Wednesday, January 2, 2013

امام بخاری کا رسول اللّٰہ پر ایک آزاد انسان کو آٹھ سو درہم میں بیچنے کا الزام


امام بخاری کا رسول اللّٰہ پر ایک آزاد انسان کو آٹھ سو درہم میں بیچنے کا الزام

امام بخاری کا رسول اللّٰہ صلے اﷲ علیہ و سلم پر ایک آزاد انسان کو آٹھ سو درہم میں بیچنے کا الزام

عن جابر قال بلغ النبیؐ ان رجلامن اصحابہ اعتق غلاما عن دبرلم یکن لہ‘ مال غیر ہ‘ فبا عہ بثمان مأ ۃ درہم ثم ارسل بثمنہٖ الیہ ۔
 بخاری شریف کتاب الاحکام باب نمبر1166حدیث نمبر2053

: خلاصہ
 حضور اکرم ؐ کو خبر ملی کہ اس کے صحابہ میں سے ایک شخص نے اپنے مدبرغلام کو آزاد کردیا ہے اور اس صحابی کے پاس پیچھے اور کوئی ملکیت بھی نہیں ہے۔ پھر رسول اللہ نے اس آزاد کردہ غلام کو آٹھ سو درہم میں بیچ کر قیمت اس صحابی کو بھیج دی ۔

81 - احکام کا بیان : (82)
لوگوں کے مال اور جائیداد کو امام کے فروخت کرنے کا بیان۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نعیم بن نحام کی طرف سے بیع کی ہے۔
حدثنا ابن نمير حدثنا محمد بن بشر حدثنا إسماعيل حدثنا سلمة بن کهيل عن عطائ عن جابر بن عبد الله قال بلغ النبي صلی الله عليه وسلم أن رجلا من أصحابه أعتق غلاما له عن دبر لم يکن له مال غيره فباعه بثمان مائة درهم ثم أرسل بثمنه إليه
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2096                حدیث مرفوع           مکررات  28   متفق علیہ 14
 ابن نمیر، محمد بن بشر، اسماعیل، سلمہ بن کہیل، عطاء، حضرت جابر سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر ملی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے ایک غلام کو ہدیہ کردیا اس کے پاس اس کے سوا اور کوئی مال نہ تھا، چنانچہ آپ نے اس کو آٹھ سو درہم میں بیچ دیا پھر آپ نے اس کی قیمت اس کے پاس بھجوادی۔
Narrated Jabir:
The Prophet came to know that one of his companions had given the promise of freeing his slave after his death, but as he had no other property than that slave, the Prophet sold that slave for 800 dirhams and sent the price to him.

71 - قسموں اور نذروں کا بیان : (101)
کفارہ میں مکاتب اور ام ولد اور مدبر اور ولد الزنا کے آزاد کرنے کا بیان۔ اور طاؤس نے کہا کہ مدبر اور ام ولد بھی کافی ہوگا۔
حدثنا أبو النعمان أخبرنا حماد بن زيد عن عمرو عن جابر أن رجلا من الأنصار دبر مملوکا له ولم يکن له مال غيره فبلغ النبي صلی الله عليه وسلم فقال من يشتريه مني فاشتراه نعيم بن النحام بثمان مائة درهم فسمعت جابر بن عبد الله يقول عبدا قبطيا مات عام أول
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1652               حدیث مرفوع           مکررات  28   متفق علیہ 14
 ابوالنعمان، حماد بن زید، عمرو، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ انصار میں ایک شخص نے اپنے غلام کو مدبر کیا اور اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی مال نہ تھا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر ملی تو آپ نے فرمایا کہ اس کو مجھ سے کون خریدتا ہے، نعیم بن نحان نے آٹھ سو درہم کے بدلے میں اس کو خرید لیا، میں نے نابر بن عبداللہ کو کہتے ہوئے سنا کہ وہ ایک قبطی غلام تھا اور پہلے ہی سال مر گیا۔
Narrated 'Amr:
Jabir said: An Ansari man made his slave a Mudabbar and he had no other property than him. When the Prophet heard of that, he said (to his companions), "Who wants to buy him (i.e., the slave) for me?" Nu'aim bin An-Nahham bought him for eight hundred Dirhams. I heard Jabir saying, "That was a coptic slave who died in the same year."

29 - قسموں کا بیان : (88)
مدبر کی بیع کے جواز کے بیان میں
حدثنا أبو الربيع سليمان بن داود العتکي حدثنا حماد يعني ابن زيد عن عمرو بن دينار عن جابر بن عبد الله أن رجلا من الأنصار أعتق غلاما له عن دبر لم يکن له مال غيره فبلغ ذلک النبي صلی الله عليه وسلم فقال من يشتريه مني فاشتراه نعيم بن عبد الله بثمان ماة درهم فدفعها إليه قال عمرو سمعت جابر بن عبد الله يقولا عبدا قبطيا مات عام أول
صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 1845    حدیث مرفوع           مکررات  28   متفق علیہ 14
 ابوربیع، سلیمان بن داود عتکی، حماد یعنی ابن زید، عمرو بن دینار، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انصار میں سے ایک آدمی نے اپنے غلام کو مدبر بنا لیا اور اس کے پاس اس کے علاوہ مال نہ تھا یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسے مجھ سے کون خریدے گا تو نعیم بن عبداللہ نے یہ غلام آٹھ سو درہم میں خرید لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ غلام اسے دے دیا عمرو نے کہا میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ وہ غلام قبطی تھا اور (حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے) پہلے سال میں فوت ہوا۔
Jabir b. 'Abdullah said that a person among the Ansar declared his slave free after his death, as he had no other property. This news reached the Apostle of Allah (may peace be upon him) and he said: Who will buy him from me? And Nu'aim b. al-Nahham bought him for eight hundred dirhams and he handed them over to him. 'Amr (one of the narrators) said: I heard Jabir b. 'Abdullah as saying: He was a Coptic slave, and he died in the first year (of the Caliphate of 'Abdullah b. Zubair).

26 - غلام آزاد کرنے کا بیان : (43)
جو شخص اپنے غلاموں کو جو ثلث سے زائد ہوں آزاد کردے تو کیا حکم ہے؟
حدثنا أحمد بن حنبل حدثنا إسمعيل بن إبراهيم حدثنا أيوب عن أبي الزبير عن جابر أن رجلا من الأنصار يقال له أبو مذکور أعتق غلاما له يقال له يعقوب عن دبر ولم يکن له مال غيره فدعا به رسول الله صلی الله عليه وسلم فقال من يشتريه فاشتراه نعيم بن عبد الله بن النحام بثمان ماة درهم فدفعها إليه ثم قال إذا کان أحدکم فقيرا فليبدأ بنفسه فإن کان فيها فضل فعلی عياله فإن کان فيها فضل فعلی ذي قرابته أو قال علی ذي رحمه فإن کان فضلا فهاهنا وهاهنا
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 566               حدیث مرفوع           مکررات  28   متفق علیہ 14
 احمد بن حنبل، اسماعیل بن ابراہیم، ایوب، ابوزبیر، جابر فرماتے ہیں کہ ایک انصاری شخص جس کا نام ابومذکور تھا نے اپنے ایک غلام کو آزاد کر دیا، یعقوب کہتے ہیں کہ مدبر بنایا تھا، اور اس کے پاس غلام کے علاوہ کوئی مال بھی نہیں تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس غلام کو بلوایا اور فرمایا کہ اسے کون خریدے گا؟ نعیم بن عبداللہ بن النحام نے آٹھ سو درہم میں اسے خرید لیا اور وہ درہم آپ نے انصاری کو دے دئیے اور فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی فقیر ہو جائے تو اسے چاہیے کہ اپنے نفس سے شروع کرے (یعنی اگر کچھ اللہ کے راستہ میں دینا چاہتا ہے تو اپنے آپ کو دے) پس اگر اس میں سے کچھ بچ جائے تو اپنے عیال پر خرچ کرے پس اگر اس میں بھی زیادتی ہوجائے تو اپنے عزیز و اقا رب پر خرچ کرے یا فرمایا کہ ذی رحم محرم اقا رب پر خرچ کرے پس اگر اس میں بھی زیادتی ہوجائے تو اِدھر ادھر خرچ کرے۔

44 - خرید و فروخت کے مسائل و احکام : (257)
مدبر کی بیع سے متعلق
أخبرنا زياد بن أيوب قال حدثنا إسمعيل قال حدثنا أيوب عن أبي الزبير عن جابر أن رجلا من الأنصار يقال له أبو مذکور أعتق غلاما له عن دبر يقال له يعقوب لم يکن له مال غيره فدعا به رسول الله صلی الله عليه وسلم فقال من يشتريه فاشتراه نعيم بن عبد الله بثمان ماة درهم فدفعها إليه وقال إذا کان أحدکم فقيرا فليبدأ بنفسه فإن کان فضلا فعلی عياله فإن کان فضلا فعلی قرابته أو علی ذي رحمه فإن کان فضلا فها هنا وها هنا
سنن نسائی:جلد سوم:حدیث نمبر 957       حدیث مرفوع           مکررات  28   متفق علیہ 14
 زیاد بن ایوب، اسماعیل، ایوب، ابوزبیر، جابر سے روایت ہے کہ ایک انصاری شخص نے کہ جس کا نام ابومذکور تھا اپنے غلام کو کہ جس کا نام یعقوب تھا اپنی وفات کے بعد آزاد کر دیا (یعنی اس طریقہ سے کہہ دیا کہ میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہے شریعت میں ایسے غلام کو مدبر بتانا کہا جاتا ہے) رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو بلایا اور فرمایا اس غلام کو کون شخص خریدتا ہے چنانچہ حضرت نعیم بن عبداللہ نے اس کو خرید لیا آٹھ سو درہم میں پس وہ آٹھ سو درہم انہوں نے ادا کر دیئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جس وقت کوئی شخص محتاج ہو تو وہ پہلے اپنی ذات سے شروع کرے پھر اگر کچھ بچ جائے تو ادھر ادھر غرباء میں خرچ کرے۔
It was narrated from ‘Aishah that Barirah came to ‘Aishah asking her to help her with her contract of manumission. ‘Aishah said: “Go back to your masters, and if they agree to let me pay off your contract of manumission, and let your loyalty be to me, then I will do it.” BarIrah told her masters about that, but they refused and said: “If she wants to seek reward (with Allah) by freeing you, let her do so, but your loyalty will be to us.” She told the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم i. about that, and the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said to her: “Buy her and set her free, and loyalty belongs to the one who set the slave free.” Then the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم a: said: “What is the matter with people who stipulate conditions that are not in the Book of Allah? Whoever stipulates something that is not in the Book of Allah, it is not valid even if he stipulates one hundred conditions. The condition of Allah is more deserving of being followed and is more binding.” (Sahih)

105 - نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان : (82)
مدبر غلام کو بیچنا جائز ہے یا نہیں ؟
وعن جابر : أن رجلا من الأنصار دبر مملوكا ولم يكن له مال غيره فبلغ النبي صلى الله عليه و سلم فقال : " من يشتريه مني ؟ " فاشتراه نعيم بن النحام بثمانمائة درهم . متفق عليه . وفي رواية لمسلم : فاشتراه نعيم بن عبد الله العدوي بثمانمائة درهم فجاء بها إلى النبي صلى الله عليه و سلم فدفعها إليه ثم قال : " ابدأ بنفسك فتصدق عليها فإن فضل شيء فلأهلك فإن فضل عن أهلك شيء فلذي قرابتك فإن فضل عن ذي قرابتك شيء فهكذا وهكذا " يقول : فبين يديك وعن يمينك وعن شمالك
مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 578                           
 اور جابر کہتے ہیں کہ ایک انصاری نے اپنے غلام کو مدبر کیا اور اس کے پاس اس غلام کے علاوہ اور کوئی مال نہیں تھا ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " اس غلام کو مجھ سے کون خریدتا ہے ؟ چنانچہ ایک شخص نعیم ابن نحام نے اس غلام کو آٹھ سو درہم کے عوض خرید لیا ۔ ( بخاری ومسلم ) مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ " چنانچہ نعیم ابن عبداللہ عدوی نے اس غلام کو آٹھ سو درہم کے عوض خرید لیا ۔ انہوں نے آٹھ سو درہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ درہم اس شخص کو دے دیئے ( جس کا وہ غلام تھا ) اور فرمایا کہ تم اس رقم کو سب سے پہلے اپنی ذات پر خرچ کرو اور اس کے ذریعہ ثواب حاصل کرو اور اس کے بعد اگر کچھ بچ جائے تو اس کو اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو ، اگر ان پر خرچ کرنے کے بعد بھی بچ جائے تو رشتہ داروں پر خرچ کرو اور اگر ان پر خرچ کرنے کے بعد بھی کچھ بچ جائے تو اس کو اس طرح اور اس طرح خرچ کرو ۔ راوی کہتے ہیں کہ اس طرح سے مراد یہ ہے کہ اس کو اپنے آگے  اپنے دائیں اور اپنے بائیں خرچ کرو ( یعنی تمہارے لئے آگے اور دائیں بائیں جو سائل جمع ہوں ان کو اللہ واسطے دے دو ) ۔ "

تشریح :
 " مدبر " کرنے کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص اپنے غلام سے یہ کہہ دے کہ تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو ، چنانچہ اس حدیث کے ظاہری مفہوم کے مطابق ایسے غلام کو بیچنا حضرت امام شافعی اور حضرت امام محمد کے نزدیک جائز ہے ، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ مدبر دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو مدبر مطلق اور دوسرا مدبر مقید ۔ مدبر مطلق تو وہ غلام ہے جس کا مالک اسے یوں کہے کہ میرے مرنے کے بعد تم آزاد ہو ۔ اور مدبر مقید وہ غلام ہے جس سے اس کا مالک یوں کہے کہ اگر میں اس بیماری میں مر جاؤں تو تم آزاد ہو ۔ " مدبر مطلق کا حکم تو یہ ہے کہ ایسے غلام کو آزادی کے علاوہ کسی اور صورت میں اپنی ملکیت سے نکالنا مالک کے لئے جائز نہیں ہے یعنی وہ مالک اس غلام کو آزاد تو کر سکتا ہے لیکن نہ تو اس کو فروخت کر سکتا ہے اور نہ ہبہ کر سکتا ہے ، ہاں اس سے خدمت لینا جائز ہے ، اسی طرح اگر لونڈی ہو تو اس سے جماع کرنا بھی جائز ہے اور اس کی مرضی کے بغیر اس کا نکاح کرنا بھی جائز ہے ایسا غلام اپنے مالک کے مرنے کے بعد اس کے تہائی مال میں سے آزاد ہو جاتا ہے اور اگر تہائی مال میں سے پورا آزاد نہ ہو سکا ہو تو پھر تہائی مال کے بقدر ( جزوی طور پر ہی آزاد ہوگا ) مدبر مطلق کے برخلاف مدبر مقید کو بیچنا جائز ہے اور اگر وہ شرط پوری ہو جائے یعنی مالک اس مرض میں مر جائے تو پھر جس طرح مدبر مطلق اپنے مالک کے مر جانے کے بعد آزاد ہو جاتا ہے اسی طرح مدبر مقید بھی آزاد ہو جائے گا ! لہٰذا امام ابوحنیفہ اس حدیث کے مفہوم میں تاویل کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مدبر کو فروخت فرمایا وہ مدبر مقید ہوگا ۔
مشکوٰۃ کے تمام نسخوں میں نعیم ابن نحام لکھا ہے لیکن علماء نے یہ وضاحت کی ہے کہ یہ کتابت کی غلطی ہے اصل میں نعیم ہی کا دوسرا نام نحام ہے ، اس دوسرے نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں نعیم کی نحمہ ( یعنی آواز سنی ) " اس مناسبت سے انہیں نحام کہا جانے لگا ۔ "

1 - ا ب ج : (26407)
حضرت جابر انصاری کی مرویات۔
حدثنا الفضل بن دكين حدثنا شريك عن سلمة يعني ابن كهيل عن عطا وأبي الزبير عن جابر أن رجلا مات وترك مدبرا ودينا فأمرهم رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يبيعوه في دينه فباعوه بثمان ماة
مسند احمد:جلد ششم:حدیث نمبر 810       حدیث مرفوع          
 حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی فوت ہوگیا اس نے ایک مدبر غلام چھوڑا اور مقروض ہو کر مرا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کے غلام کو اس کے قرض کے عوض بیچ دو چنانچہ لوگوں نے اسے آٹھ سو درہم کے عوض فروخت کردیا۔

1 - ا ب ج : (26407)
حضرت جابر انصاری کی مرویات۔
حدثنا محمد بن عبيد حدثنا إسماعيل عن سلمة بن كهيل عن عطا بن أبي رباح عن جابر قال بلغ رسول الله صلى الله عليه وسلم أن رجلا من أصحابه أعتق عبدا له عن دبر ولم يكن له مال غيره فباع رسول الله صلى الله عليه وسلم العبد بثمان ماة ودفعه إلى مواليه
مسند احمد:جلد ششم:حدیث نمبر 848       حدیث مرفوع          
 حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا کہ ان کے کسی صحابی نے اپنے مدبر غلا م کو آزاد کردیا ہے اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی بھی مال نہ تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلام کو آٹھ سو درہم کے بدلے بیچ دیا اور اسے اس کے آقا کے حوالے کردیا۔

روایات  کا  اختلاف  بتاتا  ہے  کہ یہ  سب  جھوٹ  گھڑا  گیا  ہے۔
لوگوں کے مال اور جائیداد کو امام کے فروخت کرنے کا بیان۔

تبصرہ: معزز قارئین کرام !
 قرآن حکیم نے رسول اللہ کی شان میں فرمایا ہے کہ :
وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ
 آپؐ کو اس لئے مبعوث کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کی گر دنوں سے غلامی کے طوق نکال پھینکے ۔
الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (7:157)
وہ جو (محمدﷺ) رسول (الله) کی جو نبی اُمی ہیں پیروی کرتے ہیں جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ انہیں نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں۔ اور پاک چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹہراتے ہیں اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان (کے سر) پر (اور گلے میں) تھے اتارتے ہیں۔ تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور انہیں مدد دی۔ اور جو نور ان کے ساتھ نازل ہوا ہے اس کی پیروی کی۔ وہی مراد پانے والے ہیں۔
 جبکہ مذکورہ بالا حدیث میں صاف طور پر لکھا ہے کہ صحابی نے اپنے غلام کو آزاد کردیا تھا ۔ اب کوئی بتائے کہ کیا کسی مالک کو اپنی ملکیت میں تصرف کرنے کا حق نہیں ہے؟ اور اس نے اپنے ہوش و حواس کی سلامتی میں جب اس میں تصرف کیا تو اس کا فیصلہ اور حکم نافذ ہوگیا ۔ اس کا غلام آزاد ہوگیا ۔ اب کسی کو اس آزاد شخص کو پھر سے غلام بنانے کا حق کہاں سے ملا ؟ غلامی تو آزاد انسانوں کو میدان جنگ میں لڑائی کے دوران قیدی بناکر لاگو کرنے کا رواج تھا ۔ جسے ختم کرنے کے لئے قرآن حکیم نے ا علان فرمایا کہ :
 
مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى
یعنی اب نبی کو بھی اختیار نہیں ، اجازت نہیں کہ وہ کسی کو قیدی بنائے۔
مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ۚ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (8:67)
پیغمبر کو شایان نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی رہیں جب تک (کافروں کو قتل کر کے) زمین میں کثرت سے خون (نہ) بہا دے۔ تم لوگ دنیا کے مال کے طالب ہو۔ اور خدا آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے۔ اور خدا غالب حکمت والا ہے۔
 تو اب یہ اہل فارس بخاری ، سمر قندی ، ازبک لوگ امام کہلواکر رسول اللہ پر جھوٹی حدیثوں سے دنیا والوں کو بتارہے ہیں کہ میدان جنگ تو کیا محمد ؐ تو گھر بیٹھے مدینے میں بھی آزاد کردہ غلام کو پھر سے پکڑ کر غلام بنا کر آٹھ سو درہم میں بیچ دیتے تھے ۔
یہ حدیثیں گھڑنے والوں کا جھوٹ ہے کیونکہ رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم خلاف قرآن کوئی بھی فیصلہ اور عمل نہیں کرسکتے تھے۔ یہ ان فارس کے اماموں کے کرتب ہیں۔
ہمارا  محمد  ؐ  تو  غلاموں کو آزادی دلانے آیا تھا۔ یہ جھوٹی حدیثیں گھڑنے پر امام کہلانے والے اس ہنر مندی سے دنیا والوں کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ قرآن ایسی کتاب ہے جس پر عمل کرنا مشکل ہے ۔ اس پر عمل نہیں کیا جاسکتا ۔ دیکھو کہ یہ کتاب جس رسول پر نازل کی گئی ہے وہ خود بھی اس پر عمل پیرا نہیں ہے۔ وہ خود بھی اس کے خلاف عمل کررہا ہے اس لئے اس کتاب کی تلاوت صرف ثواب کمانے کے لئے کیا کرو کیونکہ ایک ایک حرف پر دس نیکیاں ملیں گی ۔ باقی رہا عملی زندگی کے قوانین کا مسئلہ تووہ پنج امامی فقہی ٹولے نے ان حدیثوں سے فقہی استدلال کرکے نابالغ بچوں کی شادی جائز کردی ہے ۔ غلامی کو پھر سے جائز کردیا ہے ۔
 دلہا کی طرف سے دلہن کو دیے جانے والے مہر کے معنی انہوں نے ملک بضعہ یعنی قیمت فرج قرار دے کر لکھنؤ کے چاندنی چوک، بازار مصر اور لندن کی پکاڈلی کی گلیوں اور بقول شورش کاشمیری اس بازار کے کلچر کو اپنی امامت کی محرفانہ ویٹو پاور سے مصدقہ کرکے رسالت اور نبوت کے مشن کو جامد کردیا ۔
یہ لوگ جب رسولؐ اللہ جیسی ہستی پر خلاف قرآن عمل کرنے کے جھوٹ گھڑ رہے ہیں تو ان کے لئے حدیثیں بناتے وقت رجال
 کی جھوٹی سندیں بنانا کون سا مشکل عمل ہے۔ یہ تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔

از قلم : عزیزاللہ بوھیو
Azizullah Bohio

No comments:

Post a Comment