Thursday, June 6, 2013

استخارہ : لوگوں کو قرآن سے موڑنے کی ایک دام ہمرنگ چال اور ختم نبوت پر حملہ

استخارہ  : لوگوں کو قرآن سے موڑنے کی ایک دام ہمرنگ چال اور ختم نبوت پر حملہ

عن جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما قال کان رسول اللہﷺ یعلمنا الاستخارہ فی الامور کما یعلمنا السورۃ من القرآن یقول اذاھم احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضۃ ثم لیقل اللٰہم انی استخیرک بعلمک واستقدرک بقدرتک واسئلک من فضلک العظیم فانک تقدر ولا اقدر وتعلم ولااعلم وانت علام الغیوب اللٰھم ان کنت تعلم ان ھذا الامر شرلی فی دینی ومعاشی وعاقبۃ امری اوقال فی عاجل امری واٰجلہ فاصرفہ عنی واصرفنی عنہ واقدرلی الخیر حیث کان ثم ارضنی قال ویسمی حاجتہ:
بخاری باب نمبر738التہجد حدیث نمبر1088۔
ترجمہ:
 جابر بن عبداللہ نے بیان کیا کہ
رسول اللہ ہمیں تمام معاملات میں استخارہ کرنے کی تعلیم دیتے تھے بالکل اسی طرح جس طرح قرآن کی سورت ہمیں سکھاتے تھے ۔ فرماتے تھے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی کا م کا ارادہ کرے تو فرض کے علاوہ دو رکعت نماز نفل پڑھے ، پھر کہے کہ اے میرے اللہ میں تجھ سے تیرے علم کے ذریعے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے ذریعے قدرت طلب کرتا ہوں اور تیرے فضل عظیم کی تجھ سے درخواست کرتا ہوں تو قادر ہے لیکن میں قادر نہیں ،تو علم رکھتا ہے لیکن مجھے علم نہیں تو غیب کا زیادہ جاننے والا ہے ۔ اے میرے اللہ اگر تو سمجھتا ہے کہ یہ امر میرے لئے ، میرے دین اور معاش کے لئے اور انجام کار کے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے میرے لئے مقدر فرمادے اور میرے لئے اس میں آسانی پیدا کردے پھر اس میں میرے واسطے برکت عطاکر اور اگر تو سمجھتا ہے کہ یہ امر میرے لئے میرے دین اور معاش اور انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اس کومجھ سے پھیر دے اور مجھ کو اس سے باز رکھ اور میرے لئے بھلائی مقدر فرمادے جہاں بھی ہوپھر مجھے راضی رکھ ۔ آپ نے فرمایا کہ اس مقام پر اپنی حاجت بیان کرے۔
تبصرہ: محترم قارئین  !
 روایات کے خود ساختہ مذہبی ڈھانچہ میں استخارہ کی اصطلاح بہت مشہورہے لیکن پھر بھی یہاں اس کی وضاحت مناسب سمجھتا ہوں ۔
استخارہ کا لفظی معنی ہے خیر اور بھلائی کی طلب کرنا ، کچھ امور میں سے یا کسی بھی مسئلہ کی بابت اللہ سے رہنمائی لینا کہ فلاں کام کے کرنے میں مجھے
 فائدہ  ہو گا  یا  نقصان۔ اگر میرے فائدے کا ہو تو مجھے نصیب ہو اور میں اسے سر انجام دوں ۔ اگر میرے نقصان کا ہو تو میں اسے نہ کروں اور چھوڑ دوں ۔
قارئین کرام !
 جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ امام بخاری استخارہ کی حدیث کو ابواب تہجد میں لایا ہے تو اس سے مراد یہ لی گئی ہے کہ رات کے وقت استخارہ کے ذریعے مشورہ اور رہنمائی لینے والا دو رکعت پڑھنے کے بعدحدیث کے مطابق جب مذکورہ بالا دعا پڑھے گا تو آگے مشہور ہے کہ سونے کے دوران نیند میں خواب کے ذریعے اللہ اپنے بندے کو جواب دے دیتا ہے یا خواب میں کوئی ایسا اشارہ دیا جاتا ہے جس سے استخارہ کرنے والے کو مطلوبہ مشورہ اور جواب مل جاتا ہے ۔
 جناب قارئین کرام !
 استخارہ کے نام سے رہبانی دنیا میں دکانیں کھل گئی ہیں کہ فلاں اللہ والے اور پہنچے ہوئے بزرگ سے کسی نے استخارہ کرایا اور اس کے بتائے ہوئے جواب اور مشورہ کے مطابق سائل نے عمل کیا تو اس سے اسے بہت فائدہ ہوا ، برکت ہوئی وغیرہ وغیرہ ۔
جناب عالی!
 استخارہ کے نام پر روایات اور حدیثیں اختراع کرنے والوں کا اصل مقصد اور مطلوب یہ ہے کہ لوگوں کو قرآن کی جانب غور کرنے اور اس سے رہنمائی لینے سے روکیں کیونکہ قرآن نے زندگی کی حاجتوں میں رہنمائی کا مکمل کورس اور نصاب سکھایا ہوا ہے
۔ آپ نے اس حدیث کے متن اور عبارت سازی پر غور کیا ہوگا کہ روایت سازوں نے لکھا ہے کہ حضوؐر ہمیں استخارہ ایسا سکھاتے تھے جیسے قرآن کی سورۃ سکھاتے تھے ۔
جناب عالی!
 استخارہ کے معنی جب طلب خیر ہے تو وہ خیر قرآن ہی میں ہے۔ اب قرآن کے خیر سے منہ موڑ کر خیر کی تلاش کے لئے غیر قرآنی طریقوں سے حدیث بنا کر رسول کے کھاتے میں ڈالنا کتنی بڑی سازش ہے ۔ لیکن قرآن ان کی سازش کا بھانڈا پھوڑ رہا ہے کہ :
وَقِيلَ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا مَاذَا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ۚ قَالُوا خَيْرًا ۗ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۚ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ ۚ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ (16:30)
اور (جب) پرہیزگاروں سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا نازل کیا ہے۔ تو کہتے ہیں کہ بہترین (کلام)۔ جو لوگ نیکوکار ہیں ان کے لیے اس دنیا میں بھلائی ہے۔ اور آخرت کا گھر تو بہت ہی اچھا ہے۔ اور پرہیز گاروں کا گھر بہت خوب ہے ۔
 اور پوچھا جاتا ہے متقی لوگوں سے کہ کیا نازل فرمایا تمہارے رب نے تو وہ کہتے ہیں خیر۔
گویا ثابت ہوا کہ متقی انسانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ الخیر قرآن حکیم ہی ہے۔
 مزید فرمایا کہ :
مَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِنْ خَيْرٍ مِنْ رَبِّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (2:105)
جو لوگ کافر ہیں، اہل کتاب یا مشرک وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے خیر (وبرکت) نازل ہو۔ اور خدا تو جس کو چاہتا ہے، اپنی رحمت کے ساتھ خاص کر لیتا ہے اور خدا بڑے فضل کا مالک ہے۔  
یعنی اہل کتاب میں سے کافر اور مشرک لوگ نہیں چاہتے کہ تم پر خیر نازل ہو تمہارے رب کی طرف سے لیکن یہ اللہ کی رحمت اور عطا ہے کہ جسے وہ چاہے اسے چن لے اور اللہ بڑا فضل عظیم کا مالک ہے۔
جناب قارئین !
 ان آیات کریمہ میں بڑے واضح انداز سے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کو خیر کے نام سے پکارا ہے لیکن حدیث ساز امام بخاری اور اس کے استاد راویوں کی کاریگری پر آپ غور فرمائیں کہ وہ روایت میں یہ الفاظ سکھاتے ہیں کہ رسول اللہ ہمیں قرآن کی سورتوں کی طرح استخارہ کرنے کی دعا سکھاتے تھے۔ جس کا صاف اور واضح مطلب یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ حدیث ساز لوگ طلب خیر کے لئے قرآن کو کافی نہیں سمجھتے اور خیر کی دریافت کیلئے قرآنی رہنمائی کو ناکافی قرار دے کر غیر قرآنی ، خارج از قرآن حیلے لوگوں کو سکھا رہے ہیں استخارہ کے متعلق جو تفصیلات آج کل مشہور ہیں
اس حدیث کی روشنی میں گویا کہ استخارہ کے ذریعے وحی قرآن کی تعلیم کو پس پشت ڈال کر خوابوں کے ذریعے اللہ سے مشاورت یعنی رسالت اور نبوت کی مقصدیت اور مرتبت کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے اور یہی مطلوب و مقصود ہے ان حدیث ساز اور فقہ ساز اماموں کا ۔
لیکن قرآن نے دو ٹوک الفاظ میں اعلان فرمایا ہے کہ :
قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ (10:58)
کہہ دو کہ (یہ کتاب) خدا کے فضل اور اس کی مہربانی سے (نازل ہوئی ہے) تو چاہیئے کہ لوگ اس سے خوش ہوں۔ یہ اس سے کہیں بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔
یعنی  اے محمد اعلان کردے اللہ کے فضل و رحمت کا قرآن ملنے کا اور اس قرآن کے ملنے پر ضروری ہے، لازم ہے کہ تم جشن مسرت مناؤ اور یہ قرآن خیر ہے ،یہ قرآن نہایت بہتر اور برتر ہے ان احادیث اور فقہی روایات کے مجموعوں سے جن کے تم نے لاکھوں کی تعداد میں انبار لگارکھے ہیں ۔
جناب قارئین کرام!
 اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن حکیم کو خیر قرار دیئے جانے کے باوجود بھی یہ حدیث ساز خوابوں کے ذریعے خیر مانگنے کی حدیثیں بنائے بیٹھے ہیں ۔ ان کی اس روایت سازی سے ان کا اندر کا مقصد کھل کر سامنے آجاتا ہے کہ یہ لوگ عام انسانوں کو بہکا
رہے ہیں کہ خیر کی جستجو کا محل صرف قرآن نہیں بلکہ استخارہ اور دیگر ذرائع سے بھی خیر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ حدیثیں اس قرآن کے مقابلہ میں اپنا خوابوں والا خیر بنائے بیٹھی ہیں اور رہبانیت کی دکانوں پر براجمان بابے اپنے استخاروں والے خیر کی دکانیں کھولے بیٹھے ہیں ۔ لوگ ان کے پاس آتے ہیں عرض کرتے ہیں کہ بابا سائیں ہماری یہ الجھن ہے ، ہمارے لئے استخارہ کریں ، اللہ کی مرضی معلوم کرکے بتائیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا اس طرح اللہ کی مرضی معلوم کرنے کے لئے قرآن حکیم کی طرف رجوع کرنے کی بجائے ان گدی نشینوں کی دکانوں پر لوگوں کو بلایاجا رہا ہے ۔

ختم نبوت پر ڈاکہ

یہاں میں بخاری جلد اول کے باب کیف کان بدأ الوحی کی حدیث نمبر3 پر تبصرہ کرنا چاہتا ہوں ۔ چونکہ حدیث خاصی لمبی ہے اس لئے طوالت کی وجہ سے اس کا سارا متن نقل نہیں کررہا ہوں۔اس لئے متعلقہ جملے نقل کرکے تبصرہ کرتاچلوں گا ۔ یہ حدیث وحی کی ابتدائی کیفیت بیان کرنے کے لئے بنائی گئی ہے ۔ اس کی روایت حضرت بی بی عائشہؓ کی طرف منسوب کی گئی ہے جبکہ وحی کی ابتداء کا تعلق ،عمرؓ اور رفاقت رسول کے لحاظ سے بی بی خدیجہؓ سے بنتا ہے ۔
بہرحال حدیث کے ابتدائی الفاظ یہ ہیں کہ :
اول مابدی بہ رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم من الوحی الرؤیا الصالحہ فی النوم ۔
 وحی کی ابتدا رسول ؐ  کو نیک صالح خوابوں سے کرائی گئی اور وہ خواب ایسے تھے کہ
 لایری الا جاء ت مثل فلق الصبح
یعنی وہ خواب صبح صادق کی طرح صاف اور واضح ہوتے تھے۔
جناب معزز قارئین !
 حدیث ساز امام لوگ وحی کی ابتدا ء کو خوابوں سے جو ملا رہے ہیں تو یہ ان کی ایک بہت بڑی اور گہری سازش ہے کہ رویاء صالحہ یعنی نیک خوابوں کو وحی سے خلط ملط کرنے کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں ۔ اس سازش کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ بخاری صاحب کے مجموعہ حدیث کے
 باب الرویاء الصالحہ جزء من ستتہ و اربعین جز ئا من النبوۃ
پڑھ کر دیکھیں جس میں بخاری صاحب نے نیک خوابوں کو نبوت کا چھیالیسواں حصہ قرار دے کر ختم نبوت کا کھلم کھلا انکار کیا ہے اور وہاں لائی ہوئی حدیث میں ابو ہریرہ کے نام سے روایت لکھی ہے کہ نبوت میں سے اب صرف نیک صالحہ خواب ہی باقی بچے ہیں ۔
جناب قارئین کرام !
 وہاں کی چار حدیثوں میں سے ایک حدیث کا راوی امام زہری صاحب ہے تو یہاں ابتداء والی حدیث نمبر3کے راویوں میں بھی زہری صاحب موجود ہیں اور یہاں بھی نبوت اور رسالت کے مشن میں دراڑ ڈالنے کے لئے وحی کی ابتداء نیک صالح خوابوں سے کرارہے ہیں ۔
 قارئین کرام !
 خواب خواب ہوتے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ وہ سارے واجب التعمیل ہوں چہ جائیکہ وہ صالحین اور نبیوں کے ہی کیوں نہ ہوں جس طرح حضرت ابراہیم کا خواب دیکھنا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کررہے ہیں اور آپ نے خواب کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے لٹایا تو حکم ربی آیا کہ اے ابراہیم تو نے اپنا خواب سچا کردکھایا ۔
یہ تیرا خواب تھا ہمارا حکم نہیں تھا ۔
 ہم اسماعیل کو اس سے بھی زیادہ اور بڑھ کر ذبح عظیم کے لئے قبول کررہے ہیں یعنی اپنے گھر کا پاسبان بنانا چاہتے ہیں ۔

1 comment:

  1. Istikharah KI haqeeqat aapke saamnay hai. Is se sabaq seekhain aur Quran KI taraf laut aayain,. Hafeez Khan

    ReplyDelete