Tuesday, January 29, 2013

اعجازِ قرآن کیا ہے ؟ قرآن خود زندہ و جاوید معجزہ ہے !



اعجازِ قرآن کیا ہے ؟ قرآن خود زندہ و جاوید معجزہ ہے !

قرآنِ کریم کا دوسرا دعویٰ اس کی مثل نہ ہونے کا ہے یعنی یہ کہ قرآنِ کریم اللہ رب کریم کا کلام ہے جس طرح اللہ کی مثل نہیں بالکل اسی طرح اس کے اس کلام کی بھی مثل نہیں ہو سکتی گویا جس طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی بھی مخلوق کو خواہ وہ نبی و رسول ہی کیوں نہ ہو مثل قرار نہیں دیا جا سکتا بالکل اسی طرح کسی بھی مخلوق کے کلام کو خواہ وہ نبی و رسول ہی کا کلام کیوں نہ ہو مثل قرار نہیں دیا جا سکتا چنانچہ قرآنِ کریم میں ہے کہ:
’’
اے پیغمبر اسلام! اس بات کا اعلان کر دے کہ اگر تمام انسان اور جن اکٹھے ہو کر چاہیں کہ اس قرآن کی مانند کوئی کلام پیش کر دیں تو کبھی پیش نہ کر سکیں گے اگرچہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا مددگار ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ (۱۷:۸۸)
قرآنِ کریم نے صرف ایک جگہ نہیں بلکہ بار بار اس امر کا مطالبہ کیا ہے اور مخالفین و منکرین کو چیلنج پر چیلنج دیاہے اور کوئی شرط عائد نہیں کی، کوئی پابندی نہیں لگائی۔ کہا ہے تو صرف یہ کہ یا تو دعویٰ رسالت تسلیم کر لو اور مان لو کہ یہ کلام پیغمبر اسلام کا تصنیف شدہ نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے رسالت کا پیغام ہے یا پھر ایسا کلام تم بھی بنا کر پیش کر دو۔ ہاں! تم ایسا نہیں کر سکو گے اور یقیناًنہیں کر سکو گے تو پھر ہٹ دھرمی سے کام نہ لو بلکہ اس معجزہ رسالت کو تسلیم کر لو۔ اس جگہ ہم کو یہ معلوم کرنا ہے کہ قرآنِ کریم کو کس بنا پر نبی اعظم و آخر ﷺ کا معجزہ قرار دیا گیا اور اس کا یہ اعجاز کن کن وجوہ سے ہے اور کیوں ساری دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز و درماندہ ہے۔ دوسرے یہ مسلمانوں کا دعویٰ کہ کوئی شخص بھی چودہ سو برس کے عرصہ میں قرآنِ کریم کی زبردست تحدی کے باوجود اس کی مثل پیش نہیں کر سکا یہ تاریخی حیثیت سے کیا وزن رکھتا ہے۔ ان دونوں باتوں کو ذرا تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے تاکہ اعجازِ قرآنی کی پوری وضاحت ہو سکے پھر اس کے بعد عرض کیا جائے گا کہ اغیار نے ناکا م ہونے کے باوجود کامیابی حاصل کرنے کے لیے کونسا راستہ اختیار کیا اور مسلمانوں نے جہاد کی حقیقت بدلنے کے بعد قرآنِ کریم کے اس اعجاز کو ختم کرنے کی ذمہ داری کیسے قبول کر لی؟ اعجازِ قرآنی کے بے شمار وجوہ ہیں لیکن اس جگہ صرف تین کا ذکر کیا جاتا ہے

اعجازِ قرآنی کی پہلی وجہ

اس جگہ سب سے پہلے غور کرنے کی چیز یہ ہے کہ یہ عجیب و غریب کل علوم کی جامع کتاب کس جگہ، کس ماحول میں اور کس پر نازل ہوئی؟ اور کیا وہاں کچھ ایسے علمی سامان موجود تھے جن کے ذریعہ دائرہ اسباب عامہ میں ایسی جامع بے نظیر کتاب تیار ہو سکے، جو علوم اولین و آخرین کی جامع،اور انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کے متعلق بہترین ہدایت پیش کر سکے، جس میں انسان کی جسمانی اور روحانی تربیت کا مکمل نظام ہو اور تدبیر منزل سے لے کر سیاست مملکت تک ہر نظام کے بہترین اصول ہوں۔
جس سرزمین اور جس ذات پر یہ کتاب مقدس نازل ہوئی اس کی جغرافیائی کیفیت اور تاریخی حالت معلوم کرنے کے لیے آپ کو ایک ریگساتی خشک اور گرم علاقہ سے سابقہ پڑے گا جس کو بطحاء مکہ کہتے ہیں اور جو نہ زرعی ملک ہے نہ صنعتی، نہ اس ملک کی آب و ہوا ہی کچھ ایسی خوشگوار ہے جس کے لیے باہر کے آدمی وہاں پہنچنے کی رغبت کریں، نہ راستے ہی کچھ ہموار ہیں جن سے وہاں تک پہنچنا آسان ہو، اکثر دنیا سے کٹا ہوا ایک جزیرہ نما ہے جہاں خشک پہاڑوں اور گرم ریگ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا، دور دور تک نہ کہیں بستی نظر آتی ہے نہ کوئی کھیت نہ درخت۔
اس پورے خطہ ملک میں کچھ بڑے شہر بھی نہیں، چھوٹے چھوٹے گاؤں اور ان میں اونٹ بکریاں پال کر اپنی زندگی گذارنے والے انسان بستے ہیں، اس کے چھوٹے دیہات کا تو دیکھنا کیا جو برائے نام چند شہر کہلاتے ہیں ان میں بھی کسی قسم کے علم و تعلیم کا کوئی چرچا نہیں، نہ وہاں کوئی اسکول اور کالج ہے نہ کوئی بڑی یونیورسٹی یا دارالعلوم، وہاں کے باشندوں کو اللہ تعالیٰ نے محض قدرتی اور پیدائشی طور پر فصاحت و بلاغت کا ایک فن ضرور دے دیا ہے جس میں وہ ساری دنیا سے فائق اور ممتاز ہیں، وہ نثر اور نظم میں ایسے قادر الکلام ہیں کہ جب بولتے ہیں تو رعد کی طرح کڑکتے اور بادل کی طرح برستے ہیں۔ ان کی ادنیٰ ادنیٰ چھوکریاں ایسی فصیح و بلیغ شعر کہتی ہیں کہ دنیا کے ادیب حیران رہ جائیں۔
لیکن یہ سب کچھ ان کا فطری فن ہے جو کسی مکتب یا مدرسہ میں حاصل نہیں کیا جاتا۔ غرض نہ وہاں تعلیم و تعلم کا کوئی سامان ہے، نہ وہاں کے رہنے والوں کو ان چیزوں سے کوئی لگاؤ یا وابستگی ہے ان میں کچھ لوگ شہری زندگی بسر کرنے والے ہیں تو وہ تجارت پیشہ ہیں، مختلف اجناس مال کی درآمد برآمد ان کا مشغلہ ہے۔
اس ملک کے قدیم شہر مکہ کے ایک شریف گھرانہ میں وہ ذات مقدس پیدا ہوتی ہے جو مہبط وحی ہے جس پر قرآن اترا ہے اب اس ذات مقدس کا حال سنئے۔
ولادت سے پہلے ہی والد ماجد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا، اسی طرح وہ گویا بے باپ پیدا ہوئے ابھی سات سال کی عمر نہ تھی کہ والدہ کی بھی وفات ہو گئی، آغوش مادر کا گہوارہ بھی نصیب نہ رہا شریف آباؤ اجداد کی فیاضی اور بے مثل سخاوت نے اپنے گھر میں کوئی اندوختہ نہ چھوڑا تھا جس سے یتیم کی پرورش اور آئندہ زندگی کا سامان ہو سکے نہایت عسرت کی زندگی پھر ماں باپ کا سایہ سر پر نہیں، ان حالات میں آپؐ نے پرورش پائی اور عمر کا ابتدائی حصہ گزارا جو تعلیم و تعلم کا اصلی وقت ہے۔ اس وقت اگر مکہ میں کوئی دارالعلوم یا اسکول و کالج بھی ہوتا تو بھی آپ ؐ کے لیے اس سے استفادہ کرنا مشکل تھا مگر معلوم ہو چکا کہ وہاں سرے سے یہ علمی مشغلہ اور اس سے دلچسپی ہی کسی کو نہ تھی اسی لیے یہ پوری قوم عرب امیین کہلاتے تھے۔ قرآنِ کریم نے بھی ان کے متعلق یہ لفظ استعمال کیا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا تھا کہ آپؐ ہر قسم کی تعلیم و تعلم سے بے خبر رہے۔ وہاں کوئی بڑا عالم بھی ایسا نہ تھا جس کی صحبت میں رہ کر یہ علوم حاصل کیے جا سکیں، جس کا قرآن حامل ہے پھر قدرت کو تو ایک فوق العادہ معجزہ دکھلانا تھا جو انبیاء کرام کے ساتھ خاص رکھا گیا تھا۔ آپؐ کے لیے خصوصی طور پر ایسے سامان ہوئے معمولی نوشت و خواند جو ہر جگہ کے لوگ کسی نہ کسی طرح سیکھ ہی لیتے ہیں آپ نے وہ بھی نہ سیکھی، امی محض رہے کہ اپنا نام تک بھی نہ لکھ سکتے تھے۔ عرب کا مخصوص فن شعر و سخن تھا جس کے لیے خاص خاص اجتماعات کیے جاتے اور مشاعرے منعقد ہوتے اور اس میں ہر شخص مسابقت کی کوشش کرتا تھا۔ آپؐ کو حق تعالیٰ نے ایسی فطرت عطا فرمائی تھی کہ ان چیزوں میں بھی دلچسپی نہ لی، نہ کبھی کوئی شعر یا قصیدہ لکھا نہ کسی ایسی مجلس میں شریک ہوئے۔
ہاں امی محض ہونے کے ساتھ بچپن سے ہی آپؐ کی شرافت نفس، اخلاق فاضلہ ، فہم و فراست کے غیر معمولی آثار، دیانت و امانت کے اعلیٰ ترین شاہکار آپؐ کی ذات مقدس میں ہر وقت مشاہدہ کیے جاتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ عرب کے بڑے بڑے مغرور و متکبر سردار آپؐ کی تعظیم کرتے تھے اور سارے مکہ میں آپؐ کو امین کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔
یہ اُمی محض چالیس سال تک مکہ میں اپنی برادری کے سامنے رہتے ہیں کسی دوسرے ملک کا سفر بھی نہیں کرتے جس سے یہ خیال پیدا ہو سکے کہ وہاں جا کر علوم حاصل کیے ہوں گے صرف ملک شام کے دو تجارتی سفر ہوئے وہ بھی گنے چنے چند دن کے لیے جس میں اس کا کوئی امکان نہیں۔
اس اُمی محض ذات مقدس کی زندگی کے چالیس سال مکہ میں اپنی برادری میں اس طرح گزرے کہ نہ کبھی کسی کتاب یا قلم کو ہاتھ لگایا نہ کسی مکتب میں گئے نہ کسی مجلس میں کوئی نظم و قصیدہ ہی پڑھا ٹھیک چالیس سال کے بعد ان کی زبان مبارک پر وہ کلام آنے لگا جس کا نام قرآن ہے جو اپنی لفظی فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے اور معنوی علوم و فنون کے لحاظ سے محیر العقول کلام ہے۔ اگر صرف اتنا ہی ہوتا تو بھی اس کے معجزہ ہونے میں کسی انصاف پسند کو کیا شبہ رہ سکتا ہے، مگر یہاں یہی نہیں بلکہ اس نے ساری دنیا کو تحدی کی، چیلنج دیا کہ کسی کو اس کے کلامِ الٰہی ہونے میں شبہ ہو تو اس کا مثل بنا لائے۔
اب ایک طرف قرآن کی تحدی اور چیلنج اور دوسری طرف ساری دنیا کی مخالف طاقتیں جو اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کو شکست دینے کے لیے اپنی مال ، جان، اولاد، آبرو سب گنوانے کو تیار ہیں مگر اتنا کام کرنے کے لیے کوئی جرأت نہیں کرتا کہ قرآن کی ایک چھوٹی سی سورت کی مثل بنا لائے فرض کیجئے کہ یہ کتاب بے مثال و بے نظیر نہ ہوتی جب بھی ایک اُمی محض کی زبان سے اس کا ظہور اعجازِ قرآن اور وجوہ اعجاز کی تفصیل میں جائے بغیر قرآنِ کریم کے معجزہ ہونے کیلئے کم نہیں جس کو ہر عالم و جاہل سمجھ سکتا ہے۔

اعجازِ قرآ نی کی دوسری وجہ

اب اعجازِ قرآن کی دوسری وجہ دیکھئے یہ آپ کو معلوم ہے کہ قرآن اور اس کے احکام ساری دنیا کے لیے آئے لیکن اس کے بلاواسطہ اور پہلے مخاطب عرب تھے جن کو اور کوئی علم و فن آتا تھا یا نہیں مگر فصاحتو بلاغت ان کا فطری ہنر اور پیدائشی وصف تھا جس میں وہ اقوامِ دنیا سے ممتاز سمجھے جاتے تھے قرآن ان کو مخاطب کر کے چیلنج کرتا ہے کہ اگر تمہیں میرے کلامِ الٰہی ہونے میں کوئی شبہ ہے تو تم میری ایک سورت کی مثال بنا کر دکھلا دو، اگر قرآن کی یہ تحدی (چیلنج) صرف اپنا حسن معنوی یعنی حکیمانہ اصول اور علمی مصارف و اسرار ہی کی حد تک ہوتی تو قوم اُمیین کے لیے اس کی نظیر پیش کرنے سے عذر معقول ہوتا، لیکن قرآن نے صرف حسن معنوی ہی کے متعلق تحدی نہیں کی بلکہ لفظی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی پوری دنیا کو چیلنج دیا ہے۔ اس چیلنج کو قبول کرنے کے لیے اقوامِ عالم میں سب سے زیادہ مستحق عرب ہی تھے اگر فی الواقع یہ کلام قدرت بشر سے باہر کسی مافوق قدرت کا کلام نہیں تھا تو بلغاء عرب کے لیے کیا مشکل تھا کہ ایک اُمی شخص کے کلام کی مثال بلکہ اس سے بہتر کلام فوراً پیش کر دیتے، اور ایک دو آدمی یہ کام نہ کر سکتے تو قرآن نے ان کو یہ سہولت بھی دی تھی کہ ساری قوم مل کر بنا لائے مگر قرآن کے اس بلند بانگ دعوے اور پھر طرح طرح سے غیرت دلانے پر بھی عرب کی غیور قوم پوری خاموش ہے، چند سطریں بھی مقابلہ پر نہیں پیش کرتی۔
عرب کے سرداروں نے قرآن اور اسلام کے مٹانے اور پیغمبر اسلام ﷺ کو مغلوب کرنے میں جس طرح اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگایا وہ کسی لکھے پڑھے آدمی سے مخفی نہیں شروع میں آنحضرتؐ اور آپؐ کے گنے چنے رفقاء کو طرح طرح کی ایذائیں دے کر چاہا کہ وہ کلمہ اسلام کو چھوڑ دیں مگر جب دیکھا کہ ’’یاں وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتارے دے‘‘ تو خوشامد کا پہلو اختیار کیا عرب کا سردار عتبہ بن ربیعہ قوم کا نمائندہ بن کر آپؐ کے پاس حاضر ہوا اور عرب کی پوری دولت و حکومت اور بہترین حسن و جمال کی لڑکیوں کی پیشکش اس کام کے لیے کی کہ آپ اسلام کی تبلیغ چھوڑ دیں آپ نے اس کے جواب میں قرآن کی چند آیتیں سنا دینے پر اکتفا فرمایا۔ جب یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی تو جنگ و مقابلہ کے لیے تیار ہو کر قبل از ہجرت اور بعد از ہجرت جو قریش عرب نے آنحضرتؐ اور مسلمانوں کے مقابلہ میں سردھڑ کی بازی لگائی، جان مال، اولاد، آبرو سب کچھ اس مقابلہ میں خرچ کرنے کے لیے تیار ہوئے یہ سب کچھ کیا مگر یہ کسی سے نہ ہو سکا کہ قرآن کے چیلنج کو قبول کرتا اور چند سطریں مقابلہ پر پیش کر دیتا۔ کیا ان حالات میں سارے عرب کا اس کے مقابلہ سے سکوت اور عجز اس کی کھلی ہوئی شہادت نہیں کہ یہ انسان کا کلام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جس کے کام یا کلام کی نظیر انسان کیا ساری مخلوق کی قدرت سے باہر ہے۔
پھر صرف اتنا ہی نہیں کہ عرب نے اس کے مقابلہ سے سکوت کیا بلکہ اپنی خاص مجلسوں میں سب نے اس کے بے مثل ہونے کا اعتراف کیا اور جو ان میں سے منصف مزاج تھے اُنہوں نے اس اعتراف کا اظہار بھی کیا۔ پھر ان میں سے کچھ لوگ مسلمان ہو گئے اور کچھ اپنی آبائی رسوم کی پابندی یا بنی عبد مناف کی ضد کی وجہ سے اسلام قبول کرنے کے باجوود اعتراف سے محروم رہے۔ قریش عرب کی تاریخ ان واقعات پر شاہد ہے۔ میں اس میں سے چند واقعات اس جگہ بیان کرتا ہوں جس سے اندازہ ہو سکے کہ پورے عرب نے اس کلام کے بے مثل، بے نظیر ہونے کو تسلیم کیا اور اس کی مثال پیش کرنے کو اپنی رسوائی کے خیال سے چھوڑ دیا۔ جب رسول اللہ ﷺ اور قرآن کا چرچا مکہ سے باہر حجاز کے دوسرے مقامات میں ہونے لگا اور حج کا موسم آیا تو قریش مکہ کو اس کی فکر ہوئی کہ اب اطراف عرب سے حجاج آئیں گے اور رسول کریم ﷺ کا یہ کلام سنیں گے تو فریفتہ ہو جائیں گے اور غالب خیال یہ ہے کہ مسلمان ہو جائیں گے اس کے انسداد کی تدبیر سوچنے کے لیے قریش نے ایک اجلاس منعقد کیا اس اجلاس میں عرب کے بڑے بڑے سردار موجود تھے ان میں ولید بن مغیرہ عمر میں سب سے بڑے اور عقل میں ممتاز سمجھے جاتے تھے، سب نے ولید بن مغیرہ کے سامنے یہ مشکل پیش کی کہ اب اطراف ملک سے لوگ آئیں گے اور ہم سے محمد (ﷺ) کے متعلق پوچھیں گے تو ہم کیا کہیں؟ ہمیں آپ کوئی ایسی بات بتلائیے کہ ہم سب وہی بات کہہ دیں، ایسا نہ ہو کہ خود ہمارے بیانات میں اختلاف ہو جائے۔ ولید بن مغیرہ نے کہا کہ تم ہی کہو کیا کہنا چاہیے؟
لوگوں نے کہا کہ ہمارے خیال میں ہم سب یہ کہیں کہ محمد (ﷺ) معاذاللہ مجنون ہیں، ان کا کلام مجنونانہ بڑ ہے، ولید بن مغیرہ نے کہا کہ تم ایسا ہرگز نہ کہنا کیونکہ یہ لوگ جب ان کے پاس جائیں گے اور ان سے ملاقات و گفتگو کریں گے اور ان کو ایک فصیح و بلیغ عاقل انسان پائیں گے تو انہیں یقین ہو جائے گا کہ تم نے جھوٹ بولا ہے۔ پھر کچھ لوگوں نے کہا کہ اچھا ہم ان کو یہ کہیں کہ وہ ایک شاعر ہیں، ولید نے اس سے بھی منع کیا اور کہا کہ جب لوگ ان کا کلام سنیں گے وہ تو شعر و شاعری کے ماہر ہیں انہیں یقین ہو جائے گا کہ یہ شعر نہیں اور نہ آپؐ شاعر ہیں، نتیجہ یہ ہو گا کہ یہ سب لوگ تمہیں جھوٹا سمجھیں گے۔ پھر کچھ لوگوں نے کہا کہ تو پھر ہم ان کو کاہن قرار دیں، جو شیاطین و جنات سے سن کر غیب کی خبریں دیا کرتے ہیں ، ولید نے کہا یہ بھی غلط ہے کیونکہ جب لوگ ان کا کلام سنیں گے تو پتہ چل جائے گا کہ یہ کلام کسی کاہن کا نہیں ہے وہ پھر بھی تمہیں ہی جھوٹا سمجھیں گے۔ اس کے بعد قرآن کے بارے میں جو ولید بن مغیرہ کے تاثرات تھے ان کو الفاظ میں بیان کیا:
’’
خدا کی قسم! تم میں کوئی آدمی شعر و شاعری اور اشعارِ عرب سے میرے برابر واقف نہیں، خدا کی قسم! اس کلام میں خاص حلاوت ہے، اور ایک خاص رونق ہے، جو میں کسی شاعر یا فصیح و بلیغ کے کلام میں نہیں پاتا۔‘‘
پھر ان کی قوم نے دریافت کیا کہ آپ ہی بتلائیے پھر ہم کیا کریں؟ اور ان کے بارے میں لوگوں سے کیا کہیں؟ ولید نے کہا میں غور کرنے کے بعد کچھ جواب دوں گا، پھر بہت سوچنے کے بعد کہا کہ اگر کچھ کہنا ہی ہے تو تم ان کو ساحر کہو کہ اپنے جادو سے باپ بیٹے اور میاں بیوی میں تفرقہ ڈال دیتے ہیں۔
قوم اس پر مطمئن اور متفق ہو گئی اور سب نے یہی کہنا شروع کیا، مگر خدا کا چراغ کہیں پھونکوں سے بجھنے والا تھا؟ اطرافِ عرب کے لوگ آئے قرآن سنا اور بہت سے مسلمان ہو گئے، اور اطراف عرب میں اسلام پھیل گیا۔ (خصائص کبریٰ)
اسی طرح ایک قریشی سردار نضر بن حارث نے ایک مرتبہ اپنی قوم کو خطاب کر کے کہا:
’’
اے قومِ قریش! آج تم ایک مصیبت میں گرفتار ہو کہ اس سے پہلے کبھی ایسی مصیبت سے سابقہ نہیں پڑا تھا کہ محمد (ﷺ) تمہاری قوم کے ایک نوجوان تھے اور تم سب ان کے عادات و اخلاق کے گرویدہ اور اپنی قوم میں ان کو سب سے زیادہ سچا اور سب سے زیادہ امانت دار جانتے اور کہتے تھے اب جب کہ ان کے سر میں سفید بال آنے لگے، اور اُنہوں نے ایک بے مثل کلام اللہ کی طرف سے پیش کیا تو تم ان کو جادوگر کہنے لگے، خدا کی قسم وہ جادوگر نہیں ہم نے جادوگروں کو دیکھا اور برتا ہے، ان کے کلام سنے ہیں اور ان کے طریقوں کو سمجھا ہے وہ بالکل اس سے مختلف ہیں۔
اور کبھی تم ان کو کاہن کہنے لگے، خدا کی قسم! وہ کاہن بھی نہیں ہم نے بہت کاہنوں کو دیکھا اور ان کے کلام سنے ہیں ان کو ان کے کام سے کوئی مناسبت نہیں۔
اور کبھی تم ان کو شاعر کہنے لگے، خدا کی قسم! وہ شاعر بھی نہیں ہم نے خود شعر، شاعری کے تمام فنون کو سیکھا سمجھا ہے اور بڑے بڑے شعراء کے کلام ہمیں یاد ہیں ان کے کلام سے اس کو کوئی مناسبت نہیں پھر کبھی تم ان کو مجنون بتاتے ہو، خدا کی قسم! وہ مجنون بھی نہیں، ہم نے بہت سے مجنونوں کو دیکھا بھالا، ان کی بکواس سنی ہے، ان کے مختلف اور مختلط کلام سنے ہیں، یہاں یہ کچھ نہیں، اے میری قوم تم انصاف کے ساتھ ان کے معاملہ میں غور کرو، یہ سرسری ٹال دینے کی چیز نہیں۔‘‘ (خصائص کبریٰ ص۱۱۴ ج اول)
حضرت ابوذرؓ صحابی فرماتے ہیں کہ میرا بھائی انیس ایک مرتبہ مکہ مکرمہ گیا اس نے واپس آ کر مجھے بتلایا کہ مکہ میں ایک شخص ہے جو یہ کہتا ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے، میں نے پوچھا کہ وہاں کے لوگ اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ بھائی نے کہا کہ کوئی ان کو شاعر کہتا ہے، کوئی کاہن بتلاتا ہے، کو جادوگر کہتا ہے، میرا بھائی انیس خود بڑا شاعر اور کہانت وغیرہ سے واقف آدمی تھا اس نے مجھ سے کہا کہ جہاں تک میں نے غور کیا لوگوں کی یہ سب باتیں غلط ہیں ان کا کلام نہ شعر ہے نہ کہانت ہے نہ مجنونانہ کلمات ہیں بلکہ مجھے وہ کلام صادق نظر آتا ہے۔
ابو ذرؓ فرماتے ہیں کہ بھائی سے یہ کلمات سن کر میں نے مکہ کا سفر کیا اور مسجد حرام میں آ کر پڑ گیا تیس روز میں نے اس طرح گزارے کہ سوائے زمزم کے پانی کے میرے پیٹ میں کچھ نہیں گیا اس تمام عرصہ میں نہ مجھے بھوک کی تکلیف معلوم ہوئی نہ کوئی ضعف محسوس کیا۔ (خصائص ص۱۱۶ ج اول)
واپس گئے تو لوگوں سے کہا کہ میں نے روم اور فارس کے فصحاء و بلغاء کے کلام بہت سنے ہیں اور کاہنوں کے کلمات اور حمیر کے مقالات بہت سنے ہیں محمد (ﷺ) کے کلام کی مثال میں نے آج تک کہیں نہیں سنی تم سب میری بات مانو اور آپؐ کا اتباع کرو چنانچہ فتح مکہ کے سال ان کی پوری قوم کے تقریباً ایک ہزار آدمی مکہ پہنچ کر مسلمان ہو گئے۔ (خصائص ص۱۱۶ ج اول)
اسلام اور آنحضرت ﷺ کے سب سے بڑے دشمن ابوجہل اور اخنس بن شریق وغیرہ بھی لوگوں سے چھپ کر قرآن سنا کرتے اور اس کے عجیب و غریب ، بے مثل و بے نظیر اثرات سے متاثر ہوتے تھے مگر جب قوم کے کچھ لوگوں نے ان کو کہا کہ جب تم اس کلام کو ایسا بے نظیر پاتے ہو تو اس کو قبول کیوں نہیں کرتے؟ تو ابوجہل کا جواب یہ تھا کہ تمہیں معلوم ہے کہ بنی عبدمناف میں اور ہمارے قبیلہ میں ہمیشہ سے رقابت اور معاصرانہ مقابلہ چلتا رہا ہے۔ وہ جس کام میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں ہم بھی اس کا جواب دیتے ہیں اب جبکہ ہم اور وہ دونوں برابر حیثیت کے مالک ہیں تو اب وہ یہ کہنے لگے کہ ہم میں ایک نبی پیدا ہوا ہے جس پر آسمان سے وحی آتی ہے اب ہم اس میں کیسے ان کا مقابلہ کریں میں تو کبھی اس کا اقرار نہیں کروں گا۔ (خصائص)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کے اس دعوے اور چیلنج پر صرف یہی نہیں کہ پورے عرب نے ہار مان لی اور سکوت کیا، بلکہ اس کے بے مثل و بے نظیر ہونے اور اپنے عجز کا کھلے طور پر اعتراف بھی کیا ہے اگر یہ کسی انسان کا کلام ہوتا تو اس کی کوئی وجہ نہ تھی کہ سارا عرب بلکہ ساری دنیا اس کا مثل لانے سے عاجز ہو جاتی۔
قرآن اور پیغمبر قرآن کے کے مقابلہ میں جان و مال، اولاد و آبرو سب کچھ قربان کرنے کے لیے تو وہ تیار ہو گئے مگر اس کے لیے کوئی آگے نہ بڑھا کہ قرآن کے چیلنج کو قبول کر کے دو سطریں اس کے مقابلہ میں پیش کر دیتا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ اپنے جاہلانہ اعمال و افعال کے باوجود منصف مزاج تھے جھوٹ کے پاس نہ جاتے تھے جب انہوں نے قرآن کو سن کر یہ سمجھ لیا کہ جب درحقیقت اس کلام کی مثل ہم نہیں لا سکتے تو محض دھاندلی اور کٹ حجتی کے طور پر کوئی کلام پیش کرنا اپنے لیے عار سمجھا۔ کیونکہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ہم نے کوئی چیز پیش بھی کر دی تو پورے عرب کے فصحاء و بلغاء اس امتحانی مقابلہ میں ہمیں فیل کر دیں گے اور خواہ مخواہ رسوائی ہو گی اسی لیے پوری قوم نے سکوت اختیار کیا اور جو زیادہ منصف مزاج تھے انہوں نے صاف طور پر اقرار و تسلیم بھی کیا جس کے کچھ وقائع پہلے بیان ہو چکے ہیں۔
اسی سلسلہ کا ایک واقعہ یہ ہے کہ عرب کے سردار اسعد بن زرارہ نے آنحضرت ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے سامنے اقرار کیا کہ:
’’
ہم نے خواہ مخواہ محمد (ﷺ) کی مخالفت کر کے اپنے رشتے ناطے توڑے،اور تعلقات خراب کیے میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ وہ بلاشبہ اللہ کے رسول ہیں، ہرگز جھوٹے نہیں اور جو کلام وہ لائے ہیں بشر کا کلام نہیں ہو سکتا۔‘‘ (خصائص ص۱۱۶ ج اول)
قبیلہ بنی سلیم کا ایک شخص مسمی قیس بن نسیبہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ سے قرآن سنا اور چند سوالات کیے جن کا جواب آنحضرت ﷺ نے عطا فرمایا تو یہ اسی وقت مسلمان ہو گئے اور پھر اپنی قوم میں واپس گئے تو لوگوں سے کہا:
’’
میں نے روم و فارس کے فصحاء و بلغاء کے کلام سنے ہیں بہت سے کاہنوں کے کلمات سننے کا تجربہ ہوا ہے حمیر کے مقالات سنتا رہا ہوں مگر محمد ﷺ کے کلام کی مثل میں نے آج تک کہیں نہیں سنا۔ تم سب میری بات مانو اور ان کا اتباع کرو۔ انہیں کی تحریک و تلقین پر ان کی قوم کے ایک ہزار آدمی فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہو گئے۔‘‘ (خصائص ص۱۱۶ ج اول)
یہ اقرار و تسلیم صرف ایسے ہی لوگوں سے منقول نہیں جو آپؐ کے معاملات سے یکسو اور غیر جانبدار تھے بلکہ وہ لوگ جو ہر وقت ہر طرح رسول اللہ ﷺ کی مخالفت میں لگے ہوئے تھے قرآن کے متعلق ان کا بھی یہی حال تھا مگر اپنی ضد اور حسد کی وجہ سے اس کا اظہار لوگوں پر نہ کرتے تھے۔
علامہ سیوطیؒ نے خصائص کبریٰ میں بحوالہ بیہقی نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ ابوجہل او ابوسفیان اور اخنس بن شریق رات کو اپنے اپنے گھروں سے اس لیے نکلے کہ چھپ کر رسول اللہ ﷺ سے قرآن سنیں، ان میں ہر ایک علیحدہ علیحدہ نکلا، ایک کی دوسرے کو خبر نہ تھی اور علیحدہ علیحدہ گوشوں میں چھپ کر قرآن سننے لگے تو اس میں ایسے محو ہوئے کہ ساری رات گزر گئی جب صبح ہوئی تو سب واپس ہوئے۔ اتفاقاً راستہ میں مل گئے اور ہر ایک نے دوسرے کا قصہ سنا تو سب آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ تم نے یہ بری حرکت کی اور کسی نے یہ بھی کہا کہ آئندہ کوئی ایسا نہ کرے کیونکہ اگر عرب کے عوام کو اس کی خبر ہو گئی تو وہ سب مسلمان ہو جائیں گے۔
یہ کہہ سن کر سب اپنے اپنے گھر چلے گئے اگلی رات آئی تو پھر ان میں سے ہر ایک کے دل میں یہی ٹیس اُٹھی کہ قرآن سنیں اور پھر اسی طرح چھپ چھپ کر ہر ایک نے قرآن سنا یہاں تک کہ رات گزر گئی اور صبح ہوتے ہی یہ لوگ واپس ہوئے تو پھر آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے اور اس کے ترک پر سب نے اتفاق کیا، مگر تیسری رات آئی تو پھر قرآن کی لذت و حلاوت نے انہیں چلنے اور سننے پر مجبور کر دیا پھر پہنچے اور رات بھر قرآن سن کر لوٹنے لگے تو پھر راستہ میں اجتماع ہو گیا تو اب سب نے کہا کہ آؤ آپس میں معاہد کر لیں کہ آئندہ ہم ہرگز ایسا نہ کریں گے چنانچہ اس معاہدہ کی تکمیل کی گئی اور سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے صبح کو اخنس بن شریق نے اپنی لاٹھی اُٹھائی اور پہلے ابوسفیان کے پاس پہنچا کہ بتلاؤ اس کلام کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے اس نے دبے دبے لفظوں میں قرآن کی حقانیت کا اعتراف کیا، تو اخنس نے کہا کہ بخدا میری بھی یہی رائے ہے اس کے بعد وہ ابوجہل کے پاس پہنچا اور اس سے بھی یہی سوال کیا کہ تم نے محمد (ﷺ) کے کلام کو کیسا پایا؟
ابوجہل نے کہا کہ صاف بات یہ ہے کہ ہمارے خاندان اور عبد مناف کے خاندان میں ہمیشہ سے چشمک چلی آتی ہے قوم کی سیادت و قیادت میں وہ جس محاذ پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں ہم ان کا مقابلہ کرتے ہیں اُنہوں نے سخاوت و بخشش کے ذریعہ قوم پر اپنا اثر جمانا چاہا تو ہم نے ان سے بڑھ کر یہ کام کر دکھایا، اُنہوں نے لوگوں کی ذمہ داریاں اپنے سر لے لیں تو ہم اس میدان میں بھی ان سے پیچھے نہیں رہے یہاں تک کہ پورا عرب جانتا ہے کہ ہم دونوں خاندان برابر حیثیت کے مالک ہیں۔
ان حالات میں ان کے خاندان سے یہ آواز اُٹھی کہ ہمارے میں ایک نبی پیدا ہوا ہے جس پر آسمان سے وحی آتی ہے اب ظاہر ہے کہ اس کا مقابلہ ہم کیسے کریں گے اس لیے ہم نے تو یہ طے کر لیا ہے کہ ہم زور اور طاقت سے ان کا مقابلہ کریں گے اور ہر گز ان پر ایمان نہ لائیں گے۔
(
خصائص ص۱۱۵ ج اول)

اعجازِ قرآنی کی تیسری وجہ

تیسری وجہ اعجازِ قرآنی کی یہ ہے کہ اس میں غیب کی اور آئندہ پیش آنے والے واقعات کی بہت سی خبریں ہیں جو قرآن نے دیں اور ہو بہو اسی طرح واقعات پیش آئے جس طرح قرآن نے خبر دی تھی مثلاً قرآن نے خبر دی کہ روم و فارس کے مقابلہ میں ابتداءً اہل فارس غالب آئیں گے اور رومی مغلوب ہوں گے لیکن ساتھ ہی یہ خبر دی کہ دس سال گزرنے نہ پائیں گے کہ پھر رومی اہل فارس پر غالب آ جائیں گے۔ مکہ کے سرداروں نے قرآن کی اس خبر پر حضرت صدیق اکبرؓ سے ہار جیت کی شرط کر لی اور پھر ٹھیک قرآن کی خبر کے مطابق رومی غالب آ گئے، تو سب کو اپنی ہار ماننے پڑی اور ہارنے والے پر جو مال دینے کی شرط تھی وہ مال ان کو دینا پڑا، رسول کریم ﷺ نے اس مال کو قبول نہیں فرمایا کیونکہ وہ ایک قسم کا جوا تھا اسی طرح اور بہت سے واقعات اور خبریں ہیں جو امور غیبیہ کے متعلق قرآن میں دی گئیں اور ان کی سچائی بالکل روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی۔ علاوہ ازیں اس سلسلہ میں بہت کچھ بیان کیا گیا ہے اگر تفصیل مطلوب ہو تو عروۃ الوثقیٰ جلد اول کی آیت ۲۳ کی مکمل تفسیر دیکھیں۔

صاحب قرآن خود زندہ و جاوید معجزہ ہے

سب سے بڑا معجزہ خودہ نبی اعظم و آخر ﷺ کی ذات ہے کہ نزولِ قرآن سے پہلے محض ایک اُمی انسان تھے لیکن قرآنِ کریم کے نزول کے ساتھ ہی آپؐ کو وہ سب کچھ پڑھا اور سکھا دیا کہ اچانک تمام پڑھنے لکھنے اور سیکھنے سکھانے والوں کے استاذ بن گئے جس کی گواہی قرآنِ کریم نے ان الفاظ میں دی:
’’
اور تو اے پیغمبر اسلام! اس سے پہلے نہ تو کوئی کتاب پڑھ سکتا تھا اور نہ اپنے داہنے ہاتھ سے کچھ لکھ سکتا تھا اگر ایسا ہوتا تو اہل باطل شبہ میں پڑتے۔‘‘ (۲۹:۴۸)
اس طرح کا مضمون قرآنِ کریم میں بار بار بیان ہوا ہے جیسا کہ سورہ یونس، قصص، نحل، بنی اسرائیل، مومنون اور الفرقان میں موجود ہے۔ بلاشبہ آپؐ کے اہل وطن اور رشتہ و برادری کے لوگ جن کے درمیان روزِ پیدائش سے سن کہولت کو پہنچنے تک آپ کی ساری زندگی بسر ہوئی تھی اس بات سے خوب واقف تھے کہ آپؐ نے عمر بھر نہ کبھی کسی سے کوئی کتاب پڑھی نہ کبھی قلم ہاتھ میں لیا اس امر واقعہ کو پیش کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ کتب آسمانی کی تعلیمات، انبیاء سابقین کے حالات، مذاہب وادیان کے عقائد، قدیم قوموں کی تاریخ اور تمدن و اخلاق و معیشت کے تمام اہم مسائل پر جس وسیع اور گہرے علم کا اظہار اس نبی و رسول کی زبان سے ہو رہا ہے جو محض امی ہے اس کو یہ علم وحی الٰہی کے سوا کسی دوسرے ذریعہ سے حاصل نہیں ہو سکتا تھا اچانک آپؐ کا لکھنا پڑھنا سیکھنا اور بیان کرنا پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا کلام پیش کرناجس کی مثل لانے سے تمام دنیا کے فصحاء و بلغاء قاصر ہوں اس کو سوائے معجزہ کے اور کیا کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہ وہ اعجاز ہے جس نے سب کو عاجز کر دیا۔ افسوس کہ مسلمانوں کی اکثریت اس معجزہ کو تسلیم نہیں کرتی اور تسلیم کرنے والوں کو معجزات کا منکر کہا جاتا ہے۔

عبدالکریم اثری
__________________
كان شعبة بن الحجاج بن الورد يقول لأصحاب الحديث: "يا قوم! إنكم كلما تقدمتم في الحديث تأخرتم في القرآن"

No comments:

Post a Comment