Wednesday, August 29, 2012

بخاری کا خلاف قرآن آل رسول کا تصور



بخاری کا خلاف قرآن  آل  رسول  کا  تصور

قرآن دشمنی پر مناقب کا غلاف: عائشہ کے ساتھ تعظیمی جملہ نہیں

عائشہ کے نام کے ساتھ کچھ بھی نہ لکھنا اور فاطمہ کے نام کے ساتھ علیھا السلام لکھنا کیا معنی رکھتا ہے؟

بخاری کی فقہ سے بخاری کا تعارف

حد ثنا علیّ ان فاطمہ علیھا السلام اشتکت ما تلقی من الرحیٰ مما تطحن فبلغھا ان رسول اللہ ﷺ اتی بسبی فاتتہ تسالہ خادما فلم توافقہ فذکرت لعائشہ فجاء النبی ﷺ فذکرت ذالک عائشہ لہ فاتانا وقد دخلنا مضاجعنا فذھبنا لنقوم فقال علی مکانتکما حتی وجدت برد قدمیہ علی صدری فقال الا ادلکما علی خیر مما سألتماہ اذا اخذ تما مضا جعکمافکبر اللہ اربعا وثلاثین واحمد ا ثلاثا وثلاثین و سبحا ثلاثا وثلاثین فان ذالک خیر لکما مما سأ لتماہ ۔
حدیث نمبر354باب نمبر248کتاب الجہاد و السیر ، بخاری

خلاصہ :
 حدیث بیان کی ہمارے ساتھ علی نے کہ فاطمہ علیہا السلام نے شکایت کی کہ آٹا پیسنے کی چکی سے اسے تکلیف پہنچ رہی تھی۔ ایک دن اسے خبر پہنچی کہ رسول اللہ کے پاس قیدی لائے گئے ہیں تو یہ بھی ان کے پاس اپنے لئے ایک خادم کے طور پر قیدی لینے گئی ۔لیکن اسے مدعا پیش کرنے کا موقع نہیں ملا تو عائشہ سے اپنے آنے کا مقصد بیان کرکے گھر واپس آئی ۔
تو جب رسول اللہ گھر آئے تو عائشہ نے اسے وہ ماجرا سنایا پھر رسول اللہ سیدھے ہمارے گھر آئے جبکہ ہم اپنی آرام گاہ میں داخل ہو چکے تھے تو ہم اٹھنے لگے رسول اللہ کیلئے تو فرمایا اپنی جگہ پر رہیں ۔
 میں نے رسول اللہ کے پاؤں کی ٹھنڈک کو اپنے سینے پر محسوس کیا ۔
پھر فرمایا کہ تم نے جس چیز کا مطالبہ کیا ہے کیوں نہ اس سے اچھی کا تمہیں بتاؤں۔ وہ یہ کہ تم سوتے وقت 34بار اللہ اکبر،33بار الحمد للہ اور33بار سبحان اللہ پڑھا کرو ۔یہ تمہارے لئے خادم مانگنے اور رکھنے سے بہتر ہے۔

تبصرہ:
 یہ حدیث قرآن کی آیت :
 
مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ۚ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (8:67)
پیغمبر کو شایان نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی رہیں جب تک (کافروں کو قتل کر کے) زمین میں کثرت سے خون (نہ) بہا دے۔ تم لوگ دنیا کے مال کے طالب ہو۔ اور خدا آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے۔ اور خدا غالب حکمت والا ہے ۔
 یعنی رسول اللہ کو کسی کو قیدی بنانے کی اجازت نہیں ہے کے خلاف ہے۔
اس لئے خلاف قرآن ہونے کے ناطے جھوٹی جعلی اور بوگس روایت ہے ۔


جناب عالی!

 
حدیث کی عبارت میں لاہور کی اردو بازار کی دینی کتب خانہ کے منتظمین نے علی کی یاء کو شد دی ہے جوشد کے ساتھ اللہ کا ایک نام ہے ۔

اور راوی اماموں نے حدیث میں فاطمہ کے نام کے ساتھ علیہا السلام لکھا ہے ۔
اس سے ان کے نزدیک علیھا السلام کی تعظیمی اصطلاح جو انبیاء کیلئے مخصوص اور مشہور کی گئی ہے ۔
اس میں بھی ورثہ اور توارث چلتا ہے ۔
جو ورثہ بھی بیٹی کو تو ملے لیکن بیوی کو نہ ملے کیوں کہ اسی روایت میں عائشہ کا بھی نام ہے۔
 لیکن ا س کے نام کے ساتھ کوئی بھی تعظیمی جملہ نہیں ۔

کان جبریل یعرض القرآن علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم وقال مسروق عن عائشہ عن فاطمہ علیھا السلام اسراالنبی صلی اللہ علیہ وسلم ان جبرئیل یعارضنی بالقرآن کل سنۃ وانہ عارضنی العام مرتین ولااراہ لا حضراجلی
باب 895 کتاب فضائل القرآن

محترم یہ امام بخاری صاحب کا ذیل کی دو حدیثوں پرترجمۃ الباب یعنی عنوان ہے۔
 جن کے لئے سارے علماء حدیث متفق ہیں کہ فقہ البخاری فی تراجمہٖ یعنی بخاری کا فقہی نظریہ اور فقہی مؤقف اس کے عنوانات میں ہے ۔

بخاری کے اس عنوان کے ذیل میں دو عدد حدیثیں ہیں جن پر اس مضمون میں کچھ بھی نہیں لکھ رہا اور اس ترجمۃ الباب یا عنوان کی عبارت میں بخاری صاحب نے مسروق کی روایت سے ایک حدیث نقل کی ہے جو اس نے بی بی عائشہ سے معنیٰ کے طور پر نقل کی ہے اور عائشہ نے براہ راست رسول اللہ سے نہیں بلکہ اسے بھی فاطمہ بنت رسول نے یہ حدیث سنائی ہے۔ حدیث ہے کہ جبرئیل ہر سال میرے ساتھ ایک بار قرآن کا دور کرتے تھے۔ اس سال اس نے دو بار دور کیا ہے۔ سو اس سے میں یہ سمجھا ہوں کہ میری وفات کا وقت آچکا ہے۔

محترم قارئین !
 میں نے جبرئیل کا رسول اللہ کے ساتھ قرآن کا دور کرنے پر تفصیل سے کسی اور جگہ تبصرہ کر چکا ہوں ۔ یہاں صرف بخاری کی عبارت میں عائشہ اور فاطمہ کے ناموں کا ایک ساتھ ذکر کرنے کے بعد عائشہ کے نام کے ساتھ کچھ بھی نہ لکھنا اور فاطمہ کے نام کے ساتھ علیھا السلام لکھنا کیا معنی رکھتا ہے؟

مجھے قارئین کی اس طرف توجہ مبذول کرا نی ہے ۔ویسے یہ ایک طرح سے لوگوں نے اصطلاح بنائی ہوئی ہے کہ انبیاء کے ناموں کے پیچھے علیہ السلام اورسلام علیہ لکھتے ہیں اور صحابہ کے لئے رضی اللہ عنہ یا رضوان اللہ علیہم لکھتے ہیں اور بقایا مومنین کے لئے رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں یہ تو ہوئی اصطلاحی بات ویسے قرآن حکیم میں سلام انبیاء کے ناموں کے ساتھ آیا ہے کہ سلام علی ابراہیم ، سلام علی موسیٰ وھارون ، سلام علیٰ ال یاسین اور سلام علی المرسلین تو اس طرح غیر انبیاء کے لئے بھی آیا ہے کہ:
 فَأْتِيَاهُ فَقُولَا إِنَّا رَسُولَا رَبِّكَ فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ ۖ قَدْ جِئْنَاكَ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكَ ۖ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (20:47)
(اچھا) تو اس کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم آپ کے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دیجیئے۔ اور انہیں عذاب نہ کیجیئے۔ ہم آپ کے پاس آپ کے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آئے ہیں۔ اور جو ہدایت کی بات مانے اس کو سلامتی ہو۔
 
وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى
 یا
وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (6:54)
اور جب تمہارے پاس ایسے لوگ آیا کریں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو (ان سے) سلام علیکم کہا کرو خدا نے اپنی ذات (پاک) پر رحمت کو لازم کرلیا ہے کہ جو کوئی تم میں نادانی سے کوئی بری حرکت کر بیٹھے پھر اس کے بعد توبہ کرلے اور نیکوکار ہوجائے تو وہ بخشنے والا مہربان ہے۔
 وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ
ہمیں اصطلاحوں پر بھی کوئی اعتراض نہیں اور ان اصطلاحی لفظوں میں جو عموم ہے یعنی سلام کا لفظ نبی اور غیر نبی مومن کے لئے استعمال کرنا اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں بلکہ اسے ہم جائز اوردرست بھی قبول کرتے ہیں لیکن بخاری کے لئے سوال یہ ہے کہ جب اس نے اپنے ترجمۃ الباب میں عائشہ ام المومنین کے نام کا ذکر کیااور ان کے ساتھ فاطمہ کا بھی اسی جگہ ذکر کیا تو فاطمہ کے نام کے ساتھ علیہا السلام لکھا اور عائشہ کے نام کے ساتھ کچھ بھی نہیں لکھا تو دال میں کالے کی جگہ ہمیں تو ساری دال کالی نظر آتی ہے ۔

 اس سے تو بخاری کا یہ فقہ اور نظریہ ثابت ہوتا ہوا نظر آتا ہے کہ اس کی سوچ میں نبوت اور رسالت ورثے میں منتقل ہونے والی چیز ہے اور یہ بھی بخاری کی سوچ ثابت ہوتی کہ بخاری ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتا اور ہم نے اپنا یہ الزام اس کتاب کے حصہ اول میں صفحہ 48پر بخاری کتاب کے حوالہ سے
 باب کیف کان بدأ الوحی
کی حدیث نمبر3کے ضمن میں ثابت کردیا ہے ۔

بخاری کا اپنے ترجمۃ الباب میں بی بی عائشہ ام المومنین کے لئے کچھ بھی نہ لکھنا اور وہیں اسی جگہ بی بی فاطمہ کو علیہا السلام لکھنا یہ انڈیکیشن ہے کہ میں اس کیمپ میں تمہاری ہی ڈیوٹی دے رہا ہوں اور فاطمہ جو اصول کافی کے حوالہ سے نبوت ملنے کے پانچ سال بعد پیدا ہوئی ہے اس وقت تو اس کی ماں کی عمر ساٹھ سال بنتی ہے تو اس طرح کی تاریخی روائتوں سے ان لوگوں نے فاطمہ کا پیدا ہونا ہی مشکوک بنایا ہو ا ہے۔

 ان حدیث ساز وں نے فاطمہ بنت رسول کو آل رسول کی ماں بنایا ہوا ہے جس آل رسول کا قرآن نے انکارکیا ہوا ہے کہ محمد علیہ السلام کو آل دینی ہی نہیں اس لئے کہ اللہ جانتا ہے کہ آل کے نام سے کیا کیا خلاف قرآن چکر چلائے جائیں گے اور قرآن کے خلاف لوگوں کے منہ موڑنے کے لئے انہیں بقول ان کے امام غائب کے پاس رکھے ہوئے مصحف فاطمہ کا انتظار کرایا جائے گا۔
جو بقول اصول کافی والے کے اس قرآن سے تین گنا بڑا ہے ۔

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (33:40)
محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ خدا کے پیغمبر اور نبیوں (کی نبوت) کی مہر (یعنی اس کو ختم کردینے والے) ہیں اور خدا ہر چیز سے واقف ہے۔

بخاری کی عبارت میں عائشہ اور فاطمہ کے ناموں کا ایک ساتھ ذکر کرنے کے بعد عائشہ کے نام کے ساتھ کچھ بھی نہ لکھنا اور فاطمہ کے نام کے ساتھ علیھا السلام لکھنا کیا معنی رکھتا ہے؟

حد ثنا علیّ ان فاطمہ علیھا السلام اشتکت ما تلقی من الرحیٰ مما تطحن فبلغھا ان رسول اللہ ﷺ اتی بسبی فاتتہ تسالہ خادما فلم توافقہ فذکرت لعائشہ فجاء النبی ﷺ فذکرت ذالک عائشہ لہ فاتانا وقد دخلنا مضاجعنا فذھبنا لنقوم فقال علی مکانتکما حتی وجدت برد قدمیہ علی صدری فقال الا ادلکما علی خیر مما سألتماہ اذا اخذ تما مضا جعکمافکبر اللہ اربعا وثلاثین واحمد ا ثلاثا وثلاثین و سبحا ثلاثا وثلاثین فان ذالک خیر لکما مما سأ لتماہ ۔
حدیث نمبر354باب نمبر248کتاب الجہاد و السیر ، بخاری

خلاصہ :
 حدیث بیان کی ہمارے ساتھ علی نے کہ فاطمہ علیہا السلام نے شکایت کی کہ آٹا پیسنے کی چکی سے اسے تکلیف پہنچ رہی تھی۔ ایک دن اسے خبر پہنچی کہ رسول اللہ کے پاس قیدی لائے گئے ہیں تو یہ بھی ان کے پاس اپنے لئے ایک خادم کے طور پر قیدی لینے گئی ۔لیکن اسے مدعا پیش کرنے کا موقع نہیں ملا تو عائشہ سے اپنے آنے کا مقصد بیان کرکے گھر واپس آئی ۔
تو جب رسول اللہ گھر آئے تو عائشہ نے اسے وہ ماجرا سنایا پھر رسول اللہ سیدھے ہمارے گھر آئے جبکہ ہم اپنی آرام گاہ میں داخل ہو چکے تھے تو ہم اٹھنے لگے رسول اللہ کیلئے تو فرمایا اپنی جگہ پر رہیں ۔
 میں نے رسول اللہ کے پاؤں کی ٹھنڈک کو اپنے سینے پر محسوس کیا ۔
پھر فرمایا کہ تم نے جس چیز کا مطالبہ کیا ہے کیوں نہ اس سے اچھی کا تمہیں بتاؤں۔ وہ یہ کہ تم سوتے وقت 34بار اللہ اکبر،33بار الحمد للہ اور33بار سبحان اللہ پڑھا کرو ۔یہ تمہارے لئے خادم مانگنے اور رکھنے سے بہتر ہے۔

از قلم : عزیزاللہ بوہیو

2 comments:

  1. It clearly indicates that this Rawayat is self made by a person who belongs to Shia community.

    ReplyDelete
  2. بخاری کی فقہ سے بخاری کا تعارف

    ReplyDelete