Sunday, August 26, 2012

ابراہیم علیہ السلام سے منسوب تین جھوٹ پر تحقیق


ابراہیم علیہ السلام سے منسوب تین جھوٹ پر تحقیق

ان  راویوں کو کیا کہیں کہ انہوں نے تو ابو الانبیاء حضرت ابراہیم ؑ  کو بھی نہیں بخشا۔

حضرت ابراہیم ؑ کو بھی صحیح بخاری میں راوی نے جھوٹا لکھ دیا ہے۔

ملاحظہ فرمائیں۔

عن ابی ہریرہ لم یکذب ابراہیم الاثلاث کذبات بینما ابراہیم مربجبار و معہ سارہ  فذکر الحدیث  فاعطاہا ھاجر قالت کف اللہ ید الکافر واخدمنی  ا جٰر قال ابو ہریرہ فتلک امکم یابنی ماء السماء ۔
 حدیث نمبر 75 باب نمبر 42 کتاب النکاح بخاری ۔

ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ابراہیم ؑ نے تین جھوٹ سے زیادہ نہیں بولے ۔
 اس حال میں کہ ابراہیم ؑ گزر رہے تھے کسی جابر کے ہاں سے اور اس کے ساتھ اس کی اہلیہ سارہ بھی تھیں۔
 آگے باقی ساری حدیث بیان کی پھر عطا کی سارہ کو ھاجرہ ۔
 سارہ نے کہا کہ میری خدمت کے لئے اس جابر نے اجرت دی ۔
 ابو ہریرہ نے کہا پھر یہی ہے تمہاری ماں اے آسمانی پانی کی اولاد ۔

مندرجہ بالا حدیث پر بحث کرنے سے پہلے ہم قرآن حکیم سے اس حدیث کا تضاد دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ابراہیم ؑ کے بارے میں شہادت دے رہے ہیں کہ:
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا (19:41)
اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو۔ بےشک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے۔
 
إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا
یعنی بے شک وہ انتہا کے سچے نبی تھے ۔

 مگر راوی کھلم کھلا قرآن حکیم کا اور اللہ تعالیٰ کی شہادت کا انکار کرتے ہوئے رسول اللہ کی زبان مبارک سے آپ کے جد امجد کو تین جھوٹ کا مرتکب ثابت کررہے ہیں ۔
گویا حدیث ساز انکار قرآن کا یہ جرم بھی نبی کے کھاتے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔

جناب معزز قارئین !

آپ نے اس حدیث کی روایت کے متن پر شاید باقاعدہ غور نہیں کیا ۔

میں آپ کی توجہ حدیث کی عبارت سازی کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔

یہ حدیث اصل میں بہت لمبی ہے اس لئے یہاں اس کا ایک ٹکڑا نقل کیا گیا ہے اور اس روایت کے ٹکڑے کے ذریعے راوی نے بظاہر تو ابراہیم ؑ کے متعلق شروع روایت میں لکھا ہے کہ ابراہیم ؑ نے صرف تین جھوٹ بولے ہیں اس سے زیادہ نہیں ۔

اب شروع حدیث میں اس بات کے نیچے اس کے ثبوت کے لئے ایک لفظ بھی حدیث میں نہیں لایا صرف جھوٹ بولنے کی حضرت ابراہیم ؑ کی طرف نسبت کرکے اس پر مزید گالیاں اسے سنا ڈالیں ۔

نہ صرف اکیلے حضرت ابراہیمؑ کو بلکہ ساتھ ساتھ حضوؐر کو بھی والدہ کی گالیاں سنا ڈالیں ۔
تبرّا کی اس ہنر مندی اور فنکاری پر غور فرمائیں ۔

باب کا نام بخاری صاحب نے رکھا ہے ۔

47 - نکاح کا بیان : (179)
باندیوں سے محبت کرنے اور باندی کو آزاد کرکے اس سے نکاح کرنے کی برتری کا بیان

باب اتخاذ السراري ومن أعتق جاريته ثم تزوجها
بَاب اتِّخَاذِ السَّرَارِيِّ وَمَنْ أَعْتَقَ جَارِيَتَهُ ثُمَّ تَزَوَّجَهَا
اتخاذ السراری ومن اعنق جاریۃ ثم تزوجہا

 
یعنی خوش کرنے والی پسندیدہ عورتیں لینا ۔

The door to take concubines (A woman who cohabits with a man without being legally married to him.),  and then freed his concubine whom he married.

رکھیلیوں لے لو، اور پھر ان کی لونڈی جس سے اس نے شادی کی، آزاد کی

 4796
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ تَلِيدٍ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ح حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ إِلَّا ثَلَاثَ كَذَبَاتٍ بَيْنَمَا إِبْرَاهِيمُ مَرَّ بِجَبَّارٍ وَمَعَهُ سَارَةُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ فَأَعْطَاهَا هَاجَرَ قَالَتْ كَفَّ اللَّهُ يَدَ الْكَافِرِ وَأَخْدَمَنِي آجَرَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَتِلْكَ أُمُّكُمْ يَا بَنِي مَاءِ السَّمَاءِ

یہ حدیث کتاب الہبہ  میں یوں بیان ہوئی ہے:

باب : عام دستور کے مطابق کسی نے کسی شخص سے کہا کہ یہ لڑکی میں نے تمہاری خدمت کے لیے دے دی تو جائز ہے۔
وقال بعض الناس هذه عارية‏.‏ وإن قال كسوتك هذا الثوب‏.‏ فهو هبة‏.‏
بعض لوگوں نے کہا کہ لڑکی عاریتاً ہوگی اور اگر یہ کہا کہ میں نے تمہیں یہ کپڑا پہننے کے لیے دیا تو کپڑا ہبہ سمجھا جائے گا۔
مقصود امام بخاری رحمہ اللہ کا حنفیہ پر رد کرنا ہے کہ لونڈی میں تو وہ کلام خاص عاریت پر محمول ہوگا اور کپڑے میں ہبہ پر۔ یہ ترجیح بلامرجح اور تخصیص بلا مخصص ہے۔ بعضوں نے کہا وان قال کسوتک ہذا الثوب یہ الگ کلام ہے۔ بعض الناس کا مقولہ نہیں ہے۔

حدیث نمبر : 2635
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، حدثنا أبو الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏هاجر إبراهيم بسارة، فأعطوها آجر، فرجعت فقالت أشعرت أن الله كبت الكافر وأخدم وليدة‏"‏‏. ‏ وقال ابن سيرين عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏فأخدمها هاجر‏"‏‏. ‏

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابراہیم علیہ السلام نے سارہ کے ساتھ ہجرت کی تو انہیں بادشاہ نے آجر کو ( یعنی ہاجرہ کو ) عطیہ میں دے دیا۔ پھر وہ واپس ہوئیں اور ابراہیم سے کہا، دیکھا آپ نے اللہ تعالیٰ نے کافر کو کس طرح ذلیل کیا اور ایک لڑکی خدمت کے لیے بھی دے دی۔ ابن سیرین نے کہا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ بادشاہ نے ہاجرہ کو ان کی خدمت کے لیے دے دیا تھا۔

36 - ہبہ کرنے کا بیان : (66)
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں نے تجھے یہ لونڈی خدمت کے لیے دی جس طور پر کہ رواج ہو تو جائز ہے اور بعض لوگوں نے کہا یہ عاریت ہے اور اگر کوئی شخص کہے میں نے تجھ کو یہ کپڑا پہننے کو دیا تو یہ ہبہ ہے۔

حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب حدثنا أبو الزناد عن الأعرج عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال هاجر إبراهيم بسارة فأعطوها آجر فرجعت فقالت أشعرت أن الله کبت الکافر وأخدم وليدة وقال ابن سيرين عن أبي هريرة عن النبي صلی الله عليه وسلم فأخدمها هاجر

صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2479 حدیث مرفوع مکررات 9 متفق علیہ 7

ابو الیمان شعیب ابوالزناد اعرج حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سارہ کے ساتھ ہجرت کی تو لوگوں نے سارہ کو ہاجرہ لونڈی دی۔
 
وہ واپس ہوئیں اور کہنے لگیں کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ نے کافر کو ذلیل کردیا اور اس نے ایک لونڈی خدمت کے لیے دی اور ابن سیرین ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں اور اس میں
 
أَخْدَمَهَا هَاجَرَ
کے الفاظ بیان کیے۔

Narrated Abu Huraira:
Allah's Apostle said, "The Prophet Abraham migrated with Sarah.
The people (of the town where they migrated) gave her Ajar (i.e. Hajar).
Sarah returned and said to Abraham, "Do you know that Allah has humiliated that pagan and he has given a slave-girl for my service?"

بَاب اتِّخَاذِ السَّرَارِيِّ وَمَنْ أَعْتَقَ جَارِيَتَهُ ثُمَّ تَزَوَّجَهَا کی کل دو حدیثیں ہیں۔

ہم اس باب کی  دوسری حدیث پر بحث کررہے ہیں ۔

جس میں شروع میں بخاری صاحب نے جملہ لکھا ہے کہ ابراہیم ؑ نے تین عدد جھوٹ سے زیادہ جھوٹ نہیں بولے ۔
 پھر آگے راوی نے لکھا ہے کہ ابراہیم ؑ اپنی گھر والی سارہ کے ساتھ ایک جابر کے ہاں سے گزرے ۔
 اس جملہ کے بعد راوی صاحب اپنا فن امامت دکھانے کے لئے اور اپنا انداز ظاہر کرنے کے لئے حدیث کھا گئے ہیں ۔
 وذکر الحدیث
 کا جملہ کہ کر سیدھا سیدھا فرماتے ہیں کہ
 فاعطاہا ھاجر
یعنی اس جابر حکمران یا بادشاہ نے سارہ کو تحفے میں لونڈی ھاجرہ دی۔
 آگے راوی بی بی سارہ کا جملہ رقم کرتے ہیں کہ اس نے کہا کہ اللہ نے کافر کا ہاتھ (دست درازی سے) روک لیا اور میری خدمت گزاری کے لئے اجرت دی ۔

) نوٹ: میں یہاں اتنے حصہ پر پہلے تبصرہ کرکے آخری جملہ پر بعد میں تبصرہ کرتا ہوں (

جناب قارئین !

اوپر جو کٹی ہوئی حدیث راوی صاحب لائے ہیں اور کٹے ہوئے جملوں کے اندر یہ تفصیل ہے۔

کہ اس جابر بادشاہ نے بی بی سارہ کو پکڑ کر بدکاری کے لئے خلوت میں منگوایا اور وہاں جیسے ہی وہ دست درازی کرنے کے لئے آگے بڑھتا تھا تو اس کے اعضاء شل ہو جاتے تھے ۔

اس طرح بار بار شل ہونے پر تنگ آ گیا اور ڈرتے ہوئے سارہ کو چھوڑ دیا اور اس کو تحفے میں جیسا کہ راوی کے استاد راویوں نے لکھا ہے کہ خدمت کرنے کی اجرت کے صلہ میں لونڈی ھاجرہ عطا کی۔

اب اس کہانی میں یعنی حدیث کے کٹے ہوئے ٹکڑوں میں حضرت ابراہیمؑ کے تین عدد جھوٹ بھی لکھے ہوئے ہیں۔

جن میں ایک یہ ہے کہ جابر بادشاہ کو ابراہیم ؑ نے سارہ کے بارے میں کہا کہ یہ میری بہن ہے ۔

اب یہ جھوٹ بھی اس لئے سنایا گیا ہے کہ بقول ان حدیث سازوں کے وہ جابر بادشاہ کمزور اور بے آسرا لوگوں کی حسین بیویوں کو پکڑ کر ان سے بدکاری کرتا تھا۔

حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی سارہ کے تعارف میں اسے بیوی کی جگہ بہن کہا ۔

اب کوئی یہ بتائے کہ کسی جابر ظالم فاحش آدمی کے لئے اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اس کی پسندیدہ عورت کسی مرد کی کیا لگتی ہے ؟

بیوی ہو یا بہن ہے تو وہ عورت ہی اور جابر اور فاحش کا فحاشی والا مقصد تو دونوں سے یکساں طور پر پورا ہو سکتا ہے ۔

یہ حدیث ساز لوگ اس طرح کی ہیرا پھیری سے پڑھنے والوں کو بیوقوف بنانا چاہتے ہیں ۔

میں قارئین کی خدمت میں راوی کی اس حدیث کے اندر ہیرا پھیری اور چکر بازی کی فنکاری کو واضح کروں ۔

غور فرمائیں کہ راوی نے ثلاث کذبات کی یعنی تین جھوٹ کی یہاں وضاحت نہیں کی اور عبارت کاٹ دی اور جو خواری اور رسوائی حضرت ابراہیمؑ کی گھر والی سارہ کے کھاتے میں ڈالنا چاہتا ہے اسے اس نے شاعری کی سجع بندی اور تک بندی کے نمونے سے یہاں لایا ہے۔

آپ پھر عبارت حدیث پر غور فرمائیں کہ بی بی ھاجرہ کا نام راوی نے ھاجر لکھا ہے پھر اس کے وزن پر لفظ کافر لایا ہے پھر لفظ آجر لایا ہے ۔

حدثنا سعيد بن تليد قال أخبرني ابن وهب قال أخبرني جرير بن حازم عن أيوب عن محمد عن أبي هريرة قال قال النبي صلی الله عليه وسلم ح حدثنا سليمان عن حماد بن زيد عن أيوب عن محمد عن أبي هريرة قال قال النبي صلی الله عليه وسلم لم يکذب إبراهيم إلا ثلاث کذبات بينما إبراهيم مر بجبار ومعه سارة فذکر الحديث فأعطاها هاجر قالت کف الله يد الکافر وأخدمني آجر قال أبو هريرة فتلک أمکم يا بني مائ السمائ

حدثنا محمد بن محبوب حدثنا حماد بن زيد عن أيوب عن محمد عن أبي هريرة رضي الله عنه قال لم يکذب إبراهيم عليه السلام إلا ثلاث کذبات ثنتين منهن في ذات الله عز وجل قوله إني سقيم وقوله بل فعله کبيرهم هذا وقال بينا هو ذات يوم وسارة إذ أتی علی جبار من الجبابرة فقيل له إن ها هنا رجلا معه امرأة من أحسن الناس فأرسل إليه فسأله عنها فقال من هذه قال أختي فأتی سارة قال يا سارة ليس علی وجه الأرض مؤمن غيري وغيرک وإن هذا سألني فأخبرته أنک أختي فلا تکذبيني فأرسل إليها فلما دخلت عليه ذهب يتناولها بيده فأخذ فقال ادعي الله لي ولا أضرک فدعت الله فأطلق ثم تناولها الثانية فأخذ مثلها أو أشد فقال ادعي الله لي ولا أضرک فدعت فأطلق فدعا بعض حجبته فقال إنکم لم تأتوني بإنسان إنما أتيتموني بشيطان فأخدمها هاجر فأتته وهو قائم يصلي فأومأ بيده مهيا قالت رد الله کيد الکافر أو الفاجر في نحره وأخدم هاجر قال أبو هريرة تلک أمکم يا بني مائ السمائ

یہ ساری حیلہ بازی یعنی ھاجر ، کافر ، آجر اس لئے راوی نے کی ہے، کہ وہ جو گالی حضرت ابراہیم ؑ کو اس کی گھر والی کے نام اس متن میں لفظ آجر میں دے چکا ہے وہ اگر وزن بحر میں چھپا کر نہ لاتا تو راوی کی اندر کی تبرا والی ذہنیت آسانی سے پکڑی جاتی ۔

وہ اس طرح کہ متن حدیث میں
 واخدمنی اجرتا
یا
اخدمنی فی الاجرۃ
لکھنے سے تبرا اور گالی ظاہر ہو جاتی ہے جس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ جابر بادشاہ نے میری خدمت کی اجرت میں مجھے ھاجرہ عطا کی۔

اب غور کیا جائے اور سوچا جائے کہ کس طرح راوی نے یہ گالی وزن بحر کی سجع بندی میں چھپا کر دی ہے۔

یہ دلیل بھی کہ راوی نے یہاں حدیث کا وہ ٹکڑا کیوں چھپایا اور حذف کیا ہے جس میں یہ لکھتے ہیں کہ جابر بادشاہ جب بھی برائی کے لئے آگے بڑھتا تھا تواس کے ہاتھ شل ہو جاتے تھے ۔

اس کرامت یا معجزہ کو راوی صاحب حذف کرکے بتاتے ہیں کہ سارہ نے کہا کہ اس ظالم جابر بادشاہ نے میری خدمت کی اجرت میں مجھے ھاجرہ عطا کی ۔

یہ لفاظی اور عبارت حدیث میں سجع بندی ببانگ دہل شہادت دے رہی ہے کہ راوی حضرت ابراہیم ؑ کی اہلیہ محترمہ کو گالی دے رہا ہے، تبرّا کررہا ہے ۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ ان حدیث گھڑنے والوں نے جو جابربادشاہ کے حوالے سے اور حضرت ابراہیمؑ کا اکیلے بیوی کے ساتھ سفر کرنے کا قصہ لکھا ہے وہ سرے سے من گھڑت اور جھوٹا ہے اور انہوں نے اسے موجودہ تحریف شدہ تورات سے نقل کیا ہے ۔

اہل مطالعہ اور جنرل نالج سے تھوڑی سی مناسبت رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ کا باپ آذر نمرود بادشاہ کی کابینہ میں مذہبی امور کا سربراہ تھا اور حضرت ابراہیم ؑ جوانی میں ہی اپنے باپ اور بادشاہ اور بابلی ریاست کے عوام سے ان کی بت پرستی، بت تراشی کے عمل پر ایک بھر پور مقابلہ کر چکے تھے۔

جس میں ابراہیمؑ جیتا اور بادشاہ اور جملہ حکومتی ڈھانچہ ہار گیا ۔

یہ نوجوان ابراہیم ؑ سلطنت والوں کو شکست دینے کے بعد رسالت اور نبوت پر فائز ہو کر خود حکمران بنا ۔

اللہ نے اس کی دعا ۔
رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ (26:83)
اے پروردگار مجھے علم ودانش عطا فرما اور نیکوکاروں میں شامل کر۔

یعنی اے میرے رب مجھے حاکمیت عطا فرما اور مجھے اصلاح کرنے والوں کے زمرہ میں شمار کر۔

اللہ نے اس کی دعا قبول فرما کر قرآن سے شہادت دلائی کہ:
 فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ۚ وَكُنَّا فَاعِلِينَ (21:79)
تو ہم نے فیصلہ (کرنے کا طریق) سلیمان کو سمجھا دیا۔ اور ہم نے دونوں کو حکم (یعنی حکمت ونبوت) اور علم بخشا تھا۔ اور ہم نے پہاڑوں کو داؤد کا مسخر کردیا تھا کہ ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے اور جانوروں کو بھی (مسخر کردیا تھا اور ہم ہی ایسا) کرنے والے تھے۔
 وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ

یعنی ہم نے ان سب نبیوں کو علم اور حکومت سے نوازا ۔

اور یہ سب لوگ
أُولَئِكَ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ۚ فَإِنْ يَكْفُرْ بِهَا هَؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَيْسُوا بِهَا بِكَافِرِينَ (6:89)
یہ وہ لوگ تھے جن کو ہم نے کتاب اور حکم (شریعت) اور نبوت عطا فرمائی تھی۔ اگر یہ (کفار) ان باتوں سے انکار کریں تو ہم نے ان پر (ایمان لانے کے لئے) ایسے لوگ مقرر کردیئے ہیں کہ وہ ان سے کبھی انکار کرنے والے نہیں۔
 أُولَئِكَ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ

ان سب کو ہم نے کتاب، حکمرانی اور نبوت عطا کی ۔

تو ایسے مقام و مرتبہ پر فائز حضرت ابراہیم ؑ کو اہل فارس کا حدیث ساز گروہ دیکھو کس طرح پیش کر رہا ہے جیسے کوئی پیش امام یا مؤذن مولوی صاحب اپنی بیوی کو سفر پر کسمپرسی کی حالت میں لے جاتا ہو ۔

لوگوں کو جان لینا چاہیئے کہ حضرت ابراہیم ؑ خاندانی لحاظ سے شاہی خاندان کے فرد ہیں اور اس کے ساتھ وقت کی نمرودی بادشاہت کے بچپن سے باغی اور اپوزیشن لیڈر ہیں اور اللہ کی طرف سے
 إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا
 یعنی انسان ذات کے کائناتی اور بین الاقوامی لیڈر بنائے گئے رسول ہیں ۔
وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ (2:124)
اور جب پروردگار نے چند باتوں میں ابراہیم کی آزمائش کی تو ان میں پورے اترے۔ خدا نے کہا کہ میں تم کو لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ (پروردگار) میری اولاد میں سے بھی (پیشوا بنائیو)۔ خدا نے فرمایا کہ ہمارا اقرار ظالموں کے لیے نہیں ہوا کرتا۔


سو راوی اور اس کے اساتذہ راوی لوگ جھوٹ کہتے ہیں کہ ابراہیم ؑ سے وقت کے جابر شخص نے بیوی چھینی تھی وغیرہ وغیرہ ۔

یہ قصہ من گھڑت ہے۔

ایسی حدیث ہی جعلی ہے، بناوٹی ہے یہ حضرت ابراہیمؑ جیسے ابو الانبیاء کو گالی دینے اور ان پر تبرا کرنے کے لئے گھڑی گئی ہے۔

فتنۂ انکارِ قرآن ، کب اور کیسے ؟

از قلم : عزیزاللہ بوہیو

شکاری صاحب نے کہا:
اقتباس:
"زمین میں دھنسنے" کی اجرت میں "کافر" "آجر" نے "ھاجر" دی یا کسی "اور" خدمت کی "اجرت" میں ؟؟؟
میرے ناقص علم کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کی لونڈی کا درست نام ہاجر یا آجر ہی تھا۔ جو کسی نامعلوم وجہ سے اردو میں ہاجرہ کے نام سے مشہور ہو گیا۔
لہٰذا کوئی الزام راوی پر غلطی کا نہیں ہے۔ بلکہ مترجمین یا کاتبین کا کوئی سہو اس میں شامل ہو سکتا ہے جس کے باعث غلط نام مشہور ہو گیا۔
اس سوال کا خلاصہ یہ ہے کہ
1
۔ راوی نے ہاجرہ کو ہاجر فقط کافر اور آجر کے وزن پر لانے کے لئے کہا تھا۔
2
۔ اور راوی کا یہ قافیہ ملانے سے مقصود یہ تھا کہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ سارہ رضی اللہ عنہا کی کسی خدمت کے عوض انہیں بادشاہ نے ہاجر تحفے میں دی۔ نعوذباللہ۔
3
۔ ورنہ راوی اگر متن میں واخدمنی اجرتا جیسے الفاظ شامل کر دیتا تو تبرا اور گالی ظاہر ہو جاتی۔ لہٰذا اس نے چھپا کر یہ گالی دی۔
سب سے پہلے تو اللہ کی لعنت ہو اس شخص پر جس نے حضرت سارہ رضی اللہ عنہا پر یہ گھٹیا ترین بہتان باندھا ہے۔ ہم اس بات کو ثابت کر سکتے ہیں کہ یہ بہتان کم سے کم راوی کے تو سان و گمان میں بھی نہ رہا ہوگا۔
اور ثبوت یہ ہے کہ جب اوپر درج پہلا نکتہ، جس پر اس گھٹیا استدلال کا قصر تعمیر کیا گیا ہے، بجائے خود ایک بہتان ہے تو بقیہ نکات کا باطل ہونا خودبخود ثابت ہو جاتا ہے۔ کیونکہ راوی نے کسی بدنیتی کی وجہ سے (جیسا کہ بوہیو صاحب بتاتے ہیں) ہاجرہ کو ہاجر نہیں کہا تھا۔ بلکہ اس نے درست نام ہی لیا تھا۔ اب یہ نام اردو میں ہاجرہ کے نام سے کیوں مشہور ہو گیا ، یہ بات ہم نہیں جانتے۔

ہمارا جواب بہرحال یہ ہے کہ چونکہ نام میں راوی کی بددیانتی ثابت نہیں ہوتی۔ لہٰذا اس مفروضہ بددیانتی کی بنیاد پر گھڑے جانے والے اس عظیم الشان بہتان کی زد بجائے خود بوہیو صاحب یا ان کے اندھے مقلدین پر پڑتی ہے۔
یہ فقط خود سے گھڑا مفروضہ ہے۔ جس کا جواب اوپر سوال دو کے تحت آ چکا۔
اور لفظ خدمت کے گرد کاماز لگا کر جس خاص سمت میں ذہن مبذول کروانے کی کوشش کی گئی ہے، اس سے معترض کی گھٹیا ترین ذہنیت بالکل واضح ہے۔
یاد رہے کہ حدیث کے کسی طرق میں
واخدمنی اجرتا
یا
اخدمنی فی الاجرۃ
جیسے الفاظ استعمال ہی نہیں ہوئے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
فأخدمها هاجر فأتته
جس کا معنی یہ ہے کہ حضرت سارہ رضی اللہ عنہ کی خدمت کے لئے ہاجر ان کو سونپ دی۔
جب کہ وہ خبث باطن پر مشتمل معنی جو بوہیو صاحب نے پیش کیا ہے کہ
حضرت سارہ کی خدمت کے عوض ہاجر ان کو پیش کی۔
وہ اس حدیث میں کہیں پر بھی موجود نہیں۔ یہ فقط ان کا خود ساختہ بہتان ہے جو عربی سے نابلد ان کے اندھے مقلدین پر خوب کارگر ہے ۔

جوابات :

فأخدمها هاجر فأتته :: وأخدمني آجر :: وَأَخْدَمَنِي آجَرَ :: کا استعمال :: الفاظ کا ایک اور تضاد

واخدمنی اجرتا
یا
اخدمنی فی الاجرۃ
جیسے الفاظ استعمال ہی نہیں ہوئے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
فأخدمها هاجر فأتته

فأخدمها هاجر فأتته :: وأخدمني آجر :: وَأَخْدَمَنِي آجَرَ :: کا استعمال :: حدیث کے الفاظ کا ایک اور تضاد

حدثنا سعيد بن تليد قال أخبرني ابن وهب قال أخبرني جرير بن حازم عن أيوب عن محمد عن أبي هريرة قال قال النبي صلی الله عليه وسلم ح حدثنا سليمان عن حماد بن زيد عن أيوب عن محمد عن أبي هريرة قال قال النبي صلی الله عليه وسلم لم يکذب إبراهيم إلا ثلاث کذبات بينما إبراهيم مر بجبار ومعه سارة فذکر الحديث فأعطاها هاجر قالت کف الله يد الکافر وأخدمني آجر قال أبو هريرة فتلک أمکم يا بني مائ السمائ

4796
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ تَلِيدٍ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ح حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ إِلَّا ثَلَاثَ كَذَبَاتٍ بَيْنَمَا إِبْرَاهِيمُ مَرَّ بِجَبَّارٍ وَمَعَهُ سَارَةُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ فَأَعْطَاهَا هَاجَرَ قَالَتْ كَفَّ اللَّهُ يَدَ الْكَافِرِ وَأَخْدَمَنِي آجَرَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَتِلْكَ أُمُّكُمْ يَا بَنِي مَاءِ السَّمَاءِ

باب اتخاذ السراري ومن أعتق جاريته ثم تزوجها

http://www.islamweb.net/newlibrary/d...id=0&startno=1


.5084 -
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ تَلِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ح حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ' لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ إِلَّا ثَلاَثَ كَذَبَاتٍ: بَيْنَمَا إِبْرَاهِيمُ مَرَّ بِجَبَّارٍ وَمَعَهُ سَارَةُ فَذَكَرَ الحَدِيثَ، فَأَعْطَاهَا هَاجَرَ، قَالَتْ: كَفَّ اللَّهُ يَدَ الكَافِرِ وَأَخْدَمَنِي آجَرَ ' قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَتِلْكَ أُمُّكُمْ يَا بَنِي مَاءِ السَّمَاءِ

ฮาดีษทั้งหก พร้อมฮุก่มจาก เชคอัลอัลบานียฺ

أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا (4:82)
بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے؟ اگر یہ خدا کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو اس میں (بہت سا) اختلاف پاتے۔
Do they not consider the Qur'an (with care)? Had it been from other Than Allah, they would surely have found therein Much discrepancy.

صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 76 حدیث مرفوع مکررات 9 متفق علیہ 7
سعید بن تلید، ابن وہب، جریر بن حازم، ایوب، محمد، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، ح، سلیمان، حماد بن زید، ایوب، محمد، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین موقعوں کے علاوہ کبھی ذومعنی بات نہیں کی، اچانک ایک دفعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک جابر بادشاہ کی طرف گئے، اس وقت آپ کے ساتھ (آپ کی بیوی) حضرت سارہ بھی تھیں، آپ نے اس قصہ کو ذکر کیا، اس بادشاہ نے حضرت سارہ کو حضرت ہاجرہ کی خدمت کے لئے دی تھی، حضرت سارہ نے عرض کیا اللہ نے کافر سے مجھے بچالیا، بلکہ اس نے خدمت کے لئے مجھے (ہاجرہ) دی ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے آسمان کے پانی کی اولاد یہی ہاجرہ تمہاری ماں ہے۔

Narrated Abu Huraira:
The Prophet said: Abraham did not tell lies except three. (One of them was) when Abraham passed by a tyrant and (his wife) Sara was accompanying him (Abu Huraira then mentioned the whole narration and said:) (The tyrant) gave her Hajar. Sara said, "Allah saved me from the hands of the Kafir (i.e. infidel) and gave me Hajar to serve me." (Abu Huraira added:) That (Hajar) is your mother, O Banu Ma'-As-Sama' (i.e., the Arabs).

حدیث کے الفاظ کے "اور تضادات" !!!

 عزیزاللہ بوہیو کا اقتباس دوبارہ ملاحظہ فرمائیں۔

فأخدمها هاجر فأتته :: وأخدمني آجر :: وَأَخْدَمَنِي آجَرَ :: کا استعمال ::

اور اس میں أَخْدَمَهَا هَاجَرَ کے الفاظ بیان کیے۔ :: قال هاجر إبراهيم بسارة فأعطوها آجر : فأخدمها هاجر

حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب حدثنا أبو الزناد عن الأعرج عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال هاجر إبراهيم بسارة فأعطوها آجر فرجعت فقالت أشعرت أن الله کبت الکافر وأخدم وليدة وقال ابن سيرين عن أبي هريرة عن النبي صلی الله عليه وسلم فأخدمها هاجر

صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2479 حدیث مرفوع مکررات 9 متفق علیہ 7
ابو الیمان شعیب ابوالزناد اعرج حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سارہ کے ساتھ ہجرت کی تو لوگوں نے سارہ کو ہاجرہ لونڈی دی وہ واپس ہوئیں اور کہنے لگیں کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ نے کافر کو ذلیل کردیا اور اس نے ایک لونڈی خدمت کے لیے دی اور ابن سیرین ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں اور اس میں أَخْدَمَهَا هَاجَرَ کے الفاظ بیان کیے۔

عزیزاللہ بوہیو کا اقتباس دوبارہ ملاحظہ فرمائیں ۔

عن ابی ہریرہ لم یکذب ابراہیم الاثلاث کذبات بینما ابراہیم مربجبار و معہ سارہ فذکر الحدیث فاعطاہا ھاجر قالت کف اللہ ید الکافر واخدمنی ا جٰرقال ابو ہریرہ فتلک امکم یابنی ماء السماء ۔
 حدیث نمبر 75باب نمبر42کتاب النکاح بخاری ۔

ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ابراہیم ؑ نے تین جھوٹ سے زیادہ نہیں بولے ۔ اس حال میں کہ ابراہیم ؑ گزر رہے تھے کسی جابر کے ہاں سے اور اس کے ساتھ اس کی اہلیہ سارہ بھی تھیں۔ آگے باقی ساری حدیث بیان کی پھر عطا کی سارہ کو ھاجرہ ۔ سارہ نے کہا کہ میری خدمت کے لئے اس جابر نے اجرت دی ۔ ابو ہریرہ نے کہا پھر یہی ہے تمہاری ماں اے آسمانی پانی کی اولاد ۔

مندرجہ بالا حدیث پر بحث کرنے سے پہلے ہم قرآن حکیم سے اس حدیث کا تضاددیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ابراہیم ؑ کے بارے میں شہادت دے رہے ہیں کہ :
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا (19:41)
یعنی بے شک وہ انتہا کے سچے نبی تھے ۔

بندے اللہ صاحب نے کہا :

جنوں کا نام خرد رکھ دیا خرد کا جنوں

کہا (قَالَ) بلکہ (بَلْ) کسی نے کیا (فَعَلَهُ)، ان کا بڑا ( كَبِيرُهُمْ) یہ ہے (هَذَا)، اگر یہ بولتے ہیں تو اس سے پوچھ لو (فَاسْأَلُوهُمْ إِنْ كَانُوا يَنْطِقُونَ)

بامحاورہ ترجمہ
کہا بلکہ کسی نے تو کیا ہوگا ! تو یہ ہے ان کا بڑا پوچھ لو اس سے اگر یہ بول سکتا ہے

آیت 19:41 کی روشنی میں یہ ترجمہ بالکل پورا اترتا ہے کیونکہ اس میں کہیں کوئی جھوٹ نظر نہیں آرہا سوائے اس طنز کے کہ اگر یہ بڑا بولنے کی استطاعت رکھتا ہے تو اس سے کیوں نہیں پوچھتے

و اللہ اعلم

فاروق سرورخان صاحب نے کہا:

بندے اللہ کا ترجمہ درست ہے، دیکھئے تجزیہ۔

21:63
قالَ --- بَلْ فَعَلَهُ --- كَبِيرُهُمْ هَذَا ---- فَاسْأَلُوهُمْ --- إِن كَانُوا يَنطِقُونَ
He said: Surely (someone) has done it. The chief of them is this; so ask them, if they can speak.
21:63 قَالَ ۔۔۔ اس نے کہا --- فعل ماض
بَلْ ---- بلکہ یا نہیں --- حرف اضراب
فَعَلَهُ ---- کسی کرنے والے نے کیا ۔۔ یا ۔۔۔ کسی نے کیا ۔۔۔ فعل ماض،،،، والهاء ،،،، ضمير متصل في محل نصب مفعول به
كَبِيرُهُمْ ۔۔۔۔۔ ان کا بڑا --- اسم مرفوع و«هم» ضمير متصل في محل جر بالاضافة
هَذَا --- یہ ہے ۔۔۔ اسم اشارة
فَاسْأَلُوهُمْ ---- تو ان (سب) سے پوچھو --- الفاء استئنافية،،، فعل أمر،،، والواو ،،ضمير متصل في محل رفع فاعل و«هم» ضمير متصل في محل نصب مفعول به
إِنْ ----- اگر --- حرف شرط
كَانُوا --- وہ (سب) ہو سکیں --- فعل ماض والواو ضمير متصل في محل رفع اسم «كان»
يَنْطِقُونَ --- وہ سب بولنے والے -- فعل مضارع والواو ضمير متصل في محل رفع فاعل

یہاں دو الفاظ بہت اہم ہیں
فَعَلَهُ
فَاسْأَلُوهُمْ

فَعَلَهُ کے آخر میں ہ پر پیش کو دیکھئے۔ اس ہ کی وجہ سے اس سے اگلے لفظ كَبِيرُهُمْ کو فاعل نہیں کہا جاسکتا۔

پھر فَاسْأَلُوهُمْ مفرد فاعل یا ایک بت کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ بلکہ ٹوٹے ہوئے بتوں کی طرف اشارہ ہے۔

لہذا درست ترجمہ کے لئے ضروری ہے کہ جملے کو

قَالَ بَلْ فَعَلَهُ پر توڑا جائے ۔ جس سے معانی بنتے ہیں --- اس نے کہا کہ نہیں کسی نے توڑا ہوگا
كَبِيرُهُمْ هَذَا --- ان میں‌سے بڑا یہ ہے
فَاسْأَلُوهُمْ -- تو ان سب (ٹوٹے ہوئے بتوں ) سے پوچھو
إِن كَانُوا يَنطِقُونَ - اگر یہ بول سکتے ہوں

امید ہے یہ بغور ترجمہ مدد کرے گا۔ اس آیت سے یہ واضح ہے کہ رسول اکرم ابراہیم علیہ السلام جھوٹ نہیں بول رہے بلکہ وہاں‌جمع شدہ لوگوں سے ایک منطقی سوال پوچھ رہے ہیں‌کہ اگر یہ ٹوٹے ہوئے بول سکتے ہیں تو ان سے پوچھو۔

زیاد تر مترجمین نے بارناباس کی بائیبل سے متاثر ہو کر اس آیت کا ترجمہ کیا ہے اور توڑنے کا عمل بڑے پر ڈال دیا ہے۔ بغور ترجمہ میں‌ ہم کو قَالَ بَلْ فَعَلَهُ میں فعل کے بعد ہ نظر آتی ہے ۔۔۔ جو یہ ذمہ داری كَبِيرُهُمْ پر ڈالنے سے روکتی ہے۔

سبحان اللہ ۔۔

اس ترجمے سے ظاہر ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے کوئی جھوٹ نہیں بولا۔ چونکہ یہ آیت خود رسول اکرم کی زبان مبارک سے ادا ہوئی ۔ وہ جانتے ہیں‌کہ کیا کہا گیا ۔ لہذا کم از کم دو عددغیر ذمہ داریوں کی توقع رسول اکرم محمد صلعم سے نہیں کی جاسکتی ۔
یہ روایت کسی نے اپنی طرف سے منسوب کی ہے ۔

اس مراسلے میں پیش کردہ مواد کی تصدیق کسی بھی عربی زبان جاننے والےسے کروائی جاسکتی ہے۔

والسلام

3 comments:

  1. افسوس کہ صرف اپنی سوچ کو ظاہر کیا جا رہا ہے ، اس نام نہاد اور عملی طور پر مکمل طور پر غلط تحقیق نما گمراہی کے بہت اچھے جوابات دیے جا چکے ہیں ،
    اگر رانا صاحب اور ان کے ہم نواوں میں کچھ تھوڑی سی بھی علمی جرات ہو ، اور واقعتا انہیں اپنے سچے ہونے کا یقین ہو تو انصاف کا تقاضا پورا کرتے ہوئے وہ جوابات بھی یہاں پیسٹ کریں ،
    لیکن یہ لوگ کبھی ایسا نہیں کریں گے ، ان کا مقصد صرف حدیژ شریف کو مشکوک بنا کر امت مسلمہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سنت مبارکہ سے دور کرنا ہے ، تا کہ قران فہمی کے نام پر یہ لوگ جس طرح چاہیں قران کی تشریح کرتے رہیں ،
    لیکن الحمد للہ نہ تو ایسے لوگوں کو کبھی کامیابی ہوئی ، اور نہ ہی ان شاء اللہ کبھی ہونے والی ہے ،
    اور عین ممکن ہے میرا یہ جواب بھی حذف کر دیا جائے ،
    رانا صاحب اور ان کے ہم نواوں سے گذارش ہے کہ عملی جرات کا مظاہر کیجیے اور جو کچھ آپ لوگوں کی غلط بیانیوں کو فاش کرنے والا مواد ہے اسے بھی یہاں سامنے لایے ، تا کہ قارئین کرام حقیقت جان سکیں ، ان شاء اللہ ،

    ReplyDelete
  2. اس پورے مضمون کا مکمل جواب یہاں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے:

    http://forum.mohaddis.com/threads/5335/

    ReplyDelete