Friday, August 17, 2012

ام المؤمنین عائشہؓ ، بمبئی کی فلمی دنیا کی زیب النساء اور مولوی، مولانا، دستاربند عالم دین، فاضل درسِ نظامی

ام المؤمنین عائشہؓ ، بمبئی کی فلمی دنیا کی زیب النساء اور مولوی، مولانا، دستاربند عالم دین، فاضل درسِ نظامی

انتساب
میں اپنی یہ کتاب بمبئی فلم اسٹوڈیو کی فلمی اداکارہ
زیب النساء
کے نام سے منسوب کرتا ہوں۔

ہندوستان کی فلم سازی کی تاریخ میں 1935 ؁ء سے لے کر 1945 ؁ء تک کا عشرہ تہلکہ خیز رہا ہے۔ اس عرصہ میں فلم سازی کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت پر فائز اس مرکز میں زیب النساء، سنیما کے پردۂ سیمیں پر شہرت پا چکی تھی۔ یہ شہرت کوئی نیکی کے کاموں کی بدولت نہیں تھی۔ ویسے بھی نیک نامی والی شہرت کا ملنا فلمی ماحول میں محال ہوتا ہے ، کیوں کہ فلمی ماحول ایک طرح کا بازار گناہ ہوا کرتا ہے۔ لیکن زیب النساء نے تو واقعتاً ایسے گناہوں کو گویا جونا مارکیٹ میں رہتے ہوئے بھی نیکی اور غیرت ایمانی کی مثال قائم کردی اور نیک نامی کما کر دکھا دیا۔ اس کا کارنامہ یہ ہے کہ اس کو فلم انڈسٹری کے کسی ماہر شخص نے کہا کہ تیرا نام تو کسی ماسٹرنی جیسا لگتا ہے ، تو اس نام کو بدل کر اپنا نیا نام ’عائشہ ‘ رکھ لے۔ زیب النساء نے جواب میں اسے کہا کہ یہ تو ایک عظیم ہستی کا مقدس نام ہے، یہ تو ام المؤمنین زوجۂ رسولؐ اﷲ کا نام ہے،آپ مجھ جیسی گناہ آلود ہ بازاری کردار والی عورت پر ایسا نام رکھنا چاہتے ہیں۔ پھر آگے کی کہانی تو آپ کو کہنہ مشق قلم کار شورش کاشمیری، مدیر مجلہ ’چٹان، لاہور‘ کی زبانی سنیں۔لیکن جب میں نے زیب النساء کے اس غیرت مندانہ احتجاج کو پڑھا تو مجھے اپنے مولوی، مولانا، دستاربند عالم دین، فاضل درسِ نظامی ہونے پر شرم آئی کہ ہم میں تو زوجۂ رسولؐ، ام المؤمنین جنابہ عائشہؓ صدیقہ کے خلاف حدیث کی کتابوں ، بخاری، مسلم اور ابن ماجہ میں تہمت اور بہتان کی حدیثیں پڑھ کر بھی اتنی غیرت نہ آئی جتنی اس بازاری عورت کو آئی۔ حیف صد حیف ہو میری بے حس مولویت پر! مجھ مولوی سے تو غیرت ایمانی کا کوئی مظاہرہ اس ناچنے والی عورت کے کارنامے کے برابر نہ ہو سکا۔ وہ کیا تھا ، اسے آپ شورش کاشمیری کے مقالے میں پڑھیں۔

عزیز اﷲ بوہیو

بمبئی کی فلمی دنیا:

بمبئی کی فلمی دنیا کے مشہور انگریزی رسالہ ’فلم انڈیاFilm India کا مالک و مدیربابو راؤ پٹیل گجراتی بولنے والے ایک کٹر مہا سبھائی متعصب ہندو تھا، دولت شہرت اور دنیاوی عزت اس کے قدم چومتی تھی۔ فلمی دنیا سے وابستہ تمام افراد اس کے دفتر میں حاضری دینا باعث اعزاز سمجھتے تھے کہ کل کلاں بابو راؤ پٹیل کی نظر عنایت پڑجانے پر ان کی تصویراگر ’’فلم انڈیا‘‘ کے سر ورق پر چھپ گئی تو یوں سمجھا جاتا تھا کہ لاٹری کھل گئی یعنی تمام دلدر دور ہوجائیں گے لیکن ’’بابو راؤ‘‘ انتہائی تیزطرار آدمی تھا۔بڑی منت سماجت ، چاپلوسی پر اگر ایک آدھ بار اپنے رسالہ کے کونے کھدرے میں تصویر چھاپ دینے کو بھی عظیم احسان گردانتا ۔ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ اس کی نظر وں میں آنے والے چہرے کی واقعی قسمت جاگ جاتی یعنی سر ورق پر تصویر چھپ جانے پر ایک دم کئی پارسی سیٹھ نئی فلموں کے ایگریمنٹ سائن کرنے کو تیار ہوجاتے اس طرح چند دنوں میں ہی غیر معروف چہرہ انڈیا کا معروف فلمی ستارہ شمار کیا جاتا۔ بالفاظ دیگربابو راؤپٹیل لنگور کو حور کے طور پیش کرنے کا گر جانتا تھا۔
باوجود اس تمام رونق کے جو بابو راؤ کے اردگرد سجی رہتی ایک دن اس کو احساس ہوا کہ فلمی اداکارہ ’’زیب النساء‘‘ محض اپنی محنت، جانفشانی اور خوش اخلاقی کی وجہ سے ابتدائی منازل عبور کر کے ترقی کی ان سیڑھیوں کو چھو رہی ہے جو دیگر فلمی ستاروں نے کئی کئی سالوں میں فلمی رسالہ ’’فلم انڈیا‘‘ کی وجہ سے شہرت و عظمت کا مقام پانے پر حاصل کی ۔ آ خر اس سے رہا نہ گیا۔ مذکورہ پیشہ ور رقابت کے تحت اس نے ’’زیب النساء ‘‘کو اپنے آفس سیکریٹری کے ذریعے پیغام بھجوا کر دفتر میں چائے کی دعوت دی۔ خوش طبع فلمی اداکارہ ’’زیب النساء‘‘ اخلاقی مظاہرہ کرتے ہوئے جب اس کے دفتر پہنچی تو بابو راؤ نے بڑے روکھے پن سے اپنا رویہ پیش کیا ۔ کافی دیر انتظار کے بعد اسے اپنے آفس کے کمرے میں طلب کیا ۔ اس کا پہلا جملہ جو عصبیت سے پُر تھا ملاحظہ فرمائیں :
’’
کیا تام ہے تمہارا؟‘‘ پھر خود ہی بولا’’زیب النساء‘‘ ارے بابایہ فلم ایکٹریس کا نام نہیں ہوتا۔ اتنا لمبا نام اسکول ٹیچر کا ہوتا ہے اپنا کوئی سویٹ فلمی نام رکھو نا۔‘‘ ایک سانس میں ادا کئے گئے ان الفاظ نے زیب النساء کو سنبھلنے کا موقع بھی نہ دیا۔ تذبذب کے عالم میں اس نے کہا ’’بابو جی آپ ہی کوئی نام تجویز کریں مجھے اس کا تجربہ نہیں‘‘۔ شیطانی ہنسی میں زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے بابوراؤ پٹیل نے فوراً کہا ’’ہاں! ہاں! تم اپنا نام’’ عائشہ‘‘ رکھ لو۔‘‘
اس دوران چائے آ چکی تھی ملازم نے چائے کا کپ زیب النساء کے سامنے سجا دیا ، دوسرا کپ بابو راؤ پٹیل کے سامنے رکھ کر وہ باہر چلا گیا۔ اس اثنا میں زیب النساء نے خود کو ذرا ذہنی طور پر تیا ر کیا اور بابو راؤ پٹیل سے دوبارہ وضاحت طلب کی کہ ’’بابو جی! آپ نے کیا نام کہا؟‘‘ ’’ارے بابا بولا نا ’’عائشہ‘‘، برجستہ بابو راؤ نے جواب دیا۔
چونکہ بات چیت فلمی ماحول میں ہو رہی تھی اس بناء پر وہ بات کو نہ سمجھ سکی ۔ قوت غضبیہ سے اچانک مشتعل ہو کر زیب النساء کا چہرہ اپنا رنگ بدل گیا اب اس کا حسین چہرہ سرخ شعلہ بن چکا تھا۔ اس کی آنکھوں سے انگارے برستا شروع ہوئے ۔ اپنے جذبات کو ذرا سا قابو میں لاتے ہوئے اس نے اپنے لہجے کو یکسر کرخت کر لیا اور کہا ، ’’بابو راؤ پٹیل! تمہیں پتا ہے کہ میں ایک فلم ایکٹر ہوں، جس کا ذاتی کردار بازاری اور گناہ آلود ہے۔ جس کو فلمی تماش بین لوگ ہر حال میں نیک سیرت عورت کے مقابلے میں فاحشہ اور برا سمجھتے ہیں اور ناچنے والی طوائف کے معیا ر کا درجہ دیتے ہیں۔ تم نے مجھ جیسی ناپاک عورت کو ان نیک ہستیوں کے نام اپنانے کا مشورہ کیسے دیا؟ تمہیں پتا ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک اس نام کی عظمت کا کیا مقام ہے؟ آخر تم نے ایسی مکروہ شیطانی سوچ پیش کرنے کی کوشش کیوں کی ہندو کے بچے! اس کے ساتھ ہی وہ اپنی کرسی سے نیچے کو جھکی اپنا سینڈل اتار کر بابو راؤ کے سر پر برسانا شروع کردیا۔ وہ بے قابو ہو کر اس وحشیانہ انداز سے اس کی پٹائی کر رہی تھی اور ساتھ ہی اس لپر بیہودہ گالیوں کی بوچھاڑ کرتی جارہی تھی چند منٹوں میں بابو راؤ پٹیل کی ناک کے نتھنوں سے خون بہنا شروع ہو گیا۔ وہ بار بار چلا رہی تھی کہ میں تجھے چھوڑوں گی نہیں ، ذلیل کمینے! اس نے اس کے چہرے پر بھی اچھی خاصی ضربیں لگائی تھیں جن کے نمائشی نشان کئی دنوں تک بابو راؤ کے چہرے پر رہے۔
آخر بابو راؤپٹیل کے عملے نے بڑی مشکل سے زیب النساء کو قابو کیا اور دفتر سے رخصت کیا۔ اگلے دن کے تمام اخبارات نے بابو راؤ پٹیل کے متعصبانہ رویہ پر لعن طعن کی اور سینڈل سے مرمت کئے جانے کی کہانی کو بڑھا چڑھا کر، ساتھ ہی برے حال میں بابو راؤ پٹیل کی زخم خوردہ تصویر بھی شائع کی۔ کسی منچلے رپورٹر سے نہ رہا گیا ، اس کی فن ظرافت کی رگ پھڑک اٹھی موقع کی نزاکت کے تحت اس نے تصویر کا عنوان جلی طور پر پیش کیا کہ ’’لنگور کو حور بنانے والا خود لنگور بن گیا!‘‘ زیب النساء اب وہ مقام حاصل کر چکی تھی جس کا ہر عاصی مسلمان متمنی رہتا ہے چنانچہ اس نے فلمی دنیا کی گناہ آلود زندگی سے تائب ہونے کے اقدامات کی فکر شروع کردی۔ آج بھی اگر بابو راؤ پٹیل کہیں زندہ ہو تو اس کے چہرے پر خراشوں کے داغ اس واقعہ کی صداقت کا اپنے تئیں منہ بولتا ثبوت فراہم کریں گے۔
***

No comments:

Post a Comment