Sunday, August 26, 2012

حدیث ساز گروہ کی نظر میں علیؓ اور معاویہ ؓ دونوں دوزخی ہیں، نعوذ باللہ من ذلک

حدیث ساز گروہ  کی نظر میں علیؓ  اور معاویہ ؓ دونوں دوزخی ہیں،  نعوذ باللہ من ذلک

عن الحسن قال خرجت بسلاحی لیالی الفتنۃ فاستقبلنی ابو بکرۃ فقال این ترید ؟ قلت ارید نصرۃ ابن عم رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم قال ، قال رسول اللہﷺ اذا تواجہ المسلمان بسیفھما فکلا ھما من اھل النار قیل فھذا القاتل فما بال المقتول قال انہ اراد قتل صاحبہٖ ۔
بخاری شریف،کتاب الفتن ، باب نمبر1115حدیث نمبر1962

خلاصہ:
 حسن صاحب کہتے ہیں کہ میں فتنے کی راتوں میں ہتھیار لے کر نکلا تو میرے سامنے ابو بکرہ آئے اور پوچھا کہ کہاں کا ارادہ ہے ؟ میں نے کہا کہ ارادہ کرتا ہوں حضورؐ کے چچا زاد بھائی کی مدد کرنے کا تو اس نے مجھے کہا کہ رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ جب مسلمان تلواریں لے کر آمنے سامنے آئیں تو دونوں دوزخی ہیں ۔ پوچھا گیا کہ قاتل کا تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ دوزخ میں کیوں گیا لیکن مقتول کا کیا قصور ؟ تو فرمایا کہ یہ بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنا چاہتا تھا ۔

 تبصرہ: معزز قارئین کرام !
 ان حدیث ساز اماموں اور ان کے ہمنواؤں نے سادہ لوح اور ان پڑھ عوام میں یہ مشہور کررکھا ہے کہ زندگی میں کئی مسائل ایسے ہیں جن کے بارے میں قرآن کی طرف سے کوئی رہنمائی نہیں ملی ۔ قرآن چپ ہے یا قرآن نے کھل کر نہیں سمجھایا ۔علم حدیث وہ شے ہے جو ایسے مسائل کی وضاحت کرتا ہے یا مزید رہنمائی کرتاہے وغیرہ وغیرہ۔ ان لوگوں کے جواب میں میرا مؤقف اور میری تحقیق یہ ہے کہ یہ حدیث ساز گروہ قرآن دشمن ہے اور قرآن پہنچانے والے رسول صلے اﷲ علیہ و سلم کا بھی دشمن ہے اور قرآن پہنچانے والی انقلابی جماعت صحابہ کرام کا بھی دشمن ہے۔ ان کی قرآن سے ضد ہے ۔ان کی ساری مساعی کا محور قرآن کی بیخ کنی ہے ۔

 میرے ان معمولی الزامات کے بعد آئیں اور اس حدیث پر غور فرمائیں ۔
 سب سے پہلے سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب مسلمانوں کے دو فریق آپس میں ہتھیاروں کے ساتھ آمنے سامنے آجائیں تو ایسی حالت میں کیا قرآن حکیم نے کوئی رہنمائی دی ہے یا نہیں؟ اگر دی ہے تو کیا وہ صاف صاف اور کھول کھول کر بیان کی گئی ہے، یا مبہم اور گنجلک ہے جسے کھولنے اور واضح کرنے کے لئے امت کو قم آنا پڑے یا بخارا اور نیشا پور جانا پڑے ۔ جو لوگ قرآن حکیم کو مبہم کتاب مشہور کرتے ہیں اور علم حدیث کو قرآن کی شرح ، تفسیر اور تعبیری وضاحت کے طور پر مشہور کرتے ہیں وہ معززین زحمت فرمائیں اور اپنی مصروفیتوں میں سے کچھ لمحات علم حدیث کے بعد قرآن پر غور کرنے کے لئے عنایت فرمائیں ۔

 فرمان باری تعالیٰ ہے کہ:
وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ ۚ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (49:9)
اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔ اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے۔ پس جب وہ رجوع لائے تو وہ دونوں فریق میں مساوات کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو۔ کہ خدا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
یعنی اگر مومنوں میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں کے مابین صلح کرانے کے لئے اُٹھ کھڑے ہو جاؤ ۔ اگر تمہاری مصالحانہ کوششوں سے پھر بھی کوئی بغاوت کرتا ہے تو تم سب مل کر بغا وت کرنے والے گروہ سے لڑائی کرو ۔تاوقتیکہ کہ وہ لوٹ آئے اپنی بغاوت سے اللہ کے قانون اور فیصلوں کی طرف اور اس کے لوٹ آنے کے ساتھ ہی تم ان دونوں گروہوں کے درمیان صلح کرادو،انصاف اور عدل کے تقاضوں کی روشنی میں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو وہ لوگ پسند ہیں جو انصاف کرنے والے ہوتے ہیں۔

قرآن حکیم کو مبہم اور اجمالی کہنے والے صاحبان تھوڑی سی اور زحمت فرماکر اگلی آیت پر بھی غور فرمائیں ۔
 فرمان ہے کہ
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (49:10)
مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرادیا کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔

خلاصہ:
 صرف مومن لوگ ہی آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ تو کیا تم نہیں جانتے کہ بھائیوں کی آپس میں صلح کرائی جاتی ہے۔ اس لئے مصالحت اور بھائی بندی کے خلاف جو چیزیں آپس میں لڑانے والی ہیں ان سے دور رہو۔ اللہ کے قوانین کی خلاف ورزی سے خود کو بچاؤ گے تو اللہ کی رحمت کے مستحق بنو گے ۔

جناب معزز قارئین !
 میری نہایت عاجزانہ گزارش ہے کہ مسلمانوں کے آپس میں اختلاف اور لڑائی کے وقت علم حدیث کی مذکورہ بالا رہنمائی کو بھی غور سے دیکھیں اور قرآن حکیم کے فرمان کو بھی ملحوظ فرمائیں ۔ اوپر کی دو آیات مبارکہ پر ذرا رک رک کر انہماک سے غور فرمائیں کہ یہ حدیث سازی پر امام کہلانے والے لوگ رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم پر قرآن مخالف حدیث کی تہمت اور بہتان لگارہے ہیں، کہ آپس میں لڑنے والے مسلمان قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں ۔حدیث سازوں کی امامت یہ فرماتی ہے کہ ایسے ماحول میں تم گھروں میں جاکر بیٹھ جاؤ اور یہ دونوں گروہ جہنمی ہیں ۔جبکہ قرآن نے حکم دیا ہے کہ ان کے درمیان مصالحت کرائی جائے اور جو مصالحانہ کوششوں کی پروا نہ کرتے ہوئے زبر دستی قتال اور لڑائی کرنا چاہتا ہے۔ تم سب مل کر اس کے ساتھ لڑو یہاں تک کہ اس کادماغ ٹھکانے آجائے اور وہ لڑائی سے توبہ کرے ۔

میں نے یہ حدیث ایک عالم دین کو دکھائی کہ دیکھو حدیث ساز کس طرح حضرت علیؓ  اور معاویہ ؓ کو دوزخی قرار دے رہے ہیں ۔ انہوں نے تو اہل بیت اور آل محمد کا غیر قرآنی تقدس صرف قرآن کو نظر انداز کرنے کے لئے بنایا ہے جہاں تک محبت اہلبیت اور عقیدت کی بات ہے تو اس میں بھی یہ محبان اہل بیت سچے نہیں ہیں اگر سچے ہوتے تو اس حدیث میں حضرت علیؓ  کو دوزخی قرار نہ دیتے یا حسن بن علی کے لئے ایک سو سے لیکر چھ سو تک شادیاں رچانے کی جھوٹی روایتیں مشہور نہ کرتے ۔ ایسی روایتیں گھڑنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کو اولاد علیؓ سے بھی کوئی سروکار نہیں۔ انہیں تو صرف قرآن کی خدمت کرنے والے ترجمانوں پر الزام تراشی کرکے انہیں دوزخی مشہور کرنا ہے ۔

 اس عالم دین نے جاکر کسی اہلحدیث عالم کی خدمت میں بخاری کی یہ حدیث رکھی اور وضاحت طلب کی تو اس نے صرف اتنا فرمایا کہ یہ حدیث ضعیف ہے ۔
 سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی ضعیف حدیثوں کے مجموعہ کو صحیح بخاری کہنا کہاں کی عقلمندی ہے ؟

دراصل ان فارسی اماموں نے مسلمانوں کو اپنی حدیثوں کے ذریعے گھروں کے اندر بند ہوکر رہنے کی تلقین اس لئے کی ہوئی ہے کہ ان کا عزم تھا کہ ہم ہمیشہ مسلم ریاستوں میں فتنے ابھارتے رہیں گے اس لئے ان فتنہ بازوں کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ مسلمانوں کو ان کے نبی کے نام پر حدیثیں بنا کر سنائی جائیں تاکہ یہ گھروں سے نہ نکلیں حتیٰ کہ درخت کی جڑوں کو منہ میں لئے بیٹھے رہیں یا بکریوں کا ریوڑ لے کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ جائیں اور واپس نیچے نہ آئیں ۔

 ملاحظہ فرمائیں  !
 حدیث نمبر1967کتاب الفتن بخاری ۔ ابو سعید خدری روایت کرتے ہیں کہ قال رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم یوشک ان یکون خیر مال المسلم غنم یتبع بھا ضعف الجبال و مواقع القطر یفر بدینہٖ من الفتن
 قریب ہے کہ مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں جنہیں لیکر یہ پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کے برسنے کی جگہ پر چلا جائے تاکہ اپنے دین کو فتنوں سے بچالے ۔

محترم قارئین کرام!
 مذکورہ بالا دو نوںآیات کواس حدیث کے مقابل کرکے دیکھیں ۔پھر فیصلہ فرمائیں کہ ایسے حالات میں قرآن کیا ہدایت دیتا ہے اور یہ حدیثیں کیا ہدایت دیتی ہیں ؟یہ حدیث ساز لوگ جس طرح اپنی مسندات ،مؤطاؤں، سنن اور جامعات میں جن میں سے کسی کسی کو یہ لوگ الصحیح کا لقب بھی دیتے ہیں ،ان میں یہ لوگ جو روایتیں لاتے ہیں انہیں صحیح قرار دیتے ہیں۔اسی طرح ان محدث اماموں میں جو فقہ سازی کرنے والے ہیں وہ ان حدیثوں کو اپنی فقہ کا ماخذ بھی قرار دیتے ہیں۔ مضمون کے شروع والی حدیث میں بخاری صاحب نے بڑی صفائی سے حدیث پیش کی ہے کہ حسن بصری صاحب ہتھیار لے کر جارہے تھے کہ اسے راستہ میں ابوبکرہ ملے تو اس کے پوچھنے پر کہا کہ میں حضرت علی ابن عم رسول کی مدد کے لئے جارہا ہوں یعنی اس حدیث میں یہ نہیں بتایا کہ فریق مخالف کون ہے ۔
 یہ ہے بخاری صاحب کا مخصوص فن کہ روایتوں کو گھماپھرا کر کوئی ٹکڑا کہیں اور کوئی کہیں پھر ان سے جدا جدا مفہوم مترشح کرانا اس کا اصل مقصود ہے ۔
 اس حدیث میں لڑائی کے ایک فریق ابن عم رسو ل صلے اﷲ علیہ و سلم حضرت علی کا ذکر کرنا اور فریق مخالف کا تعین نہ کرنا اس کا مقصد یہ ہے کہ ان حدیث سازوں نے اپنی جھوٹی حدیثوں کے ذریعے جو یہ مشہور کررکھا ہے کہ حضرت علی
 کی حضرت معاویہ سے بھی جنگ ہوئی  بی بی عائشہ سے بھی جنگ ہوئی اورخارجیوں سے بھی جنگ ہوئی تو جو شخص بخاری صاحب کی کتاب الفتن والی روایت پڑھے گا تو وہ حضرت علی کے سارے فرضی اور افسانوی مخالف فریقوں کے بارے میں سوچے گا کہ یہ سب حضرت علی سمیت دوزخ میں جائیں گے ۔
 تو یہی مقصود و مطلوب ہے امام بخاری کا کہ لوگ رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم کی پوری جماعت صحابہ کو دوزخی قرار دیں ۔

اسی طرح کی ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں ۔
 بخاری صاحب نے اپنی صحیح بخاری میں کتاب الفتن میں ایک باب نمبر1114 باندھا ہے کہ
تکون فتنۃ القائد فیھا خیر من القائم۔

 خلاصہ:
 ایک ایسا فتنہ آئے گا کہ اس میں بیٹھا ہوا آدمی کھڑے ہوئے آدمی سے بہتر ہوگا ۔
اس باب کے ذیل میں بخاری صاحب دو حدیثیں لائے ہیں جن کا نمبر 1960, 1961 ہے ان روایتوں کی سند میں امام زہری صاحب بنفس نفیس موجود ہیں پہلی حدیث کا متن ہے کہ :
 
قال رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم ستکون فتنۃ القائد فیھا خیر من القائم والقائم فیھا خیر من الماشی والماشی فیھا خیر من الساعی من تشرف لھا تستشرفہ فمن وجد فیھا ملجأ او معاذ ا فلیعذ بہ۔ٖ
دوسری حدیث کی عبارت بھی پہلی حدیث جیسی ہے ۔
 خلاصہ دونوں کا یہ ہے کہ ایسے فتنے آئیں گے کہ ان میں بیٹھا ہوا شخص کھڑے ہوئے شخص سے بہتر ہوگا اور کھڑا ہوا شخص چلنے والے کے مقابلے میں فائدے میں رہے گا اور چلنے والا دوڑنے والے اور کوشش کرنے والے کے مقابلہ میں بہتر ہوگا اور جو شخص اس کے بیچ میں کودپڑے گا وہ مارا جائے گا۔ اس لئے جسے بھی کوئی جائے پناہ مل جائے وہ اس میں پناہ لے لے ۔

تبصرہ:
 اس مضمون کی ابتدا والی حدیث میں آپ پڑھ آئے ہیں کہ فتنہ کے دِنوں میں حسن بصری ابن عم رسول کی مدد کے لئے جارہے تھے تو اسے ابوبکرہ نے کہا کہ جا اپنے گھر واپس بیٹھ جاؤ یہ دونوں فریق دوزخی ہیں ۔
جبکہ یہ حدیث سناتی ہے کہ فتنہ کے دنوں میں بیٹھا ہوا شخص کھڑے ہوئے آدمی سے بہتر ہے ، کھڑا ہوا چلنے والے سے اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہے اور لڑائی کرنے والوں کے درمیان کود پڑنے والا ہلا ک کیا جائے گا ۔
 ان احادیث میں امام بخاری اور امام زہری کا زہر یہ ہے کہ ایسے حالات میں بیٹھا ہوا شخص کھڑے ہوئے سے بہترہے۔
 تو ضروری بنتا ہے کہ اس معاملہ میں دوبارہ قرآن حکیم کی طرف رجوع کیا جائے اور پوچھا جائے کہ کیا واقعی امام زہری سچ کہتا ہے۔

 تو قرآن کا فرمان ہے۔
لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ ۚ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى ۚ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا (4:95)
جو مسلمان (گھروں میں) بیٹھ رہتے (اور لڑنے سے جی چراتے) ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے وہ اور جو خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے لڑتے ہیں وہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے اور (گو) نیک وعدہ سب سے ہے لیکن اجر عظیم کے لحاظ سے خدا نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر کہیں فضیلت بخشی ہے۔
یعنی مومنوں میں سے جو لوگ بغیر عذر کے بیٹھے رہیں اور ان کے مقابلہ میں جو لوگ بڑے شوق سے اور ولولہ سے اللہ کی راہ میں اپنی جانوں اور مالوں سے جہاد کے لئے برسرپیکار ہوجائیں یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے ۔ اللہ تعالیٰ نے جانو ں اورمالوں سے قربانی دینے والوں کو بیٹھے رہنے والوں پر بہت بڑی فضیلت دے رکھی ہے اور جدوجہد کرنے والوں کو بیٹھے رہنے والوں پر اجر کے لحاظ سے بڑے حصے کا حق دار بنایا گیا ہے۔

تبصرہ: معزز قارئین !
بخاری کی کتاب الفتن کی حدیثیں اور سورۃ النسا ء اور سورۃ الحجرات کی آیتیں فتنوں کے دور کے لئے کیا رہنمائی کرتی ہیں یہ سب کچھ آپ کے سامنے ہے ۔
اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کس قدرزور دے کر بلارہے ہیں کہ :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ (9:38)
مومنو! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلو تو تم (کاہلی کے سبب سے) زمین پر گرے جاتے ہو (یعنی گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے) کیا تم آخرت (کی نعمتوں) کو چھوڑ کر دینا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو۔ دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابل بہت ہی کم ہیں۔
یعنی تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تمہیں لڑائی کے لئے بلایا جاتا ہے تم چمٹ جاتے ہو زمین سے ۔

محترم قارئین  !
 تو گویا یہ گروہ اپنی حدیث سازی کی کاریگری سے رسولؐ کے نام پر خلاف قرآن حدیثیں گھڑ کر مسلمانوں کو ایسے پُر فتن دور میں فتنہ کی سرکوبی کی بجائے پہاڑوں پر چلے جانے کا درس دے کر سلانا چاہتے ہیں ۔
جبکہ اللہ تعالیٰ انہیں جھنجھوڑ رہے ہیں کہ ایسے دور میں جدوجہد کرنے والوں کو پہاڑوں پر جاکر بیٹھنے والوں پر فضیلت دی گئی ہے ۔
 ان کے لئے اجر عظیم ہے مگر امامی گروہ رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم کے نام پر جھوٹی حدیثیں بناکر کہہ رہا ہے کہ آہستہ چلنے والا دوڑنے والے اور جدوجہد کرنے والے سے بہتر ہے ۔
 تو اس طرح ثابت ہوا کہ یہ حدیثیں گھڑنے والے امام منکرین قرآن ہیں ۔
 یہ قرآن کی فلاسفی کو بدلنے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں اور قرآن کی تفسیر ،تفصیل اور شرح کے نام پر قرآن کے معنوں میں ہیرا پھیری کررہے ہیں ۔

 محترم قارئین کرام!
 وہ کونسا عالم و فاضل ہے جو ان مذکورہ بالا آیات پر لائی ہوئی حدیثوں کو ان آیتوں کی تفصیل اور شرح قرار دے ۔
 ان حدیثوں کو تو ایک عام فہم رکھنے والا شخص بلکہ پرائمری کلاس کا بچہ بھی ان آیات کی تفصیل اور شرح تسلیم نہیں کرے گا ۔
میری گزارشات کا لب لباب یہ ہے کہ :
 اے ایمان والو! اللہ کا کلام اپنی تفسیر ، تفصیل اور تشریح میں خود کفیل ہے ۔
وہ آپ کو کسی بھی قرآن دشمن کے در پر جانے کی زحمت نہیں دیتا ۔
وہ خود اپنے فن تفسیر،تصریف آیات سے اپنی آیتیں سمجھانا چاہتا ہے۔
 تم لوگ قرآن فہمی کے لئے غیراللہ کے کلام کا کیوں محتاج بنتے ہو اوراللہ کے کلام کو غیر اللہ کے کلام کا محتاج کیوں بناتے ہو؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب دو مسلمان، تلواریں لے کر ایک دوسرے کے مقابلہ ہوں تو دونوں جہنمی ہیں۔
31 - فتنوں کا بیان : (38)
دوران فتنہ لڑائی سے ممانعت
حدثنا أبو کامل حدثنا حماد بن زيد عن أيوب ويونس عن الحسن عن الأحنف بن قيس قال خرجت وأنا أريد يعني في القتال فلقيني أبو بکرة فقال ارجع فإني سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول إذا تواجه المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار قال يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال إنه أراد قتل صاحبه
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 875               حدیث مرفوع          مکررات 21  بدون مکرر
 ابوکامل، حماد بن زید، ابوب، یونس، حسن، حضرت احنف رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن قیس فرماتے ہیں کہ میں (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ومعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لڑائی کے دوران) لڑائی کے ارادہ سے نکلا تو راستہ میں حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے ملے تو انہوں نے کہا کہ واپس لوٹ جاؤ اسلیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ ایک دوسرے کے مد مقابل آجائیں تو پھر قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے کسی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ قاتل تو ٹھیک ہے لیکن مقتول کیا ہوا تو فرمایا کہ اس نے بھی تو اپنے مقابل کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا۔

2 - ایمان کا بیان : (51)
گناہ جاہلیت کے کام ہیں، لیکن ان کے مرتکب کو اس وقت تک کافر نہیں کہا جائے گا جب تک وہ شرک نہ کرے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ (اے شخص) تو ایسا آدمی ہے جس میں جاہلیت کی باتیں پائی جاتی ہیں، اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ اللہ تعالیٰ شرک کو معاف  نہ فرمائیں گے اس کے علاوہ جس کو چاہیں گے معاف فرما دیں گے،
حدثنا عبد الرحمن بن المبارک حدثنا حماد بن زيد حدثنا أيوب ويونس عن الحسن عن الأحنف بن قيس قال ذهبت لأنصر هذا الرجل فلقيني أبو بکرة فقال أين تريد قلت أنصر هذا الرجل قال ارجع فإني سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول إذا التقی المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار قلت  يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال إنه کان حريصا علی قتل صاحبه
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 29        حدیث مرفوع          مکررات 21 متفق علیہ 7 بدون مکرر
 عبدالرحمن بن مبارک، حماد بن زید، ایوب و یونس، حسن، احنف بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (جنگ جمل کے وقت) میں اس مرد (علی المرتضی) کی مدد کرنے چلا تو (راستے میں) مجھے ابوبکر مل گۓ، انہوں نے پوچھا کہ تم کہاں (جانے کا) ارادہ رکھتے ہو؟ میں نے کہا اس مرد (علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی مدد کروں گا وہ بولے کہ لوٹ جاؤ اس لئے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئیے سنا ہے کہ جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ مقابلہ کریں، تو قاتل اور مقتول (دونوں) دوزخ میں ہیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ قاتل (کی نسبت جو آپ نے فرمایا اس کی وجہ تو ظاہر) ہے مگر مقتول کا کیا سبب (وہ کیوں دوزخ میں جائے گا) ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (اس وجہ سے کہ) وہ اپنے حریف کے قتل کا شائق تھا، حالانکہ وہ حریف مسلمان تھا۔
Narrated Al-Ma'rur: At Ar-Rabadha I met Abu Dhar who was wearing a cloak, and his slave, too, was wearing a similar one. I asked about the reason for it. He replied, "I abused a person by calling his mother with bad names." The Prophet said to me, 'O Abu Dhar! Did you abuse him by calling his mother with bad names? You still have some characteristics of ignorance. Your slaves are your brothers and Allah has put them under your command. So whoever has a brother under his command should feed him of what he eats and dress him of what he wears. Do not ask them (slaves) to do things beyond their capacity (power) and if you do so, then help them.'

67 - خون بہا کا بیان : (54)
اللہ تعالیٰ کا قول ومن احیاھا کی تفسیر۔
حدثنا عبد الرحمن بن المبارک حدثنا حماد بن زيد حدثنا أيوب ويونس عن الحسن عن الأحنف بن قيس قال ذهبت لأنصر هذا الرجل فلقيني أبو بکرة فقال أين تريد قلت أنصر هذا الرجل قال ارجع فإني سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول إذا التقی المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار قلت يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال إنه کان حريصا علی قتل صاحبه
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1784               حدیث مرفوع          مکررات 21 متفق علیہ 7 بدون مکرر
 عبدالرحمن بن مبارک، حماد بن زید، ایوب ویونس، حسن، احنف بن قیس سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں اس شخص کی مدد کرنے چلا تو مجھے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے اور پوچھا کہ کہاں کا ارادہ ہے میں نے کہا اس آدمی کی مدد کرنے کو، انہوں نے کہا کہ لوٹ جا، اس لئے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (قاتل تو خیر دوزخ میں ہی ہونا چاہیے) لیکن مقتول کیوں؟ آپ نے فرمایا کہ وہ اپنے ساتھی کے قتل پر حریص تھا۔
Narrated Al-Ahnaf bin Qais:
I went to help that man (i.e., 'Ali), and on the way I met Abu Bakra who asked me, "Where are you going?" I replied, "I am going to help that man." He said, "Go back, for I heard Allah's Apostle saying, 'If two Muslims meet each other with their swords then (both) the killer and the killed one are in the (Hell) Fire.' I said, 'O Allah's Apostle! It is alright for the killer, but what about the killed one?' He said, 'The killed one was eager to kill his opponent."

72 - فتنوں کا بیان : (78)
اس امر کا بیان کہ جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے مقابل ہونگے۔
حدثنا عبد الله بن عبد الوهاب حدثنا حماد عن رجل لم يسمه عن الحسن قال خرجت بسلاحي ليالي الفتنة فاستقبلني أبو بکرة فقال أين تريد قلت أريد نصرة ابن عم رسول الله صلی الله عليه وسلم قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم إذا تواجه المسلمان بسيفيهما فکلاهما من أهل النار قيل فهذا القاتل فما بال المقتول قال إنه أراد قتل صاحبه قال حماد بن زيد فذکرت هذا الحديث لأيوب ويونس بن عبيد وأنا أريد أن يحدثاني به فقالا إنما روی هذا الحديث الحسن عن الأحنف بن قيس عن أبي بکرة
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1977               حدیث مرفوع          مکررات 21 متفق علیہ 7 بدون مکرر
  عبداللہ بن عبدالوہاب، حماد، ایک شخص سے روایت کرتے ہیں جن کا نام انہوں نے بیان نہیں کیا کہ وہ حسن بصری سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ فتنے کے زمانہ میں، میں اپنے ہتھیار لے کر نکلا، تو ابوبکرہ میرے سامنے آئے اور پوچھا کہ کہاں کا ارادہ ہے۔ میرے ارادہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچازاد بھائی کی مدد کروں، ابوبکرہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب دو مسلمان، تلواریں لے کر ایک دوسرے کے مقابلہ ہوں تو دونوں جہنمی ہیں، کسی نے پوچھا کہ قاتل تو خیر ہوسکتا ہے، لیکن مقتول کیوں؟ آپ نے فرمایا کہ اس نے اپنے ساتھی کو قتل کرنا چاہا تھا اور حماد بن زید نے کہا کہ میں نے یہ حدیث ایوب اور انس بن عبید سے بیان کی اور میرا ارادہ تھا کہ وہ دونوں نے کہا کہ اس حدیث کو حسن نے احنف بن قیس سے انہوں نے ابوبکرہ سے روایت کی ہے، امام بخاری کہتے ہیں ہم سے سلمان نے بواسطہ حماد یہ حدیث بیان کی اور مومل نے کہا کہ مجھ سے حماد بن زید نے بواسطہ ایوب وانس وہشام، ومعلی بن زیاد، حسن سے انہوں نے احنف سے، انہوں نے ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے، ابوبکر نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی اور معمر نے اسے ایوب سے روایت کیا، اور بکار بن عبدالعزیز نے بواسطہ اپنے والد ابی بکرہ سے اسے روایت وغندر نے بواسطہ شعبہ، منصور، ربعی بن حراش، ابی بکرہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ حدیث روایت کی اور سفیان نے منصور سے اسے نقل کرنے میں مرفوعا روایت نہیں کیا۔
Narrated Al-Hasan:
(Al-Ahnaf said:) I went out carrying my arms during the nights of the affliction (i.e. the war between 'Ali and 'Aisha) and Abu Bakra met me and asked, "Where are you going?" I replied, "I intend to help the cousin of Allah's Apostle (i.e.,'Ali)." Abu Bakra said, "Allah's Apostle said, 'If two Muslims take out their swords to fight each other, then both of them will be from amongst the people of the Hell-Fire.' It was said to the Prophet, 'It is alright for the killer but what about the killed one?' He replied, 'The killed one had the intention to kill his opponent.'" (See Hadith No. 30, Vol. 1)       Narrated Al-Ahnaf:
Abu Bakra said: The Prophet said (as above, 204).

فتنۂ انکارِ قرآن ، کب اور کیسے ؟

از قلم : عزیزاللہ بوہیو

No comments:

Post a Comment