاں تک بات ہوئی آیت (11-7) کے جملہ ولقد خلقنا کم کے تفصیل کی،

پھر آگے جو فرمایا کہ ثم صورنا کم اسکی بالفاظ دیگر اس (14-23) کے مقام پر تعبیر فرمائی کہ ثم انشاٗناہ خلقا آخر، میں نے جو آیت (11-7) کے حوالہ سے سجدہ کی معنی کی کہ اٰدم کا حکم مانو،، آدم کے حکم تعمیل کرو،، اس معنی کا حوالہ قرآن سے ملاحظہ فرمائیں!

وَلِلّهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ مِن دَآبَّةٍ وَالْمَلآئِكَةُ وَهُمْ لاَ يَسْتَكْبِرُونَ ۝ يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ،
(49-50-16)
یعنی آسمانوں اور زمین کی جملہ مخلوق جانوروں اور ملائکوں سمیت اللہ کو سجدہ کرتی ہیں اور وہ سجدہ کرنے سے تکبر نہیں کرتیں، اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں جو حاکم ہے اور اسکے جملہ احکام کی تعمیل کرتے ہیں تو سجدہ معنی ثابت ہوئی ’’حکم کو ماننا اور اسپر عمل کرنا ۔

اٰدم فرد واحد کا نام نہیں یہ جمیع انسانوں کا نوعی نام ہے


اب پھر سے آیت کریمہ

وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلآئِكَةِ اسْجُدُواْ لآدَمَ
(11-7)
پر غور فرمائیں کہ اللہ عز وجل نے اس مقام پر دوبارہ جمع کے صیغہ سےجمیع انسانوں سے خطاب فرماتے ہوئے بتایا کہ تمہاری تخلیق اور تصویر سازی کے بعد ہمنے ملائکہ کو کہا کہ اب آدم کو سجدہ کرو!

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آدم کو سجدہ کرنے کے حکم سے پہلے جو خطاب ہے کہ ہمنے آپ جملہ انسانوں کو علی الانفراد پہلے تخلیقی مراحل سے گذارا پھر تم میں سے ہر ایک کی تصویر بنائی پھر نفخ روح بھی ہوا ( 72-38 ) جس سے آپ میں کا ہر ایک شخص ایک مکمل آدم بن گیا اسکے بعد ہمنے ملائکہ کو کہا کہ آدم کو سجدہ کرو! اس سے یہ بات کھل کر ثابت ہوئی کہ آدم کوئی ایک پہلے پیدا ہونے والا فرد واحد نہیں ہے۔

آدم کو ملائکہ کے سجدہ کی تفہیم
جب یہ حقیقت ثابت ہوئی کہ ہر دور میں جب جب کوئی آدمی پیدا ہوتا رہتا ہے اس اس آدمی کو علی الانفراد ملائکہ سجدہ کرتے ہیں اور قیامت تک یہ سجدہ کرنے کا سلسلہ جاری رہیگا،،

اور اس سجدہ کی جب یہ معنی نہیں ہےکہ یہ سجدہ مروج نماز والا سجدہ ہے، سجدہ کی اصل معنی ہے کائنات کو مسخر کرنا، تسخیر کائنات ایک ایسا عمل ہے جسے صرف اور صرف پہلے تو عقلمند ہنر مند ماہرین سائنس دان لوگ عمل میں لاتے ہیں، انکے ایسے اعمال کو ایجادوں سے تعبیر کیا جائےگا پہلے موجد نے اپنی ایجاد کا فارمولا پاس کیا تو اب اس فارمولے کی روشنی میں بعد والے انجنیئر جب جب اسکی نقل بنائینگے تو اس ایجاد شدہ چیزمیں جو مٹیریل کام آئیگا

اگر لوہا ہے تو اسے آگ میں پگھلانے سے اسکی جو آپ شکل بنائینگے تو اسکو آپکے لئے لوہے کا سجدہ کرنا کہا جائیگا،

اگر آگ کے بجاءخراد مشنیوں سے لوہے کے پرزہ جات بنائینگے تو بھی اسے سجدہ سے تعبیر کیا جائے گا،

اسطرح لکڑی، پلاسٹک ہوا، زراعتی پیداوار کی جملہ اشیاء پھر وہ بیج ہوں، اناج ہو، فروٹ ہو کپاس ہو، ایسی سب چیزین ایگری کلچر سائنس میں اگر ہم زمین اور آسمان کے بیچ کو خلا کہیں (جبکہ اس طرح کہنا بھی غلط ہے، کیونکہ سائنس نے بتایا کہ کوئی چیز خالی نہیں ہوتی،نظر میں آنیوالا خلا یہ خالی نہیں ہےیہ مادی، مائع اور گیسز کے اقسام سے بھرا ہوا ہے، ہر اسپیس مختلف الفوائد گیسوں سے بھرا ہوا ہے، ان جملہ بھری ہوئی چیزوں کو ملائکہ کی تشریح کا حصہ بھی کہنا چاہئے،

سجدہ آدم کی اس مختصر تشریح سے یہ ثابت ہوا کہ ملائکہ کا آدم کو سجدہ اسکی ہنری کاریگری عمل اور ایجادوں سے منسلک ہے اگر کوئی انسان، کوئی آدم کوئی آدمی اپنی زندگی کو صرف کھانے پینے، سونے عیاشی کرنے جاگنے، گھومنے اور فضولیات تک محدود بناتا ہے اور ایجادات کے جہان سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا، انسانی تمدن اور اسکے مفادات اور ضروریات کی کفالت کیلئے کچھ نہیں کرتا اور سوچتا، تو وہ حیوان ہے ایسے انسان نما آدمی کو حیوان سمجھنا چاہیے، کیونکہ انسانی مفادات اور ضروریات کیلئے جو کوئی آدمی عمل نہیں کریگا، تو ایسے نکمے بے ہنر آدمی کو کائناتی اشیاء جو کہ ملائکہ کی بڑی مفصل تشریح کے زمرہ میں آتی ہیں وہ سجدہ کیسے کرینگی۔

اسی سجدہ آدم کی تفہیم میں یہ بات لازمی طور پر آگئی کہ قیامت تک پئدا ہونے والے جملہ انسانوں کو مسجود ملائکہ آدم کہاجائیگا، اس کلیہ کے بعد دوسرا، کلیہ کہ اے لوگو ہمنے آپکو کونر اور مادہ کے امتزاج سے پیدا کیا۔ (13-49) اب ان حقائق کے ذیل میں آیۃ کریمہ

إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ كَمَثَلِ آدَمَ
(59-3)
یعنی عیسیٰ کے پیدا ہونے کی مثال اللہ کے نزدیک ایسے ہے جیسے سارے آدم سب لوگ، سارے انسان،ٹوٹل آدمی ۔

اس آیت کریمہ (59-3) کی تفہیم کے بعد موضوع سے ہٹ کر بھی ایک گذارش کرتا چلوں کہ امامی علوم کی ایجاد کردہ روایات جنکو یہ لوگ احادیث رسول کے نام سے لوگوں کو منواتے ہیں جبکہ جناب رسول خاتم الانبیا علیہ السلام

وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى ۝ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى
(3-4-53)
قانون قرآن کے خلاف کوئی بھی بات نہیں فرماتے تھے،

سو ان امامی علوم کے دستار بند فاضلوں نے یہ حدیث مشہور کی ہوئی ہے کہ پہلا پہلا آدم (مذکر نر) پیدا ہوا تھا اسکے بعد پھر اسکی پسلی سے اسکی بیوی حوا نامی پیدا ہوئی تھی۔

جناب قارئین
ان کی یہ حدیث کئی ساری حدیثون کی طرح بگڑے ہوئے تو رات یعنی عہدنامہ عتیق سے نقل کرکے گھڑی ہوئی ہے،، جبکہ قرآن حکیم میں اللہ پاک فرماتا ہے کہ

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاء
(1-4)
یعنی اے انسانو! ڈرو اپنے پالنھار کے (قانون تخلیق میں تحریف کرنے سے) جس پالنھار اور رب نے آپ لوگوں کو (پہلے پہل) تو پیدا فرمایا نفس مؤنث (بقول انکے حوا سے) اسکے بعد اس مؤنث سے پیدا کیا اسکے زوج (شوہر بقول ان روایات پرستوں کے آدم کو) اور دونوں سے پھیلائے کئی مرد اور عورتیں۔

قارئین! لوگ تخلیق آدم سے متعلق اسرائیلی گھڑاوت کے تابع اس قرآن مخالف حدیث سے قیاس کریں بقیہ جملہ احادیث کو بھی۔

یہاں اخیر میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر قرآن حکیم کے بقول اگر پہلے پہل عورت ہی پیدا ہوئی ہے اور ہم قرآن کو اگر مانیں بھی سہی تو وہ قرآن حکیم کا اعلان کہ ہمنے آپکو نر و مادہ سے پیدا کیا۔ تو اس پہلی پیدا ہونے والی عورت پر یہ قانون تو لاگو نہیں ہوا، سو میں نے خود یہ مسئلہ سمجھنے کیلئے ایک بائلاجی اور زولاجی کے ماہر پروفیسر سے رجوع کیا تو اسنے اپنے سبجیکٹ کے علمی دلائل اور حوالہ جات سے مکمل طرح سے مطمئن کیا اور سمجھایا کہ آج بھی اللہ کا تخلیقی عمل

وَخَلَقْنَاكُمْ أَزْوَاجًا
( 8-78 )
ہمنے آپکو جوڑا جوڑا کرکے بنایا،

جاری ہے، یعنی کل یوم ھو فی شان
( )
یزید فی الخلق مایشاء
( )
اور اس کلیہ کی روشنی میں حیاتیات کے جرثوموں کے جو انواع ہیں انکی شروعاتی پہلی پراڈکشن مؤنث جرثومہ کی ہوتی ہے جسمیں تخلیق کے دوران ہی ایسی ڈبل پئداواری صلاحیت ہوتی ہے جو اسکی اپنی پیدائش کے ساتھ ساتھ اسکے اندر تولیدی مادہ کا ایسا جرثومہ ہوتا ہے جو وہ بیک وقت مؤنث کے ساتھ اسمیں مذکر کا بیج بھی ہوتا ہے لیکن ان دونوں جرثوموں کےمعرض وجود میں آنے کا ابتدائی ظہور مؤنث کا ہوتا ہے اسکے بعد اسی کی طرح اسمیں پہلے سے قانون تخلیق ربی کے مطابق ودیعت کردہ مذکر جرثومہ والا بیج اپنے پراسس کے مطابق اس مؤنث کے پیٹ سے نکل آتا ہے

اس بات کو اس طرح بھی سمجھا جائے کہ پیدا ہونے کی ترتیب میں تو تقدم و تاخر ہوا لیکن ابتدائی آفر ینش اصل میں عورت کی ہےاور یہ عمل دائمی نہیں ہوتا یہ صرف کسی نوع مخلوق دابۃ الارض اور حشرات الارض کے جرثوموں کی شروعاتی پئدائش کے وقت ہوتا ہے جو انکے جوڑے نر و مادہ کے آجانے کے بعد و خلقنا کم ازواجا کا ظاہری اور مروج سٹم شروع ہوجاتا ہے،

مؤنث کے نطفہ میں کبھی کبھار مذکر طبیعت کے آثار آج بھی غالب آجاتے ہیں جو کئی ساری عورتوں کے جنس تبدیل کرانے کے مثال ڈاکٹری تاریخ میں موجود ہیں جسکو تیسری جنس کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے

لیکن یہ تیسری جنس والے افراد بھی قانون تخلیق یعنی باپ سے پیدا ہونے والے ہوتے ہیں

سو غور کیا جائے کہ جب پولٹری فارم کا چوزہ بھی بغیر نر کے پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں میں اپنی کوتاہی کا بھی اقرار کرتا چلوں کہ میں اپنے اس ماہر حیاتیات پروفیسر کی تفہیم اور لیکچر کو اسکے سمجھانے کے مطابق باقائدہ پیش نہیں کر سکا، جسے یہ مسئلہ سمجھنا ہو تو اسے لازم ہے کہ ایسے سائنسی مسائل میرے جیسے اناڑی فاضل درس نظامی مولویوں کے بجاءکسی کنسلٹ ماہر سے جاکر سمجھے۔

قصہ پیدائش عیسیٰ میں چند اہم قرآنی الفاظ کی تفہیم


فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا،
(17-19)
یعنی ہمنے مریم کی طرف اپنے روح کو بھیجا جسنے تمثیل اختیار کی مکمل انسانی شکل کی

اس آیت کریمہ کے دو لفظوں کے مفہوم پر متنازعہ قسم کے بحث ہوتے ہیں ایک روح دوسرا، تمثل، سو روح کی معنی تو اگلی آیت نمبر 19 نے صاف کردی کہ

قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا
(19-19)
یعنی مریم کو خواب میں دکھائی دینے والے ربانی روح نے کہا کہ انا رسول ربک یعنی میں آپکے رب کا فرستادہ ہوں پیغام پہنچانے والا ہوں،

اور سورت آل عمران کی آیت کریمہ

إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ
(45-3)
یعنی جب کہا ملائکہ نے کہ اے مریم تحقیق اللہ آپکو بشارت دیتا ہے اپنے ایک کلمہ (فیصلہ) کی جسکا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا،

تو یہ ملائکہ بھی سورت مریم کی آیت (17-19) میں فارسلنا الیھا روحنا،، کے روح کی معنوی تفہیم ہے،

باقی رہا اسی آیت میں کئی مفسرین، ملائکہ اور مریم کی یہ گفتگو بیداری کی صورت میں قرار دیتے ہیں جبکہ لفظ تمثل جو ہے وہ اپنے مصدری خاصیت کے حوالہ سے خواب میں جو صورتحال بنتی ہے یعنی ایک چیز پہلے دندھلی غیر واضح پھر آہستہ آہستہ مکمل انسانی کامل شکل اختیار کرنا یہ خواب میں کسی چیز کو دیکھنے کی مرحلوں والی کیفیت ہے،

عالم بیداری میں ایسے نہیں ہوتا وہاں یکبارگی میں ہر چیز اصل شکل میں سمجھ میں آجاتی ہے،

آگے آیت نمبر (20-19) میں بشارت ملنے کے بعد ملائکہ کو بی بی مریم کے جواب کہ

أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا
(20-19)
پر بھی لوگ غور کرنے کا حق ادا نہیں کرتے جبکہ اس جواب میں بی بی صاحبہ نے صاف صاف بیٹے پیدا ہونے کی دوہی سورتیں بتائی ہیں، ایک مس بشر نکاح سے دوسرا مس بشر (بغیا) بغیر نکاح کے اور ان دونوں صورتوں سے وہ اس وقت تک دور تھی تو ملائک کے جواب میں بچہ جننے کا حل اور پراسیس بتایا گیا، ایک حل جو بتایا کہ کذالک،، یعنی آپکو بیٹا ایسے ہوگا جسطرح جگ جہان کی عورتوں کو ماؤن کو ہوتا ہے رہا مسئلہ شادی اور مس بشر کے ذریعہ سے بیٹا پیدا ہونے کا، سو آپکے رب کا فرمان ہے کہ

هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ
(21-19)
یہ مسئلہ میرے لئے آسان ہے اسلئے نکاح اور شادی کرنے میں آپ جو ہیکل کی رسومات اور قوانین کو رکاوٹ سمجھ رہی ہیں۔ آپ تو ان بوگس قوانین سے ٹکر کھانے والی نڈر اور مقابلہ کرنے والی خاتون ہیں، آپکا حوصلہ بہت بلند ہے، جو ہم شاہدی دیتے ہیں کہ

وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ
(12-66)
مریم عمران کی بیٹی وہ ہمت والی) ہیں جو اسنے (نکاح کے ذریعہ) حفاظت کی اپنی شرمگاہ کی، (پھر جب اسکو حمل ہو ا بیٹے کا) تو اس کے حمل والے بیٹے میں ہم نے اپنا روح داخل کیا (پھونکا) اور مریم کوئی ایسی ویسی نن اور راسبہ نہیں تھی، وہ تو ڈنکے کی چوٹ قوانین (ربوبیت کی تصدیق کیا کرتی تھی، اور قوانین کے کتابوں کی تصدیق کیا کرتی تھی اور وہ ہمارے فرمانبرداروں کی فہرست میں سے تھی۔

محترم قارئین!
بی بی مریم کو اولاد میں سے عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کو اللہ عزوجل نے جناب زکریا علیہ السلام کے بیٹے یحیٰ علیہ السلام کی پئدائش کے ساتھ سورہ آل عمران اور سورہ مریم میں ملاکر بیان کیا ہے۔

اسمیں ایک بہت ہی اہم تعلیم ہے جس تعلیم سے پیدائش عیسیٰ سے متعلق یہودی ملاؤں اور مسلم لٹریچر کے امامی ملاؤں کے مغالطوں کے جوابات ملتے ہیں ان خرافات کے خلاف جو یہودی دشمنوں نے بی بی مریم کو معاذاللہ زنا سے ناجائز طریقہ سے بن باپ کے بیٹا عیسیٰ پیدا ہونے کی گالییں دیں

پھر وہ یہودی دشمنان علم وحی بھیس بدل کر کبھی عیسائی بنکر انجیل کی تعلیمات کو بگاڑا، تو کبھی مسلم امت کے امام بنکر قرآن حکیم کے قوانین کو توڑنے کیلئے جناب رسول خاتمی المرتبت کے نام سے رد قرآن والی حدیثیں انکی طرف منسوب کیں یہ حق سچ کے علم پر ظلم کا سلسلہ عالمی استحصالی عفریتوں کی سرپرستی میں ابھی تک جاری ہے۔

قانون تخلیق کے مطابق عیسیٰ کی پیدائش کا ذکر قرآن میں
جناب زکریا علیہ السلام نے اپنے لئے بیٹے پیدا ہونے کی اللہ سے دعا کی اور بی بی مریم کو بن مانگے اللہ نے بیٹا دینے کی اس کےساتھ بات کی ۔زکریا علیہ السلام کی دعا قبول ہوئی اور جب بیٹے کے پیدا ہونے کی اسے خوشخبری سنائی گئی تو اسنے تسلی کیلئے جواب میں اپنے بڑھاپے اور بیوی کے بانجھپن کا ذکر کیا کہ ایسے حال میں بیٹا کیسے پئدا ہوگا تو اسکو اسکی اہلیہ کے بانجھپن دور کرنے کے علاج کی طرف رہنمائی کرکے فرمایا کہ

وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ
(90-21)
اللہ کے اس جواب سے یہ رہنمائی ملی کہ زکریا کی بانجھ بیوی ہو یا مریم جس کا ابھی نکاح نہیں ہوا تھا ان دونوں کو بیٹا تو ملے گا لیکن وہ اسباب کے دائمی ابدی اصولوں کے ماتحت ملیگا ذکریاکی بیوی کا علاج ہوگا تو مریم کو قانون تخلیق نر و مادہ کے امتزاج والے (13-49) سسٹم کی روشنی میں شادی کرنی پڑیگی، پھر اس سسٹم کی طرف زکریا اور مریم دونوں کو رہنمائی دینا وہ بھی ایک ہی لفظ سے زکریا نے اپنے ہاں بیٹا ہونے کو مشکل سمجھ کر بیماریوں کے عذر پیش کئے تو جواب ملا کہ کذالک یعنی جس طرح جگ جہان کے لوگ اپنی بیماریوں کا علاج کرواکر تندرست ہوتے ہیں اسطرح آپ بھی اسباب کی طرف توجہ دیں، پھر جب بی بی مریم کو جب بیٹا دینے کی خوشخبری سنائی گئی تو اس نے بھی کہا کہ مجھے بیٹا کیسے ہوگا میں تو غیر شادی شدہ ہوں، تو اسے بھی جواب میں فرمایا گیا کہ کذالک، یعنی آپکو بھی بیٹا اسطرح پیدا ہوگا جسطرح جگ جہان کی عورتیں نکاح کرتی ہیں پھر انکو شوہروں سے انہیں اولاد ہوتی ہے۔

اب امامی علوم کے دستاربند لوگوں نے کذالک والے جواب سے اگر بی بی مریم کے قصہ میں معنی چھومنتر یعنی بغیر شوہر کے جبریل کی پھونک سے بیٹا ہونے کی معنی کی ہے تو کذالک کا لفظ جو زکریا علیہ السلام کے سوال کے جواب میں آیا ہے تو وہان اسکی معنی کیا ہوگی؟

اگر کسی امامی عالم کی آنکھوںمیں پانی نہ ہو اور وہ یہ فرمائے کہ جناب زکریا علیہ السلام کی بیوی کو بھی بغیر اسباب کے صرف دعا سے بیٹا یحی علیہ السلام ملا ہے تو اسکی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ پھر سورت انبیاءمیں اللہ نے جناب زکریا علیہ السلام کی بیوی کیلئے یہ کیوں فرمایا کہ

وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ
(90-21)
یعنی ہمنے زکریا علیہ السلام کی بیوی کے بانجھ پن کا (بذریعہ علاج) اصلاح کر دیا۔

سورۃ اٰل عمران کی آیت 47 میں بی بی مریم کو جب بیٹے کی خوشخبری سنائی گئی اسنے اسے محال سمجھتے ہوئے کہا کہ مجھے جب کسی بنی بشر نے چھوا تک بھی نہیں تو بیٹا کیسے ہوگا جواب میں اللہ نے فرمایا کہ کذالک اللہ یخلق ما یشاء جواب میں اس جملہ کا اضافہ کرکے اللہ نے قانون تخلیق کی طرف اشارہ کیا کہ آپکو بیٹا اس قانون کی تعمیل سے ملیگا، اور وہ قانون تو آپ نے پڑھا کہ مذکر و مؤنث کے جوڑے کے امتزاج سے اولاد پیدا ہوتی ہے (13-49) اس موقعہ پر لفظ کذ الک کے بعد قانون تخلیق کے حوالہ کو ملاکر جواب دینے سےکذالک کی معنی کا بھی تعین ہوگیا، کذالک کی معنی ہوئی قانون تخلیق کے مطابق، یعنی جس طرح اوروں کو اولاد ملتی ہے آپکو بھی اسیطرح ملے گی،

یہی سوال سورت مریم میں جب جناب زکریا علیہ السلام نے کیا کہ میری بیوی بانجھ میں بوڑھا ہمیں کسطرح بیٹا ہوگا؟ تو اسے بھی جن الفاظ میں قانون تخلیق کی طرف متوجہ کیا گیا تو وہ الفاظ یہ تھے یہاں بھی پہلے لفظ کذالک فرمایا گیا اسکے بعد فرمایا کہ

وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِن قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئًا
(9-19)
یعنی میں نے آپکو جب پیدا کیا تو آپ اس سے پہلے کچھ بھی نہیں تھے تو آپکی پیدائش جس زن وشوہر والے سسٹم سے ہوئی ہے آپکے بیٹے کی پیدا ئش بھی اس طرح ہوگی۔

محترم قارئین
کئی امامی علوم والے مفسرین قرآن میں جناب یحیٰ علیہ اسلام کی پیدائش کا قصہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کی پئدائش کے تفاصیل کے ساتھ ملاکر قدر مشترک والی رہنمائی پر بہت کم ہی لکھتے ہیں، اسلئے اب اس مقام پر بھی جناب زکریا علیہ السلام کو جو جواب دیا گیا ہے کہ آپکو جو بیٹا ہم عطا کر رہے ہیں آپ اسپر کیوں تشویش کرتے ہیں کہ وہ کس طرح ملے گا، کیا آپ اپنی خود کی پیدائش کی طرف توجہ نہیں کرتے؟

جو ہم نے آپکو عدم سے وجود میں لایا ہے اپنے قانون تخلیق سے، یعنی آپکو بیٹا دینے کیلئے بھی وہی قانون لاگو ہوگا، رہا بانجھ پن کا عارضہ اور آپکا بڑھاپا تو واصلحنا لہ زوجہ سے اللہ جل جلالہ نے علاج معالجہ کی بات کردی، جس سے معاملہ کو کراماتی اور معجزاتی بنانے کا دروازہ بند ہوگیا۔

مزید اس جڑوان قصہ میں ایک ہی سورت مریم کی آیت (9-19) میں جب زکریا علیہ السلام اپنے اور اپنی بیوی کے طبعی عارضوں کی وجہ سے کہتے ہیں کہ

أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ
(8-19)
اے میرے رب ہمارے ان حالات میں مجھے لڑکا کیسے ملے گا تو اللہ پاک نے جواب میں فرمایا کہ ھو علی ھین، یہ کام تو میرے لئے آسان ہے پھر اس آسانی کا بھی مفہوم اور طور طریقہ ایک تو اگلے جملہ ھو علی ھین کے بعد قانون تخلیق کا ذکر کیا کہ جس طرح میں نے خود آپکو پئدا کیا (یاد رکھا جائے کہ زکریا علیہ السلام بن باپ کے پئدا نہیں ہوئے تھے) یعنی بشمول زکریا علیہ السلام کے جملہ انسانی کائناتی کھیتی نسلوں کی پئدائش کو قانون تخلیق کے جملہ سے پہلے ھو علی ھین سے یہ اشکال سمجھانا کہ بچہ دینا یہ کونسا مشکل مسئلہ ہے یہ تو میں اپنے قانون سے ہر روز ہر گھڑی سلسلہ توالد کو چلا رہا ہوں رہا معاملہ طبعی عارضوں کا تو اسکیلئے بھی اصلاح کی ہسپتالوں کا سلسلہ قائم ہے

(90-21)
میں اس جملہ ھو علی ھین کو بار بار اسلئے دہرارہا ہوں جو یہی جملہ جب بی بی مریم کے بعینیہ اسی سوال کہ انی یکون لی غلام۔ سوال کے الفاظ زکریا علیہ السلام کی جانب بھی یہی ہیں جواب میں پھر جب بی بی مریم کو بھی بعینہ وہی الفاظ بتائے گے جو زکریا کو جواب دیا گیا کہ ھو علی ھین

(21-19)
اس جوابی جملہ کی معنی امامی علوم کی مافیا والے لکھتے ہیں کہ اے مریم آپکو بغیر شوہر کے بیٹا دینا میرے لئے آسان ہے یہ کام میرے لئے مشکل نہیں ہے، دنیا کے علم و عقل والوں کو استدعا کرتا ہوں کہ اسی جملہ ھو علی ھین کو قصہ زکریا میں لایا گیا ہے تو وہاں جواب میں قانون تخلیق اور طبعی عارضوں سے علاج کا ذکر کیا گیا ہے اور جب بی بی مریم کے اس جیسے ہی سوال کہ انی یکون لی غلام کا جواب بھی دونوں کو دیتے جانے والے جملہ ھو علی ھین سے دیا جاتا ہے تو بی بی مریم کے جواب میں اسکی معنی کراماتی معجزاتی بغیر شوہر سے نکاح کرنے کے چھو منتر والی کی جاتی ہےاور جبریل کی پھونک کا افسانہ گھڑا جاتا ہے!!

قرآن حکیم کی علمی عدالت امامی علوم کی مافیائی تعبیرات کے سارے ڈھکوسلوں کا رد کرتی ہے، ویسے اگر دنیا والے ہمت کریں اور اپنی علمی درسگاہوں اور فکری اداروں کو

قُلْ هَـذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللّهِ وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
(108-12)
جناب رسول علیہ السلام کے اس اعلان کہ میں اور میرے پیروکار بصیرت والے علم و عقل کی باتوں کی دعوت دیا کرینگے اس اعلان کے مطابق مدارس اور یونیورسٹیوں کے نصاب تعلیم کو علم و عقل کے تابع کرکے کراماتی خانقاہی امامی علوم کا صفایا کرکے و ما انا من المشرکین کی تقاضا پر عمل کریں تو ہماری نسلوں کو ذہنی غلامی سے نجات مل سکتی ہے ورنہ دنیا والے لوگ انتظار کریں اس گھڑی کا جب یہ دولتمند مافیا والے اپنے کرائے کے عبا و قبا پوش دانشوروں سے جو ہمیں جاہل بنا رہے ہیں ان سب کیلئے جب انقلاب قیامت کے وقت حکم دیا جائے گا کہ

خُذُوهُ فَغُلُّوهُ ۝ ثُمَّ الْجَحِيمَ صَلُّوهُ
(31-69)
یعنی انکوپکٹر کر دوزخ میں ڈالو (میں یہاں لفظ صلوہ کی امامی علوم والوں کی صلوۃ بمعنی نماز نہیں کر رہا کہ انکو دوزخ میں نمازین پڑھاؤ)

بہرحال یہ حکم عالمی استحصالی سرمایہ داروں اور انکے دانشوروں کیلئے ہے جو وہ وہاں اپنے لئے جب دوزخ میں ڈالے جانے کا حکم سنیں گے تو کہیں گے کہ افسوس جو

مَا أَغْنَى عَنِّي مَالِيهْ
(28-69)
میری دولت تو مجھے کسی کام نہ آئی۔ اور جو دنیا میں اقتدار والے تھے یا کرایہ کے اہل علم دانشورون کے وہ جھوٹے کراماتی علمی فلسفے جنکے بل بوتے پر وہ علمی دنیا پر چھائے ہوئے تھے میں کہینگے کہ

هَلَكَ عَنِّي سُلْطَانِيهْ
(29-69)
میرے اقتدار کا دبدبہ یا میری علمی دلائل کا غلبہ اور دھاک آج تو خس و خاشاک ہوگئی بربادی ہوگئی۔

جناب یحیٰ علیہ السلام کے قرآنی تعارف کا ایک جملہ: وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا (12-19)
یعنی ہم نے یحیٰ کو بچنے کی عمر میں ایسی ذہانت عطا کی جو وہ لوگوں کے الجھے ہوئے معاملات کے فیصلے کرنے کی صلاحیت والا بن گیا جناب عیسیٰ علیہ السلام کا قرآن سے تعارف( ولادت سے پہلے

إِذْ قَالَتِ الْمَلآئِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ ۝ وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلاً وَمِنَ الصَّالِحِينَ
(45-3)
تعارفی کلمات یہ ہیں، دنیا میں عیسیٰ کی نبوت و آمد اللہ کے فیصلوں میں سے ایک فیصلہ ہے۔ اسکا نام مسیح عیسیٰ ہوگا، کنیت ابن مریم ہوگی،

تحریف شدہ انجیل اور عیسائی لٹریچر نے جناب عیسیٰ علیہ السلام کی دنیاوی زندگی ایک دربدر اور سوائیوں والی زندگی لکھی ہے۔

انکی تردید میں قرآن نے فرمایا کہ وہ دنیا اور آخرت میں وجیہ اور مقربین میں سے ہوگا اور لوگوں کے ساتھ مہد (جھولے) یعنی بچپنے اور جوانی کی عمر میں مسائل حیات سے متعلق کھری کھری باتیں کریگا، اور صالحین میں سے ہوگا، اس آیت کریمہ میں عیسیٰ علیہ السلام کے تعارف میں جھولے کی عمر میں لوگوں کے مسائل پر بولنا، اور جناب یحیٰ السلام کی تعارفی خصوصیت کہ وہ بھی صبی یعنی بچپنے میں فیصلوں کو سمجھنےاور کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا یہ مماثلت اسلئے کی گئی کہ مافیائی علموں والے اگر عیسیٰ کے بارے میں مہد جھولے کی عمر کو محاورہ والی عمر کا نوخیز جوان سمجھنے کے بجاءسال چھہ ماہ کا بچہ سمجھتے ہیں تو ہم نے جب یحی کی عمر کیلئے صبی کا لفظ استعمال کیا ہے تو پھر یحیٰ کو عیسیٰ کی طرح کیوں سال ڈیڑھ سال کی عمر والا نبی نہیں کہتے؟

جبکہ جیسا صبی یحیٰ ایسا عیسیٰ ۔ اصل میں صبی تو بجاءلغوی معنی کے محاورے، کے طور پر نوخیز جوانی کیلئے استعمال کیا گیا ہے، اسکی کوئی کراماتی معنی نہیں ہے اور عیسیٰ علیہ السلام کے تعارف میں مہد جھولے کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور وہ یحیٰ کے تعارف میں نہیں ہے وہ بھی اسلئے کہ اللہ کے علم میں تھا کہ آئندہ چلکر عیسیٰ کے مخالف مذہبی ٹھیکیدار عیسیٰ کے بارے میں کہینگے کہ ہمارے مقابلہ میں یہ تو کل کا جھولے میں جھولنے والا بچہ ہے اس کے ساتھ ہم کیوں بات کریں،، اس لئے اللہ نے بھی آپکے محاوروں کی بات کو نقل کیا ہے (63-51) ورنہ عیسیٰ اور یحیٰ کا لفظ صبی سے تعارف تو یکسان ہے، عیسیٰ کا صبی کی عمر میں بولنا معجزہ ٹہرے اور یحیٰ کا نہیں تو یہ ان کا کیسا انصاف ہوا،، اسکے باوجود امامی علوم کے علماء لوگ اٰیت

قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَن كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا
(29-19)
میں لفظ کان کی معنی زمانہ حال کی کرتے ہیں جبکہ یہودیوں کے پنڈت پادری لوگ عیسیٰ کے بارے میں یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ یہ موجودہ وقت میں جھولے میں ہے یہ لوگ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم عیسیٰ کے ساتھ کیوں بات کریں جبکہ یہ ہمارے مقابلہ میں کل ہی کی تو بات ہے جو ہمارے سامنے یہ جھولے میں جھولتا تھا ، مطلب کہ اس آیت میں جھولے اور مہد کی بات زمانہ ماضی سے تعلق رکھتی ہے حال سے نہیں سو کان صیغہ پر غور کیا جائے، رہی بات لفظ صبی (بچہ) کی تو اسمین جیسا یحیٰ ویسا عیسیٰ۔

وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا (20-19)
بی بی مریم کا ملائکہ سے بیٹے کے ملنے کی خوشخبری کے بعد یہ استفسار اور سوال کہ مجھے کسی بشر نے بھی نکاح کے ذریعے نہیں چھوا اور نہ ہی میں بدکار ہوں، اس جواب سے معجزہ پسند لوگ لم یمسنی کی معنی ماضی اور مستقبل دونوں زمانوں کی لیتے ہیں جو کہ غلط ہے، یہاں صرف ماضی میں مس بشر کا رد اور انکار ہے، پھر جناب مریم کا یہ کہنا کہ میں کوئی بغیا، آوارہ بدکار عورت نہیں ہوں، اس جواب سے مریم کی طبعی رضا، مقابل پہلو کیلئے یعنی مستقبل میں مس بشر کے لئے جائز فطری نکاح اور شادی والے طریقہ اور سسٹم کو تسلیم کرنے اور قبول کرنے کاعندیہ مل جاتا ہے،، انکار نہیں ملتا۔

No comments:

Post a Comment