Monday, January 14, 2013

باپدر پیدائش کا ٹھوس ثبوت : اتنی لمبی تقریر کی بجائے کچھ صحیح‌ احادیث یہاں لکھ دیں




باپدر  پیدائش کا ٹھوس ثبوت : اتنی لمبی تقریر کی بجائے کچھ صحیح‌ احادیث یہاں لکھ دیں !!! 


اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : شکاری مراسلہ دیکھیں
حضرت عیسٰی علیہ السلام کا بن باپ کے معجزانہ طریقے سے پیدا ہونا قرآنی آیات اور کئی صحیح‌ احادیث‌مبارکہ سے ثابت ہے۔ لیکن اس طرز کے کسی بھی موضوع پر افہام و تفہیم کی خاطر بات چیت ہمیشہ ناکام ہی ٹھہرے گی، اور اس کی وجہ ہمارے بھائیوں کا رویہ ہے کہ قرآن کی کسی آیت کا خود ساختہ مفہوم پہلے متعین کرتے ہیں، اور پھر اسی مفہوم کو قرآن قرار دے کر تمام احادیث‌کو ’خلاف قرآن‘ کہہ کر رد کرتے جاتے ہیں۔ حالانکہ اصولی طور پر رویہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ قرآن کی تفسیر کے لئے پہلے صحیح‌احادیث‌مبارکہ کی جانب رجوع کیا جاتا اور پھر قرآن و احادیث‌کی روشنی میں‌ کسی آیت کا مفہوم متعین کیا جاتا۔
یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی قرآن کی صرف ایک آیت لے کر کسی حکم کو ثابت کر ڈالے اور اس مضمون سے متعلقہ دیگر آیات کو نظر انداز کر دے۔ اسے قرآن سے بھی صرف گمراہی ہی ملے گی۔ کیونکہ شرعی مسائل کے حل کے لئے اس موضوع کے تعلق سے تمام شرعی فرامین پر نظر ہونی ضروری ہے۔ کسی بھی شرعی مسئلے میں‌ کسی بھی شخص کے لئے کوئی رائے قائم کرنے سے قبل سب سے پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ ہمارے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین شرعی حجت ہیں یا نہیں۔ ایک بار یہ طے ہو جائے اس کے بعد ہی آپ کسی مسئلے پر کوئی رائے قائم کرنے کے اہل ہو سکتے ہیں۔
طرفہ تماشہ تو یہ ہے کہ جب انہی احباب سے کہا جائے کہ جی نماز کا مکمل طریقہ صرف قرآن سے ثابت کر دیجئے تو پھر انہیں ‌امت کا تعامل اور حرمین شریفین کا مرکز ہدایت ہونا یاد آ جاتا ہے۔ اور جب دیگر شرعی مسائل کی بات ہو تو نہ تو چودہ صدیوں کا تعامل ہی نظر آتا ہے اور نہ حرمین شریفین کے فتاویٰ ‌ہی کی کوئی اہمیت رہتی ہے۔ اسے کہتے ہیں ‌میٹھا میٹھا ہپ ہپ۔ احادیث‌کا مکمل انکار بھی نہیں‌کرتے کہ جانے کب کہاں‌ ضرورت پڑ جائے تو موقف کی تائید میں ‌پیش کی جا سکیں ‌اور مکمل قبول بھی نہیں‌کرتے کہ پھر قرآن کی تفسیر جس ذہنی عیاشی سے کی جا رہی ہے وہ ممکن نہیں ‌رہتی اور اسلام کو دور جدید کے حساب سے ماڈرنائز کرنا ممکن نہیں‌ رہتا۔ اغیار کی فکری غلامی میں ‌مبتلا ان حضرات کو اسلام کی ہر وہ شے دریا برد کرنے لائق نظر آتی ہے جس پر اہل مغرب ہنستے ہوں ‌اور انگلیاں‌ اٹھاتے ہوں۔ دفاع اسلام کی جرإءت کا فقدان ، انہیں ‌آسان رستے کی طرف لے جاتا ہے کہ جہاں‌ مبادیات اسلام کا انکار ہی کر ڈالتے ہیں‌۔
آخر کوئی اس سوال کا جواب کیوں‌نہیں ‌دیتا کہ ہم قرآنی آیات کی وہی تفسیر کیوں ‌مانیں‌ جو یہ منکرین حدیث‌کرتے ہیں؟ جبکہ ان کا زہد و تقویٰ ، اہل مغرب سے مرعوبیت ہم سب کے سامنے ہے اور ہم وہ تفسیر کیوں ‌نہ مانیں‌جس کی تائید میں‌سینکڑوں‌صحیح‌ احادیث‌ہوں، حرمین شریفین کے فتاویٰ ہوں اور امت کے علمائے کرام کی اکثریت کا اتفاق ہو؟ اور جس کے لئے ہم ہر نماز میں‌دعا کرتے ہوں‌کہ یا اللہ! ہمیں‌ سیدھا رستہ دکھا، ان لوگوں کا رستہ جن پر تو نے انعام و اکرام کیا ۔ کیا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین، تبع تابعین رحمہم اللہ، فقہائے امت اور محدثین کرام رحمہم اللہ اجمعین، کا رستہ چلنے میں ہمیں تو خوب اطمینان ہے کہ ان شاءاللہ یہی رستہ انعمت علیھم کا ہے۔

محترم شکاری بھائی ! اتنی لمبی تقریر کی بجائے وہ تفسیر ‌جس کی تائید میں ‌سینکڑوں‌صحیح‌ احادیث ‌ہوں، ان میں سے کچھ صحیح‌ احادیث یہاں لکھ دیں !!!

No comments:

Post a Comment