Thursday, January 31, 2013

اللہ تعالی بندوں کی طرح اپنے ہاتھ سے زمین گوندھ کر روٹی پکا کے جنتیوں کو کھلائے گا۔



 اللہ تعالی  بندوں کی طرح اپنے  ہاتھ  سے زمین گوندھ کر  روٹی  پکا   کے  جنتیوں  کو  کھلائے گا۔

61 - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان : (173)
اللہ تعالیٰ زمین کو اپنی مٹھی میں لے لے گا، نافع نے اس کو ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ۔
حدثنا يحيی بن بکير حدثنا الليث عن خالد عن سعيد بن أبي هلال عن زيد بن أسلم عن عطائ بن يسار عن أبي سعيد الخدري قال النبي صلی الله عليه وسلم تکون الأرض يوم القيامة خبزة واحدة يتکفؤها الجبار بيده کما يکفأ أحدکم خبزته في السفر نزلا لأهل الجنة فأتی رجل من اليهود فقال بارک الرحمن عليک يا أبا القاسم ألا أخبرک بنزل أهل الجنة يوم القيامة قال بلی قال تکون الأرض خبزة واحدة کما قال النبي صلی الله عليه وسلم فنظر النبي صلی الله عليه وسلم إلينا ثم ضحک حتی بدت نواجذه ثم قال ألا أخبرک بإدامهم قال إدامهم بالام ونون قالوا وما هذا قال ثور ونون يأکل من زائدة کبدهما سبعون ألفا
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1450         حدیث مرفوع       مکررات 2 متفق علیہ 2 بدون مکرر
 یحیی بن بکیر، لیث، خالد، سعید بن ابی ہلال، زید بن اسلم، عطاء بنیسار ، ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ زمین قیامت کے دن ایک روٹی کی طرح ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنے ہاتھ میں جنت والوں کی مہمانی کے لئے سمیٹ لے گا جس طرح تم میں سے ایک شخص آیا اور کہا، اے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ آپ پر برکت نازل فرمائے کیا میں قیامت کے دن اہل جنت کی دعوت کے متعلق آپ کو خبر نہ دوں! آپ نے فرمایا ہاں! اس نے کہا کہ زمین ایک روٹی کی طرح ہوجائے گی جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا اسی طرح اس نے کہا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہماری طرف دیکھا، پھر ہنسے یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے پھر فرمایا کہ ان کا سالن بالان نون ہوگا، لوگوں نے عرض کیا یہ کیا چیز ہے! آپ نے فرمایا کہ بیل اور مچھلی جن کی کلیجی سے ستر ہزار آدمی کھائیں گے۔
Narrated Abu Said Al-Khudri:
The Prophet said, "The (planet of) earth will be a bread on the Day of Resurrection, and The resistible (Allah) will topple turn it with His Hand like anyone of you topple turns a bread with his hands while (preparing the bread) for a journey, and that bread will be the entertainment for the people of Paradise." A man from the Jews came (to the Prophet) and said, "May The Beneficent (Allah) bless you, O Abul Qasim! Shall I tell you of the entertainment of the people of Paradise on the Day of Resurrection?" The Prophet said, "Yes." The Jew said, "The earth will be a bread," as the Prophet had said. Thereupon the Prophet looked at us and smiled till his premolar tooth became visible. Then the Jew further said, "Shall I tell you of the udm (additional food taken with bread) they will have with the bread?" He added, "That will be Balam and Nun." The people asked, "What is that?" He said, "It is an ox and a fish, and seventy thousand people will eat of the caudate lobe (i.e. extra lobe) of their livers."

53 - منافقین کی صفات اور ان کے احکام کا بیان : (106)
اہل جنت کی مہمانی کے بیان میں
حدثنا عبد الملک بن شعيب بن الليث حدثني أبي عن جدي حدثني خالد بن يزيد عن سعيد بن أبي هلال عن زيد بن أسلم عن عطا بن يسار عن أبي سعيد الخدري عن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال تکون الأرض يوم القيامة خبزة واحدة يکفؤها الجبار بيده کما يکفأ أحدکم خبزته في السفر نزلا لأهل الجنة قال فأتی رجل من اليهود فقال بارک الرحمن عليک أبا القاسم ألا أخبرک بنزل أهل الجنة يوم القيامة قال بلی قال تکون الأرض خبزة واحدة کما قال رسول الله صلی الله عليه وسلم قال فنظر إلينا رسول الله صلی الله عليه وسلم ثم ضحک حتی بدت نواجذه قال ألا أخبرک بإدامهم قال بلی قال إدامهم بالام ونون قالوا وما هذا قال ثور ونون يأکل من زادة کبدهما سبعون ألفا
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2557           حدیث مرفوع       مکررات 2 متفق علیہ 2 بدون مکرر
 عبدالملک بن شعیب بن لیث، خالد بن یزید سعید بن ابی ہلال زید بن اسلم عطاء بن یسار حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن زمین ایک روٹی ہو جائے گی اللہ رب العزت اسے اپنے دست قدرت سے اوپر نیچے کر دے گا اہل جنت کی مہمانی کے لئے جیسا کہ تم میں سے کوئی سفر میں اپنی روٹی کو الٹ پلٹ لیتا ہے اتنے میں یہود میں سے ایک آدمی نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کی برکتیں ہوں اے ابوالقاسم کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کے دن اہل جنت کی مہمانی کے بارے میں خبر نہ دوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں اس نے عرض کیا زمین ایک روٹی ہو جائے گی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف دیکھ کر ہنسے یہاں تک کہ آپ کی ڈاڑھیں مبارک ظاہر ہو گئیں اس نے کہا میں آپ کو (اہل جنت کے) سالن کی خبر نہ دوں آپ نے فرمایا کیوں نہیں اس نے عرض کیا ان کا سالن با، لام اور نون ہوگا صحابہ نے کہا یہ کیا ہے اس نے کہا بیل اور مچھلی جن کے کلیجے کے ٹکڑے میں سے ستر ہزار آدمی کھائیں گے۔
Abu al-Sa'id Khudri reported Allah's Messenger (may peace be upon him) as saying that the earth would turn to be one single bread on the Day of Resurrection and the Almighty would turn it in His hand as one of you turns a loaf while on a journey. It would be a feast arranged in the honour of the people of Paradise. He (the narrator) further narrated that a person from among the Jews came and he said: Abu al-Qasim, may the Compassionate Lord be pleased with you! May I inform you about the feast arranged in honour of the people of Paradise on the Day of Resurrection? He said: Do it, of course. He said: The earth would become one single bread. Then Allah's Messenger (may peace be upon him) looked towards us and laughed until his molar teeth became visible. He then again said: May I inform you about that with which they would season it? He said: Do it, of course. He said: Their seasoning would be balim and fish. The Companions of the Holy Prophet (may peace be upon him) said: What is this balam? He said: Ox and fish from whose excessive livers seventy thousand people would be able to eat.

170 - حشر کا بیان : (18)
 اہل جنت کا پہلا کھانا
وعن أبي سعيد الخدري قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم تكون الأرض يوم القيامة خبزة واحدة يتكفؤها الجبار بيده كما يتكفأ أحدكم خبزته في السفر نزلا لأهل الجنة . فأتى رجل من اليهود . فقال بارك الرحمن عليك يا أبا القاسم ألا أخبرك بنزل أهل الجنة يوم القيامة ؟ قال بلى . قال تكون الآرض خبزة واحدة كما قال النبي صلى الله عليه وسلم . فنظر النبي صلى الله عليه وسلم إلينا ثم ضحك حتى بدت نواجذه ثم قال ألا أخبرك بإدامهم ؟ بالام والنون . قالوا وما هذا ؟ قال ثور ونون يأكل من زائدة كبدهما سبعون ألفا . متفق عليه .   ( متفق عليه )
مشکوۃ شریف:جلد پنجم:حدیث نمبر 106                   
 " اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " قیامت کے دن ساری زمین ایک روٹی ہوگی جس کو خدا وند جبار اپنے ہاتھوں سے اس طرح الٹے پلٹے گا جس طرح تم میں سے کوئی شخص سفر کے دوران الٹ پلٹ کر کے ( یعنی جلدی ) روٹی پکاتا ہے اور یہ روٹی جنتیوں کی مہمانی ہوگی " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ فرمانے کے بعد ایک یہودی آیا اور کہنے لگا کہ اے ابوالقاسم ! خدائے پاک مہربان آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر برکت نازل کرے کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاؤں کہ قیام کے دن جنتیوں کی مہمانی کے طور پر پہلا کھانا کیا ہوگا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں بتاؤ ! اس یہودی نے کہا کہ ساری زمین ایک روٹی ہوگی ، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ( یہ سن کر ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( تعجب کے اظہار اور ہمیں یہ بتانے کے لئے کہ یہودی ٹھیک کہہ رہا ہے چاورں طرف دیکھا اور ہنس دیے یہاں تک کہ آپ ؟ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیچلیاں نظر آنے لگیں ، اس کے بعد اس یہودی نے کہا کہ کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاؤں کو جنیتوں کا سالن کیا ہوگا ( جس سے وہ روٹی لگا کر کھائیں گے ) وہ " بالام " اور " نون" ہے صحابہ ( " بالام " کا مطلب نہیں سمجھ سکے تھے کیونکہ وہ عبرانی لفظ تھا اس لئے انہوں ) نے کہا کہ یہ بالام کیا چیز ہوتی ہے کہا کہ ( بالام کا مطلب ) بیل ہے اور نون ( کے بارے میں تم لوگ جانتے ہی ہو کہ مچھلی کو کہتے ہیں ) اور ان دونوں یعنی بیل اور مچھلی کے گوشت کے اس ٹکڑے سے جو جگر کا زائد ہوتا ہے ، ستر ہزار آدمی روٹی کھائیں ۔ " (بخاری ومسلم )

تشریح :
 " اپنے ہاتھوں سے اس طرح الٹے پلٹے گا " کے ذریعہ اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح روٹی پکانے والا شخص روٹی گھڑنے والا اس کو گول ( برابر اور باریک کرنے کے لئے اس کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پر پھیرتا ہے پھر توے یا گرم بھوبل پر اس کو الٹ پلٹ کر سینکتا ہے اسی طرح یہ زمین بھی الٹی پلٹی جائے گی اور اس کو روٹی بنا دیا جائے گا !واضح رہے کہ حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن یہ روٹی ہو جائے گی اور جنت میں جانے والوں کا کھانا بنے گی کہ وہ جنت میں جانے کے وقت پہلے اس کو کھائیں گے پس حضرات نے حدیث کے الفاظ کو ان کے ظاہر معنی ہی پر محمول کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ بات حق تعالیٰ کی قدرت سے بعید نہیں ہے وہ اس پر قادر ہے کہ اس زمین کو روٹی بنا دے اور اہل جنت کو کھانے کے لئے دے !لہٰذا زیادہ صحیح یہی ہے کہ حدیث کا یہی ظاہری مفہوم مراد لیا جائے اور اس بارے میں کسی شک وشبہ کو اندر آنے کا موقع نہ دیا جائے ۔ ویسے کچھ حضرات نے حدیث کے ان مذکورہ الفاظ کو اس کے ظاہری معنی پر حمل نہ کرکے تاویل وتوجیہ کا راستہ اختیار کیا ہے ، لیکن ان کی ان تاویلات وتوجیہات کو طوالت کے خوف سے ذکر نہیں کیا جار ہا ہے ۔
" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف دیکھا اور ہنس دیئے " اس یہودی عالم نے جو کچھ بیان کیا وہ تورات میں پڑھ کر بیان کیا تھا اور اس کی وہ باتیں گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق کرتی تھیں علاوہ ازین وہ باتیں صحابہ کرام کے یقین اور قوت ایمان میں اضافہ کا سبب بنی تھیں اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان پر اظہار اطمینان کے لئے ہنسے اور اس طرح ہنسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیچلیاں ظاہر ہوگئیں ۔
" ستر ہزار آدمی " سے مراد وہ بندگان خاص ہیں جو حساب ومواخذہ کے مراحل سے گزرے بغیر جنت میں جائیں گے اور جن کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح روشن وتابناک ہوں گے اور ہوسکتا ہے کہ " ستر ہزار " سے مخصوص عدد مراد نہ ہو بلکہ محض کثرت مبالغہ مراد ہو ۔
" زائدہ کبد " ( یعنی جگر کا زائد حصہ ) اصل میں جگر ہی کے اس چھوٹے ٹکڑے کو کہتے ہیں جو اسی کے ساتھ ایک جانب ہوتا ہے اس حصہ کو بہت لذیذ اور پسندیدہ سمجھا جاتا ہے ۔
ایک احتمال یہ ہے کہ صحابہ کرام کے پوچھنے پر " بالام " کے جو معنی بیان کیے گئے وہ اس یہودی عالم نے نہیں بلکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیے ہوں ، اور یہ ہو کہ جب صحابہ اس لفظ کے معنی نہ سمجھے اور انہوں نے اس بارے میں سوال کیا تو اس سے پہلے کہ یہودی عالم جواب دیتا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی اس عبرانی لفظ کے معنی بتا دیے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے سامنے بیان فرما دئیے ۔

اللہ فرماتا ہے : وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ

وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (39:67)
اور انہوں نے خدا کی قدر شناسی جیسی کرنی چاہیئے تھی نہیں کی۔ اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے۔ (اور) وہ ان لوگوں کے شرک سے پاک اور عالی شان ہے (39:67)
No just estimate have they made of Allah, such as is due to Him: On the Day of Judgment the whole of the earth will be but His handful, and the heavens will be rolled up in His right hand: Glory to Him! High is He above the Partners they attribute to Him! (39:67)

کیونکہ اس کی بات بھی نہیں مانی جو اس نے پیغمبروں کے ذریعے سے ان تک پہنچائی تھی اور عبادت بھی اس کے لیے خالص نہیں کی بلکہ دوسروں کو بھی اس میں شریک کر لیا حدیث میں آتا ہے کہ ایک یہودی عالم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ ہم اللہ کی بابت کتابوں میں یہ بات پاتے ہیں کہ وہ قیامت والے دن آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور فرمائے گا میں بادشاہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر اس کی تصدیق فرمائی اور آیت وما قدروا اللہ کی تلاوت فرمائی صحیح بخاری تفسیر سورہ زمر محدثین اور سلف کا عقیدہ ہے کہ اللہ کی جن صفات کا ذکر قرآن اور احادیث صحیحہ میں ہے جس طرح اس آیت میں ہاتھ کا اور حدیث میں انگلیوں کا اثبات ہے ان پر بلا کیف وتشبیہ اور بغیر تاویل و تحریف کے ایمان رکھنا ضروری ہے اس لیے یہاں بیان کردہ حقیقت کو مجرد غلبہ وقوت کے مفہوم میں لینا صحیح نہیں ہے۔
٦٧۔١ اس کی بابت بھی حدیئث میں آتا ہے کہ پھر اللہ  تعالیٰ فرمائے گا اَنَا المُلْکُ، اَیْنَ مُلُوکُ الاٰرْضِ ' میں بادشاہ ہوں زمین کے بادشاہ (آج کہاں ہیں؟ '

ف٧  یعنی مشرکین نے اس کے عظمت و جلال اور بزرگی و برتری کو وہاں تک نہ سمجھا اور ملحوظ نہ رکھا جہاں تک ایک بندہ کو سمجھنا اور ملحوظ رکھنا چاہیے تھا۔ اس کی شان رفع اور مرتبہ بلند کا اجمالی تصور رکھنے والا، کیا عاجز و محتاج مخلوق حتی کہ پتھر کی بےجان مورتیوں کو اس کا شریک تجویز کر سکتا ہے۔ حاشا وکلا۔ آگے اس کی بعض شؤونِ عظمت و جلال کا بیان ہے۔
ف ٨   یعنی جس کی عظمت شان کا یہ حال ہے کہ قیامت کے دن کل زمین اس کی ایک مٹھی میں اور سارے آسمان کاغذ کی طرح لپٹے ہوئے ایک ہاتھ میں ہوں گے، اس کی عبادت میں بےجان یا عاجز و محتاج مخلوق کو شریک کرنا کہاں تک روا ہوگا۔ وہ شرکاء تو خود اس کی مٹھی میں پڑے ہیں۔ جس طرح چاہے ان پر تصرف کرے۔ ذرا کان یا زبان نہیں ہلا سکتے۔ (تنبیہ) مطوبات بیمینہ" کے متعلق سورہ "انبیائ" کی آیت "یوم نطوی السماء"کا حاشیہ دیکھنا چاہیے۔ اور "یمین" وغیرہ الفاظ متشابہات میں سے ہیں جن پر بلا کیف ایمان رکھنا واجب ہے۔ بعض احادیث میں ہے "فکلتا یدیہ یمین" (اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں) اس سے تجسم، تحیز اور جہت وغیرہ کی نفی ہوتی ہے۔

زمین و آسمان اللہ کی انگلیوں میں۔

مشرکین نے دراصل اللہ  تعالیٰ کی قدر و عظمت جانی ہی نہیں اسی وجہ سے وہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے لگے، اس سے بڑھ کر عزت والا اس سے زیادہ بادشاہت والا اس سے بڑھ کر غلبے اور قدرت والا کوئی نہیں، نہ کوئی اس کا ہمسر اور کرنے والا ہے۔ یہ آیت کفار قریش کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ انہیں اگر قدر ہوتی تو اس کی باتوں کو غلط نہ جانتے۔ جو شخص اللہ کو ہر چیز پر قادر مانے، وہ ہے جس نے اللہ کی عظمت کی اور جس کا یہ عقیدہ نہ ہو وہ اللہ کی قدر کرنے والا نہیں۔ اس آیت کے متعلق بہت سی حدیثیں آئی ہیں۔ اس جیسی آیتوں کے بارے میں سلف صالحین کا مسلک یہی رہا ہے کہ جس طرح اور جن لفظوں میں یہ آئی ہے اسی طرح انہی لفظوں کے ساتھ انہیں مان لینا اور ان پر ایمان رکھنا۔ نہ ان کی کیفیت ٹٹولنا نہ ان میں تحریف و تبدیلی کرنا، صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ یہودیوں کا ایک بڑا عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ہم یہ لکھا پاتے ہیں کہ اللہ عزوجل ساتوں آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور سب زمینوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور درختوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور پانی اور مٹی کو ایک انگلی پر اور باقی تمام مخلوق کو ایک انگلی پر رکھ لے گا پھر فرمائے گا میں ہی سب کا مالک اور سچا بادشاہ ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بات کی سچائی پر ہنس دیئے یہاں تک کہ آپ کے مسوڑھے ظاہر ہوگئے۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی۔ مسند کی حدیث بھی اسی کے قریب ہے اس میں ہے کہ آپ ہنسے اور اللہ  تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور روایت میں ہے کہ وہ اپنی انگلیوں پر بتاتا جاتا تھا پہلے اس نے کلمے کی انگلی دکھائی تھی۔ اس روایت میں چار انگلیوں کا ذکر ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے اللہ  تعالیٰ زمین کو قبض کرلے گا اور آسمان کو اپنی داہنی مٹھی میں لے لے گا۔ پھر فرمائے گا میں ہوں بادشاہ کہاں ہیں زمین کے بادشاہ؟ مسلم کی اس حدیث میں ہے کہ زمینیں اس کی ایک انگلی پر ہوں گی اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں ہوں گے پھر فرمائے گا میں ہی بادشاہ ہوں۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن منبر پر اس آیت کی تلاوت کی اور آپ اپنا ہاتھ ہلاتے جاتے آگے پیچھے لا رہے تھے اور فرماتے تھے اللہ  تعالیٰ اپنی بزرگی آپ بیان فرمائے گا کہ میں جبار ہوں میں متکبر ہوں میں مالک ہوں میں باعزت ہوں میں کریم ہوں۔ آپ اس کے بیان کے وقت اتنا ہل رہے تھے کہ ہمیں ڈر لگنے لگا کہ کہیں آپ منبر سمیت گر نہ پڑیں۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ نے اس کی پوری کیفیت دکھا دی کہ کس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکایت کیا تھا؟ کہ اللہ تبارک و آسمانوں اور زمینوں کو اپنے ہاتھ میں لے گا اور فرمائے گا میں بادشاہ ہوں۔ اپنی انگلیوں کو کبھی کھولے گا کبھی بند کرے گا اور آپ اس وقت ہل رہے تھے یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہلنے سے سارا منبر ہلنے لگا اور مجھے ڈر لگا کہ کہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گرا نہ دے۔ بزار کی رویت میں ہے کہ آپ نے یہ آیت پڑھی اور منبر ہلنے لگا پس آپ تین مرتبہ آئے گئے واللہ اعلم۔ معجم کبیر طبرانی کی ایک غریب حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کی ایک جماعت سے فرمایا میں آج تمہیں سورۃ زمر کی آخری آیتیں سناؤں گا جسے ان سے رونا آگیا وہ جنتی ہوگیا اب آپ نے اس آیت سے لے کر ختم سورۃ تک کی آیتیں تلاوت فرمائیں بعض روئے اور بعض کو رونا نہ آیا انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے ہر چند رونا چاہا لیکن رونا نہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا میں پھر پڑھوں گا جسے رونا نہ آئے وہ رونی شکل بناکر بہ تکلف روئے۔ ایک اس سے بڑھ کر غریب حدیث میں ہے کہ اللہ  تعالیٰ فرماتا ہے میں نے تین چیزیں اپنے بندوں میں چھپالی ہیں اگر وہ انہیں دیکھ لیتے تو کوئی شخص کبھی کوئی بدعملی نہ کرتا۔ (١) اگر میں پردہ ہٹا دیتا اور وہ مجھے دیکھ کر خوب یقین کرلیتے اور معلوم کرلیتے کہ میں اپنی مخلوق کے ساتھ کیا کچھ کرتا ہوں جبکہ ان کے پاس آؤں اور آسمانوں کو اپنی مٹھی میں لے لوں پھر اپنی زمین کو اپنی مٹھی میں لے لوں پھر کہوں میں بادشاہ ہوں میرے سوا ملک کا مالک کون ہے؟ (٢) پھر میں انہیں جنت دکھاؤں اور اس میں جو بھلائیاں ہیں سب ان کے سامنے کردوں اور وہ یقین کے ساتھ خوب اچھی طرح دیکھ لیں۔ (٣) اور میں انہیں جہنم دکھا دوں اور اس کے عذاب دکھا دوں یہاں تک کہ انہیں یقین آ جائے۔ لیکن میں نے یہ چیزیں قصداً ان سے پوشیدہ کر رکھی ہیں۔ تاکہ میں جان لوں کہ وہ مجھے کس طرح جانتے ہیں کیونکہ میں نے یہ سب باتیں بیان کردی ہیں۔ اس کی سند متقارب ہے اور اس نسخے سے بہت سی حدیثیں روایت کی جاتی ہیں۔ واللہ اعلم۔

(ف139) جبھی تو شرک میں مبتلا ہوئے اگر عظمتِ الٰہی سے واقف ہوتے اور اس کا مرتبہ پہچانتے ایسا کیوں کرتے ۔ اس کے بعد اللہ  تعالیٰ کے عظمت و جلال کا بیان ہے۔
(ف140) حدیث بخاری و مسلم میں حضرت ابن عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ روز قیامت اللہ  تعالیٰ آسمان کو لپیٹ کر اپنے دستِ قدرت میں لے گا پھر فرمائے گا میں ہوں بادشاہ ، کہاں ہیں جبّار ، کہاں ہیں متکبر ، ملک و حکومت کے دعوے دار ، پھر زمینوں کو لپیٹ کر اپنے دوسرے دستِ قدرت میں لے گا اور یہی فرمائے گا میں ہوں بادشاہ ، کہاں ہیں زمین کے بادشاہ ۔

سُوْرَةُ الزُّمَر حاشیہ نمبر :75

75۔ یعنی ان کو اللہ کی عظمت و کبریائی کا کچھ اندازہ ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کبھی یہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ خداوند عالم کا مقام کتنا بلند ہے اور وہ حقیر ہستیاں کیا شے ہیں جن کو یہ نادان لوگ خدائی میں شریک اور معبودیت کا حق دار بنائے بیٹھے ہیں۔

سُوْرَةُ الزُّمَر حاشیہ نمبر :76

76۔ زمین اور آسمان پر اللہ تعالیٰ کے کامل اقتدار تصرف کی تصویر کھینچنے کے لیے مٹھی میں ہونے اور ہاتھ پر لپٹے ہونے کا استعارہ استعمال فرمایا گیا ہ۔جس طرح ایک آدمی کسی چھوٹی سے گیند کو مٹھی میں دبا لیتا ہے اور اس کے لیے یہ ایک معمولی کام ہے ، یا ایک شخص ایک رومال کو لپیٹ کر ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اس کے لیے یہ کوئی زحمت طلب کام نہیں ہوتا،اسی طرح قیامت کے روز تمام انسان ( جو آج اللہ کی عظمت و کبریائی کا اندازہ کرنے سے قاصر ہیں ) اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ زمین اور آسمان اللہ کے دست قدرت میں ایک حقیر گیند اور ایک ذرا سے رُو مال کی طرح ہیں۔ مسند احمد، بخاری، مسلم، نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوہریرہؓ کی روایات منقول ہوئی ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ دَوران خطبہ میں یہ آیت آپؐ نے تلاوت فرمائی اور فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں (یعنی سیّاروں ) کو اپنی مٹھی میں لے کر اس طرح پھرائے گا جیسے ایک بچہ گیند پھراتا ہے ،اور فرمائے گا میں ہوں خدائے واحد، میں ہوں بادشاہ، میں ہوں جبّار، میں ہوں کبریائی کا مالک، کہاں ہیں زمین کے بادشاہ؟ کہاں ہیں جبّار؟ کہاں ہیں متکبّر،؟ یہ کہتے کہتے حضورؐ پر ایسا لرزہ طاری ہوا کہ ہمیں خطرہ ہونے لگا کہ کہیں آپ منبر سمیت کر نہ پڑیں۔

سُوْرَةُ الزُّمَر حاشیہ نمبر :77

77۔یعنی کہاں  اس کی یہ شان عظمت و کبریائی اور کہاں اس کے ساتھ خدائی میں کسی کا شریک ہونا۔

[٣٦] مٹھی سے مراد کامل اختیار اور دست راست سے مراد دست قدرت ہے۔ آیت سے مقصدو محاورہ بشری کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے کامل اقتدار اور تصرف کی تصویر کھینچ دینا ہے۔

[٨٣] یعنی جن مشرکوں نے آپ کو بتوں کو سجدہ کرنے کا مشورہ دیا تھا، ان کم بختوں نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا مقام کس قدر ارفع و اعلیٰ ہے ان کو اللہ کی عظمت و کبریائی کا کچھ بھی اندازہ نہیں۔ بھلا اللہ کے مقابلہ میں یہ بتوں جیسی حقیر ہستیاں کیا شے ہیں۔ اگر انہیں اللہ کی عظمت اور اس کے مقام کا کچھ اندازہ ہوتا تو ایسی نادانی کی بات کبھی نہ کہتے۔
[٨٤] قیامت کے دن اللہ کا دنیا کے بادشاہوں سے خطاب :۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی اور پوری کائنات پر کلی تصرف کا یہ حال ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز اس کے ہاتھ میں بالکل بے بس ہے اور اسی مضمون کی تفسیر درج ذیل احادیث بھی پیش کرتی ہیں:
١۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کو یہ فرماتے سنا کہ اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) زمین کو ایک مٹھی میں لے لے گا اور آسمانوں کو اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا۔ پھر فرمائے گا:''میں بادشاہ ہوں (آج) زمین کے بادشاہ کہاں ہیں؟'' (بخاری۔ کتاب التفسیر)
٢۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہودیوں کا ایک عالم آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا: محمد ! ہم (اپنی کتابوں میں یہ لکھا ہوا) پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) آسمانوں کو ایک انگلی پر، زمینوں کو ایک انگلی پر، درختوں کو ایک انگلی پر، پانی اور گیلی مٹی کو ایک انگلی پر اور باقی تمام مخلوق کو ایک انگلی پر اٹھالے گا پھر فرمائے گا:''میں بادشاہ ہوں'' یہ سن کر آپ اتنا ہنسے کہ آپ کی کچلیاں ظاہر ہوگئیں۔ آپ نے اس عالم کے قول کی تصدیق کی۔ پھر یہی آیت پڑھی ( وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ ڰ وَالْاَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌۢ بِيَمِيْنِهٖ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ 67؀) 39-الزمر:67) تاآخر (بخاری۔ کتاب التفسیر) گویا مشرکوں کے سب معبود بھی اللہ تعالیٰ کی مٹھی میں ہوں گے۔ جنہیں آج یہ اللہ کا ہمسر قرار دے رہے ہیں۔

بخاری فرماتے ہیں : الأرض يوم القيامة خبزة

فَاطِرُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَمِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا ۖ يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ ۚ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (42:11)
آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا (وہی ہے)۔ اسی نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس کے جوڑے بنائے اور چارپایوں کے بھی جوڑے (بنائے اور) اسی طریق پر تم کو پھیلاتا رہتا ہے۔ اس جیسی کوئی چیز نہیں۔ اور وہ دیکھتا سنتا ہے (42:11)
(He is) the Creator of the heavens and the earth: He has made for you pairs from among yourselves, and pairs among cattle: by this means does He multiply you: there is nothing whatever like unto Him, and He is the One that hears and sees (all things). (42:11)

جس کا کوئی ہمسر نہیں۔

فرماتا ہے کہ تمام آسمانوں اور ساری زمینوں کی مخلوق اللہ ہی کی ہے سب اس کے لونڈی غلام ہیں سب اسی کی ملکیت ہیں۔ ہر ایک اس کے سامنے عاجز ولاچار مجبور وبے بس ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں قنوت کا ذکر ہے وہاں مراد اطاعت وفرمانبردای ہے۔ ابتدائی پیدائش بھی اسی نے کی اور وہی اعادہ بھی کرے گا اور اعادہ بہ نسبت ابتدا کے عادتا آسان اور ہلکا ہوتا ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جناب باری  تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مجھے ابن آدم جھٹلاتا ہے اور اسے یہ چاہیے نہیں تھا ۔ وہ مجھے برا کہتا ہے اور یہ بھی اسے لائق نہ تھا۔ اس کا جھٹلانا تو یہ ہے کہ کہتا ہے جس طرح اس نے مجھے اولا پیدا کیا اس طرح دوبارہ پیدا کر نہیں سکتا حالانکہ دوسری مرتبہ کی پیدائش پہلی دفعہ کی پیدائش سے بالکل آسان ہوا کرتی ہے اس کا مجھے برا کہنا یہ ہے کہ کہتا ہے کہ اللہ کی اولاد ہے حالانکہ میں احد اور صمد ہوں۔ جس کی نہ اولاد نہ ماں باپ اور جس کا کوئی ہمسر نہیں۔ الغرض دونوں پیدائشیں اس مالک کی قدر کی مظہر ہیں نہ اس پر کوئی کام بھاری نہ بوجھل ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ھو کی ضمیر کا مرجع خلق ہو مثل سے مراد یہاں اس کی توحید الوہیت اور توحید ربوبیت ہے نہ کہ مثال اس لیے کہ اللہ  تعالیٰ کی ذات مثال سے پاک ہے فرمان ہے آیت (لیس کمثلہ شئی) اس کی مثال کوئی اور نہیں۔ بعض اہل ذوق نے کہا ہے کہ جب صاف شفاف پانی کا ستھرا پاک صاف حوض ٹھہرا ہوا ہو اور باد صبا کے تھپیڑے اسے ہلاتے جلاتے نہ ہوں اس وقت اس میں آسمان صاف نظر آتا ہے سورج اور چاند ستارے بالکل دکھائی دیتے ہیں اسی طرح بزرگوں کے دل ہیں جن میں وہ اللہ کی عظمت وجلال کو ہمیشہ دیکھتے رہتے ہیں ۔ وہ غالب ہے جس پر کسی کا بس نہیں نہ اس کے سامنے کسی کی کچھ چل سکے ہر چیز اس کی ماتحتی میں اور اس کے سامنے پست ولاچار عاجز وبے بس ہے۔ اس کی قدرت سطوت سلطنت ہر چیز محیط ہے ۔ وہ حکیم ہے اپنے اقوال ، افعال، شریعت، تقدیر، غرض ہر ہر امر میں۔ حضرت محمد بن منکدر فرماتے ہیں مثل اعلی سے مراد لا الہ الا اللہ ہے۔

٤۔۱اس کی ذات میں اس کی صفات میں اور نہ اس کے افعال میں۔(لیس کمثلہ شئی) حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ  تعالیٰ فرماتا ہے"انسان مجھے گالی دیتا ہے یعنی میرے لیے اولاد ثابت کرتا ہے، حالانکہ میں ایک ہوں بےنیاز ہوں، میں نے کسی کو جنا ہے نہ کسی سے پیدا ہوا ہوں اور نہ کوئی میرا ہمسر ہے (صحیح بخاری) اس سورت میں ان کا بھی رد ہو گیا جو متعدد خداؤں کے قائل ہیں اور جو اللہ کے لیے اولاد ثابت کرتے ہیں اور جو اس کو دوسروں کا شریک گردانتے ہیں اور ان کا بھی جو سرے سے وجود باری  تعالیٰ ہی کے قائل نہیں۔

٢۔١ استوا علی العرش کا مفہوم اس سے قبل بیان ہو چکا ہے کہ اس سے مراد اللہ  تعالیٰ کا عرش پر قرار پکڑنا ہے۔ محدثین کا یہی مسلک ہے وہ اس کی تاویل نہیں کرتے، جیسے بعض دوسرے گروہ اس میں اور دیگر صفات الٰہی میں تاویل کرتے ہیں۔ تاہم محدثین کہتے ہیں کہ اس کی کیفیت نہ بیان کی جاسکتی ہے اور نہ اسے کسی چیز سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ (لیس کمثلہ شیء وہو السمیع البصیر) الشوری
 ۲۔۲ اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ ایک وقت مقرر تک یعنی قیامت تک اللہ کے حکم سے چلتے رہیں گے جیسا کہ فرمایا (والشمس تجری لمستقرلھا ذلک تقدیر العزیز العلیم) یسین۔ اور سورج اپنے ٹھہرنے کے وقت تک چل رہا ہے دوسرے معنی یہ ہیں کہ چاند اور سورج دونوں اپنی اپنی منزلوں پر رواں دواں رہتے ہیں سورج اپنا دورہ ایک سال میں اور چاند ایک ماہ میں مکمل کر لیتا ہے جس طرح فرمایا (والقمر قدرنہ منازل) یسین۔ ہم نے چاند کی منزلیں مقرر کر دی ہیں سات بڑے بڑے سیارے ہیں جن میں سے دو چاند اور سورج ہیں یہاں صرف ان دو کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہی دو سب سے زیادہ بڑے اور اہم ہیں جب یہ دونوں بھی اللہ کے حکم کے تابع ہیں تو دوسرے سیارے تو بطریق اولی اس کے تابع ہونگے اور جب یہ اللہ کے حکم کے تابع ہیں تو یہ معبود نہیں ہو سکتے معبود تو وہی ہے جس نے ان کو مسخر کیا ہوا ہے اس لیے فرمایا (لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَهُنَّ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ) 41۔فصلت:37) حم السجدہ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا اگر تم صرف اس کی عبادت کرنا چاہتے ہو۔ ( ۙ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ  ۭ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمْرِهٖ) 16۔ النحل:12) الاعراف سورج چاند اور تارے سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔

ف۳ روایات میں وارد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ کیا ہمارا رب ہمارے قریب ہے کہ ہم اس کو آہستہ سے پکاریں یا دور ہے کہ ہم اسے زور سے پکاریں؟ (اَرَبُّنَا قَرِیْبٌ فَنْنَاجِیْہِ اَمْ بَعِیْدٌ فَنْنَادِیْہ؟) تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس سے واضح فرما دیا گیا کہ رب اپنے بندوں سے قریب، اور نہایت ہی قریب ہے، (اتنا کہ اس سے زیادہ قرب متصور ہی نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا کہ ہم انسان کے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں، (وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ     16؀) 50۔ق:16) نیز دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا کہ وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہوؤ گے ہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَمَاکُنْتُمْ الاٰیۃ (الحدید۔ ٤) اور اس قرب اور معیت سے مراد ہے وہ قرب اور معیت جو اس کے علم اور قدرت کے اعتبار سے ہوتا ہے، نہ کہ جسم اور جسمانیات کے اعتبار سے، کہ ایسے تمام شوائب سے وہ پاک ہے، سبحانہ و تعالیٰ، سو جس خدائے پاک کے قرب اور اس کی قدرت کی شان یہ ہو اس کو دنیاوی بادشاہوں اور فانی مخلوق پر قیاس کر کے اسکے لئے خود ساختہ اور من گھڑت واسطے اور وسیلے ڈھونڈنا جس طرح کہ اہل شرک و بدعت کرتے ہیں، کتنا غلط اور کس قدر ٹیڑھی منطق ہے والعیاذُ باللہ العظیم، سو اللہ  تعالیٰ ایسے تمام شوائب اور تصورات سے پاک اور اعلیٰ و بالا ہے۔ اسی لئے اس کے لئے اپنے طور پر مثالیں گھڑنا اور اسکو دنیاوی بادشاہوں اور حاکموں پر قیاس کر کے من گھڑت وسیلے اور واسطے مقرر کرنا منع ہے، چنانچہ دوسرے مقام پر اس بارے صاف و صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا، (فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ) 16۔ النحل:74) یعنی تم لوگ اللہ کے لئے اپنے طور مثالیں مت گھڑو۔ اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ انسان اپنے طور پر جو بھی مثال بیان کریگا وہ کسی مخلوق ہی کی، اور اسی کی شان کے لائق ہوگی، کہ انسان کی کھوپڑی بہرحال مخلوق، اور اس کی رسائی محدود ہے۔ جبکہ اللہ  تعالیٰ خالق، اور مخلوق کے دائرے سے وراء الوراء ہے۔ پس اس کو ویسے ہی مانا جائے جیسا کہ وہ اپنے بارے میں خود بتائے یا اس کا رسول بتائے سبحانہ و  تعالیٰ یعنی اللہ  تعالیٰ کی کتاب حکیم۔ اور رسول اللہ کی سنت مطہرہ سے ثابت ہو، یہی صحت وسلامتی کی راہ ہے، اور یہی تقاضا ہے عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا، جبکہ اسکے برعکس محض عقل دوڑائے، اور اسکے بارے میں من گھڑت تصورات قائم کرے، زیغ وضلال اور انحراف و شرک کے دروازے کھلتے ہیں، والعیاذ باللہ، پس وہ ایسا ہے جیسا کہ کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ، الذی لیس کمثلہ شی وہوالسمیع العلیم۔

سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا (17:43)

وہ پاک ہے اور جو کچھ یہ بکواس کرتے ہیں اس سے (اس کا رتبہ) بہت عالی ہے (17:43)
Glory to Him! He is high above all that they say!- Exalted and Great (beyond measure)! (17:43)

[٥٣] یعنی ان مشرکوں کی یہ خرافات بس ان لوگوں تک ہی محدود اور ان کے خطہ زمین پر ہی ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات تو ان لوگوں کے ایسے بیہودہ خیالات سے بہت بلند و بالا ہے۔

43 - قرآن کی تفسیر کا بیان : (445)
تفسیر سورت الجن
حدثنا ابن أبي عمر حدثنا سفيان عن مجالد عن الشعبي عن جابر بن عبد الله قال قال ناس من اليهود لأناس من أصحاب النبي صلی الله عليه وسلم هل يعلم نبيکم کم عدد خزنة جهنم قالوا لا ندري حتی نسأل نبينا فجا رجل إلی النبي صلی الله عليه وسلم فقال يا محمد غلب أصحابک اليوم قال وبما غلبوا قال سألهم يهود هل يعلم نبيکم کم عدد خزنة جهنم قال فما قالوا قال قالوا لا ندري حتی نسأل نبينا قال أفغلب قوم سلوا عما لا يعلمون فقالوا لا نعلم حتی نسأل نبينا لکنهم قد سألوا نبيهم فقالوا أرنا الله جهرة علي بأعدا الله إني سالهم عن تربة الجنة وهي الدرمک فلما جاوا قالوا يا أبا القاسم کم عدد خزنة جهنم قال هکذا وهکذا في مرة عشرة وفي مرة تسعة قالوا نعم قال لهم النبي صلی الله عليه وسلم ما تربة الجنة قال فسکتوا هنيهة ثم قالوا خبزة يا أبا القاسم فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم الخبز من الدرمک قال هذا حديث غريب إنما نعرفه من هذا الوجه من حديث مجالد
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1278       حدیث مرفوع       مکررات 1
 ابن ابی عمر، سفیان، مجالد، شعبی، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ چند یہودیوں نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ تمہارے نبی کو معلوم ہے کہ جہنم کے کتنے خزانچی ہیں؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہمیں علم نہیں لیکن ہم پوچھیں گے۔ پھر ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم آج ہار گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کس طرح؟ کہنے لگا کہ یہودیوں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا تمہارا نبی جاتا ہے کہ جہنم کے کتنے خزانچی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کیا جواب دیا؟ کہنے لگا کہ انہوں نے کہا کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھے بغیر نہیں بتا سکتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا وہ قوم ہار گئی جس سے ایسی چیز کے بارے میں پوچھا گیا جو وہ نہیں جاتے؟ (یعنی اس میں تو ہار نے والی کوئی بات نہیں) بلکہ یہودیوں نے تو اپنے نبی سے کہا تھا کہ ہمیں اعلانیہ اللہ کا دیدار کرائے۔ اللہ کے ان دشمنوں کو میرے پاس لاؤ۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ جنت کی مٹی کس چیز کی ہے؟ اور وہ میدہ ہے۔ پھر جب وہ لوگ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھنے لگے کہ جہنم کے کتنے خزانچی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھوں سے دو مرتبہ اشارہ کیا۔ ایک مرتبہ دس انگلیوں سے اور ایک مرتبہ نو انگلیوں سے (یعنی) یہودی کہنے لگے ہاں۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ جنت کی مٹی کس چیز کی ہے؟ وہ چند لمحے چپ رہے اور پھر کہنے لگے ایابوقاسم روٹی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میدے کی روٹی ہے۔ اس حدیث کو ہم صرف مجالد کی روایت سے اس سند سے جانتے ہیں۔
Sayyidina Jabir reported that some Jews asked a few sahabah whether their Prophet (SAW) knew how many keepers of Hell were there. The sahabah said, “We do not know but we shall ask him.” So, a man went to the Prophet and asked, “O Muhammad, your sahabah were defeated today.” He asked, “How were they defeated?” The man said, “The Jews asked them whether their Prophet knew the number of keepers of Hell.” He asked, “What did they say?” The man said that they said, “We do not know till we ask our Prophet." He asked, “Are a people defeated when they are questioned about something they do not know? They only said that they did not know till they asked their Prophet while they (the Jews) had asked their Prophet, show us Allah in public’. Bring these enemies of Allah to me. I will ask them about the dust of paradise. It is fine earth (or flour).” When they came to him, they asked, “O Abul Qasim, how many keepers are there over Hell?” He said through gesture (of his fingers) showing ten once and nine the second time.1 They said, ‘Yes. The Prophet (SAW) asked them, “What is the dust of Paradise?” They kept quiet some time and then asked, “Is it bread, O Abul Qasim?” He said, “Bread of flour.”

Tuesday, January 29, 2013

اعجازِ قرآن کیا ہے ؟ قرآن خود زندہ و جاوید معجزہ ہے !



اعجازِ قرآن کیا ہے ؟ قرآن خود زندہ و جاوید معجزہ ہے !

قرآنِ کریم کا دوسرا دعویٰ اس کی مثل نہ ہونے کا ہے یعنی یہ کہ قرآنِ کریم اللہ رب کریم کا کلام ہے جس طرح اللہ کی مثل نہیں بالکل اسی طرح اس کے اس کلام کی بھی مثل نہیں ہو سکتی گویا جس طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی بھی مخلوق کو خواہ وہ نبی و رسول ہی کیوں نہ ہو مثل قرار نہیں دیا جا سکتا بالکل اسی طرح کسی بھی مخلوق کے کلام کو خواہ وہ نبی و رسول ہی کا کلام کیوں نہ ہو مثل قرار نہیں دیا جا سکتا چنانچہ قرآنِ کریم میں ہے کہ:
’’
اے پیغمبر اسلام! اس بات کا اعلان کر دے کہ اگر تمام انسان اور جن اکٹھے ہو کر چاہیں کہ اس قرآن کی مانند کوئی کلام پیش کر دیں تو کبھی پیش نہ کر سکیں گے اگرچہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا مددگار ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ (۱۷:۸۸)
قرآنِ کریم نے صرف ایک جگہ نہیں بلکہ بار بار اس امر کا مطالبہ کیا ہے اور مخالفین و منکرین کو چیلنج پر چیلنج دیاہے اور کوئی شرط عائد نہیں کی، کوئی پابندی نہیں لگائی۔ کہا ہے تو صرف یہ کہ یا تو دعویٰ رسالت تسلیم کر لو اور مان لو کہ یہ کلام پیغمبر اسلام کا تصنیف شدہ نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے رسالت کا پیغام ہے یا پھر ایسا کلام تم بھی بنا کر پیش کر دو۔ ہاں! تم ایسا نہیں کر سکو گے اور یقیناًنہیں کر سکو گے تو پھر ہٹ دھرمی سے کام نہ لو بلکہ اس معجزہ رسالت کو تسلیم کر لو۔ اس جگہ ہم کو یہ معلوم کرنا ہے کہ قرآنِ کریم کو کس بنا پر نبی اعظم و آخر ﷺ کا معجزہ قرار دیا گیا اور اس کا یہ اعجاز کن کن وجوہ سے ہے اور کیوں ساری دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز و درماندہ ہے۔ دوسرے یہ مسلمانوں کا دعویٰ کہ کوئی شخص بھی چودہ سو برس کے عرصہ میں قرآنِ کریم کی زبردست تحدی کے باوجود اس کی مثل پیش نہیں کر سکا یہ تاریخی حیثیت سے کیا وزن رکھتا ہے۔ ان دونوں باتوں کو ذرا تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے تاکہ اعجازِ قرآنی کی پوری وضاحت ہو سکے پھر اس کے بعد عرض کیا جائے گا کہ اغیار نے ناکا م ہونے کے باوجود کامیابی حاصل کرنے کے لیے کونسا راستہ اختیار کیا اور مسلمانوں نے جہاد کی حقیقت بدلنے کے بعد قرآنِ کریم کے اس اعجاز کو ختم کرنے کی ذمہ داری کیسے قبول کر لی؟ اعجازِ قرآنی کے بے شمار وجوہ ہیں لیکن اس جگہ صرف تین کا ذکر کیا جاتا ہے

اعجازِ قرآنی کی پہلی وجہ

اس جگہ سب سے پہلے غور کرنے کی چیز یہ ہے کہ یہ عجیب و غریب کل علوم کی جامع کتاب کس جگہ، کس ماحول میں اور کس پر نازل ہوئی؟ اور کیا وہاں کچھ ایسے علمی سامان موجود تھے جن کے ذریعہ دائرہ اسباب عامہ میں ایسی جامع بے نظیر کتاب تیار ہو سکے، جو علوم اولین و آخرین کی جامع،اور انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کے متعلق بہترین ہدایت پیش کر سکے، جس میں انسان کی جسمانی اور روحانی تربیت کا مکمل نظام ہو اور تدبیر منزل سے لے کر سیاست مملکت تک ہر نظام کے بہترین اصول ہوں۔
جس سرزمین اور جس ذات پر یہ کتاب مقدس نازل ہوئی اس کی جغرافیائی کیفیت اور تاریخی حالت معلوم کرنے کے لیے آپ کو ایک ریگساتی خشک اور گرم علاقہ سے سابقہ پڑے گا جس کو بطحاء مکہ کہتے ہیں اور جو نہ زرعی ملک ہے نہ صنعتی، نہ اس ملک کی آب و ہوا ہی کچھ ایسی خوشگوار ہے جس کے لیے باہر کے آدمی وہاں پہنچنے کی رغبت کریں، نہ راستے ہی کچھ ہموار ہیں جن سے وہاں تک پہنچنا آسان ہو، اکثر دنیا سے کٹا ہوا ایک جزیرہ نما ہے جہاں خشک پہاڑوں اور گرم ریگ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا، دور دور تک نہ کہیں بستی نظر آتی ہے نہ کوئی کھیت نہ درخت۔
اس پورے خطہ ملک میں کچھ بڑے شہر بھی نہیں، چھوٹے چھوٹے گاؤں اور ان میں اونٹ بکریاں پال کر اپنی زندگی گذارنے والے انسان بستے ہیں، اس کے چھوٹے دیہات کا تو دیکھنا کیا جو برائے نام چند شہر کہلاتے ہیں ان میں بھی کسی قسم کے علم و تعلیم کا کوئی چرچا نہیں، نہ وہاں کوئی اسکول اور کالج ہے نہ کوئی بڑی یونیورسٹی یا دارالعلوم، وہاں کے باشندوں کو اللہ تعالیٰ نے محض قدرتی اور پیدائشی طور پر فصاحت و بلاغت کا ایک فن ضرور دے دیا ہے جس میں وہ ساری دنیا سے فائق اور ممتاز ہیں، وہ نثر اور نظم میں ایسے قادر الکلام ہیں کہ جب بولتے ہیں تو رعد کی طرح کڑکتے اور بادل کی طرح برستے ہیں۔ ان کی ادنیٰ ادنیٰ چھوکریاں ایسی فصیح و بلیغ شعر کہتی ہیں کہ دنیا کے ادیب حیران رہ جائیں۔
لیکن یہ سب کچھ ان کا فطری فن ہے جو کسی مکتب یا مدرسہ میں حاصل نہیں کیا جاتا۔ غرض نہ وہاں تعلیم و تعلم کا کوئی سامان ہے، نہ وہاں کے رہنے والوں کو ان چیزوں سے کوئی لگاؤ یا وابستگی ہے ان میں کچھ لوگ شہری زندگی بسر کرنے والے ہیں تو وہ تجارت پیشہ ہیں، مختلف اجناس مال کی درآمد برآمد ان کا مشغلہ ہے۔
اس ملک کے قدیم شہر مکہ کے ایک شریف گھرانہ میں وہ ذات مقدس پیدا ہوتی ہے جو مہبط وحی ہے جس پر قرآن اترا ہے اب اس ذات مقدس کا حال سنئے۔
ولادت سے پہلے ہی والد ماجد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا، اسی طرح وہ گویا بے باپ پیدا ہوئے ابھی سات سال کی عمر نہ تھی کہ والدہ کی بھی وفات ہو گئی، آغوش مادر کا گہوارہ بھی نصیب نہ رہا شریف آباؤ اجداد کی فیاضی اور بے مثل سخاوت نے اپنے گھر میں کوئی اندوختہ نہ چھوڑا تھا جس سے یتیم کی پرورش اور آئندہ زندگی کا سامان ہو سکے نہایت عسرت کی زندگی پھر ماں باپ کا سایہ سر پر نہیں، ان حالات میں آپؐ نے پرورش پائی اور عمر کا ابتدائی حصہ گزارا جو تعلیم و تعلم کا اصلی وقت ہے۔ اس وقت اگر مکہ میں کوئی دارالعلوم یا اسکول و کالج بھی ہوتا تو بھی آپ ؐ کے لیے اس سے استفادہ کرنا مشکل تھا مگر معلوم ہو چکا کہ وہاں سرے سے یہ علمی مشغلہ اور اس سے دلچسپی ہی کسی کو نہ تھی اسی لیے یہ پوری قوم عرب امیین کہلاتے تھے۔ قرآنِ کریم نے بھی ان کے متعلق یہ لفظ استعمال کیا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا تھا کہ آپؐ ہر قسم کی تعلیم و تعلم سے بے خبر رہے۔ وہاں کوئی بڑا عالم بھی ایسا نہ تھا جس کی صحبت میں رہ کر یہ علوم حاصل کیے جا سکیں، جس کا قرآن حامل ہے پھر قدرت کو تو ایک فوق العادہ معجزہ دکھلانا تھا جو انبیاء کرام کے ساتھ خاص رکھا گیا تھا۔ آپؐ کے لیے خصوصی طور پر ایسے سامان ہوئے معمولی نوشت و خواند جو ہر جگہ کے لوگ کسی نہ کسی طرح سیکھ ہی لیتے ہیں آپ نے وہ بھی نہ سیکھی، امی محض رہے کہ اپنا نام تک بھی نہ لکھ سکتے تھے۔ عرب کا مخصوص فن شعر و سخن تھا جس کے لیے خاص خاص اجتماعات کیے جاتے اور مشاعرے منعقد ہوتے اور اس میں ہر شخص مسابقت کی کوشش کرتا تھا۔ آپؐ کو حق تعالیٰ نے ایسی فطرت عطا فرمائی تھی کہ ان چیزوں میں بھی دلچسپی نہ لی، نہ کبھی کوئی شعر یا قصیدہ لکھا نہ کسی ایسی مجلس میں شریک ہوئے۔
ہاں امی محض ہونے کے ساتھ بچپن سے ہی آپؐ کی شرافت نفس، اخلاق فاضلہ ، فہم و فراست کے غیر معمولی آثار، دیانت و امانت کے اعلیٰ ترین شاہکار آپؐ کی ذات مقدس میں ہر وقت مشاہدہ کیے جاتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ عرب کے بڑے بڑے مغرور و متکبر سردار آپؐ کی تعظیم کرتے تھے اور سارے مکہ میں آپؐ کو امین کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔
یہ اُمی محض چالیس سال تک مکہ میں اپنی برادری کے سامنے رہتے ہیں کسی دوسرے ملک کا سفر بھی نہیں کرتے جس سے یہ خیال پیدا ہو سکے کہ وہاں جا کر علوم حاصل کیے ہوں گے صرف ملک شام کے دو تجارتی سفر ہوئے وہ بھی گنے چنے چند دن کے لیے جس میں اس کا کوئی امکان نہیں۔
اس اُمی محض ذات مقدس کی زندگی کے چالیس سال مکہ میں اپنی برادری میں اس طرح گزرے کہ نہ کبھی کسی کتاب یا قلم کو ہاتھ لگایا نہ کسی مکتب میں گئے نہ کسی مجلس میں کوئی نظم و قصیدہ ہی پڑھا ٹھیک چالیس سال کے بعد ان کی زبان مبارک پر وہ کلام آنے لگا جس کا نام قرآن ہے جو اپنی لفظی فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے اور معنوی علوم و فنون کے لحاظ سے محیر العقول کلام ہے۔ اگر صرف اتنا ہی ہوتا تو بھی اس کے معجزہ ہونے میں کسی انصاف پسند کو کیا شبہ رہ سکتا ہے، مگر یہاں یہی نہیں بلکہ اس نے ساری دنیا کو تحدی کی، چیلنج دیا کہ کسی کو اس کے کلامِ الٰہی ہونے میں شبہ ہو تو اس کا مثل بنا لائے۔
اب ایک طرف قرآن کی تحدی اور چیلنج اور دوسری طرف ساری دنیا کی مخالف طاقتیں جو اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کو شکست دینے کے لیے اپنی مال ، جان، اولاد، آبرو سب گنوانے کو تیار ہیں مگر اتنا کام کرنے کے لیے کوئی جرأت نہیں کرتا کہ قرآن کی ایک چھوٹی سی سورت کی مثل بنا لائے فرض کیجئے کہ یہ کتاب بے مثال و بے نظیر نہ ہوتی جب بھی ایک اُمی محض کی زبان سے اس کا ظہور اعجازِ قرآن اور وجوہ اعجاز کی تفصیل میں جائے بغیر قرآنِ کریم کے معجزہ ہونے کیلئے کم نہیں جس کو ہر عالم و جاہل سمجھ سکتا ہے۔

اعجازِ قرآ نی کی دوسری وجہ

اب اعجازِ قرآن کی دوسری وجہ دیکھئے یہ آپ کو معلوم ہے کہ قرآن اور اس کے احکام ساری دنیا کے لیے آئے لیکن اس کے بلاواسطہ اور پہلے مخاطب عرب تھے جن کو اور کوئی علم و فن آتا تھا یا نہیں مگر فصاحتو بلاغت ان کا فطری ہنر اور پیدائشی وصف تھا جس میں وہ اقوامِ دنیا سے ممتاز سمجھے جاتے تھے قرآن ان کو مخاطب کر کے چیلنج کرتا ہے کہ اگر تمہیں میرے کلامِ الٰہی ہونے میں کوئی شبہ ہے تو تم میری ایک سورت کی مثال بنا کر دکھلا دو، اگر قرآن کی یہ تحدی (چیلنج) صرف اپنا حسن معنوی یعنی حکیمانہ اصول اور علمی مصارف و اسرار ہی کی حد تک ہوتی تو قوم اُمیین کے لیے اس کی نظیر پیش کرنے سے عذر معقول ہوتا، لیکن قرآن نے صرف حسن معنوی ہی کے متعلق تحدی نہیں کی بلکہ لفظی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی پوری دنیا کو چیلنج دیا ہے۔ اس چیلنج کو قبول کرنے کے لیے اقوامِ عالم میں سب سے زیادہ مستحق عرب ہی تھے اگر فی الواقع یہ کلام قدرت بشر سے باہر کسی مافوق قدرت کا کلام نہیں تھا تو بلغاء عرب کے لیے کیا مشکل تھا کہ ایک اُمی شخص کے کلام کی مثال بلکہ اس سے بہتر کلام فوراً پیش کر دیتے، اور ایک دو آدمی یہ کام نہ کر سکتے تو قرآن نے ان کو یہ سہولت بھی دی تھی کہ ساری قوم مل کر بنا لائے مگر قرآن کے اس بلند بانگ دعوے اور پھر طرح طرح سے غیرت دلانے پر بھی عرب کی غیور قوم پوری خاموش ہے، چند سطریں بھی مقابلہ پر نہیں پیش کرتی۔
عرب کے سرداروں نے قرآن اور اسلام کے مٹانے اور پیغمبر اسلام ﷺ کو مغلوب کرنے میں جس طرح اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگایا وہ کسی لکھے پڑھے آدمی سے مخفی نہیں شروع میں آنحضرتؐ اور آپؐ کے گنے چنے رفقاء کو طرح طرح کی ایذائیں دے کر چاہا کہ وہ کلمہ اسلام کو چھوڑ دیں مگر جب دیکھا کہ ’’یاں وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتارے دے‘‘ تو خوشامد کا پہلو اختیار کیا عرب کا سردار عتبہ بن ربیعہ قوم کا نمائندہ بن کر آپؐ کے پاس حاضر ہوا اور عرب کی پوری دولت و حکومت اور بہترین حسن و جمال کی لڑکیوں کی پیشکش اس کام کے لیے کی کہ آپ اسلام کی تبلیغ چھوڑ دیں آپ نے اس کے جواب میں قرآن کی چند آیتیں سنا دینے پر اکتفا فرمایا۔ جب یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی تو جنگ و مقابلہ کے لیے تیار ہو کر قبل از ہجرت اور بعد از ہجرت جو قریش عرب نے آنحضرتؐ اور مسلمانوں کے مقابلہ میں سردھڑ کی بازی لگائی، جان مال، اولاد، آبرو سب کچھ اس مقابلہ میں خرچ کرنے کے لیے تیار ہوئے یہ سب کچھ کیا مگر یہ کسی سے نہ ہو سکا کہ قرآن کے چیلنج کو قبول کرتا اور چند سطریں مقابلہ پر پیش کر دیتا۔ کیا ان حالات میں سارے عرب کا اس کے مقابلہ سے سکوت اور عجز اس کی کھلی ہوئی شہادت نہیں کہ یہ انسان کا کلام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جس کے کام یا کلام کی نظیر انسان کیا ساری مخلوق کی قدرت سے باہر ہے۔
پھر صرف اتنا ہی نہیں کہ عرب نے اس کے مقابلہ سے سکوت کیا بلکہ اپنی خاص مجلسوں میں سب نے اس کے بے مثل ہونے کا اعتراف کیا اور جو ان میں سے منصف مزاج تھے اُنہوں نے اس اعتراف کا اظہار بھی کیا۔ پھر ان میں سے کچھ لوگ مسلمان ہو گئے اور کچھ اپنی آبائی رسوم کی پابندی یا بنی عبد مناف کی ضد کی وجہ سے اسلام قبول کرنے کے باجوود اعتراف سے محروم رہے۔ قریش عرب کی تاریخ ان واقعات پر شاہد ہے۔ میں اس میں سے چند واقعات اس جگہ بیان کرتا ہوں جس سے اندازہ ہو سکے کہ پورے عرب نے اس کلام کے بے مثل، بے نظیر ہونے کو تسلیم کیا اور اس کی مثال پیش کرنے کو اپنی رسوائی کے خیال سے چھوڑ دیا۔ جب رسول اللہ ﷺ اور قرآن کا چرچا مکہ سے باہر حجاز کے دوسرے مقامات میں ہونے لگا اور حج کا موسم آیا تو قریش مکہ کو اس کی فکر ہوئی کہ اب اطراف عرب سے حجاج آئیں گے اور رسول کریم ﷺ کا یہ کلام سنیں گے تو فریفتہ ہو جائیں گے اور غالب خیال یہ ہے کہ مسلمان ہو جائیں گے اس کے انسداد کی تدبیر سوچنے کے لیے قریش نے ایک اجلاس منعقد کیا اس اجلاس میں عرب کے بڑے بڑے سردار موجود تھے ان میں ولید بن مغیرہ عمر میں سب سے بڑے اور عقل میں ممتاز سمجھے جاتے تھے، سب نے ولید بن مغیرہ کے سامنے یہ مشکل پیش کی کہ اب اطراف ملک سے لوگ آئیں گے اور ہم سے محمد (ﷺ) کے متعلق پوچھیں گے تو ہم کیا کہیں؟ ہمیں آپ کوئی ایسی بات بتلائیے کہ ہم سب وہی بات کہہ دیں، ایسا نہ ہو کہ خود ہمارے بیانات میں اختلاف ہو جائے۔ ولید بن مغیرہ نے کہا کہ تم ہی کہو کیا کہنا چاہیے؟
لوگوں نے کہا کہ ہمارے خیال میں ہم سب یہ کہیں کہ محمد (ﷺ) معاذاللہ مجنون ہیں، ان کا کلام مجنونانہ بڑ ہے، ولید بن مغیرہ نے کہا کہ تم ایسا ہرگز نہ کہنا کیونکہ یہ لوگ جب ان کے پاس جائیں گے اور ان سے ملاقات و گفتگو کریں گے اور ان کو ایک فصیح و بلیغ عاقل انسان پائیں گے تو انہیں یقین ہو جائے گا کہ تم نے جھوٹ بولا ہے۔ پھر کچھ لوگوں نے کہا کہ اچھا ہم ان کو یہ کہیں کہ وہ ایک شاعر ہیں، ولید نے اس سے بھی منع کیا اور کہا کہ جب لوگ ان کا کلام سنیں گے وہ تو شعر و شاعری کے ماہر ہیں انہیں یقین ہو جائے گا کہ یہ شعر نہیں اور نہ آپؐ شاعر ہیں، نتیجہ یہ ہو گا کہ یہ سب لوگ تمہیں جھوٹا سمجھیں گے۔ پھر کچھ لوگوں نے کہا کہ تو پھر ہم ان کو کاہن قرار دیں، جو شیاطین و جنات سے سن کر غیب کی خبریں دیا کرتے ہیں ، ولید نے کہا یہ بھی غلط ہے کیونکہ جب لوگ ان کا کلام سنیں گے تو پتہ چل جائے گا کہ یہ کلام کسی کاہن کا نہیں ہے وہ پھر بھی تمہیں ہی جھوٹا سمجھیں گے۔ اس کے بعد قرآن کے بارے میں جو ولید بن مغیرہ کے تاثرات تھے ان کو الفاظ میں بیان کیا:
’’
خدا کی قسم! تم میں کوئی آدمی شعر و شاعری اور اشعارِ عرب سے میرے برابر واقف نہیں، خدا کی قسم! اس کلام میں خاص حلاوت ہے، اور ایک خاص رونق ہے، جو میں کسی شاعر یا فصیح و بلیغ کے کلام میں نہیں پاتا۔‘‘
پھر ان کی قوم نے دریافت کیا کہ آپ ہی بتلائیے پھر ہم کیا کریں؟ اور ان کے بارے میں لوگوں سے کیا کہیں؟ ولید نے کہا میں غور کرنے کے بعد کچھ جواب دوں گا، پھر بہت سوچنے کے بعد کہا کہ اگر کچھ کہنا ہی ہے تو تم ان کو ساحر کہو کہ اپنے جادو سے باپ بیٹے اور میاں بیوی میں تفرقہ ڈال دیتے ہیں۔
قوم اس پر مطمئن اور متفق ہو گئی اور سب نے یہی کہنا شروع کیا، مگر خدا کا چراغ کہیں پھونکوں سے بجھنے والا تھا؟ اطرافِ عرب کے لوگ آئے قرآن سنا اور بہت سے مسلمان ہو گئے، اور اطراف عرب میں اسلام پھیل گیا۔ (خصائص کبریٰ)
اسی طرح ایک قریشی سردار نضر بن حارث نے ایک مرتبہ اپنی قوم کو خطاب کر کے کہا:
’’
اے قومِ قریش! آج تم ایک مصیبت میں گرفتار ہو کہ اس سے پہلے کبھی ایسی مصیبت سے سابقہ نہیں پڑا تھا کہ محمد (ﷺ) تمہاری قوم کے ایک نوجوان تھے اور تم سب ان کے عادات و اخلاق کے گرویدہ اور اپنی قوم میں ان کو سب سے زیادہ سچا اور سب سے زیادہ امانت دار جانتے اور کہتے تھے اب جب کہ ان کے سر میں سفید بال آنے لگے، اور اُنہوں نے ایک بے مثل کلام اللہ کی طرف سے پیش کیا تو تم ان کو جادوگر کہنے لگے، خدا کی قسم وہ جادوگر نہیں ہم نے جادوگروں کو دیکھا اور برتا ہے، ان کے کلام سنے ہیں اور ان کے طریقوں کو سمجھا ہے وہ بالکل اس سے مختلف ہیں۔
اور کبھی تم ان کو کاہن کہنے لگے، خدا کی قسم! وہ کاہن بھی نہیں ہم نے بہت کاہنوں کو دیکھا اور ان کے کلام سنے ہیں ان کو ان کے کام سے کوئی مناسبت نہیں۔
اور کبھی تم ان کو شاعر کہنے لگے، خدا کی قسم! وہ شاعر بھی نہیں ہم نے خود شعر، شاعری کے تمام فنون کو سیکھا سمجھا ہے اور بڑے بڑے شعراء کے کلام ہمیں یاد ہیں ان کے کلام سے اس کو کوئی مناسبت نہیں پھر کبھی تم ان کو مجنون بتاتے ہو، خدا کی قسم! وہ مجنون بھی نہیں، ہم نے بہت سے مجنونوں کو دیکھا بھالا، ان کی بکواس سنی ہے، ان کے مختلف اور مختلط کلام سنے ہیں، یہاں یہ کچھ نہیں، اے میری قوم تم انصاف کے ساتھ ان کے معاملہ میں غور کرو، یہ سرسری ٹال دینے کی چیز نہیں۔‘‘ (خصائص کبریٰ ص۱۱۴ ج اول)
حضرت ابوذرؓ صحابی فرماتے ہیں کہ میرا بھائی انیس ایک مرتبہ مکہ مکرمہ گیا اس نے واپس آ کر مجھے بتلایا کہ مکہ میں ایک شخص ہے جو یہ کہتا ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے، میں نے پوچھا کہ وہاں کے لوگ اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ بھائی نے کہا کہ کوئی ان کو شاعر کہتا ہے، کوئی کاہن بتلاتا ہے، کو جادوگر کہتا ہے، میرا بھائی انیس خود بڑا شاعر اور کہانت وغیرہ سے واقف آدمی تھا اس نے مجھ سے کہا کہ جہاں تک میں نے غور کیا لوگوں کی یہ سب باتیں غلط ہیں ان کا کلام نہ شعر ہے نہ کہانت ہے نہ مجنونانہ کلمات ہیں بلکہ مجھے وہ کلام صادق نظر آتا ہے۔
ابو ذرؓ فرماتے ہیں کہ بھائی سے یہ کلمات سن کر میں نے مکہ کا سفر کیا اور مسجد حرام میں آ کر پڑ گیا تیس روز میں نے اس طرح گزارے کہ سوائے زمزم کے پانی کے میرے پیٹ میں کچھ نہیں گیا اس تمام عرصہ میں نہ مجھے بھوک کی تکلیف معلوم ہوئی نہ کوئی ضعف محسوس کیا۔ (خصائص ص۱۱۶ ج اول)
واپس گئے تو لوگوں سے کہا کہ میں نے روم اور فارس کے فصحاء و بلغاء کے کلام بہت سنے ہیں اور کاہنوں کے کلمات اور حمیر کے مقالات بہت سنے ہیں محمد (ﷺ) کے کلام کی مثال میں نے آج تک کہیں نہیں سنی تم سب میری بات مانو اور آپؐ کا اتباع کرو چنانچہ فتح مکہ کے سال ان کی پوری قوم کے تقریباً ایک ہزار آدمی مکہ پہنچ کر مسلمان ہو گئے۔ (خصائص ص۱۱۶ ج اول)
اسلام اور آنحضرت ﷺ کے سب سے بڑے دشمن ابوجہل اور اخنس بن شریق وغیرہ بھی لوگوں سے چھپ کر قرآن سنا کرتے اور اس کے عجیب و غریب ، بے مثل و بے نظیر اثرات سے متاثر ہوتے تھے مگر جب قوم کے کچھ لوگوں نے ان کو کہا کہ جب تم اس کلام کو ایسا بے نظیر پاتے ہو تو اس کو قبول کیوں نہیں کرتے؟ تو ابوجہل کا جواب یہ تھا کہ تمہیں معلوم ہے کہ بنی عبدمناف میں اور ہمارے قبیلہ میں ہمیشہ سے رقابت اور معاصرانہ مقابلہ چلتا رہا ہے۔ وہ جس کام میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں ہم بھی اس کا جواب دیتے ہیں اب جبکہ ہم اور وہ دونوں برابر حیثیت کے مالک ہیں تو اب وہ یہ کہنے لگے کہ ہم میں ایک نبی پیدا ہوا ہے جس پر آسمان سے وحی آتی ہے اب ہم اس میں کیسے ان کا مقابلہ کریں میں تو کبھی اس کا اقرار نہیں کروں گا۔ (خصائص)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کے اس دعوے اور چیلنج پر صرف یہی نہیں کہ پورے عرب نے ہار مان لی اور سکوت کیا، بلکہ اس کے بے مثل و بے نظیر ہونے اور اپنے عجز کا کھلے طور پر اعتراف بھی کیا ہے اگر یہ کسی انسان کا کلام ہوتا تو اس کی کوئی وجہ نہ تھی کہ سارا عرب بلکہ ساری دنیا اس کا مثل لانے سے عاجز ہو جاتی۔
قرآن اور پیغمبر قرآن کے کے مقابلہ میں جان و مال، اولاد و آبرو سب کچھ قربان کرنے کے لیے تو وہ تیار ہو گئے مگر اس کے لیے کوئی آگے نہ بڑھا کہ قرآن کے چیلنج کو قبول کر کے دو سطریں اس کے مقابلہ میں پیش کر دیتا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ اپنے جاہلانہ اعمال و افعال کے باوجود منصف مزاج تھے جھوٹ کے پاس نہ جاتے تھے جب انہوں نے قرآن کو سن کر یہ سمجھ لیا کہ جب درحقیقت اس کلام کی مثل ہم نہیں لا سکتے تو محض دھاندلی اور کٹ حجتی کے طور پر کوئی کلام پیش کرنا اپنے لیے عار سمجھا۔ کیونکہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ہم نے کوئی چیز پیش بھی کر دی تو پورے عرب کے فصحاء و بلغاء اس امتحانی مقابلہ میں ہمیں فیل کر دیں گے اور خواہ مخواہ رسوائی ہو گی اسی لیے پوری قوم نے سکوت اختیار کیا اور جو زیادہ منصف مزاج تھے انہوں نے صاف طور پر اقرار و تسلیم بھی کیا جس کے کچھ وقائع پہلے بیان ہو چکے ہیں۔
اسی سلسلہ کا ایک واقعہ یہ ہے کہ عرب کے سردار اسعد بن زرارہ نے آنحضرت ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے سامنے اقرار کیا کہ:
’’
ہم نے خواہ مخواہ محمد (ﷺ) کی مخالفت کر کے اپنے رشتے ناطے توڑے،اور تعلقات خراب کیے میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ وہ بلاشبہ اللہ کے رسول ہیں، ہرگز جھوٹے نہیں اور جو کلام وہ لائے ہیں بشر کا کلام نہیں ہو سکتا۔‘‘ (خصائص ص۱۱۶ ج اول)
قبیلہ بنی سلیم کا ایک شخص مسمی قیس بن نسیبہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ سے قرآن سنا اور چند سوالات کیے جن کا جواب آنحضرت ﷺ نے عطا فرمایا تو یہ اسی وقت مسلمان ہو گئے اور پھر اپنی قوم میں واپس گئے تو لوگوں سے کہا:
’’
میں نے روم و فارس کے فصحاء و بلغاء کے کلام سنے ہیں بہت سے کاہنوں کے کلمات سننے کا تجربہ ہوا ہے حمیر کے مقالات سنتا رہا ہوں مگر محمد ﷺ کے کلام کی مثل میں نے آج تک کہیں نہیں سنا۔ تم سب میری بات مانو اور ان کا اتباع کرو۔ انہیں کی تحریک و تلقین پر ان کی قوم کے ایک ہزار آدمی فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہو گئے۔‘‘ (خصائص ص۱۱۶ ج اول)
یہ اقرار و تسلیم صرف ایسے ہی لوگوں سے منقول نہیں جو آپؐ کے معاملات سے یکسو اور غیر جانبدار تھے بلکہ وہ لوگ جو ہر وقت ہر طرح رسول اللہ ﷺ کی مخالفت میں لگے ہوئے تھے قرآن کے متعلق ان کا بھی یہی حال تھا مگر اپنی ضد اور حسد کی وجہ سے اس کا اظہار لوگوں پر نہ کرتے تھے۔
علامہ سیوطیؒ نے خصائص کبریٰ میں بحوالہ بیہقی نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ ابوجہل او ابوسفیان اور اخنس بن شریق رات کو اپنے اپنے گھروں سے اس لیے نکلے کہ چھپ کر رسول اللہ ﷺ سے قرآن سنیں، ان میں ہر ایک علیحدہ علیحدہ نکلا، ایک کی دوسرے کو خبر نہ تھی اور علیحدہ علیحدہ گوشوں میں چھپ کر قرآن سننے لگے تو اس میں ایسے محو ہوئے کہ ساری رات گزر گئی جب صبح ہوئی تو سب واپس ہوئے۔ اتفاقاً راستہ میں مل گئے اور ہر ایک نے دوسرے کا قصہ سنا تو سب آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ تم نے یہ بری حرکت کی اور کسی نے یہ بھی کہا کہ آئندہ کوئی ایسا نہ کرے کیونکہ اگر عرب کے عوام کو اس کی خبر ہو گئی تو وہ سب مسلمان ہو جائیں گے۔
یہ کہہ سن کر سب اپنے اپنے گھر چلے گئے اگلی رات آئی تو پھر ان میں سے ہر ایک کے دل میں یہی ٹیس اُٹھی کہ قرآن سنیں اور پھر اسی طرح چھپ چھپ کر ہر ایک نے قرآن سنا یہاں تک کہ رات گزر گئی اور صبح ہوتے ہی یہ لوگ واپس ہوئے تو پھر آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے اور اس کے ترک پر سب نے اتفاق کیا، مگر تیسری رات آئی تو پھر قرآن کی لذت و حلاوت نے انہیں چلنے اور سننے پر مجبور کر دیا پھر پہنچے اور رات بھر قرآن سن کر لوٹنے لگے تو پھر راستہ میں اجتماع ہو گیا تو اب سب نے کہا کہ آؤ آپس میں معاہد کر لیں کہ آئندہ ہم ہرگز ایسا نہ کریں گے چنانچہ اس معاہدہ کی تکمیل کی گئی اور سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے صبح کو اخنس بن شریق نے اپنی لاٹھی اُٹھائی اور پہلے ابوسفیان کے پاس پہنچا کہ بتلاؤ اس کلام کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے اس نے دبے دبے لفظوں میں قرآن کی حقانیت کا اعتراف کیا، تو اخنس نے کہا کہ بخدا میری بھی یہی رائے ہے اس کے بعد وہ ابوجہل کے پاس پہنچا اور اس سے بھی یہی سوال کیا کہ تم نے محمد (ﷺ) کے کلام کو کیسا پایا؟
ابوجہل نے کہا کہ صاف بات یہ ہے کہ ہمارے خاندان اور عبد مناف کے خاندان میں ہمیشہ سے چشمک چلی آتی ہے قوم کی سیادت و قیادت میں وہ جس محاذ پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں ہم ان کا مقابلہ کرتے ہیں اُنہوں نے سخاوت و بخشش کے ذریعہ قوم پر اپنا اثر جمانا چاہا تو ہم نے ان سے بڑھ کر یہ کام کر دکھایا، اُنہوں نے لوگوں کی ذمہ داریاں اپنے سر لے لیں تو ہم اس میدان میں بھی ان سے پیچھے نہیں رہے یہاں تک کہ پورا عرب جانتا ہے کہ ہم دونوں خاندان برابر حیثیت کے مالک ہیں۔
ان حالات میں ان کے خاندان سے یہ آواز اُٹھی کہ ہمارے میں ایک نبی پیدا ہوا ہے جس پر آسمان سے وحی آتی ہے اب ظاہر ہے کہ اس کا مقابلہ ہم کیسے کریں گے اس لیے ہم نے تو یہ طے کر لیا ہے کہ ہم زور اور طاقت سے ان کا مقابلہ کریں گے اور ہر گز ان پر ایمان نہ لائیں گے۔
(
خصائص ص۱۱۵ ج اول)

اعجازِ قرآنی کی تیسری وجہ

تیسری وجہ اعجازِ قرآنی کی یہ ہے کہ اس میں غیب کی اور آئندہ پیش آنے والے واقعات کی بہت سی خبریں ہیں جو قرآن نے دیں اور ہو بہو اسی طرح واقعات پیش آئے جس طرح قرآن نے خبر دی تھی مثلاً قرآن نے خبر دی کہ روم و فارس کے مقابلہ میں ابتداءً اہل فارس غالب آئیں گے اور رومی مغلوب ہوں گے لیکن ساتھ ہی یہ خبر دی کہ دس سال گزرنے نہ پائیں گے کہ پھر رومی اہل فارس پر غالب آ جائیں گے۔ مکہ کے سرداروں نے قرآن کی اس خبر پر حضرت صدیق اکبرؓ سے ہار جیت کی شرط کر لی اور پھر ٹھیک قرآن کی خبر کے مطابق رومی غالب آ گئے، تو سب کو اپنی ہار ماننے پڑی اور ہارنے والے پر جو مال دینے کی شرط تھی وہ مال ان کو دینا پڑا، رسول کریم ﷺ نے اس مال کو قبول نہیں فرمایا کیونکہ وہ ایک قسم کا جوا تھا اسی طرح اور بہت سے واقعات اور خبریں ہیں جو امور غیبیہ کے متعلق قرآن میں دی گئیں اور ان کی سچائی بالکل روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی۔ علاوہ ازیں اس سلسلہ میں بہت کچھ بیان کیا گیا ہے اگر تفصیل مطلوب ہو تو عروۃ الوثقیٰ جلد اول کی آیت ۲۳ کی مکمل تفسیر دیکھیں۔

صاحب قرآن خود زندہ و جاوید معجزہ ہے

سب سے بڑا معجزہ خودہ نبی اعظم و آخر ﷺ کی ذات ہے کہ نزولِ قرآن سے پہلے محض ایک اُمی انسان تھے لیکن قرآنِ کریم کے نزول کے ساتھ ہی آپؐ کو وہ سب کچھ پڑھا اور سکھا دیا کہ اچانک تمام پڑھنے لکھنے اور سیکھنے سکھانے والوں کے استاذ بن گئے جس کی گواہی قرآنِ کریم نے ان الفاظ میں دی:
’’
اور تو اے پیغمبر اسلام! اس سے پہلے نہ تو کوئی کتاب پڑھ سکتا تھا اور نہ اپنے داہنے ہاتھ سے کچھ لکھ سکتا تھا اگر ایسا ہوتا تو اہل باطل شبہ میں پڑتے۔‘‘ (۲۹:۴۸)
اس طرح کا مضمون قرآنِ کریم میں بار بار بیان ہوا ہے جیسا کہ سورہ یونس، قصص، نحل، بنی اسرائیل، مومنون اور الفرقان میں موجود ہے۔ بلاشبہ آپؐ کے اہل وطن اور رشتہ و برادری کے لوگ جن کے درمیان روزِ پیدائش سے سن کہولت کو پہنچنے تک آپ کی ساری زندگی بسر ہوئی تھی اس بات سے خوب واقف تھے کہ آپؐ نے عمر بھر نہ کبھی کسی سے کوئی کتاب پڑھی نہ کبھی قلم ہاتھ میں لیا اس امر واقعہ کو پیش کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ کتب آسمانی کی تعلیمات، انبیاء سابقین کے حالات، مذاہب وادیان کے عقائد، قدیم قوموں کی تاریخ اور تمدن و اخلاق و معیشت کے تمام اہم مسائل پر جس وسیع اور گہرے علم کا اظہار اس نبی و رسول کی زبان سے ہو رہا ہے جو محض امی ہے اس کو یہ علم وحی الٰہی کے سوا کسی دوسرے ذریعہ سے حاصل نہیں ہو سکتا تھا اچانک آپؐ کا لکھنا پڑھنا سیکھنا اور بیان کرنا پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا کلام پیش کرناجس کی مثل لانے سے تمام دنیا کے فصحاء و بلغاء قاصر ہوں اس کو سوائے معجزہ کے اور کیا کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہ وہ اعجاز ہے جس نے سب کو عاجز کر دیا۔ افسوس کہ مسلمانوں کی اکثریت اس معجزہ کو تسلیم نہیں کرتی اور تسلیم کرنے والوں کو معجزات کا منکر کہا جاتا ہے۔

عبدالکریم اثری
__________________
كان شعبة بن الحجاج بن الورد يقول لأصحاب الحديث: "يا قوم! إنكم كلما تقدمتم في الحديث تأخرتم في القرآن"