Friday, January 11, 2013

عیسیٰ علیہ السلام کا جسم جبریل کے وہمی پانی سے اور مریم علیہا السلام کے اصلی پانی سے بنا



عیسیٰ علیہ السلام کا جسم جبریل کے وہمی پانی سے اور مریم علیہا السلام کے اصلی پانی سے بنا

غرض و غایت
دنیا میں قدرتی عجائبات اس قدر ہیں کہ انسان نہ ان کو سمجھ سکتا ہے ۔ نہ گن سکتا ہے دن کا ہونا۔ رات کا آنا۔ چمکدار سورج کا نکلنا۔ باریک چاند کا دکھائی دینا۔ اور پھر بڑھتے جانا بدر ہونا اور اپنی چاندنی سے اندھیری دنیا کو روشن کرنا۔ پھر گھٹتے جانا اور پہلی طرح باریک ہو کر چھپ جانا کیا عجائبات قدرت نہیں؟

کالی گھٹا کا اٹھنا ، بڑے بڑے پہاڑوں سے بھی بڑے دَل بادلوں کا جمع ہونا۔ ہوا کے جھونکے سے ادھر اُدھر دوڑتے پھرنا۔ بجلی کا چمکنا۔ دل کو ہلانا۔ مینہ کی توقع سے دل خوش کرنا پھر مینہ کا برسنا۔ اولوں کا پڑنا۔ بادلوں کا گرجنا اور بجلی کا چمکنا کیا عجائبات قدرت سے نہیں؟

درختوں کا اگنا۔ ان کے ہرے ہرے پتوں کا نکلنا رنگ برنگ کے پھولوں کا پھولنا۔ دختوں کی شاخوں میں طرح طرح کے میووں کا لٹکنا پھر ان کے مزوں کا مختلف ہونا کیا عجائبات قدرت سے نہیں؟

پرندوں کا ہوا میں اڑنا۔ آسمان و زمین میں معلق رہنا۔ بئے کا عجیب طرح پر گھونسلا بنانا۔

شہد کی مکھی کے کرتب کرنا۔ اس کا نہایت اعلیٰ اصولِ اقلیدس پر چھتا بنانا۔ پہاڑوں پر اور اونچی اونچی جگہوں پر لگانا۔ ہر ایک قسم کے مفید پھولوں سے رس چوس کر لانا مختلف رنگوں کا شہد تیار کرنا کیا عجائبات قدرت سے نہیں؟

گائے بھینس اور لال گائے۔ بکری جن کے پیٹوں میں جنگل کا چارا سڑ کر بھرا ہوتا ہے سفید اور شیریں۔ مزے دار اور قوت بخش دودھ کا نکلنا اس سے ان کے بچوں کی پرورش ہونا اور انسان اور اس کے بچوں کے لئے نہایت عمدہ اور مفید غذا کا ہونا کیا عجائباتِ قدرت سے نہیں؟

خود انسان کا بلکہ تمام حیوانات کا پیدا ہونا۔ انڈے سے مرغی اور مرغی سے انڈے کا پیدا ہونا پھر ان کا دلکش آوازوں سے بولنا اور چہچہانا انسان کا اپنے قوائے عقلی اور دماغی سے ایسے اعلیٰ درجے پر پہنچنا اور اشرف المخلوقات خطاب پانا کیا عجائباتِ قدرت سے نہیں؟

چونکہ یہ باتیں روز مرہ دیکھنے میں آتی ہیں۔ ان کا عجیب بلکہ عجیب تر ہونا انسان کے خیال میں نہیں رہتا اور اس سے ذہول ہو جاتا ہے۔ لیکن جب وہ کسی مذہب پر اعتقاد لاتا ہے۔ یا کسی شخص کو مقدس سمجھتا ہے اور جو عجائبات اس کے ساتھ لگائے گئے ہیں ان سب کو قبول کرتا ہے تب یہ تسلیم ہوتا ہے کہ یہ آدمی نہایت دیندار اور مذہبی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مذہب اسلام میں بھی لوگوں نے بہت سے عجائبات شامل کر دئیے ہیں جو قابل یقین نہیں ہیں کیونکہ ان کی کوئی اصل کتاب و سنت میں نہیں۔ رفتہ رفتہ لوگوں کے خیال میں یہ بات جم گئی کہ عجائبات کے بغیر نہ مذہب چلتا ہے اور نہ لوگ ایسے مذہب کو جس میں یہ فرضی عجائبات نہ ہوں قبول کرتے ہیں۔

مگر یہ سخت غلطی ہے ۔ کوئی مذہب جو سچا ہے اور سچا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس میں کبھی ایسے عجائبات نہیں ہوتے جو فرضی ہوں اور فطرت انسانی کے خلاف ہوں۔ اور کوئی سمجھ دار آدمی ان کو تسلیم نہ کرے۔ بلکہ اصلی اور سچا مذہب ایسے عجائبات خلاف فطرت اور خلاف عقل سے بالکل پاک اور خالی ہوتا ہے اگرچہ بعد کو اس کے ماننے والوں نے عجائبات پرستی کی راہ سے اس میں بہت سے عجائبات شامل کر لئے ہوں۔

مذہب اسلام جو صحیح معنوں میں دین فطرت ہے کی نسبت ہم دلی یقین کرتے ہیں کہ وہ ایسی عجیب کہانیوں اور حیرت انگیز خلاف عقل اور خلاف فطرت باتوں سے بالکل پاک ہے اور اس میں جس قدر حصہ ان فرضی عجائبات کا ہے وہ ان عجائبات پرستوں کا شامل کیا ہوا ہے جو قدرت کے عجائبات کا ذہول کرتے ہیں اور خلاف عقل اور خلاف فطرت عجائبات کو قبول کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان عجائبات پرستوں سے بچائے۔ آمین

جنس انسان اول کی پیدائش اس قادر مطلق اللہ نے جس طریقہ سے مناسب سمجھی ہے جس کا علم بجز ذات باری تعالیٰ کے اور کسی کو نہیں ہے ہمیں تو صرف اور صرف اس کے بتانے سے معلوم ہوا کہ تمام کائنات میں سے جو اللہ ہی کی مخلوق ہے انسان کو احسن تقویم پیدا کیا ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ میں نے انسان اول کو اپنے ہاتھ (قدرت) سے بنایا اور اس میں اپنی تخلیق کی گئی روح پھونک دی اور اس کائنات کی تمام مخلوقات کا سیدو سردار اس کو بنا دیا اور اس جنس انسان اول میں نسل انسانی کی بقا کے لئے توالد و تناسل کا سلسلہ قائم کر دیا اور اعلان فرمایا کہ یہ جنس انسان اول میر ا فعل ہے اور اس کے لئے توالد و تناسل کا سلسلہ میرا قول بھی ہے اور فعل بھی اور میرے فعل اور قول میں تبدیلی کا امکان نہیں لہٰذا نسل انسانی کی پیدائش نطفہ سے جاری ہے اور اسی سے جاری رہے گی۔

جیسا کہ قرآن مجید میں جو اللہ تعالیٰ کا قول ہے سوہ نحل آیت نمبر ۴ میں فرمایا:

’’
اس نے انسان کو ایک قطرہ منی سے پیدا کیا پھر وہ ایک جھگڑنے والا اور ابھرنے والا ہو گیا۔‘‘

اس کی مزید وضاحت یوں فرما دی:
(
سورہ النجم آیت ۴۵،۴۶)

’’
اور بلا شبہ اس نے نر و مادہ دونوں قسموں کو پیدا کیا۔ (اس) بوند سے جو ٹپکنے والی ہے۔‘‘

پھر اس کی مزید تشریح سورہ طارق (۵تا ۷) میں فرما دی:

’’
پس انسان کو چاہیے وہ دیکھے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ اچھلتے پانی (کی ایک بوند ہی) سے توپیدا کیا گیا ہے۔ جو پانی پیٹھ اور سینہ (کی ہڈیوں) کے درمیان سے نکلتا ہے۔‘‘

لیکن تخلیق کا یہ ضابطہ نسل انسانی کے لئے ہے انسانِ اول کے لئے نہیں۔

یہ اور اس طرح کی دوسری آیات کریمات آپ پیچھے پڑھ چکے ہیں اور مزید آگے پڑھیں گے پوری نسل انسانی کے لئے اس ضابطہ تخلیق نسل انسانی کا بیان ہے جس سے انسان (مرد و عورت) پیدا ہوئے، پیدا ہو رہے ہیں، پیدا ہوتے رہیں گے۔ جب تک اس نسل انسانی کی بقاء علم الٰہی میں موجود ہے۔

یہ قانون قدرت اس قادر مطلق نے اپنی مرضی سے بنایا اور اپنی مرضی سے اس کا اعلان فرما دیا اور اس میں کسی قسم کی کوئی استثناء نہیں فرمائی۔ قرآن مجید کی ان آیات کریمات کو بار بار پڑھیں اور خوب غور کریں آپ کسی ایک جگہ پر بھی استثنا نہیں پائیں گے۔

زمرہ علماء کو ہمارا اعلان ہے کہ جو عالم ایک قرآنی آیت میں ضابطہ تخلیق نسل انسانی سے ایک اور صرف ایک انسان کے لئے اس کی وضاحت سے جس وضاحت سے اس آیت میں ضابطہ تخلیق نسل انسانی کا ذکر کیا گیا ہے استثناء دکھا دے وہ ایک لاکھ روپے نقد انعام حاصل کرنے کے ساتھ میرے سے توبہ نامہ بھی تحریر کرا لے۔

مذاہب عالم کا مطالعہ کرنے والا یقیناً اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ ہر مذہب کے ماننے والوں نے کسی نہ کسی انسان کو ضرور اس ضابطہ تخلیق انسانی سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ لیکن کسی نے بھی کوئی ثبوت اس کا پیش نہیں کیا اور کہا تو زیادہ سے زیادہ یہ کہا کہ آدم بھی تو بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے تھے۔

حالانکہ آدم و حوا محض تخلیق تھے کسی کی اولاد نہیں تھے۔

بد قسمتی سے گذشتہ قوموں کی نقالی میں قوم مسلم کی اکثرت نے بھی سیدنا مسیحؑ کو اس ضابطہ تخلیق انسانی سے مستثنیٰ قرار دے کر اعلان کر دیا کہ مسیحؑ بغیر باپ کے پیدا ہوئے کسی نے جب ثبوت طلب کیا تو اس کو یوں مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ یہ ایک معجزہ ہے لیکن کسی چیز کا معجزہ ہونا بھی تو بغیر ثبوت کے تسلیم نہیں ہو سکتا۔ جب اس معجزہ کے معجزہ ہونے کی دلیل طلب کی گئی تو جھٹ الزام لگا دیا کہ یہ شخص معجزات کا منکر ہے۔

جب سب قومیں یہ کرتی آ رہی تھیں تو قوم مسلم کی اکثریت کا یہ نظریہ بھی عوام کی سطح تک تو مسلم ہو گیا لیکن علماء امت نے باوجود اس کے کہ امت کی اکثریت کو یہ نظریہ منوا لیا خود اس میں ہمیشہ مشکوک رہے اور اس شک کی بنا پر اس نظریہ کی ایسی ایسی تاویلیں کیں جن کو دیکھ کر پڑھ کر سن کر دل کانپ جاتا ہے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ دماغ پگھلنے لگتا ہے اور ایسی حالت طاری ہونے کے ساتھ آدمی گہری سوچ میں ڈوب جاتا ہے۔ معاً خیال پڑتا ہے کہ جب سب اسلاف اسی طرح کہتے چلے آ رہے ہیں تو پھر ان کے خلاف سوچ کر دوزخ کا ایندھن بننا ہے؟
کسی قوم کے اسلاف کبھی غلط ہو سکتے ہیں؟
اگر اسلاف سے اعتماد اُٹھ جائے تو سارا نقشہ ہی بدل کر رہ جائے گا؟

یہی نہیں بلکہ اس پر غیر طعنے دیں گے اور اپنے تالیاں بجائیں گے اور طرح طرح کی پھبتیال کسیں گے۔ اس طرح سوچتے سوچتے ایسا خیال کرنے والا خود ایک دن سلف میں شمار ہونے لگتا ہے۔

لاکھوں میں کوئی ایک ایسا ہوا کہ وہ چونک کر رہ گیا اور پھر ایسا گم سم ہوا کہ گویا گویائی ختم ہو گئی۔ کان شاں شاں کرنے لگے۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ کچھ حالت بدلی تو ہنڈیا کی طرح اندر ہی اندر ابلتا رہا۔ اور انجام کار بخارات کی طرح اڑتے اڑتے ہوا ہو گیا۔

ان لاکھوں میں ایک ایک کر کے ہزاروں بنے اور اسی طرح گھائل ہو گئے۔ کہ زبان گنگ ہوئی تو دوبارہ گویائی نہ پا سکی۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ حق ہے کہ اللہ کسی چیز کا بیج ختم نہیں کرتا جب تک اس دنیا کا نظام قائم ہے اور اللہ تعالیٰ کو اس کا قائم رکھنا منظور ہے۔ کوئی اتنا قوی اور مضبوط بھی جنم لے لیتا ہے جو سارے تھپیڑوں سے گزر جاتا ہے۔ اور زندگی کی رمق پھر بھی باقی رہتی ہے وہ آہستہ آہستہ اُٹھتا ہے۔ قدم سنبھالتا ہے اور پھر قدم قدم آگے بڑھنے لگتا ہے۔ اور انجام کار وہ چل نکلتا ہے۔ اور جب وہ دوبارہ زندگی کی گاڑی پر سوار ہوتا ہے تو اپنی گزشتہ رویداد کو بے خوف و خطر بیان کرنے لگتا ہے

کچھ ایسا حال تھا استاذی حافظ عنایت اللہ اثری مرحوم کا، کہ انہوں نے دوبارہ زندگی کی گاڑی پر سوار ہو کر قوم کو بتایا کہ امت وسطیٰ کے علماء کی تاویلات جو انہوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بے پدری ولادت کو سہارا دینے کے لئے کی ہیں۔ میں نے یہ آواز اُٹھائی ہے کہ جس مقصد کے لئے انہوں نے یہ تاویلیں کی ہیں وہ مقصد بغیر ان تاویلوں کے حاصل ہو سکتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا واضح اور کھلا ارشاد ہے کہ

یٰاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی۔
(
۴۹:۱۳)

پھر اس کی تاکید میں بیسیوں سے بھی متجاوز آیات کریمات سے اس کی وضاحت فرما دی اور اس کی تفسیر میں ہمارے پیغمبر محمد ص نے اس ضابطہ تخلیق انسانی میں مرد اور عورت دونوں کے حصوں کی تقسیم فرما کر اُمت کو سمجھا دیا کہ ہڈی ۔ پٹھے اور ناخن مرد کے نطفہ سے اور گوشت ۔ خون اور بال عورت کے نطفہ سے تیار ہوتے ہیں اور اس کی تشریح میں سینکڑوں احادیث ارشا د فرمائیں۔ اور قرآن کریم نے بھی اعلان فرمایا کہ:

اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ۔
(
۷۶:۲)
’’
بلاشبہ ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا‘‘

اب ایک طرف اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ص کے یہ ارشادات ہیں جن میں کوئی استثناء بھی موجود نہیں اور دوسری طرف اقوام عالم کی طرح قوم مسلم کی اکثریت کا یہ نظریہ جو نسلاً بعد نسلٍ چلا آ رہا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت بغیر باپ کے ہے ظاہر ہے کہ اللہ اور رسول اللہ ص کی بات تو سچ ہی سچ ہے۔ لیکن قومی نظریہ کو ترک کرنا بھی لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے۔ لہٰذا ہمارے علمائے گرامی قدر نے اس کی تاویل یوں کی ہے کہ جبرئیل نے وہ سب کام کیا جو اولاد کے لئے والد کرتا ہے۔ تب اولا دممکن ہوتی ہے۔

۱۔ ’’وکانت النفخۃ التی نفخہا فی جیب درعھا فنزلت حتی ولجت فرجہا بمنزلۃ لقاح الاب الام‘‘
(
ابن کثیر)

۲۔ ’’ اتا ھا جبریل متمثلا بصورۃ شاب امرد سوی الخلق لتستانس بکلامہ و لعلہ لیھیج شہوتھا متحدر نطفتھا الی رحمھا۔‘‘
(
بیضاوی)

۳۔ ’’ و ذکر غیر واحد من السلف انہ نفخ جیب درعھا فنزلت النفخۃ الی فرجھا فحملت من رورھا کما تحمل المرأۃ عند جماع زوجہا۔‘‘
(
الجواب الفسیح)

۴۔ ’’ ثم ان مریم حاضت فی ایام سربان قوی الروحانیت فی تلک البقعۃ فلما ظہرت انتبذت الی مکان بعید من الناس لتغسل فاسدلت ستراً و نزعت ثیابھا فارسل اللہ الیھا جبرئیل فی صورۃ شاب سوی الخلق ممتلءًا شباباً و جمالاً فرأتہ مریم وھی شابۃ قفیۃ المزاج فخالفت علی نفسھا الفساد والتجأت الی اللہ بقلبھا لیعصمھا فکانت لھا حالہ عجیبۃ اما الطبیعۃ فحصل لھا ما یحصل عند الجماع من ثوران القوی النسلیۃ کما ان النظر وبما کان سببا للانزال واما النفس فححصل لھا الالتجاء الی اللہ واعتصام بہ حتی ملئت من حالۃ عصمیۃ فائضۃ من الغیب واما الصورۃ الانسانیۃ فکانت علی شرف الظھور لمخالطۃ الروح الامین۔ ولھا قال جبرئیل علیہ السلام (انا رسول ربک لاھب لک غلاماً زکیاً) ابتہجت وانشرحت و آنست ولما رای جبرئیل ھذا حالھا نفخ فی فرجھا فدغدت النفخۃ رحمھا فانزلت وکان فی منیھا قوۃ منی الذکر فحملت والقوی فی الجنین ما کان غالبا علی مریم من الاعتصام باللہ والالتجاء الیہ والابتھاج والانبساط بالھیءۃ الملکیۃ فان حالتھا سرت فی کل قوۃ من نفسھا حتی المصورۃ والمولدۃ والامر ما امر الاطباء لمن اراد ان یذکر و ولدہ ان یتصور فی حالۃ الجماع غلاما والقوی فیہ حکم عالم المثال و خواص الروح من قبل نفخ جبرئیل اذا ھو السبب فی التصور فحصلت فی حبلۃ ملکۃ راسخۃ شبیھۃ بجبرئیل وھذا معنی تائید اللہ بروح القدس۔‘‘
(
تاویل الاحادیث ص۷۳)

مندرجہ بالا اِن حوالوں کے درج کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کتب تفاسیر میں سے صرف یہی دستیاب ہیں بلکہ عربی کی کوئی ایک تفسیر اٹھائیں۔ ابن جریر ۳۱۰ ؁ ھ سے مظہری ۱۲۲۵ ؁ھ تک بیسیوں نہیں سینکڑوں تفسیریں دیکھ لیں سب میں یہ عبارات مع شیء زاہد مل جائیں گی۔ ان عبارات کا اِس جگہ اردو ترجمہ اس لئے نہیں کیا جا رہا کہ ممکن ہے کوئی میرے ترجمہ سے اختلاف کرے اور اس لئے بھی کہ جب دوسرے مفسرین نے جنہوں نے اردو میں تفسیریں لکھی ہیں ان کا ترجمہ کر دیا ہے۔ اور وہ آگے نقل کیا جا رہا ہے لہٰذا وہی ترجمہ ان عبارات کا بھی تصور کر لیا جائے اور اس کی مزید تشریح بھی بزبان اردو عنقریب آپ پڑھیں گے۔
(
ملاحظہ فرمائیں اور کان پکڑ کر توبہ کریں
)

۵۔ ’’ پھر مریم میں شہوت سرایت کی اور مریم کے اصل پانی اور جبریل کے وہمی پانی سے جو اس نفخ کی رطوبت میں آیا تھا عیسیٰ علیہ السلام کا جسم بنا کیونکہ جسم حیوانی کے نفخ میں رطوبت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ارکان اربعہ سے پانی کا رکن ہوتا ہے کہ اِس سے عیسیٰ علیہ السلام کا جسم جبریل کے وہمی پانی سے اور مریم علیہا السلام کے اصلی پانی سے بنا اور عیسیٰ علیہ السلام دو جہت سے بشر کی صورت ہوئے ایک جہت ان کی ماں کی طرف سے تھی اور دوسری جہت جبریل سے تھی کیونکہ وہ بشر کی صورت پر ظاہر ہوئی تھی۔ اور یہ دو جہتیں اس واسطے ہوئیں کہ اس نوع انسانی میں تکوین خلاف عادت نہ واقع ہو۔‘‘
(
شخ اکبر، فصوص الحکم)

۶۔ ’’ جس طرح مرد اور عورت دونوں کی منی سے بچہ پیدا ہوتا ہے اسی طرح جبریل علیہ السلام کی رطوبت سے اور مریم رضی اللہ عنہا کی رطوبت سے عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تھے اور یہ جو بے نکاح کام ہوا دوسروں کے نکاح سے اچھا ہے۔‘‘
(
تفسیر تبصیر الرحمن)

۷۔ ’’ جس طرح نر اپنی مادہ سے جفتی ہو کر اسے حمل ٹھہراتا ہے اس طرح جبریل علیہ السلام نے مباشرت فرما کر مریم رضی اللہ عنہا کو حمل ٹھہرایا تھا۔ لہٰذا جبریل علیہ السلام عیسیٰ علیہ السلام کے بمنزلہ باپ ٹھہرے۔‘‘
(
تحفۃ الودود اور کتاب الروح)

۸۔ ’’ فرشتہ نہایت خوبصورت بے ریش گھنگریالے بال والا نوجوان بن کر آیا اور جس طرح نر مادہ سے مل کر یا جس طرح شوہر بیوی سے ہم بستر ہو کر اسے حمل ٹھہرا دیتا ہے اسی طرح اس نے اسے حمل ٹھہرا دیا۔‘‘
(
ابو البرکات بغدادی)

۹۔ ’’ دنیا میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آدھے بشر اور آدھے روح تھے۔ کیونکہ حضرت مریم ؑ تو بشر تھیں اور حضرت جبریل روح(فَاَرْسَلْنَا اِلَیْھَا رُوْحَنَا) ہم نے حضرت مریم کے پاس اپنی روح یعنی جبریل کو بھیجااور آپ کی پیدائش حضرت جبریل ؑ کی پھونک سے ہوئی اس لئے دونوں امور آپ میں موجود ہیں۔‘‘
(
جاء الحق ص۹۰)

۱۰۔ ’’ شبہ نیست در ایں کہ از قدیم عادت اللہ جاری بر ایں منوال است کہ اولاد از نطفتیں منعقد می شود و متولد می گیر دوبدوں آب منی تولد ولد حسب عادت جاریہ ممکن نیست۔ ما قبل آیت زیر بحث (فَتَمَثَّلَ لَھَا بَشَرًا ثَوِیًّا) نیز مؤید ہمیں مراہم است کہ تامتمثل بشر نزد مریم نبا ید حاملہ نشد۔‘‘

’’
بر فرض تسلیم تاہم تو اند گفت کہ عیسیٰ ولد جبرئیل است واو قدسی می باشد پس بالیقین عیسیٰ غیر جنس است زیرا کہ از وجہ ولادت جز جبریل است و اعتبار ابوت وارد نہ اموت وگرنہ ذو اعتبارین بشری من جہتہ الام و ذو اعتبار قدسی بجہت فرشتہ بودن اب او می باشد تازہم بنص قرآن و زعم مسلماناں ثابت گردید کہ عیسیٰ فی الواقع بشرنیست۔‘‘
(
سید علی جائری تفسیر القرآن)

۱۱۔ ’’ پھر حضرت مریم کو اس جگہ روحانی قوتوں کے جاری ساری ہونے کے زمانہ میں ماہواری کے دن آئے۔ جب ان سے پاک ہوئیں تو لوگوں سے ایک الگ مکان میں غسل کرنے کے لئے گئیں اور پردہ ڈال کر کپڑے اتار دئیے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف ایک کامل خلقت جوان کی صورت میں جبرئیل کو بھیجا جو جوانی اور خوبصورتی سے بھرا ہوا تھا اور حضرت مریم نے ان کو دیکھا اور خود بھی جوان اور قوی مزاج والی تھیں ان کو اپنے نفس پر فساد کا ڈر لاحق ہوا اور دل سے اللہ کے حضور میں دعا کی کہ ان کی عصمت پر کوئی حرف نہ آئے پھر اس کو ایک عجیب حالت پیش آئی طبیعت میں قوائے نسلیہ کا ہیجان ہوا اور اس سے وہ (لذت کی ) کیفیت پیدا ہوئی جو جماع کے وقت ہوتی ہے جیسے کبھی کسی کو نظر کرنے سے انزال ہو جاتا ہے اور نفس کو اللہ تعالیٰ سے التجاء تھی اور اس کے ساتھ تمسک تھا۔ یہاں تک وہ غائب سے فائض ہونے والی پاک دامنی کی حالت میں مالا مال ہو گئیں۔

صورت انسانیہ کی یہ حالت تھی کہ جبرئیل کے اختلاط سے عنقریب ظاہر ہونے والی تھی۔

جب جبرئیل علیہ السلام نے ان سے یہ کہا میں تو تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں کہ دے جاؤں تجھ کو لڑکا ستھرا تو مریم خوش و خرم اور مانوس ہو گئیں اور حضرت جبرئیل نے جب ان کے حال کو دیکھا تو ان کے ستر میں پھونک لگا دی۔ اس پھونک سے اس میں تاثر ہوا اور وہ منزل ہو گئیں۔ حضرت مریم کے نطفے میں مرد کے نطفے جیسی قوت تھی اس لئے وہ حاملہ ہو گئیں اور جو بات سیدہ مریم میں تھی وہ سب اس بچہ میں آ گئی۔ مثلاً اللہ سے تمسک کرنا اس کی طرف التجاء کرنا اور ملکی ہیئت سے خوش و خرم ہونا۔

کیونکہ حضرت مریم کی حالت اس کے نفس کی ہر قوت مصورہ اور مولودہ تک اس میں سرایت کر گئی تھی اور بات وہ ہے جو اطباء کہتے ہیں کہ جو شخص چاہے کہ اس کے لڑکا پیدا ہو تو وہ جماع کے وقت لڑکے کا تصور پیدا کرے۔
حضرت جبرئیل کی پھونک سے اس لڑکے میں عالم مثال کا حکم اور روح کے خواص آ گئے تھے کیونکہ صورت بننے کا سبب وہی تھا اس سے حضرت مسیح کی جبلت میں جبرئیل کے مشابہ ایک راسخ ملکہ پیدا ہوا اور حضرت مسیحؑ کی روح القدس کے ساتھ تائید کا یہی مقصد ہے۔‘‘
(
ماہ نامہ الرحیم ماہ دسمبر ۱۹۸۷ ؁ء اداریہ)

حضرت العلام حافظ محمد صاحب گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان رقمطراز ہیں:

۱۲۔ ’’عربی زبان میں لفظ ولد کا حقیقی اطلاق جہاں کہیں بھی ہوتا ہے اس کے لئے اصلین کا ہونا ضروری ہے اور ولد کے لئے اگر اس کی ماں کی طرف نسبت ہو تو دوسرا اس کا باپ ہونا چاہیے۔ پس ولد کی ماں ولد کے باپ کے لئے صاحبہ (بیوی) ہو گی نیز ولد کے لئے ضروری ہے کہ اصلین کے مادہ سے منفک ہو کر تیار ہو یعنی ولد کے لئے اصلین کی ضرورت ہے اور مادہ منفک بھی لازم ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ پس لفظ ولد کے معنی ہیں جزء خاص یعنی جس کی جزئیت میں دو شخصوں کو دخل ہو اسی طرح لفظ ابن بھی عربی زبان میں حقیقی طور پر ولد کا مترادف ہے اس کے اطلاق کے لئے بھی یہی شرائط ہیں۔ چونکہ مسیحؑ کو ابن مریم سے قرآن مجید میں تعبیر کیا گیا ہے اس کے لئے بھی اصلین کا ہونا ضروری ہے۔ ایک ان کی ماں مریم دوم جبرئیل علیہ السلام جن کو دوسرے لفظوں میں روح القدس سے تعبیر کرتے ہیں جو حمل مسیحؑ کا باعث ہوئے۔‘‘
(
اثبات توحید ص۹)

پادری صاحب! ’’سنئے ولد بلا والد نہیں ہو سکتا اور ولد بلا اصلین متصور نہیں اور ولد کے لئے اصلین کے ساتھ انفکاک مادہ بھی ضروری ہے گویا ولد کا لفظ بلحاظ استعمال یہ معنی دیتا ہے کہ دو اصلین کے توسط سے بانفکاک مادہ پیدا ہونے والا۔ جہاں کہیں لفظ ولد کلام عرب میں استعمال کیا گیا ہے۔ وہاں اصلین کے لئے ضروری ہے وہ عرف میں اس کی والدہ ہو گی جو اس کے باپ کی جورو ہو گی ۔۔۔۔۔۔ پس مسیحؑ پر چونکہ ولد مریم کا اطلاق کرتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ اس کی والدہ ہو اور وہ مریم ہے اور دوسرا صل جس کے اتصال کے علاوہ مسیحؑ نہ پیدا ہوا ہم اہل اسلام کے نزدیک جبرئیل ہے جسے دوسری جگہ قرآن مجید میں روح القدس سے تعبیر کیا گیا ہے اور وہ بمنزلہ والد کے ہے کیونکہ نفخ جبرئیل کے قبل اور روح القدس کی قوت کے ظہور سے پہلے مریمؑ سے مسیحؑ ظاہر اور متولد نہ ہوئے۔‘‘
(
اثبات توحید ص۴۵)

’’
عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت جبرئیل اور مریم کے درمیان واقعہ ہوئی اس لئے وہ آسمان پر اب تک کچھ کھائے پیئے اور پیشاب و پاخانہ اور نیز دیگر بشری ضرورتوں کو پورا کئے بغیر جبرئیل و دیگر فرشتوں کی طرح زندہ ہیں۔‘‘
(
اثبات توحیدص ۴۰)

یہ تحریریں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں پھر ان کو بڑے محتاط انداز میں نقل کفر کفر نباشد کے تحت درج کیا گیا ہے۔ تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ قرآن کی کون سی وہ آیت ہے جس کی یہ تفسیر کی جا رہی ہے؟

کیا اس کو قرآن مجید کی تفسیر کہا جا سکتا ہے؟ تفصیل کا یہ موقع نہیں مختصراً عرض ہے کہ تفسیری روایات میں جو اسرائیلیات سے مملو ہیں ایک دفعہ کچھ حصہ نقل ہو گیا اور جو لوگ بعد میں آئے وہ ’’نقل را چہ عقل‘‘ کے پیش نظر چاروں طرف سے آنکھیں بند کر کے تقلیداً اپنی تصنیفات میں درج کرتے رہے اور پشت ہا پشت سے یہ خیالات پختہ ہو گئے اور ان سے دین اسلام کو جو سراسر صدق و یقین ہے یہاں تک صدمہ پہنچا کہ جس کے بیان کی دل کو طاقت، زبان کو قوت، دماغ کو وسعت اور قلم کو یارا نہیں ہے جس کو پڑھنے سننے سے ایک محقق اور راستباز انسان کا جگر کباب ہو جاتا ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے۔ ؂

من از بیگا نگاں ہر گز نہ نالم
کہ بامن ہر چہ کرد آں آشنا کرد

قارئین کرام سے درخواست
اوپر جو بارہ حوالہ جات تحریر کئے گئے ہیں یہ کن لوگوں کی طرف سے ہیں؟

ظاہر ہے کہ بہت بڑے برے متبحر علمائے کرام کی کتابوں سے لئے گئے ہیں اور جن کو اِس ملکِ عزیز کے تمام گروہ تسلیم کرتے اور مانتے ہیں اگر سب کو نہیں تو اِن میں سے بعض گروہ بعض علماء کو ضرور اپنا قائد و راہنما تسلیم کرتے ہیں اور اِس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جو کچھ اِن تحریرات میں بیان کیا گیا ہے اُس کو ملک کے تمام گروہ اِس طرح مانتے ہیں اگر نہ مانتے ہوتے تو اُن کی تحریرات کا انکار کرتے اوربَرملا لکھتے کہ یہ تحریرات غلط ہیں لیکن ہم نے آج تک کسی کو اِس طرح کی بات کرتے نہیں دیکھا۔ یہ تحریرات ثابت کرتی ہیں کہ یہ تمام گروہ در اصل جبریل علیہ السلام کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باپ تسلیم کرتے ہیں لیکن عوام میں یہ مشہور کر رکھا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے معجزانہ رنگ میں پیدا ہوئے اور اُن کا یہ بیان اُن کے ضمیر کے خلاف ہے۔

ہمارا مؤقف فقط یہ ہے کہ فرشتہ کو انسان کا باپ قرار دینا ظلمِ عظیم ہے اِس ظلم سے وہ باز آ جائیں اِس لئے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اور وفات کا مسئلہ عقائد سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ نظریاتی مسئلہ ہے لیکن اِس کے برعکس فرشتہ کسی انسان کا باپ نہیں ہو سکتا یہ عقیدہ کا مسئلہ ہے اور عقیدہ کی خرابی مخرب ایمان ہے۔

جو لوگ حافظ عنایت اللہ اثری پر یا اُن کے نظریات رکھنے والوں پر برہم ہوتے ہیں ہماری اُن سے درخواست ہے کہ وہ عقل و فکر سے کام لیں اور ہمارا مؤقف سمجھنے کی کوشش کریں اور اُن علماء کرام کے پھندے سے باہر نکلیں جنہوں نے دوغلی پالیسی اختیار کر رکھی ہے اور مانتے کچھ ہیں اور کہتے کچھ ہیں، جن کی صورتِ حال وہی جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ’’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور‘‘۔

ایسی تحریرات اور تفسیری روایات کو پڑھ کر ’’حافظ‘‘ کا دل پسیج گیا صحیح معنوں میں وہ ایک کتابی کیڑا تھے ایک ایک تحریر کو پڑھا اور بار بار پڑھا۔ دل تھام کر پڑھا پھر قرآن پر غور و فکر کیا۔ تدبر سے کام لیا تو یقین ہو گیا کہ یہ سب کچھ اس لئے ہو اکہ اللہ تعالیٰ کے اس اَن مٹ اور اَن ٹل قانون سے جو نسل انسانی کی تخلیق کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں بار بار دہرایا ہے اس سے انحراف کیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علماء گرامی قدر کی ریل اچانک پٹڑی سے اتر گئی اور پھر دور تک تباہ و برباد کرتی چلی گئی نہ اپنا کچھ رہا اور نہ سواروں کا۔

جس اللہ کی نیک بندی (سیدہ مریمؑ ) کو اللہ نے تمام عالم کی عورتوں سے بلند رتبہ عطا فرمایا تھا جس کی پاکیزگی کی فرشتے بھی قسمیں کھاتے تھے جس کو اسلام میں وہ مقام عطا ہوا جو کسی دوسری عورت کو نہیں ہوا جس کے لئے اسلام میں بحث طے پائی تھی کہ ’’والصحیح ان مریم کانت نبیۃ‘‘ اس کے قصہ کو اس طرح بیان کیا گیا جو مذکورہ حوالوں سے اوپر درج ہے اور جس کے دیکھتے ہی دل کانپ اٹھتا ہے اور آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔

افسوس ! صد افسوس! کہ اب بھی چاروں طرف سے آواز اُٹھتی ہے کہ حافظ عنایت اللہ کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ اس نے مسلمانوں کے متفقہ عقیدہ کے خلاف لکھا؟

میں نے یہ سطریں اس لئے تحریر کی ہیں تاکہ ناظرین دیکھ سکیں کہ حافظ صاحب مرحوم کو مسلمانوں کی اکثریت کے اس نظریہ کے خلاف لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔

جس طرح آپ نے ان چند حوالوں کو دیکھ کر محسوس کیا ہو گا کہ جو شخص اپنے سینے میں دل رکھتا ہے وہ ان کی تاب نہ لا کر پکاراُٹھے گا کہ (ھٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ) بالکل اسی طرح حضرت العلام حافظ عنایت اللہ اثری وزیر آبادی نے جب یہ محسوس کیا کہ یہ اور اس طرح کی دوسری تمام تحریرات کا تعلق دین اسلام سے مطلق نہیں ہے بلکہ یہ اسرائیلیات سے ماخذ ہیں اور خوش اعتقادی کے طور پر اسلام میں داخل کر لی گئی ہیں تو انہوں نے اس نظریہ سے سر پھیر دیا جس سے دو پاکبازوں بلکہ دو نبیوں ۱؂ کی زندگیوں کو افسانہ بنا کر رکھ دیا گیا تھا۔

وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ۔

اوہام پرستی پر اصرارِ معجزات
Insisted Miracles or Delusional Idolatry
بجواب
’’
عقل پرستی اور انکار معجزات‘‘ حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب کیلانی

**
مؤلف عبدالکریم اثری

شائع کردہ
انجمن اشاعتِ اسلام ٹھٹھہ عالیہ (رجسٹرڈ) منڈی بہاؤالدین

Compiled by: Rana Ammar Mazhar
 

No comments:

Post a Comment