Monday, August 6, 2012

دُعا کے متعلق (حصہ دوم)

دُعا کے متعلق از قلم :عبدالکریم اثری

س6:۔ دعا کس کس حالت میں مانگی جا سکتی ہے اور کس کس حالت میں نہیں مانگی جا سکتی؟
ج:۔ جیسے یہ بات معلوم ہے کہ دُعا عبادت ہے اور عبادت کی تین اقسام بیان کی گئی ہیں بدنی عبادت، مالی عبادت اور قولی عبادت اور اس کو یوں بھی بیان کیا جاتا ہے کہ مالی عبادت، قولی عبادت اور فعلی عبادت گویا جس کو ’’بدنی عبادت‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اس کو ’’فعلی عبادت‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ دُعا کا تعلق مذکورہ تین اقسام میں سے ’’قولی عبادت‘‘ کے ساتھ قائم ہوتا ہے اور اس قسم میں تمام قسم کے تذکار اور ادعیہ آ جاتی ہیں جس کی ایک قسم، کسی انسان اور خصوصاًمسلمان کو ’’السلام علیکم‘‘ پیش کرنا اور اس کا ’’وعلیکم السلام‘‘ جیسے الفاظ میں جواب دینا ہے اس سلسلہ میں اور بھی بہت سے الفاظ ادا کیے جاتے ہیں اور سب کے سب اسی قسم میں آتے ہیں گویا کسی مسلمان کو ’’سلام‘‘ پیش کرنا بھی ’’عبادت الٰہی‘‘ میں شمار ہوتا ہے اور یہ ایک ایسی عبادت ہے جو کسی بھی حالت میں ادا کی جا سکتی ہے اور کسی حال میں بھی یہ ممنوع نہیں ہے حالانکہ انسان جنب کی حالت میں بھی دوسرے انسان کو ’’سلام‘‘ پیش کر سکتاہے دوسرے لفظوں میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ دُعا ایک ایسی عبادت ہے جو ہر وقت ہر حال میں سوتے، جاگتے اور سو کر اُٹھتے کی جا سکتی ہے خواہ دعائیہ الفاظ قرآنِ کریم سے ماخوذ ہوں یا کتب روایات میں سے کسی روایت کے ہوں یا دُعا مانگنے والے کی اپنی زبان کے الفاظ ہوں، اس میں کسی طرح کی کوئی پابندی موجود نہیں ہے۔
ہمارے پیارے رسول ﷺ کا معمول زندگی جو روایات میں آیا ہے اُس میں آپؐ جاگتے تو اُس مقام پر جہاں سے سو کر اُٹھتے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہوئے فرماتے تھے:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْرِ۔ (بخاری
۶۳۱۲، ۶۳۲۴) ’’سب اچھی تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے ہمیں گہری نیند سے جگا دیا ہے اور جس کی طرف ہم سب کو مرنے کے بعد زندہ ہو کر لوٹایا جانا ہے۔‘‘
مختصر یہ کہ دعا ہر حالت،ہر حال اورہر جگہ، ہر وقت اور ہر مقام پر کسی جا سکتی ہے کسی جگہ،کسی وقت اور کسی حال میں بھی دعا سے منع نہیں کیا گیا لیکن ایک بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہیے کہ کسی مقام، کسی جگہ، کسی وقت دعا کا ضروری قرار دیا جانابھی سخت غلط ہے جب کہ اس کا ضرری قرار دیا جانا قرآن و سنت سے واضح نہ ہو۔ عوام میں جھگڑے کا باعث یہ بات بنتی ہے کہ جب بعض لوگ کسی خاص جگہ، خاص وقت، خاص مجلس میں دُعا کرنا ضروری قرار دے دیتے ہیں اور اس کو دین کا ایک حصہ تسلیم کرتے ہیں ان کی ضد میں بعض لوگ اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایسے خاص مقامات، خاص اوقات اور خاص مجلسوں میں دعا کیے جانے کو برا خیال کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ان تعینات کی کوئی دلیل موجود نہیں ہوتی اور ظاہر ہے کہ جب دونوں طرف سے ضد کا مظاہرہ ہو تو اس چیز کا نام جھگڑا اور فساد ہے جو کسی حال میں بھی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جھگڑا و فساد قرآنِ کریم کی زبان میں فتنہ قرار دیا گیا ہے اور پھر فتنہ کو قتل سے بھی برا کہا گیا ہے۔
اَلْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ۔ (
۲:۱۹۱)
ایسے حالات میں فریقین کو ضد اور ہٹ دھرمی سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ کھلے دل سے اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ جو ایسا کرتا ہے اُس کے پاس کرنے کی کوئی دلیل موجود نہیں اور جو ایسا کرنا اچھا نہیں جانتا وہ یہ تو تسلیم کرتا ہے کہ یہ دین اسلام کا کام نہیں محض رسم و رواج کا معاملہ ہے جو بعض لوگوں نے خود ہی گھڑ لیا ہے جس طرح اور بہت سے رسم و رواج بنا لیے گئے ہیں اور کوئی بھی ان کو دین اسلام کے کام سمجھ کر نہیں کرتا لہٰذا ایسے معاملات کو دین اسلام کے احکام سمجھ کر کرنے سے ضلالت و گمراہی آتی ہے جو کسی حال میں اچھی نہیں، اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ اس گمراہی سے محفوظ رکھے لیکن بدقسمتی سے آج کل ایسے معاملات کو دین کے اہم کام سمجھ لیا گیا ہے۔ کیوں؟ محض اس لیے کہ جاہل ان باتوں کو دین کی باتیں سمجھ کر آسانی کے ساتھ ان پر لگ جاتے ہیں اور دلائل جمع کر کے دینے والوں کو مذہبی راہنما سمجھ کر خود کھلاتے پلاتے ہیں جس سے زمانہ کے نکمے لوگوں یعنی مذہبی راہنماؤں کا نہایت آسانی کے ساتھ کاروبار چلتا رہتا ہے اور ظاہر ہے کاروبار میں آسانی بھی میسر آئے اور کمائی بھی خوب ہو تو اس کو ترک کرنے کے لیے کون تیار ہوتا ہے؟
تعجب ہے کہ اکثر جگہ دُعاؤں کے ساتھ کھانے پینے اور پیٹ بھرنے کے طریقے ایجاد کر لیے گئے ہیں نام تو دعا کا ہوتا ہے لیکن اصل مسئلہ دعا کے ساتھ پیٹ بھرنے کا ہوتا ہے اور پیٹ بھرنے کے لیے انسان کیا کچھ نہیں کرتا لہٰذا آپ غور کرتے جائیں جہاں جہاں دعا کے ساتھ پیٹ کا تعلق قائم ہوتا نظر آئے وہاں اصل دعا نہیں بلکہ دعا ایک فرضی چیز ہے اور اصل اس جگہ پیٹ کا مسئلہ ہے کتاب و سنت کی دعاؤں پر چاہے جتنا بھی غور کر لیں کہیں پیٹ کا مسئلہ اور دعا دونوں کا اجتماع آپ کو نظر نہیں آئے گا اور جہاں یہ دونوں جمع دیکھیں وہاں سمجھ لیں اس جگہ دعا کا محض نام ہے اصل حقیقت مسئلہ بطن ہے تو آپ کے لیے فیصلہ آسان ہو جائے گا اور بات سمجھنا بھی آسان ہو جائے گی کہ معاملہ دعا کا نہیں اور دعا کے لیے کسی طرح کی ممانعت ہر گز نہیں اور جس طرح ممانعت نہیں بالکل اسی طرح دعا مانگنے کا تعلق کھانے پینے اور پیٹ بھرنے سے بھی نہیں بلکہ دعا کا تعلق ایک ایسی روحانی طاقت حاصل کرنے سے ہے جس کا تعلق پیٹ سے کسی طرح بھی نہیں جوڑا جا سکتا۔
نہایت اختصار کے ساتھ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جہاں دعا کے ساتھ ’’ضد‘‘ اور ’’بطن‘‘ دونوں میں سے کوئی ایک چیز پائیں وہاں سمجھ لیں کہ دعا ممنوع ہے اور جہاں یہ دونوں یعنی ’’ضد‘‘ اور ’’بطن‘‘ موجود ہوں وہاں دعا حرام ہے کیونکہ یہ دونوں چیزیں ’’دعا‘‘ کے لیے ’’زہر ہلاہل‘‘ ہیں علاوہ ازیں ہر جگہ، ہر وقت اور ہر حال میں ’’دعا‘‘ کرنا جائز اور درست ہے اور یہی ’’دعا‘‘ عبادت قرار دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔ وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت والیہ انیب۔
س7:۔ دعا کرنے اور دعا مانگنے میں کوئی فرق ہے؟ اگر ہے تو کیا؟ نیز بتائیں کہ اجتماعی دعا کا کوئی جواز موجود ہے؟
ج:۔ ’’دعا کرنا‘‘ اور ’’دعا مانگنا‘‘ دونوں محاورات ہیں اور دونوں کا مفہوم بالکل ایک ہے۔ ان کے مفہوم میں کسی طرح کا کوئی فرق اہل زبان کے نزدیک نہیں۔ جب کوئی فرق موجود نہیں تو پھر ’’فرق کیا؟‘‘ کا لفظ ویسے ہی غیر متعلق ہو جاتا ہے۔ دُعا کرنا کہیں یا دعا مانگنا ایک ہی بات ہے۔ دعا جب کی جائے ، جہاں کی جائے، جس وقت کی جائے فقط اللہ رب کریم سے کی جائے، اس لیے کہ ’’دُعا‘‘ عبادت ہے اور عبادت غیر اللہ کے لیے حرام ہے دعا کا اصل مقصد اور مطلب ہی مانگنا ہے اور اسلام اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ جو کچھ مانگے وہ معمولی چیز ہو یا غیر معمولی اور انسان جب مانگے تو صرف اور صرف اللہ رب کریم سے مانگے اور جب کوئی سامنے نظر بھی نہ آئے تو چونکہ صرف ایک ہی ذات جو سامنے نظر نہ آئے تو بھی انسان اپنے ذہن میں سمجھے کہ وہ یہاں حاضر ہے اور وہ فقط اللہ کی ذات ہے لہٰذا ایسی ذات سے مانگے اور طلب کرے تو اپنے ذہن میں ضرور یہ بات جمائے کہ میں فقط اللہ ہی کی ذات کو ایسی ذات مانتا ہوں اس لیے میں جو مانگ رہا ہوں جو طلب کر رہا ہوں فقط اللہ کی ذات سے مانگ رہا یا طلب کر رہا ہوں۔ قرآنِ کریم نے اس کی وضاحت بے شمار مقامات پر کر دی ہے جیسے فرمایا ہے کہ :
فَلَوْلَا اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمِ
o وَاَنْتُمْ حِیْنَءِذٍ تَنْظُرُوْنَo وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْکُمْ وَلٰکِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَo فَلَوْ لَا اِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَo تَرْجِعُوْنَھَا اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَo (۵۶:۸۳ تا ۸۸) ’’پس جب تمہاری جان یعنی تم میں سے مرنے والے کی جان حلق تک آ پہنچتی ہے اور تم اُس وقت اُس کے پاس بیٹھے دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ جاتے ہو۔ اور ہم تمہاری نسبت اُس مرنے والے کے زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تم ہم کو دیکھ نہیں سکتے۔ پھر اگر تم کسی قانون کے پابند نہیں ہو تو اس مرنے والے کو روک کیوں نہیں لیتے اگر تم سچے ہو؟‘‘
دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ:
لَہٗ دَعْوَۃُ الْحَقُّ ط وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ لَھُمْ بِشَیْءٍ اِلَّا کَبَاسِطِ کَفَّیْہِ اِلَی الْمَآءِ لِیَبْلُغَ فَاہُ وَمَا ھُوَ بِبَالِغِہٖ ط (
۱۴:۱۴) ’’اسی کا پکارنا ہی سچا پکارنا ہے یعنی اللہ رب کریم کا،جو لوگ اُس کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں وہ پکارنے والے کی پکار کچھ نہیں سنتے ان کی مثال تو ایسی ہے جیسے ایک آدمی دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے کہ بس پانی اس کے منہ تک پہنچ جائے حالانکہ وہ اس کے منہ تک پہنچنے والا نہیں۔‘‘
واضح ہو گیا کہ دعا کے لیے صرف اور صرف ایک ہی ذات ہے اُس سے دعا کرنا چاہیے اور وہی سب کی دعائیں سنتا ہے اس لیے کہ وہی سب کا خالق و مالک ہے علاوہ ازیں جس سے بھی دعا کی جائے وہ اکارت ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہ دعا کرنا کہیں یا دعا مانگنا ایک ہی بات ہے دعا ہر وقت، ہر جگہ اور ہر حال میں کی جا سکتی ہے۔ دعا زندوں اور مردوں سب کے لیے مانگی جا سکتی ہے۔ دعا مشرک مرنے والوں کے سوا سب کے لیے کی جا سکتی ہے۔ دعا انفرادی طور پر کی جا سکتی ہے اہتمام کے سوا اجتماعی طور پر بھی دعا کی جا سکتی ہے ہاں! دعا کے ساتھ کھانے پینے اور پیٹ بھرنے کی جو صورتیں نکال لی گئی ہیں ان تمام صورتوں میں اصل دعا نہیں بلکہ اصل رسم و رواج ہے اور رسم و رواج کو دین اسلام کا جزو باور کرنا یا کرانا بہرحال ضلالت و گمراہی ہے جو ہدایت کا متضاد ہے اور یہ بات کتاب و سنت میں روز روشن کی طرح واضح ہے پھر ضلالت و گمراہی میں جو بھی شریک ہو گا اور جہاں بھی ہو گا اور جیسے کیسے بھی ہو گا اس کو صحیح اور درست نہیں کہا جا سکتا۔ خواہ وہ کون ہو، کہاں ہو اور کیسا ہو۔
نماز جس کو کتاب و سنت کی زبان میں صلوٰۃ کہا گیا ہے کیا ہے؟ دعا ہی تو ہے،جنازہ کیا ہے؟ دُعا ہی تو ہے۔ استسقاء کیا ہے؟ دعا ہی تو ہے۔ حج کیا ہے؟ دعا ہی تو ہے پھر یہ دعا اجتماعی طور پر ہی کی جاتی ہے اور دعا کے یہ طریقے وہ ہیں جو اسلام میں داخل ہیں آپؐ نے اجتماعی دعا کے یہ طریقے استعمال فرمائے ہیں اور جو اسلام میں داخل سمجھے جاتے ہیں ان طریقوں کو دیکھ کر کچھ مزید طریقے اختراع کر لیے جائیں اور ان کو دعا کے اجتماعی طریقے قرار دیا جائے تو یہ اس لیے صحیح نہیں ہو گا کہ کسی اصل کے ساتھ نقل کو اصل بنانے کے مترادف ہو گا جس کے نتیجہ میں اصل اور نقل میں فرق نہیں رہے گا بلکہ بعض اوقات کیا اکثر اوقات نقل اصل کی جگہ لے لیگی جس کو اسلام کی زبان میں بدعت کہا گیا ہے اور اسی وجہ سے بدعت کو ضلالت کہا گیا ہے اور آج ہم اس طرح کی بدعات میں پھنس کر رہ گئے ہیں اور ان ہی بدعات کو میٹھی میٹھی سنتیں کہا جا رہا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ اجتماعی دعائیں جو اسلام میں بتائی گئی ہیں جو اوپر ذکر کی جا چکی ہیں آج ان کے مقابلہ میں یہ اختراعی اجتماعی دعائیں بہت آگے نکل گئی ہیں اور جو سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ ہاں! مجلس اور اجتماع ایک ہی سمجھا جائے تو تبلیغ دین کے لیے جو بھی اور جہاں بھی کوئی اجتماع مقرر ہو گا تبلیغ دین کے ساتھ دعا جو عبادت کا ایک طریقہ ہے وہ اختیار کیا جائے گا اور اس کو اجتماعی دعا کا نام بھی دیا جا سکتا ہے اور کوئی بھی اس اجتماعی دعا سے منع نہیں کرے گا اور نہ کوئی ایسا کر سکتا ہے کیونکہ یہ حسن اجتماع ہے۔
مختصر ترین جواب یہ ہے کہ جہاں دعا کے ساتھ ’’ضد‘‘ اور ’’پیٹ بھرنے‘‘ کا اہتمام ہو گا وہاں اجتماعی دعا کا بھی یقیناًنام لیا جائے گا اور کم از کم اس کو دین اسلام کا نہیں بلکہ رسم رواج ہی کا نام دیا جاتا تو بہت سی اور بھی چیزیں ایسی موجود ہیں جن کو تمام لوگ رسم و رواج کے تحت کرتے ہیں اور کر رہے ہیں ایک ایسی رسم کا ان رسوم میں مزید اضافہ سمجھ لیا جاتا لیکن افسوس تو اس بات پر ہے کہ اس کو دین اسلام کا ایک اہم کام سمجھ کر جب کیا جاتا اور اس لیے اس کا نام ’’اجتماعی دعا‘‘ رکھ دیا گیا ہے جب کہ اس طرح کی اجتماعی دعاؤں کا اسلام میں کوئی وجود نہیں لیکن یہ بات کہنا کہ ’’اسلام میں ان کا کوئی وجود نہیں‘‘ گردن زدنی قرار دیا جاتا ہے اندریں وجہ فیصلہ خود ہی انسان کر لے تو زیادہ بہتر ہے تاکہ کوئی فتنہ کھڑا نہ ہو کیونکہ فتنہ اشد من القتل ہے۔
س8:۔ دعا مخصوص الفاظ ہی میں مانگی یا کی جا سکتی ہے جیسے عربی زبان میں بچوں اور بڑوں کو دعائیں یاد کرائی جاتی ہیں؟
ج:۔ قرآنِ کریم میں انبیاء کرام اور رسل عظام کی دعائیں ذکر کی گئی ہیں جن میں بعض انبیاء و رسل کی دعائیں بہت معروف ہیں جیسے آدم علیہ السلام، نوح علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، یعقوب علیہ السلام، یوسف علیہ السلام، ایوب علیہ السلام، یونس علیہ السلام، لوط علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام اور محمد رسول اللہ ﷺ کی دعائیں اور یہ تمام دعائیں عربی زبان میں ہیں اور سوائے محمد رسول اللہ ﷺ کے دوسرے تمام انبیاء و رسل کی زبان یقیناًعربی نہیں تھی جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے علاوہ جتنے بھی انبیاء کرام اور رسل عظام کی دعائیں قرآنِ کریم میں بیان ہوئی ہیں وہ سب ان کی دعاؤں کا عربی ترجمہ ہے ان کی زبانوں سے نکلے ہوئے الفاط نہیں اور ان سب کا ترجمہ عربی زبان میں اس لیے نازل ہوا کہ خود محمد رسول اللہ ﷺ اور آپؐ کے مخاطبین اول یعنی عرب کے لوگوں کی زبان عربی تھی اور وہ انبیاء کرام کی دعاؤں کو اُس وقت ہی سمجھ سکتے تھے جب ان کی زبان میں ان کو بتائی جاتیں لہٰذا اللہ رب کریم نے ان کی زبان میں تمام انبیاء و رسل کی دعاؤں کو منتقل کر کے پیش کیا تاکہ عرب کے لوگ ان کو سمجھ سکیں اور ان سے رہنمائی حاصل کر سکیں۔
اگر یہ بات ایسی ہے تو اس وقت بھی ان تمام دعاؤں کو دوسری زبانوں میں منتقل کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور جب بھی کسی دوسری زبان میں ان کو منتقل کیا جائے گا تو پیش نظر یہی بات ہو گی کہ جو زبان لوگ بولتے ہیں ان کی زبان میں ان کو وہ دعائیں بتائی جائیں تاکہ وہ بھی ان کا مفہوم سمجھ سکیں اور ان کو معلوم ہو سکے کہ جس طرح تمام انبیاء و رسل نے اپنی مشکلات کے وقت صرف اور صرف اللہ ہی کو یاد کیا اور اللہ ہی سے دعائیں مانگیں لہٰذا ہم کو بھی ان سب کی پیروی کرتے ہوئے اپنی ضرورت کی جو چیزیں طلب کرنی ہوں اور اپنے ہموم و غموم میں یاد کرنا ہو تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو کرنا چاہیے۔ لہٰذا اس کو حقیقت سمجھا جائے تو حق بات تو یہی ہے کہ ہر دعا کرنے والے کے لیے اس کی اجازت ہے کہ وہ اپنے مالک حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ سے جو بھی اور جب بھی کچھ مانگے تو اپنی زبان میں مانگے تاکہ اُسے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو کہ میری طلب کیا ہے اور مجھے اپنے اللہ سے کیسے مانگنی چاہیے تاکہ اُس کو اس طرح مانگنے سے وہ مزا آئے جو کسی بھی اہل زبان کو اپنی زبان کے بولنے میں مزا آتا ہے کیونکہ دعا دراصل تسکین قلب ہی مہیاکرتی ہے اور تسکین قلب وہ طاقت اور قوت ہے جس کو الفاظ میں بیان کیا ہی نہیں جا سکتا۔
اس سے یہ بات از خود واضح ہو جاتی ہے کہ دعا ہر زبان میں مانگی جا سکتی ہے جو بھی دعا مانگنے والے کی زبان ہو گی وہ اپنی زبان میں اپنے مالک حقیقی کو یاد کر سکتا ہے۔ ہاں! فرائض کی ادائیگی کے لیے جو دعائیں نماز کے اندر مانگی جاتی ہیں ان میں سے بعض ادعیہ کا ترجمہ اپنی زبان میں ضرور یاد کرنا چاہیے تاکہ نماز ادا کرنے والے لوگ نماز کے اندر جو کچھ اللہ رب کریم سے مانگ رہے ہیں اور جس چیز کی معافی طلب کر رہے ہیں اس کے متعلق اچھی طرح جانتے ہوں اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنی زبان میں دعائیں مانگیں چاہے انفرادی ہوں یا اجتماعی۔ قرآنِ کریم کی دعائیں اور روایات میں جو دعائیں آپؐ کی طرف سے معروف ہیں ان میں سے بھی بعض دعائیں اپنے معمول میں لانا چاہیے تاکہ دوسری زبان اور خصوصاً مسلمانوں کی قومی زبان کا تصدق بھی بحال رہے اور اس زبان کو اپنی زبان میں بھی سمجھ کر استعمال کر سکیں۔
بچوں اور بڑوں کو عربی زبان میں دعائیں بھی اس مقصد کے تحت یاد کرنی چاہیے کہ وہ قرآنِ کریم کی زبان کے لطف سے بہرہ مند ہو سکیں لیکن اس کے ساتھ ان ادعیہ کا مفہوم و معنی بھی جاننا اور سمجھنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ نماز کے فریضہ کا ادا کرنا تاکہ قرآنِ کریم کا جو اصل مقصد خود اس نے بیان کیا ہے اس پر عمل ہو سکے چنانچہ قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ:
یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ۔ (
۴:۴۳) ’’اے ایمان والو! ایسا نہ ہو کہ تم نشہ میں ہو اور نماز کا ارادہ کرو، نماز کے لیے ضروری ہے کہ تم ایسی حالت میں ہو کہ جو کچھ زبان سے کہو اسے سمجھو۔‘‘
ذرا غور کیجئے کہ سکر کی حالت میں نماز سے جو روکا گیا ہے اُس کی اصل وجہ کیا بتائی ہے اُس پر غور کرنا ضروری ہے اوروہ صرف اور صرف یہ ہے کہ نماز کی ادائیگی کے لیے ایسی حالت ضروری ہے کہ جو کچھ زبان سے کہا جائے اُسے انسان سمجھتا ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ انسان جو زبان بھی بول رہا ہے اُس کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کیا بول رہا ہے اور جو بول رہا ہے اگر وہ سمجھتا ہی نہ ہو تو اس کے متعلق یہ بات کیسے کہی جا سکتی ہے کہ وہ جانتا ہے جو کچھ بول رہا ہے۔ اس معاملہ میں صرف دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں تیسری کوئی صورت ممکن نہیں۔ ایک یہ کہ وہ اس زبان میں کچھ کہے جو زبان وہ سمجھتا ہے اور دوسری یہ کہ وہ جس زبان میں کچھ کہہ رہا ہے وہ اس زبان کو سمجھے تاکہ اُسے یہ بات معلوم ہو کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے اُس کو سمجھتا ہے۔ نہ وہ اپنی زبان استعمال کرے اور نہ اُس زبان کو سمجھنے کی کوشش کرے تو وہ یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ میں نے جو کچھ کہا میں اُسے سمجھتا ہوں جب کہ یہ بات مشاہدہ میں بھی آنے والی ہے کہ جو نماز ادا کر رہا ہے اُس نے جو اذکار ادا کیے ہیں اُس سے پوچھ کر یہ بات معلوم کی جا سکتی ہے کہ اُس نے جو کچھ کہا ہے اُس کے متعلق جانتا ہے یا نہیں؟ جب بھی آپ کسی ایسے آدمی سے یہ سوال کریں گے آپ کو جواب نفی میں ملے گا سوائے اس کے کہ یا تو وہ ان اذکار کے معنی جانتا ہے یا اس سے اذکار اس زبان میں ادا کیے ہیں جو زبان وہ بولتا ہے اور سمجھتا ہے۔
نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری آبادی کا دس فیصد بھی وہ لوگ نہیں جو باقاعدہ نماز ادا کرتے ہوں اور جو اداکرتے ہیں فرضی کر لی کہ وہ دس فیصد ہیں پھر ان دس فی صد میں سے .1فیصد بھی ایسے لوگ موجود نہیں جو نماز میں وہ اذکار اپنی زبان سے الٹے سیدھے ادا کرتے ہیں ان کے متعلق سمجھتے ہوں کہ انہوں نے کیا کہا ہے، کیا مانگا ہے اور ان کو کیا مانگنا چاہیے تھا؟ جب کہ یہ بات قرآنِ کریم کی تعلیمات کے سو فی صد خلاف ہے اور موردِ الزام وہی ہے جو اس کو اسلامی تعلیمات کے خلاف کہتا یا مانتا ہے، کیوں؟ اس لیے کہ کسی بھی مفتی صاحب کا فتویٰ اس کے ساتھ نہیں ساتھ ہونا تو خیر دور کی بات ہے تمام مفتیانِ شرع متین کا فتویٰ ایسی بات کہنے والے کے خلاف ہے۔
مختصر جواب اس کا یہ ہے کہ نماز کے اذکار کا ترجمہ و مفہوم اُس آدمی کے لیے جاننا ضروری ہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا جو نماز ادا کرنا چاہتا ہے تاکہ اُس کو یہ بات معلوم ہو سکے کہ وہ نماز میں کھڑاہو کر اللہ تعالیٰ سے کیا وعدہ کر رہا ہے اور اُس وعدہ کی عملاً بھی تصدیق کر رہا ہے یا نہیں وہ اپنے اللہ سے اپنی ضروریات طلب کر رہا ہے یا نماز تو ادا کر رہا ہے لیکن اپنی ضروریات دوسروں سے طلب کر رہاہے کیونکہ اُس کو معلوم ہی نہیں کہ نماز کی ادائیگی کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ اپنی طلب اللہ تعالیٰ سے طلب کرے اور غیر اللہ سے ہرگز ہر گز طلب نہ کرے۔
نہایت صاف اور سچی بات یہ ہے کہ میں خود ڈر رہا ہوں ورنہ صاف صاف یہ کہہ دیتا کہ ہر نماز کو جو کچھ اُس نے اللہ سے طلب کرنا ہے وہ اپنی زبان میں طلب کرے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ذات ہے جو تمام زبانوں کو سمجھتا اور جانتا ہے پھر جب مانگنا اللہ سے ہے تو اُس کو اپنی زبان کے علاوہ دوسری زبان استعمال کرنا تصنع اور بناوٹ نہیں تو اور کیا ہے؟
اور اگر کوئی اس کا جواب یہ دے کہ قرآنِ کریم کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ قرآنِ کریم ادعیہ عربی زبان ہی میں پڑھی جائیں ان کا مفہوم سمجھ میں آنا ضروری نہیں تو میرا جواب یہی ہے کہ قرآنِ کریم کی حفاظت کا اللہ رب کریم نے خود ذمہ لیا ہے اگر ساری دنیا مل کر بھی یہ کوشش کرے کہ عربی زبان معدوم ہو جائے تو وہ قرآنِ کریم کے متن کو معدوم نہیں کر سکتی اگر ساری دنیا کے لوگ نماز کے اذکار کو اپنی اپنی زبان میں ادا کرنا شروع کر دیں تو قرآنِ کریم کی اس پیش گوئی کو کوئی نہیں مٹا سکتا۔
س9:۔ اپنے مرنے والوں کے لیے دعائیں مانگنا یا دعائیں منگوانا ان کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہیں؟ کتاب و سنت سے واضح کریں۔ س 8 دوبار آیاہے
ج:۔ اللہ رب کریم سے خیر و عافیت طلب کرنے کا نام دعا ہے اور خیر و عافیت کا تعلق جس طرح انسان کی اس دنیوی زندگی سے ہے بالکل اسی طرح اُخروی زندگی سے بھی ہے۔ مرنے والے اس دنیوی زندگی سے تو فارغ ہو گئے اس زندگی میں تو وہ دوبارہ کبھی نہیں آئیں گے لیکن اُخروی زندگی کے لحاظ سے تو وہ بھی زندوں کی طرح محتاج ہیں یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات میں بھی دُعا جس طرح زندوں کے لیے ہے بالکل اسی طرح مرنے والوں کے لیے بھی ہے۔ یہ بات پیچھے بار بار بیان کی جا چکی ہے کہ دُعا دراصل اطمینانِ قلب کے لیے کام دیتی ہے اور اطمینان قلب ایک ایسی طاقت ہے جو نظر نہیں آتی لیکن ہوتی ضرور ہے کیونکہ بہت سی طاقتیں اور قوتیں تسلیم ہیں جو فی الواقع نظر نہیں آتیں جیسے سردی، گرمی، خوشی، غمی، درد، بخار، بیماری اور بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو دکھائی نہیں دیتیں لیکن ان کے ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہر ایک انسان ان سے متاثر ہوتا ہے اور بالکل اسی طرح دُعا بھی اپنے اندر ایک طاقت اور قوت رکھتی ہے جس کا کام اطمینان قلب میسرکرنا ہے اور وہ بہرحال ہوتا ہے اور چونکہ مرنے والوں کے ساتھ زندوں کا ایک ایسا رشتہ قائم ہوتا ہے اس کا تقاضا ضرور ہوتا ہے کہ ہمارے مرنے والوں کی آخری زندگی درست ہو اور دُعا اس نظریہ کو تقویت دیتی ہے چونکہ یہ ایک فطری چیز ہے کہ جس طرح دعا زندوں کے لیے ان کے اپنے لیے اطمینانِ قلب کا باعث ہوتی ہے بالکل اسی طرح ان ہی کے لیے ان کے مرنے والوں کے لحاظ سے بھی اطمینان قلب کا باعث ہوتی ہے لہٰذا اسلام نے اس فطری تقاضا کی تکمیل کے لیے جس طرح زندوں کو اپنے لیے اس دُعا کو اطمینان قلب کا باعث بنایا ہے بالکل اُن کے مرنے والوں کے لحاظ سے بھی زندوں کے اطمینانِ قلب کا باعث یقیناًبنایا ہے۔ باوجود اس کے کہ ہر انسان کے متعلق یہ اعلان عام ہے کہ ہر انسان اپنے اعمال کے نتیجہ میں بندھا ہوا ہے لیکن اس نتیجہ سے پہلے جو زندوں کو تعلق مرنے والوں کے ساتھ ہوتاہے اُس کے باعث ان کی بھلائی اور بہتری کی دعا زندوں کے لیے باعث تقویت ہوتی ہے اور یہ وہ فطری چیز ہے جس کوبہت سی دوسری فطری چیزوں کی طرح محض لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
تمام فطری چیزیں محض اس لیے تسلیم کی جاتی ہیں کہ وہ سب کے ساتھ یکساں ایک جیسے ہوتی ہیں اور ان کے ہونے ہی سے ان کو تسلیم کر لیا جاتا ہے میرے والدین عرصہ ہوا کہ وفات پا چکے ہیں اور یقیناًاپنے اعمال کے نتائج سے دوچار ہوئے ہوں گے اور آخرت میں بھی ہوں گے میں یقیناًان حالات کو حقیقتاً نہیں جانتا لیکن جب میں ان کے لیے اُن کی آخرت کی بھلائی اور بہتری کی دعا کرتا ہوں تو مجھے اس سے ایک فرحت حاصل ہوتی ہے اور اگر کوئی دوسرا خواہ وہ کون ہو میرے والدین کی کوئی خوبی کی بات میرے سامنے کرتا ہے تو اس سے بھی مجھے فرحت حاصل ہوتی ہے اور جب مجھے یہ فرحت حاصل ہوتی ہے تو اس پر یقین کرتا ہوا میں کہہ سکتا ہوں کہ جب آپ کے والدین کی کوئی خوبی یا اچھائی کی بات کرتا ہے تو آپ کو فرحت ہوتی ہو گی اور اسی طرح جب آپ خود اپنے والدین کے لیے دعا کرتے ہوں گے تو یقیناًآپ کو فرحت حاصل ہوتی ہو گی کیونکہ میں بھی ایک انسان ہوں اور آپ بھی انسان ہیں جو فطری چیز میرے ساتھ ہے یقیناًوہ آپ کے ساتھ بھی ہے اور بعینہٖ یہ معاملات جس طرح میرے اور آپ کے ساتھ ہیں دوسرے تمام انسانوں کے ساتھ بھی ہیں اس لیے یہ بات تسلیم ہے کہ فطری چیزیں سب کے ساتھ یکساں ایک جیسی ہوتی ہیں ہاں! ان میں کمی بیشی ہو سکتی ہے اور یہ تمام دوسری فطری چیزوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ میں جب قرآنِ کریم کی یہ آیت پڑھتا ہوں جو میرے علم میں ہے کہ یہ دُعا بھی ہے کہ:
رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَالِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ
o (۱۴:۴۱)’’اے میرے رب! جس دن اعمال کا حساب لیا جائے گا تو مجھے اور میرے ماں باپ کو اور ان سب کو جو ایمان لائے ہیں بخش دیجیؤ۔‘‘
باوجود اس کے کہ میرے علم میں ہے کہ یہ دعا سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے مانگی تھی لیکن جب میں پڑھتا ہوں تو میرے اطمینانِ قلب کا باعث ہوتی ہے اور میں یقین سے کہتا ہوں کہ جب آپ بھی اس کے ترجمہ سے واقف ہیں تو یقیناًآپ کے لیے بھی اطمینانِ قلب کا باعث ہو گی اور اس طرح دوسرے تمام لوگوں کے لیے بھی ہوگی اگر ایسا ہے تو یقیناًجو ہمارا مطلوب ہے وہ ہم کو مل گیا لیکن آخرت میں ابراہیم علیہ السلام کے والدین کے ساتھ کیا ہونا ہے، میرے والدین کے ساتھ کیا اور آپ کے والدین کے ساتھ کیا اور اسی طرح تمام پڑھنے والوں یا پڑھانے والوں کے والدین کے ساتھ کیا ہو گا، نہ مجھے معلوم ہے نہ آپ کو اور نہ دوسرے تمام لوگوں کو لیکن ہم سب کو جب وہ کچھ میسر آ گیا جو مطلوب ہے تو ہم کو اس بحث کی ضرورت کیا رہی جو ہمارے لیے اور دوسرے تمام لوگوں کے لیے محض بے کار ہے۔
پس یہی ان تمام دعاؤں کا حال ہے جو ہم پڑھتے ہیں یا مانگتے ہیں یا دوسروں سے منگواتے ہیں۔ ہاں! ہمارے لیے وہ تعلق جو فطری طور پر ہمارا اپنے والدین سے ہے اور دوسرے ایمان والوں سے وہ ہمارے اطمینان کا باعث ہوا لیکن جن سے ہم نے دعا منگوائی ان کا تعلق تو اس طرح کا قائم نہیں تھا لہٰذا ان کو جو ہم نے معاوضہ دیا خواہ وہ کچھ بھی ہے کھانا ہے،کپڑے ہیں، غلہ ہے نقد روپیہ ہے وہ ان کے لیے باعث اطمینان ہو گیا اگر اس بات کو ثواب تک محدود رکھیں تو ہم سب مطمئن ہیں اور اگر اس کومعاوضہ کا نام دیا جائے جیسا کہ میں نے دیا ہے تو ان دعا مانگنے والوں کو برا لگے گا جنہوں نے ہمارے والدین کے لیے یہ دعا مانگی اور ہم نے یہ دعا معاوضہ دے کر ان سے منگوائی۔
دُعا کے اندر ایک اصل یہ بھی ہے کہ دعا کرنے والا اپنے دل میں اس بات کا یقین رکھے کہ میرا اور میرے تمام بڑوں کا پیدا کرنے والا رزق دینے والا، نفع و نقصان پہنچانے والا اور ہر طرح کی داد رسی کرنے والا صرف اور صرف ایک ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے اگر اُس کے دل میں اس بات کا یقین آ گیا تو وہ دنیا میں اپنا کام بے خوف و خطر کرے گا اورجس کو اللہ کا حکم سمجھ کر کرے گا اس میں اپنی پوری طاقت صرف کرے گا اور یہی وہ چیز ہے جو انسان کو دنیا میں بھی کامیاب کرتی ہے اور اُس کی آخرت بھی یقیناًسنور جاتی ہے۔ آپ غور کریں کہ جن لوگوں کے پاس سرمایہ ہوتا ہے ان کا سرمایہ ہر وقت اُن کے ساتھ نہیں ہوتا وہ تو بینکوں میں پڑا ہے لیکن بینکوں میں پڑا ہوا سرمایہ بھی ان کی طاقت و قوت کو بڑھا رہا ہے اور اس کامظاہر وہ دن رات کرتے دکھائی دیتے ہیں ان کی بدنی قوت بھی وہ سرمایہ بڑھا رہا ہے اور جن لوگوں کے پاس افرادی قوت موجود ہوتی ہے وہ تمام افراد اُن کے ساتھ نہیں ہوتے لیکن وہ افرادی قوت ان کے ساتھ نہ ہونے کے باوجود ان کی طاقت کو بڑھا رہی ہوتی ہے بالکل اسی طرح اگر ایک مسلمان صحیح معنوں میں سمجھے کہ اللہ رب کریم تو تمام مالداروں سے زیادہ مالدار ہے اور تمام طاقتوروں سے زیادہ طاقت رکھتا ہے اور وہ میرے ساتھ ہے تو اُس کی طاقت و قوت میں جو اضافہ ہوتا ہے قرآنِ کریم کے مطابق ایسا ایک دس کے مقابلہ میں کامیاب ہوتا ہے اور اگر اُس میں کمزوری اور ضعف بھی آ جائے تو ایک دو کے مقابلہ میں کامیاب رہتا ہے اگر ایسی بات ہے تو وہ مومن ہے ورنہ فقط نام کا مومن ہو گا، کام کا نہیں قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ:
’’اے پیغمبر اسلام! ایمان والوں کو لڑائی کا شوق دلا کیونکہ میدان کارزار میں وہ نکل چکے ہیں اگر تم میں بیس آدمی بھی مشکلوں کو جھیل جانے والے نکل آئے تو یقین کرو کہ وہ دو سو دشمنوں پر غالب ہو کر رہیں گے اور اگر تم میں ایسے سو آدمی ہو گئے تو سمجھ لو کہ وہ ایک ہزار کافروں کو مغلوب کر کے رہیں گے اور یہ اس لیے ہو گا کہ کافروں کا گروہ ایسا گروہ ہے جس میں سمجھ بوجھ نہیں۔
اے ایمان والو!اب اللہ نے تم سے بوجھ ہلکا کر دیا،اُس نے دیکھا کہ تم میں کمزوری آ چکی ہے، اچھا اگر اب تم میں صبر کرنے والے سو آدمی ہوں گے تو وہ دو سو دشمنوں پر غالب رہیں گے اور اگر ہزار ہوں گے تو سمجھو دو ہزار دشمنوں کو مغلوب کر دیں گے، اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے۔‘‘ (
۸:۶۵،۶۶)
حقیقت یہ ہے کہ دُعا اپنے لیے، اپنے والدین اور عزیز و اقارب کے لیے بلکہ تمام مسلمانوں کے لیے وہ زندہ ہوں یا وفات پا چکے ہوں کی جا سکتی ہے اور کرنی چاہیے بلکہ کرتے رہنا چاہیے دُعا سے ایک ایسی طاقت و قوت حاصل ہوتی ہے جو مرئی نہیں ہوتی کہ دوسروں کو دکھائی جا سکے ہاں! دُعا کرنے والوں کو جو اس سے اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے وہی دعا کا سب سے بڑا ثمرہ ہے تاہم مرنے والوں کے لیے جو دعائیں مال و دولت کے ذریعہ منگوائی جاتی ہیں ان کا تعلق محض رسم و رواج سے ہے دین اسلام سے قطعاً نہیں اور رسم و رواج مختلف اقوام عالم میں مختلف طریقوں سے پایا جاتا ہے جس کو ثقافت کاحصہ گردانا گیا ہے تاہم اپنے مرنے والوں کے لیے اس رسم و رواج کا تعلق اسلامی ثفاقت سے ہرگز نہیں چاہے مسلمانوں کے ہاں یہ ثقافت کا حصہ قرار دیا جائے کیونکہ ہر وہ کام جو کوئی مسلمان کہلانے والا کرنا شروع کر دے وہ اسلام کا کام نہیں ہو جاتا۔ اسلام ایک مستقل ضابطہ حیات ہے جو صرف اور صرف کتاب و سنت سے حاصل کیا جاتاہے۔
چونکہ کتاب و سنت میں دعا سب کے لیے کی گئی ہے اور کی جانے کا حکم موجود ہے اور بہت دعائیں ایسی ہیں جن میں اپنے سوا دوسرے مرنے والوں اور زندوں کو بھی شامل کیا گیا ہے لیکن دعائیں کرانے کے کاروبار کا ذکر قطعاً کہیں موجود نہیں بلکہ یہ یہود و نصاریٰ کی قائم کردہ رسم و رواج سے اخذ کیا گیا ہے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ:
’’اے ایمان والو! یاد رکھو کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے علماء و مشائخ میں سے ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو لوگوں کا مال ناحق، نا روا کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے انہیں روکتے ہیں۔‘‘ (
۹:۳۴)
اس کی وضاحت تو میں نے اپنی تفسیر ’’عروۃ الوثقیٰ‘‘ کی سورہ توبہ کی محولہ آیت میں کر دی ہے دعا کی نسبت سے اس جگہ اتنی بات سمجھ لی جائے کہ ان میں سے جو مر جائے اُسے ثواب پہنچانے اور اس کے گناہوں کا کفارہ دلانے کے لیے مقرر رقمیں وصول کرتے تھے اور اس غرض سے طرح طرح کی رسمیں رائج کر دی تھیں جو یہودیوں اور کیتھولک عیسائیوں میں آج تک رائج ہیں۔
سب سے آخر سمجھیں یا سب سے اول یہ کہ دین کی ساری باتوں کو یک قلم دکانداری اور پیشہ بنا لیا تھا اور ان کی پوری زندگی ہر معنی میں دکانداری کی زندگی ہو گئی تھی۔ عالم اور درویش ہونے کے معنی یہ ہو گئے کہ دین اور اللہ کے نام سے پیشہ کی روٹی کھانے والے۔ علم دین کا پڑھنا پڑھانا مسائل دین کی تعلیم، فتویٰ نویسی، ہدایت و وعظ، قراء ت و ذکر غرض کہ کوئی کام ایسا نہ تھا جوبغیر دنیوی معاوضہ کے کیا جاتا ہو۔
لیکن آج مسلمان اور مسلمانوں کے علماء و مشائخ اپنی حالت پر نظر ڈالیں اور غور کریں کہ کیا وہ بھی ٹھیک ٹھیک احبار و رہبان کے قدم بہ قدم نہیں چل رہے ہیں؟ اور کیا ’’اکل اموال بالباطل‘‘ کی یہ صورتیں کسی نہ کسی بھیس میں یہاں بھی عام نہیں ہو رہی ہیں؟ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب فوز الکبیر میں تحریر فرمایا ہے کہ ’’اگر احبار یہود کی حالت دیکھنی چاہتے ہو تو آج کل کے علماء کو دیکھ لو اور اگر عیسائیوں کے رہبان کا نقشہ کھینچنا چاہتے ہو تو آج کل کے مشائخ کے سامنے بیٹھ کر کھینچ لو۔‘‘
س10:۔ مخصوص اوقات میں مخصوص دعائیں ہی مانگنا ضروری ہے جن کی زبان عربی ہے یا اپنی مادری زبان میں بھی دعائیں مانگی جا سکتی ہیں؟
ج:۔ مخصوص اوقات سے آپ کی مراد کیا ہے؟ اگر یہ مراد ہے کہ مثلاً سونے لگو تو یہ دعا پڑھو، سو کر اُٹھے ہو تو یہ دعا پڑھو،کھانے کے لیے بیٹھو تو یہ دعا پڑھو،کسی کو الوداع کرنے کے لیے گئے تو یہ دعا پڑھو وغیرہ تو ظاہر ہے کہ ان دعاؤں پر غور کرو تو معلوم ہو جائے گا کہ ان دعاؤں کا تعلق اوقات سے ہے اس لیے جس دعاکا تعلق کسی خاص وقت سے ہے وہ اُس خاص وقت پر ہی پڑھی جائے گی۔ یہ بات قبل ازیں ایک سے زیادہ بار کہی جا چکی ہے کہ دعا ایک ایسی عبادت ہے جس سے روحانی قوت حاصل ہوتی ہے لہٰذا دعا کا تعلق سمجھ سوچ کر ایسی بات کہنے سے ہے کہ کہنے والے کو معلوم ہو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور کس سے مخاطب ہوں اور اسی طرح یہ کہ جس سے مخاطب ہوں وہ مجھے یقیناًاس معاملہ میں میری مدد فرمائے گا جس معاملہ میں میں نے اُس سے اپیل کی ہے کیونکہ وہ وہی ذات ہے جس نے مجھے بغیر مانگے بہت کچھ بخشا ہے اور یہ تمام باتیں اُسی وقت ممکن ہیں جب دعا مانگنے والا یا تو اپنی مادری زبان استعمال کر رہا ہو یاجس زبان میں دعا مانگ رہا ہو اُس زبان کومکمل طور پر اگر نہ بھی سمجھے تو جو کچھ وہ کہہ رہا ہے یا طلب کر رہا ہے اُس کی سمجھ تو رکھتا ہو۔ دعا کو طوطے کی طرح رٹ دینے سے تو معاملہ حل نہیں ہوتا اور اگر حل ہوتا ہے تو معاملات تو ان کے بھی حل ہوتے ہیں جو دعا کے وجود کے بھی منکر ہیں چاہے اس طرح وہ فطرت ہی کا انکار کر رہے ہوں یہ دوسری بات ہے کیونکہ فطرت کا انکار کرنے سے بھی فطرت کا تقاضا ختم نہیں ہو جاتا اور یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ تقاضا ہونے کے باوجود لوگ اس تقاضا سے انکار کرتے رہتے ہیں اور یہی حال دعا کے تقاضا کا ہے۔
آپ اپنے بچوں یا بڑوں کو دعا سکھاتے ہیں کہ جب سونے لگو تو پڑھو باسمک اللھم اموت واحیا ’’اے اللہ! تیرے ہی نام سے میں سونے لگا ہوں اور تیرے ہی نام سے میں جاگوں گا۔‘‘ جس کا اصل مطلب جو واضح ہے وہ یہ ہے کہ اے اللہ! میرا سونا اور جاگنا تیرے ہی قبضہ میں ہے۔ تو ہی مجھے نیند دینے والا ہے اور تو ہی مجھے نیند سے بیدار کرنے والا ہے۔ دعا کا مطلب واضح ہے اب ظاہر ہے کہ جب اس میں سونے جاگنے کا ذکر ہے تو یہ کلمات ایک وقت کے ساتھ خاص تعلق رکھتے ہیں لہٰذا یہ الفاط آپ کے سونے کے ساتھ مخصوص ہو گئے اور سونے کے ساتھ جاگنا بھی فطری چیز ہے لہٰذا سوتے وقت اس کو بھی یاد کر لیا گیا ہے اور ان الفاظ کا تعلق کھانے پینے سے نہیں لہٰذا ان الفاظ کو کھانے پینے کے اوقات کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اوپر جو الفاظ ذکر کیے گئے ہیں ان الفاظ میں جو مذکور ہے وہ اصل ہے اور فقط یہ ہے کہ آدمی اس بات کا تصور قائم کرے کہ میری زندگی کے جتنے کام ہیں جو فطرت نے میرے اندر ودیعت کیے ہیں ان کا اصل تعلق ودیعت کرنے والے اللہ رب ذوالجلال والاکرام سے ہے اب تصور ان الفاظ سے قائم ہوتا ہے یا ان کا مفہوم اپنی زبان میں ان کو ادا کرنے سے قائم ہو تا ہے یا بغیر زبان سے بولے محض اس تصور ہی سے قائم ہو جاتا ہے ان تمام طریقوں سے گویا یہ الفاظ ادا ہو گئے کیونکہ ان کا تصور قائم کرنا اصل ہے اور ’’دُعا‘‘ کے مفہوم میں یہ چیز موجود ہے کہ انسان اپنی زندگی کے کسی بھی موڑ پر اپنے رب سے غافل نہ ہو وہ جس حال میں بھی ہو اللہ رب کریم کا تصور اس کے اندر موجود ہونا چاہیے کیونکہ وہ اپنے رب کا ہر حال میں محتاج ہے جب کسی مصیبت میں وہ پھنسے گا تو اُس وقت فطرت اس کی جس ذات کی طرف راہنمائی کرے گی اس ذات کو زندگی کے تمام اوقات میں یاد رکھنا ضروری ہے۔ اگر اُس پر کسی بہت بڑی خوشی کا وقت آیا ہے تو اس پر کسی نہایت غمی کا وقت بھی آ سکتا ہے اگر اس پر خوشحالی کا وقت آیا ہے تو کسی وقت بدحالی کا وقت بھی آ سکتا ہے اس لیے خوشی کے اوقات میں اُس کو غمی کے اوقات کا خیال بھی برابر موجود رہنا چاہیے اور اگر وہ کسی غم و اندوہ میں مبتلا ہو گیا ہے تو اُس پر خوشی کے اوقات بھی آ سکتے ہیں اور زندگی میں یقیناًآئیں گے اس لیے اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ:
لِکَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَا اٰتٰکُمْ ط (
۵۷:۲۳) ’’تاکہ جو کچھ تم سے لے لیا گیا ہے اس پر غم نہ کھاؤ اور جو تم کو عطا ہوا ہے اس پر اترا نہ جاؤ۔‘‘
دُعا کسی بھی زبان میں مانگی جا سکتی ہے دُعا مانگنے میں کسی زبان کی قید نہیں سوائے فرائض کی ادائیگی کے کیونکہ فرائض کی ادائیگی ایک الگ چیز ہے چونکہ فرائض کے اندر ، فرائض کی ادائیگی کے بعد، فرائض کے شروع کرتے وقت علاوہ ازیں بھی بہت سی پابندیاں ہیں جو عام دعاؤں کے وقت نہیں لہٰذا اسوہ رسول اللہ ﷺ جس کو ’’سنت‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اس کا لحاظ ضروری ہے اور عام دعاؤں میں ایسی کوئی پابندی نہیں اسی طرح فرائض کے اندر بعض دعائیں ’’سنت‘‘ کے ضمن میں آتی ہیں، ضروری ہے کہ جب ان دعاؤں کو یاد کرنا ہی ضروری ہے تو ان کا مفہوم سمجھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے پھر ایک ضروری چیز کو کیا جائے اور دوسری ضروری چیز کو ترک کر دیا جائے تو اس کو کوئی بھی صاحب عقل و فکر صحیح نہیں کہہ سکتا اور قرآنِ کریم میں بھی اس کی تاکید کی گئی ہے جیسا کہ پیچھے سورہ النساء کی آیت
۴۳ کے ضمن میں سوال نمبر ۶ میں عرض کیا جا چکا ہے۔
عربی زبان میں جو دعائیں سکھائی جاتی ہیں تو ایک خاص قسم کے لگاؤ کے تحت سکھائی جاتی ہیں کہ اللہ رب کریم نے انسانی فطرت میں یہ چیز بھی رکھ دی ہے کہ جس سے وہ محبت کرتا ہے اُس کی ہر ادا کے ساتھ اس کی محبت کا اظہار ہوتا ہے چونکہ ہمارے پیارے رسول محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت کا یہ تقاضا ہے کہ آپؐ کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ کا تصور بھی قائم رہے اور ان کا مفہوم سمجھنے میں بھی کوتاہی نہ کی جائے جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے تاہم عربی الفاظ کی جگہ اپنی زبان میں اس مفہوم کو ادا کیاجانے کی بھی گنجائش فطرتاً موجود ہے جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ گزشتہ تمام انبیاء رسل کی دعاؤں کا ترجمہ ہی قرآنِ کریم میں مذکور ہے جس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اگر ترجمہ سے وہ معاملہ حل ہونے کا تصورموجود نہ ہوتا تو قرآنِ کریم ان انبیاء و رسل کی دعاؤں کو ان کی زبان میں بیان کرتا جب خود اللہ رب کریم نے یہ طریقہ اختیار فرمایا ہے تو اس اجازت کے بعد دوسرا کون ہے جو اُس اجازت کی ممانعت کر دے اندریں وجہ یہ بات برملا کہی جا سکتی ہے کہ دعائیں ہر انسان اپنی مادری زبان میں مانگ سکتا ہے بلکہ اس کو مانگنی چاہیے تاکہ یہ نظریہ بھی اجاگر ہو کہ اللہ رب کریم کے نزدیک جو زبان بھی انسان بولتا ہے وہ اس کو سمجھتا ہے اور یہ بات کتاب و سنت میں بھی اس طرح واضح ہے کہ اللہ رب کریم کو جس زبان میں بھی پکارا جائے وہ پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہے لہٰذا اللہ رب کریم کسی بھی زبان کے ساتھ خاص نہیں یہ محض انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ اس کو اطمینانِ قلب کس طرح حاصل ہوتا ہے جب کہ اُس کے تصور میں اللہ رب کریم کے سوا کسی اور ذات کا تصور موجود نہ ہو کیونکہ غیر اللہ کا تصور ہی ایک ایسی چیز ہے جو ہر ایک دعا کو غارت کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے اور صرف اپنے ہی تصور پر ہم سب کو قائم رکھے۔ اللھم آمین

No comments:

Post a Comment