Thursday, April 25, 2013

ایم ٹی وی سے مکہ تک عمران خان



ایم ٹی وی سے مکہ تک عمران خان
shafresha shafresha آف لائن ہے22-04-13, 11:37 PM

ایک زمانے میں تہمینہ درانی کی خود نوشت ’’مائی فیودل لارڈ‘‘ کا بہت چرچا ہوا۔۔۔ تو میں نے بھی اسے پڑھنا یا پرکھنا ضروری سمجھا۔ اس کتاب کی خوبیاں اگرچہ کم تھیں لیکن اسے پڑھنے کے بعد ملک غلام مصطفی کھر کے بارے میں میری رائے پہلے سے بہت بہتر ہو گئی۔ بلکہ میں کسی حد تک ان کے کردار کے ایک پہلو کا معترف ہو گیا جس کی تفصیل اس مختصر تحریر میں بیان کرنا ممکن نہیں۔

کچھ اس طور پر میں نے جب جرمن نو مسلم خاتون کر سٹین بیکر کی ضخیم کتاب ’’فرام ایم ٹی وی ٹو مکہ‘‘ کا مطالعہ کیا تو میری نظروں میں اس کے سابقہ محبوب عمران خان کا وقار بڑھ گیا۔ اگر کراچی لٹریری فیسٹول میں اس کتاب کی ترویج کرنے والے ایک صاحب مجھے اس کے تحفے سے نہ نوازتے تو میں یقیناًایک نہایت دلچسپ اور اسلام کی ہمہ گیر سچائی کی تلاش میں سر گرداں ایک خاتون سے بے خبر رہ جاتا۔

کرسٹین یورپ کے سب سے پسندیدہ میوزک چینل ایم ٹی وی میں ایک کھلنڈری، اپنے بدن کی نمائش کرنے والی ایسی چلبلی میزبان تھی جس کی ایک دنیا مداح تھی۔۔۔ مغرب کے ایسے گلوکار اور موسیقار جن کی پوجا کی جاتی ہے اس کے شوز میں مہمان ہوتے تھے اور وہ شب و روز اس شہرت اور چکا چوند میں رقصاں تھی۔۔۔ اس دوران کسی پارٹی میں اس کی ملاقات ہمارے عمران خان سے ہو جاتی ہے اور وہ یورپ کی دیگر حسیناؤں کی مانند اس پر مر مٹتی ہے۔ بقول کرسٹین، عمران خان ایک ماڈل، ایک سپورٹس مین اتنا ہینڈ سم تھا کہ لڑکیاں مکھیوں کی مانند اس پر گرتی تھیں کہ کاش یہ میری ایک شب سنوار دے۔

چنانچہ شدید محبت کی ایک کہانی شروع ہو جاتی ہے۔ کرسٹین کا کہنا ہے کہ ہم دونوں اتنے سنجیدہ تھے کہ ہمارے درمیان طے پا چکا تھا کہ ہمارے بچے مسلمان ہوں گے۔ کرسٹین متعدد بار عمران خان کے ہمراہ پاکستان آئی، اُس کے ہاں زمان پارک کی رہائش گاہ میں قیام کیا۔ اُس کی ہمشیرگان سے ملاقات کی اور پھر خان صاحب کے ہمراہ پاکستانی شمال میں کوہ نوروی کے لیے گئی اور اکثر مرتے مرتے بچی۔۔۔ مجھے یاد ہے ایک بار جب میں اپنی کوہ نورد ٹیم کے ہمراہ شمال کے راستے میں اپنے محبوب دریائے سندھ کے کنارے بشام کے پی ٹی ڈی سی موتل میں شب بسری کے لیے رُکا تو وہاں کے منیجر اور میرے دوست شیرستان نے مجھے بتایا کہ ابھی چند روز پیشتر عمران خان بھی آئے تھے اور حسب معمول نہایت دل کش مغربی خواتین کے ہمراہ آئے تھے۔ میں نے پوچھا، سندھ کے کنارے شام ہو تو اُس شام میں خان صاحب کچھ شغل وغیرہ بھی تو کرتے ہوں گے تو شیرستان کہنے لگے ’’نہیں وہ کم از کم شراب نہیں پیتے تھے‘‘۔ مجھے یقین نہ آیا کہ ہمارا یہ کاسا نووا مئے لالہ فام کا ایک گھونٹ بھی نہ بھرتا ہو یہ کیسے ممکن ہے۔

میرے مرحوم کوہ نوروساتھی میاں فرزند علی اکثر کہتے ’تارڑ صاحب۔۔۔ بشام میں جو آپ کا دوست موٹل انچارج ہے، اُس کا نام یاد نہیں آ رہا لیکن اس کا مطلب بہت سارے شیر ہیں‘‘ یہ شیرستان تھا۔ کرسٹین کا کہنا ہے کہ عمران نے کہا تم میرے ساتھ پاکستان کے شمال کی بلندیوں میں چلو میں گارنٹی کرتا ہوں کہ تم وہاں پہنچ کر میری محبت میں مبتلا ہو جاؤ گی اور ایسا ہی ہوا کوئی ایک شام تھی بلند پہاڑوں میں جب وہ برفیلی بلندیوں کے سائے میں خیمہ زن تھے اور سورج ڈوب رہا تھا اور تب کرسٹین نے اقرار کیا کہ میں عمران خان کے عشق میں فنا ہو گئی۔ کرسٹین اس دوران خان صاحب کے پر تعیش فلیٹ میں منتقل ہو چکی تھی اور وہ شادی کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اور پھر جانے کیوں خان صاحب یکدم بدگمان ہو گئے، اُن کی محبت سرد پڑنے لگی اور پھر یورپ کے تمام اخباروں اور ٹی وی پر ایک ہی شہ سرخی تھی کہ پلے بوائے عمران خان نے کھرب پتی خاندان کی خوش شکل جمائما سے شادی کر لی۔

کرسٹین یہ صدمہ برداشت نہ کر سکی۔ علیل ہو گئی، شدید ڈیپریشن کا شکار ہو گیا اور اس نے ہارلے سٹریٹ لندن کی ایک نہایت معروف نفسیات دان ڈاکٹر سے رجوع کیاجو ایک محل نما رہائش گاہ میں رہتی تھیں اور ملکہ الزبتھ سے ملاقات کا وقت آسانی سے مل سکتا تھا لیکن اُن سے اپائنٹ سینٹ حاصل کرنا زیادہ دشوار تھا۔ جب کرسٹین نے اُن سے اپنی داستان محبت کی ناکامی بیان کی تو اُس انگریز خاتون ڈاکٹر نے اقرار کیا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ میں بھی اسلام قبول کر چکی ہوں اور میرا اسلامی نام ڈاکٹر امنیہ ہے۔۔۔ ڈاکٹر امنیہ، کرسٹین کے لیے ایک معجزہ ثابت ہوئیں اور بعد ازاں ان دونوں نے اکٹھے حج کیا اور روضۂ رسول پر حاضری دی۔

آپ یہ جاننے کے لیے شاید کچھ بے قرار ہوں کہ آخر اس سارے قصے میں وہ کونسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے عمران خان کا وقار میری نظروں میں بلند ہوا۔۔۔ کرسٹین کا کہنا ہے کہ عمران خان ان دنوں میں نہایت باقاعدگی سے۔۔۔ ہم سب سے الگ ہو کر پانچوں وقت نماز پڑھتا تھا۔ اسلام کے ساتھ اُس کی وابستگی مکمل تھی۔ ماہ رمضان میں پورے روزے رکھتا تھا۔۔۔ اور وہ مکمل طور پر شراب سے پرہیز کرتا تھا۔ جن شبینہ محفلوں میں بہت ہلا گلا ہوتا تھا، شراب اور شباب کا خمار ہوتا تھا ان سے گریز کرتا تھا۔ وہ ہمہ وقت مجھے اسلام کی جانب مائل کرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔۔۔ ایک بار وہ مارٹن لنگز کی تحریر کردہ سیرت رسول اللہؐ مجھے پڑھ کر سنا رہا تھا تو وہ رونے لگا۔۔۔ میرے لیے یہ ایک دھچکا تھا۔۔۔ عمران جس کے جذبات کبھی اُس کے چہرے پر عیاں نہ ہوتے تھے، ہمیشہ وہ لکڑی کے چہرے کے ساتھ نہایت سنجیدگی سے دوستوں میں حرکت کرتا تھا۔۔۔ وہ عمران کیسے بے خود ہو کر آنسو بہا سکتا ہے۔ میں نے سبب پوچھا تو اُس نے کہا ’’کرسٹین مجھے اپنے پیغمبر سے اتنی محبت ہے کہ اُن کے تذکرے سے میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں‘‘۔

کیا آپ اب بھی مجھے مورد الزام ٹھہرا سکتے ہیں کہ میری نظروں میں عمران خان کا وقار اس کتاب کے پڑھنے سے مزید بلند ہو گیا۔ ایک بار کرسٹین کچھ ’مدت بعد عمران کے لنڈن کے فلیٹ میں داخل ہوتی ہے۔۔۔ شدید سردی ہے اور سنٹرل ہٹینگ کام نہیں کر رہی اور وہ سیگ ہیٹر جلانے کے لیے دیا سلائی روشن کرتی ہے۔ ایک شعلہ بھڑکتا ہے جو پورے فلیٹ کو اپنی لپیٹ میں لے کر جلا ڈالتا ہے۔ کر سٹین بمشکل اپنی جان بچاتی ہے لیکن فکر مند ہے کہ جب میں عمران کو بتاؤں گی کہ میری کوتاہی کے باعث تمہارا شاہانہ فلیٹ راکھ ہو چکا ہے تو وہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔۔۔ کچھ عرصہ بعد وہ ہمت کر کے اُسے فون کرتی ہے اور فلیٹ کی آتش زدگی کے بارے میں ڈرتے ڈرتے خبر کرتی ہے تو عمران کا ردعمل اُسے حیران کر دیتا ہے۔ وہ نہایت متانت سے لکھتا ہے ’’کرسٹین، شکر ہے کہ میرے گناہوں کی آماجگاہ آگ کے سپرد ہو گئی۔۔۔ شکر ہے‘‘۔ عمران سے علیحدگی کے باوجود کرسٹین کے رگ و پے میں وہ شعلہ بھڑکتا رہتا ہے جسے عمران نے ہوا دی تھی، وہ اپنے آپ کو قرآن پاک کی قربت میں لے جا کر اسلام کے راستے پر چلنے کے لیے وقف کر دیتی ہے۔

چنانچہ عمران خان سے علیحدگی کے باوجود ایم ٹی وی کی میزبان، یورپ بھر میں مقبول گلیمرس کرسٹین بیکر کے رگ و پے میں وہ شعلہ بھڑکتا رہتا ہے جسے عمران نے ہوا دی تھی، وہ اپنے آپ کو قرآن پاک کی قربت میں لے جا کر ان سوالوں کے جواب تلاش کرتی ہے جو ہمیشہ سے اس کے ذہن میں ابھرتے تھے۔۔۔ ایک بار وہ عمران کے فراق میں دل گرفتہ ہے تو اس کا ایک نومسلم دوست اسے کہتا ہے ’’اگر تمہاری ملاقات کسی متشرع باریش اور نہایت سنجیدہ مسلمان کے ساتھ ہوتی تو کیا تم پھر بھی اسلام کی طرف راغب ہوتی؟‘‘ تو کرسٹین نے فوراً کہا کہ ۔۔۔نہیں، ہرگز نہیں۔۔۔ اس پر اس نومسلم دوست نے اسے سمجھایا کہ تمہاری زندگی میں عمران صرف اس لئے آیا کہ اس کے حوالے سے تم اسلام کے قریب آؤ۔۔۔ قدرت کی جانب سے اس کے ذمے بس یہی فرض تھا اور اس نے یہ فرض ادا کیا اور چلا گیا۔۔۔ اس کے ذمے بس اتنا ہی کام تھا تو پھر اس کی جدائی میں دل گرفتہ ہونا جائز نہیں۔

کرسٹین کے والدین ظاہر ہے اپنی بیٹی کے اسلامی رجحان کو پسند نہ کرتے تھے کہ وہ یورپ میں مروج اسلام دشمنی کے زیراثر تھے۔ انہوں نے کرسٹین سے کہاکہ دیکھو عمران تو چلا گیا جس کی خاطر تم اس مذہب کی جانب مائل ہوئی تھیں۔۔۔ تو اب تو کوئی جواز باقی نہیں، یہ پاگل پن ترک کر دو۔۔۔ اس پر کرسٹین کا جواب تھا کہ بے شک عمران مجھے اسلام کے قریب لایا لیکن اس کے چلے جانے سے مجھے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ قرآن کی روشنی میرے دل میں اتر چکی ہے۔ اسلام کی جستجو میری زندگی میں شامل ہو چکی ہے۔۔۔

جہاں انگریز ڈاکٹر امینہ کرسٹین کے لئے راہبر ثابت ہوئیں وہاں ایک عجیب و غریب انگریز کردار گائے ایٹن، شکل سے مسخرہ لگتا، عجیب سے تنکوں کے ہیٹ میں، گلے میں مفلر ڈالے ایک سرپھرا انگریز ہر مشکل مقام پر اس کی رہنمائی کرتا کہ وہ ایک مدت سے اسلام قبول کر کے پارسائی کے صراطِ مستقیم پر چل رہا تھا۔۔۔ اسلامی تاریخ اور فقہہ پر اسے عبور حاصل تھا۔۔۔ ایک بار کرسٹین نے گائے ایٹن سے کہا ’’اسلام قبول کرنے میں کچھ رکاوٹیں ہیں۔۔۔ میں میوزک ترک نہیں کر سکتی، مجھے شمپین پسند ہے، میں پورک چاپس شوق سے کھاتی ہوں اور بھلا جنسی تعلق کے بغیر کیسے زندگی گزر سکتی ہے‘‘ تو گائے نے کیا ہی خوب صورت اور قابل عمل حل پیش کیا ’’دیکھو کرسٹین۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے آپ کو بدلنے کے لئے بہت برس دیئے۔۔۔ اس نے قرآن پاک کی پہلی آیت میں ہی تمام احکام صادر نہیں کئے کہ بس شب بھر میں تم اپنی گزشتہ زندگی اور عادتوں کو ترک کر دو۔۔۔ قرآن درجنوں برس نازل ہوتا رہا، تحمل اور بردباری سے بنی نوع انسان کو وقفے وقفے سے سمجھاتا رہا کہ تمہارے لئے بہتر کیا ہے۔۔۔ چوبیس پچیس برس میں اس نے اپنا پیغام مکمل کیا۔۔۔ اللہ تعالیٰ کو کچھ جلدی نہ تھی، دھیرے دھیرے تبدیلی رونما ہوتی رہی۔۔۔ تو تم بھی آغاز کرو اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دو اور پھر آہستہ آہستہ وقت کے گزرنے سے تم اپنی موجودہ زندگی سے جدا ہو کر اس دین کو مکمل طور پر اختیار کر لوگی۔۔۔ بس آغاز کر لو‘‘۔

کرسٹین بیکر کیسی خوش نصیب تھی کہ اسے گائے ایٹن جیسا منطقی مسلمان ملا۔۔۔ ورنہ ہماری قسمت میں تو یہی پُرخشونت اور ہولناک لوگ ہیں جو ہمیں اسلام کی روح سے برگشتہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ گائے ایٹن بسترِ مرگ پر پڑا ہے اور مسکرا رہا ہے۔۔۔ وہ ایک خواب دیکھتا ہے، سرسبز وادیوں کے درمیان میں ایک نیلی جھیل ہے جس پر رنگ رنگ کے پرندے اُڑان کرتے چہچہا رہے ہیں اور وہ کرسٹین سے کہتا ہے، میں مرنے کے لئے تیار ہوں کہ مجھے جنت کی نوید مل گئی ہے۔۔۔ ڈاکٹر امینہ اس کے سرہانے سورۃ یٰسین کی تلاوت کرنے لگتی ہے اور اس کے چہرے پر ایک مطمئن مسکراہٹ پھوٹتی ہے اور وہ اپنے اللہ کے پاس چلا جاتا ہے۔ اس کی تدفین اسلامی رسوم کے مطابق کی جاتی ہے۔۔

قصہ مختصر کرسٹین بالآخر اپنے تمام سوالوں کے پُرتشفی جواب پا کر مسلمان ہو جاتی ہے۔ اور اس کی زندگی میں بھونچال آ جاتا ہے۔ والدین کی ناراضی، پوری جرمن قوم کا طیش، دوستوں کی علیحدگی لیکن وہ ثابت قدم رہتی ہے۔ عمران خان تک جب اس کے قبول اسلام کی خبر پہنچتی ہے تو وہ اسے مبارکباد کا پیغام بھیجتا ہے۔ کرسٹین بیکر کی ’’فرام ایم ٹی وی ٹو مکہ‘‘ پڑھتے ہوئے میں نے اس کے نصیب پر بار بار رشک کیا بلکہ کسی حد تک حسد میں مبتلا ہوا کہ کیسے کیسے شاندار لوگوں سے اس کی قربت رہی مثلاً یوسف اسلام ۔۔۔ پورے یورپ اور امریکہ کے نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن، ایک سپرسٹار، ایسا گلوکار جس کے گیتوں کے البم چھ کرو ڑ سے زیادہ فروخت ہوئے۔ تب اس کا نام کیٹ سٹیونز تھا۔۔۔ ایک بار چھٹیوں کے دوران سمندر میں پیراکی کے لئے اترتا ہے اور ایک بڑی لہر اسے اچھال کر گہرے پانیوں میں لے جاتی ہے اور وہ تقریباً ڈوب جاتا ہے۔ ڈوبتے ہوئے پانیوں کے اندر صرف ایک سانس کے لئے جدوجہد کرتا کیٹ سٹیونز پکارتا ہے کہ اے خدا۔۔۔ اگر تو ہے تو مجھے بچا لے۔۔۔ میری مدد کر۔۔۔ اگر میں بچ گیا تو پوری زندگی تیرے لئے وقف کر دوں گا۔۔۔ اور اس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اسلام قبول کر کے درویشی اختیار کی لیکن راہب نہ ہوا۔
برطانیہ میں اس نے ایک طویل اور صبرآزما جدوجہد کی، عدالتوں میں اسلام کا نقطۂ نظر پیش کیا۔۔۔ اگر برطانوی حکومت آئین کے مطابق عیسائی اور یہودی مذاہب کے سکولوں کی معاونت کرتی ہے تو اسے اسلامی تدریس کے سکولوں کے لئے بھی مدد کرنا چاہئے۔۔۔ آج برطانیہ میں درجنوں اسلامی سکول قائم ہیں جو باریش ایک چوغے میں ملبوس یوسف اسلام کی سربراہی میں دنیا بھر سے آئے ہوئے برطانوی مسلمانوں کے بچوں کو اپنے مذہب کی بنیادی اقدار سے روشناس کروا رہے ہیں۔۔۔ کرسٹین بیکر کو بھی یوسف اسلام سے قربت کا شرف حاصل ہوا لیکن یہ مارٹن لنگز تھے، کرسٹین بیکر کے مرشد اور دوست جن کی رفاقت نے مجھے حسد کی آگ میں جلایا۔۔۔ ان کی سیرت کی تحقیقی کتاب ’’محمدؐ۔۔۔ قدیم حوالوں سے ان کی حیات‘‘ میری پسندیدہ ترین سیرت النبی ہے۔۔۔ جی ہاں وہی کتاب جسے پڑھتے ہوئے عمران خان آبدیدہ ہو جاتا تھا۔ ایک زمانے میں برٹش میوزیم کے اسلامی گوشے کے انچارج یہ انگریز بابا جنہیں بہت لوگ ولی اللہ مانتے ہیں۔۔۔ جن کے دراز گیسو، سفید داڑھی اور طویل چوغہ انہیں ایک ایسا روحانی روپ عطا کرتا تھا کہ وہ شکل کی وجہ سے کوئی موٹے لگتے تھے۔ ہمارے اور اپنے پیغمبرؐپر ان کا غیرمتزلزل یقین کہ جب پوچھا جاتا کہ اے الحاج ابوبکر سراج الدین کہ یہی ان کا اسلامی نام تھا، آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ بالآخر دنیا میں اسلام کا غلبہ ہو گا تو کہتے ’’چونکہ میرے پیغمبرؐ کا یہ وعدہ ہے‘‘۔

مارٹن لنگز ابوبکر سراج الدین، کرسٹین بیکر کو بہت عزیز جانتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے اس کا نکاح پڑھا اور پھر کرسٹین نے انہیں مرشد مان کر ان کے ہاتھ پر بیعت کی، وہ صوفیائے کرام کے حلقے میں داخل ہوئی اور اس ’’شیخ‘‘ کی مرید ہوئی۔ مارٹن لنگز ایک مرتبہ لاہور تشریف لائے اور انہوں نے نیشنل کالج آف آرٹس میں لیکچر دیا۔
دعوت نامہ مجھے بھی آیا لیکن اس دوپہر کچھ ایسی بدبختی ہوئی کہ میں کوشش کے باوجود وہاں پہنچنے سے قاصر رہا۔۔۔ میرے نصیب میں نہ تھا کہ میں اس عظیم صوفی کا دیدار کر سکتا جس کی شباہت آپ کے ایمان کو مستحکم کر دیتی ہے ذرا ان ’’شباہتوں‘‘ پر غور کیجئے جو ہمارے ٹیلی ویژن چینلز پر اسلام کے نام پر ہمیں مسلسل خوفزدہ کرتی ہیں میں نے اپنے اولین سفرنامے کا نام علامہ اقبال کے مصرعے ۔۔۔ نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بُو سے مستعار لیا تھا۔۔۔ ہم جیسے اس کی تلاش میں نکلتے تو ہیں لیکن زندگی بھر بھٹکتے رہتے ہیں، سوائے نامرادی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا جب کہ کرسٹین بیکر ایسے جب اس کی تلاش میں نکلتے ہیں، اس محبوب کے لئے جستجو کرتے ہیں تو بالآخر اسے پا لیتے ہیں، قسویٰ کے سوار کا دیدار کر لیتے ہیں اور اس کے پاؤں کی دھول میں دھول ہو جاتے ہیں کیسے خوش نصیب ہوتے ہیں!


مستنصر حسین تارڑ کے 20 اور 21 اپریل کے کالمز

Note: The unauthentic stuff found in Martin Ling's biography of Muhammad can be read here:

Perennialist Poison in Martin Lings' Biography of the Prophet - Abu Bilal Mustafa Al-Kanadi


آمنہ بشیر مارٹن لنگز کی کتاب۔ Muhammad کا نا قدانہ جائزہ علومِ اسلامیہ، پنجاب

Tuesday, April 23, 2013

رسول اللّٰہ پر مکھیوں کا جوس پلانے کا الزام

رسول اللّٰہ پر مکھیوں کا جوس پلانے کا الزام

کتاب بخاری کے اندر کتاب بدألخلق کے نام سے ایک باب ہے جس کا نام ہے :
 اذا وقع الذباب فی شراب احدکم فلیغسمہ فان فی احدیٰ جناحیہ داء وفی الاخری شفاء
یعنی جب آپ کے کسی مشروب میں( پانی دودھ شربت چائے وغیرہ ) کوئی مکھی گر جائے تو اسے اس مشروب میں غوطہ دے دو کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہوتی ہے اور ایک میں شفاء۔
جناب قارئین!
 اس باب کا نمبر 300ہے اور اس کے ذیل میں امام بخاری جو حدیث لایا ہے اس کا نمبر547 ہے ۔جس کی روایت ابو ہریرہ سے کرائی گئی ہے۔ اس میں وہی باب والی بات رسول اللہ کے نام سے لکھی گئی ہے کہ آپ کے کسی مشروب میں اگر مکھی پڑجائے تو اسے اس مشروب میں ڈبو دینا چاہیئے اورڈبونے کے بعد نکال کر پھینکی جائے ۔کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے دوسرے میں شفاء ۔
تنقید وتبصرہ : جناب قارئین !
 یہ حقیقت سب لوگ جانتے ہیں کہ مکھیاں پیدا ہی غلاظت سے ہوتی ہیں۔ اگر کسی کو یہ بات سمجھ میں نہ آتی ہو تو وہ بیالوجی والوں سے معلوم کرے اگر بیالوجی کا علم ہمارے مذہبی مدارس کے نصاب میں نہیں ہو تو سارے شیوخ الحدیث اور حدیث کا علم پڑھنے والے اپنے پاخانہ پر غور سے دیکھیں کہ اس پر جب مکھیاں بیٹھتی ہیں تو اس دوران پاخانہ کے اوپر انڈے یا بچے دیتی ہیں یا نہیں اور وہیں تو الد تناسل کا عمل کرتی ہیں ۔مجھے معلوم نہیں کہ آج کل ڈبلیوسی اور کموڈ کا دور ہے وہاں فنائل اور معطر اسپرے بھی شاید ہوں ۔اس وجہ سے علم حدیث کے اساتذہ اور طالب علم اس بیالوجی کے مسئلہ کا مشاہدہ کر سکیں یا نہیں۔ البتہ میں اس چیز کا مشاہدہ کر چکا ہوں کہ مکھیاں غلاظت پر بیٹھنے کے دوران سلسلہ نسل بڑھاتی رہتی ہیں ۔
جناب قارئین !
 قرآن حکیم غلاظت کیلئے فرماتا ہے کہ پہلے تو فی الفور اسے پانی سے صاف کرو ، دھوڈالو۔
فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا
 اگر پانی میسر نہ ہو تو کسی صاف قسم کے مٹی کے ڈھیلے سے صاف کرو۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ
ۚ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ مِنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (5:6)
مومنو! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو تم منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا کرو اور سر کا مسح کر لیا کرو اور ٹخنوں تک پاؤں اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہو جایا کرو اور اگر بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلا سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی لو اور اس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح (یعنی تیمم) کر لو۔ خدا تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کرے تاکہ تم شکر کرو۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا
ۚ وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا (4:43)
مومنو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو جب تک (ان الفاظ کو) جو منہ سے کہو سمجھنے (نہ) لگو نماز کے پاس نہ جاؤ اور جنابت کی حالت میں بھی (نماز کے پاس نہ جاؤ) جب تک کہ غسل (نہ) کرلو ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور پانی نہ ملنے کے سبب غسل نہ کرسکو تو تیمم کرکے نماز پڑھ لو) اور اگر تم بیمار ہو سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی لو اور منہ اور ہاتھوں پر مسح (کرکے تیمم) کرلو بےشک خدا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔
 آج کے دور میں مٹی کے ڈھیلے والی جاذبیت ٹشو پیپر میں بھی اتم درجہ پر ہے۔ اس لئے اس سے بھی صفائی کا مقصد پورا ہو سکتا ہے۔
 یہ قرآن حکیم کی ہدایت سورۃ نساء کی آیت نمبر 43 میں ہے۔ اور سورۃ مائدہ کی آیت نمبر6میں بھی ہے۔
 اب کوئی بتائے  کہ قرآن حکیم تو پاخانہ جیسی گندگی کو فی الفور دھوکر صاف کرنے کا حکم دیتا ہے اور یہ بخاراکا حدیث باز امام پاخانہ جیسی غلا ظتوں میں پیدا ہونے والی مکھی کیلئے محمد رسول اللہ کے نام پر حدیث پیش کرتا ہے  کہ یہ مکھی اگر تمہارے مشروب میں پڑجائے تو ڈبو کر اس کا عرق اور ست مشروب میں ملا کر پھر باہر نکالا جائے ۔
اگر ہم امام بخاری کی اس حدیث کو درست قرار دیں تو پھر یہ مکھی جن غلاظتوں کی رہنے والی ہے ،کیا یہ حدیث ساز امام لوگ اپنے مشروب میں وہ شامل فرمائیں گے ؟
جناب قارئین!
 اس حدیث سازی میں جو ذہنیت کار فرما ہے میں اس کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ اہل فارس کی عربوں پر آنکھ ہی نہیں پڑتی تھی۔ عرب تو ان کے یمنی گورنر کے ماتحت ذیلی محکوم قوم تھی۔ لڑائیوں میں عربوں نے فارس کو کبھی شکست نہیں دی تھی۔ لیکن جب خاتم الرسل کا انتخاب ،اللہ تعالیٰ نے عربوں میں سے کرکے ان کے ہاتھوں کائناتی منشور قرآن بھیجا تو اہل فارس کو اچھی طرح سوجھی کہ ان کو عربوں نے قادسیہ کی جنگ میں شکست نہیں دی یہ شکست انہیں قرآن کے نظریاتی  پیکج نے دی ہے۔ جس قرآن کو اللہ نے متعارف کراتے ہوئے فرمایا  کہ :
 وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ
ۙ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا (17:82)
اور ہم قرآن (کے ذریعے) سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے اور ظالموں کے حق میں تو اس سے نقصان ہی بڑھتا ہے۔
ہم جو قرآن میں سے مومنین کے لئے نازل کررہے ہیں وہ شفاء اور رحمت ہے ۔
تو اہل فارس کے شکست خوردہ امام مافیا قسم کے لوگوں نے قرآن سے نفرت کی بنیاد پر غلاظت کی مکھی کے ایک پر میں شفاء ڈال کر حدیث رسول کے نام سے چائے میں دودھ میں ملا کر ڈبو کر کہا کہ تمہاری شفاء تمہار ے رسول نے اسی میں دی ہے۔
 رج رج کے پیو۔
رسول اللہ ﷺ کی شان میں قرآن نے جو فرمایا ہے کہ یہ اپنے دادا ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا مظہر ہیں وہ دعا یہ ہے کہ ;
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ
ۚ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (2:129)
اے پروردگار، ان (لوگوں) میں انہیں میں سے ایک پیغمبر مبعوث کیجیو جو ان کو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرے اور کتاب اور دانائی سکھایا کرے اور ان (کے دلوں) کو پاک صاف کیا کرے۔ بےشک تو غالب اور صاحبِ حکمت ہے۔
یعنی اے ہمارے پالنے والے اس کعبے اور بیت کے انقلابی ہیڈ کوارٹر کو بسانے کیلئے ان میں سے کوئی ایسا رسول بھیج جو ان پر تیری وحی متلو والی آیات تلاوت کرے اور تیری کتاب وحی کی حکمت کی تعلیم ان کوسکھائے اور مکہ اور اہل حجاز کا تزکیہ کرے۔ تحقیق تو ہی غالب اور حکمت والا ہے۔
تو جناب قارئین کرام !
 کیا رسول اللہ کا تزکیہ امت والوں کیلئے غلاظت بھری مکھیوں کا عرق پلانے سے ہو گا۔
 قرآن نے رسول علیہ السلام کی شان میں فرمایا ہے کہ :
 وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ
یعنی محمد رسول اللہ اپنی اصلاحی تعلیم کے ذریعے ان پر خبیث اور پلید غلاظت بھری چیزوں کو حرام قرار دیگا ۔
الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ
ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (7:157)
وہ جو (محمدﷺ) رسول (الله) کی جو نبی اُمی ہیں پیروی کرتے ہیں جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ انہیں نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں۔ اور پاک چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹہراتے ہیں اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان (کے سر) پر (اور گلے میں) تھے اتارتے ہیں۔ تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور انہیں مدد دی۔ اور جو نور ان کے ساتھ نازل ہوا ہے اس کی پیروی کی۔ وہی مراد پانے والے ہیں۔
تو ایسی حدیث بنانے اور اسے درست سمجھ کر پڑھنے پڑھانے والوں کو قرآن کا کچھ تو حیاء کرنا چاہیئے ۔
 جوو ہ صریح قرآن دشمن روایات کے ذریعے دین اسلام کو مسخ کرنے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔
 ان روایتوں سے خود رسول اللہ کی خفت ہوتی ہے۔
 رسول جیسی ہستی دنیا والوں کے سامنے باعث تضحیک و تمسخر بن جاتی ہے۔
 لیکن کیا کریں کہ اس امامی مافیا کا بھی مقصد ہی ان حدیثوں سے یہی ثابت ہوتا ہے ۔

 عزیز اللہ بوہیو