Monday, August 27, 2012

خلاف قرآن حدیث إنما الأعمال بالنيات کی فنی تحلیل


خلاف  قرآن حدیث إنما الأعمال بالنيات کی فنی تحلیل

اعمال (کے نتائج) نیتوں سے ہیں،  ہر آدمی کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی۔

نیک  نیتی  کی  بنیاد  پر Mercy Killing لیگل  بن  جاتی  ہے۔

میں یہاں پوپ بینی ڈکٹ کے اس الزام کہ دین اسلام نے کوئی ایسی چیز پیش نہیں کی جو انسانیت کے لئے فائدہ مند ہو،  اسے سہارا دینے والی ایک حدیث کا حوالہ دیتاہوں جو اس دشمن اسلام کے الزام کا بنیاد بنتی ہے،  اور حدیث قرآن حکیم کی طرف سے سمجھائے ہوئے ”اصلاح کائنات“ کے فلسفہ کی جڑ  اکھیڑ  کر رکھ دینی ہے۔
 ویسے اس حدیث بنانے والوں کا غرض و غایت بھی کثیر الجہالت سے اسلام کی بیخ کنی کرنا مقصود ہے،
 جو اس میں جناب رسول علیہ السلام کے ہجرت والے انقلابی عمل میں ساتھ دینے والے انقلابی ساتھیوں اصحاب رسول کے کردار کشی کی بھی تلمیح کی گئی ہے۔
 یہ حدیث امام بخاری نے اپنی کتاب جس
کو ان لوگوں نے صحیح کا لقب دیا ہوا ہے اس کے شروع شروع میں پہلے نمبر پر لائی ہے۔

 حدیث کا متن ہے
:
 سمعت رسول الله صلی الله علیه وسلم یقول انما الاعمال بالنیات وانما لکل امری‎ مانوی فمن کانت ھجرته الی دنیا یصیبھا اوالی امرآةینکحھافھجرته الی ماھاجر الیه

ترجمہ
:
 اعمال (کے نتائج) نیتوں سے ہیں،  ہر آدمی کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی۔  پھر جس کی نیت ہجرت کرنے سے دنیا کے لئے ہوگی وہ اسے ملے گی،  یا اگر عورت کے لئے ہوگی تو وہ اس سے نکاح کرے گا پھر ہر کسی کی ہجرت اسی چیز والی شمار کی جائے گی جس کے لئے ہجرت کی ہوگی۔ (ترجمہ ختم)

 جناب قارئین !
 آپ نے غور فرمایا ہوگا کہ حدیث سازوں نے اعمال کے رزلٹ اور نتیجہ کونتھی کیا ہے نیت کے ساتھ۔
  اور نیت ایسی شے‎ ہے جسے ظاہر میں پرکھا نہیں جا سکتا اس لئے کہ اس کا تعلق انسان کے اندر سے ہے۔
 اندر کی شے کے لئے عدالت کسی بدکار اور بد عمل شخص پر اس
کا جرم ثابت نہیں کرسکے گی،  اس لئے کہ وہ عدالت کو یہ کہہ سکے گا کہ یہ جو جرم ہوا ہے اس سے کسی کو ایذا‎ء پہنچانا، میری نیت میں نہیں تھا  یہ اتفاق سے ہوگیا ہے یا کسی کا مال جو میں نے اٹھایا ہے اس میں میری نیت یہ تھی کہ یہ میں ابھی اٹھاکر بعد میں اسے واپس کردوں گا،  چوری کی نیت سے میں نے مال نہیں اٹھایا،  یا  اس کے جیب سے جو موبائل سیٹ  یا  پیسے نکالے ہیں،  یہ مذاق کی نیت سے کیا ہے اور دوستی کے طور پر اسے گھڑی  بھر کےلئے  پریشان کرنے کے بعد اس کی یہ چیز اسے واپس دینے کی نیت سے میں نے نکالی تھی۔
 
جناب قارئین!
 قرآن حکیم نہایت ہی بڑی حکمت والی کتاب ہے،  اس کتاب میں انسانی اعمال کا ذکر ستر عدد بار سے بھی زیادہ موقعوں پر ذکر کیا گیا ہے اور ہر جگہ لفظ اعمال کے ساتھ صالحات اور صالح کا شرط لگایا گیا ہے، نیت  کی  شرط نہیں لگائی گئی۔
 قرآن حکیم کی یہ کمپوزیشن اور ترکیب یہ ثابت کرتی ہے کہ کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے یہ سوچا جائے  اور یہ طے
 کیا جائے کہ اس عمل سے اصلاح ہوگی یا نہیں اور سوچا جائے کہ اس عمل کا نتیجہ بہتر کس طرح سے ہوسکتا ہے سوچ سمجھ کے بعد میں اس پر عمل کرنا چاہیئے۔

جناب قارئین!
 شاید انسان کی اندرونی خلفشار والی اور حیلہ جوئی والی طبیعت کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ پاک نے سارے قرآن میں عربی زبان کے لفظ نیت کو کسی ایک بھی موقعہ پر استعمال نہیں کیا،  یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ پاک جانتاہے کہ یہ حدیثیں بنانے والے لوگ اعمال میں کرپشن کا دروازہ کھولنے کےلئےاور  لوگوں کو ان کے عمل بد کی سزا سے بچنےکےلئےنیت کی آڑ لینے کی حرفت سکھائیں گے،  جیسے کہ امام بخاری نے  اپنی کتاب بنامی صحیح بخاری کے اندر شروع شروع میں ہی نیت کے لفظ کو لاکر ایک طرف حیلہ سازی سے گناہ کرنے اور اس سے بچنے کی تعلیم دے دی،  دوسری طرف اصحاب رسول کے ہجرت کے عمل میں ان کے خلوص میں شک ڈالنے کےلئے حدیث میں لفظ نیت کی آڑ میں دنیا کےلئے ہجرت کرنے اور بیوی حاصل کرنے کےلئے ہجرت کرنے کے مقاصد کو حدیث میں لاکر،  پڑھنے والوں کی ذہن سازی کی کہ جب رسول جیسی شخصیت ہجرت کے مقاصد میں دنیا اور بیویوں کے حصول کی مذمت کر رہی ہے تو یقین سے اصحاب رسول کے اندر ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کی ہجرت کرنے کی نیت بگڑی ہوئی ہو لیکن قرآن بڑی حساس کتا ب ہے،  اللہ نے ان حدیث سازوں کے اصحاب رسول کے ساتھ بغض وعناد کو،  موتوا بغیضکم کے انداز سے جناب رسول کے ساتھیوں کی ہجرت کو اتنا تو سراہا ہے اتنی تو تعریف کی ہے جو ایک جگہ پر فرمایا کہ یہ ہجرت کرنے والے
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (2:218)
جو لوگ ایمان لائے اور خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور (کفار سے) جنگ کرتے رہے وہی خدا کی رحمت کے امیدوار ہیں۔ اور خدا بخشنے والا (اور) رحمت کرنے والا ہے۔
 یعنی یہ مہاجر  اللہ کی رحمت کی امید پر گھروں سے ہجرت کرنے کےلئے نکلے تھے۔

 قرآن نےدوسرے موقعہ پر ان اصحاب رسول کے لئے فرمایا کہ
فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى ۖ بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ ۖ فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ (3:195)
تو ان کے پرردگار نے ان کی دعا قبول کر لی (اور فرمایا) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو مرد ہو یا عورت ضائع نہیں کرتا تم ایک دوسرے کی جنس ہو تو جو لوگ میرے لیے وطن چھوڑ گئے اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور لڑے اور قتل کیے گئے میں ان کے گناہ دور کردوں گا اور ان کو بہشتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں (یہ) خدا کے ہاں سے بدلہ ہے اور خدا کے ہاں اچھا بدلہ ہے۔
 یعنی ہم ان
کی جملہ سیئات برایوں کو مٹا ڈالیں گے کوئی جلتا ہے تو جلتا رہے ۔
 آگے جو حدیث سازوں نے اپنی من گھڑت جھوٹی حدیثوں سے جو مشاجرات صحابہ کی حدیثوں کے انبار لگالئے ہیں۔
 تو اللہ نے انکا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ
:
 یہ میرے رسول کے مہاجر و انصار صحابی
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُمْ مِنْ وَلَايَتِهِمْ مِنْ شَيْءٍ حَتَّى يُهَاجِرُوا ۚ وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَى قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (8:72)
جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے لڑے وہ اور جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) جگہ دی اور ان کی مدد کی وہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اور جو لوگ ایمان تو لے آئے لیکن ہجرت نہیں کی تو جب تک وہ ہجرت نہ کریں تم کو ان کی رفاقت سے کچھ سروکار نہیں۔ اور اگر وہ تم سے دین (کے معاملات) میں مدد طلب کریں تو تم کو مدد کرنی لازم ہوگی۔ مگر ان لوگوں کے مقابلے میں کہ تم میں اور ان میں (صلح کا) عہد ہو (مدد نہیں کرنی چاہیئے) اور خدا تمہارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے۔
 
أُولَئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ
 یعنی آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور ولی ہیں۔

 پھر جو امام بخاری نے اپنی کتاب کے اندر کتاب التفسیر میں سورہ مائدہ کے اخیر میں جھوٹی حدیث لائی ہے کہ وفات رسول کے بعد اصحاب رسول معاذ اللہ مرتد ہوگئے تھے تو اللہ نے  ان
کے ہاتھوں کی بنائی ہوئی بات کو ان کے سر پر مارنے کے لئے فرمایا کہ یہ رسول کے ساتھی مہاجر خواہ انصار
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (8:74)
اور جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور خدا کی راہ میں لڑائیاں کرتے رہے اور جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) جگہ دی اور ان کی مدد کی۔ یہی لوگ سچے مسلمان ہیں۔ ان کے لیے (خدا کے ہاں) بخشش اور عزت کی روزی ہے۔
 
أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا
 یعنی یہ اصحاب رسول برحق مؤمن ہیں۔
 ان لوگوں کے لئے سن لو! دنیاوالو! یہ مہاجر اصحاب رسول،
الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ ۚ وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ (9:20)
جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں مال اور جان سے جہاد کرتے رہے۔ خدا کے ہاں ان کے درجے بہت بڑے ہیں۔ اور وہی مراد کو پہنچنے والے ہیں۔
 
أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ ۚ وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ
 یہ ہمارے پاس بڑے سے بڑے درجےپر فائز ہیں۔
 یہی لوگ کامیاب و کامران ہیں، ان مہاجر و انصار اصحاب اور ان
کے پیروکاروں کے لئے بھی سن لو کہ ان سب کے لئے
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (9:100)
جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی۔ اور جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی خدا ان سے خوش ہے اور وہ خدا سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لیے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔
 یعنی اللہ نے ان
کے لئے کئی ساری جنتیں تیار کر رکھی ہیں جن باغات کے نیچے نہریں جاری رہتی ہیں یہ لوگ ہمیشہ کے لئے ان میں رہیں گے یہ ہی ان کی بڑی کامیابی ہے۔
 
اس حدیث سے میرا مطلب یہ ہے کہ اس روایت میں جو نیت کو اعمال کے صحیح اور غلط ہونے کا پیمانہ بنایا گیا ہے،
 اس پیمانے سے تو کئی لوگ اپنے اعمال بد کے نتائج سے جان چھڑانے کے لئے نیت کو بطور بہانہ پیش کرکے اپنی غلط کاریوں کے خمیازہ سے بچ جائیں گے۔
 اس
طرح کی حدیثوں سے عدالتوں کے جج تو مجبور ہوکر مجرموں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچا سکیں گے۔
  انسانیت کے فائدہ والا قانون تو وہ ہوتا ہے جس میں مجرم کو حیلہ کرنے کی راہ ہی نہ ملے۔
 
 جناب قارئین!
 آپ نے پوپ بینی ڈکٹ کا اعتراض پڑھا کہ ” دین اسلام نے کوئی ایسی چیز پیش نہیں کی جو انسانیت کے لئے فائدہ مند ہوغور کیا جائے کہ دشمنان اسلام کو ایسے الزامات لگانے کا موقعہ علم حدیث نے ہی تو دیا ہے۔
  اور ان حدیث ساز اماموں اور فقہ ساز اماموں نے تو قوانین کی گرفت سے بچنے کے لئے مجرم سازی کی حدیثیں گھڑی ہیں اور زنا جیسے جرائم کو بھی جائز قرار دے کر  انہیں تحفظ دیا ہے۔
  حوالہ کے لئے پڑہیں  کتاب بخاری کے اندر ایک کتاب الحیل نامی ایک حصہ ہے، جس کی معنی ہے کہ حیلہ جات کے ذریعوں سے گناہوں کو جائز بنانے کی حدیثیں۔

جناب عالی!
 کتاب الحیل کی اسی حدیث کا نمبر ہے 1856، اور باب کا نمبر ہے 1055 باب کا نام ہے ”باب فی النکاح۔
حدیث میں ہے کہ :
 ان لم تستاذن البکرولم تزوجہا فاحتال رجل فاقام شاھدی زور انہ تزو جھا برضا ہا فائبت القاضی نکاحھا والزوج یعلم ان الشھادۃ باطلة فلا باس ان یطاہا وہو تزویج صحیح
 یعنی ایک شخص نے بطور حیلہ کے دو عدد جھوٹے گواہ دستیاب کرکے کسی کنواری لڑکی پر قاضی کے پاس مقدمہ دائر کیا کہ اس نے میرے ساتھ شادی کی ہے، جبکہ اصل صورتحال یہ تھی کہ ایسی کوئی بات ہی نہیں ہوئی تھی،  لیکن اگر قاضی شاہدوں کے بیانات کے پیش نظر اس جھوٹ کو درست قرار دیتاہے اور مقدمہ کرنے والا مدعی جانتا بھی ہے کہ اس نے یہ جھوٹی دعوی کی ہے اس کے باوجود امام بخاری لکھتا ہے کہ بعض لوگوں کے فتوے کے مطابق کوئی حرج نہیں مدعی اس عورت سے جماع کرسکتا ہے۔  اور امام صاحب نے اس روایت کے اخیر میں لکھا ہے کہ :
وہو تزویج صحیح
 یعنی  یہ  شادی  صحیح  ہے۔

جناب قارئین!
 اس روایت کے جو بعض الناس ہیں ان میں ایک ابو حنیفہ بھی ہے جو ایسے جو ایسی جھوٹی دعوی کو درست شادی قبول کرتا ہے۔
 اب قارئين لوگ خود سوچ کر بتائیں کہ پاپاء روم بینی ڈکٹ کے الزام کو مسلم امت کے امامی علوم کی یہ خلاف قرآن روایات کس طرح تو سہارا دے رہی ہیں ۔

70 - حیلوں کا بیان : (28)
نکاح میں حیلہ کرنے کا بیان

حدثنا مسلم بن إبراهيم حدثنا هشام حدثنا يحيی بن أبي کثير عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلی الله عليه وسلم قال لا تنکح البکر حتی تستأذن ولا الثيب حتی تستأمر فقيل يا رسول الله کيف إذنها قال إذا سکتت وقال بعض الناس إن لم تستأذن البکر ولم تزوج فاحتال رجل فأقام شاهدي زور أنه تزوجها برضاها فأثبت القاضي نکاحها والزوج يعلم أن الشهادة باطلة فلا بأس أن يطأها وهو تزويج صحيح

صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1871               حدیث مرفوع          مکررات 20 متفق علیہ 9 
 مسلم بن ابراہیم، ہشام، یحیی بن ابی کثیر، ابوسلمہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کنواری عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے اجازت نہ لی جائے اور نہ بیوہ کا نکاح کیا جائے جب تک کہ اس سے حکم نہ لیا جائے، کسی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی اجازت کس طرح ہوگی؟ آپ نے فرمایا کہ جب وہ خاموش رہے اور بعض نے کہا کہ اگر کنواری عورت سے اجازت نہ لی گئی اور نہ اس نے شادی کی اور ایک شخص نے حیلہ سے دو جھوٹے گواہ پیش کئے کہ اس نے اس عورت کی رضامندی سے نکاح کیا ہے اور قاضی نے اس کے نکاح کو ثابت رکھا، حالانکہ شوہر جانتا ہے کہ گواہی جھوٹی ہے تو اس سے صحبت کرنے میں کوئی حرج نہیں اور یہ نکاح صحیح ہے۔

Narrated Abu Huraira:
The Prophet said, "A virgin should not be married till she is asked for her consent; and the matron should not be married till she is asked whether she agrees to marry or not." It was asked, "O Allah's Apostle! How will she(the virgin) express her consent?" He said, "By keeping silent." Some people said, "If a virgin is not asked for her consent and she is not married, and then a man, by playing a trick presents two false witnesses that he has married her with her consent and the judge confirms his marriage as a true one, and the husband knows that the witnesses were false ones, then there is no harm for him to consummate his marriage with her and the marriage is regarded as valid."

از قلم : عزیزاللہ بوہیو

3 comments:

  1. السلام علی من اتبع الھدی،
    احادیث شریفہ پر اعتراض کرنے والوں کے اعتراضات دیکھ کر اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ فرمان ان لوگوں کی حالت زار کی عین ترجمانی کرتا ہے کہ(((((وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُودًا::: اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا اُس کی طرف آؤ اور رسول کی طرف آؤ تو (اے رسول)آپ دیکھتے ہیں کہ وہ منافق آپ کی طرف آنے سےکتراتے ہیں )))))سُورت النِساء (4) /آیت 61،
    رانا صاحب ، گذارش ہے کہ کچھ تو علمی دیانت داری سیکھ لیجیے ،کسی بات کو آگے پہنچانے سے پہلے اس کی صداقت کی کچھ تو چھان بین کر لیا کیجیے ،
    آپ کے نشر کردہ اس مضمون """خلاف قرآن حدیث إنما الأعمال بالنيات کی فنی تحلیل""" کی فنی تحلیل پیش کر رہا ہوں ، ملاحظہ فرمایے :::
    اس مضمون میں سوائے خیانت پر مبنی جھوٹ الزام دھرنے کے فن کے علاوہ اور کوئی فن نظر نہیں آیا ، اور نہ ہی کسی """خلافء قران الزام تراشی ""' کے علاوہ کوئی اور تحلیل دکھائی دیتی ہے ،
    جو کچھ اس میں لکھا ہے وہ جہالت یا رسول دشمنی کے علاوہ کسی اور سبب سے نہیں ہو سکتا ،
    جی ہاں ، ایسا ہی ہے ، اِن شاء اللہ ابھی آپ سب کو بھی یہ سب کچھ دکھائی دے گا ،
    اس مضمون کے لیے کسی لمبے چوڑے جواب کی ضرورت نہیں ، کیونکہ حسب عادت لکھنے والے شخص نے ایک صحیح ثابت شدہ حدیث شریف کو محض اپنی سوچ کے مطابق غلط بنانے کی کوشش کی ہے ، اور بد دیانتی کا سہارا لیتے ہوئے یہ کوشش کی ہے ،
    جی ہاں ، بد دیانتی کا سہارا لیا ہے کہ ، حدیث شریف کی صرف ایک روایت کے الفاظ لے کر اپنی کہانیاں لکھ ڈالیں جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے تین مقامات پر جھوٹ بولنے والی خبر پر مشتمل حدیث کے ساتھ کیا ،
    اس مضمون میں لکھی گئی باتوں کو """ فنی تحلیل """ کہنے والے کو بھی اتنی سی توفیق نہیں ہوئی کہ کم از کم اس حدیث شریف کے بارے میں کیے گئےاعتراضات کے علاوہ کچھ حق بھی تلاش کرتا ،
    رانا صاحب آپ کے استاد نے اس حدیث شریف کی دوسری صحیح روایت یا تو دیکھی ہی نہیں یا اپنا مذموم مقصد پورا کرنے کی کوشش میں اس کا ذِکر نہیں کیا ،
    عزیز اللہ بوہیو نے اپنی بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صحیح بخاری شریف میں سے صِرف وہ روایت ذِکر کی ہے جو سب سے پہلی روایت ہے ،
    آیے رانا صاحب ، اور دیگر قارئین کرام ، میں آپ کو اس حدیث مبارک کی دوسری روایت دِکھاتا ہوں اور کسی دوسری کتاب میں سے نہیں ، اسی صحیح بخاری شریف میں سے دکھاتا ہوں، اور انہی علقمہ بن وقاص کی امیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ ُ سے ہی کی گئی روایت دکھاتا ہوں :::
    (((((الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ،وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى،فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ،فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ،وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا،أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا،فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ ::: عملوں (کے نتیجے )کا دارومدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کے لیے وہی (نتیجہ ) ہے جس کی اس نے نیت کی ، لہذا جِس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے ، تو اُس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہی ہے ،اور جس کی ہجرت دُنیا کمانے کے لیے ہے ، یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہے ، تو اُس کی ہجرت اسی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی))))) صحیح البخاری/حدیث54/کتاب الاِیمان/باب41،صحیح البخاری/حدیث2529/کتاب العتق/باب6،صحیح البخاری/حدیث3898/کتاب مناقب الانصار/باب45، صحیح البخاری/حدیث5070/کتاب النکاح/ باب5،صحیح البخاری/حدیث2289/کتاب الایمان و النذور/ باب23،صحیح البخاری/ حدیث6953/ کتاب الاِیمان/پہلا باب،
    رانا صاحب ، اگر آپ اپنی حدیث دشمنی کا چشمہ اتار کر صرف اُسی روایت کو معمولی سی توجہ سے پڑھےل ، جو آپ کے استاد نے نقل کی ہے تو بھی آپ کو سمجھ آ جانا چاہیے کہ تھا ، اس حدیث شریف میں وہ کچھ نہیں ہے جو کسی کافر پوپ کی طرف سے اسلام پر لگائے گئے الزامات کی تائید مہیا کرنے کے لیے آپ کے استاد کی سمجھ میں آیا ، اورجسےآپ کے استادنے بظاہر اسلام کے دفاع کے طور پر ایک صحیح حدیث شریف پر اعتراض کرنے کا بہانہ بنایا،،، لیکن درحقیت آپ کے استاد عزیز اللہ بوہیو کا یہ فعل کیا اسلام کا دفاع ہے ؟ یا کافر پوپ کے الزام کا دفاع؟ یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ سے مسلمانوں کو دُور کرنے کی کوشش ؟اس کا فیصلہ ہر وہ شخص کر سکتا ہے جسے اللہ پاک نے درست عقل عطاء کر رکھی ہے ،

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    رانا صاحب ، یہاں میرا جواب پورا نہیں آ رہا ہے ،
    لہذا میں اسے پاک نیٹ پر ارسال کر دیا ہے ،
    http://is.gd/Os4MXp
    مطالعہ فرمایے ،

    ReplyDelete
  2. بخاری شریف کی پہلی حدیث پر اعتراضات کے جوابات اسی بلاگ پر ملاحظہ فرمائیں:

    http://studyhadithbyquran.blogspot.com/2012/09/blog-post.html

    ReplyDelete