Saturday, February 23, 2013

صرف قرآن تو مسلمان



صرف قرآن تو مسلمان

سلام برادر محترم۔
اس کی وجہ اللہ تعالی کے فرمان سے دوری ہے۔

6:19
قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً قُلِ اللّهُ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللّهِ آلِهَةً أُخْرَى قُل لاَّ أَشْهَدُ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَـهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ
پُوچھو کس کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے؟ کہو! اللہ گواہ ہے میرے اور تمہارے درمیان اور وحی کیا گیا ہے مری طرف یہ قرآن تاکہ متنبہ کروں تمہیں اس سے اور ہر اس شخص کو جس تک یہ پہنچے، کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ ہیں معبُود اور بھی؟ کہہ دو! کہ نہیں دیتا میں ایسی گواہی۔ کہ دو! کہ صحیح بات یہی ہے کہ وہی ہے معبودِ یکتا اور بے شک میں بیزار ہوں اس شرک سے جس میں تم مُبتلا ہو۔

آپ (ان سے دریافت) فرمائیے کہ گواہی دینے میں سب سے بڑھ کر کون ہے؟ آپ (ہی) فرما دیجئے کہ اﷲ میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے، اور میری طرف یہ قرآن اس لئے وحی کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے تمہیں اور ہر اس شخص کو جس تک (یہ قرآن) پہنچے ڈر سناؤں۔ کیا تم واقعی اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اﷲ کے ساتھ دوسرے معبود (بھی) ہیں؟ آپ فرما دیں: میں (تو اس غلط بات کی) گواہی نہیں دیتا، فرما دیجئے: بس معبود تو وہی ایک ہی ہے اور میں ان(سب) چیزوں سے بیزار ہوں جنہیں تم (اﷲ کا) شریک ٹھہراتے ہو

اس قرآن کے ذریعے ڈریے جو رسول اکرم کو اس مقصد کے لئے اللہ تعالی کی طرف سے عطا کیا گیا، آپ کے سب کنفیوژن دور ہوجائیں گے۔ کیا رسول اکرم نے اس قرآن کے ذریعے کسی بعد میں آنے والے شخص کی عبادت کا حکم دیا تھا۔

شرک بہت ہی واضح اور صاف امر ہے۔

جب اللہ تعالی نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو تو کیا فرشتے آدم کی عبادت کررہے تھے یا اپنے اللہ کا حکم بجا لارہے تھے؟
جب لوگ کسی شخص کا اس طرح‌ مذہبی طور پر دن مناتے ہیں تو کیا وہ اللہ تعالی کا حکم بجا لارہے ہوتے ہیں یا کسی اور کا حکم بجالارہے ہوتے ہیں؟

تو جس کا حکم یہ لوگ بجالاتے ہیں اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنا واضح‌شرک ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آپ کا دل نہیں‌مانتا۔۔۔ اور آپ کنفیوژ ہو جاتے ہیں۔ کہ یہ کیا ہے‌۔۔۔ قرآن حکیم پر عمل کیجئے کہ صرف یہی رسول اکرم کی زبان سے ادا ہوا۔

جب کوئی کہے کہ "مزید اور" تو کہہ دیجئے کہ کیا میں اللہ کے علاوہ کوئی حکم حاصل کروں؟‌ جب قرآن مکمل اور مفصل ہے تو پھر کہیں اور دیکھنے کی کیا ضرورت؟

6:114
أَفَغَيْرَ اللّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلاً وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِّن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ
(
فرما دیجئے کیا میں اﷲ کے سوا کسی اور کو حاکم (و فیصل) تلاش کروں ، وہ (اﷲ) ہی ہے جس نے تمہاری طرف مفصّل کتاب نازل فرمائی ہے، اور وہ لوگ جن کو ہم نے (پہلے) کتاب دی تھی (دل سے) جانتے ہیں کہ یہ (قرآن) آپ کے رب کی طرف سے (مبنی) برحق اتارا ہوا ہے پس آپ شک کرنے والوں میں نہ ہوں ۔

کیااللہ تعالی کے حکم دینے والے ہونے کی موجودگی میں اور ایک مفصل اور مکمل کتاب کی موجودگی میں کوئی وجہ پاتے ہیں کہ دوسرے کسی کے حکم پر عمل کریں۔

تو قرآن حکیم میں اللہ تعالی کا یہ فرمان ‌کہاں ہے کہ کسی بعد میں آنے والے کا دن منایا جائے؟

صرف قرآن تو مسلمان۔
والسلام

  #2

Friday, February 22, 2013

خلاف قرآن کیا ہے ؟



خلاف  قرآن کیا ہے ؟

آیت
آیت سے مراد ” نشانی“ ھے۔ قرآن مجید کی ھر آیت مضمون اور اسلوب کے لحاظ سے اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ھے۔ اسی لیے اسے آیت کھا گیا ھے ۔
آیات کی حد بندی توقیفی ھے،یعنی رسول خدا (ص) کے فرمان سے ہمیں معلوم ھوتا ھے کہ ایک مکمل آیت کتنے الفاظ اورکن عبارا ت پرمشتمل ھے۔ چنانچہ حروف مقطعات مثلاً کھیعصایک آیت ھے، جب کہ اس کے برابر حروف پر مشتمل حمعسق دو آیتیں شمار ھوتی ھیں۔
قرآن مجید کی کل آیات چھ ہزار چھ سو (۶۶۰۰) ھیں[3] قرآن مجید کے کل حروف تین لاکھ تئیس ہزار چھ سو اکہتر( ۳۲۳۶۷۱) ھیں،جب کہ طبرانی کی روایت کے مطابق حضرت عمر سے مروی ھے : القرآن الف الف حرف یعنی قرآن دس لاکھ (۱۰۰۰۰۰۰) حروف پر مشتمل ھے۔ [4] بنا بریں موجودہ قرآن سے چھ لاکھ چھہتر ہزار تین سو انتیس (۶۷۶۳۲۹) حروف غائب ھیں۔
حق تو یہ تھا کہ اس روایت کو خلاف قرآن قرار دے کر رد کر دیا جاتا، مگر علامہ سیوطی فرماتے ھیں:
وَ قَدْ حُمِلَ ذَلِکَ عَلَی مَا نُسِخَ رَسْمُہ مِنَ الْقُرْآنِ ایضاً اِذ الْمُْوجُوْدُ اَلْآنَ لاَ یَبْلُغُ ھَذَا الْعَدَدَ ۔[5]
روایت کو اس بات پر محمول کیا گیا ھے کہ یہ حصہ قرآن سے منسوخ الرسم ھوگیا ھے کیونکہ موجودہ قرآن میں اس مقدار کے حروف موجود نھیں ھیں ۔
کتناغیرمعقول موٴقف ھے کہ قرآن کا دو تھائی منسوخ الرسم ھو جائے اور صرف ایک تھائی باقی رہ جائے؟!

اسلامي فرقے اور تقيہ



اسلامي فرقے اور تقيہ


امام اهل سنت احمد بن حنبل کے اس مناظره پر مشهور ومعروف اديب اور دانشمند ”جاحظ“نے ایک اچھی تفسیر لکھی ہے . جاحظ اپنے اس رسالے میں اہل سنت سے مخاطب ہے کہ تمھارا امام احمد بن حنبل نے رنج اور امتحان کے بعد اعتراف کرلیا ہے : سوائے کافرستان کے کہیں اور تقیہ جائز نہیں ہے . ليکن ان کا قرآن کے بارے میں مخلوق ہونے کا اعتراف کرنا تقیہ کے سوا کچھ اور تھا ؟! اور کيا یہ تقیہ دار الاسلام میں انہوں نے نهيں کیا جو اپنے عقیدے کی تکذیب کررہا ہے ؟! اگر ان کا اقرار صحیح تھا تو تم ان سے اور وہ تم سے نہیں ہے .
شيعه ان لوگوں سے سوال کرتے ہیں کہ حجر بد عدی اور يزيد بن صوحان عبدي جو علی (ع)کے ماننے والےتھے ان کا معاویہ کا ظالمانہ اور جابرانہ دربار میں علی کا مدح کرنا کیا تقيہ تھا ؟!
بس يه  ماننا پڑے گا که شيعه هر جگه تقيہ کو روا نهيں سمجھتے ، بلکه جهاں جائز هو وہاں تقيہ کرتے هيں.

حسن بصری (ت۱۱۰ھ)اور تقیہ
یہ تابعین میں سے تھا کہتا ہے کہ تقیہ قیامت تک کيلئے جائز هے(5 ) یہ ان لوگوں میں سے تھا جو صحابہ کےحالات سے واقف تھے.اس قول کو یا ان سے سنا ہے یا اس نے اس مطلب کو قرآن سے لیا ہے . (6 )

بخاری (ت۲۵۶ھ) اور تقیہ
مشروعیت تقیہ پر لکھي هوئي کتاب "الاکراہ " میں مختلف روایات کو دلیل کے طور پر نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بخاری کا نظریہ کیا ہے ؟اس آیہ شریفہ کو نقل کرتا ہے :
ومَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَ قَلْبہ مطْمَئنِ‏ُّ بِالْايمَانِ وَ لَاكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ(7 ) جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرلے .... علاوہ اس کے کہ جو کفر پر مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو ....اور کفر کے لئے سینہ کشادہ رکھتا ہو اس کے اوپر خدا کا غضب ہے اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب ہے.
اور: لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَ مَن يَفْعَلْ ذَالِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فىِ شىَ‏ْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُواْ مِنْهُمْ تُقَئةً (8 )
(خبردار صاحبانِ ایمان .مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا و لی اور سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اور خدا تمہیں اپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے . (9 )


مسلمہ اصول حدیث

مسلمہ اصول حدیث

مسلمہ اصول احادیث میں ایک اصول یہ بھی ہے کہ اگر شیعہ امام ۔الحافظ ۔ عادل اور ثقہ راوی کوئی ایسی حدیث روایت کرتا ہے جو کہ اس کے عقیدے کو تقویت دیتی ہے تو اس روایت کو ضیف شمار کیا جائے گا چاہے اس روایت کی تائید قرآنی آیات سے ہورہی ہو ۔

اس کے برعکس سنی راوی جو صرف ثقہ ہو اس کی روایت اگر سنی عقائد کی تائید کرتی ہو تو ایسے سر آنکھوں پر رکھا جائے گا چاہے یہ روایت کسی آیت قرآنی سے متصادم ہو اس کے لئے مسلمہ اصول یہ ہے کہ قرآنی آیت کو منسوخ تصور کیا جائے گا ۔


اور اس کو دین سمجھا جائے گا ۔


انا للہ وانا الیہ راجعون

  #21


Thursday, February 21, 2013

قرآن کی بجائے امام بخاری کا دفاع



 قرآن کی  بجائے امام  بخاری کا دفاع





صحیح  بخاری کتاب الاکراہ کے متن  میں تحریف

77 - جبر کرنے کا بیان : (12)
اللہ تعالیٰ کا قول کہ مگر وہ جس پر جبر کیا گیا۔ اور اس کا قلب ایمان سے مطمئن ہے، لیکن وہ جس نے سینہ کفر کے لئے کھول دیا تو ان پر اللہ کی طرف سے غضب نازل ہوگا اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے ،
 
اور فرمایا ، تقاۃ کے معنی تقیہ ہیں (یعنی کافروں کے خوف سے ایمان کا چھپانا)
 اور اللہ تعالی نے فرمایا
 
ان الذین توفاھم الملاءکۃ ظالمی انفسھم قالوا فیم کنتم قالوا کنا مستضعفین فی الارض  الی قولہ  واجعل لنا من لدنک نصیرا۔
 پس اللہ تعالی نے معذور قرار دیا ان کو جو اللہ تعالی کے اوامر کے ترک سے رک نہیں سکتے اور جس شخص پر جبر کیا گیا وہ بھی کمزور ہی ہے کہ جو کچھ اسے حم دیا گیا اس کے کرنے سے رک نہیں سکتا
 
اور حسن کا بیان ہے کہ تقیہ قیامت تک جاری ہے
 اور حضرت ابن عباس نے کہا کہ جس شخص پر چوروں نے زبردستی کی وہ اس کو  طلاق دے دے، تو یہ کچھ بھی نہیں ہے اور حضرت ابن عمر وابن زبیر وشعبی اور حسن نے بھی یہی کہا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اعمال نیت پر موقوف ہیں۔
حدثنا يحيی بن بکير حدثنا الليث عن خالد بن يزيد عن سعيد بن أبي هلال عن هلال بن أسامة أن أبا سلمة بن عبد الرحمن أخبره عن أبي هريرة أن النبي صلی الله عليه وسلم کان يدعو في الصلاة اللهم أنج عياش بن أبي ربيعة وسلمة بن هشام والوليد بن الوليد اللهم أنج المستضعفين من المؤمنين اللهم اشدد وطأتک علی مضر وابعث عليهم سنين کسني يوسف
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1868         حدیث مرفوع        مکررات  20   متفق علیہ 14
 یحیی بن بکیر، لیث، خالد بن یزید، سعید بن ابی بلال، بن اسامہ، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں دعا پڑھا کرتے تھے کہ اے اللہ ، عیاش بن ابی ربیعہ اور سلمہ بن ہشام اور ولید بن ولید کو (کفار کے ظلم سے) نجات دے دے، اے اللہ کمزور مسلمانوں کو نجات دیدے، اے اللہ اپنی گرفت (قبیلہ مضر پر سخت کر) اور ان کو حضرت یوسف کے قحط میں مبتلا کر دے۔
Narrated Abi Huraira:
The Prophet used to invoke Allah in his prayer, "O Allah! Save 'Aiyash bin Abi Rabi'a and Salama bin Hisham and Al-Walid bin Al-Walid; O Allah! Save the weak among the believers; O Allah! Be hard upon the tribe of Mudar and inflict years (of famine) upon them like the (famine) years of Joseph."

Reference: Easy QuranWaHadees V3.41


سب سے پہلے زیر موضوع حدیث کا متن اور ترجمہ
صحیح بخاری
کتاب الاکراہ
باب: اللہ تعالیٰ نے فرمایا مگر اس پر گناہ نہیں کہ
وقول الله تعالى ‏ {‏ إلا من أكره وقلبه مطمئن بالإيمان ولكن من شرح بالكفر صدرا فعليهم غضب من الله ولهم عذاب عظيم‏}‏ وقال ‏ {‏ إلا أن تتقوا منهم تقاة‏}‏ وهى تقية وقال ‏ {‏ إن الذين توفاهم الملائكة ظالمي أنفسهم قالوا فيم كنتم قالوا كنا مستضعفين في الأرض‏}‏ إلى قوله ‏ {‏ عفوا غفورا‏}‏ وقال ‏ { والمستضعفين من الرجال والنساء والولدان الذين يقولون ربنا أخرجنا من هذه القرية الظالم أهلها واجعل لنا من لدنك وليا واجعل لنا من لدنك نصيرا‏}‏ فعذر الله المستضعفين الذين لا يمتنعون من ترك ما أمر الله به،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والمكره لا يكون إلا مستضعفا غير ممتنع من فعل ما أمر به‏.‏ وقال الحسن التقية إلى يوم القيامة‏.‏ وقال ابن عباس فيمن يكرهه اللصوص فيطلق ليس بشىء،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وبه قال ابن عمر وابن الزبير والشعبي والحسن‏.‏ وقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ الأعمال بالنية ‏"‏‏.
ترجمہ از داؤد راز
جس پر زبردستی کی جائے اور درآنحالیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو لیکن جس کا دل کفر ہی کے لیے کھل جائے تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہو گا اور ان کے لیے عذاب دردناک ہو گا اور سورۃ آل عمران میں فرمایا یعنی یہاں یہ ہو سکتا ہے کہ تم کافروں سے اپنے کو بچانے کے لیے کچھ بچاؤ کر لو۔ ظاہر میں ان کے دوست بن جاؤ یعنی تقیہ کرو۔ اور سورۃ نساء میں فرمایا بیشک ان لوگوں کی جان جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا ہے جب فرشتے قبض کرتے ہیں تو ان سے کہیں گے کہ تم کس کام میں تھے وہ بولیں گے کہ ہم اس ملک میں بے بس تھے اور ہمارے لیے اپنے قدرت سے کوئی حمایتی کھڑا کردے-----آخر آیت تک۔ امام بخاری نے کہا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کمزور لوگوں کو اللہ کے احکام نہ بجالانے سے معذور رکھا اور جس کے ساتھ زبردستی کی جائے وہ بھی کمزور ہی ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس کام سے منع کیا ہے وہ اس کے کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اور امام حسن بصری نے کہا کہ تقیہ کا جواز قیامت تک کے لیے ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جس کے ساتھ چوروں نے زبردستی کی ہو (کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دیدے) اور پھر اس نے طلاق دے دی تو وہ طلاق واقع نہیں ہو گی یہی قول ابن زبیر، شعبی اور حسن کا بھی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اعمال نیت پر موقوف ہیں۔؎

عربی متن میں لال رنگ زدہ آیات قرآن ہیں اب ان آیات قرآنی کا ترجمہ ایسی ترتیب سے یکجاء کرتے ہیں جس ترتیب سے امام بخاری نے پیش کی ہیں

سوا اس کے جو مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر جمع ہوا ہو ہاں وہ جو دل کھول کر کافر ہو ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کو بڑا عذاب ہے مگر یہ کہ تم ان سے کچھ ڈرووہ لوگ جن کی جان فرشتے نکالتے ہیں اس حال میں کہ وہ اپنے اوپر ظلم کرتے تھے اُن سے فرشتے کہتے ہیں تم کاہے میں تھے کہتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور تھے
اللہ معاف فرمانے والا بخشنے والا ہے
اور کمزور مردوں اور عورتوں اور بچوں کے واسطے جو یہ دعا کر رہے ہیں کہ اے رب ہمارے ہمیں اس بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی حمایتی دے دے اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی مددگار دے دے
سورۃالنحل :106
آل عمران: 28
النساء :97
النساء :99
اب دیکھتے ہیں کہ سورۃ النساء کی آیات میں کن لوگوں کے بارے میں کہا گیا کہ اللہ معاف فرمانے والا بخشنے والا ہے
وہ لوگ جن کی جان فرشتے نکالتے ہیں اس حال میں کہ وہ اپنے اوپر ظلم کرتے تھے اُن سے فرشتے کہتے ہیں تم کاہے میں تھے کہتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور تھے کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے تو ایسوں کا ٹھکانا جہنّم ہے اور بہت بری جگہ پلٹنے کی{ النساء : 97} مگر وہ جو دبا لئے گئے مرد اور عورتیں اور بچے جنہیں نہ کوئی تدبیر بن پڑے نہ راستہ جانیں{ النساء : 98} تو قریب ہے اللہ ایسوں کو معاف فرمائے اور اللہ معاف فرمانے والا بخشنے والا ہے{ النساء : 99}
مترجم : امام احمد رضا بریلوی

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ " وہ لوگ جن کی جان فرشتے نکالتے ہیں اس حال میں کہ وہ اپنے اوپر ظلم کرتے تھے اُن سے فرشتے کہتے ہیں تم کاہے میں تھے کہتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور تھے کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے تو ایسوں کا ٹھکانا جہنّم ہے اور بہت بری جگہ پلٹنے کی{ النساء : 97}صحیح بخاری میں اس آیات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے " وہ لوگ جن کی جان فرشتے نکالتے ہیں اس حال میں کہ وہ اپنے اوپر ظلم کرتے تھے اُن سے فرشتے کہتے ہیں تم کاہے میں تھے کہتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور تھے { النساء : 97} اللہ معاف فرمانے والا بخشنے والا ہے { النساء : 99}
اس طرح ان آیات کو پڑھنے سے قرآن کے احکام کے خلاف مطلب ظاہر ہوتا ہے جبکہ قرآن ان لوگوں جن کی روح فرشتے نکالتے ہیں کہتا ہے کہ " تو ایسوں کا ٹھکانا جہنّم ہے اور بہت بری جگہ پلٹنے کی" جبکہ امام بخاری ان لوگوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ" اللہ معاف فرمانے والا بخشنے والا ہے" جبکہ اللہ کا یہ فرمان ان لوگوں کے بارے میں ہے جو دبا لئے گئے مرد اور عورتیں اور بچے جنہیں نہ ہجرت کی کوئی تدبیر بن پڑے نہ راستہ جانیں اللہ نے ایسوں کے بارے میں فرمایا کہ " تو قریب ہے اللہ ایسوں کو معاف فرمائے اور اللہ معاف فرمانے والا بخشنے والا ہے"
اللہ اعلم ورسولہ اعلم
والسلام


امام بخاری نے سورۃ النساء کی آیات کو جس ترتیب سے پیش کیا وہ یہ ہے

اقتباس:
{‏ إن الذين توفاهم الملائكة ظالمي أنفسهم قالوا فيم كنتم قالوا كنا مستضعفين في الأرض‏}‏ إلى قوله ‏ {‏ عفوا غفورا‏}‏ وقال ‏ { والمستضعفين من الرجال والنساء والولدان الذين يقولون ربنا أخرجنا من هذه القرية الظالم أهلها واجعل لنا من لدنك وليا واجعل لنا من لدنك نصيرا‏}‏

ترجمہ از داؤد راز
اقتباس:
اور سورۃ نساء میں فرمایا بیشک ان لوگوں کی جان جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا ہے جب فرشتے قبض کرتے ہیں تو ان سے کہیں گے کہ تم کس کام میں تھے وہ بولیں گے کہ ہم اس ملک میں بے بس تھے اور ہمارے لیے اپنے قدرت سے کوئی حمایتی کھڑا کردے-----آخر آیت تک۔ امام بخاری نے کہا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کمزور لوگوں کو اللہ کے احکام نہ بجالانے سے معذور رکھا

سب سے پہلے امام بخاری نے سورۃ نساء کی آیت 97 کا ایک حصہ بیان کیا کہ
وہ لوگ جن کی جان فرشتے نکالتے ہیں اس حال میں کہ وہ اپنے اوپر ظلم کرتے تھے اُن سے فرشتے کہتے ہیں تم کاہے میں تھے کہتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور تھے
اتنا حصہ بیان کرنے کے بعد سورۃ النساء کی آیت 99 کا آخری حصہ بیان کیا کہ
اللہ معاف فرمانے والا بخشنے والا ہے
اورسورۃ النساء کی آیت97 کا یہ حصہ بیان نہیں کیا کہ
فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے تو ایسوں کا ٹھکانا جہنّم ہے اور بہت بری جگہ پلٹنے کی

اور اس کے بعد امام بخاری نے سورۃ النساء کی آیت 75 بیان کی کہ

اور کمزور مردوں اور عورتوں اور بچوں کے واسطے جو یہ دعا کر رہے ہیں کہ اے رب ہمارے ہمیں اس بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی حمایتی دے دے اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی مددگار دے دے
پہلے امام بخاری نے سورۃ النساء کی آیت 97 کا ایک حصہ بیان کیا اسکے فوراً آیت 99 کا آخری حصہ بیان کیا اور آخر میں آیت 75 کا ایک حصہ بیان کیا اور ان سب آیات کو امام بخاری کی دی ہوئی ترتیب سے پڑھنے سے قرآن کے احکام کے خلاف معنی بنتے ہیں اور پھر اس کے مترجم نے تو کمال ہی کردیا کہ سورۃ النساء کی آیت 97 اور 75 کو باہم ملا دیا اس طرح
سورۃ نساء میں فرمایا بیشک ان لوگوں کی جان جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا ہے جب فرشتے قبض کرتے ہیں تو ان سے کہیں گے کہ تم کس کام میں تھے وہ بولیں گے کہ ہم اس ملک میں بے بس تھے اور ہمارے لیے اپنے قدرت سے کوئی حمایتی کھڑا کردے-
سورۃ النساء : 97
سورۃ النساء : 75
اور یہ حکم بھی لگادیا کہ
امام بخاری نے کہا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کمزور لوگوں کو اللہ کے احکام نہ بجالانے سے معذور رکھا
اس سے تو ایسا لگتاہے کہ متن حدیث میں امام بخاری نے آیات قرآنی کے احکام کے خلاف ان لوگوں کو معاف فرمانے کی بات کی ہے جن لوگوں کے بارے میں اللہ فرماتا ہے کہ ایسوں کا ٹھکانہ جنہم ہے اور دوسری طرف مترجم نے ایک ہاتھ آگے بڑھکر آیت 97 اور 75 کو ملا کر بیان کردیا اور ہم ان کے دفاع میں کمر کس کر آگے آگئے ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم امام بخاری کے دفاع کی بجائے قرآن کا دفاع کرتے ۔
والسلام