Monday, August 19, 2013

تبصرہ برصحیح بخاری کا مطالعہ اورفتنہ انکارحدیث


تبصرہ برصحیح بخاری کا مطالعہ اورفتنہ انکارحدیث 

ڈاکٹرغطریف شہباز ندوی * 

بیسوی صدی کے علماء میں علامہ شبیراحمدازہر میرٹھی ؒ اس لحاظ سے ممتازہیں کہ ان کا علم یک رخانہیں ہے ۔ان کوجس طرح علم حدیث میں یدطولی حاصل تھاجس کی گواہ ان کی شرح بخاری تحفۃ القاری (عربی) اورمسنداحمدبن حنبل کی شرح (اردو)ہے ۔اسی طرح ان کوقرآن پر غوروفکراورتدبرکی نعمت بھی ملی تھی ۔ساری زندگی انہوں نے قرآن اورحدیث کوپڑھنے پڑھانے اورمطالعہ وتحقیق میں گزاری ۔علم حدیث وقرآن پر ساری عمرتدبرکرنے کے بعدان کی یہ قطعی رائے بنی کہ بخاری ومسلم میں بھی حدیث کی دوسری کتابوں کی طرح ایک دونہیں متعددغلط وضعیف روایات آگئی ہیں مگراس سے شیخین امام بخاری ومسلم کی جلالتِ قدرپر کوئی فرق نہیں پڑتاظاہرہے کہ وہ دونوں بھی انسان تھے اوربربنائے بشریت ان سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں کہ غلطیوں سے معصوم صرف نبی ﷺ کی ذات مبارکہ ہے۔پھریہ کہ صحیحین کے متعلق مطلق صحت کا دعوی نہ اجماعی ہے اورنہ علم وتحقیق کے مطابق (مزیدتفصیل دیکھیں میرا مقالہ علامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی ؒ کی خدمات حدیث کا مطالعہ وجائزہ جواس ویب سائٹ پر دستیاب ہے ۔:
http://studyhadithbyquran.blogspot.com/2013/02/interpretation-of-quran-verse-by-sahih.html
 
علامہ میرٹھی نے اپنی شرح بخاری تحفۃالقاری میں بڑی تفصیل،تحقیق وجاں فشانی سے اپنی ہرتحقیق کے لیے دلائل کے لشکرفراہم کردیے ہیں اوراس شرح میں انہوں نے کسی قدیم یاجدیدشارح اورمحدث کی تقلیدجامدنہیں کی ۔اوریوں انہوں نے قرآن وحدیث پر سوچنے اور غور فکرکر نے کاایک بالکل نیافکرپیش کیاہے ۔جس پر کام کرنے کی شدیدضرورت ہے ۔تاہم چونکہ برصغیرمیں تقلیدجامدنے بری طرح گھرکررکھاہے اورعربی شرح کوشائع کرنے کے لیے جن غیرمعمولی وسائل کی ضرورت ہے وہ ہمیں میسرنہیں اس لیے علامہ نے بخاری ومسلم سے متعلق اپنی تحقیقات وافادات کومختصراعام لوگوں کے استفادہ کے لیے اردومیں بھی پیش کردیا۔اردومیں اس کتاب کا نام بخاری کا مطالعہ ہے جس کی پہلی جلد(دوقسطوں پر مشتتمل )انڈیااورپاکستان سے شائع ہوئی ہے۔اس کے جواب میں جماعت اہل حدیث کے ایک عالم مولوی ابویحیٰ نورپوری نے ایک کتاب ’’صحیح بخاری کا مطالعہ اورفتنہ انکارحدیث‘‘لکھی ہے ۔اورٹائٹل پر لکھاہے کہ ’’ایک قرض جوامت کی طرف سے اداکردیاگیا‘‘یہ کتاب علم دوست شخصیت برادرطیب معاویہ صاحب کے واسطہ سے مجھے ملی اورمیں اس کوتقریباایک ہی نششت میں پڑھ گیا۔پہلے سوچاتھاکہ اس پرذراتفصیلی تبصرہ کیاجائے مگرکتاب کوپڑھنے کے بعدمولوی ابویحیٰ کی جوتصویرسامنے آئی اورجس طرح کتاب کے پہلے چند ہی صفحات سے ان کی علمی پول کھل گئی اس سے راقم کی رائے یہ بنی کہ اس کتاب پر تبصرہ کرنایااس کا جواب لکھناوقت اورصلاحیت کا ضیاع ہے کیونکہ نورپوری اوران کے یہ استادصم بکم عمی فہم لایرجعون کی پوری پوری عملی مثال ہیں،یہ صاحب اوران کے تینوں استادیامعاونین جغادری اہل حدیث مولوی جہالت ،تعصب ،کذب وافتراء اورگندم نماجوفروشی میں اپنی مثال آپ ہیں ۔کتاب پڑھی اوراناللہ واناالیہ راجعون پڑھ کرایک طرف رکھدی ۔تاہم ان لوگوں نے جس دجل و فریب سے کام لیاہے اس پر ایک چھوٹاساتبصرہ عین تقاضائے وقت ہے اس لیے چندسطورپیش ہیں۔

علامہ میرٹھیؒ پر ایک بڑابہتان :
مولوی ابویحی نے اپنی کتاب کے صفحہ 43پر لکھاعلامہ شبیراحمدازہرمیرٹھیؒ پر حملہ کرتے ہوئے لکھاہے :’’حدیث توحدیث بڑے افسوس کی بات ہے کہ یہ صاحب (علامہ میرٹھی )قرآن کریم میں بھی عربیت کے لحاظ سے غلطیوں کے وجودکے دعوے دارہیں ‘‘حوالہ دیاہے :صحیح بخاری کامطالعہ ۱/۷۳یہ پڑھتے ہی ہماراماتھاٹھنکا۔نوری پوری نے کتنابڑادعوی کیاہے !ایک ایسی شخصیت جس کی پوری عمرکتاب اللہ پر غوروفکرمیں گزری اس کے اوپراتنابڑاالزام !سوال یہ ہے کہ کوئی شخص قرآن میں عربیت کی غلطیاں نکالے تواس کے اسلام کا کیاہی اعتباررہ جائے گا؟بہرحال ہم نے دیکھاکہ نورپوری نے اتنے ہی صریح الفاظ میں یہ الزام کئی جگہ دہرایاہے مثال کے طورپر صفحہ ۱۱۸پرپھریہی لکھاہے کہ :’’ہماری گزشتہ گزارشات میں تویہ حقیقت بھی قارئین ملاحظہ فرماچکے ہیں کہ میرٹھی صاحب کوقرآن میں موجودالفاظ بھی عربیت کے لحاظ سے غلط نظرآجاتے ہیں ‘‘۔حوالہ وہی دیاہے: صحیح بخاری کا مطالعہ ۱/۷۳صفحہ 121پھرلکھاہے کہ : ان کی (میرٹھی )کی طرف سے انکارقرآن کی ایک اورمثال پیش خدمت ہے :حوالہ وہی ہے ۔صفحہ 236پر بھی یہی بات کہی ہے پھرصفحہ 252پرلکھاہے :’’میرٹھی صاحب نے قرآن کریم کے الفاظ لونعلم کوعربیت کے لحاظ سے غلط کہ کراپنی عقبی ٰخراب کرلی تھی ‘‘۔اوربھی کئی جگہوں پر اس بات کودہرایاہے(مثلا204 اور205پرلکھاہے :جوچیز قرآن کریم میں بکثرت مستعمل ہے ،وہ اسے بھی عربیت کے لحاظ سے غلط قراردے رہے ہیں۔یہ اعتراض کرکے میرٹھی صاحب نے کتاب ہدایت قرآن کریم اورعربی زبان سے اپنی جہالت پر قیامت تک لیے مہرثبت کردی ہے‘‘۔ان کے علاوہ اوربھی متعددجگہوں پر علامہ میرٹھی کوجاہل،بے وقوف ،بدنیت ،سفیہ اورنہ جانے کیاکیاقراردیاہے ۔جوں جوں کتاب پڑھتاجاتاہوں حیران ہوتاہوں کہ یہ ساری سنگ باری کس وجہ سے ہورہی ہے علامہ میرٹھی نے ایساکیاکہ دیااورقرآن میں غلطی کا دعوی انہوں نے کہاں کیا؟اصل کتاب سے مراجعہ کرنے پر جوبات سامنے آئی وہ یہ ہے :علماء نحوکا اتفاق ہے جس کونحوکی کسی بھی جامع کتاب (المفضل للزمخشری ،قطرالندی یاشرح ابن عقیل میں دیکھاجاسکتاہے )کہ حروف شرط میں لوزیادہ ترماضی پر داخل ہوتاہے اورجملہ مثبت ہونے کی صورت میں جواب پر لام آتاہے کبھی کبھی اس کے خلاف بھی ہوتاہے اورلو مضارع پر بھی آجاتاہے جبکہ اس کے جواب میں مانافیہ نہ آئے ۔کیونکہ مانافیہ کے آنے کی صورت میں لوکا مضارع پر آنابہت کم ہے،لوفعل کوماضی کے معنی میں کردیتاہے ۔فراء نحوی کواس میں اختلاف ہے وہ کہتے ہیں کہ چاہے لوماضی پر آئے یامضارع پر وہ مستقبل کا معنی بھی دیتاہے ۔ناظرین اس قاعدہ کوغورسے دیکھیں اوردرج ذیل پر غورکریں:اس قاعدہ کی روسے صلح حدیبیہ میں قریش سے معاہدہ نامہ لکھنے سے متعلق ایک روایت میں قریش کے نمائندوں کے یہ الفاظ آئے ہیں کہ جب معاہدہ میں یہ الفاظ لکھے گئے :ہذاماقاضیٰ علیہ محمدرسول اللہ توانہوں نے کہا:قالولانقربہذالونعلم انک رسول اللہ مامنعناک شیئاالخ(یہ وہ معاہدہ ہے جومحمدرسول اللہﷺ نے مکہ والوں سے کیاہے ،مکہ والوں نے اس پراعتراض کیاکہ ہم یہ بات نہیں مانتے کہ اگرہم جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو(آپ کی مخالفت نہ کرتے )آپ سے کسی چیز کودریغ نہ رکھتے لیکن آپ محمدبن عبداللہ ہیں (لہذایہ ہی لکھوائیں)(ترجمہ میرٹھیؒ )صحیح بخاری کامطالعہ صفحہ ۵۰(ہندوستانی ایڈیشن)اس کے بعداس پوری حدیث کے مضامین پر علامہ نے لمباتبصرہ کیاہے اوراسی کے ذیل میں لکھاہے :(۲)عبیداللہ کی روایت میں ہے کہ اہل مکہ نے کہاتھا:لونعلم انک رسول اللہ ۔لونعلم عربیت کے لحاظ سے غلط ہے صحیح لفظ لوعلمناہے :صحیح بخاری کا مطالعہ صفحہ ۵۹ ہندی ایڈیشن حصہ اول ۔ناظرین مذکورہ عربی قاعدہ پر پھرنظرڈالیں اوراس کے لحاظ سے فیصلہ کریں کہ علامہ کا یہ قول ’’صحیح لفظ لوعلمناہے ‘‘اس قاعدہ کی روسے درست ہے کہ نہیں ۔(جبکہ اس واقعہ کی دوسری روایات میں یہی الفاظ صراحت سے آئے ہیں)۔ہم مانتے ہیں کہ یہاںآپ علامہ میرٹھی کی تحقیق سے اختلاف کرسکتے ہیں۔آپ کہیے کہ نحوکا قاعدہ اکثری ہے کلی نہیں لہذااس کا خلاف ممتنع نہیں۔ مگرآپ ان کوقرآن کامنکروغیرہ کیسے کہ سکتے ہیں؟۔ غورکیاجائے کہ الفاظ حدیث کے ہیں اور حدیثوں کے بارے میں یہ طے شدہ بات ہے کہ ان کی روایت زیادہ تربالمعنی ہوئی ہے یعنی راویوں نے اپنے الفاظ میں مفہوم بیان کردیاہے ۔پھریہ کہ لویعلم کوئی پورا جملہ توہے نہیں بلکہ یہ توایک پورا فقرہ بھی نہیں ۔اورقرآن یاحدیث پر ہی کیاموقوف ہے جاہلی شاعری میں یہ متعددجگہوں پر آیاہے اوردوسرے مصنفوں کے ہاں بھی یقیناآیاہوگا۔پھرآخر مولوی نورپوری نے یہ دریدہ دہنی کیوں کی کہ میرٹھی ؒ کوالفاظ قرآنی کامنکرکہ ڈالا؟اصل میں ایک قرآنی آیت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ منافقین نے غزوہ احدکے موقع پر غدرکرتے ہوئے راستہ میں سے واپس جاتے ہوئے کہا: لونعلم قتالالاتبعناکم (النساء : 167 )(اگرہمیں معلوم ہوتاکہ لڑائی ہوگی توضرورتمہاراساتھ دیتے )ناظرین غورکریں کہ قرآن کی اس آیت میں یقینالومضارع پر داخل ہے اوریہ فصیح ہے ۔ کیوں ؟ کیونکہ اس کے جواب میں مانافیہ نہیں ہے بلکہ لام آیاہے جواثبات کے لیے آتاہے ۔ قرآن میں جہاں کہیں بھی لومضارع پر استعمال ہواہے زیادہ تر اسی شکل میں ہواہے ،لہٰذایہ آپ سے آپ مذکورعربی قاعدہ سے خارج ہوجائے گا۔نورپوری صاحب نے بہت ساری آیات قرآنی کا حوالہ دیاہے ہم نے تمام آیات دیکھیں سب میں لوکے جواب میں لام داخل ہے ۔ہاں سورۃ نحل میں لومضارع پر داخل ہواہے اوراس کے جواب میں مانافیہ آیاہے ،ہم اس کوغیرفصیح نہیں کہ سکتے مگریہ توکہاجاسکتاہے کہ یہ استعمال کم ہے ۔اس پر غورکیے بغیرمولوی نورپوری نے کس طرح بات کا بتنگڑبناڈالا۔رائی کا پربت بنانے کافن ان کوآتاہے مگرخداکے ہاں تواس کی پکڑہوگی ۔سوال تویہ ہے دفاع بخاری کے جوش میں یہ نیانیامولوی تواپنے دعوی میں صریح کذب بیانی ،دجل اور تلبیس کا شکارہواہی مگراس کی کتاب پر نظرثانی کرنے والے مولوی زبیرعلی زئی ،اورمولوی غلام مصطفی ظہیرنے اس گستاخ ،بدزبان بلکہ کذاب فارغ مدرسہ کواس صریح کذب بیانی اورتلبیس پر نہیں ٹوکا!آپ کواگرمیرٹھی ؒ صاحب سے اختلاف کرناتھاشوق سے کرتے کہ ہرہم شخص کو اختلاف کاحق دیتے ہیں۔مگرکسی روایت کے الفاظ کوقرآن کی طرف کیسے منسوب کیاجاسکتاہے ؟ کوئی شخص کسی روایت کے الفاظ پر تنقیدکررہاہے توآپ کوحق ہے کہ آپ اس سے اختلاف کریں ،لیکن اگروہ قرآن کریم کے بارے میں کچھ نہیں کہ رہاہے توآپ کویہ حق کیسے ہوگیاکہ اپنے ذہن سے ایک مطلب اخذکریں قرآن کا حوالہ بیچ میں لائیں، پھراس کوجزم کے ساتھ کلیہ بنا کر پیش کریں اوراتنابڑااعتراض جڑدیں۔یہ علمیت کی کونسی قسم ہے ؟ قارئین کوبتادوں کہ علماء حدیث کسی دروغ گوسے روایت لینادرست نہیں سمجھتے ۔مولوی نورپوری نے جتنابڑاجھوٹ بولاہے اب اس کے بعدان کی علمیت کے ڈھونگ کی کیاوقعت ہوگی اوران کتاب کی کیاقیمت رہ گئی! اس کے بارے میں بس یہی کہاجاسکتاہے کہ : ؂
جوبات سارے فسانے میں ذکرنہ تھی وہی بات ان کوبہت ناگوارگزری ہے
(جاری)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*سب ایڈیٹرافکارملی ،مصنف،مترجم وصحافی اورڈائرکٹرفاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز C-303/3شاہین باغ جامعہ نگرنئی دہلی 110025
ٓای میل :

1 comment:

  1. تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی علمی تحقیق کے نتیجے میں کتبِ احادیث کو اغلاط سے آلودہ ثابت کیا جاتا ہے، ایک خاص طبقہِ فکر کی جانب سے محقق پر بے سروپا الزامات کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے۔ یہ بھی ایک ایسا ہی معاملہ ہے ۔ ایک طبقے کے معاش و اقتدار کی بنیاد ہی احادیث کو قطعی اور خطا سے مبرا ماخزِ دین ثابت کیے رکھنے پر قائم ہے تو وہ اس بارے میں کسی بھی منفی تحریر کو کیسے معاف کر سکتا ہے۔

    ReplyDelete