Thursday, August 29, 2013

پاکستان کی مایہ ناز شخصیت آغا سید علی شرف الدین کے بارے میں مختصر تحریر


پاکستان کی مایہ ناز شخصیت آغا سید علی شرف الدین کے بارے میں مختصر تحریر

آغا سید علی شرف الدین موسوی صاحب کی شخصیت پاکستان کے علماء (بشمول شیعہ و سنی) میں  احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔آغا صاحب کے بارے میں بات کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ہم کو آغا صاحب کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت اس لیئے پیش آئی کیونکہ کچھھ عرصے سے اس گروپ میں آغا صاحب کے نام سے کچھھ شکوک پیدا کیئے جا رہے ہیں۔کچھھ برادارن نے آغا صاحب کی کتابوں سے چند جملے لے کر ان کی کرادار کشی کی مہم شروع کر دی ہے- اور اسی مہم میں وہ لوگ بھی شامل ہو گئے ہیں کہ جنہوں نے نا کبھی آغا صاحب کا نام سنا تھا اور نہ ان کی کوئ کتاب پڑھی تھی۔ یہ حضرات چند قدم آگے بڑھ گئے اور آغا صاحب کو با قاعدہ لعن طعن کرنے لگے۔
ہم یہ آرٹیکل صرف ان لوگوں ہی کے لیئے لکھ رہے ہیں کہ جو علماء کو صرف منبروں سے جانتے ہیں یا انٹرنیٹ پر موجود علماء سے آگاہ ہیں۔ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ یہ لوگ اس بات سے آگاہی حاصل کریں کہ پاکستان کی ایک بڑی علمی شخصیت صرف اپنی تحقیقی کام کی وجہ سے ہی پہچانی جاتی ہے۔
علی شرف الدین صاحب کی جائے پیدائش بلتساتان کے ایک محلہ علی آباد کی ہے اور ان سن پیدائش١٣٦٠ ہجری ہے اور آغا صاحب حصول علم کے لئے ١٣٧٧ ہجری کو نجف اشرف پہنچے آپ کے استادون میں آیت اللہ صادقی تہرانی شامل رہے۔اور دین کو ثقل اکبر قرآن سے سمجھنے کی خواہش ان کی شاگردی نے ہی پیدا کی۔آغا صاحب نجف کے مدرسوں میں قرآن و حدیث کو شامل نہ کرنے کا ہر مقام پر شکوہ کرتے رہے ہیں اور یہ شکوہ صرف نجف تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ مدارس قم بھی اس میں شامل ہیں۔
آغا صاحب تقریبا ١٢ سال کے بعد نجف سے پاکستان آئے ۔عراق میں آپ کی ہمنشینی آیت اللہ باقر الصدر سے بھی رہی۔
آغا صاحب نے جس ادارے کی بنیاد ڈالی اس کا نام دارالثقافہ الاسلامیہ ہے یہ ادارے اپنے قیام سے اب تک کسی قسم سے بھی مرجعییت کے ذیر تسلط نہیں رہا اور نہ اس ادارے کو چلانے کے لئے کسی قسم کے خمس کا سہاری لیا گیا۔آغا صاحب نے ١٩٧٩ کے انقلاب اسلامی کے بعد مقام رہبری اور  مقام ولایت فقیہ کو پاکستان میں روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔آغا صاحب کی پر جوش شخصیت ہی تھی کہ جس کی وجہ سے قائد عارف حسین کی شہادت کے بعد اپ کا نام بھی قیادت کے لیئے سنا جاتا رہا۔
آغا صاحب نے ہی سب سے پہلے کراچی میں قرآن فہمی کے پروگرام کرائے اور قرآن فہمی کے عنوان سے مختلف مقابلے بھی کرائے۔آغا صاھب نے ہی سب سے پہلے کراچی میں دعائے ندبہ کی محافل کا آغاز کیا۔دروس کا سلسلہ بھی آغا صاحب کے ادارے میں طویل عرصے جاری رہا- جس کے زریعے سینکڑوں عاشقان دین مستفید ہوتے رہے-
آغا صاحب کی صحبت میں  تقریبا پاکستان کے تمام ہی بڑے علماء نے اپنا وقت گزارا ہے۔آغا صاحب نے کچھھ عرصہ منبروں کے زریعے بھی دین کی تبلیغ کو جاری رکھا مگر پھر فن خطابت سے نا آشنائ اور سامعین کا زاکروں کو سن سن کر ایک مخصوص انداز کو ہی منبروں سے وابستہ کرنا ہی وہ وجوہات تھیں کہ جن کی وجہ سئ آغا صاحب نے منبروں کو خیر باد کہہ دیا-
آغا صاحب نے جب اپنی تحقیقی کام کا آغاز کیا اور اپنی تحریروں کو صفحہ قرطاس پر لانا شروع کیا تو نہ صرف عوام کا ایک طبقہ بلکہ کچھھ علماء نے بھی مخالفت شروع کر دی-
آغا صاحب کی وہ کتابیں جو قیام عاشورہ کے حوالے سے لکھی گیں-

١ ) قیام امام حسین عہ کی سیاسی تفسیر (یہ کتاب آن لائن زیارات ڈاٹ کام ) پر موجود ہے
٢) قیام امام حسین عہ کا جغرافیائ مس منظر
٣) تفسیر عاشورہ
٤) اسرار قیام امام حسین عہ اور ہماری ذمہ داریاں
٥) انتخاب مصائب ترجیحات ترمیمات



ان کتابوں کے اور خصوصا  قیام امام حسین عہ کی سیاسی تفسیر پر علماء کے ایک حلقے کی جانب سے سخت اعتراضات کیئے گئے۔حالانکہ قیام امام حسین عہ کے سیاسی پس منظر سے امام خمینی رح شہید مطہری رح رہبر آیت اللہ خامنائ وغیرہ وہی نظریہ رکھتے ہیں کہ جس کو آغا صاحب نے اپنی کتاب میں پیش کیا-


آغا صاحب کی وہ کتابیں جو عزاداری کی اصلاحات کے عنوان سے شائع ہوئیں


١) مثالی عزادری کیسے منائیں
٢) عنوان عاشورہ
٣) اصول عزادری
٤) عزاداری کیوں


ان کتابوں کی اشاعت کے بعد تو آغا صاحب کے خلاف محاز اور مضبوط ہو گیا۔حالانکہ ان کتب میں آغا صاحب نے صرف عزاداری میں اصلاحات کی بات کی تھی اور عزادری کو شریعت کے دائرے میں رہ کر کرنے کی بات کی تھی اور عزادری میں شامل کچھھ خرافات پر بھی بات کی گئی تھی


آغا صاحب کی ایک اور کتاب
١) عقائد ورسومات شیعہ


یہ وہ کتاب ہے کہ جس کے منظر پر آنے کے بعد آغا صاحب کے بائیکاٹ کا تقریبا آغاز ہو گیا-اس کتاب میں آغا صاحب نے شیعت اور شیعوں کے عقائد کو الگ الگ کر کے پیش کیا-اس کتاب کے آخر میں آغا صاحب نے قبلہ ڈھکو صاحب کی تعریف میں چند صفحات بھی لکھے


اصلاحات نظام مرجعیت اور مدارس:


١) افق گفتگو
٢) حوزہ علمیہ اور مدارس پر چند نگاراشات


اس کتاب میں آغا صاحب نے نطام مرجعیت کی اصلاحات کی بات کی۔اس کے علاوہ حوزہ علمیہ اور مدارس کے نظام میں تبدیلیاں لانے کی بھی بات کی گئی۔کتاب افق گفتگو میں امام زمان عجل اللہ فرجہم کے بعد سے دور حاضر تک کے تمام مراجعین کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔اس کتاب نے آغا صاحب کے خلاف بائیکاٹ کو بہت تقویت دی اور نظام مرجعیت کو درجہ عصمت سمجھنے والے سخت اشتعال میں آ گئے


قرآن کے حوالے سے:


١) سوالات و جوابات مقابلہ معارف قرانی ( دارلثقافہ میں قرآن فہمی کے حوالے سے جو مقابلے ہوئے ان کو کتابی شکل دی گئی - یہ کتاب بھی زیارت ڈاٹ کام پر آن لائن ہے)
٢) قرآن سے پوچھو
٣) مکتب تشیع اور قرآن
٤) قرآنی معلومات
٥) انبیاء قرآن (آدم ادریس نوح ابراہیم عہ)
٦) انبیاء قرآن ( موسیٰ اور عیسیٰ عہ)
٧) انبیاء قرآن (حضرت محمد صہ)
٨) قرآن اور مستشرقین 
٩) اٹھو قرآن کا دفاع کرو


قرآن فہمی کے حوالے سے یہ بہترین کتابیں ہیں-مگر ہماری قوم کے وہ  علماء کے جنہوں نے ہمیشہ خود کو اور قوم کو قرآن سے دور رکھا  ان کتابوں کی اشاعت پر سخت سیخ پا ہوئے اور ان کتابوں کے مارکیٹ میں آنے پر بھی پابندی لگادی گئی


بنیادی عقائد کے بارے میں:


١) قرآن میں امام و امت
٢) موضوعات متنوعہ (متعہ اجتہاد و توسل)


قرآن میں امام و امت تابوت کی آخری کیل ثابت ہوئ اور آغا علی شرف الدین صاحب کے بارے میں فتویٰ بھی جاری ہو گئے اور ان کو بعض حلقوں کی جانب سے شیعت سے خارج قرار دے دیا گیا


اپنے دفاع میں:


١) شکوں کا جواب
٢) مجلہ فصلنامہ عدالت
٣) شکوہ جواب شکوہ


مجلہ فصلنامہ میں آغا صاحب نے پاکستان کے تمام ہی جید علماء کا تزکرہ کیا ہے اور ان علماء کا آغا صاحب سے کس وجہ سے اور کب اختلاف پیدا ہوا اس کا بھی تزکرہ کیا گیا ہے۔اپنے خلاف دیئے گئے فتوں کا بھی جواب دیا ہے اور آخر میں اپنی وصیت بھی اس کتاب میں درج کر دی ہے-


آغا صاحب کی ان کتابوں کی فہرست کو میں مکمل نہیں کہہ سکتا کیونکہ میرے ذہن میں جتنی کتب آئیں ہیں ان کا میں نے زکر کر دیا ہے-


آغا صاحب کے ادارے نے ایک رسالہ اعتقاد کے نام سے بھی جاری کیا تھا جو کچھھ عرصہ جاری رہنے کے بعد بند کردیا گیا-


آغا صا حب کی اپنی تحریروں کے علاوہ ان کے ادارے نے جو دوسرے علماء کی کتابوں کو ترجمہ کر کے شائع کیا ہے وہ ایک اور قابل ستایش کام ہے۔جن کتابوں کا ترجمہ کیا گیا وہ نہ صرف انتہائ معتبر کتب ہیں بلکہ یہ کتب مکتب اہلیبیت کے لیئے سند کا درجہ رکھتی ہیں۔
یہاں پر ہم چند کتابوں کا زکر کرتے ہیں


١) آیت اللہ عبد الحسین شرف الدین (لبنان) کی کتاب المراجعات کا ترجمہ مذہب اہلیبیت 
٢) شہید مطہری کی حماسہ حسینی
٣) آیت اللہ یزدی کی حسین شناسی
٤) شہید باقر الصدر کی تفسیر موضوعی
٥) شیخ مفید کی مقتل ( مختصر)
٦) حسین نوری کی لؤ لؤ مرجان کا ترجمہ آداب اہل منبر
٧) آیت اللہ خامنائ کی کتاب عاشورہ میں خواص کا کردار
٨) آیت اللہ حسین فضل اللہ کی سیرت حسنین عہ
٩) آیت اللہ شیخ محمد مظفر کی کتاب عقائد امامیہ
١٠) شاکر حسین امروہی کی مجاہد اعظم
١١) علی اکبر قرشی کی اسباب و نتائج قیام امام حسین عہ
 ١٢) قیام امام حسین عہ غیر مسلم دانشوروں کی نظر میں


یہ آغا علی شرف الدین صاحب کے ادارے دارلثقافہ سے شائع ہونے والی چند کتب کی فہرست ہے ۔اس کی مکمل فہرست اس سے کافی زیادہ ہے۔


آغا صاحب کا شکوہ:-


مدارس میں قران نہیں پڑھایا جاتا
مدارس میں حدیث کو بھی باقّاعدہ طور پر نہیں پڑھایا جاتا
مدارس کا سلیبس بوسیدہ ہو چکا ہے


آغا صاحب کے عقائد:


آغا صاحب کے عقائد کے ھوالے سے ہی ساری بحث کا آغاز ہوا ہے۔آغا صاحب امامت کو نص قرآنی سے نہیں مانتے اور ان کا یہ کھنا ہے کہ نص وہ ہوتی ہے جس میں کوئ ابہام نہ ہو اور جب امت کے ایک بڑے طبقے نے غدیر خم کے موقع پر رسول اکرم صہ کا خطبہ سننے کے باوجود مولا کے معنوں میں اختلاف کیا تو اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہ نص نہیں ہے۔اس کے علاوہ آغا صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ امام علی عہ ہمیشہ اپنی فضیلت کو معیار بنا کر خلافت پر اپنے حق کو ثابت کیا ہے اور نص کا زکر نہیں کیا۔اس کے علاوہ امام علی عہ کا خلافت کی نامزدگی کے لیے ہونے والے ہر طریقہ کار میں شامل ہونا بھی اس بات کی دلیل ہے۔اہلیبیت عہ کے خاندان کے مختلف لوگوں نے امامت کا دعویٰ کیا-(نوٹ ؛ میرے آغا صاحب کے امامت کے حوالے سے جو عقائد ہیں ان پر تحفظات ہیں)
اس کے علاوہ آغا صاحب تقلید غیر مشروط کے مخالف ہیں
توسل کے مخالف ہیں
متعہ کو غلط سمجھتے ہیں


آغا صاحب کے نظریات کے حوالے سے ان پر جتنی تنقید پاکستان کے علمی حلقوں میں ہوئ ہے شاید پاکستان کے کسی اور عالم دین کے خلاف ایسی کوئ تنقید نہیں ہوئ ہے۔اختلاف کے حوالے سے تو علامہ نقن صاھب قبلہ،شہید مطہری۔ آیت اللہ حسین فضل اللہ جیسی ہستیوں پر بھی  سب وشتم ہوتا رہا ہے مگر ان ہستیوں کا دفاع کرنے والے بھی موجود رہے ہیں۔مگر آغا صاحب کی مظلومیت اس لیے زیادہ ہے کہ ان کے قریبی ساتھی بھی ان کا ساتھھ چھوڑتے چلے گئے۔
پاکستان کی ایک اور قابل احترام ہستی قبلہ ڈھکو صاحب کا آغا صاحب کے خلاف دیا گیا فتویٰ باعث حیرت اس لیئے ہے کہ قبلہ تو خود لوگوں کی تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں- اور پھر قبلہ اس فتویٰ کو آغا صاحب کی کتاب قرآن میں امام و امت کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔مگر قبلہ کی ایک وڈیو جس میں وہ فتویٰ سنا بھی رہے ہیں میں اپنے سامعین سے یہ کہتے ہیں کی کتاب قرآن میں امام و امت ٩٠٠ صفحات کی ہے اور یہ کتاب میری(ڈھکو صاحب) کی سمجھھ میں تو بالکل نہیں آئی اگر آپ (سامعین) کو سمجھ آئی ہو تو مجھے بھی بتا دینا۔جب قبلہ کے کتاب سمجھھ ہی نہیں آئ تو پھر فتویٰ کس طرح لگا دیا۔ اور اگر سمجھھ کر لگایا ہے تو یہ کہنا کہ کتاب سمجھھ نہیں آئ کیا معنیٰ رکھتا ہے۔


اپنی تحریر کو ختم کرنے سے پہلے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس پوسٹ پر جس کا دل چاہے جو بھی کمنٹس کرے میں اس کا کوئ جواب نہیں دوں گا کیونکہ اس پوسٹ کا مقصد کوئ نیا محاذ کھولنا نہیں بلکہ صرف آغا صاحب کی علمی شخصیت کو سامنے لانا تھا۔شاید میں پوری طرح اس میں کامیاب بھی نہیں ہو پایا ہوں۔کسی کو اگر کوئ بات مجھھ سے پوچھنی بھی ہو تو وہ مجھھ کو پرسنل میسج کر سکتا ہے


والسلام
تحقیق و ترتیب
برادر علی احمد