Monday, February 11, 2013

کیا ان کے لئے قرآن کافی نہیں ہے؟



إِنَّ هَـذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ (9-17)
تحقیق یہ قرآن ان قوانین کی ہدایت کرتاہے جو نہایت مضبوط ہوں۔

کیا ان کے لئے قرآن کافی نہیں ہے؟

جن لوگوں کو صحیح اقوال واحادیث رسول علیہ السلام کی تلاش ہے ان کے لئے اللہ کی رہنمائی۔
إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ  (40-69)
 یہ قرآن ہی صحیح قول رسول کریم ہے۔
وما ھو بقول شاعر،  یہ کسی شاعر کا قول نہیں یہ قرآن نبی علیہ السلام کی یا کسی اور کی شاعری نہیں ہے، ولا بقول کاھن یہ قرآن کسی جوتشی اور کاہن کا بھی قول نہیں ہے۔
اللہ فرماتا ہے کہ ہمارے ان عظیم اعلانات پر  قَلِيلًا مَا تُؤْمِنُونَ  (41-69)
تھوڑے ہی لوگ ایمان لاتے ہیں۔
 اور
 قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (42-69)
  تھوڑے ہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں۔

امامی علوم میں خلاف قرآن روایات بنام احادیث رسول کے انبار بھرے پڑے ہیں، ہمارا نبی تفسیر قرآن میں ایسی من گھڑت باتیں نہیں ملاسکتا۔
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ۔ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ۔ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ۔ فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ۔ وَإِنَّهُ لَتَذْكِرَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ (44 تا 48 69)
 اگر وہ گھڑ لیتا ہمارے اوپر بعض افترا کردہ باتیں تو ہم ضرور پکڑتے اسے دائیں ہاتھ کے ساتھ، یعنی طاقت کے ساتھ پھرکاٹ لیتے اسکی سانس لینے والی رگ کو (یعنی اسکا سانس لینا ہی بند کردیتے) پھر تم میں سے کسی ایک کی مجال نہ ہوتی (ہمیں اس سے) روکنے کی (جان لوکہ) یہ قرآن ان کے لئے نصیحت ہے جنہیں خوف خدا ہو۔
 وَإِنَّا لَنَعْلَمُ أَنَّ مِنكُم مُّكَذِّبِينَ (49-69)
 اور ہم یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ تم میں سے (ہماری اس دعوی کو) جھٹلانے والے بھی ہیں۔
وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكَافِرِينَ (50-69)
 (ہمیں ان جھٹلانے والوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے ایسے منکرین لوگ جان لیں کہ انکی یہ تکذیب) یقین کے ساتھ ایسے کافروں پر حسرت بنکر انہیں ہمیشہ ڈستی رہے گی۔
 وَإِنَّهُ لَحَقُّ الْيَقِينِ (51-69)
 (جان لوکہ) یہ قرآنی حقائق (علم الیقین سے بڑھکر اور عین الیقین سے بھی بڑھکر) حق الیقین کے مرتبہ کے ہیں۔
 سو، اے مخاطب قرآن! اے میرے رسول! آپ منکرین قرآن کے انکار کی پرواہ کئے بغیر
 فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ (52-69)
 مصروف اور مشغول رہیں اپنے رب کے نظام ربوبیت کو غالب اور متعارف کرانے میں جو تیرا  رب ان کے باطل قانون سازوں سے بڑا ہے۔

مثبت اور منفی، دونوں طریقوں سے اتباع قرآن کی تلقین
مثبت انداز
اتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم  (3-7)
 تابعداری کرواس علم کی جو آپکی طرف نازل کیا گیا ہے (یعنی قرآن کی)
منفی انداز
وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاء قَلِيلاً مَّا تَذَكَّرُونَ (3-7)
 اور نہ تابعداری کرو سواء اسی قرآن  کے کسی اور کی، اسے ولی اور دوست قرار دیتے ہوئے (یعنی غیر قرآنی علوم آپکے دشمن ہیں) تھوڑے لوگ ہیں جو اس حکم سے نصیحت حاصل کریں گے۔

قرآن کو قرآن کی آیات کے ذریعہ سے سمجھانے پر لوگ نفرت کرتے ہیں
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَـذَا الْقُرْآنِ لِيَذَّكَّرُواْ وَمَا يَزِيدُهُمْ إِلاَّ نُفُورًا (41-17)
 اور یقینا ہم نے اس قرآن میں پھر ا پھرا کر لوٹ لوٹ کر (اسکے مفاہیم کو) لایا ہے انہیں سمجھانے کے لئے، اور تفہیم قرآن کی خاطر ہمارے اس انداز تصریف آیات سے انکی نفرت بڑھتی ہے۔

اصل میں یہ منکرین قرآن لوگ، اللہ کی وحدانیت سے نفرت کرنے والے ہیں
وَإِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْآنِ وَحْدَهُ وَلَّوْاْ عَلَى أَدْبَارِهِمْ نُفُورًا (46-17)
 اور جب آپ ذکر کرینگے اپنے رب کے (قوانین کا) قرآن میں اسے وحدہ لاشریک قرار دیتے ہوئے تو یہ قرآن دشمن لوگ پیٹھ پھیر کر نفرت کی وجہ سے بھاگ جائینگے، (اس لئے کہ یہ لوگ اپنے لئے امامی علوم کی فقہوں اور روایات سے سرمایہ داریت، جاگیرداریت اور غلام سازی کو جائز بنانے کے لئے اپنی خاطر خلاف قرآن قوانین تیارکراچکے ہیں)
لیکن دنیا والو! سن لو!
بات انکی نہیں چلے گی اصل بات یہ ہے کہ
  فَالْحُكْمُ لِلَّهِ الْعَلِيِّ الْكَبِير (12-40)
 یعنی حاکمیت اور بادشاہی اس اللہ کی رہے گی جو بلند اور بڑا ہے۔

امامی علوم و روایات کے پیرو کار اصل میں اللہ کی حاکمیت کے منکر ہیں۔
قوانین دنیاوی اور جملہ نصیحتوں کا مأخذ قرآن کو قرار دیا گیا ہے،
 فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ (45-50)
  اسلئے اے نبی! آپ صرف قرآن سے ہی نصیحت کیا کریں ہر اس شخص کو جو اللہ کی وعید اور وارننگ سے ڈرتاہو۔

دنیا والوں کو بتا‍ؤ کہ آپکو ڈرانے کے لئے مجھے صرف یہ ایک قرآن دیا گیا ہے۔
وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَذَا الْقُرْآنُ لأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ (19-6)
 یعنی میری طرف صرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے تاکہ ڈرائوں تمہیں اور جن تک یہ قرآن پہنچ پائے۔ اگر تم لوگ قرآن کے سوا امامی روایات اور ان سے بنائے ہوئے علوم کو دین کا اصل ثانی ثالث اور رابع قرار دیتے ہو تو یہ تمہارا نظریہ
 أَنَّ مَعَ اللّهِ آلِهَةً أُخْرَى (19-6)
 یعنی شرکیہ قرار پائیگا، سو میں رسول تو اللہ کے ساتھ بنائے ہوئے ایسے شرکاء سے بیزار ہوں۔
تمہارا روایت ساز اماموں اور فقہ ساز اماموں کے گھڑے ہوئے خلاف قرآن علوم کو قرآن کے مقابلہ میں دین کا اصل اور مأخذ تسلیم کرنا، یہ تو ان اماموں کو اللہ کے مقابلہ میں مقنن اور قانون ساز تسلیم کرنا ہوا ،یہ تو اللہ کے ساتھ شرک ہوا۔ اے نبی! آپ ان مخالفین قرآن سے پوچھو کہ
 أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللّهِ آلِهَةً أُخْرَى(19-6)
 کہ کیا تم لوگ شاہدی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اور بھی کئی سارے قانون ساز اور الٰہ ہیں؟ اے نبی آپ انہیں کہیں کہ کم از کم میں رسول تو ایسی شرکیہ شاہدی نہیں دونگا، میرا نظریہ تو
 انماھو الہ واحد
 ہے یعنی
 وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ (19-6)
 میں بیزار ہوں ان سے جن کو تم لوگوں نے اللہ کی طرح قانون ساز بنایا ہوا ہے یہ سب کچھ اس لئے کہ
 فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ  (114-20)
 میرے  نظریہ کے مطابق جو قانون ساز اور مقنن اللہ ہےو ہ بادشاہ بر حق ہے۔

اللہ کی جانب سے مسائل دین میں جناب رسول کو بجاء قرآن کے اپنی طرف سےحدیثیں بتانے پر بندش۔
وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا (114-20)
 اے رسول! مسائل دین بتانے میں قرآنی وحی کی تکمیل سے پہلے اپنی طرف سے حدیثیں بتانے میں جلدی اور عجلت نہ کریں، لوگوں کو مسائل دین کےسوالوں کے جواب دینے کے لئے اللہ سے رجوع کریں، دعا مانگیں مطالبہ کریں کہ
 رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا (114-20)
 یعنی اے میرے رب! بڑھا میرے علم کو۔ پھر جب مسئولہ سوال کا جواب بذریعہ وحی ملجائے تو وہ لوگوں کو پہنچائیں۔ یعنی کسی مسئلہ کے جواب میں اگر قرآن نازل نہیں ہوسکا ہے تو اتنے تک آپ اپنی طرف سے کوئی جواب نہ دیں، کوئی اپنی حدیث نہ بتائیں اور چپ رہیں! وحی کے ذریعے جواب ملنے تک۔

جامع قرآن اللہ ہے، قرآن کی کل قرائت ایک ہے جسکا معلم اول اللہ ہے اور مفسر قرآن بھی اللہ ہے۔
لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ۔ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ۔ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ۔ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ (16 تا 19-75)
 یہ چار عدد آیات سورت قیامت کی ہیں ان آیات کے ماقبل اور ما بعد کے مضمون پر غور کیا جائے گا تومعلوم ہوگا کہ نزول سورت قیامت کے دور میں یعنی نبوت کے ابتدائی مکی دور میں جناب رسول علیہ السلام کی دعوت دین کے جواب میں مخالفین لوگ حیات اخروی یعنی
بعث بعد الموت
 کے انکار میں بھی شدت دکھا رہے تھے تو ایسی صورتحال میں جناب خاتم الانبیاء علیہ السلام کو اپنی کتاب قرآن کی حفاظت کی فکر دامنگیر ہونا بھی لازم تھا، جس پر بارگاہ ایزدی سے درمیان سورت اسے ان آیات میں تسلی دی گئی ہے کہ اے میرے رسول آپ کوئی غم نہ کریں فلسفہ قرآن، دعوت قرآن، حفاظت قرآن کی خاطر آپ اپنی زبان بھی نہ ہلائیں، ایسا کرنا یہ آپ کی عجلت اور جلدی کرنا ہوگی جمع و ترتیب قرآن اسکی پڑھت والی قرائت اور ادائگی کی تعلیم سب ہمارے ذمے ہوگی، ہم جب اس قرآن کو پڑھیں تو آپ بھی ہماری قرائت کی اتباع کریں، (یاد رکھا جائے کہ) بات صرف جمع قرآن اور قرائت قرآن تک کی نہیں تھی اے میرے نبی!)
 ثم ان علینا بیانہ
 اس کے بعد اس کتاب کی تبیین و تفسیر والی تعلیم بھی ہمارے ذمے ہے، یعنی بشمول آپ کے کسی کو بھی قرآن سمجھنے کے لئے قرآن سے باہر کے سہارے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

مفسر قرآن اللہ ہے
الَر كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ (1-11)
 کتاب قرآن کی جملہ آیات محکم بھی ہیں اور سب کی سب تفصیل کی گئی ہیں اللہ کی جانب سے جو حکیم بھی ہے اور خبیر بھی۔

احسن اور خوب تر حدیثوں کی کتاب تو قرآن ہے
اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ (23-39)
رب تعالی کا فرمان ہے کہ دنیا کی حدیثوں میں نہایت حسین اور عمدہ حدیثوں والی کتاب تو قرآن ہے جسکی ایک دوسری سے ملنے والی بار بار ذکر کردہ احادیث کو پڑھنے سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں،ان لوگوں کے جن کو خوف خدا ہو پھر بتایا جائے کہ قرآن حکیم کی خوبتر حدیثوں کے ہوتے ہوئے مجوسی یہودی نصاری کے اتحاد ثلاثہ کے لوگوں کی حدیثیں کیوں؟۔

لوگوں کو اللہ کی سچی حدیثیں پسند نہیں ہیں
تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ۔ وَيْلٌ لِّكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ (6-7-45)
 یہ اللہ کی آیتیں ہیں (یہی تو سچی حدیثیں ہیں) جو ہم تجھ پر حق کے ساتھ پڑھتے ہیں پس کونسی حدیث پر اللہ کے بعد اور اسکی آیات کے بعد یہ لوگ ایمان لے آئینگے؟ ہلاکت ہو ہر ایسے جھوٹے مجرم کے لئے جو اللہ کی آیات کو تکبر سے سنی ان سنی کردیتا ہے۔

کیا ان لوگوں کے لئے اللہ کا نازل کردہ قرآن کافی نہیں ہے؟
أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ (51-29)
 کیا ان کے لئے اتنا کافی نہیں ہےکہ ہم نے آپ کے اوپر کتاب قرآن نازل کیا ہے جسکی ان کے او پر تلاوت کی جاتی ہے۔
اللہ کے اس سوال کے جواب میں امت مسلمہ نے گویا کہ اللہ کو یہ کہا ہے کہ ہمیں آپ کا عطا کیا ہوا علم وحی جسکی تلاوت کی جاتی ہے وہ قوانین دین کے لئے منظور نہیں، ہم نے اپنے لئے علم الاحادیث غیر متلو پسند کرلیا ہے، یعنی جس کی تلاوت نہ کی جاتی ہو، علم روایات اور درس نظامی والے علم حدیث کا نام غیر متلو اس لئے تجویز کیا گیا ہے کہ اس کو کوئی بھی  پڑھکر دیکھے گا تو بخاری مسلم ترمذی وغیرہ میں جناب رسول اللہ اور اسکے اصحاب کرام کو ان میں غلیظ گالیاں لکھی ہوئی ملیں گی، مدرسہ کے ایک طالب علم نے بخاری پڑھنے کے دوران اپنے استاد سے اسطرح کی ایک تبرائی حدیث کے متعلق وضاحت طلب کی تو جواب میں استاد نے کہا کہ ایسی حدیثوں کے بارے میں نہ پوچھا کرو اور نہ ہی ایسی حدیثیں عام لوگوں کو بتایا کرو۔ ٹھیک ہے اگر ہم مسلم عوام کو ایسی حدیثیں نہ بتائیں لیکن غیر مسلم لوگ تو ان حدیثوں سے گستاخی والی فلمیں حوالہ جات دیکر بنا رہے ہیں پھر انکے خلاف  مسلم امت کے لوگوں کو احتجاجی جلوس نکالتے وقت ان کتابوں اور درس نظامی کے پڑھنے پڑھانے والوں کے خلاف بھی احتجاج کرنا چاہیے۔ معلوم ہوتا ہے کہ درس نظامی کے حاملین عالموں نے ایسی تبرائی حدیثوں کا نام غیر متلو یعنی نہ پڑھی جانے والی اسلئے رکھا ہے کہ مسلم عوام ان حدیثوں کو پڑھکر امپورٹڈ ائمہ احادیث کا چھپا ہوا بہروپیائی چہرہ نہ پہچان جائیں۔

جناب رسول کی حیاتی میں ہی ان کی حدیثوں میں ہیرا پھیری۔
يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِن بَعْدِ مَوَاضِعِهِ (41-5)
 یہودی لوگ آپکی محفل میں آکر آپ کی حدیثیں سنکر پیچھے والے لوگوں کو حدیثوں کے کلمات اپنے موقعوں سے تبدیل کرکے سناتے ہیں۔
 پھر بتایا جائے کہ وفات رسول کے بعد من گھڑت حدیثیں کیوں نہ لائی گئی ہونگی؟۔

تفہیم دین کے لئے غیر قرآنی علوم کےحوالےمت دیا کریں
فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ (45-50)
 اے نبی! قرآن سے قوانین سنایا کر! ہر اس آدمی کو جو ڈرتا ہو اللہ کی وارننگ سے۔
 اس حکم سے امامی علوم کے حوالوں سے مسائل دین پڑھنا سیکھنا ممنوع ہوا،  اسلئے کہ
 وَلَقَدْ جِئْنَاهُم بِكِتَابٍ فَصَّلْنَاهُ عَلَى عِلْمٍ هُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (52-7)
 ہم انکے پاس ایسی کتاب لائے ہیں جس کو ہم نے علمی پئمانوں سے تفصیل کیا ہوا ہے جو ہدایت اور رحمۃ ہے ایسی قوم کے لئے جو ایمان لاتی ہو۔
اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا (39-52)
 اللہ نے کتاب قرآن کو حسین تر حدیثوں والی کتاب بنا کر نازل کیا ہے۔
 نبی کی مجالس والی حدیثوں میں تو یہودی لوگ بعد والے لوگوں کو بہکانے کے لئے ہیر پھیر کرتے تھے۔ (41-5)
 لیکن
 إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (9-15)
 قرآن کو ہم نے نازل کیا ہے اسکی حفاظت بھی ہمارے ذمے ہے، حدیثوں میں گڑبڑ کرنے والے یہودی نصاری اور مجوس تھے۔ قرآن حکیم کی ان اطلاعات سے یہ حقیقت ثابت ہوگئی کہ علم روایات والی جملہ احادیث کتب احادیث کے مرتب اور جامع جو مختلف اماموں کی بنائی ہوئی ہیں اگر انکی جملہ احادیث یا ان میں سے بعض احادیث جناب خاتم الانبیاء علیہ السلام کی فرمائی ہوئی ہوتیں تو یقینا آں جناب علیہ السلام
 وذکر بالقرآن
والے حکم ربی پر(45-50) عمل کرتے ہوئے یہ ضرور فرماتے کہ میں یہ بات قرآن حکیم کی اس آیت، اس سورۃ کی روشنی میں بتا رہا ہوں، جبکہ ٹوٹل ذخیرہ احادیث وروایات جو کہ لاکھوں کے عدد پر محیط ہے ان سب میں سے کوئی ایک بھی حدیث اور روایت کوئی شیخ الحدیث کوئی حدیث پرست، کوئی مدرسوں کا مولوی نہیں دکھا سکتا جس میں جناب رسول علیہ السلام نے درس قرآن دینے کے طریقہ پر پہلے آیات قرآنی تلاوت فرمائی ہوں پھر انکا درس
  وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ (129-2)
 کے اسلوب پر دیا ہو جس کے لئے وہ رسول بناکر بھیجے گئے تھے۔
آج کل کے کئی لوگ
 وذکر بالقرآن
 اور تصریف آیات کے اسلوب پر درس قرآن دیتےہیں، لکھتے ہیں، لیکن ذخیرہ احادیث میں جناب رسول کا ایک بھی درس، قرآن کی تفسیر قرآن سے، پر مشتمل کیوں نہیں؟
جناب رسول علیہ السلام کی سچی حدیث مبارکہ  اورصحیح قول رسول تو وہ ہوگا جو آیت
 فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ (45-50)
 کی روشنی اور تعمیل میں فرمایا گیا ہوگا۔ ایسے قول رسول، اور جناب رسول کے درس قرآن کو پہلے پیش تو کیا جائے! جبکہ لاکھوں کی تعداد پر مشتمل ذخیرہ احادیث ،جناب رسول کے اس قسم کے درس قرآن والی حدیث سے خالی ہے!!؟ بتایا جائے کہ جناب رسول جس قرآن کو لوگوں تک پہنچانے کیلئے بھیجے گئے تھے اسنے اپنے فرمودات عالیہ میں تعلیم اور تدریس قرآن کا وہ اسلوب تصریف آیات اور
 فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ (45-50)
 کا کیوں اختیار نہیں فرمایا؟۔ اور موجودہ ذخیرہ احادیث جناب رسول کے اسطرح کے درس قرآن سے کیوں خالی ہے؟
صدیوں سے جو اسلام کے نام پر امت مرحومہ کے ورثہ کے طور پر موجودہ علم حدیث اور ان سے تیار کردہ تفسیر بالروایات فقہیں اور تاریخ مارکیٹ میں موجود ہے یہ جملہ کے جملہ علوم، فلسفہ قرآن کو توڑنے اور رد کرنے کے لئے دشمنان اسلام کے اتحاد ثلاثہ کے تیار کردہ ہیں، جو یہودی مجوس نصاری امامت کے چوغوں اور جبوں میں ملبوس لوگوں کا تیار کردہ ہے۔
قرآن حکیم جناب خاتم الانبیاء کے لئے آل کا انکار کرتا ہے (40-33)
 قرآن حکیم میں کئی سارے انبیاء کا ذکر آل کے حوالہ سے کیا گیا ہے، جبکہ جناب خاتم الانبیاء کے ذکر کے ساتھ کہیں بھی آل کا ذکر قرآن میں موجود نہیں ہے۔ لیکن جتنے بھی امامی مسالک اور فرقے ہیں ان میں اختلافات کے باوجود یہ سب فرقے اپنی اپنی حدیثوں کے حوالوں سے خلاف قرآن آل محمد کی اصطلاح اور نظریہ پر متفق ہیں!! جو سب فرقے ملکر نمازوں کے اندر آل محمد نامی درودبھی پڑھتے ہیں۔ جس لفظ درود کی معنی ہے کسی کی جڑ کاٹنا، اگرشروع اسلام سے آج تک کی تاریخ پر غور کیا جائیگا تو فلسفہ آل والے درود سے اسلام کی جڑ ہی تو کاٹی گئی ہے یہ ساری مہربانی علم حدیث کی تو ہے۔

سچائی اور عدل کے جملہ قوانین قرآن میں مکمل کئے گئے ہیں
وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلاً لاَّ مُبَدِّلِ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (115-6) تیرے رب کے قوانین جو سچائی اور انصاف پر مبنی ہیں وہ (اس قرآن میں) مکمل لائے جاچکے ہیں، اب کوئی بھی (علم یا عالم) اللہ کے قوانین میں تبدیلی لا نہیں سکتا، (یعنی آئندہ کے لئے نبوت کا دروازہ بند کیا جاتا ہے) اب دنیا کو اس کتاب کی صداقت اور عدل والےعلم پر چلنا چلانا ہے آئندہ کے لئے اللہ سمیع اور علیم کے قوانین میں کوئی ترمیم اور تنسیخ قبول نہیں کی جائے گی۔

حق سچ کی کسوٹی اکثریت نہیں، علمی دلائل ہوتے ہیں
جمہور، جمہور اور اکثریت کی رٹ نہ لگاؤ!! حق و ناحق جھوٹ اور سچ، ظلم اور عدل کے پئمانے لوگوں کی اکثریت والی تعداد سے ناپے نہیں جائیں گے۔ یہ علم کے جہان کی بات ہے وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللّهِ إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَخْرُصُونَ (116-6) اگر تو زمین کے اکثر لوگوں کی اطاعت کے چکر میں رہیگا تو یہ اکثریت والے تجھے اللہ کی راہ سے گمراہ کردیں گے، یہ اکثریت والے لوگ ظنی، وہمی، خیالی چیزوں کے پیروکار ہیں یہ اٹکلوں اور مفروضوں کے پیچھے چلنے والے ہیں۔ (حقائق پر مبنی اصول تو قرآن میں ہیں) اب علم کی دنیا کا دور ہے اب دلائل کی روشنائی میں حق اور باطل کے پئمانے ناپے جائینگے اب اکثریت اور خاندانی نسلی،جڑتو آل کے تقدس سے لوگوں کو بیوقوف بنانے کے دن بیت گئے۔

قرآن بڑا جج اور قاضی ہے
امامی علوم کی اختراعات میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ
 الحدیث قاضی علی کتاب اللہ (ابن حزم)
 یعنی علم روایات والی حدیثیں اللہ کے قرآن پر قاضی اور حاکم ہیں، ان غلاف پوش قرآن دشمن اماموں کے اندر کا پول خود ان کے افکارو نظریات سے عیاں ہے۔ عقلمند لوگ قرآن حکیم کی آیت (43-9) پر غور کریں اور بتائیں کہ حدیث قرآن کے اوپر قاضی اور حاکم ہے یا قرآن حکیم" حدیث و قول وفعل رسول کے اوپر حاکم ہے؟
 عَفَا اللّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُواْ وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ (43-9)
 یعنی اے نبی! اللہ نے آپ کو معافی دیدی، لیکن آپنے ان منافقوں کو جنگ میں شرکت سے پیچھے رہ جانے کی اجازت کیوں دی؟ خیال کرنا آئندہ کے لئے سچے اور جھوٹوں کو پرکھنے کے لئے ان کے ساتھ ایسی نرمی اور رعایت نہ برتنا۔
 اس آیت کریمہ میں پیغمبر کے فیصلہ کو غلط قرار دیکر اللہ نے پہلے اس کی معافی کا اعلان کیا پھر اپنے نبی کو اصل پالیسی کی حکمت سمجھائی کہ ایسے لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے۔ یہاں تک تو بات  ہوئی درس نظامی والی احادیث کی۔  لوگ غور کریں کہ ان میں کس قسم کی تعلیم دی جارہی ہے۔ جس میں ان کی والی امامی روایات کو قرآن کے اوپر حاکم اور قاضی بنایا جاتا ہے۔ ثانیا-  جناب رسول اللہ کے ان مشوروں اور اقوال کریمہ جو یقین کے ساتھ ان کی سچی حدیث ہیں اور وہ بھی بحوالہ قرآن، تو انکی تعمیل سماجی اور معاشرتی معاملات کے حوالہ سے یا عدم تعمیل بلکہ انحرافی سے بھی کیا معاملہ بنتا ہے اسپر بھی علماء درس نظامی اپنی فتوی سے مطلع فرمائیں؟
 قرآن حکیم میں ہے کہ جناب رسول علیہ السلام نے اپنے صحابی زید رضی اللہ عنہ کو حکم اور مشورہ دیا کہ
 أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ (37-33)
 یعنی آپ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھیں اور اسے طلاق نہ دیں اور طلاق دینے میں اللہ کا خوف کھائیں۔
 تو اس کے بعد صحابی زید رضی اللہ عنہ نے جناب رسول کا حکم نہیں مانا اور اپنی بیوی کو طلاق دیدی، تو اسپر علماء درس نظامی جناب زید رضی اللہ عنہ کے اس خلاف حکم رسول عمل اور فیصلہ کے متعلق کیا فرمائیں گے؟جس میں اسنے جناب رسول کے مشورہ والے حکم اور روبرو بغیر عن فلان عن فلان قسم کی سندوالی حدیث کو ٹھکرا دیا اور نہیں مانا، میرے خیال میں تو جناب رسول اللہ کا زید کو طلاق نہ دینے کا مشورہ اور حکم نہایت ہی بہتر اور فائدہ مند بھی تھا، گھروں میں میاں بیوی کی چپقلش کا رد عمل طلاق تک نہ ہونا چاہیے اسکے باوجود جناب زید نے اپنے مربی اور آقا رسول علیہ السلام کا حکم نہ مان کر یہ بھی ثابت کردیا کہ دین اسلام شخصی فکری آزادی کا بھی احترام کرتا ہے، یہی فلسفہ ہے آیت کریمہ
 فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأَمْرِ کا (159-3)
 کیونکہ مشاورت کی صورت حال میں کبھی کبھی جناب رسول کو اپنے ساتھیوں کی باتیں بھی قبول کرنی ہونگی، ایسے موقعہ پر جناب رسول کو اپنی باتیں اور تجویزیں اپنے ساتھیوں کے خیالات اور تجویزوں کے مقابلہ میں واپس لینی ہونگی  قرآن حکیم کی اس پرمنٹ سے غیر قرآنی معاملات میں صحیح اور سچی حدیث رسول کو بھی ماننے اور نہ ماننے کا معاملہ اختیاری بن جاتاہے، جسکا عملی ثبوت جناب زید رضی اللہ عنہ کا حکم رسول کو نہ ماننا اور آیت مشاورت (159-3) ہے، جاننا چاہیے کہ جناب زید رضی اللہ عنہ  کوحکم رسول ہوا کہ وہ طلاق نہ دیں، لیکن اسنے جب خلاف حکم رسول طلاق دے دی تو اسپر اللہ کی جانب سے انحراف حدیث رسول کی وجہ سے اسکے خلاف کوئی عتاب کی آیت نہیں اتری اور اللہ کے فیصلہ
 رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (100-9)
 کی روشنی میں زید رضی اللہ عنہ بھی دیگر اصحاب رسول کی طرح جنت کے مستحق ہیں۔

درس نظامی کی علم روایات کا قرآن سے ٹکراء قدم قدم پر ہے
علم قرآن نے جاگیرداریت اور سرمایہ داریت پر بندش ڈالی (219-2) (10-41) (39-53) (32-43) تاکہ انسانی معاشروں میں مساوات رہے اونچ نیچ کے طبقات نہ ہوں لیکن علم روایات کی امامی ٹکسال والی حدیثوں نے جاگیرداریت اور سرمایہ داریت کے جواز کو بنیادیں فراہم کیں۔ قرآن نے مرد اور عورت کے درمیان بھی حقوق کی برابری اور عورت کی آزادی و خود مختیاری کے اصول بتائے۔
لیکن امامی ٹکسال کی خلاف قرآن حدیثوں نے دوزخ کی اکثریت والی آبادی عورتوں کی بتائی اور بیوی کے اوپر مرد کو تھانیدار بنایا، علم حدیث کی ایسی خلاف قرآن روایات سے اسلام کی دنیا ء عالم میں بڑی رسوائی ہوئی ہے اس رسوائی کا رد اور جواب تو قرآن میں قدم قدم پر موجود ہے لیکن کیا کریں مذہبی پیشوائیت ملا شاہی نے اپنے ان داتائوں کے حکم سے یہ مشہور کیا ہوا ہے کہ قرآن پڑھنے سے دین سمجھ میں نہیں آئیگا اسکے لئے ان کی والی امامی روایات کو پڑھو۔ معاذ اللہ ثم استغفراللہ

عزیز اللہ بوہیو

سندھ ساگر اکیڈمی
P.O ولیج خیر محمد بوہیو وایا نوشہرو فیروز سندھ

2 comments:

  1. An excellent write-up. Please translate it in English and send the translation to all fora so that the non-Urdu-knowing public may know about it.

    ReplyDelete