Monday, August 13, 2012

حدیث کا ہے انداز بیان اور


حدیث  کا ہے انداز بیان اور

جا کر اپنے باپ کی شرمگاہ چوس

1 - ا ب ج : (26407)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مرویات
حدثنا حجاج حدثنا إسرايل عن أبي إسحاق عن حارثة بن مضرب عن علي رضي الله عنه قال لما قدمنا المدينة أصبنا من ثمارها فاجتويناها وأصابنا بها وعك وكان النبي صلى الله عليه وسلم يتخبر عن بدر فلما بلغنا أن المشركين قد أقبلوا سار رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى بدر وبدر بر فسبقنا المشركون إليها فوجدنا فيها رجلين منهم رجلا من قريش ومولى لعقبة بن أبي معيط فأما القرشي فانفلت وأما مولى عقبة فأخذناه فجعلنا نقول له كم القوم فيقول هم والله كثير عددهم شديد بأسهم فجعل المسلمون إذ قال ذلك ضربوه حتى انتهوا به إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال له كم القوم قال هم والله كثير عددهم شديد بأسهم فجهد النبي صلى الله عليه وسلم أن يخبره كم هم فأبى ثم إن النبي صلى الله عليه وسلم سأله كم ينحرون من الجزر فقال عشرا كل يوم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم القوم ألف كل جزور لماة وتبعها ثم إنه أصابنا من الليل طش من مطر فانطلقنا تحت الشجر والحجف نستظل تحتها من المطر وبات رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعو ربه عز وجل ويقول اللهم إنك إن تهلك هذه الفة لا تعبد قال فلما أن طلع الفجر نادى الصلاة عباد الله فجا الناس من تحت الشجر والحجف فصلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وحرض على القتال ثم قال إن جمع قريش تحت هذه الضلع الحمرا من الجبل فلما دنا القوم منا وصاففناهم إذا رجل منهم على جمل له أحمر يسير في القوم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم يا علي ناد لي حمزة وكان أقربهم من المشركين من صاحب الجمل الأحمر وماذا يقول لهم ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن يكن في القوم أحد يأمر بخير فعسى أن يكون صاحب الجمل الأحمر فجا حمزة فقال هو عتبة بن ربيعة وهو ينهى عن القتال ويقول لهم يا قوم إني أرى قوما مستميتين لا تصلون إليهم وفيكم خير يا قوم اعصبوها اليوم برأسي وقولوا جبن عتبة بن ربيعة وقد علمتم أني لست بأجبنكم فسمع ذلك أبو جهل فقال أنت تقول هذا والله لو غيرك يقول هذا لأعضضته قد ملأت رتك جوفك رعبا فقال عتبة إياي تعير يا مصفر استه ستعلم اليوم أينا الجبان قال فبرز عتبة وأخوه شيبة وابنه الوليد حمية فقالوا من يبارز فخرج فتية من الأنصار ستة فقال عتبة لا نريد هؤلا ولكن يبارزنا من بني عمنا من بني عبد المطلب فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم قم يا علي وقم يا حمزة وقم يا عبيدة بن الحارث بن عبد المطلب فقتل الله تعالى عتبة وشيبة ابني ربيعة والوليد بن عتبة وجرح عبيدة فقتلنا منهم سبعين وأسرنا سبعين فجا رجل من الأنصار قصير بالعباس بن عبد المطلب أسيرا فقال العباس يا رسول الله إن هذا والله ما أسرني لقد أسرني رجل أجلح من أحسن الناس وجها على فرس أبلق ما أراه في القوم فقال الأنصاري أنا أسرته يا رسول الله فقال اسكت فقد أيدك الله تعالى بملك كريم فقال علي رضي الله عنه فأسرنا وأسرنا من بني عبد المطلب العباس وعقيلا ونوفل بن الحارث
مسند احمد:جلد اول:حدیث نمبر 904          حدیث مرفوع          
 حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ہم لوگ مدینہ منورہ ہجرت کر کے آئے اور ہم نے یہاں کے پھل کھائے تو ہمیں پیٹ کی بیماری لاحق ہو گئی جس سے بڑھتے بڑھتے ہم شدید قسم کے بخار میں مبتلا ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے حالات معلوم کرتے رہتے تھے، جب ہمیں معلوم ہوا کہ مشرکین مقام بدر کی طرف بڑھ رہے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بدر کی طرف روانہ ہوگئے، جو کہ ایک کنوئیں کا نام تھا، ہم مشرکین سے پہلے وہاں پہنچ گئے، وہاں ہمیں دو آدمی ملے، ایک قریش کا اور دوسرا عقبہ بن ابی معیط کا غلام، قریشی تو ہمیں دیکھتے ہی بھاگ گیا اور عقبہ کے غلام کو ہم نے پکڑ لیا۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ ان کے لشکر کی تعداد کتنی ہے؟ اس نے کہا بخدا! ان کی تعداد بہت زیادہ اور ان کا سامان حرب بہت مضبوط ہے، جب اس نے یہ کہا تو مسلمانوں نے اسے مارنا شروع کر دیا اور مارتے مارتے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سے مشرکین مکہ کی تعداد پوچھی، اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی وہی جواب دیا جو پہلے دیا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ان کی صحیح تعداد معلوم کرنے کی پوری کوشش کی لیکن اس نے بتانے سے انکار کر دیا، بالآخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ وہ لوگ روزانہ کتنے اونٹ ذبح کرتے ہیں؟ اس نے جواب دیا روزانہ دس اونٹ ذبح کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت فرمایا ان کی تعداد ایک ہزار ہے، کیونکہ ایک اونٹ کم از کم سو آدمیوں کو کفایت کر جاتا ہے۔
 رات ہوئی تو ہلکی ہلکی بارش ہونے لگی، ہم بارش سے بچنے کے لئے درختوں اور ڈھالوں کے نیچے چلے گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں ساری رات اپنے پروردگار سے یہ دعاء کرتے رہے کہ اے اللہ! اگر یہ گروہ ختم ہوگیا تو آپ کی عبادت نہیں ہو سکے گی، بہرحال! طلوع فجر کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نداء کروائی کہ اللہ کے بندو! نماز تیار ہے، لوگوں نے درختوں اور سائبانوں کو چھوڑا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور اس کے بعد جہاد کی ترغیب دینے لگے، پھر فرمایا کہ قریش کا لشکر اس پہاڑ کی سرخ ڈھلوان میں ہے۔ جب لشکر قریش ہمارے قریب آگیا اور ہم نے بھی صف بندی کرلی، تو اچانک ان میں سے ایک آدمی سرخ اونٹ پر سوار ہو کر نکلا اور اپنے لشکر میں چکر لگانے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا علی! حمزہ سے پکار کر کہو جو کہ مشرکین مکہ کے سب سے زیادہ قریب تھے، یہ سرخ اونٹ والا کون ہے اور کیا کہہ رہا ہے؟ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر لشکر قریش میں کوئی آدمی بھلائی کا حکم دے سکتا ہے تو وہ یہ سرخ اونٹ پر سوار ہی ہوسکتا ہے، اتنی دیر میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آگئے اور فرمانے لگے کہ یہ عتبہ بن ربیعہ ہے جو کہ لوگوں کو جنگ سے روک رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اے میری قوم! میں ایسے لوگوں کو دیکھ رہا ہوں جو ڈھیلے پڑ چکے ہیں، اگر تم میں ذرا سی بھی صلاحیت ہو تو یہ تم تک کبھی نہیں پہنچ سکیں گے، اے میری قوم! آج کے دن میرے سر پر پٹی باندھ دو، اور کہہ دو کہ عتبہ بن ربیعہ بزدل ہوگیا حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں بزدل نہیں ہوں ۔ ابوجہل نے جب یہ بات سنی تو کہنے لگا کہ یہ بات تم کہہ رہے ہو؟ بخدا! اگر یہ بات تمہارے علاوہ کسی اور نے کہی ہوتی تو میں اس سے کہتا کہ جا کر اپنے باپ کی شرمگاہ چوس(گالی دیتا) تمہارے پھیپھڑوں نے تمہارے پیٹ میں رعب بھر دیا ہے، عتبہ کہنے لگا کہ او پیلے سرین والے! تو مجھے عار دلاتا ہے، آج تجھے پتہ چل جائے گا کہ ہم میں سے بزدل کون ہے؟
 اس کے بعد جوش میں آکر عتبہ، اس کا بھائی شیبہ اور اس کا بیٹا ولید میدان جنگ میں نکل کر مبارز طلبی کرنے لگے، ان کے مقابلے میں چھ انصاری نوجوان نکلے، عتبہ کہنے لگا کہ ہم نے انسے نہیں لڑنا چاہتے، ہمارے مقابلے میں ہمارے بنو عم نکلیں جن کا تعلق بنو عبدالمطلب سے ہو، یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبیدہ بن حارث بن مطلب کو اٹھنے اور مقابلہ کرنے کا حکم دیا، اس مقابلے میں عتبہ، شیبہ اور ولید تینوں مارے گئے اور مسلمانوں میں حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے۔ اس طرح ہم نے ان کے ستر آدمی مارے اور ستر ہی کو قیدی بنا لیا، اسی اثناء میں ایک چھوٹے قد کا انصاری نوجوان عباس بن عبدالمطلب کو جو بعد میں صحابی بنے قیدی بنا کرلے آیا، عباس کہنے گے یا رسول اللہ! بخدا! اس نے جھے قیدی نہیں بنایا، مجھے تو اس شخص نے قید کیا ہے جس کے سر کے دونوں جانب بال نہ تھے، وہ بڑا خوبصورت چہرہ رکھتا تھا اور ایک چتکبرے گھوڑے پر سوار تھا، جو مجھے اب آپ لوگوں میں نظر نہیں آرہا، اس پر انصاری نے کہا یا رسول اللہ! انہیں میں نے ہی گرفتار کیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خاموشی کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک معزز فرشتے کے ذریعے اللہ نے تمہاری مدد کی ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بنو عبدالمطلب میں سے ہم نے عباس، عقیل اور نوفل بن حارث کو گرفتار کیا تھا۔

1 - ا ب ج : (26407)
وہ حدیثیں جو ابوعثمان نہدی نے ان سے نقل کیا ہیں ۔
حدثنا محمد بن عمرو بن العباس الباهلي حدثنا سفيان عن عاصم عن أبي عثمان عن أبي رضي الله عنه أن رجلا اعتزى فأعضه أبي بهن أبيه فقالوا ما كنت فحاشا قال إنا أمرنا بذلك
مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 1345          حدیث مرفوع          
 ابو عثمان کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے کسی کی طرف اپنی جھوٹی نسبت کی تو حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے اسے اس کے باپ کی شرمگاہ سے شرم دلائی لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ تو ایسی کھلی گفتگو نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا ہمیں اسی کا حکم دیا گیا ہے ۔

1 - ا ب ج : (26407)
وہ حدیثیں جو عتی بن ضمرہ سعدی نے ان سے نقل کی ہیں ۔
حدثنا محمد بن جعفر حدثنا عوف عن الحسن عن عتي بن ضمرة عن أبي بن كعب أن رجلا اعتزى بعزا الجاهلية فأعضه ولم يكنه فنظر القوم إليه فقال للقوم إني قد أرى الذي في أنفسكم إني لم أستطع إلا أن أقول هذا إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمرنا إذا سمعتم من يعتزي بعزا الجاهلية فأعضوه ولا تكنوا
مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 1358          حدیث مرفوع          
 عتی بن ضمرہ سعدی کے ایک آدمی نے کسی کی طرف اپنی جھوٹی نسبت کی تو حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے اسے اس کے باپ کی شرمگاہ سے شرم دلائی لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ تو ایسی کھلی گفتگو نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا ہمیں اسی کا حکم دیا گیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جس آدمی کو جاہلیت کی نسبت کرتے ہوئے سنو تو اسے اس کے باپ کی شرمگاہ سے شرم دلاؤ۔

1 - ا ب ج : (26407)
وہ حدیثیں جو عتی بن ضمرہ سعدی نے ان سے نقل کی ہیں ۔
حدثنا يحيى بن سعيد حدثنا عوف عن الحسن عن عتي عن أبي بن كعب قال رأيت رجلا تعزى عند أبي بعزا الجاهلية افتخر بأبيه فأعضه بأبيه ولم يكنه ثم قال لهم أما إني قد أرى الذي في أنفسكم إني لا أستطيع إلا ذلك سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من تعزى بعزا الجاهلية فأعضوه ولا تكنوا حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة حدثنا عيسى بن يونس عن عوف عن الحسن عن عتي عن أبي عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله حدثنا إسماعيل عن يونس عن الحسن عن عتي أن رجلا تعزى بعزا الجاهلية فذكر الحديث قال أبي كنا نؤمر إذا الرجل تعزى بعزا الجاهلية فأعضوه بهن أبيه ولا تكنوا حدثنا عبد الله حدثنا عبيد الله بن عمر بن ميسرة حدثنا يزيد بن زريع حدثنا يونس عن الحسن عن عتي قال قال أبي كنا نؤمر إذا اعتزى رجل فذكر مثله
مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 1359          حدیث مرفوع          
 عتی بن ضمرہ سعدی کے ایک آدمی نے کسی کی طرف اپنی جھوٹی نسبت کی تو حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے اسے اس کے باپ کی شرمگاہ سے شرم دلائی لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ تو ایسی کھلی گفتگو نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا ہمیں اسی کا حکم دیا گیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جس آدمی کو جاہلیت کی نسبت کرتے ہوئے سنو تو اسے اس کے باپ کی شرمگاہ سے شرم دلاؤ۔
گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
عتی بن ضمرہ سعدی کے ایک آدمی نے کسی کی طرف اپنی جھوٹی نسبت کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا انہوں نے فرمایا ہمیں اسی کا حکم دیا گیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیاہے کہ جس آدمی کو جاہلیت کی نسبت کرتے ہوئے سنو تو اسے اس کے باپ کی شرمگاہ سے شرم دلاؤ۔
گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

2 comments:

  1. http://studyhadithbyquran.blogspot.com/2012/08/suck-al-lats-clitoris_3044.html

    ReplyDelete
  2. http://studyhadithbyquran.blogspot.com/2012/08/blog-post_5136.html

    ReplyDelete