Sunday, April 7, 2013

مسلمانوں کی جہالت کا نوحہ



مسلمانوں کی جہالت کا نوحہ (پہلا حصہ(


ہمارے مہربان دوست محترم سحر تاب رومانی کا کہنا ہے کہ سچائی اور حقیقت میں بہت فرق ہوتا ہے۔

دراصل بہت سی باتوں اور روایتوں کے بارے میں ہمارا یقین پختہ ہوجاتا ہے کہ وہ سچ ہیں اور ان کی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے ہمارے پاس بہت سی دلیلیں بھی موجود ہوتی ہیں۔

لیکن آپ کو ان کی حقیقت کے بارے میں اگر علم ہوجائے یا آپ کے سامنے کوئی ان کی حقیقت کو اُجاگر کرنے کی کوشش کرے تو شاید آپ کو اس حوالے سے حقیقت کو رد کرنا بہت مشکل ہو جائے۔

یہاں ہم دو مثالیں پیش کرنا چاہیں گے۔ ہمارے ایک پڑوسی جن کا نام فرض کرلیں کہ سلیم ہے۔ ایک روز ہم نے دیکھا کہ سلیم صاحب رات کے وقت لڑکھڑاتے ہوئے سامنے سے چلے آرہے ہیں اور اسی طرح ہمارےسامنے سے گزرے، ہم نے انہیں سلام کیا اور خیریت دریافت کی تو اُنہوں نے ہماری طرف ذرا بھی توجہ نہیں دی۔

سلیم صاحب کے حوالےسے پہلے ہی ہمارے دل میں کچھ خدشات موجود تھے، چنانچہ جب نظر ان کے ہاتھ میں ایک بڑے سائز کی سیاہ رنگ کی بوتل پر پڑی تو یہ یقین ہوچلاکہ سلیم صاحب شراب پیتے ہیں اور آج تو ہم نے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لیا تھا۔

ایک اور صاحب جن کا نام فرض کیجیے کہ شاہد ہے، ہمارے پڑوسی ہیں۔ پکے نمازی اور دیگر مذہبی شعائر کی پابندی کرنے والے، مسجد کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ہم نے خود انہیں دیکھا تھا کہ مسجد کی تعمیر میں انہوں نے اپنی جیب سے کافی بڑی رقم خرچ کی تھی۔

یہ وہ سچائیاں تھیں، جن کے ہم بذاتِ خودچشم دید گواہ تھے، لیکن ان دونوں کرداروں کے حوالے سے حقائق ان کی سچائیوں کے بالکل برعکس تھے۔

جی ہاں، جو ہم نے دیکھا، وہ سچ ضرور تھا لیکن حقیقت کچھ اور ہی تھی۔ حقیقت یہ تھی کہ سلیم صاحب اس وقت شدید بخار کے عالم میں کلینک سے دوا لے کر آرہے تھے۔ بخار کی شدّت کی وجہ سے انہیں چلنے میں دشواری ہورہی تھی۔ وہ غریب لیکن خوددار انسان ہیں، دوسری بات یہ کہ وہ مذہبی شعائر کا اس شدت سے اہتمام نہیں کرتے، جس شدت سے شاہد صاحب کرتے ہیں، اور اکثر بہت سے ایسےسوالات اُٹھاتے رہتے ہیں کہ جن سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا ایمان کمزور ہوگیا ہے۔ بعض پنج وقتہ نمازیوں کی ان کے بارے میں یہ رائے ہے کہ وہ ملحد ہوچکے ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ ان کے بارے میں پہلے ہی سے ہمارے ذہن میں منفی رائے موجود تھی اور جو کچھ ہم نے دیکھا، اس میں معنی پہنانے کا کام اسی منفی رائے کی روشنی میں ہی انجام پایا۔

دراصل سلیم صاحب بےاولاد ہیں اور ان کی اہلیہ آئے دن بیمار رہتی ہیں، اس روز خود ان کو بھی بخار تھا، لیکن انہیں اپنی ہی نہیں اپنی اہلیہ کی دوا لینے کے لیے بھی گھر سے نکلنا پڑا۔

یوں ہم نے انہیں لڑکھڑاتے قدموں سے آتے دیکھا اور تاریکی میں دوا کی بوتل ان کے ہاتھ میں دیکھ کر بغیر سوچے سمجھے ہی ان کی مہ نوشی پر مہر تصدیق ہی ثبت کر ڈالی۔

اب آئیے ان نمازی پرہیزگار شاہد صاحب کی اصل حقیقت کی جانب، ان کی حقیقت یہ ہے کہ مسجد کے برابر میں انہوں نے کافی بڑی زمین گھیر کر اس پر پوری مارکیٹ بنا ڈالی ہے، اتنی بڑی جگہ پر ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ دُکانیں اور دکانوں کے اوپر فلیٹ بنا کر کرائے پر دے رکھے ہیں۔ یہ جگہ سروس روڈ کی تھی جس پر انہوں نے ناجائز قبضہ کر لیا۔ ہمیشہ سے غفلت کی نیند سورہی ہماری حکومت کو اچانک خیال آیا کہ اس شاہراہ پر سروس روڈ تعمیر کی جائے، تو شاہد صاحب کو اپنی دکانیں اور فلیٹس کے گرائے جانے کا خدشہ لاحق ہوا۔ چنانچہ اس کا بہترین حل انہوں نے یہ نکالا کہ لاکھوں روپے مسجد کی توسیع کے لیے ہدیہ کردیے اور مسجد کی یہ توسیع سروس روڈ کی زمین پر کی گئی۔ حکومتی اہلکاروں نے جب سروس روڈ کی تعمیر شروع کی، تو وہ تعمیر مسجد کے قریب آکر رُک گئی کہ مسجد کو کیوں کر توڑا جائے؟

پھر مسجد کے مولوی نے بڑے بڑے دارالعلوم کے مفتیوں اور علامہ حضرات سے یہ فتویٰ بھی لے لیا کہ مسجد زمین سے لے کر آسمان تک ہوتی ہے، چنانچہ اس کو گرایا نہیں جا سکتا۔

اب کیا تھا وہی لوگ جو سروس روڈ نہ ہونے کی وجہ سے مصیبت میں مبتلا تھے، مسجد کو گرائے جانے کے خلاف اکھٹا ہوگئے اور ایسے کسی اقدام کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے لگے۔

سروس روڈ مکمل نہیں ہوسکی اور سوسائٹی کے داخلی راستے تک جانے کے لیے بائیک، کار اور دیگر گاڑیوں کو مین شاہراہ پر اُلٹی سمت چلنا پڑتا ہے۔ اس رانگ سائیڈ ڈرائیو کے نتیجے میں اکثر ایکسیڈنٹ بھی ہوتے ہیں، جن میں کئی مرتبہ ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ لیکن شاہد صاحب کی پارسائی قائم ہے اور شاہد صاحب پر انگلی اُٹھانے والے سلیم صاحب سے صفائی طلب کیے بغیر ان کے بارے میں انتہائی منفی رائے قائم کرلی گئی ہے۔

آپ کو ماننا پڑے گا کہ سچائی اور حقیقت میں زمین آسمان کا فرق ہوسکتا ہے۔ حقیقت کا ادراک کرنے کے لیے عدالت کا ذہن درکار ہوتا ہے، لیکن یہ بات اُس معاشرے کے لوگ کس طرح سمجھیں گے، جہاں عموماً عدالت کے پاس بھی عدالت کا ذہن موجود نہیں ہوتا۔ یہاں عدالت کے ذہن سے ہماری مُراد غیر جانبدارانہ طرزفکر ہے۔

یہ طویل تمہید ہم نے اس لیے باندھی ہے کہ اگلی سطور میں ہم جن حقائق کی پردہ کشائی کرنے جارہے ہیں، اس کے بعد بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں قائم سچائیوں کے عظیم الشان محلات کی دیواریں منہدم ہو جائیں گی۔

ایسے تمام افراد سے میری گزارش ہوگی کہ وہ خود تحقیق کرلیں، لیکن افسوس مسئلہ یہ ہے کہ تحقیق کے لیے غیر جانبدار ذہن درکار ہوتا ہے۔

جس کا ماضی پرست افراد کے پاس تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا ان کی خدمت میں انتہائی مؤدّبانہ اور نہایت معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ بلاوجہ مشتعل ہوکر اپنا خون نہ جلائیں، بلکہ ہماری گزارشات کو محض ایک ‘‘مجذوب کی بڑ’’ سمجھ کر آگے بڑھ جائیں، کہ یہ ساری گزارشات ان لوگوں کے لیے ہیں جو ماضی پرستی، اسلاف پرستی، عقائد پرستی، لفظ پرستی، روایات پرستی، ملت پرستی اور کتاب پرستی کی زنجیروں کو توڑ چکے ہیں یا توڑنا چاہتے ہیں۔
*********
سورج کا طلوع ہو کر روشنی اور حرارت پہنچانا، چاند کی کرنوں سے تاریک راتوں کا منور ہونا، برسات، زمین کی زرخیزی، سمندر کی تہہ میں پوشیدہ خزانے، سنگلاخ چٹانوں میں چھپی معدنیات، صحراؤں میں سطح زمین کے نیچے سیال سونا یعنی پیٹرولیم کے اُبلتے چشمے، غرضیکہ دنیا کے سارے وسائل نوعِ انسانی کی بھلائی کے لیے موجود ہیں۔ لیکن یہ وسائل اُن کے ہی کام آتے ہیں جو اِن وسائل کے فوائد حاصل کرنے کے لیے عقل و شعور کا استعمال کرتے ہوئے جدوجہد کرتے ہیں۔

آج سمندر مسلمانوں کے پاس بھی ہے اور ترقی یافتہ اقوام کے پاس بھی، ترقی یافتہ اقوام نے اس کی تہہ کھنگال ڈالی اور سمندر میں موجود غذائی اشیاء، سیپیاں، موتی اور نجانے کن کن قیمتی چیزوں کے ساتھ پیٹرول تک نکال رہے ہیں جبکہ مسلمان سمندر کی بیکراں وسعتوں اور انجانی گہرائیوں سے اپنے بل بوتے پر صرف مچھلیاں ہی حاصل کرسکتے ہیں، جس کی پیداوار بھی ترقی یافتہ ممالک سے کہیں کم ہے۔

زرخیز زمین غیر مسلموں کے پاس ہے تو مسلمانوں کی دسترس میں بھی کم زرخیززمین نہیں، بلکہ اگر حساب کتاب لگایا جائے تو ممکن ہے یہ بات بھی سامنے آجائے کہ مسلمانوں کی ملکیت میں موجود زمین دیگر اقوام سے زیادہ زرخیز ہے۔

چلیے مان لیتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے تو یہ دیکھنے کی ضرورت تو ہونی چاہیے کہ اپنی ملکیت میں موجود زرخیز زمین سے مسلمانوں نے کس قدر فائدہ اُٹھایا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مسلم ممالک میں صرف 5 کروڑ ہیکڑ رقبے پر کاشت ہورہی ہے اور تقریباً 20 کروڑ ہیکڑ رقبے کی زمین بے آباد اور ویران پڑی ہے۔

بڑے بڑے ترقی یافتہ ملکوں کو چھوڑیں، رقبے کے اعتبار سے ایک بہت چھوٹے ملک اسرائیل کی مثال لے لیجیے، اس ملک میں پانی کی شدید کمی ہے، پانی کی اس کمی کا حل اسرائیل کے سائنسدانوں نے یہ نکالا کہ اپنے کھیتوں کے درمیان ایک سرے سے دوسرے سرے تک بلند و بالا کھمبے Pole نصب کیے اور اُس میں باریک جال باندھ دیے۔ کُہر آلود ہوا جب اِس جال سے گزرتی، تو ننھے ننھے شبنمی قطرے جال کے باریک تاروں سے ٹکرا کر نیچے گرنے لگتے۔ قطرہ در قطرہ پانی پختہ نالیوں میں جمع ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ جب اس کی مقدار بڑھتی ہے تو بہہ کر کھیتیوں کو سیراب کر دیتا ہے۔

اسرائیل اس سسٹم کے ذریعے اتنی وافر مقدار میں سبزیاں پیدا کررہا ہے، جو اُس کی ضروریات سے کہیں زیادہ ہیں، لہٰذا یہ سبزیاں پڑوس کے اُن مسلمان عرب ممالک کو برآمد کردی جاتی ہیں، جہاں کی مسجدوں میں ہر جمعہ کی نماز کے بعد اسرائیل کی بربادیوں کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔

یہ تو خیر ایک مثال تھی۔

اگر یہاں ہم اس قسم کی مثالیں بیان کرنا شروع کردیں تو صفحات کے صفحات بھر جائیں گے اور مثالیں ختم نہیں ہوں گی، لیکن ہم یہاں مسلمانوں کی پسماندگی، بے چارگی، قدرتی وسائل کی ناقدری اور جہالت کا محض نوحہ نہیں پڑھنا چاہتے، بلکہ ہماری کوشش ہوگی کہ مسلم قوم کے زوال کے اسباب پر غیر جانبدار ہوکر گفتگو کی جائے اور پوشیدہ حقائق تلاش کیے جائیں۔

مسلم اقوام کے زوال کا ایک اہم سبب روشن خیالی کا خاتمہ، علوم و فنون کی اشاعت و ترویج میں اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں سے چشم پوشی بھی ہے۔

کسی بھی تہذیب کی اصل روح اُس کی فکری سرگرمیاں ہوتی ہیں اور جب کسی جگہ فکری سرگرمیاں ختم ہو جائیں یا ماند پڑجائیں تو تمدّن کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور پھر محض بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی مانند ایک ہجوم باقی رہ جاتا ہے، جن کی آنکھوں پر خوش فہمیوں کی سیاہ پٹی بندھی ہوتی ہے اور جن کے شب و روز ایک دوسرے کو نوچنے کھسوٹنے میں گزرتے رہتے ہیں۔

غیرجانبدار ہوکر دیکھیے تو آپ کو بھی مغربی اقوام کے بعض دانشوروں کی جانب سے مسلمانوں پر کیا جانے والا یہ اعتراض غلط محسوس نہیں ہوگا کہ مسلمانوں میں تنقید برداشت کرنے کا مادّہ بالکل نہیں ہے، بلکہ بحیثیت مجموعی مسلمانوں کی فکر میں وہ خود مختاری بھی شاید کبھی موجود نہیں رہی کہ وہ زندگی کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور اپنے تجربے اور فکر سے سمجھیں۔ ماضی پرستی کی روایت شاید ہماری بنیادوں میں پیوست ہوچکی ہے۔

ہمارے معاشروں میں تحقیق کرنے والے اذہان کیسے پیدا ہوں گے، جب جائز و ناجائز کا خوف لوگوں کے خون میں رچ بس کر اُن کے جسموں میں دوڑتا ہو؟ یہی وجہ ہے کہ بیشتر حساس موضوعات سوال بن کر ہمارے سامنے آتے ہیں تو ہم کسی نہ کسی طرح کنی کترا کر نکل جاتے ہیں۔ بجائے اپنے راستے سے پتھر ہٹانے کے، پتھر کو دیکھ کر اپنا راستہ ہی بدل لیتے ہیں۔

ہمیں تو یہ زعم ہی سر اُٹھانے نہیں دیتا کہ کبھی ہم پوری دنیا پر چھائے ہوئے تھے، لیکن کیا واقعی مسلمانوں نے کبھی اپنے ذہنی افق سے دنیائے علم و ہنر کو زیر نگیں کیا تھا؟

بالفرض یہ بات بھی حقیقت ہو تو آج ہم کیوں اپنی سوچ اور فکر کو ترقی دینے سے گریزاں ہیں؟

)
جاری ہے(
تحریر : جمیل خان حوالہ اردو ڈان ڈاٹ کام

مسلمانوں کی جہالت کا نوحہ (دوسرا حصہ(

کسی دانشمند کا مقولہ ہے کہ ‘‘مہذب ہونے کا سب سے بڑا پیمانہ ہی یہ ہے کہ کوئی معاشرہ کس حد تک اختلاف برداشت اور جذب کرتا ہے، دقیانوسی معاشروں کی واضح پہچان ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ اختلاف برداشت نہیں کرسکتے۔’’

آج ہمارے معاشرے میں کم و بیش ایسی ہی حساس صورتحال برقرار ہے اور یہ صورتحال ہمارے لیے نئی بھی نہیں۔ ہم ایسی صورتحال کو بغداد، غرناطہ، دہلی، قسطنطنیہ، ڈھاکہ، کابل، طرابلس، قاہرہ اور دیگر شہروں میں پیدا ہوتے دیکھ چکے ہیں،لیکن ہمارے اکثر علماء، دانشور، مفکر، اربابِ اختیار اس کا کوئی حتمی اور قابل عمل حل دریافت نہیں کرسکے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں سقوطِ بغداد سے لے کر تمام اسقاط سے قبل جاری رہنے والے فکری انتشار کی طرز کا انتشار برپا ہے۔ وہی معمولی معمولی باتوں پر ہنگامہ آرائیاں، فتنہ پردازیاں، عدم برداشت کا رویہ، کفر و زندیق کے فتوؤں کی روز افزوں فراوانی، یک رنگی پگڑی والا دورنگی پگڑی والے کی مسجد میں نماز ادا نہیں کرسکتا، رفع یدین کرنے اور آمین بالجہر کہنے پر مسجد میں ہاتھا پائیاں، درود و سلام پڑھا جائے یا نہ پڑھا جائے اس بات پر سرپھٹوّل۔

اب تو مساجد کے صدر دروازوں پر جلی حروف میں اُن کے ’’مسالک ہائے مروّجہ‘‘ کا درج ہونا بھی اتنا عام ہوگیا ہے کہ سلجھے ہوئے ذہن کے افراد کو بھی معیوب محسوس نہیں ہوتا۔

اس جلی سرخی لگانے کی ضرورت بھی اس بناء پر پیش آئی ہوگی کہ مخالف مسلک کا کوئی فرد بھولے بھٹکے سے بھی ان کی مسجد میں داخل نہ ہوسکے۔

دیگر عوامل میں درازئی ریش کی مقدار؟

شلوار ٹخنوں سے کتنی اوپر رکھی جائے؟

روزے کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ استعمال کیا جائے یا نہیں؟

پینٹ شرٹ پہن کر نماز ہوگی یا نہیں؟ جیسے بہت سے غیر اہم، احمقانہ اور فروعی معاملات نزاعی صورت اختیار کرچکے ہیں۔

ایسے نزاع اکثر جان لیوا واقعات کی صورت میں بھی ظہورپذیر ہوتے رہتے ہیں۔

ان المناک سانحات پر ہمارے بعض دانشور یہ تبصرہ فرما کر اپنی کم مائیگی کا ثبوت دیتے رہتے ہیں کہ ’’تاریخ خود کو دہرارہی ہے۔‘‘

یہ کہنا کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے، ایک واضح ثبوت ہے کہ کہنے والے کی عقل پر یا تو پتھر پڑچکے ہیں یا پھر اس نے کبھی انسانی معاشروں کی تاریخ کا مطالعہ ہی نہیں کیا۔

جی ہاں، بات بہت تلخ ہے لیکن حقیقت بھی یہی ہے کہ انسانی تاریخ میں انسانی شعور مسلسل ارتقائی سفر طے کررہا ہے۔ کبھی یہ سفر اس قدر سُست رفتار تھا کہ ایک قدم کا فاصلہ شاید ایک صدیوں میں طے ہوتا ہو، لیکن آج سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے اس سفر کو انتہائی تیز رفتار کردیاہے۔

حیوانات کی مختلف نوعوں کی اگر کوئی تاریخ مرتب کی جائے تو کہا جاسکے گا کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ اس لیے کہ مویشیوں اور درندوں میں انسانوں کے برعکس شعوری ارتقاء نہیں ہوتا۔

لیکن اگر کوئی انسانی معاشرہ صدیوں سے شعوری طور پر ایک سطح پر ہی کھڑا ہو اور اپنے تجربات، سانحات اور اسقاط سے کچھ نہ سیکھا ہو تو پھر اس کے بارے میں یہ کہنا درست ہوگا کہ اس قوم یا ملت کی ذہنی سطح چونکہ ہمیشہ سے ہی پست رہی ہے، اس لیے ان کے ہاں وقوع پذیر سانحات ایک جیسے معلوم ہوتے ہیں۔

صدیوں پہلے بھی ان کے عوام، دانشور اور ارباب اختیار نے یہی کچھ کیا تھا جو آج کرتے پھر رہے ہیں۔ اس نکتے کو اس لطیفے کے ذریعے نہایت آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے، پورا لطیفہ تو ہمیں یاد نہیں۔ ایک صاحب نے راستے میں پڑے کیلے کے چھلکے کو دیکھ کر کہا تھا ’’آج پھر پھسلنا پڑے گا۔‘‘

مسلمان قوم کی نفسیات اور ان صاحب کی نفسیات میں ہمیں تو کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔

پاکستان کے علاوہ دیگر مسلم معاشروں میں بظاہر مذہبی انتشار کی ایسی کوئی کیفیت محسوس نہیں ہوتی ہے، لیکن یہ متمول مسلمان ممالک قیمتی معدنی دولت کو صرف اپنی وقتی عیاشیوں پر ہی صرف کررہے ہیں۔ بلند و بالا عمارتیں، یخ بستہ شاپنگ سینٹرز جہاں دن رات لاکھوں روپے کی خریداری کی جاتی ہے، طویل اور وسیع و عریض سڑکیں، اس کے علاوہ ترقی کے نام پر اُن کے پاس کیا ہے؟

اُن کے ہاں پیٹرول صاف کرنے والی ریفائنریوں جیسی ہیوی انڈسٹریز سے لے کر کھجور پیک کرنے والے کارخانے تک، ترقی یافتہ ممالک کی ملکیت یا مرہونِ منت ہیں۔ مسجدالحرام یا مسجد نبوی کی توسیع کا معاملہ ہوتو اس کے لیے بھی غیر مسلم اور کافر اقوام کی تیکنیکی مدد اور صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔

اب تو اسمائے الٰہیہ اور قرآنی آیات کے طغرے، عام اور ڈیجیٹل تسبیحیں، جائےنمازیں اور اس طرح کے دیگر تبرکات جو حرمین کے اطراف میں موجود عارضی اور مستقل دکانوں میں فروخت کیے جارہے ہوتے ہیں، وہ سب کے سب چین CHINA میں تیار ہوتے ہیں۔

یادرہے چینیوں کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ اپنی غذا کے لیے ہر طرح کے جانور کو حلال سمجھتے ہیں۔ دن رات اپنے قرب وجوار کے لوگوں کو پاکی ناپاکی کا درس پڑھانے والے مولوی اور جدید وضع قطع کے حامل ذہنی مولوی ، سؤر، بلی، کتے، چوہے اور نجانے کیا کیا الا بلا کھا جانے والی چینی قوم کے افراد کے ہاتھوں تیار کردہ یہ تبرکات آنکھوں سے لگاتے ہیں اور اپنے گھروں میں لگا کر اس کی شان بڑھاتے ہیں۔

اکثر مسلمان دانشور یہ کہہ کر اپنا سر فخر سے بلند کرلیتے ہیں کہ موجودہ دور کی سب سے بڑی دولت سیال سونا Black Gold کے بڑے ذخائر مسلمان ملکوں کے پاس ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ آج عالمی سرمائے میں مسلمانوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، دنیا کی سرفہرست تجارتی کمپنیوں اور کاروباری رہنماؤں میں کوئی مسلمان یا مسلم ملک کی کمپنی جگہ نہیں بناسکی ہے۔

البتہ آج کل کچھ مذہبی یا نیم مذہبی دانشور ٹی وی چینلز پر دن رات یہ نوحہ پڑھتے دکھائی دیتے ہیں کہ مسلمان اقوام عالم کی صف میں معاشی، اقتصادی اور علمی لحاظ سے انتہائی نچلی سطح پر ہیں۔ اس حوالے سے ان کے پاس اعداد و شمارکی ایک طویل فہرست بھی ہوتی ہے، لیکن ان میں سے کبھی کسی نے اس کے اسباب پر غیرجانبدار ہوکر روشنی نہیں ڈالی۔

مذہبی دانشوروں کے پاس تو ایک ہی حل ہوتا ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کی اکثریت مذہبی شعائر کی پابندی نہیں کررہی ہے، جس روز مسلمانوں نے ایسا کرلیا، اس روز ساری دنیا ان کے قدموں تلے ہوگی۔

نیم پڑھے لکھے مولویوں اور دانشور نما مولویوں کے پاس بھی مسواک والی حکایت کی طرز کی بہت سی مثالیں ہوتی ہیں، جس کی روشنی میں وہ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی راہیں تلاش کررہے ہوتے ہیں۔

مسواک کی حکایت جو بجائے خود ایک ایسا لطیفہ ہے کہ جسے سناکر سنانے والے کو یہ بھی کہنا پڑے گا کہ بھائیو لطیفہ ختم ہوگیا ہے، اب ہنس لو۔ اس حکایت کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ دوران جنگ مسلمان سپاہی مسواک کررہے تھے تو دشمن فوج کے سپاہیوں میں خوف پھیل گیا کہ یہ لوگ اپنے دانت تیز کررہے ہیں، ہمیں سب مل کر کچا چبا جائیں گے۔

مسلمانوں کا اصل مسئلہ ہمارے خیال میں ماضی پرستی ہے، یہی وہ رویہ ہے جس کے باعث تعمیری سوچ اور روشن خیالی رخصت ہوجاتی ہے اور ذہنی جمود معاشرے کو گھن کی طرح کھاجاتا ہے۔

ہم آج ماضی پرستی کی وجہ سے سائنس وٹیکنالوجی کی دوڑ میں پیچھے ہیں تو ہمارے بقول کل جب ترقی کا تاج ہمارے سروں پر تھا، تب بھی ہم علم و ہنر کے فروغ سے روگردانی کے مرتکب ہوئے تھے اور ایسی کوئی بنیاد نہیں رکھ سکے تھے، جس پر ہم اپنے لیے شعوری، سائنسی، فنی، سماجی، اقتصادی اور اخلاقی ترقی کی عمارت تعمیر کرسکتے۔

چودھویں صدی عیسوی سے بیسویں صدی عیسوی کی تاریخ کے صفحات اچھی طرح اُلٹ پلٹ کر دیکھ لیجیے، اس عرصے میں مسلمان من حیث القوم علموہنر یعنی سائنس اور ٹیکنالوجی سے اسی قدر دور رہے، جس قدر اندھیرا روشنی سے دور بھاگتا ہے۔

ان چھ صدیوں میں ہمیں بہت باریک بینی سے تلاش کرنے کے باوجود صرف دو سائنسدانوں کے نام مل سکے، قطب الدین شیرازی اور غیاث الدین الکاشی۔

آپ خود بھی تلاش کرلیجیے۔

ٹھہریے، ان دونوں کو بھی اگر جدید سائنسی معیار پر پرکھا جائے تو معلوم ہوسکے گا کہ یہ جابر بن حیان اور الخوارزمی کے درجے سے کہیں پست درجے پر ہیں۔

ہم آخر کیوں یہ تسلیم نہیں کرلیتے کہ ان چھ صدیوں کے دوران جاہلانہ وحشت کے مہیب بادل ہم پر سایہ فگن تھے۔

جی نہیں، ایسا کیوں کر ہوسکتا ہے، ہمارا احمقانہ فخر ہمیں ایسا کیوں کرنے دے گا؟

تو پھر آئیےمزید پیچھے چلتے ہیں، بنواُمیہ کا عہد۔ جبکہ ہماری سلطنت تین براعظموں کی وسعتوں میں پھیل چکی تھی، 661 عیسوی سے 750سنِ عیسوی تک، 89 سالہ دورِ مطلق العنانی میں ہمیں جابر و ظالم عمّال جو لاکھوں افراد کو بلاجھجک قتل کروادیتے اور ان کے دل پرکوئی بوجھ نہ ہوتا، خوشامدی شعراء، ضمیر فروش اور عقل وخرد کے دشمن علماء، فقہاء اور مشائخ کی فوج ظفر موج تو نظر آتی ہے لیکن ہمیں ایک بھی سائنسدان یا فلسفی دکھائی نہیں دیتا۔

اگلا دور بنوعباس کا ہے، جو 508 برسوں پر محیط ہےیعنی 750ء سے 1258 تک، اسے مسلم تاریخ کا زرّیں دور کہا جاتا ہے، اس عہدِ زرّیں میں بھی ہمیں عرق ریزی کے باوجود محض 58 مسلمان سائنسدانوں کے نام ملتے ہیں۔

اگر ہم اپنے تذکرہ نویسوں کی اس فہرست میں سے فروعی مسائل کی بال کی کھال نکالنے والے منطقیوں اور فلسفیوں، اپنے حرم میں جمع کردہ ہزاروں کنیزوں سے دن رات ہوس پوری کرنے والے اور اپنے ناموں کے ساتھ الّا بلّا کے القابات لگانے والے باگڑ بلّاؤں کے کشتہ ساز شاہی طبیبوں، مترجمین اور دیگر زبانوں میں تحریر کتابوں سے مواد اخذ کرکے عربی زبان میں کتابیں لکھنے والے جعلی مصنفین کو چھان پھٹک کر الگ کردیں توپھر یہ تعداد تیس بتیس سے بھی کم رہ جائے گی۔

سلطنتِ عثمانیہ کا دور 1288ء سے 1224ء تک یعنی 636 برسوں پر محیط رہا، لیکن اس دور میں بھی ہمیں قاضی روی کے علاوہ ایک بھی قابل اور حقیقی سائنسدان کا نام نہیں مل سکا۔ تذکرہ نگاروں نے زبردستی کچھ نام اس دور سے ڈھونڈ نکالے ہیں، جنہیں کسی بھی صورت سائنسدان نہیں کہا جاسکتا۔

برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کرلیجیے۔ تاریخ کے اوراق اُلٹتے پلٹتے اکبر اعظم کے دورتک آجایئے۔ یہ سولہویں صدی عیسوی ہے۔ ہندوستان کی مُسلم تاریخ میں یہ دور ‘‘عہد زرّیں’’ کے نام سے موسوم ہے، لیکن علم و ہنر یعنی سائنس و ٹیکنالوجی سے بےرغبتی کا عالم یہ تھا کہ اس دور میں ہمیں ایک بھی سائنسدان کا نام نہیں ملتا، کوئی اعلیٰ پائے کی یونیورسٹی اور علمی درسگاہ اس عہد میں آپ کو بھی نہیں مل سکے گی کہ جب ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔

برصغیر پر مسلمانوں نے تقریباً سات سو سال حکومت کی، اس طویل عہد میں آپ کو امراء کی خوشحالی کے چرچے تو تاریخ کے صفحات پر ضرور ملیں گے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان برسوں میں غرباء کا کوئی وجود نہیں تھا کہ اُن کی فلاح و بہبود کے کام کیے جاتے؟ اس دور میں عالیشان مقبرے اور محلات تعمیر ہوئے، کہیں کوئی ہسپتال کے قیام کا ذکر کیوں نہیں ملتا؟ آپ بھی کھنگال لیجیے شاید آپ کو مل جائے، ہمیں تو نہیں مل سکا۔ ہاں ایک علمی محفل کا تذکرہ ملتا ہے، جس کے انعقاد کے لیے فتح پور سیکری میں آڈیٹوریم قسم کی بلند و بالا عمارت تعمیر کی گئی تھی۔ لیکن یہ ‘‘علمی محفل’’ کس درجے کی ہوتی تھی، اِس کا اندازہ اُس محفل میں شریک خوشامدی قصیدہ خوانوں اور مغنّیوں کی فہرست دیکھ کر ہی ہوجانا چاہئے۔

اب ایسا بھی نہیں تھا کہ سلطنتِ مغلیہ کے مغرب سے کوئی روابط ہی نہ تھے کہ مغرب میں ہونے والی تبدیلیوں، ایجادات اور اکتشافات سے یہ لوگ سراسر لاعلم ہی رہے ہوں اور اس بناءپر اپنے ہاں ایجادات اور دریافتوں کا کوئی سلسلہ قائم نہ کرسکے ہوں۔ ایسا نہیں تھا، بلکہ یورپ کے تجارتی قافلے بحری راستوں سے ہندوستان آچکے تھے اور یہ سرطامس روکی سفارت سے بہت پہلے کی بات ہے، جو جہانگیر کے زمانے میں آئی تھی۔

مغربی گھنٹے، گھڑیاں، نیم سائنسی قسم کی نت نئی مغربی مصنوعات کی نمائشیں ہندوستان کے بڑے شہروں میں اکثر ہوتی رہتی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ ‘‘عہدزرّیں’’ ہمارے سامنے کوئی ایسا سائنس دان کیوں نہیں پیش کرتا جس کا تذکرہ ہم دوسرے یا تیسرے درجے کے سائنس دانوں کی فہرست میں ہی کرسکیں؟

جب کہ اُدھر مغربی ممالک میں نشاةِ ثانیہ RENAISSANCE ہورہی تھی۔ مغرب کے ایک بحری جہاز راں کولمبس نے اپنی اولوالعزمی اور ہسپانوی حکومت کی دور اندیشی کی بناء پر جس نے اُس کے سفر کے لیے مالی امدد فراہم کی تھی، امریکہ دریافت کرلیا تھا۔ امریکہ کی دریافت سے مغربی اقوام کے لیے ترقی کے نئے امکانات کھلتے چلے گئے۔

اگر یہ خطہ مسلمانوں نے دریافت کیا ہوتا اور وہاں نقلِ مکانی کرکے اپنی اجارہ داری قائم کرلی ہوتی تو شاید آج صورتحال مختلف ہوتی۔لیکن ہندوستان میں جسے مغربی حکمران ‘‘سونے کی چڑیا’’ کہا کرتے تھے، شعراءکی محافل سجانے اور بغاوتوں کو کچلنے سے زیادہ اہم کام کوئی نہیں ہوسکتا تھا اور اسی دور میں پہلے نکولس اور اُس کے بعد گلیلیو اپنی دریافتوں سے یورپ کے عمومی مزاج میں تبدیلی کی ایک بہت بڑی بنیاد رکھ چکے تھے۔

سلطنتِ مغلیہ کے عہدِ شاہجہانی میں یورپ میں نیوٹن پیدا ہوا، جس نے صرف 22 برس کی عمر میں قوانینِ طبیعیات پر غور و فکر کرتے ہوئے ایک تجربہ کرکے روشنی کو ترکیب دینے والے رنگ معلوم کیے، کششِ ثقل اور سیاروں کے بیضوی دائروں پر شماریاتی مشقیں مکمل کیں، جبکہ ‘‘ہندوستان جنت نشان’’ کی شان و شوکت کے مقابلے میں کہیں پیچھے کھڑا تھا۔ یورپ نت نئی ایجادات میں مصروف تھا اور مسلمان ہندوستان جنت نشان کے ہوں یا عرب و ایران کے، یا تو عیاشیوں میں مصروف تھے یا پھر ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے ایجاد کرنے میں، اس کے سوا اُنہیں شاید دوسرا کوئی کام نہ تھا ۔

اگلی دو صدیوں میں مغرب نے سائنسی فکریات، انکشافات اور ایجادات کے حوالے سے زبردست انقلاب برپا کردیا تھا اور مسلمان ہر سو زوال اور غلامی سے دوچار ہورہے تھے۔

)
جاری ہے(
تحریر : جمیل خان حوالہ اردو ڈان ڈاٹ کام

مسلمانوں کی جہالت کا نوحہ (تیسرا حصہ(

برصغیر میں مغلیہ سلطنت کے عروج کے عین متوازی سلطنت عثمانیہ کا دور بھی ‘‘عہد زرّیں’’ ہی کہلاتا ہے۔ یہ سلطنت بھی (1288ء تا 1924ء) 636 برس پورے جاہ و جلال کے ساتھ قائم رہی۔ مؤرخین ان دونوں ‘‘عہدِزرّیں’’ کے بڑے بڑے کارنامے سناتے ہیں، لیکن کسی ایک ایسے سائنسدان کا ذکر نہیں کرپاتے جسے ہم فخریہ آپ کے سامنے پیش کرسکیں۔

مغلیہ سلطنت کا دور تو اس حوالے سے بالکل ہی کورا ہے، عثمانیہ سلطنت کے 636 سالہ دور میں حاجی خلیفہ چلپی (1609ء تا 1657ء ) کا نام ملتا ہے۔ حاجی خلیفہ کی زندگی کے بارے میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر فوجی تھا اور سلطان مُراد چہارم کے زمانے میں بغداد کی فتح کے لیے لڑی جانے والی جنگ میں شریک تھا۔

اس کی عمر کا بڑا حصہ عثمانی ترکوں کی سلطنت کی توسیع کے لیے لڑی جانے والی خوں ریز جنگوں میں حصہ لیتے ہوئے گزرا۔

ان حضرت سے ایک کتاب منسوب کی جاتی ہے، جس میں آغازِ کائنات اور ارتقائے قدیم سے لے کر اُس دور تک کے نظریات جمع کیے گئے تھے، مگر وہ ناپید ہوگئی۔

عربی زبان کی ایک انسائیکلوپیڈیا ‘‘کشف الظّنون’’ بھی اس ہی کے نام سے ملتی ہے، بتایا جاتا ہے کہ حاجی خلیفہ نے اس کتاب کا مواد جمع کرنے کے لیے بیس سال کا طویل عرصہ صرف کیا، جبکہ یہ بھی بتایا جاتا ہے اس کی زندگی جنگوں میں حصہ لیتے ہوئے گزری تھی۔

اب غیرجانبدار ہو کر تجزیہ کیجیے! اور اس سوال کا جواب تلاش کیجیے کہ کیا یہ خصوصیات حاجی خلیفہ کو ‘‘سائنس دان’’ کے زُمرے میں شامل کرسکتی ہیں؟

ہمیں یہ بالآخر تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ مسلم دنیا میں گزشتہ چودہ سو سالوں کے دوران تفکر، روشن خیالی، آزاد ذہنی اور روایت شکن افکار کی بنیاد رکھنے والا ماحول کبھی تشکیل نہیں پاسکا، یہی وجہ ہے کہ سائنسی اور فنّی علوم کو کبھی بھی مذہبی اور فروعی معاملات پر موشگافیاں کرنے والے منطقی علوم کے برابر کا درجہ حاصل نہیں ہوسکا۔

آج بھی سائنسی علوم کو مادّی علوم کہہ کر دن رات ان کی تحقیر کی جاتی ہے، جبکہ سائنسی علوم کی دریافتوں اور اختراعات سے ملنے والی سہولتوں سے فائدہ اُٹھانے میں کوئی حذر بھی نہیں ہوتا۔

آج اکیسویں صدی میں جبکہ حقائق سے پردے اُٹھ چکے ہیں، مسلم معاشروں میں یہ تسلیم کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں کہ مذہبی اور روایتی علوم انسانی فلاح و بہبود اور انسانوں کو انسانوں ہی کی غلامی سے نجات دلانے میں ہمیشہ ناکام رہے ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ان روایتی اور تقلیدی علوم نے ہی انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو انسانوں کا غلام بننے پر مجبور کیا اور عقل و خرد پر پہرے لگائے۔ ہماری رائے تو یہ ہے کہ ماضی پرستی کی بنیادیں مضبوط کرنے والے ان روایتی علوم کو ‘‘علم’’ ہرگز نہیں کہنا چاہیے کہ اس طرح اُن حقیقی علوم کی تذلیل ہوتی ہے، جو آج انسانی فلاح کا باعث بن رہے ہیں اور ہمیشہ سے نوع انسانی کے لیے فلاح کا راستہ کھولتے رہے ہیں۔

مسلمان معاشروں میں ابتداء سے آج تک مذہبی اجارہ دار، سائنسی اندازِ فکر کو انتہائی شک وشبہ کی نظر سے دیکھتے اور اس کو شرک و الحاد کا منبع قرار دیتے آئے ہیں۔ عباسی دورِ حکومت میں مامون الرشید نے عقلی علوم پر توجہ دی تو اُس وقت کے تمام قدامت پرست علماء جو باہم دست وگریباں رہتے تھے، اس معاملے میں یک زبان ہوگئے اور مامون پر دین سے گمراہی کا الزام لگایا گیا۔

مامون کے عہد میں یعقوب الکندی(800ء تا 872ء) جو فلسفی اور سائنسدان تھے، پر ماضی پرست مذہب فروشوں نے کفر کے فتوے عائد کیے۔

اسپین (اندلس) کا ایک فلسفی ابنِ باجہ (110ء تا 1138ء) کو اس کے افکار کی بناء پر دہریہ کا خطاب دیا گیا، وہ اپنی جان بچانے کے لیے پہلے اشبیلیہ، پھر غرناطہ اورپھر مراکش میں چھپتا پھرتا تھااور صرف اڑتیس برس کی عمر میں اُسے زہر دے کر ماردیا گیا۔

ابن رشد(1126ء تا 1198ء) جسے آج ہمارے بعض نیم مذہبی دانشور بھی فخر سے اپنی تاریخ کا روشن باب کہتے نہیں تھکتے، اُسی ابن رشد کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا رہا، جو اُمّتِ مسلمہ کے چہرے پر سیاہ داغ بن چکا ہے۔

وہ مراکش سے بچتا بچاتا قرطبہ پہنچا، جہاں سے اُسے جلاوطن کردیا گیا۔ ابن رشد کو ماضی کی روایات کی پوجا کرنے والوں نے ملحد قرار دے کر اُسے جامعہ مسجد کے ایک ستون سےبندھوا دیا تھا اور جمعہ کی نماز میں شریک نمازیوں سے کہا گیا کہ اس ملحد کے چہرے پر تھوکتے ہوئے مسجد سے باہر جائیں، چنانچہ ان نمازیوں نے ایک عظیم سائنسدان کو گندگی سے نہلا دیا۔

سچائی یہ تھی کہ انہوں نے ابن رشد پر تھوکا تھا، لیکن حقیقت یہ تھی کہ وہ آئندہ آنے والی تمام صدیوں میں اپنی قوم کو جہالت کی تاریکی کے عمیق گڑھے میں دفن کر دینے کا سامان کررہے تھے۔

جس دور میں ہمارے معاشروں میں توہمات پرستی کاشت کی جارہی تھی، دقیانوسی عقائد کی آبیاری ہورہی تھی اور ظلم وجبر پرمبنی نظامِ استحصال کو صدیوں مستحکم کرنے کے لیے علماء، مشائخ اور بادشاہوں کے درمیان قائم گٹھ جوڑ کو مزید مضبوط کیا جارہا تھا تو عین اُسی دور میں 1155ء کے دوران انگلینڈ کے بادشاہ ہنری دوم نے جاگیرداری نظام کا خاتمہ کرکے عوام کی آزادی کی جانب پہلا قدم بڑھایا۔ اسی سال کے دوران ہی پیرس میں جدید یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔

اِدھر مسلم معاشروں کی نفسیاتی کیفیت اُسی طرح قائم تھی، جیسی کہ آج کم وبیش ہے۔ کہیں خانہ جنگی تو کہیں فرقہ وارانہ فساد اور کہیں مناظروں اور مباحثوں کی رونق بڑھاتے منطقی دانشور اپنے جلوے دکھارہے تھے۔

جب بغداد میں رافضی اور غیر رافضی اختلافات اپنے عروج پر تھے تو تاریک یورپ میں 1163ء میں انگلینڈ کی مشہور زمانہ آکسفورڈ یونیورسٹی قائم کی جارہی تھی۔

1214
ء وہ یادگار سال ہے جب انگلینڈ کے بادشاہ جان نے ‘‘میگناکارٹا ’’پر دستخط کیے۔ یہ پہلا شاہی حکمنامہ تھا، جس کے ذریعے بادشاہ کی بڑھتی ہوئی طاقت کو ایک حد میں رکھنے کی ابتداء ہوئی اور رعایا کے اختیارات کو وسعت دینے کا آغاز ہوا، اس کے صرف دو سال کے بعد ہی انگلینڈ میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کا قیام عمل میں آگیا تھا۔

درحقیقت میگناکارٹا جدید طرزِ حکومت کی پہلی سیڑھی تھی۔ 1214ء میں ہی آکسفورڈ یونیورسٹی کا پہلا چانسلر مقرر کیا گیا جبکہ پیرس یونیورسٹی کا پہلا آئین مرتب ہوا۔

یہاں مسلم معاشروں میں تاریخ کے ایک مرتبہ پھر ‘‘دہرائے’’ جانے کے لیے پلیٹ فارم تیار ہورہا تھا، یعنی طوائف الملوکی کا عفریت اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ موجود تھا، تو اس سے فائدہ اُٹھانے کے لیے تاتاریوں کا ٹڈی دل کی مانندلشکر آہستہ آہستہ شہروں کو تاراج کرتے ہوئے مسلم معاشروں کی جانب بڑھ رہا تھا۔

پھر اگلے آٹھ برسوں میں ہی چنگیز خان کی افواج خوارزم، ماواراءُالنّہر، ایران اور سمرقند پر قبضہ کرنے کے بعد سلطنت دہلی کے سرحدوں تک جاپہنچی تھیں۔

1214
ء میں راجر بیکن کی پیدائش ہوئی جس نےصرف اکتیس سال کی عمر میں گن پاؤڈر ایجاد کرلیا تھا۔ یورپ میں بارود کی ایجاد نے جنگوں کا نقشہ ہی بدل ڈالا اور ہتھیاروں کی اختراعات کا ایک نیا سلسلہ جاری ہوگیا۔

ہمارے دانشور جو ہمیشہ سے عقل وخرد سے دشمنی کا سبق پڑھاتے آئے تھے، توقع کی جاسکتی ہے کہ اُس زمانے میں یہی سبق پڑھا رہے ہوں گے کہ :

مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

ہمارے ہاں آج بھی ابن خلدون کا نام ایک بڑا حوالہ سمجھا جاتا ہے، ذرا اُن کی عقل وخرد کے ساتھ دشمنی تو ملاحظہ کیجیے، وہ اپنے مقدمے میں لکھتے ہیں :

‘‘
ہم نے سنا ہے کہ فرنگیوں کے ملک، بحیرۂ روم کے شمالی علاقوں میں علومِ طبیعی کا بہت چرچا ہے۔ اس کی تعلیم مختلف درجوں میں کی جاتی ہے، ان علوم کے جاننے والے بہت زیادہ ہیں اور طلباء کی تعداد بھی بےشمار ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ علوم کیا ہیں…؟ اور کیسے ہیں….؟ لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ طبیعیات کے مسائل ہمارے دینی معاملات سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کی کوئی اہمیت ہے، اس لیے ان علوم طبیعی سے ہمارا دُور رہنا ہی بہتر ہے۔’’

واہ واہ سبحان اللہ۔

کیا دُور اندیشی تھی حضرت کی، ان جیسے سینکڑوں عقل وخرد کے دشمنوں نے مسلمان معاشروں کو مبتلائے جہالت رہنے پر مجبور کیا اور آج ان کے خانوادے ان ہی کی روایت کو دُہرا ئے چلے جارہے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ابنِ خلدون چودہویں صدی عیسوی کے دوران عقل وخرد اورغورو فکر سے دور رہنے پر زور دے رہے تھے، تو اُسی دور میں وینس اور جنیوا میں اسلحہ سازی کے نت نئے طریقے وضع ہورہے تھے۔

پرتگالی قوم کے لوگ جہاز رانی اور جہاز سازی میں ایسی اختراعات کررہے تھے کہ جس کی بناء پر اس قوم نے اگلے ادوار میں سمندروں پر حکمرانی کی۔ دلچسپ بات یہ ہے ان میں وہ بحری راستے بھی شامل تھے، جہاں جہاں سے مسلمان حج کے سفر پر جایا کرتے تھے۔

ابن خلدون جب گویا مسلمانوں کو قیامت تک کے لیے جہالت میں مبتلا رہنے کی وصیت کرکے وفات پاگئے تو چار سال بعد اٹلی میں 1410ء کے دوران عوامی مقامات پر نصب گھڑیال میں پہلی مرتبہ کوائل اسپرنگ لگائے گئے، اس طرح مشینی گھڑیوں کی ابتدائی صورت سامنے آئی۔

ابن خلدون کی وفات سے ایک سال قبل یورپ میں پہلی مرتبہ لوہے کے چھوٹے بڑے پیچ یا اسکریو بنائے جارہے تھے، یہ گویا مشینی دور کا آغاز تھا۔

مسلمان ابن خلدون کی وصیت پر کاربند رہے اور ان کے اردگرد ترقی کی رفتار تیز تر ہوتی چلی گئی۔ 1429ء میں جب مسلمان قسطنطنیہ پر حملے کررہے تھے، تو جرمنی میں مشین کی رفتار کو کنٹرول کرنے کے لیے پہلی مرتبہ گیئر کا استعمال کیا گیا۔

اس سے قبل 1401ء میں جب امیر تیمور نامی وحشی حکمران بغداد اور دمشق میں اپنے ہی ہم مذہب مسلمانوں کو تہہ تیغ کرکے ان شہروں کے تمدن کو برباد کررہا تھا، تب انہی دنوں ویانا میں ایک ایسا ہسپتال بنایا گیا جس میں پہلی مرتبہ قرنطینہ Quarantine بھی قائم کیا گیا۔ ایک جانب زندگی بچانے کا تصور پروان چڑھ رہا تھا تو دوسری جانب زندگی کو تباہ و برباد کرنے کا، اور المیہ یہ ہے دونوں اطراف یہی تصور آج بھی قائم نظر آتا ہے۔

امیر تیمور دمشق کو تاراج کرنے کے بعد اس شہر میں لوہے کی صنعت سے وابستہ افراد کو غلام بنا کر اپنے ہمراہ لے گیا، گویا اس نے دمشق سے اس صنعت کا خاتمہ کر دیا۔

سال 1451ء ۔ جب کہ دہلی میں بہلول لودھی اور ترکی میں محمد ثانی جیسے نالائق حکمرانوں کی تخت نشینی کا جشن منایا جارہا تھا، تو عین اُسی سال جرمنی میں پرنٹنگ مشین کے مؤجد گوٹن برگ نے اپنی مشین پر پہلی مرتبہ ایک کتاب پرنٹ کی۔ یہ لاطینی گرامر کی کتاب تھی، جس کی تین سو کاپیاں شایع کی گئی تھیں۔

پرنٹنگ مشین کی ایجاد سے علم و آگہی کے دریچوں پر سے روایات اور ماضی پرستوں اور دقیانوسی سوچ کے حامل افراد کی گرفت رفتہ رفتہ کمزور پڑتی چلی گئی۔

اس کے بعد 1471ء کے دوران فرانس میں، 1472ء میں ہالینڈ اور 1476ء کے سال برطانیہ میں پرنٹنگ پریس لگائے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک انقلاب برپا ہوتا گیا، لیکن مسلمانوں کے احمق دانشوروں اور حکمرانوں نے صدیوں اسے حرام اور غیرضروری قرار دے کر اس کے فیوض وبرکات سے اپنی قوم کو محروم کیے رکھا۔

یہ تو نوآبادیاتی دور کی مہربانی ہے کہ مسلمانوں کے ملکوں پر قبضہ کرنے والی فرنگی اقوام یہ نعمت ان کے ہاں لے کر آئیں۔ اگر خدانخواستہ یہ کالونیل سسٹم قائم نہ ہوتا تو نجانے مزید کتنی صدیوں تک ہمارے دانشور اور حکمران ہمیں اس نعمت سے محروم رکھتے، اس بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

ہندوستان میں ناصرالدین خلجی کی تخت نشینی 1500ء میں ہوئی تھی، اسی سال پیراسیلس نے ہائیڈروجن دریافت کی، نکاسیٔ آب کے لیے پہلی مرتبہ پمپس کا استعمال ہالینڈ میں شروع ہوا، اسی سال سوئٹزرلینڈ کے ایک ڈاکٹر نے اپنی حاملہ بیوی کا پہلا کامیاب سیزیرین آپریشن کیا۔ یہ دنیا کا پہلا واقعہ تھا کہ کسی زندہ عورت کے آپریشن کے بعد اس کے زندہ سلامت اولاد پیدا ہوئی ہو۔ یہ طبی تاریخ کا بہت بڑا کارنامہ تھا کہ اس سے پہلے کیے جانے والے تمام آپریشنز میں حاملہ عورتیں ہلاک ہوجاتی تھیں۔

جس سال ہندوستان پر پیش قدمی کرتے ہوئے مغل حکمران بابر نے قندھار پر قبضہ کیا، اسی سال یعنی 1522ء کے دوران کیمبرج (انگلینڈ) میں مشینی طباعت کا آغاز ہوا، جبکہ اس سے اگلے سال انگلینڈ میں ہی تھیوکریسی پر کاری ضرب لگائی گئی اور ایک قانون کے ذریعے ڈاکٹروں کو پاپائیت کے اثر سے آزاد کرکے ان کی پوزیشن مستحکم کردی گئی۔

جب ہندوستان میں ہمایوں اور شیرشاہ کے مابین اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے خونی جنگیں جاری تھیں، تو یہ وہی دور تھا جب 1540ء میں کوپرنیکس کے تہلکہ خیز نظریہ کی اشاعت ہوئی، جس نے صدیوں سے قائم اس عقیدہ کو رد کردیا کہ زمین کائنات کا مرکز ہے۔ یہ روایت پرستی اور ماضی پرستی کے عقائد پر ایک کاری ضرب تھی، اگر بالفرض انسان اسی قدیم نظریہ کو سینے سے لگائے رکھتا تو آج خلاء میں قدم رکھنا، مصنوعی سیاروں کا ہجوم اور ان کے ذریعے سہولیات کا ایک عظیم الشان انبار، کسی صورت ممکن ہی نہ ہوتا۔

مسلمان صدیوں اسی نظریہ کو سچ سمجھتے رہے، اور تو اور آج اکیسویں صدی میں بھی ایسے بہت سے ‘‘علامہ’’ دیکھنے کو مل جاتے ہیں، جو زمین کو کائنات کا مرکز سمجھتے ہیں اور اس عقیدے کی تقدیسیت پر ایک حرف بھی سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ جبکہ دنیا صدیوں پہلے اس عقیدے پر ‘‘چار حرف’’ بھیج کر کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔

ایک طرف سلطنت عثمانیہ کی حدود میں سلطان مراد ثالث، ایران پر شاہ عباس صفوی اور ہندوستان پر جلال الدین اکبر کی حکمرانی تھی۔

ان تینوں حکمرانوں کے دورِ اقتدار کو سنہری دور کہا جاتا ہے۔ اس سنہری دور میں کسی بھی قسم کی سائنسی ایجادات، اختراعات یا انکشافات کا سراغ نہیں ملتا، جبکہ یہی دور تھا جب ‘‘تاریک اور غلاظت میں ڈوبے یورپ’’ میں 1587ء کے دوران اٹلی میں پہلے پبلک بنک کا قیام عمل میں آیا۔

ہالینڈ کے جینسن نے 1590ء میں مائیکرواسکوپ ایجاد کی، اسی سال سلطان قلی قطب شاہ نے چار مینار کا سنگ بنیاد رکھا۔ 1600ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا قیام عمل میں آیا، جس نے آگے چل کر دنیا کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔

اس سے اگلے سال مغلیہ شہزادہ سلیم اپنے باپ اکبر کے خلاف بغاوت کا علم لے کر میدان جنگ میں مدمقابل آگیا تھا، یعنی جب مسلمان اپنی دیرینہ روایت کے مطابق اپنی تلواروں سے اپنی ہی گردنیں کاٹ رہے تھے، عین اسی دور میں مغرب ترقی اور جہاں بانی کے نئے راستے تلاش کررہا تھا۔

1602
ء میں اکبر فتح پور سیکری کا بلند دروازہ تعمیر کروا رہا تھا، تو یورپ میں جان ولسن نے پہلی مرتبہ باضابطہ طور پر شارٹ ہینڈایجاد کی۔

1609
ء میں سورج کے گرد سیاروں کی گردش کے موضوع پر جاہن کپلر کی کتاب شایع ہوئی۔ اس کے اگلے برس گلیلیو نے اپنی ایجاد کردہ دوربین سے مشتری کے چاند دریافت کیے، اسی سال فرانس کے ماہر فلکیات نکولس پائرسک نے ‘‘اورین نیبولا’’ دریافت کی۔اس کے اگلے سال جہانگیر نے اپنے ایک ملازم کو ایک سازش کے ذریعے قتل کروانے کے بعد اس کی بیوہ کے ساتھ شادی رچائی تو اس کے اگلے برس 1612ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا تجارتی مرکز سُورت کی بندرگاہ پر قائم ہوا۔ 1616ء میں پنجاب اور شمالی ہندوستان میں طاعون نے ہلاکتوں کے انبار لگادیے تو اسی سال ولیم ہاروے نے دوران خون پر اپنا پہلا لیکچر دیا۔ 1618ء کے دوران ہندوستان میں عالمگیر کی پیدائش اور ترکی میں سلطان عثمانی کی تخت نشینی کا جشن منایا جارہا تھا تو اسی سال کپلر نے سیاروں کی گردش کا تیسرا قانون پیش کیا اور یہی سال تھا جب معدنی گیس کے بطور ایندھن استعمال کا طریقہ دریافت ہوا۔ 1620ء میں ایک ولندیزی سائنسدان جے ڈریبل نے سمندری آبدوز تیار کی۔ 1625ء کے سال ہندوستان میں جہانگیر اور شہزادہ خرّم باہم دست وگریبان تھے تو مغرب میں جوہان گلوبر نے سوڈیم سلفیٹ دریافت کررہا تھا۔

اس کے بعد تو مغربی ممالک میں ایجادات اور اختراعات کا جیسے عظیم الشان سیلاب ہی آگیا اور اِدھر مسلمان جو علم و آگہی سے پہلے ہی پرہیز کرتے آئے تھے، مزید دور ہوتے چلے گئے۔ اگلی صدیوں میں ہونے والی چند ایجادات اور دریافتوں کا نہایت مختصر احوال یہ ہے کہ 1700ء سے 1800ء تک اسٹیم انجن، پاور لوم، تھرمامیٹر، لوہا پگھلانے کی صنعت، ٹیکسٹائل پرنٹنگ کی ایجادات…. 1800ء سے 1900ء تک الیکٹرک لائٹ، آٹوموبائل، ریلوے کا نظام، پکی سڑک، ایکسرے، بال پوائنٹ، تارپیڈو، ٹیلی گراف، وائرلیس، ٹیلی فون، ٹریکٹر، ڈیزل انجن، ڈائنامائٹ، گراموفون، اسٹیل، ریزربلیڈ، سینمامشین، سیمنٹ، سیونگ مشین، سیفٹی ماچس، سیفٹی پِن، فونوگراف، فوٹوگرافی، مشین گن، مائیکروفون، موٹر سائیکل وغیرہ وغیرہ۔

مغربی اقوام نے طب، سائنس اور جغرافیہ کو ترقی دے کر دنیا کو ایک نئی جہت دی اور صدیوں سے قیاس پر مبنی عقائد کی زنجیروں میں جکڑے انسانوں کو آزاد فضا میسر آسکی۔ یہ سب کچھ مغربی معاشروں میں ایسا آسان نہ تھا، وہاں بھی جمود کے پرستار روایات اور عقائد کی مقدس تلواریں سونتے قدم قدم پر علم و آگہی اور روشن خیالی کا راستہ روکے کھڑے تھے۔ مغرب کے اُن گمنام خردمندوں کو ہمیں تہہ دل سے سلام پیش کرنا چاہیے، جنہوں نے اپنی زندگی اور اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر نوع انسانی کی اگلی نسلوں کے لیے آسانیاں فراہم کیں اور جدید ترقی کے لیے بنیادیں فراہم کیں۔ کتنے ہی ایسے بےلوث افراد گزرے جن کا تذکرہ عام نہیں، لیکن انہوں نے اپنی زندگی تج دی، اپناکھانا پینا، اور اپنی نیند کو خود پر حرام کردیا اور ایک جنون کے تحت اپنے مشن کی تکمیل میں جُت گئے، تب کہیں جاکر بڑی بڑی یونیورسٹیاں اور تحقیقی اداروں کی بنیاد پڑسکی، انسانی زندگی کو آسان بنانے اور اس کے شعور کے ارتقائی سفرکو تیزتر کرنے میں معاون و مددگار ایجادات و اختراعات سامنے آسکیں۔

یہ چھ صدیاں جس کے دوران مسلمان ‘‘پدرم سلطان بود’’ کے زعم میں مبتلا رہے، اُدھر انہی صدیوں میں مغربی دنیا کے اندر مہم جوئی کا ایسا جذبہ پیدا ہوا کہ انہوں نے دنیا کا کونا کونا چھان مارا۔

جبکہ مسلمان اُن چھ صدیوں کے دوران، اس سے پہلے اور آج بھی اسی خیالِ خام میں مبتلا ہیں کہ کفار کی ہمارے سامنے حقیقت ہی کیاہے؟

مسلمانوں کی ترقی زیادہ سے زیادہ عالیشان مقبرے، مینار، گنبد اور مصوری کی شاہکار عمارتوں تک محدود رہی، چنانچہ مغربی اقوام نے فقط اپنی اگلی نسلوں ہی کے لیے نہیں بلکہ پوری نوعِ انسانی کے لیے سائنس و ٹیکنالوجی کی بنیادیں فراہم کیں، جبکہ ہم مسلمانوں کے اسلاف صرف آثار و کھنڈرات ہمارے لیے چھوڑ گئے۔

آخر یہ کیا ہے؟

ان چھ صدیوں کو ایسے عظیم الشان ادوار کہا جاتا ہے کہ جب مسلمان ان دونوں سلطنتوں میں مطلق العنان حکمران تھے۔ برصغیر میں بلوچستان سے لے کر راس کماری تک اور سلطنت عثمانیہ میں ترکی کے علاوہ جنوبی یورپ، شمالی افریقہ، مصر، عرب اور وسطی ایشیا کے بہت سے خطے یا توبراہِ راست زیرِنگیں تھے یا زیرِ اثر ۔

اپنے وقت کی دو سپر پاور سلطنتیں، جن پر آج کے مسلمان فخر کرتے نہیں تھکتے، بین الاقوامی تو چھوڑیں قومی شہرت کا حامل کوئی سائنس دان پیدا نہیں کرسکیں۔

ازراہِ مہربانی اِسے قدرت کی مصلحت کہہ کر نظر انداز نہ کیجئے گا۔ اس معاملے کو تقدیر کے سپرد نہ کردیجیے گا۔ اس لیے کہ کسی تخلیقی مزاج کے بندے یا محقق یعنی سائنس دان کے اُبھرنے کے لیے ایک بڑا اور مستحکم ماحول درکار ہوتا ہے۔

کم از کم ڈھائی سو سے لے کر سوا سو کی تعداد میں ماہرین پر مشتمل یہ ماحول تشکیل پاتا ہے۔ آپ یہ نہ کہئیے گا کہ کسی بنجر زمین سے بھی اﷲ کی مہربانی ہو تو کوئی سائنس دان پیدا ہوسکتا ہے۔

بنجر زمین سے سائنسدان تو کجا گندم پیدا نہیں ہوسکتا، اگر ایساممکن ہوتا تو ہمارے ملک جسے مملکتِ خداداد کہاجاتا ہے، کی زرخیز زمینوں میں مصنوعی کھاد کی ضرورت ہی نہ پڑتی، بس خدا کی مہربانی سے سارے کام ہوجاتے۔

آیئے اس بات کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام، جھنگ جیسے چھوٹے شہر میں پیدا ہوئے اور میٹرک کے امتحان میں غیر منقسم پنجاب کے اندر فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن بھی حاصل کرلی، لیکن کیا اُنہیں سائنس دان بنانے کے لیے جھنگ میں وہ مستحکم ماحول میسر آسکتا تھا جس کا ہم نے اوپر تذکرہ کیا تھا؟

ہر گز نہیں!

ڈاکٹر عبدالسلام کے جوہر بھی انگلینڈ یعنی مغرب کے ماحول میں ہی کھل سکے دیگر نمایاں پاکستانی سائنسدانوں میں سرشاہ سلیمان، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ڈاکٹر رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر سر ضیاءالدین اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی صلاحیتیوں کو اُبھارنے میں مغربی تعلیم و تربیت اور ماحول کے گہرے اثر سے، کون ہے جو انکار کرسکتا ہے؟

اس مثال کو بیان کرنے سے ہمارا مؤقف اُمید ہے آپ پر واضح ہوگیا ہوگا۔ ہم یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ اوپر بیان کردہ ‘‘زرّیں ادوار’’ کے مسلمان معاشروں میں غور و فکر اور علوم و فنون کو کبھی حقیقی معنوں میں پذیرائی ہی نہیں مل سکی۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا ‘‘مستحکم علمی ماحول’’ ہی تیار نہ ہوسکا جو نابغۂ روزگار شخصیات کو منظر عام پر لاتا اور قوم اُن کی صلاحیتیوں اور کارناموں سے مستفیض ہوتی۔

)
جاری ہے(

تحریر : جمیل خان حوالہ اردو ڈان ڈاٹ کام

No comments:

Post a Comment