Monday, January 14, 2013

عیسیٰ ابن مریم بطور کنیت کے ہی پکارا گیا ہے



عیسیٰ ابن مریم بطور کنیت کے ہی پکارا گیا ہے !!! 


اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : شکاری مراسلہ دیکھیں
یاد رہے کہ حضرت عیسیٰ کے تعلق سے عیسائیوں میں تین عقائد مشہور تھے۔ ابنیت، تثلیث، الوہیت۔ اور وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ ولادت ہی کی وجہ سے انہیں الٰہ اور اللہ کا بیٹا قرار دیا کرتے تھے۔ (نعوذباللہ) اور تثلیث کے عقیدہ کی جڑ بھی یہی تھی۔ اب کمال تو یہ ہے کہ قرآن نے تثلیث اور الوہیت کے عقیدہ کی جگہ جگہ تردید کی ہے۔ لیکن بن باپ معجزانہ ولادت کا جو عقیدہ تھا، اس کی تردید کہیں نہیں کی گئی۔ بلکہ درج بالا آیت کے علاوہ بھی دیگر آیات سے اس عقیدہ کی پرزور تائید ملتی ہے۔ کیا یہ آسان نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ صرف حضرت عیسٰی علیہ السلام کے والد کا ذکر فرما دیتے کہ وہ تو فلاں کا بیٹا تھا، نہ کہ اللہ کا۔ اس سے تثلیث کے عقیدہ پر بھی کاری ضرب لگتی، عقیدہ الوہیت بھی اپنی موت مر جاتا۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا، کیونکہ ان کی ولادت واقعی معجزانہ طور پر ہوئی تھی۔ اور پھر قرآن جگہ جگہ انہیں عیسیٰ ابن مریم پکارتا رہتا ہے۔ اور یاد رہے کہ عیسیٰ ابن مریم بطور کنیت کے نہیں پکارا گیا، بلکہ بطور نام کے پکارا گیا ہے۔ ۔قرآن کے الفاظ یہ ہیں:
اسْمُہُ الْمَسِیحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ
لہٰذا قرآن نے ان کا نام ہی عیسیٰ ابن مریم رکھا ہے اور پورے قرآن میں جگہ جگہ انہیں المسیح ابن مریم ، عیسیٰ ابن مریم پکارا گیا ہے، کہیں ایک جگہ بھی انہیں ان کے باپ کے نام سے نہیں پکارا گیا، اگر عیسائیوں کا حضرت عیسیٰ کی معجزانہ ولادت کا یہ عقیدہ غلط ہوتا، تو کیا یہ انداز بیان ان کے عقیدہ کو تقویت نہیں پہنچاتا؟ جبکہ قرآن ہی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ، الآیۃ
انہیں ان کے اصلی باپوں کے نام سے پکارو الله کے ہاں یہی پورا انصاف ہے۔
اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے والد ہوتے ، تو کیا قرآن خود اپنی ہی مخالفت کرتا؟ اور انصاف کے بالمقابل تو ناانصافی ہی ہوتی ہے، کیا آپ نا انصافی کی نسبت اللہ کی ذات کی جانب کرنے کی ہمت کر سکتے ہیں؟
سورہ مریم آیت ۳۲ میں حضرت عیسٰی فرماتے ہیں کہ:
وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا
اور (مجھے) اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا (بنایا ہے) اور سرکش وبدبخت نہیں بنایا
جبکہ حضرت زکریا علیہ السلام کے فرزند کے متعلق اسی سورہ مریم آیت ۱۴ میں فرمایا گیا:
وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّارًا عَصِيًّا
اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے اور سرکش اور نافرمان نہیں تھے

عیسیٰ ابن مریم بطور کنیت کے ہی پکارا گیا ہے !!!

اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَکَلِمَتُہٗ اَلْقَاھَا اِلٰی مَرْیَمَ وَرُوْحٌ مِنْہُ ۱؂

المسیح لقب ہے جیسے کہ ذو النون اور صاحب الحوت۔لقب ہے اور عیسیٰ نام ہے اور ابن مریم کنیت ہے جو کہ کبھی ان فلان ۲؂ اور ابن فلانۃ اور بنت فلاں ہوتی ہے اور کہ بنت فلانۃ اور ابو فلاں اور ابو فلانۃ اور ام فلاں اور ام فلانۃ ہوتی ہے۔

۱؂ رسول اکرم: نے عیسائی حکومتوں کی طرف جو خطوط اور قاصد روانہ فرمائے تو عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بابت صرف اسی قدر بیان دیا اور دلوایا تھا جیسے کہ کتب حدیث و تاریخ و سیر میں تصریح ہے اور صحیح بخاری ص۲۷۳ پارہ ۱۳ اور صحیح مسلم ۴۳ جلد۱ میں عبادہ بن صامتؓ سے اس کی مرفوعاً تصریح ہے ۔ آپ نے اس کی بے پدری پیدائش کا کبھی اعتراف اور اقرار نہیں فرمایا ہاں (۱)باکرہ اور (۲) عذراء اور(۳) بتول ہر سہ صفات عالیہ سے اسے موصوف ضرور فرمایا ہے جن کی بابت میں مفصل طور پر عرض کر آیا ہوں۔ (۳) کی بابت مزید عرض ہے کہ بالغ بالغہ کا نکاح کے بعد کچھ عرصہ تک میل ملاپ نہیں ہوا تو عفیفہ اس عرصہ تک بتول ہے کہ فاطمہؓ نکاح کے نو ماہ بعد رخصت ہوئی تھی جیسے کہ ریاض میں ہے اور اگرشوہر بیمار ہے یا سفر میں ہے یا کہ محبوس ہے یا کہ مفقود الخبر (لاپتہ) ہے یا کہ باہم ناچاقی ہے تو عفیفہ اس عرصہ تک بتول ہے کتب فن ملاحظہ ہوں۔ (اثری)

۲؂ جامی ص۲۴۷ شرح کافیہ میں ہے ’’العلم اسما کان او لقبا او کنیہ لانہ ان صدر بالاب او الام او الابن او البنت کنیۃ والا فان قصد بہ مدح او ذم فھو اللقب والا فھو الاسم‘‘ اور منجد میں ہے ’’الکنیۃ العلم المصدر بلفظ الاب او الابن الام او لبنت‘‘ اور تحفۃ الاخوذی ص۳۰ جلد۴ میں ہے۔ ’’بابٍ او امٍ او ابنٍ کابی بکر وا م کلثوم وابن عباس و ھو الکنیۃ‘‘ اور لغت کشوی میں ہے۔ ’’کنیت بر وزن مہلت وہ نام ہے جس کے اول لفظ اب یا ام یا ابن یا بنت ہو جیسے ابو الحسن ، ابی بکر ، ابا ہریرہ ام الکتاب ابن حاجب بنت العنب‘‘

حوالہ۱ میرے اعلان کے خلاف نہیں کہ نحو ہے اور میں اس سے واقف نہیں اس کی طرف تو مجھے میرے پرانے دوست مولانا محمد اسماعیل صاحب (گوجرانوالہ) نے توجہ دلائی تو میں نے اسے دیکھ کر تحریر کر دیا۔
اور جامی کے حاشیہ پر یوں ہے کہ کنیت بالضم نامی کہ در اول او اب یا ام یا ابن باشد چوں ابوبکر و ابو ایوب یا ام کلثوم و ام سلمہ وابن عمر وابن حاجب اور شرح نخبہ کے حاشیہ پر مرقوم ہے کہ والکنیۃ ما صدر بابٍ او ام او ابن (اثری)
اور کوئی نام سے مشہور ہوتا ہے کوئی کنیت سے مشہور اور کوئی لقب سے مشہور ہوتا ہے اسی طرح اسے بلایا جاتا ہے موصوف ان ہر سہ صورتوں کے ساتھ مشہور ہیں جس طرح ابن فلاں سے یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس کی ماں کوئی نہیں اسی طرح ابن فلانہ سے یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس کا باپ کوئی نہیں۔

سوال: اس اصل کی بنا پر موصوف کی کنیت ابن یوسف بھی ہوسکتی تھی خواہ مخواہ مشتبہ کنیت ابن مریم کیوں رکھ دی گئی۔

جواب۱: یہ شبہ ۱؂ تو عرصہ بعد پیدا کر لیا گیا ۔ ورنہ اس وقت تو اس کا کوئی بھی شبہ نہیں تھا۔

جواب۲: جیسے کہ بڑے بیٹے کے نام پر کنیت ہوا کرتی ہے چھوٹے کے نام پر نہیں۔ اسی طرح پر احد الطرفین میں جو اشرت ہوتا ہے اس کے نام پر کنیت ہوتی ہے ۔ دوسرے کے نام پر نہیں۔
لَیْسَ الذَّکَرُ کَاُنْثٰی۔ مریمؓ کی بابت وارد ہوا ہے جب کہ اس کی ماں کے یہاں لڑکا پیدا ہو کر بھی اس کے برابر نہیں ۲؂ تو یوسفؓ اس کے برابر کیسے ہو سکتا ہے۔ مریمؓ بہرحال اس سے اشرف ہے اس لئے اس نے نام پر کنیت تجویز پائی۔

۱؂ (۱) جس ولد کے ماں باپ ہوں اور وہ اس کا اعتراف بھی کرتے ہوں پھر وہ ماں کی طرف منسوب ہو کر مشہور ہے تو یہ اعزاز و اکرام اور شہرت کی وجہ سے ہے جو کہ اس کی ماں کو حاصل ہے جیسے کہ میں نے جدول دے کر بیان کر دیا ہے اور ص۵۰ پر ثابت کر دیا ہے کہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام دیگر انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی طرح معلوم النسب اور شریف النسب ہیں اور ص ۵۲پر بتایا ہے کہ ماں باپ اور بیٹاہر سہ کو اعتراف بھی ہے۔

(
۲) اگر اس کا باپ معلوم نہیں تو ماں کی طرف اس کی نسبت ضرورۃً قائم ہے۔

(
۳) اگر منسوب الیہ باپ انکاری ہے تو ماں کی طرف نسب ہو گی جو کہ اتہامی ہے صحیح بخاری ، صحیح مسلم و دیگر کتب احادیث میں ولد الملاعنہ کی بابت نبوی فیصلہ مروی ہے۔
بخاری میں ہے کہ قضی بالولد للمرأۃ اور مسلم میں ہے الحق الولد باسمہ اور بخاری میں ہے کہ نسب الی امہ اور مسلم میں ہے کہ یدعی الی امہ۔ وہ اپنی والدہ کی طرف منسوب ہو گا۔

(
۴) اور جو خلاف واقعہ غیر باپ کی طرف منسوب ہے تو وہ دعی اور زنیم ہے۔
اب ہمارے دوستوں کو اختیار ہے کہ وہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے جونسی صورت چاہیں پسند کریں میرے نزدیک صورت نمبر۱ ہی پسندیدہ ہے۔ (اثری)

۲؂ آخر سموئیل اسی طرح پیدا ہوا تھا جیسے کہ آئندہ آ رہا ہے تو کیا وہ اس کے برابر ہوا۔ (اثری)

اب ذیل میں ایک جدول دے کر ان پاکبازوں کا ذکر کرتا ہوں جو کہ ماں کے نام پر کنیت سے مشہور ہوئے مگر وہ بے پدر پیدا نہیں ہوئے تھے۔

جدول

نمبرشمار ماں کے نام پرکنیت نام باپ کتاب

۱ ابن ام مکتوم عمرو زائدہ ترمذی
۲ ابن العرقہ حبان ابو قبیس نووی
۳ ابن الحنظلیۃ سہل ـ ابو داؤد
۴ ابن المتکاء ـ ـ بخاری
۵ ابن الکواء ـ ـ فتح الباری
۶ ابن حسنہ شرجیل عبداللہ ابو داؤد
۷ ابن بیضاء سہیل وعد مسلم
۸ ابن مرجانہ سعید عبداللہ بخاری
۹ ابن الخصاصیہ بشیر معبد ترمذی
۱۰ ابن الحواتکیہ یزید ـ ـ
۱۱ ابن الحنفیہ محمد علی ـ
۱۲ ابن عفرآء معاذ ـ ـ
۱۳ ابن اللتبیۃ عبداللہ ـ فتح الباری
۱۴ ابن ام عبد عبداللہ مسعود ـ
۱۵ ابن سمیہ عمار یاسر ـ
۱۶ ابن ذات النطاقین ـ ـ ـ
۱۷ ابن ام ایمن ایمن عبیداللہ فتح الباری
۱۸ ابن صفیہ منصور عبدالرحمن بخاری
۱۹ بنت زینب امامہ ابوالعاص ـ
۲۰ ابن لجینہ عبداللہ مالک فتح الباری
۲۱ ابن علیہ اسمعٰیل ابراہیم لعبر امام ذہبی شرح نخبہ حافظ
۲۲ ابن ماجہ محمد یزید مقدمہ تحفۃ الاخوذی
۲۳ عبدالرحمن ـ ـ ابو داؤد

But the thing is, you still would say "Isa, Son of Maryam" when addressing him. Why this peculiar deviation from the norm?

ہو سکے تو موسیٰ علیہ السلام کے "ابْنَ أُمَّ" کا جو ذکر ہو رہا ھے اس پر اپنی رائے سے نوازیں۔


اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : کنعان مراسلہ دیکھیں
السلام علیکم
اتنی جلدی موضوع بدلنے کی کیا ضرورت ھے اس پر تو بہت کچھ آپ کہہ چکے ہیں کیا ہر ایک سے اس پر کہنا سننا ضروری ھے، ہو سکے تو عیسٰی علیہ السلام کے والد صاحب کا جو ذکر ہو رہا ھے اس پر اپنی رائے سے نوازیں۔
والسلام

ہو سکے تو موسیٰ علیہ السلام کے "ابْنَ أُمَّ" کا جو ذکر ہو رہا ھے اس پر اپنی رائے سے نوازیں۔

بہرحال ماں کے نام سے پکارے جانے پر کسی کو بن باپ کے پئدا ہونے والا کہنا یہ صرف عیسیٰ اور مریم کے ساتھ ظلم ہے قرآن میں جناب ہارون علیہ السلام بھی اپنے بھائی جناب موسیٰ علیہ السلام کو کہتے ہیں کہ قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي (94-20) یعنی اے اماں کے بیٹے میری داڑھی اور سر کو نہ پکڑ ۔۔۔۔ یہاں کسی نے موسیٰ وہارون علیھما السلام کو کبھی بھی بن باپ والا نہیں پکارا۔

قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي ۖ إِنِّي خَشِيتُ أَنْ تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي
(20:94)

کہنے لگے کہ "ابْنَ أُمَّ" میری ڈاڑھی اور سر (کے بالوں) کو نہ پکڑیئے۔ میں تو اس سے ڈرا کہ آپ یہ نہ کہیں کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میری بات کو ملحوظ نہ رکھا

(Aaron) replied: "
O son of my mother! Seize (me) not by my beard nor by (the hair of) my head! Truly I feared lest thou shouldst say, 'Thou has caused a division among the children of Israel, and thou didst not respect my word!'"
 

No comments:

Post a Comment