Wednesday, August 1, 2012

کوئی سی آیات کے ٹکڑے جوڑ کر اپنی مرضی کے مفہوم کی آیت بنا ئیں، جیسا کہ امام بخاری نے باب الاکراہ میں کیا !!!


آیات کے ٹکڑے جوڑ کر اپنی مرضی کی آیت بنانے کے جھوٹے اِلزام کا جائزہ

کوئی سی آیات کے  ٹکڑے جوڑ  کر اپنی مرضی کے مفہوم کی آیت بنا ئیں، جیسا  کہ امام بخاری نے باب الاکراہ میں  کیا !!!

إن الذين توفاهم الملائكة ظالمي أنفسهم قالوا فيم كنتم قالوا كنا مستضعفين في الأرض‏ ‏ إلى قوله ‏  واجعل لنا من لدنك نصيرا

امام بخاری کی فقہ کے مطابق تقیہ جائز ہے۔

قرآن کسی بھی پھنے خان کی ٹامک ٹوئیا ں چلنے نہیں دیتا۔

امام بخاری کے تقیہ کے لئے استدلال نے اسکی بددیانتی کو طشت ازبام کردیا۔

یہ بات تو ہم علماء حدیث کے حوالہ سے کئی بار عرض کرچکے ہیں کہ فقہ البخاری فی تر۱جمہ ٖیعنی امام بخاری کا فقہی موقف ، نظریہ اور مسلک اس کی کتاب کے عنوانات میں ہے۔ تو امام بخاری صاحب نے اپنے مجموعہ احادیث بنام الصحیح البخاری کے اندر ایک کتاب بنام کتاب الاکراھ قائم کیا ہے ۔جس کا پہلاہی باب ایک لمبے چوڑے عنوان سے لکھا ہے جو ساے کا سارا تقیہ کے ثبوت اور جواز کے لئے لکھا ہے اور دلیل کے لئے قرآن حکیم کے ایسے دلائل لایا ہے جو ان پر
 نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَکْفُرُ بِبَعْضٍ
کا قرآنی جملہ بالکل سچا اور پورا اترتا ہے ۔ 

محترم قارئین  !
امام بخاری اس ترجمۃ الباب کے شروع میں سورۃ نحل کی آیت نمبر106لایا ہے کہ :
 مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (16:106)
جو شخص ایمان لانے کے بعد خدا کے ساتھ کفر کرے وہ نہیں جو (کفر پر زبردستی) مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو۔ بلکہ وہ جو (دل سے اور) دل کھول کر کفر کرے۔ تو ایسوں پر الله کا غضب ہے۔ اور ان کو بڑا سخت عذاب ہوگا۔
یعنی جس شخص نے بھی اللہ کے احکامات کا ایمان لانے کے بعد کھلے دل سے کفر کیا انکار کیا تو یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کا غضب اور دردناک عذاب ہوگا ۔ ہاں وہ لوگ اس حکم اور سزا کے مواخذہ میں نہیں آئیں گے جن کے دل ایمان باللہ پر مطمئن ہوں اور ان سے جبرو اکراہ سے کوئی خلاف شرع کام لیا جائے ۔ایسے لوگوں کو کوئی سزا نہیں ہوگی ۔

محترم قارئین!
 امام بخاری نے اس آیت کو نقل تو کیا ہے لیکن بغیر تبصرہ کے جلد ی آگے آل عمران کی آیت 28کے درمیان کا جملہ
 إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً
لکھ کر فوراً لکھتا ہے کہ یہی تقیہ ہے یہی جملہ تقیہ کے لئے ثبوت اور دلیل ہے ۔جس کا مطلب یہ ہے کہ خوف اور ڈر کی حالت میں تمہارے لئے ناجائز چیز( جھوٹ وغیرہ) جائز کردی جاتی ہے۔
لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ
ۖ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ (3:28)
مؤمنوں کو چاہئے کہ مؤمنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس سے خدا کا کچھ (عہد) نہیں ہاں اگر اس طریق سے تم ان (کے شر) سے بچاؤ کی صورت پیدا کرو (تو مضائقہ نہیں) اور خدا تم کو اپنے (غضب) سے ڈراتا ہے اور خدا ہی کی طرف (تم کو) لوٹ کر جانا ہے۔
 اس لئے مناسب اور ضروری سمجھتا ہوں کہ میں یہاں پوری آیت نقل کرکے اس کا مفہوم عرض کروں پھر فیصلہ قارئین خود کریں کہ کیا قرآن حکیم جھوٹ بولنے کی اجازت دیتا ہے؟ جس طرح امام بخاری اور اس کے ہمنواؤں نے مشہور کیا ہے ۔پوری آیت ملا حظہ ہو:
لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ
ۖ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ (3:28)
یعنی مومنوں کے لئے یہ درست نہیں ہے کہ وہ مومنوں کو چھوڑ کر کافروں سے دوستی رکھیں ۔اگر کوئی ایسا کرے گا تو پھروہ مکافات کے لئے تیار ہوجائے ۔ایسے لوگوں کے لئے اللہ کا ذمہ ختم ہو جا تا ہے۔اگر تم کفار سے ڈرتے ہو اور تمہیں ان کی طرف سے بڑا کوئی خطرہ ہے جان اور مال کے ضائع ہو جانے تک تو بھی یادرکھوکہ
وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ
ۗ
 یعنی اللہ تمہیں اپنے قوانین کی خلاف ورزی سے ڈراتا ہے ۔
 وہ اس لئے بھی کہ
 وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ
یعنی مآل کار ، بالآخرانجام تو یہ ہے کہ پھر پھرا کر اللہ کی طرف لوٹنا ہے تو پھر خوف کی حالت میں بھی سچ بولنا ہو گا۔ اور اللہ کے قوانین کی خلاف ورزی کی اجازت کسی بھی حالت میں نہیں ملے گی۔
 میں نے عرض کیاہے کہ اس سے پہلی آیت  (16:106) پر بھی امام بخاری صاحب نے صرف نقل پر اکتفا کیا اور تبصرہ نہیں کیا ۔ اس لئے کہ اس آیت میں صاف صاف ہے ۔
إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ
مجبور اور  اکراہ  کئے ہوئے لوگوں کا اپنا کوئی عمل  و  ارادہ  غیر شرعی چیز کے لئے ثابت نہیں ہے ۔
 اس لئے ان سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا۔
 جب کہ ڈر کے مارے جھوٹ بولنے ،کہنے والے کا اپنا قول اور عمل موجود ہے۔اس لئے تو آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ مجھ سے ڈر و آخر کار تو میرے دربار میں تمہیں حاضر ہونا ہے ۔جن کا آخری عدالت پر کوئی کنٹرول نہیں ان سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔

 جنا ب قارئین!
 آگے ترجمۃ الباب کی عبارت میں امام بخاری صاحب نے تقیہ کے ثبوت اور جواز کے لئے ایک ایسی خیانت اور بیہودہ جسارت کی ہے کہ فیصلہ کس سے کرائیں یعنی ثبوت تقیہ کے لئے قرآن کی آیت 97سورۃ نساء سے لکھتے ہیں :
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَآٰءِکَۃ’‘ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ قَالُوا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ  الی قولہٖ  وَجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا ۔

 محترمین !
 اس آیت کے نقل کرتے وقت امام بخاری صاحب نے آدھی آیت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ آگے اتنے تک پڑھتے رہو جتنے تک جملہ وَجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا  (4:75)

 محترم قارئین!
 یہ جملہ آگے ختم قرآن تک نہیں ہے ۔ دیکھئے کہ امام بخاری پڑھنے والوں کو کتنا دھوکہ دے رہاہے۔ یہ جملہ تو پیچھے اسی سورۃ کی آیت نمبر75کا حصہ ہے جب کہ یہ آیت 97نمبر ہے تو پھر کیا اسے امام بخاری کی حواس باختگی کہا جائے گا، یا قرآن سے لا علمی اور جہالت پن کہا جائے گا ،یا تراویح پڑھانے والوں حافظوں کی طرح متشابہات میں بہک جانا کہا جائے گا،یا پڑھنے والوں کو بیوقوف بنانے کی فنکاری کہاجا ئے گا۔
إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (4:97)
اور جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں جب فرشتے ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز وناتواں تھے فرشتے کہتے ہیں کیا خدا کا ملک فراخ نہیں تھا کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے۔
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا (4:75)
اور تم کو کیا ہوا ہے کہ خدا کی راہ میں اور اُن بےبس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو دعائیں کیا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو اس شہر سے جس کے رہنے والے ظالم ہیں نکال کر کہیں اور لے جا۔ اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا۔ اور اپنی ہی طرف سے کسی کو ہمارا مددگار مقرر فرما۔

 محترم قا رئین !
 اصل بات یہ ہے کہ اس آیت 97 کا اگلا بقیہ حصہ
َالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (4:97)
ہے۔
 پوری آیت جس کامفہوم اور خلاصہ ہے کہ ملائکہ جب ان لوگوں کو جنہیں انہوں نے وفات دی ہوگی پوچھیں گے کہ تم کس حال میں تھے تو وہ لوگ جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہوگا وہ کہیں گے کہ ہم زمین پر کمزور بنائے گئے تھے۔
 ( بخاری صرف یہاں تک نقل کرکے پھرلکھتا ہے کہ آگے  وَجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا  تک )
 جبکہ آگے آیت ہے کہ کیا اللہ کی زمین کشادہ نہیں جو تم اس میں بذریعہ ہجرت پھیل جاتے ۔ سو ان لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے جو بہت برا مرجع ہے ۔

محترم قارئین!
 بخاری صاحب نے جب دیکھا کہ آیت کا یہ پچھلا حصہ تو تقیہ کرنے پر جہنم میں پہچانے کی بات کرتا ہے تو اس نے اپنی امامت کا ہنر دکھاتے ہوئے ایسے جملے کی طرف اشارہ کیا جو آگے پڑھنے سے اخیر قرآن تک نہ مل سکے ۔
ملاحظہ فر ما یا قارئین!
قرآن کسی بھی پھنے خان کی ٹامک ٹوئیا ں چلنے نہیں دیتا۔ اس آیت سے امام بخاری کے تقیہ کے لئے استدلال نے اسکی بددیانتی کو طشت ازبام کردیا جو کسی بھی تھوڑی سی پاسداری والے کو زخم چاٹنے کے لئے کافی ہے ۔آگے امام بخاری صاحب اپنے ترجمہ الباب میں لکھتے ہیں کہ وقال الحسن التقیہ الی یوم القیامہ یعنی حسن بصری نے فرمایا کہ تقیہ یعنی خوف کے مارے جھوٹ کہنا یہ قیامت تک جاری رہے گا۔

عزیز بھا ئیوں !
حسن بصری صاحب امام بخاری صاحب کے بھی پیشوا اور سلف صالحین میں سے ہیں۔ وہ امام بخاری کے بھی بڑے میاں ہیں۔ محترم حسن بصری صاحب قدس سرہ ٹیم کے صف اول کے پیشوا ہیں۔ وہ تصوف کے بانیوں میں سے ہیں۔ سو ان کا سارا اثاثہ تو تقیہ یعنی جھوٹ بولنے سے معرض وجود میں آیا ہے۔ سو ان لوگوں نے قرآن کے غلط حوالوں سے اللہ پر جو بہتان باندھا ہے کہ تقیہ قرآن سے ثابت ہے ۔ان کے لئے قرآن فرماتا ہے کہ :
قُلْ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ (10:69)
کہہ دو جو لوگ خدا پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں فلاح نہیں پائیں گے۔
یعنی اے نبی اعلان کردے کہ جولوگ اللہ پر جھوٹ باندھیں گے ان کی کبھی فلاح نہیں ہوگی۔سو سارے اہل ایمان سے اللہ نے فرمایا کہ :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (9:119)
اے اہل ایمان! خدا سے ڈرتے رہو اور راست بازوں کے ساتھ رہو۔
 یعنی اے ایمان والوخوف اور ڈر صرف اللہ کا رکھو اور ہمیشہ سچ بولنے والوں کا ساتھ دیا کرو دوسرے مقام پر فرمایا کہ :
 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (33:70)
مومنو خدا سے ڈرا کرو اور بات سیدھی کہا کرو۔
یعنی اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو بات کرو وہ سیدھی اور صاف ستھری ہونی چاہیے، پکی اور پختہ ہونی چاہئیے جس میں تقیہ کا ذرا بھی شائبہ نہیں ہونا چاہیے ۔
 آخر میں امام بخاری اپنے ترجمۃ الباب میں اپنی شروع کتاب والی حدیث کو مختلف حوالوں اور مختصر عبارت سے لایا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ الاعمال بالنیتہ ، یعنی عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔میں اس حدیث کے غلط ،جھوٹ، جعلی، من گھڑت ہونے پر اسی کتاب کے حصہ اول میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔
 اس کے باوجود یہاں کچھ مزید دلائل قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں ۔اوراس سے پہلے جملہ’’ الاعمال بالنیتہ‘‘ یعنی اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ اس میں جھول کی نشان دہی یہ ہے کہ علم مناظرہ میں ایک اصطلاح زیادہ استعمال ہوتی ہے وہ یہ کہ کلمہ حق اریدبہ الباطل یعنی بات تو صحیح اور سچی کہی گئی ہے لیکن اس سے باطل مفہوم کا ارادہ کیا گیا ہے۔ بخاری کی اس حدیث میں بھی جان بوجھ کر یہ مشہور کیا گیا ہے کہ اعمال نیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ تو اس میں ان کے اندر کا چور یہ ہے کہ یہ لوگ اگر کوئی برا عمل کریں تو یہ کہہ کر جان چھڑائیں کہ عمل تو ایسا ہو گیا لیکن میری نیت اس طرح کی نہیں تھی یاان کا کوئی مخالف اچھا کام بھی کرے تاہم مخالف کے متعلق یہ کہہ کر کردار کشی کریں کہ ٹھیک ہے کام تو اچھا ہوا لیکن یہ لوگ نیت کے اچھے نہیں ہیں یعنی نیت کی تلوار سے ان کی من مانی چلتی رہے۔ اس لئے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ایک سو سے زائد بار عمل کے ساتھ صالح کو ملا کر بیان کیا ہے تو معنی یہ ہوئے کہ عمل کرنے والا سوچ سمجھ کر عمل کرے کہیں بدکرداری پر یہ نہ کہے کہ میری نیت میں ایسا ویسا نہ تھا انجانے میں غلطی ہوگئی۔ انجانے میں غلطی پر قرآن نے حکم دیا ہے کہ نیت کی آڑ میں جان چھڑانے والوں کو بتایا جائے کہ :
 وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ
ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (6:54)
اور جب تمہارے پاس ایسے لوگ آیا کریں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو (ان سے) سلام علیکم کہا کرو خدا نے اپنی ذات (پاک) پر رحمت کو لازم کرلیا ہے کہ جو کوئی تم میں نادانی سے کوئی بری حرکت کر بیٹھے پھر اس کے بعد توبہ کرلے اور نیکوکار ہوجائے تو وہ بخشنے والا مہربان ہے۔
 یعنی جو بھی شخص تم میں سے بے خبری میں برائی کر بیٹھے تو اس پر لازم ہے کہ اس غلطی کے ازالہ کے لئے غلط پوآئنٹ پر واپس لوٹ آئے پھر سیدھی نتیجہ خیز صالح لائن پر چلے تو پھر رحم کرنے والا مالک اسے بچائے گا۔ 

محترم قارئین!
 قرآن کے نظریہ پر غور کریں کہ کتنا تو مضبوط ہے کہ نیت کی بہانہ بازی سے جان چھڑانے والوں کو کتنا تو جانتا ہے ۔پس حدیث الاعمال بالنیات اس لئے بھی جھوٹی ہے کہ اللہ نے قرآن میں جب عمل کے ساتھ نیت کی کہیں بھی شرط نہیں لگائی ہے تو رسول اللہ ایسی بات کیونکر فرمائیں گے جو قرآن میں نہ ہو ۔ اور جب قرآن میں ہر جگہ اللہ نے عمل کے ساتھ صالح کی شرط لگائی ہے تو رسول اللہ نے وہ قرآن والی عمل کی صفت اور شرط کیو ں بیان نہیں فرمائی؟ تیسری دلیل یہ بھی ہے کہ اعمال بالنیات میں تقیہ بازی والے جھوٹ بولنے کی مشق کی گنجائش نکل آتی ہے اور قرآن کی آئیڈیالوجی کے مطابق اٰمنوا وعملواالصا لحات سے تقیہ کے لئے کوئی چارہ نہیں کھلتا جبکہ نیت کی آڑ میں جھوٹ بولنے کے کئی مواقع مل جاتے ہیں ۔وہ اس طرح کہ کسی کے کا م کا ا گر کوئی غلط نتیجہ نکل آیا تو اس عمل والا آدمی یہ کہہ کر جان چھڑا نے کی تدبیر کرسکتا ہے کہ جی میری نیت تو صحیح تھی وغیرہ وغیرہ۔

از قلم : عزیزاللہ بوھیو

No comments:

Post a Comment