Monday, August 6, 2012

دُعا کے متعلق (حصہ اول)


دُعا کے متعلق  

از قلم : عبدالکریم اثری

س1:۔ دُعا کیا ہے؟ اور کیوں مانگی جاتی ہے؟


ج:۔ اللہ تعالیٰ نے انسان میں بے شمار تقاضے ودیعت کیے ہیں اور ان تقاضوں کو فطری تقاضوں کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ان تقاضوں میں سے ایک فطری تقاضے کا نام ’’دُعا‘‘ ہے۔ جس کے معنی ہماری اردو زبان میں بلانے، پکارنے اور یاد کرنے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب کسی انسان کو کوئی تکلیف، دُکھ اور کسی مصیبت کا سامنا ہوتا ہے تو بے ساختہ اچانک اُس کے اندر کسی کو پکارنے‘ بلانے اور یاد کرنے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے اور اپنے منہ سے کچھ الفاظ نکالتا ہے یا کسی بھی دوسرے طریقہ سے وہ اپنی بے چینی کا اظہار کرتا ہے بس اس کا یہ اظہار ہی حقیقت میں ’’دُعا‘‘ کہلاتا ہے۔ گویا انسان کا تکلیف اور دُکھ کے وقت زبان سے ہائے ہائے، وائے وائے ، آہ آہ، اُوں اُوں کا واویلا کرنا بھی اُس کی پکار ہے کہ اُس کی یہ تکلیف اور یہ دُکھ جس نے اس کو آلیا ہے وہ دور ہو یا اس کو کوئی دور کر دے۔
پھر انسان کے اندر دُکھوں، تکلیفوں اور مصیبتوں کی بے شمار اقسام ہیں اور سب کی اپنی اپنی نوعیتیں ہیں جن میں سے بعض کا ازالہ ممکن ہوتا ہے اور بعض کا ممکن نہیں ہوتا اور ’’دُعا‘‘ کا لفظ ان سب پر محیط ہے پھر اس کی وسعت کی کوئی انتہا نہیں۔
اسلام ایک فطری دین ہے اور تمام اقوام عالم کا یکساں ایک جیسا دین ہے اس لیے اُس نے یہ تعلیم دی ہے کہ صرف اللہ وہ ذات ہے جس نے انسان کی فطرت میں یہ تمام تقاضے ودیعت کیے ہیں لہٰذا جب کوئی ایسا تقاضا پیدا ہو جس کو ’’دُعا‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے تو اس تقاضا کا اظہار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات کے سامنے کیا جائے اور ایسی حالت میں صرف اور صرف اُسی ذات کو پکارا اور بلایا جائے کسی دوسرے کو نہیں۔ اسلام کی اس فطری تعلیم میں ’’دُعا‘‘ کو عبادت قرار دیا گیا ہے بلکہ عبادت کا مغز کہا گیا ہے۔
مختصر یہ کہ ’’دُعا‘‘ عبادت ہے، دُعا عبادت کا مغز ہے، دُعا ایک طاقت ہے، دُعا ایک قوت ہے، دُعا ایک بہترین سہارا ہے، ایک ایسی طاقت ایسی قوت اور ایسا سہارا جس کو ’’دُعا‘‘ کے سوا اور کوئی نام دیا ہی نہیں جا سکتا،کیوں؟ اس لیے کہ انسان کو ’’عبد‘‘ کہا گیا ہے خواہ وہ کہاں ہو، کیسا ہو، اور کون ہو اور عبد کا تعلق ’’عبدیت‘‘ سے ہے، عبدیت کا ظہور اور نتیجہ ’’دُعا‘‘ ہے۔
رہی یہ بات کہ دُعا کیوں مانگی جاتی ہے؟ جب یہ بات واضح ہو گئی کہ دُعا ایک تقاضے کا نام ہے ان تقاضوں میں سے جو اللہ رب کریم نے انسان کے اندر ودیعت کیے ہیں تو اس سے یہ بات از خود واضح ہو گئی کہ جس طرح ہر تقاضا اپنی تکمیل چاہتا ہے اسی طرح دُعا بھی اپنی تکمیل چاہتی ہے۔ اور بقول سائل کے بھی معلوم ہو رہا ہے کہ دُعا کا تقاضا مانگنا ہے کیونکہ اُس نے یہی تحریر فرمایا ہے کہ ’’دُعا کیوں مانگی جاتی ہے‘‘ یہ تحریر نہیں کیا کہ دُعا کیوں پہنی جاتی ہے۔دُعا کیوں کھائی جاتی ہے وغیرہ گویا فطرت ہی نے اُس کو یہ بتایا ہے کہ دُعا مانگی جاتی ہے تو بات واضح ہو گئی کہ دُعا کا تقاضا مانگنا ہے لہٰذا دُعا اس لیے مانگی جاتی ہے تاکہ اس کا تقاضا پورا ہو جائے۔
جس طرح کھانا کھایا جاتا ہے،پانی پیا جاتا ہے،کپڑا پہنا جاتا ہے، بستر بچھایا جاتا ہے اور دُعا مانگی جاتی ہے۔ غور فرمائیں کہ کوئی شخص یہ سوال کرے کہ کھانا کیوں کھایاجاتا ہے۔ پانی کیوں پیا جاتا ہے؟ کپڑا کیوں پہنا جاتا ہے؟ اور بسترکیوں بچھایا جاتا ہے؟ تو آپ اس کو ان باتوں کا جواب نہیں دیں گے؟ اگر دیں گے تو کیسے دیں گے؟ اور کیا دیں گے؟
یقیناًآپ جواب دیں گے اور ایک،صرف ایک جواب دیں گے کہ کھانا ایک تقاضا کرتا ہے جس کولوگ بھوک کے نام سے موسوم کرتے ہیں پھر جب انسان اس تقاضا کا شکار ہوتا ہے تو وہ کھانا کھاتا ہے جس سے اُس کا تقاضا پورا ہو جاتا ہے اسی طرح پینے،پہننے اور بچھانے کے بھی اپنے اپنے تقاضے ہیں جو اس پر عمل کرنے سے پورے ہو جاتے ہیں اور آدمی کو سکون حاصل ہو جاتا ہے بالکل اسی طرح چونکہ دُعا کا تقاضا مانگنا ہے اور جب انسان ا س تقاضا کی زد میں آتا ہے تو وہ مانگتا ہے اور مانگنے سے اس کا یہ تقاضا پورا ہو جاتا ہے اور انسان سکون اور راحت محسوس کرتا ہے گویا جو اس کی طلب تھی وہ پوری ہو گئی۔
اس سلسلہ میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جس طرح ہر فطری تقاضا جائز طریقہ سے پورا کیا جا سکتا ہے اور ناجائز اور حرام طریقہ سے بھی بالکل اسی طرح دُعا کا تقاضا جو ’’مانگنا‘‘ ہے جائز طریقہ سے بھی پورا کیا جا سکتا ہے اور ناجائز اور حرام طریقہ سے بھی پھر جس طرح ہر ایک چیز کا تقاضا جائز اور حلال طریقہ ہی سے پورا کرنا ضروری،صحیح اور درست ہے بالکل اسی طرح دُعا بھی جائز اور صحیح طریقہ سے مانگنی ضروری ہے ناجائز اور حرام طریقہ سے نہیں۔ اور دُعا مانگنے کاصحیح اور درست طریقہ یہ ہے کہ وہ صرف اور صرف اللہ سے مانگی جائے۔ میرے خیال میں آپ کے سوال کا جواب مکمل ہو گیا ہے اور اگر نہیں تو سوال کا کوئی اور طریقہ اختیار کر لیں تاکہ اس کا جواب کسی دوسرے طریقہ سے دیا جا سکے۔ فافہم ، فتدبر۔
یہ بات کہ ’’دُعا مانگنے کا صحیح اور درست طریقہ کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ دُعا صرف اور صرف اللہ سے مانگی جائے‘‘ میں نہیں کہہ رہا بلکہ قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ : لَہٗ دَعْوَۃُ الحق ط وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لاَ یَسْتَجِیْبُوْنَ لَہُمْ بِشَیْءٍ اِلاَّ کَبَاسِطِ کَفَّیْہِ اِلَی الْمَآءِ لِیَبْلُغَ فَاہُ وَمَا ہُوَ بِبَالِغِہٖط (
۱۳:۱۴) ’’اُس کا پکارنا سچا پکارنا ہے۔ جو لوگ اس کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں وہ پکارنے والے کی کچھ نہیں سنتے، ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے کہ بس پانی اس کے منہ تک پہنچ جائے حالانکہ وہ اس کے منہ تک پہنچنے والا نہیں۔‘‘
علاوہ ازیں قرآنِ کریم میں دُعا کے متعلق بہت بیانات موجود ہیں اور آپ ؐ کے ارشادات میں بھی اس کے متعلق بہت سی ہدایات دی گئی ہیں جیسے آپؐ کا ارشادِ گرامی ہے کہ:
اذا سالت فاسال اللہ واذا استعنت فاستعن باللہ (ترمذی
۲۵۱۶) ’’جب مانگو تو ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مانگو اور جب مدد چاہو تو صرف اللہ ہی سے مدد چاہو۔‘‘

س2:۔ کیا دُعا مانگنا ضروری ہے؟ اگر دُعانہ مانگی جائے تو کیا ہوتا ہے؟

ج:۔ اس کے جواب کے لیے اپنے پہلے سوال کے جواب کونگاہ میں رکھیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ دُعا فطری تقاضاوں میں سے ایک تقاضا کی تکمیل کا نام ہے اور کوئی فطری تقاضا ایسا نہیں جس کے متعلق یہ بات کہی جا سکے کہ کیا اس فطری تقاضا کو پورا کرنا ضروری ہے؟ کیوں؟ اس لیے کہ کوئی فطری تقاضا ایسا نہیں جس کا پورا کرنا ضروری نہ ہو کیونکہ فطری تقاضا اُس کو کہتے ہیں جس کا تقاضا خود بخود ہوتا ہے یعنی طبیعت تقاضا کرتی ہے اور اس کی تکمیل ضروری ہو جاتی ہے بلکہ بعض تقاضے خود بخود پورے ہونے لگتے ہیں اور طبیعت بھی ان کو روک نہیں سکتی بلکہ ان کا روکنا موت سے تعبیر ہوتا ہے۔ دُعا کے لیے جو اہتمام کیا جاتا ہے وہ تو محض رسم و رواج کی بات ہے اگر اس رسم و رواج کو استعمال نہ کیا جائے تو بھی دُکھ، تکلیف اور اضطرار کے وقت جو کچھ زبان سے خود بخود بے ساختہ الفاظ نکلنا شروع ہوجاتے ہیں وہ بھی در اصل دُعا ہی کہلاتے ہیں اور اگر یہ الفاظ منہ پر نہ آئیں بلکہ ان کے اظہار کا کوئی طریقہ اختیار کیا جائے یا از خود اختیار ہو جائے تو وہ طریقہ بھی دُعا ہی کے ضمن میں آئے گا کیونکہ دُعا کے لیے اہتمام خواہ وہ کسی بھی طریقہ سے ہو اس کا تعلق ہرحال دُعا ہی سے ہے گویا دُعا بے ساختہ بھی ہوتی ہے اور اہتمام کے ساتھ رسم و رواج کے مطابق بھی۔
جیسا کہ سوال اول کے جواب میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ انسان دُکھ، تکلیف کے وقت جو الفاظ ہائے ہائے،وائے وائے،اوں اوں وغیرہ منہ سے نکالتا ہے وہ بے ساختہ ہی ہوتے ہیں اور دُعا ہی کے ضمن میں آتے ہیں اور مجبوراً ادا کیے جاتے ہیں بلکہ یہ الفاظ مجبوری کی ایک واضح علامت ہوتے ہیں اور ان کے ادا کرنے کے لیے کوئی اہتمام نہیں کرنا پڑتا۔ ہاں! دُعا قومی رسم و رواج کے مطابق اور خاص اہتمام کے ساتھ نہ کی جائے تو ایسا ممکن ہے کیونکہ قومی رسم و رواج اور خاص اہتمام اختراعی چیزیں ہیں فطری نہیں۔
معلوم رہے کہ تمام اقوامِ عالم اپنے اپنے قومی طریقہ کے مطابق دُعا کرتی ہیں اور وہ لوگ جو کسی بھی قوم کے طور طریقہ کو اختیار کرنے کے پابند نہیں وہ بھی فطرتاً دُعا کرتے ہیں خواہ وہ اس کا اعتراف نہ کریں کیونکہ اعتراف کا تعلق محض قومی رسم و رواج کے مطابق دُعا کرنے سے ہے۔ اور بعض اوقات ضد اور ہٹ دھرمی بھی اس طرح کے اعتراف سے روکتی ہے لیکن فطری چیزوں کا اظہار کسی نہ کسی موقع پر یقیناًہو جاتا ہے۔ قرآنِ کریم نے بہت سے مقامات پر موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے مکالمات کا ذکر کیا ہے اور انجام کار ایک ایسے وقت کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ فرعون کہتا ہے اور برملاکہتا ہے کہ:
حَتّٰیٓ اِذَآ اَدْرَکَہُ الْغَرَقُ قَالَ اٰمَنْتُ اَ نَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْٓا اِسْرَآءِ یْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ
o (۱۰:۹۰) ’’جب حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ فرعون سمندر میں غرق ہونے لگا تو اس وقت پکار اُٹھا میں یقین کرتا ہوں کہ اس ہستی کے سوا کوئی معبود نہیں، جس پر بنواسرئیل ایمان لائے اور میں بھی اس کے فرمانبرداروں میں سے ہوں۔‘‘
غور کیجئے کہ فطرت میں جو چیز ودیعت کی گئی تھی اُس نے اپناکام کس طرح ظاہر کر کے دکھا دیا، ایسے وقت میں فرعون کی یہ پکار اور صدا چاہے اُس کے کام نہ آسکی تاہم فطری حقیقت کس طرح کھل کر سامنے آ گئی اب اگر اس کا کوئی اعتراف نہ کرے تو اس کو ضد اور ہٹ دھرمی ہی کا نام دیا جا سکتا ہے اور کیا؟
یہ ایک فرعون ہی پر منحصر نہیں قرآنِ کریم نے تمام مضطرین کے متعلق پر زور الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے کہ:
اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْءَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِط ءَِ الٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ
o (۲۷:۶۲) ’’بھلا مضطرب جب پکارتا ہے تو اس کی التجاؤں کو کون سنتا ہے؟ اور کون ہے جو ان کے دُکھ اور درد کو دور کرتا ہے؟ اور کون ہے جس نے تم کو زمین پر جانشین بنایا؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی مضطر کی دُعا کو سننے والا ہے؟ تم لوگ بہت ہی کم غور و فکر کرتے ہو۔‘‘
فطری ہدایت کے مطابق تو ہر انسان خواہ وہ کون ہو، کہاں ہو اور کیسا ہو ہر وقت نہ سہی لیکن زندگی میں ایسے اوقات آ جاتے ہیں کہ وہ دُعا مانگنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور پھر دُعا مانگتا ہے اور مصائب کے اوقات میں گھبرا کر وہ زبان سے کچھ نہ کچھ کہنے اور نکالنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور اس طرح جس رنگ میں بھی وہ اس کا اظہار کرتا ہے گویا وہ دُعا ہی کر رہا ہوتا ہے جب کسی پر ایسا وقت آئے تو اُس سے یہ سوال کر کے دیکھ لو اور اس سے بھی زیادہ بہتر اور اچھا ہے کہ جب تم خود کسی ایسے صدمہ کا شکار ہو جاؤ تو اپنے آپ سے پوچھ لو کہ کیا دُعا مانگنا ضروری ہے؟ تو تمہاری حالت جو کچھ بھی کہے یقیناًوہ حق ہو گا اور ان شاء اللہ صحیح اور درست ہو گا اور اس کے ساتھ ہی اگلا سوال کر لینا کہ دُعا نہ مانگی جائے تو پھر کیا ہوتا ہے؟ ان شاء اللہ آپ خود تسلیم کریں گے کہ دُعا مانگنا انسان کی فطرت میں داخل ہے اور فطری چیزوں کی ادائیگی اتنی ہی ضروری ہے جتنی بھوک کے وقت کھانے، پیاس کے وقت پینے اور اوڑھنے کے وقت میں اوڑھنے کی۔
کیا کوئی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ کھانے کی کیا ضرورت ہے؟ پینے کی کیا ضرورت ہے؟ اوڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟ یا یہ کہ کھانا نہ کھائیں تو کیا ہوتا ہے؟نہ پئیں تو کیا ہوتا ہے؟ نہ اوڑھیں تو کیا ہوتا ہے؟ یہی نہیں اس طرح کی سینکڑوں فطری چیزیں جو انسان کے ساتھ اس طرح وابستہ ہیں جیسے جسم کے ساتھ جان یا جان کے ساتھ جسم۔ جب ان ہی میں سے ایک دُعا بھی ہے تو پھر دُعا کے متعلق اس طرح کے سوالات چہ معنی دارد؟
حقیقت یہ ہے کہ جب انسان کی زندگی خوشحالی سے گزر رہی ہو اور ایک لمبے عرصہ تک وہ مصائب و مشکلات سے محفوظ رہ رہا ہو تو اُس کے ذہن میں اس طرح کے سوال اُٹھتے رہتے ہیں اور وہ دوسرے مصیبت زدوں کو دیکھ کر بھی کبھی خوف زدہ نہیں ہوتا کیونکہ دوسروں کی زندگی سے اس کو قطعاً کوئی دل چسپی نہیں ہوتی تا آنکہ وہ خود کسی مصیبت میں مبتلا نہ ہو جائے پھر جب وہ خود کسی ایسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ اپنی طرف سے ہاتھ پاؤں مارتا ہے کہ اس مصیبت سے باہر نکل آئے جب ہر طرف سے ناکام و نامراد ہوتا ہے تو اُس وقت اُس کا ذہن فطری طور پر اس طرف منتقل ہوتا ہے پھر اگر وقت نکل چکا ہو تو اُس کی اس چیخ و پکار کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور اگر وقت نکل نہ چکا ہو تو اُس کا اس طرح کا سوال کہ کیا دُعا مانگنا ضروری ہے اور اگر دعا نہ مانگی جائے تو کیا ہوتا ہے؟ خود بخود ختم ہو جاتا ہے اور پھر اس کو یاد ہی نہیں آتا کہ کبھی میں نے ایسا سوال بھی کیا تھا؟
اللہ رب کریم نے فطرت انسانی میں جو چیزیں رکھی ہیں وہ سب کی سب ہر وقت اور ہر حال میں اجاگر نہیں رہتیں بلکہ جوں جوں ان کے اُجاگر ہونے کا وقت آتا ہے تو ساتھ ساتھ اُجاگر ہوتی رہتی ہیں اور چونکہ وہ خود بخود ہی اجاگر ہو جاتی ہیں اس لیے یہ ماننا اور تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ فطرت میں موجود تھیں۔ ذرا غور کیجئے کہ جو بچہ ابھی پیدا ہوا ہے اور سوائے رونے کے یہ کچھ بھی نہیں کر سکتا اگر یہ زندہ رہا تو بہت کچھ کرے گا کیوں؟ اس لیے کہ اللہ رب کریم نے اس کے اندر جوانی کی تمام طاقتیں اور قوتیں ودیعت کر دی ہیں اور جوں جوں وقت آئے گا تو وہ خود بخود ظاہر ہوں گی بالکل اسی طرح خوشی کے اوقات میں جو کچھ انسان کرتا ہے اگر اچانک یا کسی وقت اس پر غم و اندوہ کی گھڑیاں آ جائیں تو اس کی حالت معاً اس کے ساتھ بدل جاتی ہے اور خود بخود بدل جاتی ہے اور خوشی کے اوقات اُس کو یاد بھی نہیں رہتے کہ وہ ان اوقات میں کیا کچھ کرتا رہا ہے اور اس کا عکس بھی بالکل اسی طرح اس کے اندر موجود ہے۔ چنانچہ قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ:
وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِہٖ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَاءِمًا ط فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہٗ کَاَنْ لَّمْ یَدْعُنَا اِلٰی ضُرِّ مَسَّہٗ ط (
۱۰:۱۲)
’’اور جب کبھی انسان کو کوئی رنج پہنچتا ہے خواہ کسی حال میں ہو،کروٹ پر لیٹا ہو، بیٹھا ہو، کھڑا ہو، ہمیں پکارنے لگے گا لیکن جب ہم اس کا سب رنج دور کر دیتے ہیں تو پھر اس طرح چل دیتا ہے گویا رنج و غم میں کبھی اس نے ہمیں پکارا ہی نہ تھا۔‘‘
واضح ہو گیا کہ ’’دُعا کا یہ تقاضا صحیح معنوں میں صرف اور صرف اُس وقت اجاگر ہوتا ہے جب انسان کسی ایسی مشکل میں پھنستا ہے جس سے نکلنے کا کوئی جتن ہی وہ نہیں کر سکتا اور ایسے وقت میں وہ کبھی ایسا سوال نہیں اُٹھا سکتا کہ کیا دُعا مانگنا ضروری ہے کیونکہ وہ تو ایسے وقت میں دُعا مانگ رہا ہوتا ہے بلکہ ہر حال اور ہر کروٹ پر وہ اللہ کو پکار رہا ہوتا ہے اور ایسی حالت میں وہ کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ’’دُعا‘‘ مانگی جائے تو کیا ہوتا ہے؟ اور حقیقت یہ ہے کہ دُعا نہ مانگنے سے یہی کچھ ہوتا ہے کہ وہ دُعا مانگنے پر مجبور ہوتا ہے۔
اسلام ایسے لوگوں کی اس طرح رہنمائی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اپنے پیارے رسول محمد رسول اللہ ﷺ کی ہدایات پر عمل کرو تاکہ تم ایسے حالات میں آسانی سے گزر جاؤ چنانچہ آپ کا ارشاد گرامی ہے کہ:
من سرہ ان یستجیب اللہ لہ عندالشدائد والکرب فلیکثر الدعا فی الرخاء ’’اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مصیبت اور سختی کے وقت اُس کی دُعا قبول کرے تو اسے چاہیے کہ راحت کے وقت بکثرت دُعا کیا کرے۔‘‘ (ترمذی
۳۳۸۲)
بلاشبہ ’’دعا‘‘ ایک فطری پکار ہے جس سے کسی شخص کو بھی مستثنیٰ نہیں کیا جا سکتا خواہ وہ کون ہو ، کہاں ہو اور کیسا ہو۔ قرآنِ کریم نے جن نبیوں اور رسولوں کا ذکر ان کے کاموں کے ساتھ کیا ہے ان کی قوموں کے تذکار بیان کیے ہیں وہاں ان نبیوں اور رسولوں کی دُعاؤں اور پکاروں کا ذکر بھی فرمایا ہے جس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ دعا ایک فطری چیز ہے اور اس کا اظہار کسی نہ کسی طریقہ سے ہر انسان کرتا ہے گویا ایسا وقت آنے پر انسان مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ خالصۃً اللہ کو پکارے جیسا کہ پیچھے فرعون کی پکار کا ذکر بھی آپ پڑھ چکے ہیں اور اس طرح اللہ رب کریم نے ابلیس و شیطان کی دُعا کا ذکر بھی کتاب اللہ میں فرمایا ہے جیسا کہ فرمان الٰہی ہے کہ:
قَالَ اَنْظِرْنِیْ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ
o قَالَ اِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ o(۷:۱۴،۱۵) ’’ابلیس نے کہا (اے میرے رب!) مجھے اُس وقت تک مہلت دے جب لوگ دوبارہ اُٹھائے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جا! تو مہلت دئیے جانے والوں میں سے ہے۔‘‘
مختصر یہ کہ ’’دُعا‘‘ ایک فطری چیز ہے اور فطری چیزیں خود بخود ہوتی رہتی ہیں اور جس فطری چیز کا وقت آ جاتا ہے وہ ظاہر ہو جاتی ہے اور اس طرح یہ بھی کہ دعا میں ایک ایسی طاقت اور قوت مخفی ہے جو دیکھی نہیں جا سکتی لیکن اس طاقت اور قوت کو انسان ترقی دے کر کافی حد تک بڑھا سکتا ہے اس طرح یہ بھی کہ اس کو فقط مشکل اوقات اور مصائب میں گھرنے کے بعد ہی مانگنا ضروری نہیں بلکہ ہر وقت، ہر حال میں اور ہر کروٹ پر خالصۃً اللہ تعالیٰ سے مانگنا اور طلب کرتے رہنا چاہیے اور اس طرح یہ بھی کہ اللہ رب کریم کے علاوہ کسی اور سے دُعا نہیں مانگنا چاہیے کیونکہ دعا صحیح معنوں میں عبادت ہے بلکہ عبادت کا اصل اور مغز ہے جو غیر اللہ کے لیے کسی حال میں بھی درست نہیں اور اس طرح یہ بھی ہر بندہ و انسان کو براہِ راست اللہ تعالیٰ سے مانگنی اور طلب کرنی چاہیے دُعا کے لیے کسی واسطہ ، وسیلہ اور ذریعہ کی ضرورت نہیں۔

س3:۔ کیا دعا زندہ یا وفات شدہ لوگوں کے توسط سے مانگنا ضروری ہے یا نہیں؟ واضح کریں۔

ج:۔ دُعا میں کسی زندہ یا مردہ بزرگ کا وسیلہ یا واسطہ اختیار کرنا ہرگز جائز اور درست نہیں۔ جب یہ بات پہلے سے واضح ہو چکی ہے کہ دُعا عبادت ہے بلکہ عبادت کا مغز ہے تو اس کے تسلیم کر لینے کے بعد یہ سوال کرنا ہی غلط ہے کیونکہ عبادت کاتعلق فقط اللہ رب کریم کی ذات اقدس سے ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے کسی قسم کے کسی بھی وسیلہ یا واسطہ کی ضرورت نہیں بالکل اسی طرح دُعا کے لیے بھی کسی طرح کے کسی واسطہ اور وسیلہ کی قطعاً ضرورت نہیں بلکہ دُعاؤں میں کسی کا وسیلہ اور واسطہ اختیار کرنا شرک کی زد میں آتا ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ رب کریم نے قرآنِ کریم میں نبی اعظم و آخر ﷺ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا ہے کہ:
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْالِیْ وَالْیُوْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ
o (۲:۱۸۶)
’’اور جب میرے بندے میری نسبت تم سے دریافت کریں تو انہیں کہہ دو کہ میں تو ان کے پاس ہوں وہ جب پکارتے ہیں تو میں ان کی پکار سنتا ہوں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ حصول مقصد میں کامیاب و کامران ہوں۔‘‘
اسلام سے پہلے کی قوموں نے بھی اللہ تعالیٰ کے وجود کا اقرار تو کیا لیکن ذات باری کو انسان سے معنوی لحاظ سے بھی اس قدر دور رکھا کہ گویا انسان اللہ کا تصور ہی نہیں کر سکتا جب تک مادی شکل و صورت وہ اختیار نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے اللہ کو پانے کے لیے واسطوں اور وسیلوں کی شکل اختیار کی پھر اپنے اپنے خیال کے مطابق کسی نے بت اور مورتیاں بنائیں اور کسی نے سورج اور چاند اور ستاروں کی شکل میں اپنے اللہ کو دیکھنے کی کوشش کی۔ اسلام نے ان سب کو مخاطب کر کے کہا کہ یاد رکھو اللہ ظاہری شکل و صورت میں نظر آئے یہ ممکن نہیں کیونکہ اللہ نہ کوئی مادی شئے ہے اور نہ وہ نظر آ سکتا ہے بلکہ جو اللہ کو اس ظاہری نظر سے دیکھنا چاہے وہ سب سے زیادہ ظالم ہے کہ ایک ناممکن ہی نہیں بلکہ ممتنع چیز کو ممکن کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو کبھی نہیں ہو سکتی کیونکہ اللہ کو کوئی ظاہری آنکھ دیکھ ہی نہیں سکتی اور ایسی کوئی شکل و صورت تصور کرنا جس میں اللہ نظر آئے یہی شرک ہے جس کو قرآنِ کریم نے ظلم عظیم قرار دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کو صرف معنوی صورت میں ہی دیکھا جا سکتا ہے اور اس کے لیے دور جانے کی کیا ضرورت ہے انسان اپنے ہی اندر سے دیکھ سکتا ہے بلکہ اس دیکھنے کے لیے تو ظاہری آنکھ کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ظاہری آنکھ سے اللہ دیکھا ہی نہیں جا سکتا اور معنوی لحاظ سے اللہ انسان کے اتنا قریب ہے کہ اتنا قریب خود انسان اپنی ذات کے نہیں اور ظاہر ہے کہ یہ قرب مادی اور مکانی تو مراد ہو نہیں سکتا اور پھر یہ کہ حق تعالیٰ کا یہ قرب اپنے تمام بندوں سے ہمیشہ یکساں ایک جیسا رہتا ہے۔
آپ بھی ذرا غور کریں کہ بندہ کی تسکین اور تسلی کے لیے کس قدر سامان اس آیت کے اندر موجود ہے ہمیں اللہ کو ڈھونڈنے کہیں اور نہیں جانا ہے وہ تو ہم سے قریب ہے بلکہ متصل ہے گویا اللہ اور بندے کے درمیان کوئی فاصلہ چاہے وہ کتنا ہی کم سے کم ہو موجود نہیں اور نہ ہی فاصلہ ہو سکتا ہے۔ ذرا مزید غور کریں کہ آیت کے اندر متکلم کی ساری ضمیریں بجائے جمع کے واحد ہیں یعنی عنی، انی، اجیب اور دعان۔ ان دونوں صیغوں کا عمومی فرق بھی ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے کیونکہ صیغہ جمع اکثر قدرت،عظمت اور قوت کا مظہر ہے اور واحد اس کے برعکس التفات اور اقتصاص و توجہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پھر یہاں توجہ اور التفات ہی کی طرف اشارہ ہونا بھی چاہیے۔ اسی طرح آیت کے الفاط سے دُعا کی ترغیب بھی نکل آئی اور اشارہ اس جانب بھی ہو گیا کہ دُعا بندہ کا کوئی سراسر خود غرضانہ اور دنیوی عمل نہیں بلکہ عین عبادت اور موجب تقرب الٰہی ہے۔
روایات میں بھی یہ بات موجود ہے کہ ’’جس شخص کے لیے دعا کا دروازہ کھل گیا یعنی دُعا کی توفیق حاصل ہو گئی اس کے لیے گویا رحمت کا دروازہ کھل گیا‘‘ قرآنِ کریم میں ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ
o (۵۰:۱۶) ’’اور یقیناًانسان کو ہم نے پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں پیدا ہونے والے وساوس تک کو ہم جانتے ہیں اور ہم اس کی گردن رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔‘‘
اور قرآنِ کریم میں ایک جگہ یہ ارشاد بھی فرمایا گیا ہے کہ:
فَلَوْلَا اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ
o وَاَنْتُمْ حِیْنَءِظٍ تَنْظُرُوْنَ o وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْکُمْ وَّلٰکِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَo (۵۶:۸۳ تا ۸۵) ’’اور جب جان حلقوم تک پہنچ جاتی ہے اور تم بھی اُس وقت دیکھ رہے ہوتے ہو اور ہم اس مرنے والے کے تم سے بھی زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر تم ہم کو دیکھ نہیں سکتے۔‘‘ معلوم ہوا کہ اللہ دیکھا نہیں جا سکتا اور جو دیکھا جاتا ہو ،دیکھا گیا ہو یا دیکھا جا سکتا ہو وہ اللہ نہیں ہو سکتا۔
دین اسلام کی روح حقیقی یہی ہے کہ انسان سب سے کٹ کر صرف اور صرف ایک اللہ کا ہو رہے ،اُس سے اپنی ہر مراد مانگے اور اُس کے آگے دست سوال دراز کرے، اُس کی زندگی اور موت اس کا اقدام و ادبار، اس کی عبادت اور قربانی سب اُس ذات قدس کے لیے ہو۔
کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ میں کہیں اس بات کا اشارہ تک نہیں پایا جاتا کہ دعا کے لیے کسی بھی بزرگ ہستی کا وسیلہ یا واسطہ اختیار کیا جائے تو دُعا زیادہ قبول ہوتی ہے ہرگز نہیں بلکہ اس کے برعکس ہر جگہ اور مقام سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دُعا براہِ راست اللہ رب کریم سے کی جائے اور بغیر کسی وسیلہ اور واسطہ کے کی جائے اس لیے کہ اللہ رب کریم تمام انسانوں کا یکساں ایک جیسا رب اور ایک جیسا اللہ ہے وہ سب کی سنتا ہے اور سب کی دُعائیں قبول کرتا ہے اور تمام انسانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہیں اور جیسے کیسے بھی ہیں سب کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اللہ اور اپنے حقیقی مالک و خالق کو براہِ راست پکاریں اور اسکے سامنے اپنے ہاتھ پھیلائیں اس کے سامنے گڑگڑائیں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اُس کے سامنے حاضر ہوں انہوں نے جو نیک اعمال کیے ہیں ان کو اپنے اللہ کے سامنے پیش کریں اور جو غلطیاں ان سے سرزد ہوئی ہیں ان سے توبہ و استغفار کرتے ہوئے اپنے اللہ کو راضی کریں اور یہ بات اچھی طرح سمجھیں کہ چاہے وہ گناہوں میں لت پت ہیں لیکن بندے وہ صرف اور صرف اللہ ہی کے ہیں جیسا کہ اللہ رب کریم نے خود ارشاد فرمایا ہے کہ:
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرٌ الرَّحِیْمُ
o (۳۹:۳۵) ’’اے پیغمبر اسلام! آپ میری طرف سے کہہ دیجئے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے الٹے سیدھے کام کیے ہیں اور اپنے اوپر خود زیادتیاں کرتے رہے ہیں، اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو،بلاشبہ اللہ سب گناہ بخش دے گا بلاشبہ وہ بڑا بخشنے والا اور پیارکرنے والا ہے۔‘‘
غور کیجئے کہ ان الٹے سیدھے کام کرنے والوں کو بھی یہ نہیں فرمایا کہ تم میرے رسول ﷺ کو واسطہ اور وسیلہ بنا لو تو تمہارے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے بلکہ صاف صاف الفاظ میں فرمایا کہ اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو اس لیے کہ ہر قسم کے گناہوں کومعاف کرنے والا صرف اور صرف اللہ ہے اور اللہ کے سوا اور کوئی نہیں ہے جو لوگوں کے گناہ معاف فرما دے اور پھر اس مضمون کو جاری رکھتے ہوئے مزید فرمایا کہ:
وَاَنِیْبُوْا اِلٰی رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْا لَہٗ مِنْ قَبْلُ اَنْ یَّاتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ
o (۳۹:۵۴) ’’اور اپنے رب کی طرف رجوع ہو جاؤ اور اس کی فرمانبرداری کرو اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آ جائے پھر اس وقت تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔‘‘
قرآنِ کریم نے دوسری جگہ اس کی وضاحت بھی فرما دی ہے کہ اکیلے اللہ کے ذکر سے انقباض صرف ان لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے جو مومن نہیں اور نہ ہی آخرت پر وہ ایمان رکھتے ہیں اور ان کے دل مطمئن ہی اُس وقت ہوتے ہیں جب اللہ کے سوا دوسروں کا ذکر کیا جاتا ہے چنانچہ ارشاد الٰہی ہے کہ:
وَاِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحْدَہُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُوْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ وَاِذَا ذُکِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ اِذَا ھُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ
o (۳۹:۴۵) ’’اور جب اللہ وحدہ لا شریک لہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ان کے قلوب گرانی محسوس کرتے ہیں اور جب ایک اللہ کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس وقت یہ خوش ہوتے ہیں۔‘‘
جب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ دُعا عبادت ہے بلکہ عبادت کا مغز ہے اور غیر اللہ کی عبادت شرک ہے ایسا شرک جو ظلم عظیم قرار دیا گیا ہے پھر اس کے متعلق یہ خیال دل میں لانا یا اس طرح کا سوال کرنا کہ دُعا زندہ یا مردہ بزرگوں کے توسط سے مانگنا کیسا ہے جس کا صاف صاف مطلب یہی سمجھ میں آتا ہے کہ کسی زندہ یا مردہ بزرگ کے توسط سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا کیسا ہے؟ تو آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ اس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک کرنے کا تصور اُجاگر ہوتا ہے یا نہیں؟
اس سوال کا مختصر جواب یہی ہے کہ ’’دُعا‘‘ کسی بھی زندہ یا مردہ بزرگ کے توسط سے کرنے کی ممانعت تو نکلتی ہے لیکن جواز کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور فطرت بھی اس کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ جتنی چیزیں فطری ہیں وہ خود بخود ہوتی ہیں اور ان کا خود بخود اجاگر نہ ہونا بیماری تصور کی جا سکتی ہے اور پھر اس کا علاج بھی کیا جا سکتا ہے لیکن کوئی فطری چیز ایسی نہیں جو کسی کے توسط، واسطہ یا وسیلہ سے اجاگر ہوتی ہو جیسے کھانا ایک فطری چیز ہے کیونکہ بھوک اس کو طلب کرتی ہے پینا ایک فطری چیز ہے کہ پیاس اس کو طلب کرتی ہے ہاں! کھانے سے اگر بھوک ختم نہ ہو پینے سے اگر پیاس ختم نہ ہو تو اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جسم میں کوئی ایسی بیماری موجود ہے جس کا کوئی علاج تجویز کیا جاتا ہے اور کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہیے۔ بالکل اسی طرح اگر اللہ رب کریم سے دُعا کی جاتی ہے جو ایک فطری چیز ہے لیکن اطمینانِ قلب نصیب نہیں ہو رہا جو دُعا کا اصل نتیجہ ہے تو یقیناًاس میں کوئی بیماری موجود ہے لہٰذا اس کا علاج ہونا چاہیے اور کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ میں اس بیماری کا علاج بھی بتایا گیا ہے جس کا ذکر کسی مناسب مقام پر کر دیا جائے گا ان شاء اللہ۔

س4 :۔ دُعا کے لیے ہاتھوں کا اُٹھانا ضروری ہے اگر ضروری ہے تو ہر جگہ یا کس کس جگہ اور کس کس جگہ اُٹھانا ضروری نہیں یا اُٹھانے کی ممانعت ہے؟

ج:۔ دُعا ایک فطری چیز ہے جو کسی وقت بھی انسان کے اندر سے اُٹھ سکتی ہے اور انسان ایک اَن دیکھی اور اَن سمجھی ذات کو پکارتا ہے اور اس پکار کا نام دُعا رکھا گیا ہے اور یہ پکار سوتے جاگتے، اُٹھتے بیٹھتے، رات دن کو کسی وقت بھی اس کے اندر سے اُٹھ سکتی ہے اور اُس کی زبان سے بھی نکل سکتی ہے اور اس سے یہ بات بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ اس طرح کی کسی بھی پکار کے ساتھ ہاتھوں کا اُٹھنا ضروری نہیں اگر ضروری ہوتا تو فطرۃً دُعا کے ساتھ ہی ہاتھ خود بخود اُٹھ جاتے گویا جس طرح دُعا فطری ہے اس طرح دُعا کے ساتھ ہاتھوں کا اُٹھنا فطری نہیں۔ پھر اس دُعا کے لیے جو الفاظ زبان سے نکلتے ہیں وہ بھی حقیقت میں فطری نہیں کیونکہ الفاظ کا زبان پر آنا بھی ضروری نہیں بلکہ اکثر اوقات انسان کے اندر ہی اندر یہ پکار رہ جاتی ہے اور وہ دل ہی دل میں اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور مطلوب حاصل کر لیتا ہے گویا اس کا دل اطمینان چاہتا ہے جو دُعا کا اصل ماحصل ہے۔
ہاں! یہ بات بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ جس طرح تمام فطری باتوں کے پورا کرنے کے مختلف طریقے رسم و رواج میں آ چکے ہیں اور جو قومی رسم و رواج سے موسوم کیے جاتے ہیں اسی طرح دُعا جو ایک فطری تقاضا ہے اس کے پورا کرنے کے لیے بھی تمام اقوامِ عالم کے ہاں مختلف طریقے رواج پا چکے ہیں اور ان تمام اقوامِ عالم میں ایک قوم مسلم بھی شامل ہے لہٰذا قوم مسلم کے ہاں بھی دُعا کے مختلف طریقے پائے جاتے ہیں اور بحمداللہ مسلمان چاہے فقط نام ہی کے لحاظ سے مسلمان ہوں وہ اپنے ایسے طریقوں کو اپنے پیارے رسول محمد رسول اللہ ﷺ کے طریقوں کو اپناتے ہیں اور ان کے مطا بق دُعا کا یہ فطری طریقہ بھی ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کی تلاش میں رہتے ہیں کہ اس دنیوی زندگی کے جتنے ہموم و غموم ہیں تقریباً ان تمام سے آپ کو بھی گزرنا پڑا اور اسی طرح انسان کے اندر اپنے اللہ کو یاد کرنے کی جتنی تڑپ موجود ہے تمام انسانوں سے بڑھ کر آپؐ کے اندر ایسی تڑپ موجود تھی لہٰذا آپؐ نے جس طرح اس فطری تقاضا کی تکمیل کے لیے اللہ رب کریم کو یاد کیا اور جس طرح سے تمام اوقاتِ زندگی میں طریقہ آپؐ نے اختیار فرمایا وہی طریقہ ہم کو بھی اختیار کرنا چاہیے اس لحاظ سے مسلمانوں نے ہمیشہ زندگی کے دوسرے فطری تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ دُعا کا تقاضا بھی پوراکرنے کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا یا اختیار کرنے کی کوشش کی اور ایسا کرنے میں مسلمان حق بجانب بھی ہیں۔
اس لحاظ سے ہم مسلمان دُعا کے اس فطری طریقہ کو اختیار کرنے کے لیے آپؐ کے طریقوں کی جستجو کرتے ہیں تو بعض مواقع پر بالکل خاموشی کے ساتھ اذکار اختیار کرنے کا طریقہ اور بعض مقامات پر زبان سے بعض الفاظ ادا کرنے کا طریقہ بغیر ہاتھ اُٹھائے اور بعض مقامات پر ہاتھ اُٹھا کر دُعا کرنے کا طریقہ روایات اسلام میں دیکھتے ہیں۔ اس لیے اپنی طرف سے ہم مسلمانوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ آپؐ کے طریقہ دعا کو اختیار کیا جائے اندریں وجہ دُعا کے یہ تمام طریقے مقامات کے لحاظ سے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ہاں! باقی زندگی کے تمام فطری طریقوں میں اختلافات موجود ہونے کی طرح اس طریقہ کے اختیار کرنے میں بھی یقیناًاختلاف پائے جاتے ہیں ان اختلافات کے موجود ہونے میں دعا کی حقیقت پر اثر نہیں پڑتا البتہ حقیقت دعا اس ضد اور ہٹ دھرمی سے ضرور متاثر ہوتی ہے جو دوسرے کاموں کے طریقوں کی طرح دُعا کے طریقہ میں بھی پائی جاتی ہے۔
فی نفسہٖ دُعا کے طریقوں میں یہ تمام قسم کی صورت حال موجود ہے کہ دُعا فقط دل ہی دل میں کی جا سکتی ہے اور زبان سے بول کر بھی اس کے الفاظ بطور تذکار اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی اسی طرح بعض مقامات پر ہاتھ اُٹھا کر بھی دُعا کی جا سکتی ہے اور ہاتھ اُٹھانے کے بھی مختلف طریقے اپنائے جا سکتے ہیں جیسے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں جوڑ کر یا دونوں ہاتھوں میں فاصلہ رکھ کربعض اوقات ان ہاتھوں کو اپنے سینے تک اُٹھا کر اور بعض اوقات سینہ سے اوپر اُٹھا کر بعض اوقات اپنی بغلیں کھول کر اور بعض اوقات بغلوں کو سمیٹ کر بعض اوقات اجتماعی طور پر اور بعض اوقات انفرادی حالت میں بعض دفعہ پکار پکار کر اور بعض اوقات خاموش رہ کر دل ہی دل میں دُعا مانگی جا سکتی ہے آپؐ کے دُعا کرنے کے طریقوں میں بھی یہ تمام طریقے مختلف صورتوں اور مختلف اوقات کی حالتوں میں پائے جانا تسلیم ہیں۔
قرآنِ کریم اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی اس طرح کرتا ہے کہ:
وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ وَمَن یَّغْفِرُالذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہَ وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ
o (۳:۱۳۵) ’’وہ لوگ کہ جب ان سے کوئی سخت برائی کی بات سرزد ہو جاتی ہے یا اپنی جانوں کو کسی سخت مصیبت میں ڈال لیتے ہیں تو فوراً اللہ کی یاد ان میں جاگ اُٹھتی ہے اور وہ اپنے اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں اور جو کچھ ہو چکا ہے اس پر جان بوجھ کر اصرار نہیں کرتے اور انہیں یقین ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جو گناہوں کو بخشنے والا ہو۔‘‘
اُوْلٰءِکَ جَزَآءُ ھُمْ مَغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ ’’یہی لوگ ہیں کہ ان کے رب کی طرف سے عفو وبخشش کا اجر ہے۔‘‘ یہ پکار وہ پکارتا ہے جس کے متعلق اللہ رب کریم کی طرف سے مغفرت و بخشش کا سرٹیفکیٹ بھی مل گیا، کس کو؟ پکارنے والے کو اور کسی طرح کا کوئی مطالبہ بھی نہیں کیا گیا کہ اُس نے ہاتھ اُٹھا کر پکاراہے یا بغیر ہاتھ اُٹھائے،کس وقت پکارا ہے،پکارتے وقت اُس کی حالت کیا تھی، دن تھا، رات تھی پکارنے والاباوضو تھا یا بغیر وضو۔ پکارنے سے پہلے اُس نے نماز ادا کی تھی یا نہیں، اُس نے صدقہ و خیرات کیا تھا یا نہیں اگر کیا تھا تو کتنا اور دیا تھا تو کس کو؟
معلوم ہو گیا کہ اس طرح کی تمام بحثیں محض اختراعی ہیں اللہ تعالیٰ پکارنے والے کے دل کی حالت کو بھی جانتا ہے کہ اس کے دل میں فلیستجیبوا کی سی قبولیت کی اجابت موجود ہے یا نہیں؟ کیونکہ پکارنے والے کے ساتھ اُس کا وعدہ یہی ہے کہ تو اپنی حالت قبولیت کی اجابت کی سی بنا اور سچے دل سے ایمان لے آ تیری بات مان لی جائے گی خواہ تو کون ہے، کہاں ہے اور کیسا ہے؟ کیونکہ میں تیرا رب ہوں اور تو میرا بندہ ہے؟ تیرے دل کی حالت کو جتنا میں جانتا ہوں اتنا اور کوئی نہیں جانتا۔
اور یہ بات بھی واضح ہے کہ انسان کی ظاہری حالت ہر وقت ایک جیسی نہیں ہوتی اور اسی طرح باطنی حالت بھی یکساں نہیں ہوتی جس مقصد کے لیے وہ اپنے رب کو پکارتا ہے وہ مقصد بھی ایک طرح کانہیں ہوتا اور دُعا مانگنے والے کی حالت اضطرار و اضطراب بھی یکساں نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ روایات میں آپؐ کی پکار کے جو تذکار بھی ملتے ہیں وہ یکساں ایک جیسے نہیں ملتے محض زبان اقدس کی پکار کا ذکر بھی موجود ہے ہاتھ اُٹھانے کا ذکر بھی کیا گیا ہے مختلف اوقات میں مختلف وظائف و تذکار کا بھی ذکر آیا ہے نماز کے اندر مانگی گئی دعاؤں کا ذکر بھی موجود ہے نماز کے بعد بیسیوں طرح کے اذکار موجود ہیں اسی طرح سونے، جاگنے، سفر پر جانے، سفر سے واپس آنے، الوداع کرنے اور الوداع ہونے ، انسانی حوائج و ضروریات کے لیے داخل ہونے اور باہر آنے جیسی تمام حالتوں کا بیان موجود ہے دوسروں کی دعوت کرنے اور دوسروں کے ہاں دعوت کھانے کے لیے جانے غرض کہ انسانی ضروریات کی ہر طرح کی حالتوں کے اوقات میں جو کچھ آپؐ نے کیا ہے اور دوسروں کو کرتے دیکھا اور ایسے تمام اوقات میں جو کچھ آپؐ نے الفاظ ادا کیے ہیں محفوظ کر لیے گئے ہیں۔ آپؐ کا نمازِ جنازہ اداکرنا اور کسی جنازہ پر کوئی دُعا اور کسی پر کوئی اور دُعا مانگنا، عین مرنے والے کے پاس ہونا اور اُس کی حالت کو دیکھ کر زبان اقدس سے کچھ الفاظ ادا کرنا جہاں تک ممکن ہو سکا عاشقانِ رسول ﷺ نے آپؐ کی ہر ہر حرکت کو محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے اور بحمداللہ وہ کسی نہ کسی رنگ میں محفوظ کر لی گئی ہے اگر ان تمام باتوں کوبحث موضوع بنایا جائے اور ان روایات میں سے جس جس روایت کو بھی کوئی اپنے لیے راہنما بناتا ہے اس کے لیے ایک طرح کی ہدایت موجود ہے اور جس کے مطابق بھی کوئی شخص عمل کرتا ہے اُس کے لیے وہ عمل مبارک ہے لیکن افسوس کہ ہم نے ہدایت کی بجائے ان تمام باتوں سے خواہ مخواہ کی بحثیں پیدا کر لی ہیں اور ساری زندگی ان بحثوں میں صرف کر رہے ہیں اگر ان تمام حالتوں سے یہ سمجھ لیا جائے کہ فطرت انسانی کی حالت ہر وقت اور ہر حال میں ایک جیسی نہیں ہوتی آپؐ نے اپنی اس فطری حالت کے پیش نظر جو کچھ کیا وہ صحیح اور درست تھا لیکن ہم میں سے بھی ہر ایک انسان کی فطری حالت ایک جیسی نہیں ہو سکتی اس لیے ہم بھی اپنی اپنی حالت کے پیش نظر اپنے اللہ کو پکارنے کا جو طریقہ اختیار کریں وہ آپؐ کے تمام طریقوں میں سے ضرور کسی نہ کسی طریقہ کے مطابق ہو گا فرق ہو گا تو زیادہ سے زیادہ یہ کہ جو طریقہ آپؐ نے نماز کے بعد اختیار فرمایا ہے وہ ہم نماز سے پہلے اختیار کر رہے ہوں گے جب آپؐ کی طرف سے ایسی کوئی ہدایت موجود نہیں کہ اللہ کو نماز ادا کرنے سے پہلے یاد کرنا ہے تو اس طرح کرو اور اگر نماز کے بعد یاد کرنا ہے تو اس طرح یاد کرو تو ہم ان طریقوں میں سے جو طریقہ بھی اختیار کریں گے وہ ہماری حالت کے مطابق صحیح اور درست ہو گا گویا اس وسعت کو اختیار کرنے میں ہر طرح کی بھلائی موجود ہے بشرطیکہ ایک دوسرے کو الزام دینا چھوڑ دیں اور روایات سے راہنمائی تو حاصل کریں لیکن روایات کو جھگڑے کا باعث نہ بنائیں اور اپنے معمولاتِ زندگی میں وسعت پیدا کریں، محض ایک طریقہ پر جم نہ جائیں اور اگر خود جم گئے ہیں تو دوسروں کو اپنے ساتھ جم جانے کی سعی و کوشش نہ کریں خود اپنے حال پر رہیں اور دوسروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں مثلاً:
میرا معمول زندگی ہے کہ میں فرض نماز ادا کرنے کے بعد معمولی توقف کے بعد دعا مانگتا ہوں اور ہاتھ اُٹھا کر دُعا مانگتا ہوں لیکن میرے ساتھ کھڑا ہونے والا دوسرا ساتھی دُعاتو مانگتا ہے لیکن ہاتھ نہیں اُٹھاتایا بالکل دعا ہی نہیں مانگتا بلکہ اُٹھ کر چلا جاتا ہے میں اپنا معمول اگر جاری رکھنا چاہتا ہوں تو اُس کو بھی اُس کا معمول جاری رکھنے کا حق ہے نماز فرض تھی وہ تو ہم نے مل کر ادا کر لی اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنے اپنے معمول پر آ گئے ہیں تو اس سے کچھ فرق نہیں پڑا کیوں کہ اس سلسلہ میں آپؐ کی کوئی مستقل راہنمائی موجود نہیں بلکہ ہر ایک کو اپنی حالت کے پیش نظر عمل کرنے کا حق ہے جیسا مجھ کو ہے میرے دوسرے ساتھی کو بھی ہے اور اسلام کی وسعت کو تنگی میں تبدیل نہیں کرنا چاہیے، یہی حق و صواب ہے۔
مختصر یہ کہ دُعا مانگنے والا چاہے ہاتھ اُٹھا کر دُعا مانگے، ہاتھ سینے تک اُٹھائے، ہاتھ کندھوں تک لے جائے، ہاتھ کو ملا کر رکھے، ہاتھوں میں فاصلہ رکھے، فقط زبان سے دُعا کے الفاظ بولے، زبان سے بھی الفاظ ادا نہ کرے، زبان سے اتنی بلند آواز کرے کہ خود سن سکے، نماز ادا کرنے کے بعد دُعا مانگے، نماز کے اندر ہی جتنی چاہے دعائیں مانگ لے، اذان سن کر دعا کرے، اذان کے ساتھ ساتھ اذان کے الفاظ اپنی زبان سے ادا کرے، نماز جنازہ کے اندر دعائیں کرے، نمازِ جنازہ کے بعد، قبر پر جاکر دعا کرے، گھر میں بیٹھ کردُعا کرے،مسجد میں بیٹھ کر دُعا کرے، سجدہ میں گر کر دعا کرے جس طرح اس کا دل مطمئن ہوتا ہے اُس طرح دعا کرے سب جائز ،درست اور صحیح ہے۔
دعا میں اتنی بلند آواز استعمال کرنا جیسے سپیکرلگا کر دعائیں کی جاتی ہیں اور گھر بیٹھے لوگوں کو خواہ مخواہ سننے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ ان کی بلند آواز کے باعث دوسرے کچھ بول ہی نہ سکیں اور بیٹھنے والے اپنے گھروں میں بیٹھ کر بھی آپس میں بات چیت نہ کر سکیں، طالب علم، بیمار، سونے والے،آپس میں گفتگو کرنے والے سب بیزار ہو کر رہ جائیں اس طرح کی دعائیں دوسرے لوگوں کی پریشانی کا باعث ہیں جوکسی حال میں بھی جائز اور درست نہیں۔
اجتماعی دعائیں اگر اجتماع کے تمام لوگ اکٹھے ہو کر دُعا کرنا چاہیں تو اتنی آواز بلند کی جا سکتی ہے جو اس اجتماع تک محدود رہے اور پورے اجتماع کے لیے باعث اطمینان ہوجائز اور درست ہے۔
دُعا کا تعلق محض اللہ اور بندے کا ہے اور ہر بندہ کا اپنا اپنا تعلق ہے۔ ہاں! اگر کوئی شخص اپنے کسی غائب بھائی کے لیے بھی اس کی بہتری اور بھلائی کی دعا کرتا ہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے اس طرح ایک شخص خود دُعا میں مصروف ہے اور دوسرا شخص خود بخود اس کے ساتھ شامل ہو گیا ہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے۔ دوسرے کسی بھی بزرگ، دوست ، بھائی کے سامنے دُعا کی درخواست کی جا سکتی ہے اور اسی طرح از خود دوسروں کو اپنی دُعاؤں میں شریک کیا جا سکتا ہے اور کسی کا نام لے کر بھی اُس کے لیے دُعا کی جا سکتی ہے خصوصاً اس سلسلہ میں کسی طرح کا بھی الجھاؤ کرنا کسی حال میں صحیح اور درست نہیں دوسروں کے لیے بھلائی طلب کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے دوسروں کو کھانا پیش کرنے والا، دوسروں کو پانی پلانے والا، دوسروں کو کپڑا اڑھانے والا اور دوسروں کے فائدہ کی بات سوچنے اور کرنے والا۔
دل میں اس طرح کا خیال پیدا ہونا کہ اللہ فلاں بندے کی سنتا ہے میری نہیں سنتا لہٰذا دُعا کے لیے مجھے اُس کے پاس جانا چاہیے اور اپنے دعا منگوانا چاہیے اور وہ میرے حق میں دُعا کرے گا تب میری دعا سنی جائے گی۔ ایسا سوال ذہن میں رکھ کر دُعا کرانا یا کسی واسطہ اور وسیلہ سے دُعا کرنا قطعاً درست نہیں اور اس سلسلہ میں جو کچھ لوگ بیان کرتے ہیں محض مبالغہ آرائی ہے جس کی اسلام میں کوئی حقیقت نہیں اور اس طرح کے تمام شیطانی تخیلات انسان کو راہِ راست سے بہکا دیتے ہیں اور راہِ راست سے ہٹنا کوئی خوبی کی بات نہیں۔

س5:۔ کیا زندہ بزرگوں سے دُعا کی درخواست کرنا اور ان سے دعا منگوانا تاکہ دعا قبول ہو جائز اور درست ہے؟

ج:۔ دراصل اس سوال کا جواب گزشتہ سوال کے جواب میں مکمل طور پر آ چکا ہے اور ایک بات کو بار بار کرنا کلام کا حسن نہیں جب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ دعا کا تعلق اللہ اور بندے کا ہے گویا اللہ رب کریم کا حق ہے کہ صرف اور صرف اُس سے دُعا کی جائے اور بندہ ہونے کے ناتہ سے بندہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اللہ یعنی رب سے دُعا کی درخواست کرے اور اس میں کسی وسیلہ اور واسطہ کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہ اللہ اپنے تمام بندوں کی دُعاؤں کو سنتا ہے اور ان کو قبولیت بخشتا ہے کسی بزرگ سے اس لیے دُعا کی درخواست کرنا کہ اللہ ہر ایک کی دُعا سنتا نہیں یا اس کو قبول نہیں کرتا اور بزرگوں سے دُعا کرانا کہ اللہ ان کی زیادہ سنتا ہے یا یقیناًسنتا ہے ہرگز جائز اور درست نہیں اور اس طرح کی ذہنیت اسلام کی پیدا کردہ نہیں۔ اگر اس طرح کی ذہنیت نہ ہو تو کسی بھی دوسرے سے دُعا کی درخواست کرنا فی نفسہٖ صحیح اور درست ہے۔
ہاں! زندہ بزرگوں میں سے کسی کو کسی طرح کا کوئی دُکھ یا تکلیف پہنچائی ہو اور زندگی کے کسی حصہ میں اس کا احساس ہو جائے کہ میں نے فلاں بزرگ کو دُکھ پہنچایا ہے اُس وقت تو صرف دُکھ پہنچانے والے اور جس کو دُکھ پہنچایا گیا وہ بزرگ ہی جانتے تھے لیکن بعد میں یہ بات دوسرے لوگوں پر بھی ظاہر ہو گئی ہے اس وجہ سے دُکھ پہنچانے والے کاضمیر اس کو ملامت کرے اور وہ خود اس بزرگ کے سامنے اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے ان بزرگ کے سامنے درخواست کر دے کہ گناہ تو میں نے کیا ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی مجھے معاف کر دیں اور ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے بھی التجا کریں کہ وہ ہمارا گناہ معاف کر دے تو ایسی درخواست ہر حال میں درخواست کرنے والے کے لیے مفید ہے جیسا کہ یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کے درمیان ایسا ہوا کہ بیٹوں نے یعقوب علیہ السلام کو دکھ پر دُکھ پہنچائے اور وہ دُکھ بھی کچھ معمولی قسم کے نہیں تھے پھر ایک مدت تک دُکھ پہنچانے کا یہ سلسلہ جاری و ساری رہا ایک مدت مدید کے بعد جب بیٹوں پر یہ بات ظاہر ہو گئی کہ جو کچھ ہم نے اپنے والد بزرگوار سے کیا وہ سب کا سب کھل کر سامنے آ گیا ہے تو انہوں نے یعقوب علیہ السلام سے ان الفاظ میں درخواست کی جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے:
قَالُوْا یٰاَبَانَا اسْتَغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا اِنَّا کُنَّا خٰطِءِیْنَ
o قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّیْ اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرٌ الرَّحِیْمُo (۱۲:۹۷،۹۸) ’’وہ بولے اے ہمارے باپ! ہمارے گناہوں کی مغفرت کے لیے دُعا کر ہم سے سراسر قصور ہی ہوتے رہے۔ باپ نے کہا، وہ وقت دور نہیں کہ میں اپنے پروردگار سے تمہارے لیے دعائے مغفرت کروں، وہ بڑا بخشنے والا ، بڑی ہی رحمت والا ہے۔‘‘
بعض دوستوں اور بزرگوں نے اس آیت سے اور اس جیسی دوسری آیات سے اس بات کی کوشش کی ہے کہ بزرگوں سے دُعا کرانے کا جوا ز ایسی آیات سے نکلتا ہے لیکن انہوں نے حقیقت حال معلوم نہیں کیا اور سمجھنے کی کوشش نہیں کی حالانکہ ایسے واقعات سے اس طرح کا جواز تلاش کرنا سراسر جہالت ہے دوسری بات اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یعقوب علیہ السلام نے جو دعا کو کسی وقت پر موخر کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات دعا کی قبولیت کے ہوتے ہیں اور یعقوب علیہ السلام نے ایسے وقت کے لیے دُعا کو مؤخر فرمایا ہے حالانکہ حقیقت اس طرح نہیں بلکہ ذرا غور و فکر کرنے سے حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے جس دُعا کی درخواست کی ہے وہ صرف یعقوب علیہ السلام ہی کا معاملہ نہیں تھا بلکہ یعقوب علیہ السلام کے ساتھ یوسف علیہ السلام کا معاملہ بھی تھا کیونکہ بھائیوں نے یوسف علیہ السلام کو براہ راست دُکھ پہنچایا تھا اور اس درخواست کے وقت جو انہوں نے یعقوب علیہ السلام سے کی، یوسف علیہ السلام وہاں موجود نہیں تھے اس وجہ سے یعقوب علیہ السلام نے تامل کیا اور فرمایا کہ عنقریب میں ایسا کروں گا کیونکہ اب عنقریب وہ وقت آنے والا ہے کہ سب یکجا جمع ہوں گے اور عفو و بخشش کا آخری فیصلہ ہو جائے گا پھر میری دُعائیں ہوں گی اور تم ہو گے۔
بزرگوں کی صحبت سے لاریب فائدہ ہوتا ہے اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا چنانچہ بزرگوں کی مجلس میں بیٹھنا، بزرگوں کے ساتھ مل کر نماز ادا کرنا، بزرگوں کے ساتھ ملکر کھانا پینا، ان کی باتیں سننا ان کی دعاؤں میں شریک ہونا، ان کے وعظ و نصیحت سے فائدہ حاصل کرنا سب بہتر اور مفید ہے لیکن دُعاؤں کا مخصوص معاملہ اللہ اور اُس کے بندوں کے درمیان ہی واضح ہوتا ہے کیونکہ اپنی حالت کو خود انسان جانتا ہے اور اللہ رب کریم ہی اپنے بندے کی حالت کو جانتا ہے بلکہ خود بندہ سے بڑھ کر اُس کے حالات سے واقف اللہ رب کریم ہی کی ذات ہے اور دُعا کا تعلق انسان کے دل کی حالت کے ساتھ وابستہ ہے جو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا خواہ وہ کون ہو اور کتنا ہی بڑا بزرگ کیوں نہ ہو، اسی لیے تو دُعا کو عبادت قرار دیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ عبادت کا تعلق عابد اور معبود سے ہے کسی دوسرے سے نہیں۔
اسلام کی ہدایت کے مطابق ہر ایک انسان دوسرے انسان کے لیے دعا خیر کر سکتا ہے اس لحاظ سے بزرگوں،بڑوں اور نیک لوگوں سے بھی دُعا کی درخواست کی جا سکتی ہے اور بزرگ اور نیک لوگ بھی دوسرے سے دُعا کی درخواست کر سکتے ہیں لیکن یہ بات کہ بزرگوں اورنیک لوگوں سے دُعا کرانا تاکہ دعا زیادہ قبول ہو یہ محض ایک خیال ہے جو اعتقاداً پیدا ہوتا ہے اس کی شرعی حیثیت بالکل وہی ہے جیسے ہر ایک انسان اور خصوصاً مسلمان دوسرے انسان یا مسلمان سے دُعا کی درخواست کر سکتا ہے خواہ وہ کون ہو کہاں ہو اور کیسا ہو۔
روایات میں بعض لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ فلاں فلاں کی دُعا زیادہ قبول ہوتی ہے اور ایسے لوگوں کو عرف عام میں ’’مستجاب الدعوات لوگ‘‘ کہاجاتا ہے لیکن ایسے لوگوں کے متعلق بھی کم از کم میری نظر سے کہیں یہ بات نہیں گزری کہ بزرگ اور نیک لوگ جب کسی دوسرے انسان کے لیے دعا کرتے ہیں تو وہ قبولیت کا درجہ رکھتی ہے مثلاً روایات میں ہے کہ:
1۔ بے چین اور مصیبت زدہ مجبور حال لوگوں کی دُعا قبول ہوتی ہے۔ (بخاری)
2۔ مظلوم جس پر ظلم کیا گیا ہو اس کی دُعا زیادہ قبول ہوتی ہے یعنی ظالم کے حق میں۔
(بخاری و مسلم)
3۔ والد کی دُعا اولاد کے لیے زیادہ قبول ہوتی ہے۔ (ابوداؤد)
4۔ امام عادل کی دعا اپنی رعایا کے حق میں زیادہ قبول ہوتی ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
5۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے کی دُعا والدین کے حق میں۔ (مسلم، ابوداؤ)
6۔ مسافر کی دُعا دورانِ سفر اپنے سفرکے متعلق۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)
7۔ روزہ دار کی دُعا روزہ افطار کرتے وقت۔ (ترمذی،ابن ماجہ)
8۔ مسلمان کی دُعا دوسرے مسلمان کے حق میں جب وہ غائبانہ اُس کے لیے دُعا کرے۔
(مسلم، ابوداؤد)
9۔ مسلمان کی دُعا جب کہ وہ ظلم یا قطعی رحمی کی دُعا نہ کرے۔ (مسلم)
10۔ مریض کی دُعا جب وہ کسی مرض میں مبتلا ہوتا ہے۔ (بیہقی)
علاوہ ازیں بھی لوگوں کا ذکر ہو گا لیکن چونکہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان سے دعا کی درخواست کر سکتا ہے اس اصول کے تحت کسی بزرگ سے کسی نے دُعا کی درخواست کی ہو اور بعد میں آنے والوں نے اس سے یہ استدلال کرلیا ہو کہ بزرگوں سے دُعا کرانے سے دُعا زیادہ قبول ہوتی ہے تو یہ دوسری بات ہے کیونکہ کسی طرح کا استدلال کر کے کوئی بات بیان کرنا اس معاملہ میں حجت نہیں قرار دیا جا سکتا پیچھے جن دس ’’مستجاب الدعوات‘‘ لوگوں کا ذکر آیا ہے ان پر غور کریں کہ کہیں ان سے دعا کرانے کا ذکر بھی موجود ہے ان کے دعا کرنے اور اس کے قبول ہونے کا مطلب تو صرف یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی دعا دوسرے عام لوگوں کی نسبت زیادہ قبولیت کا درجہ رکھتی ہے یعنی اس معاملہ میں جس معاملہ میں وہ فطرتاً دعا کرتے ہیں جیسے مریض کی دعا جب وہ خود اپنی مرض کے متعلق اللہ تعالیٰ سے دُعا کرے کہ ’’اے میرے رب! میرا یہ مرض دور فرما دے‘‘ بے چین اور مصیبت زدہ آدمی جب خود اپنی مصیبت اور اپنی بے چینی کے معاملہ میں اپنے رب سے درخواست کرے کہ ’’اے میرے رب! میری یہ بے چینی اور میری یہ مصیبت دور فرما دے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ غور کریں کہ اس سے ہم کو سبق کیا حاصل ہوتا ہے اور ہم اس معاملہ میں کیا کرتے ہیں آپ میرے سے زیادہ جانتے ہیں کہ اس طرح کے تمام لوگ بھی دوسروں سے دعا کی درخواست کرتے ہیں حالانکہ دوسرے تمام لوگوں سے دُعا ان کی ان کے ایسے معاملات میں زیادہ قبولیت کا درجہ رکھتی ہے۔

والسلام
عبدالکریم اثری
21-06-2012

No comments:

Post a Comment