Wednesday, August 14, 2013

سیکیولر ازم اور دوقومی نظریہ قرآن کی نظر میں



وَكَأَيِّن مِّن آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ (105-12)
(یعنی) زمین و آسمان میں کتنی تو نشانیاں ہیں جن پر گذرتے رہتے ہیں اور ان پر غور کرنے سے منہ موڑ جاتے ہیں۔



   
سیکیولر ازم اور دوقومی نظریہ قرآن کی نظر میں


 


از قلم:
عزیز اللہ بوہیو
                                                               

قیمت: پچاس روپیہ
 
شعبہ نشرواشاعت، سندھ ساگر پارٹی
مقدمہ برائے طبع دوم
انسانوں کی تاریخ محنت کشوں کی محنت کی لوٹ مار سے بھری پڑی ہے، اللہ عزوجل نے نوع انسانی کو اسکی ابتداء آفرینش کے وقت سے حکم دیا ہوا ہے کہ اے لوگو! تم مرد و عورت دھرتی کی پیداوار سے جس وقت چاہو موج سے کھاتے پیتے رہو لیکن اس مشاجرت میں ڈالنے والی (لوٹ مار) کے قریب بھی نہ جایا کرو اگر تم نے ایسے کیا تو تم ظالموں میں سے ہوجاؤ گے (35-2) (22-7)۔
جملہ معترضہ
محترم قارئین! میں قرآنی اصطلاحات کی معنائیں صرف قرآن سے نقل کرتا ہوں سو اس آیت کریمہ میں وَلاَ تَقْرَبَا هَـذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الْظَّالِمِينَ (35-2) کے اندر سے شجرہ کی معنی اختلافات مین ڈالکر فرقوں میں بٹ جانا ثابت ہوئی ہے جو غلام ساز استحصالی قارونیت ہامانیت اور فرعونیت  کے لقب سے ہے یہ معنیٰ لفظ ظالمین سے ثابت ہوئی ہے ثبوت کیلئے غور فرمائیں آیت کریمہ وَإِذْ نَادَى رَبُّكَ مُوسَى أَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ۔ قَوْمَ فِرْعَوْنَ أَلَا يَتَّقُونَ (11-10-26) یہاں قوم فرعون کو ظالم کہا گیا ہے اور قوم سے مراد اس مقام پر نسلی اور نسبی قرابت نہیں ہے بلکہ یہاں نظریاتی اور فکری ہم آہنگی والی قومی قرابت ہے جو کرتوتوں کے اشتراک والی ہے۔ سوچنا ہوگا کہ جناب موسیٰ علیہ السلام کی بعثت جو قوم فرعون کی طرف ہوئی ہے اس میں قارون بھی شامل ہے جبکہ نسبی لحاظ سے یہ سرمایہ داریت کی علامت والا شخص قارون جناب موسیٰ علیہ السلام کی نسلی اور نسبی قوم سے تعلق رکھتا تھا لیکن نظریاتی لحاظ سے فرعون جو جاگیرداریت کا علامتی نام ہے قرآن نے آیت (39-29) اور آیات (24-23-40) میں قارون کو  فرعون کی طرح کا قوم ظالمین (11-10-26) قرار دیا ہے اور یہ سب لوگ پاپائیت کی علامت ہامان سمیت قوم ظالمین میں سے تھے۔ سو آیت (35-2) میں جو جملہ فرمایا گیا "لاتقربا ھذہ الشجرۃ فتکونامن الظالمین"اسکی معنیٰ ہوئی کہ استحصالی سرمایہ داریت، جاگیرداریت، خانقاہیت کے قریب جاؤگے تو ظالموں میں سے ہوجاؤگے(جملہ معترضہ کو ختم کرتے ہیں)۔
غور کرنا چاہیے کہ قارون جو نسل اور نسب کے لحاظ سے جناب موسیٰ علیہ السلام کی قوم سے تھا (76-28) اسے رب تعالی نے اسکی نظریاتی اور فکری ہم آہنگی جو فرعون جاگیردار کے ساتھ تھی اسی بناء پر اللہ نے اسے فرعون کی قوم میں سے بھی شمار کردیا (11-10-26) اب ان لٹیروں کی تاریخ قرآن حکیم نے جو آیات کریمہ(35-2) (22-7) میں بتائی ہے وہ نوع انسان کی پیدائش کے شروع دور سے وجود میں آئی ہے جسے لغام دینے اور کنٹرول کرنے کیلئے اللہ نے اپنی جانب سے علم وحی کے ذریعہ ہدایات کے پیکیج انبیاء علیھم السلام کی معرفت ہر دور میں ارسال فرمائے ہیں اور یہ سلسلہ بعثت انبیاء جناب خاتم النبیین محمد علیہ السلام تک چلایا گیا جو اسے خاتم الکتب کتاب قرآن حکیم دیکر اسکی آئندہ کیلئے تا قیامت حفاظت کی ذمہ داری رب پاک نے اپنے ذمہ پر لی ہے اور اس کتاب میں غلام سازی پر بندش کا قانون (67-8) (4-47) (164-6) ذاتی ملکیت پر بندش (219-2) پرائی محنت کےا ستحصال پر بندش(15-20) (22-45) مرد و عورت کے حقوق کی برابری کا قانون (228-2) اور جملہ معاشرتی معاشی قوانین کو کتابی صورت میں منضبط کرکے تا حال دائم وقائم رکھا ہوا ہے (2-2) انسانی ضروریات زندگی اور انکے حقوق کے تحفظ کیلئے اللہ عزوجل نے جو تعلیم علم وحی کے ذریعہ سے عطا فرمائی ہے اسکے تین عنوان ہیں ایک سیکیولر ازم، دوم سوشلزم، سوم نیشنل ازم، انسانی معیشت اور معاشرت کے ان محافظ قوانین کی تفصیل ہماری اس کتاب سیکیولر ازم اور دوقومی نظریہ میں ملیگی، محترم قارئین! انسانی تاریخ کے مترفین لٹیروں نے ہر دور میں تعلیمات علم وحی کے خلاف جنگ لڑی ہے جسکی تفصیل قدرے میری کتابوں "فتنہ انکار قرآن کب اور کیسے" امامی علوم اور قرآن جیسی کتابوں میں ملیگی۔ میں یہاں مختصر ا عرض کروں کہ برطانوی سامراج نے جس دن برصغیر کو کمپنی بہادر کا خول پہنکر غلام بنایا تھا اسنے اسی دن سے ہندو مسلم تعصبات اور نفرتوں کی داغ بیل ڈالی تھی اور سامراجیت کے حربہ لڑاؤ اور حکومت کرو! کی کامیابی کیلئے جو دو قومی نظریہ اپنے دانشور پروفیسر جان برائیٹ علی گڑھ کالیج کے استاد سے بنوایا تھا اس ہتھیار سے انہوں نے مسلم امت کے لوگوں کو اپنی ملک گیری اور استحصالی مشن کا دائمی غلام اور ورکر بنادیا ہے۔ اس خلاف قرآن نظریہ سے پاکستان عالمی سامراج کا انگریزی دورسے لیکر مفت کا نوکر بنا ہوا ہے اس حد تک جو اگر استعماریوں کا نیٹو نامی مسلم دشمن گروہ خود مسلم ملکوں عراق افغانستان پر بھی حملہ کرکے انکی ریاستوں پر قبضہ کرنا چاہے تو پاکستان انکی استحصالی کا فر فوجوں کیلئے بھی اپنی مملکت میں انہیں زمینی ہوائی اڈے دیکر پھر سے برطانیہ اور امریکہ کو انکی پرانی نوآبادیوں اور مقبوضات واپس کرانے میں انکی بیساکھی بناہوا ہے، جان لینا چاہیے کہ عالمی استعمار کی ایجنڈا میں بیسویں صدی میں انکی غلام بنائی ہوئی ریاستیں جو اسنے گاما گاٹا مارو اور "روٹی" "ریشمی رومال" نامی تحریکوں جیسی زیر زمین آزادی پسند تحریکوں اور دوسری طرف ظاہری سیاسی عمل میں استعماریوں کے قانون کے تابع رہ کر آزادی لینے والی کانگریس نامی اہنسائی تنظیموں کی جدوجہد کی وجہ سے سامراج نے جن ممالک کو آزاد کیا تھا وہ سب کچھ عارضی تھا وہ جاتے وقت بھی پھر لوٹ کر آنے کا عزم رکھتے تھے میرے ساتھ مرحوم پیر صاحب پاگارہ نے ذکر کیا کہ اسکے پاس پیر علی محمد راشدی ملنے آئے تھے اور بات سنائی کہ پاکستان جب نیا نیا وجود میں آیا تھا تو ان دنوں وہ لندن گئے تھے اور اس وقت کے وزیر اعظم برطانیہ ایٹلے سے ملاقات کی اور اسے کہا کہ آپ بر صغیر کو خواہ مخواہ چھوڑ کر واپس آئے، آپ وہاں رہتے اور حکومت کرتے ہم آپکی خدمت کرتے اور آپکے اقتدار کو مستحکم بناتے تو جواب میں اس نے کہا کہ ہم پہلے جب ہندستان آئے تھے تو تجارتی کمپنی کے نام سے آئے تھے آئندہ جب آنا چاہا تو اس کے لئے بہانے کئی سارے ہیں کسی نہ کسی بہانے سے دوبارہ آجائیں گے۔ غالبا جیمس ہمفرے انگریز سی آئی ڈی افسر نے اپنی ڈائری میں ترک خلافت کو توڑنے کے دنوں میں آج سے تقریبا ایک سو سال پہلے لکھا ہے کہ آئندہ ہم کراچی کے قریب سمندر کے کنارے پر نیا ملک آباد کریں گے جس کے لئے پبلک کو ہندستان سے مائگریٹ کرکے لے آئیں گے۔ اسکی ڈائری کی اس پیشنگوئی کے ٹھیک چوبیس سال بعد سرزمین ہند کا بٹوارہ ہوا جس سے ہندستان سے ایک معتدبہ تعداد میں لوگوں کو مائگریٹ کرکے پاکستان لایاگیا اور دنیا بھر سے نامعلوم شجرہ کے لوگوں کو پاکستان مین ہجرت کے نام سے بالخصوص شہر کراچی میں لا لاکر بسانے کا سلسلہ تاہنوز بھی جاری ہے سو دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ ہندستان سے مائگریٹ کرکے آنے والوں نے پہلے خود کو پانچویں قوم کے نام سے منوانے کی دہائی سنائی ساتھ ساتھ کراچی سے لیکر میرپور خاص امر کوٹ چھور تک یعنی جنوبی سندھ سمندر کے کناروں پر مشتمل مہاجر ستان-جناح آباد یا ذوالفقار آباد کے ناموں سے اسے عالمی سامراج سنگاپور اور بئنکاک کے مثل نیا ملک یافری پورٹ بنا رہا ہے یعنی یہ خطہ پھر سے عالمی استعمار کی نوآبادی بنے گا جسکے سہارے سنٹرل ایشیا افغانستان اور پاکستان مین بسنے والی اقوام کے علائقوں کو غلامی کی نئی جالوں میں قید کیا جائے گا، مین ضروری سمجھتا ہوں کہ قارئیں کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس گھر کو گھر کے کن کن چراغوں سے آگ لگی ہے میرے ساتھ ممتاز علی خان بھٹو صاحب نے ذکر کیا کہ جنرل ضیاء الحق کے شروع دور اقتدار میں ہم پی پی والے جیل میں تھے میرے ساتھ ایم کیو ایم کے الطاف بھائی بھی جیل میں ساتھ تھے، کبھی کبھی اسکو خفیہ ہاتھ والے  جیل سے نکال کر ساتھ لے جاتے تھے اور واپسی پر میرے سامنے الطاف صاحب دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے کہتے تھے کہ ادھر دردہے ادھر درد ہے ادھر مارا ہے ادھر مارا ہے میں پوچھتا کہ آپکو کیوں مارتے ہیں جواب میں بولتے کہ کہتے ہیں کہ ہماری لائنوں پر سیاست کرو۔ اب اسکی سیاست کے رخوں پر پیپلز پارٹی کے ذوالفقار مرزا کے بیان کے آئینہ میں بھی یاد کرکے غور کرو جو بیان  اسنے سرپر قرآن اٹھا کر عالمی میڈیا کے سامنے دیا تھا جس میں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ آمریکہ کی جانب سے پاکستان کو ختم کرنے کیلئے جو حکم متحدہ کو ملا  ہے۔ (اس کام میں پیپلز پارٹی بھی ہماری محافظ بنکر تعاون کریگی، اس اسکیم میں ضرورت پڑنے پر سندھی قوم کی نسل کشی کی بھی پرمنٹ دی ہوئی ہے یہ کام شروع میں جماعت اسلامی کے حوالے کیا گیا تھا پھر انکی قیادت نے آگے چلکر سوچا کہ اس ڈیوٹی کو ا سلامی نام سے سرانجام  دینا مشکل ہوگا انکی ایسی خونخوار قاتل ٹیم کو اسلامی جمعیۃ طلباء سے الگ کرکے ان کو مہاجر قومی مؤمنٹ کا لیبل دیا گیا مزید براں انکو جماعت اسلامی کی مخالفت کرنے کا بھی حکم دیا گیا جس سے وہ اپنے اسلامی لیبل کا بھرم رکھنا چاہتے تھے تاکہ  مستقبل میں ان لوگوں سے ہمارے تعلق داری  کا حصہ نہ سمجھا جائے)۔ معاف کیا جائے کہ میں سامراجی تنظیموں کے تعارف کی لائن پر چلاگیا میں نے ابھی گذارش کی کہ رب تعالیٰ نے قرآن حکیم میں انسانی مفادات کے تحفظ کی خاطر علم وحی کے پیکیج میں تین اصول سمجھائے ہیں ایک سیکیولرازم دوسرا سوشلزم تیسرا نیشنلزم۔ پہلے اصول کی معنی ہے معاملات دنیاوی کو فہم وفراست اور عقل و دانش سے چلانا ہے، دوسرے اصول کی معنی ہے حاجات انسانی اور ضروریات زندگی کے وسائل برابری کے بنیادوں پر بانٹنا ہے، تیسرے اصول کی معنی ہے کہ  وَقَطَّعْنَاهُمْ فِي الأَرْضِ أُمَمًا (168-7) ہم نے قبائل انسانی اور انکی نسلوں کو بانٹا ہے زمینی خطہ جات کے اندر مادری نسلوں کے حساب سے ،ان کے لئے مقرر کئے ہوئے وہ زمینی علائقے اس وقت تک انکے ہاں رہیں گے جب تک ان کے اعمال انسانی مفادات عامہ کیلئے مفید ہوں اور مضرت رساں نہ ہوں۔ جیسے کہ فرمایا کہ وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الأَرْضِ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللّهُ الأَمْثَالَ (17-13) اور ایسے صالحین اور مستحقین کے لئے انکے زمینی علائقوں پر موروثی حد تک استحقاق رکھنے کیلئے فرمایا کہ يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الأَرْضَ المُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللّهُ لَكُمْ وَلاَ تَرْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِينَ(21-5) اگر کسی قوم کے اعمال اور نظریات انسان دشمن ہونگے تو پھر انکا حشر  ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُواْ إِلاَّ بِحَبْلٍ مِّنْ اللّهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَآؤُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُواْ يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللّهِ وَيَقْتُلُونَ الأَنبِيَاء بِغَيْرِ حَقٍّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُواْ يَعْتَدُونَ(112-3) دنیا بھر میں ذلت کے مارے ٹھوکریں کھاتے ہوئےرہنا ہوگا۔ غور کیا جائے کہ یہ دونوں آیتیں یہودیوں کے حوالے سے ہیں سو اگر کوئی قوم شرافت سے زندگی بسر کرتی ہے تو اسے زمینی علائقہ لکھت میں دیا جاتا ہے اگر انسان دشمن روش چلتے ہیں تو ان کو لکھت میں دیا ہو ملک بھی ان سے چھینا جاتا ہے۔ محترم قارئین! ان تین اصولوں میں سے دو عدد اصول حیات کا تعلق دنیاوی اور اخروی حیات کے دونوں جہانوں سے ابدی طور پر ہے البتہ تیسرے اصول نیشنلزم کا تعلق صرف دنیاوی حیاتی سے ہے۔ آگے آخرت کے جہان میں جیسے کہ وہاں توالدو تناسل نہیں ہوگا اس لئے وہاں نیشنل ازم منسوخ قرار دیا جائیگا (101-23) (جملہ معترضہ) آخرت کے جہان میں جنت کی زندگی میں قرآن حکیم نے جو بتایا ہے کہ ایک مرد کو جوڑیدار ایک عورت دی جائیگی (54-44) لیکن وہاں انکے درمیان شوہر اوربیوی والا دنیاوی وظیفہ زوجیت یعنی جماع اور ہمبستری کا فعل نہیں ہوسکے گا جبکہ خاص کرکے مسلم امت کے امامی علوم بنانے والوں نے آخرت کی جنت کو غلط طور پر اپنی روایات سے ان گنت حوریں دلانے کی باتوں سے اسے جنسی عیاشی کا اڈہ بنارکھا ہے۔ (جملہ معترضہ ختم)
عالمی سامراج کے ستون جاگیرداریت، سرمایہ داریت، مذہبی پیشوائیت نے منظم ہوکر علم وحی کے توڑ اور رد میں کئی سارے اپنے علوم ایجاد کئے ہیں، ان کا ایسا سلسلہ جناب نوح علیہ السلام کے زمانہ نبوت سے بھی پہلے کا ہے لیکن اللہ بھی انکے اتحاد ثلاثہ کی ایسی شیطانی سازش کے مقابلہ میں وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ(52-22) اپنے علوم وحی کو جو عقل پر مبنی سیکیولر ازم ہے (105-12) اور معاشی برابری والا سوشل ازم ہے (10-41) (71-16) اور وطنی موروثیت کے استحقاق کا نیشنل ازم ہے (21-5) (84-2) (246-2) ان سب کو اپنے نبیوں کی معرفت بھیجی ہوئی تعلیم میں محکم بناتا ہوا آرہا ہے (52-22) جناب قارئین! تحفظ انسانیت اور فلاح انسانیت کے علم کے ان تینوں موضوعات سے سامراجی پرورہ دانشوروں اور مذہبی پیشوائیت کے خانوادوں کی جنگیں جو علمی محاذ اور تیروتفنگ کے محاذوں پر ہوئی ہیں ان کے تفاصیل والی کتابوں سے مارکیٹ بھری پڑی ہے، اہل مطالعہ جانتے ہونگے کہ ان تینوں علمی موضوعات سیکیولرازم-سوشل ازم-اور نیشنل ازم کے خلاف جنگ صرف سرمایہ داروں جاگیرداروں اور مذہبی استحصالیوں کی ہوتی ہوئی آر ہی ہے۔ عراق کے ساتھ نیٹو والوں کی جنگ اس لئے ہے کہ پرماری سامراج ان کی زمینی دولت پر قابض ہوجائے اور عراقی عرب اپنی دھرتی کے بچانے والے نظریہ نیشنلزم سے دستبردار ہوجائیں،  کرایہ کے کسی دانشور کے نظریہ پرکہ ہر ملک ملک ماست کہ مالک خداء ماست کے قائل ہوکر اللہ کی زمین اللہ کی پیدا کردہ اقوام عالم کی یکساں طور پر مشترک ملکیت کر کےمانیں جس سے اللہ کی مخلوق ہونے اور اسے اپنا خالق جاننے میں نیٹو کے سارے استحصالی ممبر ملک بھی برابر کے شریک بننے کی دعوی کر کے غریب ملکوں کی زمینیں ان پر قبضے کررہے ہیں عراق اور افغانستان میں نیٹو کی افواج سے لڑنے کا بنیاد عرب اور پختون قوموں کا نظریہ نیشنلزم ہے جس کے بل بوتے پر وہاں پر ماریوں کے مقابلہ میں لڑ رہےہیں، رہا سوال  پاکستان کے نیشلزم کا سو وہ تو اپنی زمین کے ہوائی اڈے  بھی نیٹو افواج کے حوالے کئے آرہا ہے بتایا جائے کہ یہاں کا نیشنلزم کہاں گیا؟ سو اس بات کا جواب سب لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان عمر کے لحاظ سے تو اسرائیل کا جڑوان بھائی ہے لیکن فکر اور نظریہ کے لحاظ سے بھی اسکا جڑوان بھائی ہے یعنی مذہب کے نام سے ریاست قائم ہونے میں دونوں برابر ہیں۔ دونوں ملکوں کا قیام فری میسنری عالمی سامراج کی کارستانیوں کا مرہون منت ہے۔ درباری بکاؤ مال مذہبی پیشوائیت نے قرآن کے دئے ہوئے نظریہ نیشنل ازم کو نہایت ہی انسان دشمن اور متعصبانہ نظریہ مشہور کر کے ممنوع اور رسوا کیا ہوا ہے، جبکہ زمینی وطن کے حصول کےلئے اپنے موروثی خطہ ارض کو حاصل کرنے کے لئے اللہ کے نبی جناب داؤد علیہ السلام کی سرپرستی میں جنگ لڑی گئی ہے، جو اللہ کے نبی کی جانب سے مقرر کردہ کمانڈر اور بادشاہ طالوت کی کمانڈ میں خالص حصول وطن کے لئے تھی، جس کا تفصیل آیت نمبر (246-2) سے (251-2) تک پڑھ کر دیکھا جائے ان آیات کی ساری جنگی ماجرا حصول وطن والا نیشنل ازم ہے جسکا ثبوت قرآنی دلائل پر مبنی ہے۔ بادشاہ طالوت کی قیادت میں مخالف بادشاہ جالوت پر فتح کو اللہ نے اس وقت کے اصلی اور حقیقی حکمران اللہ کے نبی جناب داؤد علیہ السلام کے نام پر بتایا گیا ہے کہ فَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ اللّهِ وَقَتَلَ دَاوُدُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاء وَلَوْلاَ دَفْعُ اللّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الأَرْضُ وَلَـكِنَّ اللّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ (251-2) وطن اور دیار کے تحفظ اور حصول کے لئے انبیاء علیھم السلام کی سرپرستی میں لڑائیوں اور جنگوں کا ذکر آپنے ملاحظہ فرمایا نیشنلزم کا ایک یہ پہلو وہ ہوا جو جغرافیہ سے متعلق ہے جو گھروں سے لیکر ریاست اور مملکت تک کو محیط ہے اسکے علاوہ نیشنلزم کا دوسرا  پہلو  زبان رنگ نسب قبیلہ اور قوم والا بھی ہے تفصیلی طور پر تو وہ کتاب کے اندر موجود ہے لیکن اسکا بنیادی ثبوت قرآن سے آیت کریمہ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (13-49) وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ (22-30) میں ہے اس   میں انسانی آبادی کی شعوب اور قبائل میں تقسیم یہ نیشنل ازم کے سنگ بنیاد کا نشان ہے جس کو سامراجی ذہنیت کے مذہبی دانشور صرف تعارفی ضرورت تک محدود قرار دیکر آگے گونگے بن جاتے ہیں کہ اقوام عالم کا جدا جدا قبائل میں ہونا (13-49) جدا جدا زبانوں اور بولیوں میں باتیں کرنا (22-30) جدا جدا رنگوں میں ہونا ان تمیزوں پر انسانوں کا تعارف آخر کیوں؟ یہ سب اس لئے کہ کوئی استحصالی پر ماری کسی نسلی قوم جدا  رنگت اور بولی والی قوم کی نسل کشی کرکے انہیں اللہ کی جانب سے دئے ہوئے وطن اور ریاست کو نہ چھین جائے اسکی بولی کو نہ ملیا میٹ کردے جس طرح  آج کے دور میں سندھیوں کو انکی تاریخی اور قومی حیثیت سے صرف اس لئے محروم کیا گیا ہے جو وہ میانی اور پھلیلی کے کناروں پر انگریزوں کے مقابل صف آرا ہوکر مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کے نعرہ پر لڑے تھے اور جب تالپور حکمران نے شکست قبول کرتے ہوئے میجر آؤٹ رام کے قدموں پر اپنی تلوار رکھی تو پھلیلی کے دوسرے کنارے کھڑے ہوئے سندھی فوجیوں نے للکار کر میجر آئوٹ رام کو کہا کہ باندر کے بچے یادرکھنا یہ تو میر غدار ہوا ہے لیکن ہم نے شکست قبول نہیں کی۔ آج سندھی قوم کے ذہنوں سے کئی قسم کے حربوں کے ساتھ ان سے قومی اور وطنی تحفظ والا نظریہ نیشنلزم چھینا گیا ہے سندھی قوم اپنی قدرتی موروثی حقوق کی بقا اور حصول کی جنگ ہارچکی ہے ان کا رویہ بتا رہا ہے کہ وہ شکست قبول کر چکے ہیں ان کے نام نہاد پارلیمانی نمائندے اسمبلیوں میں بکاؤ مال اور زندہ لاش کےمثل ہیں ان کو اپنے نظریہ قومیت کی الف بے بھی معلوم نہیں ہے۔ انکے مقابل بلوچستان کے قبائل چہ جائیکہ وہ سندھیوں کے مقابلہ میں تعلیم کے میدان میں پیچھے ہیں پھر بھی وہ لوگ قومی غیرت سے سرشار ہیں انکا مقابلہ اپنے نظریہ نیشنل ازم کے بل بوتے پر نہایت پختہ اور پائدار ہے، مرحوم میر غوث بخش بزنجو گورنر پلوچستان ذوالفقار علی بھٹو کے ایام اقتدار میں سوویت یونین گئے تھے وہاں پولٹ بیورو کے پانچوں ارکان نے ایک ساتھ انکا انٹرویو لیا جن سوالات میں خاص سوال یہ تھا کہ ہم اگر افغانستان تک آئیں تو افغانیوں کارد عمل کیا ہوگا۔ میر صاحب نے مجھے بتایا کہ میں نے انہیں جواب میں کہا کہ پختون لوگوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ انہوں نے اپنی دھرتی پر اغیار کو کبھی برداشت نہیں کیا، بہر حال سوویت حکومت افغانستان میں آئی، لیکن اسے امریکا نے بجاء پختون نیشنلزم کی قوت سے، اسلام خطرہ میں ہے اور اللہ کا وجود خطرہ میں ہے، کے نعرہ سے بھگایا، اب دنیا بھر سے کمیونزم کے کعبہ لینن گراڈ کے مسمار ہونے کے بعد جب سے امریکہ نیو ورلڈ آرڈر چلا رہا ہے اسکی جنگ افغانیوں کے نیشنل ازم کو شکست نہیں دے سکی ہے سو پختونوں سے قومی وطنی لسانی نیشنل ازم چھیننے کے لئے شروع میں تو انہیں قدرتی طور پر ملا ہوا نیشنلزم ان سے چھیننے کے لئے ان پر تبلیغی جماعت کے کٹک بھیجے جس کا بھی عالمی سامراج کے ہدف کے مطابق خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا، اسکے بعد اب دوسرے نمبر پر پختونوں کی نیشنلسٹ قیادت والوں کو خود کش حملوں کے ذریعہ سے مکمل طور پر ختم کرنا چاہا جب وہ لوگ سارے کے سارے مرنہ سکے تو پاکستان سرکار نے عالمی سامراج کی نوکری کرتے ہوئے لندن میں الیکشن سے کچھ مہینے پہلے کی پانچ رکنی میٹنگ میں عالمی سامراج نے حکم دیا کہ انجنیئرڈ الیکشن کے ذریعہ سے جو وہاں پختون نیشنل ازم کی وارث اور نقیب  عوامی نیشنل پارٹی ہے اس کو شکست دلا کر مثبت نتائج حاصل کرکے، تحریک انصاف پارٹی کو اور مذہبی پارٹیوں کو جتوایا جائے، اس سے جو جماعت اسلامی کو شریک اقتدار کرکے ان کو خصوصیت کے ساتھ وزارت تعلیم دی گئی ہے!!! یہ خاص اس لئے کہ انکی نئی نسل کو پرائمری سکولوں سے لیکر یونیورسٹیوں کی تعلیم تک دوقومی نظریہ گھٹی میں ڈالکر  پڑھایا اورپلایا جائے اور پختون قوم کو سنڈیمن کی بتائی ہوئی حکمت کہ پختونوں کو خریدا جائے اور انہیں ڈالر کی  چمک سے حقیقی اسلام اور قرآن کی جانب سے ملے ہوئے نیشنل ازم کو ان سے چھینا جائے، جس سے گرم پانی سے لیکر سنٹرل ایشیا تک عالمی سامراج کے تجارتی ٹرالوں کو پختونوں کا نیشنل ازم آنے جانے سے روک نہ سکے۔ لیکن افغانستان کی قوم اب تک اپنےقدرتی جذبہ نیشنل ازم کے ساتھ سامراج کے مقابل صف آرا ہے۔ عالمی استعمار پھر بھی طالبان کی تنظیمی قوت کو تسلیم کرتے ہوئے مذہبی چکموں کی رشوت سے انہیں فتح کرنے کی تگ ودود کر رہاہے۔ لیکن دنیا والے جانتے ہیں کہ طالبان ازم پاکستان آرمی کی نرسریوں میں پلاپوسا ہے اور طالبان کی حکومت کے امیرالمؤمنین ملا عمر کو اسلام سکھانے والا پاکستانی ایجنسیوں کا کرنل امام جو اسے پاکستانی اسلام سکھانے پر مآمور تھا پھر بھی ملا عمر کی حکومت کے خارجی تعلقات ان دنوں ہندستان کے ساتھ بہتر رہے اور پختونوں نے وقت آنے پر انہیں سامراج کا تیار کردہ نظریہ اسلام سکھانے والے کرنل امام کو قتل کرکے اپنے نیشنلزم اور قومی خودی کو پائندہ باد کرکے دکھایا۔








سیکیولر ازم۔۔۔۔ قرآن کی نظر میں
احبارو رہبان یہود نصاریٰ کے ہوں یا مسلمانوں کے علماء سوہوں، سب کے رشتے اور تانے بانے آپس میں ملتے ہیں، دنیا میں جہاں انسانوں کے ساتھ ظلم وزیادتی ہوئی ہے وہاں علم کے ساتھ بھی بڑی زیادتیاں کی گئی ہیں کہاں لفظی ہیرا پھیری کے ذریعے تحریفیں کی گئی ہیں، تو کہیں معناؤں میں۔ علمی دنیا کی اصطلاحات میں لفظ سیکیولر کی اصطلاح بھی بڑی مظلوم ہے۔  اس کی تفصیل تولمبی چوڑی ے جس کا یہ موقعہ محل نہیں ہے۔ مجھے یہاں صرف سیکیولر لفظ سے متعلق گزارش کرنی ہے، اس کے لیے میں نے صرف تین عدد ڈکشنریاں دیکھی ہیں۔ اب بعض علمی شخصیتوں نے بشمول بانیء طلوع اسلام علامہ پرویز صاحب کے اس کی معنی میں اپنی طرف سے اضافے فرمائے ہیں کہ لادینیت، لامذہبیت، انکار وحی اور وحی والے مذاہب کے برعکس، عقل پر چلنا وغیرہ وغیرہ۔
جناب قارئین! اس لفظ اور اصطلاح کا معنوی پس منظر انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا نے بھی جو لکھا ہے وہ بھی کلیسیائی پادریوں اور سائنسدانوں کی جنگ کی ایک قسم کی تفصیل اور تاریخ ہے، باقی براہ راست لفظی اشتقاق اورتحقیق اس میں بھی نہیں کی گئی، شاید اس لئے بھی کہ اس کے مصنف نے لفظی تحقیق کو اہل لغت اور گرامر کا کام قرار دیا ہو، میں انگلش سے تو مکمل انجان ہوں پھر بھی ڈکشنری کی مدد سے سیکیولر لفظ کے مادے کے مشترک صیغے معناؤں کے ساتھ عرض کرتاہوں، پھر ان کا کامن مفہوم اور قدر مشترک آپ سمجھیں، انگلش اسپیل کے ذریعے لکھنے سے مجھے معافی دیں، رومن انگلش اردو کے سہارے پیش کرتاہوں، اسکلپ، اسکالپ کی معنی ہے کھوپڑی (یعنی دماغ و عقل کی جگہ) اسکالر کی معنی ہے عالم، اسکول کی معنی ہے علمی درسگاہ، سکولر  یا اسکیلڈ کی معنیٰ ہے ہنرمند، کاریگر اور مستری وغیرہ اسکولنگ کی معنی نصیحت و تعلیم، ایسی کیولیشن، کی معنیٰ ہے قیاس کرنا، اجتہاد کرنا، اسکولئم اور اسکولیئسٹ، کی معنی ہے، شرح کرنے والا اور حاشے لکھنے والا جبکہ انکے مقابلہ میں پاپائیت سے خوفزدہ دانشوروں نے لفظ سیکیولر کی معنی تو "دنیاوی" کی ہے لیکن بعض علاموں نے اس میں بھی اپنی طرف سے اضافے فرمائے ہیں کہ لادینیت، لامذہبیت اور انکار وحی وغیرہ وغیرہ۔
جناب قارئین! علامہ لوگوں کے اضافوں پر بھی ہم کچھ لکھیں گے لیکن ایک بات یہ تو سامنے آگئی کہ لفظ سیکیولر کے مادے کے مختلف صیغوں اور اشتقاقات سے یہ  طے پاگیا کہ جن چیزوں کا تعلق دماغ سے ہو عقل سے ہو جو چیزیں علم تحقیق، ریسرچ، اور اجتہاد سے تعلق رکھتی ہوں اور دنیاوی انتظامات سیاسی ایڈمنسٹریشن کے مفہوم سے متعلق ہوں یہ سب اسی لفظ سیکیولر کے مادے کی مختلف شکلوں کی معنائیں ہیں، جن سب صیغوں کا معنوی قدر مشترک بنتا ہے، عقل دانش سے بصیرت سے دنیا کو چلانا، دنیا کو علم و عقل سے سمجھنا ہے، درسگاہوں میں، اجتہاد کے غورو فکر سے، دنیا کے مسائل حل کرنا وغیرہ۔ تو اب جناب عالیٰ ان چیزوں کا ان معناؤں کا انکار کیا ہے کلیساؤں کے پادریوں نے خانقاہوں کے سجادہ نشینوں نے احبار و رہبان اور جامد عقل والے نذرانوں پر پلنے والے عالموں نے، جن کے ہاں اجتہاد پر بندش ہے، جو لوگ تقلید محض پر چلنے والے "انا وجد نا آبائنا علیھا " کا نعرہ لگانے والے خشک دماغ لکیر کے فقیر، سائنس و ایجادات عالم کے دشمن لوگوں نے، اب مناسب ہوگا کہ قرآن سے معلوم کریں کہ اس کی نظر میں علم وحی کیا ہے؟فرمان ہے کہ۔ وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُواْ لَوْلاَ اجْتَبَيْتَهَا قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يِوحَى إِلَيَّ مِن رَّبِّي هَـذَا بَصَآئِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (203-7) یعنی اے رسول! جب تو ان استحصالی مترفین کو ان کی منہ مانگی آیتیں نہیں دے رہا تو یہ لوگ تجھے کہتے ہیں کہ اگر اللہ کی طرف سے ایسی آیتیں تجھے نہیں مل رہیں تو کوئی بات نہیں تو  اپنی طرف سے ہمارے مقصد کی آیات گھڑ کر دے دے۔ تو اے محمد(علیک السلام) تو ان کو جواب میں بتاؤ کہ میں تو تابعداری کرتا ہوں اس کلام کی جو میری طرف میرا رب وحی کرتا ہے، اور  وہ وحی کوئی ایسی ویسی چیز نہیں ہے،وحی کی فرمودات یہ تو تمہارے پالنے والے کی طرف سے بصیرت کے فارمولے ہیں، یہ تو عقلمندی کی باتیں ہیں، جو ہدایت اور رحمت ہیں ایمان والے لوگوں کے لئے (203-7)۔
جناب قارئین! دیکھا وحی کا تعارف قرآن کی طرف سے! اصل میں کلیسائی پنڈت ہوں یا مسلم امت کے سرکاری اور سرمایہ داروں کے عطیات پر پلنے والے احبارو رہبان عالم ہوں، ان لوگوں نے سائنسدانوں سے جو دشمنی پال رکھی ہے یہ ان کے پیٹ کا مسئلہ تھا اور ہے یہ ان کے اقتدار کا مسئلہ تھا اور ہے جو وہ وحی کو عقل و حکمت سے جدا کئے ہوئے ہیں۔ آپ نے اب اس آیت کریمہ میں دیکھا کہ اللہ وحی کو بصیرت اور علم و عقل کی چیز قرار دے رہا ہے اور یہ بات صرف قرآن کے وحی کے لئے نہیں ہے بلکہ موسوی دور کے انبیاء کی کتابیں جو وحی کی گئیں تھیں ان سب کے لئے بھی یہ فرمان ہے کہ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ مِن بَعْدِ مَا أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولَى بَصَائِرَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (43-28) یعنی  موسیٰ کو ہم نے کتاب دی اور وہ اس دور میں جب کہ اس سے پہلے کئی ادوار کے باغی اور منکر لوگ ہم ہلاک کر چکے تھے، اور جو کتاب ہم نے دی تو وہ بھی بصائر للناستھی یعنی لوگوں کے لئے بصیرت والی عقل و فہم والی کتاب اور ہدایت اور رحمت تھی تاکہ وہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔ مطلب کہ علم وحی ہر دور کا ہے ہی بصیرت کی چیز۔
جناب قارئین! غور فرمائیں کہ علم وحی ہے ہی حکمت اور عقل کی چیز یعنی وحی کا علم خالص سیکیولر ہے، یہ جو ڈکشنریوں میں سیکیولر کی معنی لکھی ہوئی ہے (دنیاوی) یعنی دنیا کا نظم و نسق چلانا تو یہی کام تو اللہ نے انبیاء کو وحی دے کر حکم دیا تھا کہ دنیا کی حاکمیت فرعون اور قارون جیسے ٹرائیبل اور سرمایہ داروں سے چھین کر تم چلاؤ! دنیاوی نظم و نسق بدمعاشوں سے چھین لو! یہ دنیاوی نظام تم انبیا جیسے صالحین اور نیکوکاروں کو چلانا ہے! جناب قارئین! استحصالی سامراج کے ساتھ اندرونی گٹھ جوڑ سے کلیسیائی پادری اور آج کے خانقاہی ایجنٹ علماء آج تک دین اور دنیا کو جدا کئے آرہے ہیں، آج بھی آپ کو رائیونڈ اور تصوف کی خانقاہوں میں حکمرانی اور دنیا پر حاکمیت کو دنیاوی خلفشار کہہ کر اس سے نفرت سکھائی جاتی ہے جب کہ جناب رسول علیہ السلام کو اللہ عزوجل حکم دے رہے ہیں کہ إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللّهُ وَلاَ تَكُن لِّلْخَآئِنِينَ خَصِيمًا (105-4) یعنی اے رسول ہم نے تیری طرف حق کے ساتھ کتاب نازل کی ہے وہ اس لیے کہ تو حکومت کرے لوگوں کے درمیان اللہ کی دی ہوئی بصیرت سے یعنی سیکیولر سسٹم پر عقلمندی سے دنیا کا نظام چلاؤ، اس آیت میں جناب رسول علیہ السلام کو حکمرانی کا بھی حکم دیا گیا ہے جو ڈکشنریوں میں سیکیولر کی معنی دنیاوی نظام چلانا لکھا ہوا ہے اور اس آیت میں اللہ اپنے رسول کو فرما رہا ہے کہ حکومت چلاؤ "بمااراک اللہ" اپنی خداداد بصیرت سے اور وحی کا علم علم بصیرت ہے اور بصیرت کی معنی فہم و فراست اور عقلمندی ہے اور آپ لغت کے لحاظ سے مضمون کے شروع میں پڑھ کر آئے کہ سیکیولر کی معنی عقل دماغ ہنر علم اور اجتہاد ہے اب لغت کے لحاظ سے جب لفظ سیکیولر کے اشتقاقات کو ملانے کے بعد معنی بنتی ہے دنیاوی نظام چلانا عقل سے علم سے اجتہاد سے تو سورہ نساء کی آیت نمبر 105 اور سورت یوسف کی آیت 105 سے لے کر 108 تک ملاکر پڑھ کر دیکھیں کہ سیکیولر بنیادوں پر حکومت چلانا سیکیولر طریقوں پر اٹھنا بیٹھنا یہ سب قرآن نے سکھایا ہے سیکیولر طریقہ زندگی یہ قرآن کی عطا ہے، یہ قرآن کی دین ہے ملاحظہ فرمائیں سورت یوسف کی آیت وَكَأَيِّن مِّن آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ (105-12)۔
جناب قارئین! غور فرمائیں کہ قرآن حکیم ہم سائنس دشمن بے عقل و بے سوچ لوگوں کی شکایت کر رہا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی بڑی نشانیاں ہیں، قرآن کے پیغام اور میسیج کو سمجھنے کے لئے سارے آسمان و زمین بھرے پڑے ہیں لیکن یہ لوگ ان پر سے گزرجاتے ہیں اور ان کے حقائق پر غور ہی نہیں کرتے اور جن لوگوں نے ان آیات سماوی و ارضی پر غور کرکے ٹی وی ایجاد کیا، فیکس ایجاد کی، موڈیم ایجاد کیا، خلاؤں میں سیٹلائیٹ اسٹیشن نصب کرکے شہداء علی الناس بن گئے ان کو تو تم سیکیولر کے نام سے بے دین اور لادین قرار دے رہے ہو اور تم جو ہو جس کلکیولیٹر پر اللہ کے ناموں کی گنتیاں کر کر کے اپنے آپکو اللہ کے بڑے مطیع کہلوا رہے ہو تم سے تو یہ کلکیولیٹر بھی نہیں بن پایا، اور اسے دکانوں سے خرید تے وقت کہتے ہو کہ میڈ ان جاپان کلکیولیٹر (تسبی) دینا، اب ہواؤں اور خلاؤں میں کمیونیکیشن کے ذریعے "واذالنفوس زوجت" دنیا گلوبل ولیج ہوگئی ہے جس کا موبائل فونوں کے ذریعے انتظام دنیا کو مربوط کئے ہوئے ہے"سخرلکم مافی السماوات والارض" تسخیر کائنات کے عمل کو رموٹ کے ذریعے کنٹرول اور مسخر کئے بیٹھے ہیں یہ سائنس دان عقلی اور سیکیولر طریقوں پر چلنے والے تمہارے فتواؤں کی بندوقوں سے کافر قرار دیے ہوئے ہیں، لیکن ہمارے پیشوا محمد علیہ السلام تو فرما رہے ہیں کہ قُلْ هَـذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللّهِ وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ(108-12) فرمان رسول ہے کہ میرا یہ راستہ جس کی طرف اللہ سے ملانے کے لئے بلاتاہوں یہ عقلمندی ولا راستہ ہے (یہ سیکیولر ہے یہ عقلمندی والا راستہ ہے) اور صرف میں اکیلا نہیں بلکہ یہ بھی سمجھ لو کہ جو بھی شخص میرا کہلائے گا اس کے کھرے یا کھوٹے ہونے کی نشانی اور سچے یا جھوٹے ہونے کی نشانی یہ ہوگی کہ اگر وہ بصیرت، دانش اور عقلمندی کی بات کرتا ہے تو وہ میرا ہوگا، اگر وہ جھوٹی خلاف عقل کرامتوں اور معجزوں کی غیر قرآنی باتیں کرتا ہے تو یقین کرلو کہ وہ میرا نہیں ہے، ہم میں سے نہیں ہے، جناب قارئین اس آیت کریمہ کے آخر میں جو جملہ ہے کہ "وما انامن المشرکین" تو اس کی معنی ہے کہ میں کسی دوسرے علمی مأخذ کسی دوسرے علمی اسکول کو قرآن کے ساتھ شریک نہیں بناتا، یعنی قرآن کی علمی رہنمائی کے ساتھ کسی دوسرے علم کو اپنا رہنما نہیں بناتا۔ شرک بالقرآن نہیں کرتا، جب کہ پاکستان اور بقیہ عالم اسلام مین دینیات کے موضوع پر اہل فارس کے اماموں کی خلاف قرآن وحکمت حدیثیں اور ان پر بنایا ہوا تفسیر اور فقہ تو پڑھایا جاتا ہے لیکن تفسیر القرآن بالقرآن یعنی اللہ نے اپنی کتاب کی تفسیر جو خود بتائی ہے (1-11) اسے دینی مدارس کے مولویوں نے اپنے گھڑے ہوئے درس نظامی کے نصاب سے خارج کیا ہوا ہے، جو اللہ کا بتایا ہوا طریقہ تعلیم عقل پر چلنے کی سیکیولر تعلیم دیتا ہے، جس قرآنی تعلیم نے انسانوں کو غلام بنانے پر بندش لگائی ہوئی ہے اور شرک بالقرآن کے طور پر جو علم حدیث و فقہ پڑھایا جاتا ہے اس میں آج تک غلامی کو جائز لکھا ہوا ہے، اور قرآن جو سیکیولر کتاب ہے جو عقل پر چلانے والی کتاب ہے (105-12) اس نے نابالغ بچوں کے نکاح اور شادی پر پابندی لگائی ہوئی ہے اور قرآن کے ساتھ شریک بنائے ہوئے علوم حدیث فقہ اور تفسیر بالحدیث میں نا بالغ بچوں کی شادی کو جائز کیا ہوا ہے اسلام کے شروع والے زمانے میں جب مسلم امت قرآن سے دین سیکھتی تھی اور اہل فارس کی حدیثیں اور ان کا غلام سازی والا فقہ ابھی امت کے اسکولوں اور مدارس میں قرآن کا شریک نہ بن سکا تھا، تو امت مسلمہ کی اولاد نے ان دنوں سائنسی علوم میں بڑی ترقی کی تھی اتنی حد تک جو آج کی ساری سائنسی ترقی کی بنیادیں وہاں سے ملی ہیں، عجب  بات ہے، سوچنے کی بات ہے کہ قرآنی علوم کے معاشرہ میں، مسلم سائنسدانوں کو کوئی رکاوٹ تو نہیں ہوئی، بلکہ وہی سائنس دان اصل میں قرآن کے بھی بڑے ماہر تھے اور خود ملت اسلامیہ کے سیاسی حل و عقد میں برابر کے شریک بھی تھے اس موضوع پر میں قارئین کو جناب حافظ محمد اسماعیل مرحوم مہتمم مدرسہ مظہر العلوم کھڈہ کراچی کے مضامین جو اس کے مجلہ منبر الاسلام وغیرہ میں چھپے تھے پڑھنے کا مشورہ دوں گا اور اسلام کے اوائلی دور میں یہ غلام سازی اور نابالغ بچوں سے نکاح کے امامی علوم فقہاء فارس کے ایجاد کردہ ان دنوں سارے کے سارے انڈر گراؤنڈ مدون ہورہے تھے۔ اور انہیں جرأت بھی نہیں تھی کہ وہ اپنے علوم کو بر سرمیدان لاسکیں یہ جو تاریخ نے لکھا ہے کہ زیدی شعیوں کے امام اعظم ابوحنیفہ کو ہارون رشید نے جیل میں ڈالا کہ تو ہماری حکومت کی سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنویہ سب تاریخ کے جھوٹ ہیں کیا پڑھنے والوں نے امام ابو یوسف کی طرف سے اپنی کتاب، کتاب الاموال میں ہارون رشید کی چمچہ گیری کو نہیں پڑھا؟۔ اور ان خلفاء کو جاگیریں رکھنے کے جواز کا فقہ خلاف قرآن انہوں نے اپنے دفاتر میں ایجاد نہیں کیا؟ بہرحال اس مضمون میں میرا یہ موضوع نہیں ہے ورنہ سب اہل مطالعہ لوگ جانتے ہیں کہ امام مالک کو مدینۃ الرسول میں برسربازار کوڑے پڑے اور امام احمد بن حنبل کو قرآن دشمن نظریہ یعنی قرآن پر ریسرچ بند کی جائے اس سے مسائل اخذ نہ کئے جائیں اس لئے کہ وہ قدیم ہے اور مسائل کی ضروریات جدید ہیں اس لئے ایسے مسائل کیلئے قدیم کتاب اور کلام سے رہنمائی نہیں مل سکے گی اس لئے کہ ان کے فارسی اماموں کی جھوٹی حدیثوں سے صغیر بچیوں کے نکاح کرانے تھے، تو ماموں رشید نے اس کی بھی پٹائی کرائی ان دنوں اثنا عشری امام تو تقیہ کے برقعوں میں انڈر گراؤنڈ تھے مجھے یہاں  یہ عرض کرنا ہے کہ خلافت اسلامیہ میں جو آل بویہ اور پرشن اسپیکنگ برامکہ خاندان والے بیوروکریسی پر براجمان تھے ان کی رہنمایوں سے امام مافیا کے ایجاد کردہ قرآن دشمن علوم حدیث و فقہ کو تفسیر القرآن بالقرآن کی جگہ تفسیر القرآن بالا حادیث مدون کیا گیا،  تاتاریوں اور منگولوں کے حملوں کے وقت بھی خلافت عباسیہ کا وزیراعظم ابن علقمی باطنی مذہب کے تھے یعنی اندر کچھ اور باہر کچھ تھے۔ جو میڈ ان فارس بھی تھے اور ہلاکو کے وزیراعظم نصیرالدین محمد بن طوسی بڑے غالی شیعہ تھے وہ بھی میڈ ان فارس تھے  ہلاکو بغداد پر حملہ کرنا نہیں چاہتا تھا اور وہ قرآن والی امت سے ڈرتا تھا، اسے ایک دن اس کی ابن علقمی والی مشینری نے ایک مجلس میں قرآن کو آگ لگا کر جلاکر دکھایا اور کہا کہ دیکھو اس کتاب کو ہم نے جلایا ہے تو اس نے ہمیں کیا کیا؟ اس لئے اس کتاب سے نہ ڈرو اور حملہ کرو اس کے بعد ہلاکو حملہ کے لئے بمشکل تیار ہوتا ہے بات عرض کرنے کی یہ ہے کہ سقوط بغداد کے بعد اور اسپین کے زوال کے بعد ہماری درسگاہیں اجاڑدی گئیں قرطبہ، اشبیلیہ اور غرناطہ کی یونیورسٹیاں ملیا میٹ کردی گئیں۔ مسلم علماء کے پاس قرآنی سائنس کے ارتقائی علوم اسپین میں جن عیسائی لڑکوں نے سیکھے تھے، وہ اپنے زمانے کے بڑے سائنسدان اور عالم بن گئے تھے مسلم امت میں اب قرآنی علوم پر بندش کے بعد انہوں نے جا کر لندن میں آکسفورڈ اور کیمرج یونیورسٹیوں کی داغ بیل ڈالی، پھر ان کی نسلوں میں جب سائنس دانوں نے ترقی کی اور قرآنی سیاسی رہنمائی سے "والشمس تجری لمستقرلھا" یعنی سورج سفر کرتا ہے اور زمین اور دوسرے کروں کے لئے بھی کہا کہ "کل فی فلک یسجون" یہ سارے کرے کہکشان کے اندررواں دواں ہیں، تو عیسائی پادریوں نے دیکھا کہ اب ان نئے سائنسی انکشافوں سے تو آگے چل کر یہ دنیا "واذالنفوس زوجت "کی منزل پر پہنچ کر گلوبل ولیج تک پہنچ جائے گی پھر ایسی کلوز کمیونیکیشن میں ہماری جھوٹی کرامتوں کا تو کباڑہ ہوجائے گا، اس سے انہوں نے اپنے کلیسائی اقتدار کو بچانے کے لئے اپنے کئی سائنسدان قتل کرائے، میں ان یورپی شہید سائنس دان علماء کو سلام کرتا ہوں جو نسل درنسل پھانسیوں پر چڑھتے رہے اور قتل ہوتے رہے بالآخر پادریوں کو ان کی للکار۔
ادھر آؤ ظالم ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
نے شکست دے دی اور ادھر علامہ اقبال کے شاہینوں کے ڈیروں پر زاغوں کے نشیمن بنے ہوئے ہیں اور علامہ اقبال اور اس کے دست راست علامہ پرویز نے جب مظلوم اصطلاح سیکیولر لفظ کی غلط تعبیر کی کہ اس  کی معنی لادینیت ہے تو اب پادریوں کوشکست دینے والے یورپین سائنس دانوں نے تو ستاروں پر کمند ڈالی ہوئی ہے وہ خلاؤں میں اپنے سیٹلائیٹ کے ڈیرے جما کر شہداء علی الناس بن گئے ہیں، اس کے بعد اب وہ مریخ کو فتح کرنے کیلئے کمندیں ڈال رہے ہیں ، رہے اقبال کے شاہین سو وہ پاکستان کے دو قومی نظریہ سے تنگ آکر پاکستان کے قید خانہ سے پنجروں کے پنچھیوں کی طرح (یورپ کی) آزاد فضاؤں میں جاکر بسنے کیلئے پرتول رہے ہیں، مجھے لاہور میں کسی دوست نے امریکا یاترا پر گئے ہوئے کسی نوجوان کی روایت سنائی کہ وہ وہاں ایک ہوٹل میں رہا تو بیرے منتظم نے اسے ٹی وی پر بلوپرنٹ کی مشق دیکھنے کی آفر کی تو اس نے اسے واہیات اور ناپسندیدہ قراردے کر انکار کیا تو اس نے کہا کہ یہ کونسی غلط ریت ہے، آپ کے ہاں تو جو مذہبی مقدس لوگ ہیں وہ بھی یہاں آکر اس سے مستفیض ہوتے ہیں آپ تو ینگ مین اور اسمارٹ مین ہیں آپ کیوں انکار کرتے ہیں؟ تو جناب قارئین! لفظ سیکیولر کی شروع مضمون میں اس سے مشتق صیغوں کی جو معنائیں آپ پڑھ کر آئے کہ کھوپڑی، عالم، علمی درسگاہ، ہنرمند، نصیحت و تعلیم، قیاس واجتہاد، شارح اور محشی۔ اب کوئی بتائے کہ اس لفظ کی معنیٰ کوئی بتائے کہ لادین بتانا کتنی تو بڑی جہالت اور تعصب کی بات ہے!!جناب قارئین لفظ دین کی ایک معنی قانون بھی ہے ایک معنی عدل و انصاف، اور عدالت بھی ہے۔ اب اگر پادریوں نے اپنے اقتدار کے بل بوتے پر سیکیولر کے مفہوم میں غیر وحی شدہ علوم اور کلچر شامل کراکر لغت کی کتابیں لکھنے اور چھاپنے والوں کو بھی انکی والی  ایسی معنیٰ لکھنے کیلئے مجبور بنادیا تو وہ تو صرف ایک صیغے اور اصطلاح سیکیولر پر ان کی کرفیو اور مارشل لا غالب آسکی ہے لیکن اس کے مادے کے دیگر اشتقاقوں والے صیغے تو چیخ رہے  ہیں کہ ہماری والی معنی وہی ہے جو محمد عربی علیہ السلام نے قرآن کے حوالہ سے بیان فرمائی کہ  قُلْ هَـذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللّهِ وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (108-12) یعنی میرا راستہ یہ ہے کہ میں عقلمندی اور بصیرت کی چیزوں کی طرف دعوت دیتاہوں اور جو لوگ عقل کو دانش کو فہم و فراست کو بصیرت کو وحی کے علوم اور مفہوم سے جدا کرتے ہیں وہ آیات ارض وسما پر غور نہیں کرتے (105-12) اور وحی کی عقل و دانش اور بصیرت والی معنیٰ بھی ماننے والے وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللّهِ إِلاَّ وَهُم مُّشْرِكُونَ(106-12) ان کی اکثریت نے قرآن کے ساتھ قرآن دشمنوں کے علوم بنام فقہ و حدیث شریک بنالئے ہیں، سو جان لو کہ ان پر ہمارا عذاب ایسی تو رازداری سے آئے گا جو یہ الٹ پلٹ ہوجائیں گے، ان کو پتہ ہی نہیں لگے گا۔(107-12)۔
آیت  نمبر (4-9) میں قرآن حکیم کی جو تعلیم ہے کہ مشرکین میں سے جنہوں نے تمہارے خلاف کوئی عہد شکنی نہیں کی اور وہ اپنے (امن کے ساتھ رہنے والے معاہدوں پر قائم ہوں) تو ایسے لوگ آپکے ساتھ معاہدہ کی میعاد تک ( شہر مکہ اور مسجد الحرام میں بھی) ایک ساتھ رہ سکتے ہیں ، جناب قارئین! یہ ہے قرآنی سیکیولر معاشرت کی تعلیم۔
قرآن حکیم کی سمجھائی ہوئی رواداری سے جو معاشرتی مفاہمت کی تعلیم ملی ہے وہ ملکی نظم و نسق کی وہ تو سیاسی رہنمائی ہے جسے غیر فرقہ وارانہ اور سیکیولر تعلیم ہی کہا جا سکتا ہے، جیسے کہ آیت (6-9) میں سمجھایا کہ جن مشرکین سے امن اور صلح کےساتھ رہنے والا معاہدہ ختم ہوجائے اس کے بعد ان میں سےکوئی ایک بھی فرد آپ سے پناہ مانگے تو آپکی حکومت پر لازم ہے کہ پہلے اسے پناہ دے، بعد میں اسے قوانین الاہی کی روشنی میں بہتر تعلقات سے آپس میں گذارنے کے فوائد سمجھائے ،اگر وہ آپکی ایسی تعلیم و تلقین کو نہ مانے تو ایسے شخص کو اسکے امن والے مقام تک حفاظت کے ساتھ پہنچایا جائے۔ محترم قارئین! یہ ہے قرآنی سیکیولر معاشرت کی تعلیم۔ آیت نمبر (256-2) کی تعلیم ہے کہ لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۔ یعنی ہدایت اور گمراہی کی راہیں واضح ہوچکی ہیں اسلئے کسی کو اپنا نظریہ منوانے کیلئے کوئی زور زبردستی  نہ کریں۔  جناب قارئین! یہ ہے قرآن حکیم کی سیکیولر تعلیم۔ بلکہ اس سے بھی بڑھکر آگے قرآن نے بتایا کہ  وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاء فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاء فَلْيَكْفُرْ (29-18) یعنی اے نبی!آپ لوگوں کو بتائیں کہ  آپکے رب کی جانب سے حق آچکا ہے ،اب جسکا جی چاہے ایمان لائے، جسکا جی چاہے کفر کی راہ اختیار کرے (ہمیں کسی کی پرواہ نہیں ہے) جناب قارئین یہ ہے قرآن حکیم کی سیکیولر اور غیر فرقہ وارانہ تعلیم جس میں مکمل طور پر استغنا چھلک رہی ہے۔
جناب قارئین! قرآن حکیم کی غیر فرقہ وارانہ اور جبر سے بے نیاز تعلیم کا کمال یہ ہے کہ اسکا اعلان ہے کہ وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا(73-25) کمال ہے قرآن حکیم کی سیکیولر انداز تعلیم کا، جس میں خود قوانین قرآن کیلئے بھی فرمایا گیا کہ کوئی ہماری اس کتاب قرآن کو بھی بہرا، اندھا ہوکر قبول نہ کرے، یعنی قرآن کو بھی کان کھول کر آنکھیں کھول کر پڑھو ۔ جناب قارئین! اتنی فراخ دلی اور غیر فرقہ وارانہ دعوت کسی بھی علمی اور فکری ادارے نے نہیں دی ہوگی۔ مزید برآں قرآن حکیم کی  سیکیولر تعلیم کا کمال یہ ہے کہ اسکا اعلان ہے کہ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (13-49) یعنی فضیلت برتری اور عظمت کامرتبہ، آنیسٹی اور پرہیزگاری پر دیا جائیگا اسکیلئے کسی حسب نسب اور نسلی برتری کی دعوائیں نہیں سنی جائیں گی۔ اگر کوئی حق بات کو،دین برحق کو ماننے سے انکار کرتا ہے تو حق کسی کا محتاج نہیں ہے ایسے لوگوں کو برملا کہا جائے کہ  لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ (6-109) جاؤ! تمہارا دین تمہارے ساتھ ہمارا دین ہمارے ساتھ، سو کوئی بتائے کہ اس سے بڑھکر سیکیولر سلوک اور  تعلیم کیا ہوسکتی ہے!!؟








دوقومی نظریہ قرآن کی نظر میں
لفظ قوم کی معنی و مفہوم:
جو افراد، جو لوگ، جو گروہ، جو جماعت جن جن اطوار، عادات، افعال، اوصاف، افکار و نظریات اور کئی سارے اقدار مشترکہ میں شریک ہوں گے یا افعال و اوصاف سے متصف ہوں گے اور موصوف ہوں گے وہ ان ان ناموں کی اوصاف کی قومیں کہلائیں گے- اگر جو کوئی انسانی گروہ ظالم ہونے کے حوالے سے مشہور اور موصوف ہے، تو ان کو قوم الظالمین کہا جائے گا۔ پھر اس قوم ظالمین کے افراد کیلئے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ نسلی لحاظ سے ایک ہونے چاہئیں۔ اگر کوئی بھی شخص ظالم اس کی قوم بنگالی ہے، سندھی ہے، پنجابی ہے، تاجک ہے، کوئی بھی ہو اگر ان سب قوموں میں سے ظلم کرنے والے لوگ چن کر جدا کئے جائیں گے تو یہ سب قوموں سے لئے ہوئے ظالم جدا جدا نسل ہونے کے باوجود قوم ظالمین ہونے میں یکساں طور پر شمار کئے جائیں گے، اب اس مثال پر اس طرح کی دوسری اوصاف بھی مراد لیں، قوم الفاسقین قوم مسرفین، قوم المجرمین، قوم العابدین، قوم الصالحین، تو اس طرح سے جو جولوگ ہم صفت اور مشترک اقدار میں شریک ہوں گے تو وہ ان قدروں کے نام کی قوم کہلائیں گے، پھر اس میں نسلی مشارکت وطنی جاگرافیکل مشارکت بھی ایک نسل میں شریک لوگ کوئی سی جدا جدا اوصاف رکھنے کے باوجود افکار اور نظریات رکھنے کے باوجود وحدت نسل کے لحاظ سے اس نسل کی قوم سے بھی شمار ہوسکیں گے مثال کے طور پر قرآن، کافر اور کافر صفت آدمی قارون کیلئے فرماتا ہے کہ: إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَى فَبَغَى عَلَيْهِمْ وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لَا تَفْرَحْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ (76-28) یعنی قارون نسلی لحاظ سے تو موسیٰ کی قوم سے تھا لیکن افکار و نظریات کے لحاظ سے اس نے موسیٰ سے بغاوت کی ہوئی تھی، اب اس مثال پر غور فرمایا جائے کہ قارون نسل کے لحاظ سے موسیٰ کا ہم قوم ہے، افعال و افکار میں باغی ہے اور افعال و افکار کے لحاظ سے فرعون کا ہم قوم قرار دیا گیا ہے، دوسری مثال ملاحظہ فرمایئے کہ قرآن نے بتایا کہ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ هُوداً قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـهٍ غَيْرُهُ أَفَلاَ تَتَّقُونَ(65-7) یعنی قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود علیہ السلام کو ہم نے بھیجا، تو اس نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم! اللہ کا کہا مانو! اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، اس آیت پر غور فرمایا جائے کہ قوم عاد کافر ہے ہود علیہ السلام اللہ کی طرف سے ان کے نبی ہیں اتنے بڑے فرق کے باوجود قرآن میں اللہ نے ان کی نسلی وحدت کا لحاظ رکھتے ہوئے فرمایا کہ قوم عاد کی طرف ان کا بھائی ہود ہم نے نبی بنا کر بھیجا، آگے پھر وہ نبی اپنے مخالفوں، کافروں، دشمنوں اور منکرین کو ہم نسل اور ہم قوم ہونے کی بنیاد پر پکارتا ہے کہ اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو! بالکل اسی طرح آگے فرمایا کہ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـهٍ غَيْرُهُ(73-7) یعنی ثمود قوم کی طرف ان کے بھائی صالح علیہ السلام کو بھیجا، یہاں بھی غور کیا جائے کہ باغی اور کافر قوم سے جسے نبوت دی جاتی ہے اس کے باوجود اس نبی کی اس کی کافر قوم سے اخوت اور برادری ٹوٹتی نہیں ہے، اللہ اس نبی کے اخوت والے رشتے کو اتنی ساری عداوتوں کے باوجود کوڈ کر رہاہے، شمار کررہاہے، کہ اے میری قوم۔ آگے اور بھی ایسی مثال ملاحظہ فرمایئے فرمان ہے کہ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـهٍ غَيْرُهُ(85—7) اب اس مثال میں اوپر کی دونوں مثالوں سے ایک نئی چیز کا اضافہ ہے، یعنی ایک رسول اور نبی کافروں کا ہم قوم تو ہوسکتا ہے۔ ایک اخوت اور قومیت تو ہوئی خونی رشتہ کی نسلی، لیکن اس سے آگے وطنی قومیت بھی ہم وطن ہونے کے ناطے شمار کی جاسکتی ہے، دھرتی اور جغرافیائی وحدت بھی قومی وحدت کی بنیاد بن سکتی ہے، تو اس کے لئے فرمایا کہ اہل مدین کی طرف، مدین علاقے والوں کی طرف ان کا بھائی شعیب علیہ السلام بھیجا، تو اس نے علاقے مدین والوں سے کہا کہ   "يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـهٍ غَيْرُهُ " آگے سورۃ عنکبوت کی آیت 36 میں شعیب علیہ السلام اہل مدین سے فرماتے ہیں کہ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَارْجُوا الْيَوْمَ الْآخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (36-29) یعنی اے میری قوم اللہ کا کہا مانو اسکے عبد بنو۔ غور کرنے والوں کے لئے قوم عاد اور قوم ثمود کے مثالوں کے بعد جناب شعیب علیہ السلام کا اس مثال میں جو تنوع اور تفرد ہے اس پر غور کرنا چاہیے جو اس مثال میں یعنی وحدت وطن اور علاقے کو اخوت اور قومیت کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ یہاں مناسب ہوگا کہ قوم لفظ کی اصلی لغوی، لفظی اور بنیادی معنی اس کے مادے قوم کے حوالے سے سوچی سمجھی جائے، وہ یہ ہے کہ جو گروہ، جو جماعت، جو افراد، جن جن چیزوں سے قوام (طاقت) حاصل کریں، قوت حاصل کریں، تو وہ گروہ، وہ افراد، اس قوت اور قوام دینے والی چیزوں کے نام کی قوم کہلائیں گے، اگر کچھ لوگ ایک نسل، ایک خونی رشتہ اور قبیلہ کے ہیں تو وہ اس نسل کے نام کی قوم کہلائیں گے، پھر اس میں نیک و بد اور مختلف افکار و نظریات والے برے بھلے سب ایک نسل سے ہونے کی بنیاد پر ہم قوم ہوں گے، اور ایک قوم کہلائیں گے، جیسے کہ آپ نے ابھی انبیاء علیھم السلام کی مثالوں میں یہ حقیقت ملاحظہ فرمائی، اگرچہ قرآن حکیم کی یہ مثال اس دعویٰ کہ کافرو مسلم ایک قوم سے ہوسکتے ہیں، اسے کوئی سامراجی عیسائی دانشور جان برائیٹ جیسا جو خالق ہے نظریہ پاکستان کا وہ مانے یا نہ مانے لیکن قرآن نے صاف صاف وطنی جغرافیائی بنیاد پر قومیت اور نسلی بنیاد پر وحدت قوم کا نظریہ پیش کردیا ہے، آپ اوپر کی مثالوں میں پڑھ کر آئے کہ اگر مجرمین کا گروہ جرائم کے بل بوتے، جتھہ بندی کئے ہوئے ہے تو قرآن انہیں قوم مجرمین کہتا ہے، اس طرح اگر فاسق اور بدمعاش اپنی فسق وفجور کی من مانی پر اجارہ داری کئے ہوئے ہیں تو قرآن انہیں قوم الفاسقین (26-5) کہتا ہے، بالکل اسی طرح ظالمین، صالحین، وغیرہ وغیرہ۔
علامہ اقبال اور علامہ غلام احمد پرویز اور دیگر مسلم لیگی ہمنواؤں نے خواہ مخواہ مولانا حسین احمد مدنی کو ان کےا س مقولے اور جملہ پر اسے خوار کیا اس کا ڈھنڈورا کرایا کہ اس کا یہ کہنا کہ  قومیں اوطان سے بنتی ہیں یہ خلاف اسلام ہے، اس کے لئے کہا گیا ہے کہ اس کا یہ کہنا ایسے ہے جس طرح شہر مکہ کی مٹی سےابوجھل فیض رسالت حاصل کرنے سے محروم رہا، اس طرح دیوبند کی مٹی سے بھی حسین احمد ابوجھل کی طرح محروم رہا۔ میں اس موضوع پر تو کچھ کہنا ضروری نہیں سمجھتا کہ حسین احمد لاجواب ہوا یا نہیں لیکن میں علامہ اقبال اور علامہ پرویز جن کے لیے میں پہلے اقرار کرتا ہوں کہ وہ دونوں مجھ سے قرآن کی فہم میں بڑے عالم تھے، اس کے بعد بھی یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ مسئلہ قومیت میں حسین احمد مدنی نے درست کہا تھا اور یہ دونوں علامے غلط مؤقف پر ہیں۔ ان علاموں کا نظریہ دوقومی نظریہ، خلاف قرآن تھا اور ہے (جس کا سبب کوئی خارجی غیر علمی داعیہ اور پریشر ہوسکتا ہے) ابھی آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ جناب شعیب علیہ السلام اپنے وطنی بھائیوں کو اے میری قوم کہہ کر پکار رہے ہیں، اور اللہ بھی اس کے گرائیں ہم علاقہ وطنی بھائیوں اہل مدین کے لئے فرما رہا ہے کہ ان کی طرف ان کے بھائی شعیب علیہ السلام کو ہم نے بھیجا پھر شعیب علیہ السلام کا بھی ان کو خطاب یا قومی سے ہے، یعنی اے میری قوم، تو یہ ہے قرآن کے لحاظ سے وطنی قومیت، یہ ہے وحدت وطن کی بنیاد پر قومیت، علامہ اقبال تو پاکستان بننے سے پہلے ہی فوت ہوگئے اور علامہ پرویز 85ء میں فوت ہوئے لیکن ان کے لئے مجھے پتہ نہیں کہ انہوں نے اپنے موافق تخلیق شدہ ملک کا ڈومیسائل اور شناختی کارڈ بنوایا تھا یا نہیں، یہ بات میں اس لئے کہتا ہوں کہ ان کا فارم بھرنے سے قومیت کے سوال کے جواب میں پاکستانی لکھنا پڑتا ہے جو کہ ایک مخصوص زمینی علاقے پر مشتمل وطن کا نام ہے، اور اس سے مولانا حسین احمد مدنی کا یہ فرمانا کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں، آج کل پاکستان کا نیشنلٹی کارڈ، اور اس کا پروفارما، علامہ اقبال اور پرویز کے نظریہ کے خلاف مولانا حسین احمد مدنی کے نظریہ پر چل رہا ہے۔ اب کوئی بتائے کہ حضرت مدنی کو ابوجہل سے نسبت دینے والے اس مملکت کیلئے کیا کہیں گے جو وطنی قومیت پر رواں دواں ہے، اور پاکستان میں رہ کر اس کا وطنی قومیت کا ڈومیسائل اور شناختی کارڈ لینا دینا اسپر فریقین کو کس کیمپ سے قرار دیں گے ویسے علاقہ اقبال اور علامہ پرویز نے تو قرآن کو رد دے کر جان برائیٹ عیسائی علیگڑھ کالیج کے پروفیسر کے غیر قرآنی نظریہ قومیت کو اسلامائیز کرنے کی کوشش کی ہے، پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ لاہور کی کتاب بنام "مطالعہ پاکستان برائے جماعت دہم، صدر پرویز مشرف اور وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کے پیغامات سے شائع شدہ کتاب میں صفحہ نمبر 20 پر دوقومی نظریہ کا ارتقاء کے عنوان میں یہ لکھا ہوا ہے کہ دوقومی نظریہ علامہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد سے منسوب کیا جاتا ہے حالانکہ یہ خطبہ دوقومی نظریہ کا آغاز نہیں بلکہ ارتقاء کا نقطہ ہے۔ اس سے بہت پہلے ایک انگریز مفکرجان برائیٹ۔۔۔۔۔۔۔، جناب قارئین اس سرکاری نصابی کتاب کے مرتبین و مصنفین نے بڑے تفنن سے کام لیا ہے وہ اس طرح کہ علامہ اقبال کو نظریہ پاکستان کا خالق ماننے سے انکار کرتے ہوئے بات کو لے گئے ہیں علیگڑھ کالیج کے عیسائی پروفیسر جان برائیٹ کی طرف پھر اسے نظریہ کے خالق کے بجائے لکھا ہے کہ اس نے مسلمانوں کے لئے الگ ریاست کا نظریہ اور تصور پیش کیا تھا۔ جناب قارئین اس کی معنی یہ ہوئی کہ یہ جو مشہور ہے کہ پاکستان کی مملکت یہ علاقہ اقبال کا خواب ہے تو سرکاری ٹیکسٹ بک بورڈ لاہور والوں نے اس کی بھی تردید کردی کہ یہ تصور بھی انگریز مفکر کا ہے علامہ اقبال صاحب کا نہیں ہے (شکر الحمد للہ) پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ علامہ پرویز صاحب نے اپنی لاجواب کتاب لغات القرآن میں لفظ قوم کے ذیل میں لکھا ہے جس میں پرویز صاحب اوپر سے قبائل کی باہمی مخاصمت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یوں انسانی وحدت پارہ پارہ ہوگئی یہ سلسلہ آج تک جاری ہے دور حاضر کی سیاسی اصطلاح میں اسے قومیت یا نیشنل ازم کہتے ہیں۔ جس نے دنیا کو جہنم بنا رکھا ہے اس میں صرف اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ بعض ممالک میں (ایک نسل کے بجائے) ایک وطن کی چار دیواری میں رہنے والے افراد کو ایک قوم قرار دے دیا جاتا ہے۔ دیکھا جناب قارئین کہ پرویز صاحب جناب شعیب علیہ السلام کی وطنی قومیت کو یہاں خاطرمیں نہیں لا رہے، پرویز صاحب نے ریاست مدین کے مکینوں سے شعیب علیہ السلام کے اس خطاب وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَارْجُوا الْيَوْمَ الْآخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ(36-29) یعنی اے وطن مدین کے میرے قومی بھائیو! مدین کی دھرتی میں فسادوں کو نہ بھڑکاؤ، جناب قارئین سورہ اعراف میں قوم عاد و ثمود کا ذکر کیا گیا صرف نسلی قومی اخوت کے نام سے اور اسی سورۃ مین جناب شعیب علیہ السلام کا ذکر مدین کی وطنی غیر نسلی ریاست والوں کے ساتھ بیان فرمایا، اور اس میں بھی واضح فرمایا کہ شعیب بھی اہل مدین والوں کا بھائی تھا، اب ہود، صالح، اور شعیب علیہم السلام کے اپنے اپنے مقام پر ذکر کرنے کے قرآنی انداز پر غور کیا جائے تو صاف نمونے سے ثابت ہوتا ہے کہ ہود اور صالح علیہما السلام کی اپنی کافر قوم سے نسلی اخوت ہے اور جناب شعیب علیہ السلام کی مدین کے باسیوں سے وطنی اخوت کا ثبوت ملتا ہے، یعنی شعیب علیہ السلام کے ہم وطن کافر ہیں پھر بھی اس کے وطنی بھائی ہیں یاد رہے کہ جناب شعیب علیہ السلام کا سرزمین مدین مین اپناکوئی نسلی اور نسبی قبیلہ بھی نہیں تھا۔(92-91-11) لیکن پرویز صاحب کی اس کافر اور مؤمن کی وحدت قومیت پر اور وطنی قومیت پر نظر ہی نہیں پڑی!!!یہ سب کچھ پرویز صاحب کی پاکستان کے ساتھ محبت کی وجہ سے ہوا ہے جو وہ قرآن کے ساتھ بھی زیادتی فرما رہے ہیں! علامہ اقبال نے مولانا حسین احمد مدنی کو دیوبند کا ابوجہل قرار دیا، شاعر لوگ تو ویسے بھی "فی کل واد یھیمون" وہ ہر گھاٹ کا پانی پیتے رہتے ہیں، علامہ اقبال صاحب کا پرانا نظریہ کہ ہندی ہیں ہم اور ہندوستان ہمارا وطن ہے جو آج کل پورے ہندوستان کے اسکولوں میں صبح صبح کو بچے اسمبلیوں میں قومی ترانے کی طور پر گاکر کلاسوں میں داخل ہوتے ہیں اس نظریہ سے قلابازی پر قلم اٹھانے سے ملکی سالمیت کو خطرہ کی وجہ سے اچھا ہے کہ چپ رہا جائے، جس طرح کتاب "علامہ اقبال اور اس کی پہلی بیوی" پس دیوار پرنٹنگ پریس ناپیدہے اس لئے چپ رہتے ہیں! رہے پرویز صاحب سو وہ شاعر نہیں ہیں اس لئے اس کے فرمودات اور استنباطات پر مؤاخذہ کرنے کا مجھے حق پہنچتا ہے، علامہ نے انگریز عیسائی پروفیسر جان برائیٹ کے گھڑے ہوئے دو قومی نظریہ کو اسلامائیز کرنے کے لئے اپنی معرکۃ الآراء کتاب لغات القرآن میں لفظ قوم کے ذیل میں صفحہ 1402 پر لکھا ہے کہ قرآن کی رو سے دنیا میں قومیں  دو ہیں، ایک وہ جو قرآنی ضابطہ حیات کو صحیح مانتے ہیں، اور دوسرے وہ جو اس کے خلاف کسی اور مسلک حیات کے قائل ہیں، پرویز صاحب آگے لکھتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کو اللہ کا یہ فرمانا کہ خود تیرا بیٹا بھی تیرے اپنوں میں سے نہیں، کیوں کہ وہ ایمان نہیں لایا تھا، تو وہ اسی (دوقومی نظریہ کے) اصول کا اعلان تھا (جناب قارئین یہاں بریکٹ والا جملہ میں نے اپنی طرف سے وضاحت کیلئے لکھا ہے) اب معزز قارئین سے عرض ہے کہ جناب پرویز صاحب کو ان کی اپنی عبارت میں ایک پریشانی ستارہی ہے جسے شاید آپ محسوس کرسکے ہوں؟ وہ پریشانی یہ ہے کہ اس مقام پر پرویز صاحب نے اپنے معمول کے خلاف حوالہ کیلئے قرآن کا متن اور ٹیکسٹ نقل نہیں فرمایا، جناب قارئین اللہ عزوجل جناب نوح علیہ السلام سے فرما رہا ہے کہ "انہلیس من اھلک" یعنی یہ تیرا بیٹا اپنے نظریات، خیالات اور کرتوتوں کے لحاظ سے "انہلیس من اھلک" یعنی اب یہ تیرے لائق نہیں رہا، یہ تیرا بیٹا اس لائق نہیں ہے کہ اسے انقلابیوں کے ساتھ کشتی میں بٹھایا جائے اور ان میں سے شمار کیا جائے، اس مقام پر قرآن میں اللہ نے پسر نوح کی اہلیت اور میرٹ کو ٹھکرایاہے، رد کیا ہے، اسکی والد کے ساتھ ہم قومیت ، ولدیت  اور نسبی نسبت کو نہیں ٹھکرایا، جاننا چاہیے کہ اس کے باوجود یعنی اللہ کی طرف سے پسر نوح کو "لیس من اھلک" کہنے کے باوجود نوح کا بیٹا اپنے باپ نوح کا ہم قوم ہے، اور نوح کی قوم سے ہے۔ جناب پرویز صاحب اور اس مسئلہ میں امام غائب جان برائیٹ والوں کے دو قومی نظریہ کے برخلاف جان لینا چاہیے کہ پسر نوح کی باپ سے نسلی قومیت نہیں ٹوٹی، جناب قارئین! اس حقیقت کے لئے مزید عرض ملاحظہ فرمائیں کہ اگر پرویز صاحب کے نظریہ کے مطابق نوح کا بیٹا باپ کے نظریہ حیات سے مختلف نظریہ رکھنے کی وجہ سے اب وہ باپ کی قوم سے کٹ گیا، اور پرویز صاحب کے دو قومی نظریہ کی تشریح کے ذیل میں باپ کی قوم سے دوسری قوم میں چلاگیا تو قرآن اس طرح نہ فرماتا کہ وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِلِقَاء الْآخِرَةِ وَأَتْرَفْنَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا مَا هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ(33-23) غور کیا جائے اس آیت مین قرآن نوح علیہ السلام کی ساری منکر اور کافر قوم کو قوم نوح کہہ کر بیان فرما رہا ہے اور جناب علامہ پرویز صاحب نوح علیہ السلام کے بیٹے کو خلاف قرآن باپ کی قوم سے نکال کر خارج کر رہا ہے، قرآن نے فرمایا کہ "انہ لیس من اھلک" اے نوح تیرا بیٹا اب تیرے لائق نہیں رہا انقلاب دشمن ہونے کی وجہ سے، اس جملہ کا پرویز صاحب اگر مگر چونکہ چنانچہ کے حیلوں سے ترجمہ یا خلاصہ یہ فرما رہے ہیں کہ تیرا بیٹا تیری قوم میں سے نہیں ہے۔ جو کہ سراسر غلط ہے، جناب قارئین! اور محبان قرآن میں پرویز صاحب کے اوپر یہ تنقید بڑےدکھ اور افسوس کی حالت میں لکھ رہاہوں کہ اتنے بڑے محقق قرآن نے یہ تقیہ کیوں کیا یہ ان کا والا چرچل والا ماؤنٹ بیٹن والا جان برائیٹ والا دو قومی نظریہ اتنا تو غلط ہے جو ہمالیہ جبل بھی اس سے چھوٹا لگتا ہے اور دوقومی نظریہ باطل ہونے میں اس سے بھی بڑا ہے۔ بھلا آپ کی تسلی کیلئے ایک اور دلیل!! سورہ انعام میں اللہ عزوج اپنے رسول سے فرمارہا ہے کہ وَكَذَّبَ بِهِ قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُّ قُل لَّسْتُ عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ(66-6) یعنی اے رسول تو نے  جو بھی اپنی قوم کو پیغام پہنچایا ہے وہ سارے کا سارا حق ہے۔ اس کے باوجود تیری قوم نے تجھے جھٹلایا ہے تو ، توبھی انہیں صاف صاف کہہ دے کہ اب مین بھی تمہاری پاسداری اور وکالت نہیں کروں گا، اب اس آیت میں بھی غور فرمائیں کہ اللہ اپنے رسول کی تکذیب کرنے والوں کے لئے فرمارہا ہے کہ تیری قوم نے تجھے جھٹلایا ہے، یہاں دیکھیں کہ منکرین رسالت کو اللہ عزوجل رسول کی قومی برادری میں انکار اور کفر کے باوجود بھی شمار کر رہا ہے اور شامل کئے ہوئے ہے اس لئے کہ اللہ کو تو چرچل اور جان برائیٹ کی پرواہ نہیں تھی نہ ہی لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی پرواہ تھی، جن کو دوقومی نظریہ کی ایجاد سے غلام ہندوستان کو چھوڑ کر چلے جانے کے بعد بھی اپنی فنکاریوں اور ہنر مندیوں سے اسے غلام بنائے رکھنا تھا، عجب بات ہے کہ دوقومی نظریہ کی مار بھی ہندوستان میں صرف ہندوؤں کے کفر پر پڑی ہے، عیسائی اور سکھ تو جیسے ان کے چچیرے لگتے ہیں، اور مرزا قادیانی کا کفر تو خالقین پاکستان ہونے کی وجہ سے اسلام کی ترقی یافتہ تعبیر کے طور پر کافی عرصہ تک ایک داخلی فرقہ کے طور پر گنا جاتا رہا ہے،لندن کی جنرل لائبریری کے شعبہ انڈیا آفیس میں جو انگریز سرکار نے ہلکے پھلکے راز اب طشت از بام کرکے قارئین کیلئے کھول کر رکھے ہیں ان حوالہ جات کو جاکر کوئی پڑھے کہ چوہدری ظفراللہ قادیانی کو انگریز سرکار چرچل شاہی نے کہا کہ تو ہمارا معتمد علیہ آدمی ہے یہ اسلام کے نام کا ملک دو قومی نظریہ پر اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں آپ آگے آئیں تو چوہدری صاحب نے جواب میں کہا کہ میں پس منظر میں رہ کر ساری خدمات انجام دوں گا، کھل کر سامنے آنے سے عامۃ المسلمین لوگ میرے مرزائی ہونے کی وجہ سے بدک جائیں گے، اس لئے کسی اور سے یہ کام لیا جائے۔ انگریز پھر بھی قرآن سے خائف تھا اس لئے اس نے یہ مشن پھر بھی ایسے فرقہ کے آدمی کو دی جسکے پیدا ہونے کے وقت سے ہی ان کا  باطنی حساب سے یہ نظریہ تھا کہ ختم نبوت کے بعد بھی رسالت کے پیغامات قرآن سے مستقبل کی رہنمائی کی خاطر نہیں لینے۔ اس رہنمائی کے لئے امام حاضر کے رہنمائی والے فرمودات ہمارے گنان ہیں، جو اسلام کی ہر دور مین نت نئی تعبیر کے طور پر امام حاضر کی ہدایات کی شکل میں قرآن کے بدل کے طور پر پیشوائی کرتے رہیں گے، دنیا نے دیکھ لیا کہ دو قومی نظریہ کی زد میں آنیوالی دوسری کافر قوم ہندوؤں کے بعدروسی کمیونسٹ بنے اور اس وقت سوویت یونین سے جنگ کے وقت مسلم لیگی نظریہ کے حاملین اور ان کے ہمنوا ڈالروں کو حلال کرکے کھانے کیلئے فرماتے تھے کہ امریکن عیسائی پھر بھی اللہ کو مانتے ہیں اور ان کی عورتوں سے نکاح کرنا بھی جائز ہے، روس تو اللہ کو بھی نہیں مانتا، اب کمیونزم کے مکہ کی طرح ماسکو اور کعبہ کی طرح لینن گراڈ پر نیویارک کے قبضہ کے بعد اب وہ روسی پہلے قسم کے کافر نہیں رہے اب وہ معاشی مساوات کی جگہ لامحدود حق ملکیت رکھنے کے نظریہ پر آگئے ہیں اس لئے ان سے جہاد ختم۔ اب صرف گھر کی ان مرغیوں کو مارنا ہے جو قرآن کے نظریہ "وان لیس للانسان الاماسعیٰ" اور "سواء للسائلین" کے بل بوتے پر آئی ایم ایف اور گروپ آف ایٹ والوں کی نیند خراب کئے ہوئے ہیں اور قرآن کی اس طرح کی آیات جو کہ کمیونزم کا مآخذ ہیں،  ان کی وجہ سے اب صرف قرآن کو ختم کرنا ہے۔ سو انہوں نے بھی پاکستان کا جن حاملین شرع سے آغاز کرایا تھا اب انہیں انجام پر پہنچانے کا کام بھی انہی کے سپرد کیا گیا ہے کہ پاکستان کے نصابی کتابوں سے جہادی آیات کو نکالو تمہارا امتحان آغا خان بورڈ کے حوالے رہے گا، کاش کہ پرویز صاحب زندہ ہوتے اور میں اس کی خدمت میں امام حاضر کے تقیہ کی گنانی ہدایات پڑھ کرسناتا جو حافظ شیرازی کی موافقت  میں تیار کردہ ہیں کہ:
حافضا گروصل خواہی صلح کن با خاص و عام
بامسلمان اللہ اللہ بابرہمن رام رام
جہاں تک رازوں کے فائلوں کی بات ہے سو اگر لاہور کے قاضی جاوید اور ڈاکٹر مبارک چاہیں تو اپنی بصیرت سے یا لندن کی لائبریری میں جا کر وہاں سےکچھ کچھ راز اچک سکتے ہیں ویسے ہر کوئی تو چوہدری محمد علی اور غلام اسحاق نہیں بن سکتا جو ان فائلوں کو ڈائریکٹ پڑھ سکے اور قاضی جاوید اور ڈاکٹر مبارک کو آخر لاہور میں بھی رہنا ہے وہ ایسے جھنجھٹ میں کیوں ہاتھ ڈالیں، مجھے ہی ڈاکٹر مبارک نصیحتیں کرتا ہے کہ آپ مذہبی موضوع پر  کچھ بھی نہ لکھیں پاکستان میں مسلمان لوگ بڑے نازک مزاج ہیں۔
لفظ قوم کی معنی ومفہوم تو اب تک کی لکھت سے میں سمجھتاہوں کہ اس کی میں پوری وضاحت کرکے آیا ہوں جہاں تک قوموں کی تعداد کہ دو ہیں یا زیادہ، اس پر بھی میں جناب پرویز صاحب کی دیانتداری کو سلام کرتاہوں کہ انہوں نے اپنی مثالی مجتہدانہ بصیرت والی کتاب تبویب القرآن میں، قرآن نے جو قوم کی بیسیوں اقسام گنوائی ہیں وہ سب کی سب اقسام خود پرویز صاحب نے بھی نقل کی ہیں۔ انہیں نقل کرتے ہوئے اپنے یا (جان برائٹ کے) دو قومی نظریہ کے فکر کی کوئی پرواہ نہیں کی، ہاں البتہ علامہ پرویز صاحب سے یہ شکایت ضرور ہے کہ اس نے آیت يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (13-49) میں قرآن حکیم نے اقوام عالم کی، انسانی اقوام کی جو ارتقائی پراسیس اور مراحل کا ذکر فرماتے ہوئے اس ان گنت اقوام کے تعدد کی جو فلاسافی سمجھائی ہے کہ یہ گلشن اقوام اس لئے ہے کہ ہر ایک قوم کا تعارف ہو اور جملہ قوموں کا تشخص اور پرسنلٹی متعارف ہو، تاکہ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو نہ کھا جائے اس لئے سارک کے معاہدہ کے علاوہ ڈبلیو۔ٹی۔ او۔  والوں کا بھی مستقبل کیلئے ساری دنیا کو چوہدری محمد علی اور ممتاز دولتانہ کے نظریہ کے مطابق ون یونٹ بناکر ہڑپ کرنے کا پروگرام ہے۔
اب اقوام عالم کو اپنے تشخص اور وطنی انفرادیت کو عفریت عالم سے بچانے کے لئے صرف ایک ہی راہ جا کر ہتھیار کا کام دے گی وہ یہ ہے کہ اپنا استقلال، تعارف اور ایڈنٹی فکیشن بچانے کے لئے قرآن کی بتائی ہوئی وطنی قومیت کا سہارا لیں اور نسلی قوم کا سہارا لیں جنہیں مستقل منفرد اور متمیز رکھنے کے لئے اللہ نے اعلان کیا ہو ا ہے کہ وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ (22-30) یعنی بڑی مچھلی سے چھوٹی مچھلی کو بچانے کے لئے ہم نے اقوام عالم کو رنگوں اور بولیوں (زبانوں) میں بھی مختلف بنایا ہوا ہے تاکہ بڑی مچھلی کو کسی کے تعارف کے جھوٹے دستاویزات کے ذریعہ کسی کی قومی دھرتی اور انکے زمینی خزائن پر قبضہ کرنے کی جسارت نہ ہو، قبضہ کرنے کی مجال نہ ہو، مصیبت یہ ہے کہ علامہ اقبال اور جناب علامہ پرویز صاحب نے آنکھیں بند کرکے حسین احمد مدنی جیسے درویش آدمی پر حملے کئے ہیں کہ قومیں اوطان سے (وطنوں سے) نہیں بنتیں جب کہ قرآن حکیم نے صاف صاف اعلان کیا ہوا ہے کہ اللہ نے قوموں کی انفرادیت کو بچانے کے لئے ان کی رنگتین جدا جدا کی ہیں اور ان کی زبانیں جدا جدا بنائی ہیں اس حد تک اس حد تک جو کوئی اگر ان پر اپنی ون یونٹ مسلط کرے تو اس سے کمزورقوموں کو بچانے کیلئے ہر قوم کو جو ان کا منشور حیات دیا ہے تو اس کے لئے بھی فرمایا ہے کہ وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ فَيُضِلُّ اللّهُ مَن يَشَاء وَيَهْدِي مَن يَشَاء وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ(4-14) یعنی انبیا ورسل کو بھی جب جب ان کی اپنی قوموں کی طرف بھیجا تو وہ بھی وحی والی ہدایت انہیں ان کی اپنی قومی زبان مین سناتے تھے تاکہ یہ رنگ اور زبان کا فرق خود ان کے بچاؤ کا محافظ اور مددگار بنے، وہ اس طرح کہ کئی قومیں علم کی فضیلت اور تفوق سے بھی کسی کو اناڑی اور جاہل کہہ کر ان پر قابض ہوجاتی ہیں جیسے لیاقت علی خان نے سندھیوں کے لئے کہا کہ ان کی تہذیب تو گدھے اور اونٹ چرانا ہے اور موجودہ صدر پرویز مشرف نے فرمایا کہ سندھیوں میں کوئی باصلاحیت آدمی ہو تو اسے آئی جی پولیس بنائیں۔ اور جب کہ خود کو سندھی بھی کہلواتا ہے!! جو صرف ڈومیسائیل کو سچا ثابت کرنے کے لئے۔ تو اللہ نے علم کے سرچشمہ وحی کی زبان بھی ہر قوم کی ان کی قومی زبان قراردی، تاکہ علمی تفوق اور بلندی کی بنیاد پر کوئی قوم کسی کو غلام نہ بنا سکے میں جناب حسین احمد مدنی صاحب مرحوم کے اس فرمان کہ قومیں وطنوں کے حوالہ سے بھی بنتی ہیں عرض کرتاہوں کہ جب تک کسی قوم کی اپنی دھرتی نہ ہو تو وہ ان کو ملے ہوئے وحی والے منشور کو کہاں رائج کریں گے؟ پھر تو اللہ کو بھی حق نہیں پہنچتا کہ کسی قوم سے سوال کرے کہ میرے دیے ہوے علم وحی والےمنشور کے مطابق تم نے ریاست اور حکومت قائم کی یا نہیں کی؟ تو جب کسی قوم کو اپنی وطنی زمین نہیں ہوگی تو وحی کے ذریعہ ملاہوا منشور خلاؤں میں ہواؤں پر تو نافذ نہیں ہوگا، علامہ پرویز رحمۃ اللہ علیہ تو میری نظر میں علامہ اقبال سے بھی قرآن کا بڑا عالم تھا، پھر اسے یہ آیت يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الأَرْضَ المُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللّهُ لَكُمْ وَلاَ تَرْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِينَ (21-5) جب نظر میں بھی تھی تو اس نے قوم کی بنیاد وطن کا خبر نہیں کہ کیوں انکار کیا ہے؟ اور علامہ اقبال کے کہنے کے مطابق جو حسین احمد کو دیوبند کا ابوجھل قرار دیتے رہے جبکہ اس آیت میں ارض مقدس کو بنی اسرائیل کیلئے تحریری دستاویز کی طرح دیا ہوا ہے اگر قوم بنی اسرائیل کا یہ زمینی وطن نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ اگر کوئی شخص قوم کیلئے وطن اور زمینی ریاست تسلیم نہیں کرتا تو پھر اس سے ادب کے ساتھ سوال ہے کہ وہ اپنا نظام اسلام بغیر زمینی وطن کے کہاں نافذ فرمائے گا؟ اور پھر خاک وطن کیلئے نور جہان کے گیتوں کو ٹی وی پر سناسنا کر علامہ اقبال اور علامہ پرویز کی روحوں کو کیوں پریشان کیا جاتا ہے؟ بہر حال قوموں کیلئے زمینی وطن کا انکار کرنے والے خود تو نفاذ اسلام کیلئے شاید چاند پر اپنے لئے پلاٹ لے چکے ہوں، لیکن اللہ نے تو اس زمین پر قوموں کو نسلوں کی بنیادوں پر دھرتی پر بانٹ کر سب کو بسایا ہوا ہے جس کیلئے فرمایا کہ وَقَطَّعْنَاهُمْ فِي الأَرْضِ أُمَمًا مِّنْهُمُ الصَّالِحُونَ وَمِنْهُمْ دُونَ ذَلِكَ وَبَلَوْنَاهُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (168-7) اب غور فرمائیے کہ اس آیت میں مادری نسلوں پر تو زمین میں بانٹ کر بسانے کی بات قرآن نے کی لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ قوموں کیلئے زمینی وطن اتنا تو ضروری ہے جو اس کی تقسیم کے وقت برے بھلے کا بھی ہم نے خیال نہیں رکھا ایک بدمعاش کو بھی سرچھپانے کے لئے گھر کی ضرورت ہے تو ایک نیک صالح کو بھی ضرورت ہے سوہم نے تو سب کا حق تسلیم کرتے ہوئے یہ بٹوارہ قومی اور نسلی بنیادوں پر کیا ہے اب آگے ان کا فرض ہے کہ وہ امتحان مین کامیاب ہوکر ہمارے احسانوں کے صلے میں حق و سچ کی طرف آئیں۔ علمی لحاظ سے تو علامہ اقبال اورعلامہ پرویز صاحبان اتنے تو قدآور ہیں جو میں ان کے آگے طفل مکتب ہوں پھر بھی مجھے حق پہنچتا ہے کہ ان کی بارگاہ علمی میں یہ سوال پیش کروں کہ اگر دنیا میں کل قومیں دو ہیں اور اس دو قومی نظریہ پر آپ نے برصغیر کی زمین کا بٹوارہ کرادیا تو اللہ نے ہمارے رسول کی رینج کو تو آپ کے بٹوارے والے حصہ میں محدود نہیں رکھا، ہمارے رسول علیہ السلام تو اقوام عالم کو روئے زمین کے انسانوں کو مخاطب بنا کر قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا(158-7) یعنی جناب رسول کی رسالت ذات انسان کیلئے مسلم و غیر مسلم سب کیلئے ہے،اب آپ نے تو مخاطبین رسول کو عیسائی انگریز جان برائیٹ کے کہے پراسے پاکستانی نظریہ والی قوم کے اندر محدود بنادیا اور ساری دنیا سے روٹھ کر کٹ گئے حتیٰ کہ رسول ہاشمی علیہ السلام کے مرقد مدینہ کا بھرم بھی آپ نے نہیں رکھا جو آپ نے اپنے آستان کو پاک کہہ کر گویا باقی دنیا کو مفہوم مخالف کے اصول سے ناپاک کہہ دیا۔ اب تو ہمارے کائناتی عالمگیر اور بین الاقوامی رسول کے خطاب یاایھاالناس کی وسعتوں سے آپ لوگوں کو ہجرتیں کراکر پاک سرزمین شاد باد کی طرف بلارہے ہیں پھر جب پارٹیشن کے وقت آپکی نام نہاد دعوت اسلامی سن کر ہندستان سے لوگ آئے تھےتو انہیں بھی آپ لاٹھیاں مار مارکر لاہور اسٹیشن سے بھگا کر سندھ کی طرف بھیجتے رہے کہ وہ پاکستان انکے ہاں ہے اب اکناف عالم مین دعوت رسول یاایھاالناس کی صداؤں کی بازگشت کیلئے تو آپ ہندستان میں نہیں رہ سکتے وہاں کے لوگ  کہہ سکیں گے کہ آپ کی مذہبی قوم کا وطن تو اب بن چکا ہے آپ اپنے رسول کی "یاایھاالناس"والی صدائیں جاکر انہوں کو سنائیں ہم آپ کی قوم میں سے نہیں ہیں، آپ تشریف لے جا کر دو قومی نظریہ والی دھرتی پر اپنوں کو اپنے واعظ سنائیں (واہ  انگریز جان برائیٹ تیری دور اندیشی واہ) کہ آپ نے پاکستانی مسلمانوں کو نظریہ پاکستان دو قومی نظریہ دے کرجناب رسول  علیہ السلام کی بین الاقوامی اور عالمگیر  مرتبت ختم کراکر بین القومی کرادی۔ واہ انگریز تیری حرفت جو تونے دین اسلام اور ملت اسلامیہ کو  ڈاؤن سائیز اور رڈیوز کرکے دکھایا وہ بھی اسلام کے نام سے قائم ہونے والی مملکت پاکستان کے ہاتھوں سے۔

No comments:

Post a Comment