Monday, August 6, 2012

دُعا کے متعلق (حصہ آخری)


دُعا کے متعلق از قلم  :عبدالکریم اثری

س21:۔ کافر، مشرک اور منافق بھی اللہ سے دعائیں کرتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں بھی قبول کرتا ہے؟ اگر کرتا ہے تو کیا وہ ان کی اس برائی میں شریک نہیں ہوتا؟
ج:۔ کافر، مشرک او رمنافق بھی جب اللہ تعالیٰ ہی کے بندے اور اُس کی مخلوق ہیں اور دکھ سکھ اور تکالیف ان کے بھی ساتھ ہیں کیونکہ یہ سب چیزیں فطرتی ہیں اور جو چیزیں انسانی فطرت سے تعلق رکھتی ہیں وہ تمام انسانوں میں یکساں پائی جاتی ہیں پھر یہ تمام قسم کے لوگ تو اپنی نافرمانیوں ہی کی وجہ سے ان ناموں کے مستحق قرار پائے ہیں شیطان کہیں یا ابلیس جو انسان کا ابدی دشمن ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور اگر وہ نہ ہوتا تو انسان بھی انسان نہ ہوتا کیونکہ وہ انسان کی ضد ہے جو سراسر شر اور برائی ہے اور اسی ضد کے ہونے نے انسان کو صحیح معنوں میں انسان بنایا ہے اور انسان ایک فرمانبردار بندہ بنا ہے اگر یہ ضد انسان کے ساتھ نہ ہوتی تو انسان کبھی مکلف قرار نہ دیا جاتا گویا خیر اور شر دونوں ضدیں انسان میں اکٹھی ہیں جب انسان شر سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور خیر کو اپنے لیے لازم ٹھہراتا ہے تو ایسا کرنے ہی سے وہ اجر کا مستحق ٹھہرتا ہے اگر یہ شرکا پہلو اس میں موجود نہ ہوتا تو یہ فرشتہ ٹھہرتا اور فرشتہ ہونے کے باعث کبھی مکلف نہ ہوتا اور نہ اس انعام کا مستحق ٹھہرتا جس انعام کا نام جنت ہے اور اسی طرح نہ اس عذاب کا مستحق قرار پاتا جس عذاب کا دوسرا نام دوزخ یا جہنم ہے۔
در اصل شر اور خیر دو قسم کی قوتیں ہیں جو انسان میں جمع کر دی گئی ہیں اگر ان قوتوں کے الگ الگ نام دیئے جائیں تو ایک کا نام ملک یعنی فرشتہ ہے اور دوسری کا نام ابلیس یا شیطان ہے اور یہ دونوں قوتیں انسان میں جمع ہیں جب انسان ان دونوں میں تمیز کرتے ہوئے خیر کو شر پر ترجیح دیتے ہوئے شر کی قوت کو خیر کی قوت کے تابع کر دیتا ہے تو اس اتباع کے باعث انعام کا مستحق ٹھہرتا ہے اور اگر انسان میں یہ شر کی قوت جس کو ابلیس یا شیطان بھی کہا گیا ہے نہ ہوتی تو انسان نسل کشی کے قابل نہ ہوتا اور نہ اس میں غصہ ہوتا نہ اس میں غصہ پر قابو پانے کی طاقت اور قوت ہوتی نہ اس سے کسی طرح کا گناہ سرزد ہوتا اور نہ وہ اپنے گناہ کو اپنے رب کے سامنے پیش کرتے ہوئے اس سے گناہ کی معافی طلب کرتا اور نہ وہ کبھی اللہ تعالیٰ کا مقبول بندہ قرار دیا جاتا۔ ان دو قسم کی قوتوں ہی کا یہ کمال ہے کہ انسان سے گناہ بھی سرزد ہوتا ہے اور وہ اپنے رب کے سامنے ہاتھ پھیلا پھیلا کراپنے گناہ کی بخشش اور معافی بھی طلب کرتا ہے جیسا کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ:
والذی نفسی بیدہ ! لولم تذنبوا لذھب اللہ بکم ، ولجاء بقوم یذنبون فیستغفرون اللہ فیغفرلھم۔ (ابن ماجہ حدیث
۴۳۵۰) ’’قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر تم لوگ گناہ کر کے استغفار نہ کرو تو اللہ تعالیٰ تم کو ہٹا کر ایسے لوگوں کو لے آئے گا جو گناہ کرنے کے بعد اللہ سے مغفرت طلب کریں گے اور پھر اللہ ان کو معاف فرمائے گا۔‘‘
واضح ہو گیا کہ اللہ کے بندے صحیح معنوں میں وہی ہیں جن سے گناہ سرزد ہوتے ہیں اور پھر وہ گناہ سرزد ہونے کے بعد نادم ہوتے ہیں اور اپنے رب سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ ان کو معاف کر دیتاہے۔
قرآنِ کریم کی ہدایت کے مطابق یہ بات بھی ہے کہ گناہ کر کے گناہ پر اڑ جانا اور گناہ کو تسلیم نہ کرناابلیسیت ہے اور گناہ ہو جانے کے بعد گناہ پر نادم ہونے اور اللہ سے مغفرت طلب کرنے کا نام انسانیت ہے۔ اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آدم و ابلیس کا قصہ قرآنِ کریم میں ایک سے زیادہ بار بیان فرمایا کہ گناہ ابلیس نے بھی کیا اور آدم سے بھی گناہ سرزد ہوا لیکن معاملہ یہ ہوا کہ ابلیس نے گناہ کرنے یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کے بعد اپنی غلطی کا اعتراف نہ کیا بلکہ اپنی غلطی کو غلطی تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں آدم کی فضیلت اپنے اوپر کیسے تسلیم کر لوں جب کہ میری ذات آدم کے مقابلہ میں او نچی ہے اور اس کی دلیل یہ پیش کی کہ : اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ
o (۷:۱۲) ’’میں آدم سے بہتر ہوں کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اُسے مٹی سے بنایا ہے۔‘‘
آدم علیہ السلام سے بھی گناہ یعنی نافرمانی ہو گئی جب کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کو فرمایا کہ ’’اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور جہاں سے چاہو کھاؤ پیو مگر دیکھو اس درخت کے قریب نہ جانا اگر تم اس درخت کے قریب گئے تو یاد رکھو تم زیادتی کرنے والوں میں ہو جاؤ گے۔‘‘ پھر جب ان دونوں نے اس درخت سے کچھ چکھ لیا تو ان کے وہ کپڑے اتار لیے گئے اور وہ نہایت شرمندہ ہو کر رہ گئے اس طرح جس چیز سے ان کو روکا گیا تھا اُس کو انہوں نے بھول کر کر لیا تو فوراً کہنے لگے۔ ’’اے ہمارے رب! ہم نے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کر لیا اگر تو نے ہمارا قصور معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہمارے لیے بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ جب انہوں نے کسی طرح کا عذر نہ کرتے ہوئے توبہ کی تو اللہ رب کریم نے ان کی توبہ قبول فرما لی اور اپنی خاص بخشش و مغفرت سے مالامال کر دیا۔اس قصہ کی بہت سی تفصیلات ہیں جن کو ان کے مقام پر ہم نے قرآنِ کریم کی تفسیر ’’عروۃ الوثقیٰ ‘‘ میں وضاحت سے بیان کیا ہے اور ابلیس و آدم کے قصہ کی حقیقت اور ضرورت واضح کی ہے۔ اور اسی طرح یہ بھی کہ دعا سب کی حسب مراتب قبول ہوتی ہے تو کیوں قبول ہوتی ہے اس لیے کہ اکثر وبیشتر یہ تمام مخلوق اپنے مخلوق ہونے کے لحاظ سے اس کی مستحق ٹھہرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ جہاں فرمانبرداروں کو عطا کرتا ہے وہاں نافرمانوں کو بھی عطا کرے۔ کیونکہ رب ہونے کے لحاظ سے وہ جس طرح فرمانبرداروں کا رب ہے نافرمانوں کا بھی ہے۔
اور فرمانبرداروں اور نافرمانوں کا فرق خود واضح فرما دیا کہ فرمانبرداروں سے جب اتفاقاً نافرمانی ہوتی ہے تو فوراً اپنی نافرمانی پر نادم ہوتے ہوئے اپنے رب سے معافی طلب کر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنے وعدہ کے مطابق معاف فرما دیتا ہے اور جو نافرمان ایسے بدبخت ہوتے ہیں کہ نافرمانیاں بھی کرتے ہیں اور اپنی نافرمانیوں پر نادم ہونے کی بجائے بضد ہوتے ہیں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے کی بجائے ایسی دلیلیں تلاش کرتے ہیں تاکہ وہ یہ ثابت کر دکھائیں جو کچھ انہوں نے کیا ہے وہی ان کا حق تھا اور ایسے نافرمانوں کو ان کی نافرمانیاں بھی تباہ و برباد کر دیتی ہیں۔ اور پھر وہ ایسے ناموں سے موسوم ہوتے ہیں۔
قرآنِ کریم ہم کو یہ ہدایت بھی دیتا ہے کہ ان نافرمانوں کو جو نافرمانی کی طاقت و قوت بخشی تو وہ اللہ ہی نے بخشی ہے اور وہ ان کی یہ طاقت سلب کر لیتا تو وہ ایسا نہ کر سکتے اور پھر جب وہ ایسا نہ کر سکتے تو گویا ان کا ایسا نہ کرنا مجبوری کے باعث ہوتا اور اللہ تعالیٰ کا قانون یہ بھی ہے کہ وہ لوگوں کو مجبور کر کے منوانا نہیں چاہتا اگر وہ ان کو مجبور کر کے منوائے تو وہ انعام کے مستحق کیسے قرار پائیں اپنے اختیار سے گناہ، نافرمانی اور جرم نہ کرنا اور اگر بے احتیاطی سے ایسا ہو جائے تو فوراً تائب ہونا ہی تو اس اجر کا مستحق قرار دیتا ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ کے وعدہ سے موسوم کیا گیا ہے۔
کافروں،مشرکوں، منافقوں اور شیطانوں کا رب بھی تو صرف وہی ہے جو انسانوں اور فرمانبرداروں کا رب ہے اور یہ تمام کے تمام اُس کی مخلوق ہیں اور مخلوق ہونے کے لحاظ سے جو فطری وعدہ ان سے کیے گئے ہیں وہ بھی تو اللہ رب کریم کو پورے کرنا ہیں اگر وہ ایسا نہ کرے تو ایک تو وعدہ خلافی ہوئی جو اللہ تعالیٰ سے محال ہے اور دوسری یہ بات ہوئی کہ وہ مخلوق کسی اور کی ٹھہرے اور یہ بات بھی ممتنع ہے کہ کسی مخلوق کا خواہ وہ مخلوق کیسی ہو خالق اللہ کے سوا کوئی اور ہو جب کہ ایسا ہو نہیں سکتا کیونکہ اِس کائنات کے اندر ہے جو کچھ ہے اور اس کائنات کا خالق صرف اور صرف ایک ہے یعنی اللہ تعالیٰ اس لیے کہ اُس نے خود اس بات کا اعلان فرمایا ہے کہ اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ (
۱۳:۱۶) اگر خیر مخلوق ہے تو شر بھی مخلوق ہے گویا خیر اور شر دونوں کا خالق اللہ ہے جب خیر اپنا کام کرے گی تو ظاہر ہے کہ شر کو بھی اپناکام کرنا ہے یہی وجہ ہے کہ بار بار ارشاد فرمایا گیا ہے کہ انسان سے جہاں نیکی اور خیر ہو گی تو ضروری ہے کہ اُس سے شر اور برائی کا ارتکاب بھی ہو کیونکہ انسان ہی وہ مخلوق ہے جس کے اندر یہ دونوں طاقتیں اور قوتیں ودیعت کی گئیں ہیں اور اس بات کا اعلان بھی فرما دیا گیا ہے کہ:
وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا
o فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا o قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o (۷:۱۰) ’’انسان اور اُس کو درست کرنے والے رب کی قسم۔ اللہ نے نفس انسانی میں برائی اور پرہیزگاری کی دونوں قوتیں ودیعت کر دیں۔ جس انسان نے اپنے نفس کو پاک کیا وہ اپنے مقصود کو پا گیا۔ اور جس نے اس کو مٹی میں گاڑ دیا وہ نامراد ہو گیا۔‘‘ اس سے فطری نتیجہ بھی واضح ہو گیا کہ انسان میں جہاں دونوں قوتیں ودیعت کر دی گئی ہیں وہاں ان دونوں قوتوں پر اُس کو اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ جس قوت و طاقت سے چاہے کام لے لے اور وہ طاقت اور قوت اُس کو کام دے گی اور یہی کچھ ہوتا ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ بھی انسان تھے اور یہ دونوں طاقتیں آپ ﷺ میں بھی ودیعت تھیں اور یہی وجہ ہے آپ ؐ خود اپنے متعلق ارشاد فرماتے ہیں جیسا کہ روایات میں آیا ہے کہ ’’میں ایک دن میں ستر مرتبہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرتا ہوں۔‘‘ چنانچہ روایات میں ہے کہ: قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، یقول : واللہ انی لاستغفراللہ واتوب الیہ فی الیوم اکثر من سبعین مرۃ۔ (بخاری
۲۳۰۷) اس سے یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ انسان گناہ کرنے یا اس سے گناہ سرزد ہونے کے بعد ہی معافی طلب کرنا ضروری نہیں بلکہ جب دونوں باتوں کی طاقت و قوت اُس میں موجود ہے تو اُس کو ہر وقت اس بات سے چوکنا رہنا چاہیے کہ کہیں مجھ سے ایسا گناہ سرزد نہ ہو جائے لہٰذا گناہ کرنے سے پہلے ہی معافی طلب کرتا رہے کہ کہیں مجھ سے ایسا سرزد نہ ہو جائے جس کا خطرہ اُس کو ہر وقت محسوس ہوتا رہنا چاہیے اور اس بات کی طرف آپؐ نے مذکورہ روایت میں ذکر فرمایا ہے پھر بعض میں ستر مرتبہ کا ذکر ہے اوربعض میں سو مرتبہ کا اور بعض میں سو سے بھی زیادہ مرتبہ کا۔
جب آپؐ کا یہ ارشاد ہے اور آپؐ اس قدر محتاط ہیں تو ہمیں اس معاملہ میں کتنی احتیاط کی ضرورت ہے اور ہم خود کتنے بد احتیاط ہیں اس کی فکر ہر انسان کو از خود اپنے معاملہ میں ہونی چاہیے خواہ وہ کون ہو، کیسا ہو اور کہاں ہو؟
بات واضح ہو گئی کہ جب کافر، مشرک اور منافق سب اللہ ہی کی مخلوق ہیں اور انسان ہونے کے ناطے سے وہ خود اپنے اختیار سے کافر، مشرک اور منافق ہوئے ہیں اور ان سب کو یہ اختیار اللہ رب کریم ہی نے دیا ہے اور اس طرح کی طاقتیں اور قوتیں اللہ تعالیٰ ہی نے ان کے اندر ودیعت کی ہیں اگر ان کی یہ طاقت اللہ رب کریم سلب کر لے تو یہ ایسا کبھی نہ کر سکیں لیکن ان کا ایسا کبھی نہ کر سکنا ان کے اختیار سے نہ ہوا۔ اس لیے مشیت ایزدی نے ان کو اختیار دیا تاکہ وہ از خود اپنے اختیار سے ان باتوں سے باز آئیں جب کہ وہ ان باتوں سے باز نہ آ کر کافر،مشرک اور منافق ٹھہرے اور اپنی اپنی حالت کے مطابق وہ عذاب کے مستحق ٹھہرے اور اللہ تعالیٰ نے جو ان کو آزادی بخشی تھی اُس کے باعث اللہ تعالیٰ اُن کے اس کام میں شریک نہ ٹھہرا، وہ شریک تب ہوتا کہ ان کو ان باتوں پر مجبور کر دیتا جن باتوں کے باعث وہ کافر، مشرک اور منافق ٹھہرا نہ تو اللہ رب کریم نیک لوگوں اور اپنے فرمانبردار بندوں کی نیکی اور فرمانبرداری میں شریک ہے اور نہ ان تمام بروں کی برائی میں بلکہ دونوں طرح کے لوگ اپنے اختیار کے باعث ایسے اعمال کے مرتکب ہوئے جن اعمال نے ان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور فرمانبرداری کے اعمال نے بعض کو نیک اور فرمانبردار قرار دیا اور اپنے اعمال کے باعث ان میں سے بعض کافر، مشرک اور منافق قرار دیئے گئے۔ اور دونوں طرح کے اعمال کی طاقت اور قوت اللہ رب کریم ہی نے اُن کو ودیعت کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ یوں سمجھیں کہ نیکی کرنے والوں اور فرمابردار لوگوں میں بھی تمام طرح کی برائیوں کی طاقت موجود ہے لیکن انہوں نے از خود یعنی اپنے اختیار سے اس طاقت سے کام نہ لیا بلکہ اس کے برعکس نیکی اور فرمانبرداری کی طاقت و قوت سے کام لے کر نیک اور فرمانبردار ٹھہرے اور اس کے ساتھ ہی وہ اللہ رب کریم کے اُس انعام کے مستحق بھی قرارپائے جو جنت میں ان کو دیا جائے گا اور اس طرح وہ بحمداللہ دنیا میں کامیاب ٹھہرے اور آخرت میں بھی۔
اس کے برعکس تمام کافروں، مشرکوں اور منافقوں میں بھی نیکی اور فرمانبرداری کی طاقت و قوت ودیعت کی گئی ہے لیکن انہوں نے از خود اپنی آزادی سے اس طاقت و قوت کی بجائے برائی کی طاقتوں سے از خود آزادی کے باعث کام لیا اور ایسے اعمال کیے جن کے نتائج میں وہ کافر،مشرک اور منافق قرار دیئے گئے اور آخرت بھی ان کی برباد ہو گئی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ براہِ راست نہ نیکوں کی نیکی میں شریک ہے اور نہ بروں کی برائی میں۔ ہاں! اللہ تعالیٰ تمام انسانوں میں دونوں طرح کی طاقتیں ودیعت کرنے کے بعد چونکہ اس بات کا ارشاد فرماتا ہے کہ میں نیکیوں کا حکم دیتا ہوں لہٰذا جو لوگ نیکی کی قوت سے کام لیتے ہیں اور برائی کی طاقت کو دبا دیتے ہیں وہ اللہ کے اس حکم کو مانتے ہیں لہٰذا اللہ رب کریم ان پر خوش ہوتا ہے اور برائی کا اللہ کبھی حکم نہیں دیتا بلکہ اس سے منع کرتا ہے اور جو لوگ ان برائیوں سے باز نہیں آتے اللہ تعالیٰ اُن سے ناراض ہوتاہے کہ انہوں نے اس کے حکم کی نافرمانی کی ہے لہٰذا وہ ان سے ان کی نافرمانی کے باعث ناراض ہوتاہے جو انہوں نے اپنے اختیار سے کی ہے۔
اس طرح نیکوں کی نیکی سے اللہ تعالیٰ کا خوش ہونا بھی ایک حکمی چیز ہے اور برے لوگوں کی برائی پر ناراض ہونا بھی ایک حکمی چیز ہے لیکن اس سے اللہ تعالیٰ کا کسی بھی انسان کے عمل میں شریک نہیں ٹھہرتا گویا آپ کے سوال میں یہ خدشہ محض آپ کی ناسمجھی کے باعث ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام بروں کی دعاؤں کا جب نتیجہ ان کو دیتا ہے تو گویا ان کے ان اعمال میں شریک ٹھہرتا ہے یہ ہرگز ہرگز درست بات نہیں بلکہ یہ ایک شیطان کا دھوکا ہے جس میں سوال کرنے والا شریک ہو گیا ہے یعنی وہ دھوکا کھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ رب کریم حق بات کو سمجھنا ہمارے لیے آسان فرما دے اور کوئی بھی دھوکا دینے والا ہم کو کسی دھوکا میں مبتلا نہ کر دے۔ میں امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ بات آپ کی سمجھ میں آ گئی ہو گی اگر ایسا ہے تو یہ بھی محض اللہ رب کریم کا آپ پر فضل ہے اور ہم سب کو اللہ تعالیٰ کے اس فضل کا امید وار رہنا چاہیے۔
بعض روایات میں اس طرح کا بیان آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سوا کوئی بھی جنت میں نہیں جائے گا یہاں تک کہ آپؐ سے جب پوچھا گیا کہ آپؐ بھی تو فرمایا ہاں! میں بھی، ایسی روایات کا مفہوم در اصل یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہی سے انسان اچھا عمل کرتا ہے گویا اچھے اعمال سرزد ہونا رحمت الٰہی سے ممکن ہیں ورنہ شیطان جو ہر انسان کے ساتھ ہے بلکہ اُس کے اندر موجود ہے جو ہر وقت انسان کو بہکانے کا عمل جاری رکھتا ہے جس کے متعلق ارشادِ الٰہی ہے کہ: فَاَلْمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا ۔ پھر فجور سے بچتے ہوئے تقویٰ اختیار کرنا رحمت الٰہی کی کرشمہ سازی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ اپنی رحمت کی بارش سے ہم سب کو سیراب فرمائے آمین۔ثم آمین۔ فقط


والسلام
عبدالکریم اثری
21-06-2012



No comments:

Post a Comment