Monday, August 6, 2012

دُعا کے متعلق (حصہ چہارم)


دُعا کے متعلق از قلم  :عبدالکریم اثری

س16:۔ نماز کے اندر دعا مانگنے اور نماز سے باہر دعا مانگنے میں کیا فرق ہے؟ نیز دعا کا بہترین طریقہ کونسا ہے؟

ج:۔ فی نفسہٖ ’’دُعا‘‘ کے لیے باوضو ہوناضروری نہیں اس لحاظ سے نماز کے باہر آدمی جہاں چاہے جس وقت چاہے، رات ہو یا دن،سویا ہو یا جاگ کر یا سوتے وقت،کھانے پینے پہننے یا کسی بھی وقت وہ دعا کر سکتا ہے لیکن جب نماز کے اندر دعا کرے گا تو ظاہر ہے اُس کو نماز ادا کرنے سے پہلے باقاعدہ وضو کرنا بھی ضروری ہے وضو میں وہ وضو کے فرائض اور سنن کا بھی خیال رکھے گا۔ نماز میں داخل ہونے کے لیے جگہ کا پاک ہونا، کپڑوں کا پاک و صاف ہونا اور نماز کا وقت ہونا یعنی جس نماز کو ادا کرنا چاہتا ہے اُس نماز کا وقت ہونا،قبلہ رو ہونا وغیرہ جیسے کام سر انجام دینے ہوں گے جس سے اُس کو پاکیزگی حاصل ہو گی اس طرح وہ جب نماز کے اندر دعا کرے گا تو ظاہر ہے کہ وہ ہر طرح کی پاکیزگی میں ہو گا اور یہ دعا کے لیے مفید بات ہے اور اس کو بھی اس سے زیادہ انشراح حاصل ہو گا اور یہی دعا کا ماحصل ہے کہ انشراح حاصل ہو تاکہ دل مطمئن ہو جو نماز کے اندر دعا مانگنے سے فطرتاً زیادہ حاصل ہوتا ہے اور نماز کی تمام حالتوں میں چونکہ سجدہ کی حالت میں یہ چیز زیادہ مہیا ہوتی ہے اور سجدہ کی حالت کو دعا کو قبولیت کے لیے زیادہ بہتر سمجھا گیا ہے چنانچہ روایات میں بھی سجدہ کی حالت میں دعا کو مفید بتایا گیا ہے۔ (مسلم،عن ابی ہریرہؓ)
اسی طرح نماز کے اندر وہ دعائیں یا تذکار پڑھے جاتے ہیں جو نماز کی حالت کے مطابق ہوتے ہیں۔ مثلاً دعائے استفتاح ہے تو وہ ایک نہیں بہت ادعیہ ہیں جو نماز شروع کرتے وقت پڑھی گئی ہیں اور سب کا مضمون اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء پر مشتمل ہے ان ادعیہ میں سے جو دعا بھی نماز ادا کرنے والا انتخاب کر لے یا جس دعا کو بھی معمول زندگی بنا لے بنا سکتا ہے اور ہر آدمی از خود نہ سہی تو جس مکتبہ فکر سے اس کا تعلق ہے اس مکتبہ فکر نے جس دعا کو اپنا معمول بنا لیا ہے وہ اپنے لوگوں کو اس دعا کے لیے پڑھنے کی ترغیب دے گا اور اس فکرکے متعلق لوگ اس دعاکومعمول بنا لیں گے اور یہی حال دوسرے مکاتب فکر کا ہے اس طرح تین چار مختلف دعاؤں کا انتخاب کر لیا ہے تو ہر مکتبہ فکر کے لوگ اپنی پڑھی جانے والی دعا پر دلائل جمع کر کے اپنے لوگوں کو اس دعا پر پختہ کر لیں گے نہیں بلکہ ان کو پختہ کرنے کے لیے دوسرے مکاتب فکر میں پڑھی جانے والی دعاؤں کا رد کریں گے اور یہ سلسلہ سب کے ہاں چلتا رہے گا جس کے نتیجہ میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ اپنے مکتبہ فکر کے لوگوں کو صحیح اور دوسروں کو غلط قرار دیں گے اور اسی طرح یہ بھی کہ یہ ایک دعا کے ساتھ تو ایسا نہیں ہوا نماز کے اندر بیسیوں سے متجاوز تذکار ذکر کیے گئے ہیں جن سے عوام تو واقف نہیں اور علمائے کرام ان کو واقف ہونے بھی نہیں دیں گے کیونکہ ان کی دکانداری متاثر ہوتی ہے لہٰذا اس طرح کرتے کرتے آج بیسیوں قسم کے مکاتب فکر نہیں بلکہ وہ بیسیوں سے بھی متجاوز ہو گئے ہیں کیونکہ اس وقت ان ہی باتوں کے باعث ایک ایک جماعت کی کم از کم دس جماعتیں معرضِ وجود میں آ چکی ہیں اور ابھی روز بروز یہ کام ترقی پذیر ہے۔
مختصر یہ کہ اس وقت نماز کے اندر پڑھے جانے والے تذکار مخصوص ہو چکے ہیں اور نماز کے باہر اور خصوصاً نماز ادا کرنے کے فوراً بعد اور عام اوقات میں اور اسی طرح مخصوص اوقات میں پڑھے جانے والے تذکار کے ناموں سے طے پا گئے ہیں جن کو ایک کی جگہ دوسرا ذکر ممنوع قرار پا گیا ہے اور روایات نے ان کی مکمل درجہ بندی کر دی ہے اور اپنی اپنی ترتیب کے مطابق لوگوں نے نماز ادا کرنے کی کتب طبع کرا لی ہیں لہٰذا ان دعاؤں کو آگے پیچھے کرنے سے بہت سی مزید خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں حالانکہ حقیقت ایسی نہیں بلکہ اس معاملہ میں ہر آدمی کو آزادی کے ساتھ اپنی دعاؤں کو آگے پیچھے خودکرنا ہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے جو اس وقت کسی کے لیے بھی ممکن نہیں رہا تاہم حقیقت کو چھپانے کی بجائے ظاہر کرنا ہی اسلامی روح کے مطابق ہے اور ہر آدمی کو اپنے مطلب کی دعاؤں کا جو اس کے حالات کے مطابق ہیں انتخاب کرنے کا حق ہے اسی طرح اگر کوئی شخص مخصوص تذکار کے علاوہ اپنی زبان میں اپنی خواہش کی چیز طلب کرتا ہے تو اُس کو حق ہے کیونکہ سب کی ضروریات یکساں ایک جیسی نہیں ہوتیں اور طلب کے خلاف مانگنا فطرت انسانی کے خلاف ہے جو ہر جگہ اور ہر مقام پر کیا جا رہا ہے اور کیا جاتا رہے گا جب تک ہم خود اس پر توجہ نہیں دیں گے۔
مختصر یہ کہ دعا نماز کے اند رمانگیں یا نماز ادا کرنے کے بعد اُسی وقت مانگیں یا جب چاہیں مانگیں دعا کرنیوالوں کو اختیار ہے تاہم دعا مانگنے کے آداب پیش نظر رہیں اور آداب کے مطابق مانگیں تو وہ زیادہ مفید مطلب ہے جس میں سرفہرست یہ بات ہے کہ دعا مانگنے والا اپنا تجزیہ خود کرے اور جو جو اپنے اندر غلطیاں نظر آئیں ان کے دور کرنے کی کوشش کرے خصوصاً اپنے کھانے پینے، پہننے جیسی باتوں پر زیادہ دھیان دے تاکہ یہ بات تو ثابت ہو جائے کہ وہ دعا مانگنے کا حق رکھتاہے جو دعا مانگنے والے کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے اور جو کچھ مانگے وہ بھی اسلام کی نظر میں جائز اور درست ہو اپنے لیے خیر کا طالب ہے تو کسی بھی دوسرے کے لیے بھلائی کے سوا اور کوئی خواہش نہ رکھے کہ اس میں اُس کا اپنا بھی فائدہ ہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ دین اسلام کے مطابق ہر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
س17:۔ نمازِ جنازہ کے بعد اُس جگہ بیٹھ کر دعا کرنا منع ہے یا نہیں؟ میت کے لیے دعا کرنا کیسا ہے؟ اگر منع ہے تو اس کی دلیل واضح کریں۔
ج:۔ دعا کے متعلق گزشتہ سوالوں کے جوابات میں بھی بار بار یہ بات کی گئی ہے کہ کسی مقام پر کسی وقت اور کسی حال میں بھی دُعا سے منع نہیں کیا گیا۔ آدمی کسی حال میں ہو کسی مقام پر ہو سویا ہوا اُٹھے، سوتے وقت بستر پر جائے، ناپاکی کی حالت میں یا پاکیزگی کی حالت میں دعا کی جا سکتی ہے اور ہر دعا کے ساتھ باوضو ہونا، پاکیزگی کی حالت میں ہونا، جگہ کا پاک ہونا، کپڑوں کا پاک ہونا ضروری نہیں اس لیے جب ہر حال میں انسان دعا کر سکتا ہے تو اُس کو کسی جگہ دعا کرنے سے منع کرنے کا کوئی جواز موجود نہیں، اس طرح یہ بھی کہ کسی کو سلام پیش کرنا دعا ہے کسی کو سلام کا جواب دینا دعا ہے۔ دوسری زبانوں میں خیریت معلوم کرنے کے جو طریقے رائج ہیں سب دعا ہیں دعا کے معاملہ میں جب اتنی وسعت موجود ہے تو اس سے کسی کو منع کیسے کیا جا سکتا ہے؟
در اصل مسئلہ سوال میں دعا کے جائز ہونے یا ناجائز ہونے کا سوال نہیں۔ سوال یہ ہے کہ شریعت اسلامی میں کسی چیز کو دین اسلام کا کام سمجھ کر کرنے کی دلیل کیا ہے مثلاً میں نے قمیص پہنی ہے جس کی سلائی کچھ اس طرح ہے کہ بازؤں پر ’’کف‘‘ لگے ہیں،قمیص پہننے کے لیے سامنے گلے کے ساتھ ایک انچ چوڑی ’’پھٹی‘‘ بنی ہوئی ہے جس پر ’’کاج‘‘ اور ’’بٹن‘‘ موجود ہیں جو قمیص پہننے کے بعد بند کر دیئے جاتے ہیں۔ قمیص کے سامنے والے حصہ پر چھاتی کی بائیں طرف ایک ’’جیب‘‘ لگی ہے اور اسی طرح دائیں طرف ’’چاک‘‘ کے ساتھ ایک ’’جیب‘‘ لگائی گئی ہے اور میری قمیص کے دونوں طرف ’’چاک‘‘ ہیں جہاں سے قمیص کے دونوں حصے اگلا اور پچھلا الگ الگ ہو جاتے ہیں جس سے بیٹھنے کے لیے مجھے سہولت ہوتی ہے اور قمیص کی یہ سلائی محض رواج کے باعث ہے کہ ہمارے علاقہ میں تمام لوگ یا اکثر لوگ اسی طرح کی قمیص استعمال کرتے ہیں، لیکن میں یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ میں نے جو قمیص پہنی ہوئی ہے اس کی سلائی عین سنت نبوی کے مطابق ہے اور دین اسلام نے اس کی سلائی اس طرح کرنے کا حکم دیا ہے جب کہ میری یہ بات سو فیصد غلط ہے لیکن میں اپنی جگہ بضد ہوں اس ضد کے باعث مجھ پر لازم آتا ہے کہ میں قمیص کی اس طرح کی سلائی کو ثابت کروں یا یہ ضد چھوڑ دوں قمیص چاہے اسی طرح کی پہنوں یا جس طرح کی میرا جی چاہتا ہو پہنوں کیونکہ میری اس قمیص کی سلائی کا تعلق اسلامی تعلیمات کے ساتھ نہیں اور نہ ہی اس طرح قمیص کی سلائی کا طریقہ اسلام نے ضروری قرار دیا ہے تاہم میں نے قمیص کی سلائی کے اس طریقہ کو اسلامی طریقہ کے مطابق کہہ کر غلطی کی ہے لہٰذا مجھے اپنی غلطی تسلیم کر لینا چاہیے اور اگر کوئی دوسرا اس سلائی کی طرز کے علاوہ سلائی کی کوئی اور طرز پسند کرتا ہے تو مجھے اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے اگر میں نے اس ضد پر قائم رہنا ہے تو ہر حال میں یہ سلائی کا طرز مجھے اسلامی تعلیمات سے ثابت کرنا ہو گا۔
بالکل اسی طرح جنازہ کے بعد دعا کے لیے بیٹھنے والے اس طرح بیٹھنا اور مخصوص روداد کے بعد دعا کرنا دین اسلام کا کام سمجھ کر کرتے ہیں جب کہ ان کے پاس اس کی کوئی دلیل موجود نہیں، اسی طرح اس جگہ دعا کے لیے نہ بیٹھنے والوں کو برا جانتے ہیں جب کہ اس کی کوئی دلیل موجود نہیں اگر وہ اس کام کو اسلام کی تعلیمات کے ساتھ جوڑ نہ لگائیں بلکہ محض رواج قرار دے کر بیٹھیں اور دعا کریں تو اس میں کسی طرح کی کوئی قباحت نہیں کیونکہ وہ اس طرح بیٹھ کر دعا نہ کرنے والوں کے متعلق کوئی رائے قائم نہیں کریں گے اور نہ ہی ان کے اس فعل کو برا سمجھیں گے اور یہی صورتِ حال دوسری طرف بھی ہے اور دونوں طرف کی اس ضد نے کام خراب کیا ہوا ہے اگر ضد اور ہٹ دھرمی کو درمیان سے ہٹا دیا جائے اور دونوں فریق وسعت سے کام لیتے ہوئے تسلیم کر لیں کہ بعض لوگ اس کو رواجاً کر رہے ہیں اور بعض لوگ اس رواج کو پسند نہیں کرتے لہٰذا وہ ایسا نہیں کر رہے تو بات ختم ہو سکتی ہے۔
مختصر یہ کہ جس طرح نمازِ جنازہ کے بعد اُسی جگہ بیٹھ کر دعا کرنے کا اہتمام ضروری نہیں کیونکہ اس کا اسلامی تعلیمات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اسی طرح اگر کوئی اس جگہ بیٹھ گیا ہے اور اُس نے دعا مانگ لی ہے تو اُس نے اس رواج کو کرنا مناسب سمجھا ہے لہٰذا اُس نے ایسا کر لیا ہے تو اس میں کوئی قباحت کی بات نہیں۔ ہاں! ضد اور ہٹ دھرمی بہرحال کوئی اچھی چیز نہیں لیکن وہ دونوں طرف موجود ہے اس لحاظ سے دونوں کا کردار یکساں ایک جیسا ہے جو محض ضد کے باعث قائم ہے۔ ہاں! اتنی بات مزید سمجھ لینی چاہیے کہ جنازہ کو بھی نماز ہی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے لیکن اس کے طریقہ میں کسی طرح بھی بیٹھنے کا طریقہ موجود نہیں بلکہ کھڑے ہی کھڑے نمازِ جناہ ادا کر لی جاتی ہے اس لیے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ نمازِ جنازہ کے بعد اس جگہ بیٹھنے والے ہی اہتمام کے مستحق ٹھہرتے ہیں اور جب نماز جنازہ کے بعد بیٹھنے کا اہتمام مذکور نہیں تو پھر بیٹھنے کی ضد پر قائم رہنا گویا ضد میں پہل کرنا ضرور آتا ہے جو کسی حال میں بھی صحیح نہیں۔
سمجھ لینا چاہیے کہ نمازِ جنازہ ادا کرنے کے بعد اس جگہ بیٹھنے کا کوئی جواز موجود نہیں اور اسی طرح کی یہ دعا جو وہاں بیٹھ کر کی جاتی ہے اس کو اسلام کی تعلیم سمجھنا بھی غلط ہے کیونکہ اسلام نے ایسی کوئی تعلیم نہیں دی جب اسلامی تعلیمات میں ایک چیز کا وجود موجود ہی نہیں تو اس کو اسلام کا کام سمجھ کر ادا کرنے کا نام خود اسلام کی تعلیمات میں ’’بدعت‘‘ تسلیم کیا گیا ہے اور اسی طرح ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ بھی تسلیم ہے تو پھر اس بدعت پر ضد بہرحال صحیح اور درست نہیں اور یہی صورت حال نمازِ جنازہ ادا کر لینے کے بعد تین دن تک کسی مقام پر اس میت کے لیے دعا کا اہتمام بھی ضروریاتِ دین سے نہیں یعنی اس کا یہ اہتمام بھی صحیح نہ رہا تاہم کوئی تعزیت کے لیے آنے والا اگر دعا مانگتا ہے یا دعا مانگنے کا اہتمام کرتا ہے تو کرے لیکن اس کو اسلام کی تعلیمات سے نہ جوڑ دے کیونکہ اسلام نے اس کی تعلیم نہیں دی چونکہ دعا کرنے کی ہر جگہ اور ہر حال میں اجازت ہے اس لیے اس دعا کو اس وقت اور اس جگہ کے ساتھ مخصوص کرنا ایک رواج ہے اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے تو اس رواج کو کرنے والوں اور نہ کرنے والوں میں اختلاف پیدا کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں یہ کام تو محض ’’ضد‘‘ نے خراب کیا ہے اور اس پر طرہ یہ ہے کہ اس ’’ضد‘‘ کو کوئی ’’ضد‘‘ ماننے کے لیے تیار بھی نہیں اور فریقین اس کو کفر اور اسلام کا اختلاف گردانتے ہیں جو سراسر زیادتی ہے۔
نمازِ جنازہ بھی دعا ہی ہے جو در اصل ایک مسلم کے اکرام کے لیے ادا کی جاتی ہے تاکہ اس ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہونے والے ایک مسلمان کو وہ مرد ہے یا عورت،چھوٹا ہے یا بڑا اعزاز کے ساتھ اُس کی آرام گاہ تک پہنچا دیا جائے، مرنے والے کا اس میں نفع ہے یا نہیں اگر نفع ہے تو کتنا یہ بحث اس جگہ کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ حالات ایسے بھی ہو سکتے ہیں کہ بعض کو یہ اعزاز بھی نصیب نہیں ہوتا اور مرنے والے کامعاملہ بھی در اصل اُس کے اپنے اعمال کے ساتھ وابستہ ہے ہمارے ان جنازوں اور دعاؤں کے ساتھ نہیں۔ یہ تو زندوں کے اپنے اطمینان کے لیے ہے۔ کسی بھی ڈوب کر مرنے والے کا یقین ہے کہ وہ ڈوب کر مر گیا ہے لیکن اُس کی میت کی تلاش جاری رہتی ہے اور جب تک میت مل نہیں جاتی اور اُس کو اس طریقہ کے مطابق قبر تک پہنچایا نہیں جاتا زندوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ میت کی اس تلاش کا تعلق مرنے والے سے کتنا ہے اور اس کو اس سے کیا فائدہ پہنچا ہے،سب پر روشن ہے اور یہ بات واضح ہے کہ اس کا تعلق زندوں سے ہے مرنے والے سے نہیں۔
رہا مرنے والے کے لیے دعاکا معاملہ تو اس سے کسی کوبھی انکار نہیں کہ مرنے والے کا زندوں پر یہی حق باقی رہ جاتا ہے کہ وہ اس کے لیے دعا کرتے رہیں اور ان کو دعا کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے اس بحث کے علاوہ کہ اس سے مرنے والے کا فائدہ ہے یا نہیں اگر ہے تو کتنا اور کیسے لیکن اس دعا کے ساتھ وقت کا تعین اور دوسرے بیسیوں قسم کے اہتمام جو اس وقت کیے جاتے ہیں اور دعا کے ساتھ طرح کے پھل، فروٹ اور کھانے کے پروگرام جو کیے جاتے ہیں یہ قل، تیسرا، ساتواں، دسواں اور چالیسواں وغیرہ کی جو رسوم لگا دی گئی ہیں ان کا کیا جواز ہے اور پھر سب کے لیے یکساں ایک جیسا ہے اگر کوئی اس طرح کا اہتمام نہیں کرتا تو وہ مورد الزام ٹھہرتا ہے اور طرح طرح سے اُس کو ستایا جاتا ہے۔ دعا کے ساتھ ان تمام چیزوں کا اہتمام بھی دعا سے بڑ ھ کر ضروری خیال کیا جاتا ہے آخر اس کی ضرورت اور اس کی وجہ؟
اس کے ساتھ مزید یہ کہ ان تمام باتوں اور ان تمام کاموں اور ان مصروفیات کو اسلام کی باتیں،اسلام کے کام اور اسلام کی مصروفیات سمجھا جاتا ہے جب کہ اسلام کا ان تمام رسومات کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں، جو چیز اسلام کی نہ ہو اُس کو اسلام کی ثابت کرنا کہاں کی دیانت و امانت ہے؟حقیقت یہ ہے کہ ان تمام باتوں کے ساتھ اسلام کا کوئی تعلق نہیں یہ محض کھانے پینے کے ڈھنگ اختیار کر لیے گئے ہیں اور پھر جب لوگ ان باتوں میں حصہ لیتے ہیں وہ ان تمام باتوں کو اسلام کی باتیں سمجھتے ہیں اور تعجب یہ ہے کہ ان رسومات کو کتاب و سنت کا مقام عطا کر دیا گیا ہے گویا نمازِ جنازہ رہ جائے تو یہ ایک اتفاق ہے لیکن رسم قل میں شرکت نہ ہوئی تو گویا دین دنیا سے اخراج ہو گیا اس پر انا للہ وانا الیہ راجعون ہی پڑھا جا سکتا ہے۔
مرنے والوں کی مختلف حیثیتیں ہوتی ہیں۔ خوش حال بھی مرتے ہیں تو بدحال بھی، مرنے والا بہت کچھ مال چھوڑ کر بھی مرتا ہے اور وہ بھی مرتے ہیں جن کے ہاں اگر دن کے لیے ہے تو رات کے لیے نہیں اور رات کے لیے ہے تو دن کے لیے نہیں اور ان رسومات کو ادا کرنے کے لیے مرنے والے کے عزیز وں کو قرض کی لعنت سے دوچار ہونا پڑے تو بھی یہ ان کی مجبوری ہے کہ وہ ایسا کریں جب کہ اسلام کی تعلیمات یہ ہیں کہ مرنے والے نے جوکچھ چھوڑا ہے یہ مال جب تک اس کے وارثوں میں باقاعدگی کے ساتھ تقسیم نہیں ہوتا اس کا کھانا اور استعمال کرنا جائز ہی نہیں ہوتا اور مرنے والا اس کا مالک نہیں رہا کہ اس کا مال سمجھ کر خرچ کیا جائے اس طرح اگر میت کے لیے قرض لینے کی ضرورت ہے تو یہ قرض مرنے والا تو لے نہیں سکتا اور مرنے والے کے عزیا و اقارب پر خواہ مخواہ کا بوجھ ہے جو ان رسومات نے اُس پر لازم کر دیا ہے۔
غور کیجئے کہ نام تو دعا کا استعمال کیا جا رہا ہے جب کہ دعا کے ساتھ ان تمام باتوں کا دور کا بھی واسطہ نہیں جو محض تکلیف مالا یطاق ہے۔ کیا ان تمام رسومات کو خیر باد کہہ کر دعا نہیں کی جا سکتی اگر نہیں کی جا سکتی تو آخر کیوں؟ اگر کی جا سکتی ہے تو ان تمام رسومات کی ضرورت؟ ان تمام باتوں میں اسلام نے صرف ایک چیز کو ضروری قرار دیا ہے اور وہ ہے نمازِ جنازہ اور پھر اس نمازِ جنازہ کو بھی سب پر لازم قرار نہیں دیا اس کو فرض بھی کہا جاتا اور فرض کے ساتھ کفایہ کا لفظ بھی لگایا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسا فرض ہے کہ جس کو بعض لوگوں نے ادا کیا اور بعض نہیں شریک ہو سکے تو پھر جو شریک نہیں ہو سکے گویا ان کا فرض بھی ادا ہو گیا یا کم از کم اس فرض کے ادا نہ کر سکنے کا کچھ گناہ ان پر نہ رہا۔ کیوں؟ محض اس لیے کہ در اصل اس میت کو اعزاز کے ساتھ اس کی آرام گاہ تک پہنچانا تھا اور جو لوگ جنازہ میں شریک ہوئے انہوں نے یہ کام سرانجام دے دیا کہ میت کو اس کے مقام تک پہنچا دیا گیا۔
مرنے والے کی مالی اور خاندانی حیثیت کے مطابق تین چار دن یا ساتھ آٹھ دن یہ دعا کا مسلسل جو سلسلہ چلتا رہا اور اتنے دنوں کے بعد ختم ہو گیا کیا اس بات کا اطمینان ہو گیا ہے کہ اتنے دونوں میں دعا نے اس کو بخشوا دیا ہے اور اب دعا کی اس کو ضرورت نہیں رہی اور اگر دعا کی ضرورت اس کو اب بھی موجود ہے تو یہ سلسلہ آخر روک کیوں دیا گیا اور اگراب انفرادی دعا اُسکے لیے کام دیتی رہے گی تو ان دنوں میں انفرادی دعا اس کے لیے کافی کیوں نہ سمجھی گئی؟ یہ اور اس طرح کی بہت سی باتیں یہ بتاتی ہیں کہ یہ محض ایک رسم ہے جو پیٹ کے پجاریوں نے محض مرنے والے کے لواحقین سے کچھ حاصل کرنے کے لیے لازم قرار دے لی ہے اور اس خوبصورتی کے ساتھ اپنامعاملہ حل کیا ہے کہ اپنا مطلب بھی حاصل کر لیا ہے اور مرنے والے کے رشتہ داروں اور عزیزوں کو کسی طرح کا بوجھ بھی محسوس نہیں ہونے دیا اس کو کہتے ہیں کہ ’’سانپ بھی مر گیا اور لٹھ بھی بچ گئی۔‘‘
مختصر یہ کہ نمازِ جنازہ ایک ایسی نماز ہے جس میں بیٹھنے بٹھانے کا کوئی تعلق ہی اسلام نے قائم نہیں کیا، یہ تعلق نہایت خوبصورتی کے ساتھ ان لوگوں نے جوڑ دیا جنہوں نے بیٹھ کر وہ جائے نماز لپیٹنا تھا جو ان کے لیے مخصوص بچھایا گیا اگر یہ کھڑے کھڑے اُٹھا لیتے تو سب لوگ ان کو دیکھتے انہوں نے لوگوں کو بٹھا کر اپنا اُلو سیدھا کرنا تھا اور وہ گیارہ گیارہ بار ’’قل‘‘ پڑھوانے کے دوران انہوں نے کر لیا اور اجتماعی دعا کا اعلان کر کے اپنے پورے گھرکے کپڑے کا بندوبست بھی ساتھ ہی کر لیا اور یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ شاید اس اجتماعی دعا کے ساتھ ان کو ایک دودھ دینے والا جانور بھی عطا کر دیا جائے تاکہ مرنے والا اس دعا کے طفیل کچھ عرصہ تک دودھ بھی استعمال کر لے جو اس اجتماعی دعا کرانے والے بزرگ کے بال بچوں کی وساطت سے اس تک پہنچایاجاتا رہے گا۔ ان باتوں کا کوئی اشارہ کتاب و سنت میں موجود ہوتا تو آپ کے سامنے کتاب و سنت کے دلائل تحریر کر دیئے جاتے جب ان تمام باتوں کاکتاب و سنت کے ساتھ کوئی تعلق ہی قائم نہیں تو دلائل کتاب و سنت سے کیسے پیش کیے جائیں، اگر آپ کے اطمینان کے لیے یہ باتیں کافی ہیں تو فبہا ورنہ مسائل بتانے والے اور بہت ہیں کسی اور کے ساتھ رابطہ فرما لیں شکریہ۔
س18:۔ مرنے والوں کے لیے ہاتھ اُٹھاکر دعا کرنا کیسا ہے؟ کتاب و سنت سے اس کی وضاحت کریں؟
ج:۔ کتاب سے مراد کتاب اللہ ہے تو کتاب اللہ میں کسی دعا کے متعلق بھی واضح طور پر نہیں فرمایا گیا کہ جب دعا مانگو تو ہاتھ اُٹھا کر دعامانگا کرو اور نہ یہ تحریر ہے کہ ہاتھ اُٹھا کر دعا نہ مانگا کرو یا یہ کہ میت کے لیے جب بھی دعا مانگو تو ہاتھ اُٹھا کر مانگو۔ ان دونوں باتوں میں سے کسی ایک کو بھی میں کتاب اللہ سے ثابت نہیں کر سکتا۔بلکہ میں قرآنِ کریم میں سے اس طرح کا کوئی استدلال بھی پیش نہیں کر سکتا کہ اس میں ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنے یا نہ کرنے کا کوئی ذکر پایا جائے اور جب میں فی نفسہٖ دعا کے لیے کتاب اللہ سے کوئی ایسی دلیل پیش نہیں کر سکتا جس میں ہاتھ اُٹھانے یا نہ اُٹھانے کا کوئی ذکر کیا گیا ہو تو میت کے لیے ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا کیسے ثابت کیا جا سکتاہے۔ ہاں! مرے ہوؤں کو اپنی دعا میں شریک کرنے کی بات ہے تو یہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ:
رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَا اِنَّکَ رَؤُفٌ الرَّحِیْمٌ
o ( ۵۹:۱۰) ’’اے ہمارے رب! ہم کو بخش دے اور ہمارے بھائیوں کوبھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کی طرف سے کوئی کینہ باقی نہ رہنے دے، اے ہمارے رب! بلاشبہ تو بڑا ہی شفیق ہے، بہت ہی پیار کرنے والا ہے۔‘‘
ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ:
رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِھِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ
o (۴۰:۷) ’’اے ہمارے رب! تیری رحمت اور علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے پس تو انہیں بخش دے جنہوں نے توبہ کر لی اور تیری راہ پر چلے اور انہیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔‘‘
مزید ارشاد فرمایا گیا ہے کہ:
رَبَّنَا وَاَدْخِلْھُمْ جَنّٰتِ عَدْنِ نِ الَّتِیْ وَعَدْتَّھُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبٰاءِ ھِمْ وَاَزْوَاجِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمِ
o وَقِھِمُ السِّیِّاٰتِ ط وَمَنْ تَقِ السَّیِّاٰتِ یَؤْمَءِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَہٗ وَذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمِo (۴۰:۸،۹) ’’اے ہمارے رب! ان کو ہمیشگی کی جنتوں میں داخل فرما جن کا تو نے اُن سے وعدہ کیا اور ان کو بھی جو ان کے آباو اجداد ہیں اور ان کی بیویوں میں سے اور ان کی اولاد میں سے جو نیک ہوں، بلاشبہ تو بڑا ہی غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔ اور ان کو گناہوں سے بچا لے اور جس کو تو نے اُس دن گناہوں سے بچا لیا تو اُس پر تو نے بڑی مہربانی فرمائی اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔‘‘
قرآنِ کریم کی مذکورہ آیات اور ان جیسی دوسری آیات میں جو ایمان والوں کی بخشش کی دعاؤں کا ذکر ہے ان کی موجودگی میں کون کہہ سکتا ہے کہ مرنے والوں کے لیے دعا نہیں کرنا چاہیے اور پھر جب دعا کی جا سکتی ہے تو اگر کوئی دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے گا تو اُسے کیسے روکا جا سکتا ہے یہ دعا مانگنے والے کا اپنا فعل ہے جس کی اُس کو اجازت ہے اگر وہ ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنا چاہتا ہے تو کوئی دوسرا اُس کو ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنے سے منع نہیں کر سکتا اور اسی طرح اگر کوئی شخص بغیر ہاتھ اُٹھائے دعا کر رہا ہے تو کون اُسے مجبور کر سکتا ہے کہ تم ہاتھ اُٹھا کر دعا کرو۔ اندریں وجہ یہ بحث محض بیکار ہے کہ مرنے والوں کے لیے دعا ہاتھ اُٹھا کر ہی مانگنا چاہیے یا ہاتھ اُٹھا کر دعا نہیں مانگنا چاہیے اس لیے کہ جب اللہ اور اُس کے رسول ﷺ سے ایسی کوئی ہدایت موجود نہیں تو ہم کو اس طرح کی بحث میں مبتلا ہونا عبث و بیکار نہیں تو اورکیا ہے؟
اس وقت ہمارے ہاں جو مردوں کے لیے دعا کا رواج ہے اس رواج کا اسلام میں کہیں اشارہ تک موجود نہیں یہ دعا صرف دعا ہی نہیں بلکہ ایک اچھا خاصا کاروبار ہے اور دعا منگوانے کے لیے دعا مانگنے والے کو بہت کچھ پیش کرنا پڑتا ہے اور یہ دعا ہر ایک نہ مانگ سکتا ہے اور منگوا سکتا ہے اس دعا کے لیے بڑے بڑے فن کاروں کو دعوت دی جاتی ہے اور دعا ایسے لوگوں کا ایک اچھا خاصا کاروبار ہے اور ہر ایک مرنے والے کے عزیزوں کو ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں تب جا کر دعا کا سلسلہ مکمل ہوتا ہے ان چیزوں کا ذکر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ سے کیسے مل سکتاہے ؟ اس کے لیے توماہر فن کار ہی کام دے سکتا ہیں اور وہ آپ کو سب کچھ اپنی مہارت سے نکال دیں گے نام قرآنِ کریم اور سنت رسول ﷺ کا لیں گے اور بار بار لیں گے اور ثابت کرنے کے لیے بے شمار قصص ان کے پاس موجود ہیں اور ہاتھ اور زبان کی صفائی سے آپ کو سب کچھ ثابت کر دیں گے کیونکہ ان کا روز مرہ کا یہ کام ہے جوبطورِ پیشہ انہوں نے اختیار کر رکھا ہے اور آپ کو جو فطری طور پر اپنے مرنے والوں سے محبت اور پیار ہے یہی اُن کے لیے ہتھیار ثابت ہو گا اور آپ کے سامنے وہ مجلس میں بیٹھ کر آپ کے مرنے والے کو جنت الفردوس میں پہنچا کر واپس آ جائیں گے اور آپ خوش ہو کر ان کی داد بھی دیں گے اور ان کے سامنے اپنا مال بھی رکھ دیں گے اور اس طرح تمہارے سارے بخل کے وہ بخیے اُدھیڑ کر رکھ دیں گے کہ آپ کومحسوس تک نہیں ہو گا اور اس فن سے میں ناواقف ہوں اس لیے اس کی وضاحت کتاب و سنت سے میں پیش نہیں کر سکتا۔
س 19:۔ فرض نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے کے بعد اجتماعی دعا کرنا کیسا ہے؟ جائز ہے یا ناجائز دلائل کے ساتھ واضح کریں۔
ج:۔ دعا کے متعلق آپ نے بہت سوال جمع کیے ہیں اور ظاہر ہے کہ آپ ما شاء اللہ پانچ وقت کے نمازی ہوں گے اور نماز کے تمام تقاضے بھی پورے کرتے ہوں گے۔ آپ عشاء کی نماز میں شامل ہیں اور جن صاحب نے نماز پڑھائی ہے وہ یقیناًباوضو ہیں اور مسجد میں ایک پاک جگہ پر نماز پڑھا رہے ہیں، ان کا لباس بھی پاکیزہ ہی ہو گا کیونکہ یہ نماز کی شرائط میں سے ہے اور نہایت پاکیزگی کی حالت میں دعا کے بعد انہوں نے جہر سورہ فاتحہ کی تلاوت کی ہے اور فاتحہ کے بعد وہ قرآنِ کریم کی کچھ آیات پڑھنے لگے ہیں تو انہوں نے قرآنِ کریم کی آیات شروع کی ہیں:
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰیٰتِ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ
o اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ o رَبَّنَا اِنَّکَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَیْتَہٗ ط وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارِ o رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَکَفِّرْعَنَّا سَیِّءٰاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ o رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَلَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ط اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادِ o (۲:۱۹۰ تا ۱۹۴) ’’سورہ آل عمران کی مذکورہ پانچ آیات کریمات امام صاحب نے تلاوت کیں اور نہایت دردناک انداز سے ان کو تلاوت کیا، کیا یہ آیات دعائیہ کلمات نہیں؟ اگر دعائیہ کلمات ہیں اور آپ نے بھی ان کو دعائیہ کلمات ہی سمجھا ہے تو نماز کے اندر جب امام صاحب نے ان کو تلاوت کیا تو ہاتھ اُٹھائے نہیں اور یقیناًنہیں تو کیا آپ نے دعائیہ کلمات کو سنا،یقیناًسنا کیونکہ نماز جہری ہے آپ نے ان آیات کو دعائیہ کلمات سمجھا یا نہیں؟ یقیناًسمجھا پھر آپ نے ان کو سنتے وقت ہاتھ اُٹھائے، یقیناًنہیں اُٹھائے کیا یہ آیات جب نماز کے اندر بطورِ قرآنِ کریم تلاوت کی گئیں تو یہ دعائیں نہیں کہلائیں گی، کیوں نہیں یقیناًدعائیں ہی کہلائیں گی تو واضح ہوا یا ابھی نہیں کہ ہر دعا کے ساتھ ہاتھ اُٹھانا ضروری نہیں۔ ہاں! میں اپنی طرف سے یہ کہہ رہا ہوں کہ کسی شخص نے ان دعائیہ آیات کو پڑھتے وقت یا سنتے وقت اگر نماز کے اندر بھی ہاتھ اُٹھا لیے تو اس کی نماز کو کچھ نہیں ہوا اور اُس کی نماز جائز اور درست ہے چونکہ یہ دعائیہ آیات ہیں اور دعا کے وقت ہاتھوں کا اُٹھ جانا ایک فطری عمل ہے اور اگر یہ عمل نماز کے اندر ہوا تو بھی اس سے نماز کو کچھ نہیں ہوا کیونکہ اُس نے ہاتھ ان دعائیہ آیات میں اُٹھائے ہیں اس سے بھی واضح ہو گیا کہ جس طرح دعا میں ہاتھ اُٹھانا جائز اور درست ہے اسی طرح اگر کسی نے ہاتھ نہیں اُٹھائے بلکہ بغیر ہاتھ اُٹھائے ان آیات کو تلاوت کر دیا ہے تو اس کا ایسا کرنا بالکل صحیح ہے، اس لیے کہ دین میں آسانی رکھی گئی ہے تنگی نہیں اور آسانی کو تنگی میں تبدیل کرنا آج کل مذہبی راہنماؤں کا کام ہے کہ وہ آسانی کو تنگی اور تنگی کو آسانی میں تبدیل کریں تو ان کو مزا آتا ہے لہٰذا وہ خود ہی اس طرح تنگی میں رہنا چاہتے ہیں اور عوام کو بھی اسی طرح کی تنگیوں میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں۔
سمجھ لینا چاہیے کہ نماز اگر باجماعت ادا کی جا رہی ہے تو نماز کا سلام پھیرنے کے بعد امام اور مقتدیوں کا تعلق ٹوٹ گیا ہے جو اس فرض نماز کے باعث قائم ہوا تھا اب تمام مقتدی آزاد ہیں کہ نماز فرض ادا کرنے کے بعد اسی مقام پر جب تک چاہتے ہیں بیٹھیں اور ورد و وظیفہ جو بھی کرنا چاہتے ہیں اپنے دل میں کر لیں تاکہ ایک دوسرے سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے اور نماز ختم ہونے کے بعد فوراً اُٹھ کر اپنے کسی کام میں مصروف ہونا چاہتے ہیں تو ہوں۔ ہاں! فرض نماز کے بعد دعا کے قبول ہونے کے اوقات میں سے ایک وقت ہے جس کا روایات میں ذکر کیا گیا ہے اگر کوئی شخص اپنی دعا مانگنا چاہتا ہے تو اس کو حق ہے اور بغیر کسی وجہ کے حق ہے کہ وہ دعا کرے اور اگر نہیں چاہتا تو کسی کو پابند کرنا بھی غلط ہے اسی طرح امام بھی اگر چاہتا ہے تو دعا کرے بلکہ دعا کی قبولیت کا وقت ہے اس لیے ضرور دعا کرے اور مقتدیوں میں سے کوئی ایک یا سب کے سب اس کی دعا میں شریک ہونا چاہتے ہیں تو وہ شریک ہو سکتے ہیں کیونکہ اس معاملہ میں اب فریقین آزاد ہیں یعنی امام بھی اور مقتدی بھی۔ اس طرح اگر وہ امام کی دعا میں شامل ہوں گے یا ان میں سے کوئی ایک شامل ہو گا تو اُس کوبھی روکا نہیں جا سکتا اور اس طرح کی دعا کو اجتماعی دعا کا نام بھی نہیں دیا جا سکتا۔
کون نہیں جانتا کہ اجتماع کے لیے اعلان ضروری ہوتا ہے یہاں جماعت کے لیے اعلان ہوا وہ اعلان جن لوگوں نے سنا وہ جماعت میں شریک ہو گئے اور جماعت کھڑی ہوئی تو تمام مقتدی امام کے متعلق ہو گئے اور جب سلام ہوا تو وہ تعلق ختم ہو گیا اور مقتدی اپنے اپنے معاملہ میں مصروف ہو گئے اگر امام اس جگہ بیٹھا رہا کیونکہ امام اسلامی روایت کے مطابق سلام کے بعد مقتدیوں کی طرف منہ پھیر کر بیٹھا اور ایسا اگر اُس نے اپنی دعا کے لیے ہاتھ کھڑے کیے ہیں تو وہ ایسا کر سکتا ہے اُس نے مقتدیوں میں اعلان نہیں کیا کہ آؤ میرے ساتھ دعا میں شریک ہو جاؤ تاہم مقتدی سب یا ان میں سے کوئی ایک یا بعض اس کی دعا میں شریک ہو گئے ہیں تو وہ از خود ایسا کر سکتے ہیں اس کو اجتماعی دعا کا نام اگر کسی نے دیا ہے تو خواہ مخواہ دیا ہے یہ امام کی انفرادی دعا ہے اور دوسرا اُس کی دعا میں کوئی شریک ہو گیا ہے تو ایسا کرنے سے دعا اجتماعی کیسے ہو گئی۔ یہی لوگ جب کسی نماز جنازہ میں شریک ہوتے ہیں تو جنازہ کے بعد ان میں سے کوئی ایک اعلان کرتا ہے کہ بھائی کل فلاں وقت پر اجتماعی دعا ہو گی۔ اگرکوئی ایسا اعلان نہیں کرتا تو سب کہتے ہیں کہ انہوں نے اجتماعی دعا کا اعلان نہیں کیامعلوم ہوتاہے کہ یہ اجتماعی دعا کے قائل نہیں یا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہابی ہیں۔
اب بھی یہ بات واضح نہیں ہوئی کہ اجتماعی دعا کیا ہوتی ہے اس طرح کی کوئی دعا فرض نماز کے بعد نہیں مانگی جاتی لیکن نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ فرض نماز کے بعد دعا کی قبولیت کا وقت ہے اس لیے اگر کوئی دعا مانگتا ہے وہ امام ہے یا مقتدی تو اس دعا کو انفردی دعا ہی کہا جا سکتا ہے اجتماعی نہیں اور انفرادی دعا سے کسی کو روکنے کا کوئی حق نہیں اور نہ اس خدشہ سے کہ دعا اجتماعی نہ ہو جائے امام کو دعا سے باز رہنا چاہیے ہرگز نہیں بلکہ امام اور مقتدیوں سب کو حق ہے کہ وہ دعا کریں کیونکہ یہ دعا کی قبولیت کے اوقات میں سے ایک وقت ہے ۔
اسی طرح جب دعا کے لیے ضروری نہیں کہ ہاتھ کھڑے کیے جائیں جیسے ابھی امام صاحب نے نماز کے اندر دعائیں مانگی ہیں جیسا کہ پیچھے گزر چکا تو انہوں نے ہاتھ کھڑے نہیں کیے تھے اور نہ ہی مقتدیوں نے ہاتھ کھڑے کیے اگر فرض نماز کے بعد نماز کے اندر دعائیں مانگنے کی طرح دعا مانگ لیں گے تو دعا ہو جائے گی یہ پابندئی آپ نے کیوں عائد کر لی کہ نماز کے اندر دعا کے لیے ہاتھ نہیں اٹھائے جا سکتے اور نماز کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اُٹھانا لازم ہو گیا۔ یہ لزوم اور عدم لزوم رواج کا معاملہ ہے اورکوئی بھی رواج بہرحال رواج ہی ہوتا ہے اس کو شرعی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔
پھر سمجھ لیجئے اور یاد رکھئے کہ ہر دعا کے ساتھ ہاتھوں کا اُٹھانا ضروری نہیں اور اگر دعا میں ہاتھ نہ آُٹھائے جائیں تو اس کا مطلب بھی یہ نہیں لیا جا سکتا کہ جس نے ہاتھ نہیں اُٹھائے اُس نے دعا نہیں مانگی ’’دعا‘‘ اُن دعائیہ الفاظ کا منہ سے نکالنا ہے جو دعائیہ الفاظ معلوم ہیں خواہ وہ قرآنِ کریم کے الفاط قرآنِ کریم ہی کی زبان میں ہوں اور چاہے وہ الفاظ روایتی ہوں جو روایات میں آئے ہوں اور اسی زبان میں بولے جائیں اور چاہے دعائیہ الفاظ بولنے والا اپنی مادری زبان میں بولے ان تمام الفاظ کو دعاؤں کے نام سے موسوم کیاجائے گا مثلاً ایک آدمی اپنی اردو زبان میں کہتا ہے کہ ’’اے میرے رب! میرے حال پر رحم فرما، میرے گناہ معاف کر دے اور مجھے نیک اولاد عطا فرما‘‘ تو بلاشبہ یہ دعا ہے کیوں؟ اس لیے کہ اُس کے یہ الفاظ دعائیہ ہیں اُس نے ہاتھ اُٹھا کر ایسا کہا ہے یا ہاتھ باندھ کر ایسا کہا ہے یا ہاتھ کھلے چھوڑ کر ایسا کہا ہے،بیٹھ کر کہا ہے، لیٹ کر کہا ،وضو کر کے اور نماز ادا کرنے کے بعد ایسا کہا ہے یا سونے کے بعد معاً اُٹھ کر بغیر وضو کے ایسا کہا ہے۔ یہ اُس کی دعا تسلیم ہے اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ چونکہ اُس نے ہاتھ اُٹھا کر ایسا نہیں کہا لہٰذا یہ دعا نہیں ہے۔ اب مزید ان ادعیہ ماثورہ پر غور کریں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ میں مذکور ہیں اور اس کے ساتھ اس بات پر بھی غور کریں کہ آپؐ نے فرمایا ہے کہ جب کوئی سونے لگے تو یہ دعا پڑھے اور سو کر اُٹھے تو یہ دعا پڑھے۔ پھر ان دعاؤں کو آج بھی بہت سے لوگ پڑھتے ہیں، بچوں کو یاد کرائی جاتی ہیں لیکن کبھی کسی نے ان دعاؤں کے لیے ہاتھ نہیں اُٹھائے اور نہ کوئی ہاتھ اُٹھانے کی تاکید کرتا ہے اور اسی طرح اگر کوئی ہاتھ اُٹھا بھی لے تو کبھی کسی نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ تم نے ہاتھ کیوں اُٹھائے ہیں۔
پھر فرض نماز کے بعد کوئی شخص بغیر ہاتھ اُٹھائے دعا کرے یا ہاتھ اُٹھا کر دعا کرتا ہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے دونوں صورتو ں میں اس نے دعا کی ہے ہاں! اگر اُس نے اپنی مرضی سے اس قبولیت دعا کے وقت پر بالکل دعا نہیں کی تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جس طرح دعا کرنے کے لیے وہ آزاد ہے نہ کرنے سے بھی اُس پر کوئی جرم عائد نہیں ہوتا اس لیے کہ کسی بھی اختیاری چیز کو پابندی کے ساتھ کرنے یانہ کرنے پر کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا وہ امام ہے یا مقتدی۔ اسی طرح اگر کسی نے اس وقت کی دعا کو از خود اپنے لیے ضروری قرار دے لیا ہے اور وہ باقاعدگی کے ساتھ دعا کرتا ہے تو اُس کو ایسا کرنے کا بھی حق ہے جیسا کہ آج تک تمام سلف صالحین کا یہ معلوم رہا ہے اور آج اس دعا کو اتنا برا خیال کیا جاتا ہے کہ گویا دعا کرنے والے نے کوئی کفر کا کام کر لیا ہے بلکہ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے کفر کے کام ہوتے ہیں اور اکثر آپ خود بھی ایسے کام کرتے ہیں لیکن اتنا برا ان کو نہیں سمجھا جاتا جتنا دعا کے لیے ہاتھ اُٹھانے والوں کو، اس پر انا للہ وانا الیہ راجعون ہی پڑھا جا سکتا ہے۔
روایات میں دعا کے لیے ہاتھ اُٹھانے کا ذکر موجود ہے۔ ہاتھ اُٹھا کر اختتام دعا پر ہاتھ منہ پر پھیرنے کا ذکرموجود ہے۔ ہاتھ اُٹھانے کی ترغیب موجود ہے، ہاتھ اُٹھانے میں مبالغہ کی روایات موجود ہیں۔ دعا کرنے والوں کی حالت پر اُن باتوں کا انحصار ہے۔ ایسی باتوں کو موضوعِ بحث بنانا ایک جہالت ہے لیکن اس جہالت کا نام دو رکعت کے اماموں نے علم رکھ لیا ہے اور عوام کو ان بحثوں میں مبتلا کر کے سب اپنی اپنی دکانداری کو چمکا رہے ہیں لیکن عوام اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں عوام میں علم ہوتا تو ایسے لوگوں کو دو رکعت کی امامت کے لیے آگے کھڑا ہی کیوں کرتے اور عوام میں اتنا شعور ہوتا تو آج مسلمانوں کی یہ حالت کیوں ہوتی جو ہر جگہ نظر آ رہی ہے اور ہر جگہ مسلمان ہی ذلیل و خوار ہوتے کیسے نظر آتے کیا اس وقت وہ اللہ جو مسلمانوں کی عزت و احترام کا اعلان کرتا ہے اللہ نہیں رہا یا مسلمان جو عزت و احترام کے مستحق قرار دیئے گئے تھے وہ مسلمان نہیں رہے، فیصلہ خود کر لیں، میرا فیصلہ تو جو میں سمجھا ہوں اور اس کا اعلان کرتا ہوں وہ یہی ہے کہ لاریب آج وہ مسلمان نہیں رہے جن کے متعلق قرآنِ کریم میں یہ اعلان کیا گیا ہے ۔ اللہ آج بھی وہی اللہ ہے اور جب تک اس دنیا کا نظام قائم ہے وہی رہے گا اور اس کا اعلان بھی بالکل حق ہے اور جو ہماری ذلت و خواری کی کھلی دلیل ہے۔
میں اپنے مسلمان اور سادہ لوح مسلمانوں سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتا ہوں کہ اللہ کے لیے ان فضول بحثوں میں مبتلا نہ ہوں دین کے معاملہ میں ان عقل کے اندھوں اور پیٹ کے پجاریوں پر انحصار نہ کریں۔ اللہ کی کتاب کا خود مطالعہ کریں اس کو سمجھنا اپنامعمول زندگی بنائیں اور کتاب اللہ کو براہِ راست سمجھنے کی کوشش کریں اللہ رب کریم نے اس کتاب کو نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے بالکل آسان بنایا ہے اور خود قرآنِ کریم میں اس بات کا ایک سے زیادہ بار اعلان کیا ہے وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ
o (۵۴:۱۷)۔
میں امید کرتا ہوں کہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ فرض نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد دعا کرنا کیسا ہے؟ اور آئندہ سامعین اور قارئین کرام ایسی بحثوں کو از خود فضول سمجھ لیں گے کہ اس طرح کی بحثیں کرنے والے جاہلوں کے پیچھے نہیں جائیں گے بلکہ کتاب اللہ کو سمجھنا اپنے لیے آسان سے آسان تر سمجھیں گے اور اس نصیحت کے پیچھے لگنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہم مسلمانوں کو اپنے دین اسلام کی سمجھ عطا فرمائے اس پر عمل کی توفیق ارزاں فرمائے۔ اللھم امین۔
س 20:۔ گزشتہ انبیاء کرام اور دوسرے نیک لوگوں کی دعاؤں کا ذکر قرآنِ کریم میں موجود ہے ان دعاؤں کا پڑھنا یا مانگنا ہمارے لیے کیسا ہے؟
ج:۔ قرآنِ کریم کی وہ دعائیں جن کا ذکر قرآنِ کریم میں کیا گیا ہے اگر وہ ہمارے حالات کے بھی موافق ہیں تو یقیناًان دعاؤں کا مانگنا ہمارے لیے مفید ہے اور مفید ہونا چاہیے لیکن ایسی دعائیں جو ہمارے حال کے موافق نہیں ان کو اُن کے حالات کے ذکر میں صرف ان ہی کے ذکر کے مطابق پڑھا جائے گا بطورِ دعا ہم اپنے لیے تو نہیں مانگیں گے کیونکہ دُعا اللہ رب کریم سے مانگنے کا نام ہے اور ہم اپنے حالات کے مخالف تو نہیں مانگیں گے اور نہ ہی کوئی شخص بھی اپنے حالات کے مخالف مانگے گا تاہم اس سلسلہ میں بات ذرا تفصیل سے ہو گی تو سمجھ میں آئے گی ورنہ ابہام کا باعث بنے گی۔ مثلاً قرآنِ کریم میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مختلف دعاؤں کا ذکر کیا گیا ہے ان دعاؤں میں سے ایک دعا آپؐ نے اللہ سے یہ طلب فرمائی ہے کہ:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمِ
o (۲:۱۲۹) ’’اے رب ہمارے! اس بستی کے بسنے والوں میں تیرا ایک رسول پیدا ہو جو ان ہی میں سے ہو وہ تیری آیتیں پڑھ کر لوگوں کو سنائے،کتاب و حکمت اور عقل کی باتوں کو تعلیم دے جن سے ان کی اصلاح ہو جائے یقیناًتیری وہ ذات ہے جو حکمت والی ہے اور سب پر غالب ہے۔‘‘
روایات میں آپؐ کا ارشاد بھی واضح طور پر موجود ہے کہ میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کا ہی نتیجہ ہوں گویا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا قبول ہوئی اور آپؐ اس دعا کا نتیجہ ٹھہرے لیکن کیا ہم اس وقت یہ دعا اپنی طرف سے اللہ رب کریم سے مانگ سکتے ہیں جب کہ قرآنِ کریم کے اور نبی اعظم وآخر ﷺ کے فرمان کے مطابق نبوت کا سلسلہ آپؐ پر ختم کر دیا گیا ہے۔
ہم اس دعا کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے طور پر پڑھتے ہیں اور پڑھنی چاہیے اور اس کے متعلق جو کچھ بھی بیان کریں گے سیدنا ابراہیم علیہ السلام ہی کی طرف سے بیان کریں ہم اپنی طرف سے یہ دعا اللہ رب کریم سے ہر گز نہیں مانگ سکتے کیونکہ اب اس دعا کا مانگنا ہماری طرف سے حقیقت کے خلاف ہے کیونکہ نبوت اللہ تعالیٰ کے اپنے فرمان کے مطابق ختم ہو چکی ہے اگر ہم اپنی طرف سے یہ دعا اللہ سے مانگیں گے تو گویا ختم نبوت کا انکار کریں گے اس لحاظ سے ہم سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا سمجھ کر اس کی تلاوت کریں گے اور اسی مقصد کے لیے استشہاد کریں گے جو کریں گے اور اس طرح کی مثالیں اور بھی دی جا سکتی ہیں اور قرآنِ کریم کے قاری کو ان باتوں کا خیال رکھنا بھی لازم و ضروری ہے جو عقل و فکر کا کام ہے لیکن افسوس کہ ہمارے مذہبی طبقوں نے عقل و فکر پر پابندی عائد کی ہوئی ہے تاکہ لوگ حقیقت کو سمجھ ہی نہ سکیں اور ان مذہبی ٹھیکہ داروں کی دکانداری بدستور اسی طرح چلتی رہے جیسے علمائے یہود و نصاریٰ نے چلایا ہوا ہے جس پر انا للہ وانا الیہ راجعون ہی پڑھا جا سکتا ہے۔
ہاں! انبیاء کرام کی ایسی دعائیں اور التجائیں جو ہمارے حال کے موافق ہیں ان کو بطور دعا مانگنے اور پڑھنے کا یقیناًاجر بھی ہے اور ہمارے حال کے باعث ہمارا حق بھی ہے کہ ان دعاؤں کا سلسلہ ہم بھی جاری و ساری رکھیں اور یہ دعائیں قرآنِ کریم میں زیادہ تر انبیاء کرام کے قصص میں ہی پائی جاتی ہیں ہم کو چاہئے کہ انبیاء کرام کے قصص کو زیر مطالعہ رکھیں اور ان میں سے جو دعائیں ہمارے حال کے موافق ہیں ان پر خوب غور و فکر کر کے اپنا معمول زندگی بنائیں کیونکہ نبیوں،رسولوں اور اللہ کے دوسرے نیک بندوں کے آزمودہ نسخے ہیں جو ہمارے لیے بھی بدستور مفید ہیں۔ سیدنا ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام دونوں باپ بیٹے کی دعا ہے کہ:
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمِ
o (۲:۱۲۷) ’’اے ہمارے رب! ہمار ی یہ خدمت قبول فرما لے بلاشبہ تو سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘ یہ دعا تو انہوں نے بیت اللہ کی تعمیر کرتے ہوئے مانگی تھی جو یقیناًاللہ نے قبول بھی فرمائی۔ ہم کوئی بھی نیک عمل کرنے کے بعد چاہے فرض نماز ادا کرنے کے بعد ،نفل نماز ادا کرنے کے بعد، صدقہ و خیرات کرنے کے بعد، کسی اسلامی بہن بھائی یا عام کسی بھی دوسرے انسان کا کام محض اللہ کی رضا کے لیے کرنے کے بعد یہ دعا اللہ تعالیٰ سے مانگیں گے تو یقیناًہمارے لیے یہ دعا کرنا مفید ہو گی اور اللہ تعالیٰ ہمارا یہ نیک کام بھی یقیناًقبول کرے گا اور اس طرح ہم یہ دعا مانگتے ہیں کہ:
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیّٰتِنَا اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
o (۲:۱۲۸) ’’اے ہمارے رب! ہمیں اپنا فرمانبرادار بنا دے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو اپنافرمانبردار بنا لے اور ہم کو ہمارے حج کے طریقے سکھا دے اور ہمارے حال پر رحم فرما بلاشبہ تو توبہ قبول کرنا والانہایت ہی پیار کرنے والا ہے۔‘‘
یہ دعا بھی سیدنا ابراہیم السلام اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام ہی کی ہے اور دونوں بیت اللہ کی تعمیر میں مصروف ہیں اور دعا مانگتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہماری توبہ قبول فرما لے کہ تو ہی توجہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ اس وقت بیت اللہ کی جگہ کوئی بھی ہم میں سے ایسی تعمیر نہیں کر رہا لیکن ہم میاں بیوی ہیں یا کوئی بھی دونوں باپ بیٹا ہیں، ماں بیٹی ہیں اور کسی ایسے اور نیک کام کو ہم سر انجام دیں اور اُس کے ساتھ ہی ہم اللہ سے یہ دعا کرتے ہیں تو بلاشبہ دعا ہمارے لیے مفید ہو گئی۔ ہاں! ہم میں سے صرف ایک ہے اور کسی لحاظ سے بھی ہم دو نہیں بنتے پھر بھی اس دعا کو طلب کرتے ہیں تو بھی یہ دعا ہمارے لیے مفید ہو سکتی ہے کیونکہ دعا میں ایک یا دو کا ہونا ضروری نہیں۔ اس لحاظ سے دعائیہ الفاظ کا ہونا بھی ہمارے لیے مفید ہو سکتا ہے۔ اسی طرح یہ الفاط ہیں کہ:
رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ
o (۳:۲۰۱) ’’اے ہمارے رب! ہم کو اس دنیا کی زندگی میں بھی نیکی عطا فرما اور آخرت بھی ہماری نیک اور درست فرما دے اور ہم کو آگ کے عذاب سے نجات عطا فرما دے۔‘‘
یہ دعا ہے جو ہم سب مسلمانوں کو یکساں ایک جیسی سکھائی گئی ہے اور ہم میں سے چاہے وہ ایک ہے یا ایک سے زیادہ ہیں سب کے سب مل کر کہہ رہے ہیں یا ہم میں سے ایک ہی سب مسلمانوں کی طرف سے کہہ رہا ہے دونوں طرح ہمارے لیے مفید ہو سکتی ہے کیونکہ جو اس دنیا کی اور آخرت کی نیکی طلب کرے گا اُس کو یقین ہونا چاہیے کہ اللہ ہماری یہ دعا قبول فرمائے گا اور اسی طرح سب کو دنیا اور آخرت کی طلب ہے کہ وہ اچھی ہو۔
اسی طرح قرآنِ کریم میں ’’ربنا‘‘ کے لفاط سے بہت سی دعائیں شروع ہوتی ہیں جو آدم علیہ السلام، نوح علیہ السلام، ابراہیم علیہ اور دوسرے انبیاء کرام کی طرف سے یا نیک لوگوں کی طرف سے مانگی گئی ہیں لیکن ہمارے لیے ان دعاؤں کا مانگنا صحیح اور درست ہے کیونکہ جس طرح کی ضروریات اور حاجات ان کو اپنے وقت میں تھیں اسی طرح کی ضروریات اور حاجات ہمارے زمانہ میں ہمارے ساتھ بھی ہیں جو فطرتاً تمام انسانوں کے ساتھ ہوتی ہیں اس لیے ان ہی کے الفاظ میں مانگی گئی دعائیں آج ہمارے لیے بھی اُسی طرح مفید ثابت ہو سکتی ہیں ہاں! یہ الفاظ جو کتاب اللہ میں آئے ہیں بعینہٖ یہ الفاظ ان انبیاء کرام کے یقیناًنہیں تھے بلکہ ان کی مانگی گئی دعاؤں کا یہ عربی زبان میں ترجمہ ہی ہے اور ایسا ہی ہو سکتا ہے لہٰذا ہم میں سے کوئی بعینہٖ ان الفاظ کی جگہ ان کا مفہوم اپنی زبان میں اللہ تعالیٰ سے طلب کرے تو اس میں کسی طرح کی کوئی قباحت موجود نہیں ہاں! یہ دعائیں جو نماز کے اندر بطورِ تذکار پڑھی جانا روایات میں آیا ہے ان کو اسی زبان عربی میں باقاعدہ ان کے مفہوم کو سمجھنے کے بعد پڑھا جائے تو زیادہ بہتر ہے کہ ان الفاظ کی جو چاشنی ہے وہ بھی اپنی جگہ برقرار رہے لیکن کسی آدمی کی زبان پر یہ الفاظ نہ چڑھ سکیں تو اکثر علماء کرام تو یہی فرماتے ہیں کہ ان تذکار کی جگہ وہ صرف سبحان اللہ ، الحمدللہ ، اللہ اکبر جیسے الفاظ پکارتا رہے تو یہ الفاظ کفایت کریں گے تاہم میں عالم نہ ہونے کے باوجود اپنی تفہیم کو اس طرح بیان کرتا ہوں کہ ایسا مجبور شخص اگر اپنی مادری زبان میں بھی اپنی طلب مانگے گا تو اُس کے لیے وہ دعا مفید ہو سکتی ہے بلکہ مفید ہونا چاہیے تاکہ دین کی آسانی اپنی جگہ برقرار رہے جس کا قرآنِ کریم نے ایک سے زیادہ بار ارشاد فرمایا ہے۔
قرآنِ کریم میں سیدنا نوح علیہ السلام کی دعا اس طرح ذکر کی ہے کہ:
رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا
o اِنَّکَ اِنْ تَذَرْھُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوْا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا o (۷۱:۲۶،۲۷) ’’اے میرے رب! اس زمین پر کسی کافر کو بستا ہوا نہ چھوڑ۔ اگر تو نے ان کو چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو بہکاتے ہی رہیں گے اور ان کی اولاد بھی کافر و بدکار ہی ہو گی۔‘‘
نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی و رسول ہیں انہوں نے جو دعا مانگی ہے نہایت دُکھ اور تکالیف برداشت کرنے کے بعد اور کفار کی طرف سے مایوس ہو کر مانگی ہے۔ دعا کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ انسان خواہ کون ہی ہو کسی نہ کسی وقت ایسا گھبرا جاتا ہے کہ وہ اپنی حالت پر کنٹرول نہیں کر سکتا کچھ اسی طرح کی کیفیت نوح علیہ السلام پر طاری ہوئی ہے اور بلاشبہ اس کے بعد نوح علیہ السلام کی قوم کی بربادی بھی ہوئی اور اس باربادی سے بچے تو وہی بچے جو آپ علیہ السلام کی بنائی ہوئی کشتی میں سوار ہوئے باقی تمام لوگ اُس سرزمین سے نابود ہو گئے لیکن اس کے بعد پھر کیا ہوا کہ جو لوگ کشتی میں سوار ہو کر اُس وقت بچ گئے تھے انہوں نے یا ان کی نسل نے کیا کیا، یہی کہ وہ دوبارہ کفر کی طرف لوٹ گئے اور وہی سلسلہ شروع ہو گیا جو نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کے ساتھ ہوا گویا یہ بربادی وقتی تھی اور اگر دعا کی قبولیت کے نتیجہ میں یہ سب کچھ ہوا تو بھی وہ محض عارضی تھا اور مکمل طور پر کافروں کا خاتمہ ممکن نہ ہوا اور اور نہ ہی اس وقت ہے کیونکہ اللہ رب کریم نے اس دنیا کا نظام ہی اضدداد پر قائم کیا ہے اور ہر ایک چیز کی ضد لازم ہے بلکہ اُس ضد ہی کے باعث اُس کا وجود قائم ہے کیونکہ ضدین میں سے ایک نابود ہو جائے تو دوسری خود بخود نابود ہو جاتی ہے جب نظام ہی ایسا قائم کیا گیا ہے تو پھر اسلام کی ضد کفر ہے لہٰذا کفر کا بالکل نابود ہو جانا ممکن نہیں لہٰذا نوح علیہ السلام کی یہ دعا ضروری نہیں کہ ہر مسلمان ہر وقت اس کو اپنے لیے لازم قرار دے۔
اس کو بیان تو کیا جا سکتاہے اور بطور دعا اپنی دعاؤں کا مکمل حصہ بنا لیا جائے اس ضمن میں آئے گا جس ضمن میں بعض انبیاء کرام کی دعائیں بھی مانگنا ہر حالت میں صحیح اور درست نہیں جیسا کہ پیچھے ایک ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ذکر کیا جا چکا ہے جو سورہ بقرہ کی آیت
۱۲۹ کے طور پر پیچھے اس سوال کے ضمن میں بیان کی جا چکی ہے۔
مختصر یہ کہ گزشتہ انبیاء کرام ، رسل عظام اور دوسرے اللہ کے نیک بندوں کی دعاؤں کا جو ذکر کیا گیا ہے ان دعاؤں کو پیش نظر رکھ کر اگر اپنی حالت پر منطبق ہوتی ہوں تو مانگنا مفید مطلب ہو سکتا ہے لیکن دعا کرنے والے کے اپنے حالات انبیاء کرام کے ان حالات پرمنطبق نہ ہوتے ہوں تو چاہے وہ دعائیں انبیاء کرام کی مانگی گئی ہوں ان کو بطور ذکر تو پیش کیا جا سکتا ہے لیکن بطور دعا اختیار نہیں کیا جا سکتا اور یہ بات عقل و فکر کی محتاج ہے اس لیے عقل و فکر پر علمائے کرام نے بین (
Ban) لگا رکھا ہے اس پر بھی نظر ثانی ہونی چاہیے تاکہ قرآنِ کریم کی جو آیتیں عقل و فکر کی دعوت دیتی ہیں ان سے بھی راہنمائی حاصل کی جا سکے۔

No comments:

Post a Comment