Monday, August 6, 2012

دُعا کے متعلق (حصہ سوئم)


دُعا کے متعلق از قلم  :عبدالکریم اثری

س11:۔ دُعا مانگنے کے لیے دُعا مانگنے والوں کو کس کس چیز کی پابندی کرنا ضروری ہے تاکہ دعا مقبول ہو؟
ج:۔ دُعا عبادت ہے اور دُعا کے علاوہ باقی فرض و نفل عبادت کے لیے جسم کا پاک ہونا، جگہ کا پاک ہونا، لباس کا پاک ہونا اور موقت عبادت کے لیے عبادت کا وقت ہونا شرائط عبادت میں سے ہے دعا کی عبادت کے لیے ان تمام شرائط سے زیادہ لازم و ضروری شرائط یہ ہیں کہ انسان کا کھانا، پینا اور اوڑھنا بچھونا سب پاکیزہ ہوں۔ چونکہ دُعا ہر وقت، ہر جگہ اور ہر مقام پر کی جا سکتی ہے اس کے لیے جسم کا پاک ہونا بھی ضروری شرائط میں سے نہیں اس کے لیے ضروری شرائط یہی ہیں جو اوپر ذکر کر دی گئی ہیں قرآنِ کریم میں بھی دعا کے سلسلہ میں یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ ’’دعا کرنے والوں کو چاہیے کہ میری پکار کا جواب دیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔‘‘ اس پکارکے جواب کی وضاحت آپؐ نے فرمائی ہے کہ:
قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ایھا الناس ان اللہ طیب لا یقبل الا طیبا وان اللہ امر المومنین بما امر بہ المرسلین فقال: یٰا اَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ
o وَقَالَ یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ۔ ثم ذکر الرجل یطیل السفر اشعث واعتبر یمد یدیہ الی السماء یا رب یارب ومطعمہ حرام ومشربہ حرام وملبسہ حرام وغذی بالحرام فانی یستجاب لذلک۔ (مسلم حدیث ۲۳۰۸)
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! بلاشبہ اللہ پاک ہے وہ صرف پاک چیز کو قبول کرتا ہے اور بلاشبہ اللہ رب کریم نے مومنین کو بھی اس بات کا حکم دیا ہے جس بات کا حکم اپنے رسولوں کو دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسولوں سے فرمایا ہے کہ ’’اے رسولو! پاک چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرو، بلاشبہ میں تمہارے اعمال سے خوب واقف ہوں‘‘ (
۲۳:۵۱) اور دوسرے مقام پر مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے بھی ارشاد فرمایا کہ ’’اے ایمان والو! جو پاک چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائی ہیں ان میں سے کھاو‘‘ (۲:۱۷۲) پھر نبی کریم ﷺنے ایک شخص کا ذکر فرمایا جو اللہ کے راستہ میں ایک لمبا سر اختیار کرتا ہے جیسے حج یا جہاد کے لیے وہ پراگندہ اور غبار آلود بھی ہے وہ آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلا کر دعا کرتا ہے کہ ’’اے میرے رب! اے میرے رب! لیکن اس کا کھانا ، پینا حرام کا ہے، اُس کا لباس حرام کا ہے، اس کی نشو ونما بھی حرام مال سے ہوئی ہے تو اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔‘‘
بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ دعامانگنے والوں کو کس کس چیز کی پابندی کرنا ضروری ہے۔ اب غور کیجئے کہ ہم میں سے کون ہے جو دعا مانگنے کا محتاج نہیں لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جو ان باتوں کی پابندی کرتے ہیں کہ ان کا کھانا پینا اور اوڑھنا بچھونا سب اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہو اور اس کے ساتھ نیک اعمال بھی کرتے ہوں اور برائیوں سے بچنے کا اہتمام کرتے ہیں۔مزید غور کیجئے کہ اللہ رب کریم نے تمام نبیوں اور رسولوں کو اور خصوصاً نبی اعظم و آخر محمد رسول اللہ ﷺ کو بار بار مخاطب کر کے ارشاد فرمایا ہے کہ:
’’اے پیغمبر اسلام! آپؐ اپنی قوم سے کہہ دیجئے کہ اگر میں نے تم سے کوئی معاوضہ طلب کیا ہے تو اسے تم ہی رکھو، میرا صلہ تو اللہ تعالیٰ ہی کے ذمہ ہے اور وہ ہر چیز سے اچھی طرح باخبر ہے۔‘‘
اور آج ہمارے علمائے کرام نہایت دلیری سے یہ بات کہتے ہیں کہ دین کی تعلیم سے جو رزق حاصل ہوتا ہے اُس سے پاکیزہ اور طیب رزق اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا اور پھر ہمارے علمائے کرام ہی سے وہ لوگ بھی ہیں جو صحیح معنوں میں سرمایہ دار ہیں اور آج کل کی زبان کے مطابق وہ ارب پتی اور کھرب پتی ہیں لیکن غریب عوام سے یہ رزق حلال اکٹھا کرنے میں وہ بھی نہایت حد تک حریص ہیں خصوصاً جتنی مذہبی پارٹیاں سیاست میں بھی حصہ دار ہیں ان کے تمام قائدین کا یہی حال ہے جس کے متعلق وہ جو کچھ بھی کہیں ہم اللہ کے رسول ﷺ کے اس ارشاد کے مطابق واضح طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا کھانا، پینا اوڑھنا بچھونا سب حرام ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی قیادت میں مانگی گئی دعائیں قبول نہیں ہو رہیں اور کبھی بھی قبول نہیں ہوں گی بلکہ اس وقت پوری قوم مسلم اور خصوصاً پاکستانی عوام جن پریشانیوں میں مبتلا ہے اس کا باعث یہی مذہبی اور سیاسی راہنما ہیں جو قوم کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں اور قوم کو مکمل طور پر بند کمروں میں بند کر دیا گیا ہے تاکہ دیمک ان کو مسلسل چاٹتی رہے۔
اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ قوم مسلم کے عوام کو بیدار کر دے اور وہ اچھی طرح اس حقیقت کو سمجھیں اور ان مذہبی اور سیاسی شاطروں سے اپنے آپ کو بچائیں اور اپنے خالق حقیقی کی پہچان کریں ورنہ آنے والے کل یقیناًان کو بھی قرآنِ کریم کے اس حکم کے مطابق کہنا پڑے گا کہ:
وَقَالُوْا رَبَّنَا اِنَّا اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَآءَ نَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلًا
o رَبَّنَا اٰتِھِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْھُمْ لَعْنًا کَبِیْرًاo (۳۳:۶۷،۶۸) ’’وہ کہیں گے اے رب ہمارے! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑے لوگوں کاکہنا مانا تو انہوں نے ہم کو سیدھی راہ سے بہکا دیا اے ہمارے رب! تو ہمارے ان سرداروں اور بڑوں کو دوگنا عذاب دے اور بڑی پھٹکار ان پر ڈال دے۔‘‘
اس مضمون کے ساتھ اگر سورہ الاعراف کی آیات
۳۷ تا ۳۹ کو بھی ساتھ رکھ کر بات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بات مزید واضح ہو سکتی ہے لیکن ہم نے بحمداللہ تفسیر القرآن ’’عروۃ الوثقیٰ‘‘ میں ان مذکورہ آیات کے تحت مضمون میں تفصیل کر دی ہے اگر ضرورت ہو تو وہیں سے ایک بار دیکھ لیا جائے بات مزید واضح ہو جائے گی۔
مختصر یہ کہ دعاؤں کی قبولیت کے لیے دعائیں کرنے والوں کو خود اپنے اوپر نگاہ ڈالنا ضروری ہے اور عوام سے بھی زیادہ ان لوگوں کو اپنے اوپر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے جو مذہبی راہنما اور پیشوا کہلاتے ہیں یا ان کو اس زمرہ میں لوگوں نے تسلیم کر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنے اپنے حال پر نظر رکھنے اور نگاہ ڈالنے کی توفیق بہم پہنچائے اور اپنے خاص ہاتھ سے ہماری مدد فرما دے کہ اس وقت ہم سیدھی راہ سے بہت ہی دور جا چکے ہیں۔
س 12:۔ قبروں، مزاروں روضوں اور خانقاہوں پر جا کر دعا کرنے سے دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں؟
ج:۔ سوال کرنے سے پہلے سوال کرنے والوں کا حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے سوال پر خود بھی غور کر لیں کہ ہم کیا سوال کر رہے ہیں۔ اس وقت جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں بہت ہی نازک ہیں اور لوگوں کی اکثریت جاہل ہے اور جاہلوں کو راہنما بنا لیا گیا ہے جس سے جہالت دوچند نہیں بلکہ دہ چند ہو گئی ہے۔ یہ بات پیچھے بار بار دہرائی جا چکی ہے اور اغلاباً سب کو تسلیم بھی ہے کہ دعا ایک عبادت ہے بلکہ عبادت کا مغز ہے اور عبادت کا کوئی تعلق ان مقامات سے نہیں جن کا آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے۔ تین چار نام جو اوپر گنائے گئے ہیں در اصل یہ چاروں ایک ہی چیز کے مختلف نام ہیں اور یہ حقیقت بھی سب کو تسلیم ہے کہ ایک چیز کے چار نام رکھ دیئے جائیں تو اس سے وہ چیز چار چیزیں نہیں ہو جاتیں بلکہ ایک ہی چیز رہتی ہے۔
اس وقت قبروں، مزاروں، روضوں اور خانقاہوں پر جو کچھ ہو رہا ہے سب کی آنکھوں کے سامنے ہے اور ہر آنکھ ان چیزوں کو دیکھ رہی ہے کہ ان مقامات پر سوائے گانے بجانے اور ناچنے کودنے کے کچھ بھی نہیں ہو رہا اور قرآنِ کریم نے کتنے واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کی بعثت کے وقت بیت اللہ کے قریب بھی اسی طرح کچھ ہو رہا تھا چنانچہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ:
مَا کَانَ صَلٰوتُھُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُکَآءً وَّتَصْدِیَۃً ط فَذُوْقُوا الْعَذَاَبَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ
o (۸:۳۵) ’’اور بیت اللہ کے قریب ان کی نماز اس کے سوا کیا تھی کہ سیٹیاں بجائیں اور تالیاں پیٹیں تو دیکھو جیسے کچھ کفر کرتے رہے ہو اب اس کی پاداش میں عذاب کا مزہ چکھو۔‘‘
کفار مکہ اس وقت جو کچھ بیت اللہ کے قریب کرتے تھے وہی سب کچھ آج مسلمان ان قبروں،مزاروں، روضوں اور خانقاہوں کے قریب کر رہے ہیں۔ آپ خود ہی غور کر لیں کہ ان مقامات پر دعائیں مقبول ہوتی ہیں یا مردود اگر ضرور میں نے ہی اس معاملہ میں کچھ کہنا ہے تو میں برملا یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ یہ تمام مقامات ایسے ہیں جہاں دعاؤں کی قبولیت کی کوئی صورت اسلام کی نگاہ سے دیکھی نہیں جا سکتی دعاؤں کی قبولیت کے لیے دعاؤں کے آداب کی طرف دھیان دیا جانا چاہیے جس کو کتاب و سنت کی روشنی میں اس طرح بیان کیا جا سکتاہے کہ:
1۔ کھانے پینے، پہننے اور کمانے میں حرام چیزوں سے پرہیز کیا جائے۔ (مسلم، بخاری)
2۔ دعا میں اخلاص موجود ہو۔ (حاکم)
3۔ دعا سے قبل کچھ نیک عمل کرنا اور سختی کے وقت اپنے نیک عمل کو بارگاہِ الٰہی میں پیش
کرنا۔ (بخاری)
4۔ دعا کے اول و آخر میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنا۔ ( صحاح ستہ)
5۔ فروتنی اور عاجزی کے ساتھ ذلت و مسکنت کا اظہار کرنا۔ (ترمذی)
6۔ دعا کے وقت اپنی نگاہ آسمان کی طرف بلند نہ کرنا بلکہ نیچی رکھنا۔ (مسلم، نسائی)
7۔ دعا میں گانے کا طرز اختیار نہ کرنا اور اسی طرح تصنع سے کام نہ لینا۔ (بخاری)
8۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے معافی طلب کرنا۔
(صحاح ستہ)
9۔ گناہ اور قطع رحمی کی دعا نہ کرنا۔ (بخاری)
10۔ دعا کا سلسلہ بدستور جاری رکھنا اور جلد بازی سے کام نہ لینا اور نہ مایوس ہونا۔
(ابوداؤد ، ترمذی)
علاوہ ازیں بھی روایات میں دُعا کی قبولیت کے لیے بہت کچھ بیان ہوا ہے اور ہو سکتا ہے لیکن قبروں،مزاروں،روضوں اور خانقاہوں وغیرہ کا ذکرکتاب و سنت میں اشارۃً بھی نہیں پایا جاتا بلکہ قبروں وغیرہ پر عبادت سے واضح طور پر منع فرمایاگیا ہے اور خصوصاً قبروں پر مسجدیں تعمیر کرنا یہود و نصاریٰ کا عمل بتایا گیا ہے اور آج مسلمانوں نے اپنامعمول بنا لیا ہے اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ ایسا کوئی عمل نہیں بتایا جا سکتا کہ جس کو یہود و نصاریٰ کے کرنے سے گناہ اور مسلمانوں کے کرنے سے ثواب حاصل ہو۔ جو کام تمام گزشتہ قوموں میں گناہ اور جرم ہے وہ مسلمانوں کے لیے بھی گناہ اور جرم ہی ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے۔
قبریں، روضے،مزارات اور خانقاہیں ہندو پاک کے علاوہ بھی بہت سے دوسرے ممالک میں پائے جاتے ہیں لیکن ہندو پاک میں ان جگہوں پر جو کچھ ہوتا ہے اُس کو دیکھ کر بغیر کسی استثنیٰ کے کہا جا سکتا ہے کہ تمام جگہیں فی الواقع بدکاری کے اڈے بن کر رہ گئے ہیں وہ بزرگ جو ان جگہوں پر آرام فرما ہیں لوگوں نے ان کو بزرگ سمجھنے کے باوجود ان کی بے حرمتی کی ہے اگر ان لوگوں پر آخرت میں یہی مقدمہ قائم ہو گیا تو ان کو دوزخ پہنچانے کے لیے کافی ہو جائے گا۔ ان مقامات پر جو کچھ ہو رہا ہے آج وہ کونسی آنکھ ہے جو اس کو دیکھ نہیں رہی اور کون ہے جو ان بدکاریوں سے انکار کر سکے جو ان مقامات پر ہو رہی ہیں کیا یہ سب کچھ ہونے کے بعد بھی ان مقامات کو مقدس مقامات کہا جا سکتا ہے۔ افسوس کہ آج ان تمام چیزوں کو اسلامی ثقافت کے نام سے موسوم کیا جاتاہے کیا یہ اسلامی ثقافت بھی دم بخود ہو کر رہ گئی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہندوؤں کے بہت سے تہوار ہیں جو ہندوستان سے ہندو آ کر پاکستان میں مناتے ہیں کیونکہ ہندوؤں کے یہ مقدس مقامات ہیں لیکن آپ کسی بھی ایسے تہوار میں شامل ہو کر دیکھ لیں ان کے تہواروں میں ہمارے ان اسلامی تہواروں پرجو کچھ ہوتا ہے اُس کا دسواں حصہ بھی وہاں ہوتا آپ نہیں دیکھ سکیں گے۔ ان تمام باتوں کو آنکھوں دیکھنے کے بعد پھر یہ سوال اُٹھانا کہ قبروں، مزاروں،روضوں اور خانقاہوں پر دعائیں مانگنے سے زیادہ مقبول ہوتی ہیں؟ اس پرتعجب نہ کیا جائے تو اور کیا کیا جائے یہ سوال اگر یوں ہوتا کہ کیا قبروں اور مزاروں،روضوں اور خانقاہوں پر بھی دعامانگنے کی کوئی صورت موجود ہے؟ اور جواب میں اس کی نفی کر دی جاتی تو ایسا بھی ممکن تھا بہرحال جو سوال کیا گیا اُس کا جو جواب مجھ سے بن آیا میں نے کتاب و سنت کے پیش نظر تحریر کر دیا ہے اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ اللہ رب کریم ہم سب کے لیے سمجھنا آسان فرما دے۔
ہاں! یہ صحیح ہے کہ ہمارے سیاسی راہنماؤں میں سے جب بھی کسی کو اقتدار حاصل کرنے کے لیے میدان میں اترنا ہوتا ہے تو ان مقامات میں سے جو سب سے زیادہ مقام معروف ہوتا ہے اُس کی وہ طرف دوڑتا ہے اور اس طرح پھر جب کسی کو کسی طرح کا اقتدار حاصل ہوتا ہے تو اُس وقت بھی اپنے عہدہ پر براجمان ہونے سے پہلے سجدہ سلام اور دعا کے لیے ان ہی مقامات سے معروف مقام کی طرف جاتا ہے اور حاضری دیتا ہے بلکہ بعض قبروں کو غسل دے کر اور غلاف پہنا کر سمجھتا ہے کہ میں نے کوئی دین کا بہت بڑا کام سر انجام دیا ہے اور اس کی خبریں اخباروں میں چھپتی ہیں جس سے عوام میں بھی ان ہی مقامات کی طرف جانے کی خواہشات کو تقویت ملتی ہے اور ان مقامات کی طرف اپنی حاجات اور دعا ؤں کی قبولیت کی خاطر جاتے ہیں لیکن یہ سب کی سب شیطان کی چال ہے جس کا اعلان قرآنِ کریم میں جگہ جگہ کیا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتاہے کہ:
’’ابلیس نے کہا چونکہ تو نے مجھ پر راہ بند کر دی تو اب میں بھی ایسا ضروری کروں گا کہ تیری سیدھی راہ سے بھٹکانے کے لیے بنی آدم کی تاک میں بیٹھوں گا، پھر میں ان کے سامنے سے،پیچھے سے،داہنے سے،بائیں سے ان پر آؤں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکرگزار نہ پائے گا۔‘‘ (
۱۷:۱۶،۱۷) غور کریں کہ یہ سیاسی لیڈر جو سیاست میں آتے وقت اور اقتدار حاصل کرنے کے بعد اس طرح کی حاضریاں دیتے ہیں کیا یہ سب کے سب شیطان کے اس نرغہ میں نہیں تو اور کیا ہے؟ اور شیطان نے جو مہلت مانگی تھی اور اللہ نے اُس کو مہلت دی تھی اُس کے مطابق یہ سارا سلسلہ نہیں چل رہا کیا یہ سیاسی لیڈر آدم کی اولاد نہیں؟
اب بھی اگر کوئی شخص اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ یہ تمام مقامات ایسے متبرک ہیں کہ ان مقامات پر اللہ تعالیٰ سے مانگی جانے والی دعائیں قبول ہوتی ہیں تو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ایسا کہنے والوں اور سمجھنے والوں کی عقل و فکر کے ساتھ ان کے ایمان کا جنازہ بھی نکل چکا ہے خواہ وہ کون ہیں، کہاں ہیں اور کتئنے بلند مقام پر فائز ہیں؟ ہاں! ملک عزیز کے صدر ہیں، وزیر اعظم ہیں، وزیر اعلیٰ ہیں یا دوسرے وزراء و مشیران وغیرہ وغیرہ۔
س13:۔ دعا کے لیے ہاتھ اُٹھانا اور دعا مانگنے کے بعد ہاتھوں کو منہ پر پھیرنا ضروری ہے یا محض رواج ہے؟
ج:۔ دعا ایک عبادت ہے لیکن اس کے مختلف طریقے ہیں، اگر کوئی شخص دوسرے کسی شخص کو السلام علیکم پیش کرتاہے تو یہ بھی دعا ہے اور اس کے جواب میں دوسرا وعلیکم السلام کہتا ہے تو یہ بھی دعایا جواب دعا ہے لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ نہ تو سلام پیش کرنے والینے ہاتھ اُٹھائے ہیں اور نہ جواب دینے والے نے اس طرح اور بھی بہت سی ادعیہ ہیں جیسے سونے سے پہلے، سو کر اُٹھنے کے بعد کھانا کھانے سے پہلے، کھانا کھانے کے بعد، کپڑا پہننے سے پہلے،کپڑا پہننے کے بعد۔ شیشہ دیکھتے وقت،اذان کے اندر،اذان کے بعد ،قضائے حاجت کرنے سے پہلے بیت الخلا میں داخل ہوتے وقت اور بیت الخلا سے نکلنے کے بعد اور اسی طرح کے بہت سے اور مقامات پر بھی دعائیں مانگی یا پڑھی جاتی ہیں لیکن اکثر کسی کو ہاتھ اُٹھا کر ایسا کرتے شاید ہی کسی کو دیکھا ہو اکثر بغیرہاتھ اُٹھائے ہی یہ سب دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ اسی طرح نماز ادا کرنے سے پہلے نماز ادا کرتے وقت یعنی نماز کے اندر اور نماز ادا کرنے کے بعد بھی اکثر ہاتھ نہیں اُٹھائے جاتے اور نہ منہ پر پھیرے جاتے ہیں لیکن بعض اوقات نماز فرض کے بعد،جنازہ کے بعد، قبر پر پہنچ کر اور اکثر اوقات صف ماتم پر بیٹھ کر اہتمام کے ساتھ ہاتھ اُٹھائے جاتے ہیں اور دعا کرنے کے بعد ہاتھوں کو منہ پر پھیرا جاتا ہے یا منہ کے قریب ہاتھوں کو لے جا کر الٹ دیا جاتا ہے۔
ان تمام باتوں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ہر دعا کے ساتھ ہاتھ نہیں اُٹھائے جاتے بلکہ بعض دعاؤں کے ساتھ اُٹھائے جاتے ہیں اور بعض اوقات نہیں اُٹھائے جاتے ہاں! جن مقامات پر اُٹھائے جاتے ہیں وہاں نہایت شدت کے ساتھ اُٹھائے جاتے ہیں اور ایسے مقامات پراگر کوئی ہاتھ نہ اُٹھائے تو مورد الزام ہوتا ہے اورجن مقامات پر ہاتھ نہیں اُٹھائے جاتے اگروہاں کوئی ہاتھ اُٹھائے تو وہ الزام کی زد میں آتا ہے اور اس کی دعا سے کھلے الفاظ میں نفی کی جاتی ہے۔
فی زماننا ایسے مقامات پرجہاں ہاتھ اہتمام کے ساتھ اُٹھائے جاتے ہیں ہاتھ نہ اُٹھانا اس الزام کی زد میں آنا ہے اور اگر صرف ہاتھ کھڑے کر دے خواہ منہ سے بالکل خاموش رہے اور لب تک نہ ہلائے اُس کی دعا کا اقرار کیا جاتا ہے اور لوگ عام طور پر ایک دوسرے کو کہتے ہیں فلاں جگہ ذرا ہاتھ کھڑے کرنے کے لیے جانا ہے اور سب سمجھ جاتے ہیں کہ ہاتھ کھڑے کرنے سے کیا مراد ہے۔
ان تمام باتوں کا ماحصل یہ ہے کہ بعض مقامات پر دعاکرنے والے ہاتھ کھڑے کرتے ہیں اور بعض مقامات پر نہیں، پھر جن مقامات پر ہاتھ کھڑے کرتے ہیں اگر کوئی ہاتھ کھڑے نہ کرے تو اُس کو دعاکا منکر قرار دیتے ہیں اور جہاں خودبھی ہاتھ نہیں اُٹھاتے اگر کوئی ہاتھ کھڑے کر دے تو تعجب کرتے ہیں اور یہ تمام باتیں علم سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ رواج سے تعلق رکھتی ہیں جہاں اور جس مقام پر کوئی چیز رواج پا گئی اُس کے علاوہ دوسری چیز کو برا سمجھا جاتا ہے اور اکثر لوگ تعجب کرتے ہیں اور حیرانی کا اظہار کرتے ہیں۔ مثلاً
آپ نے مغرب کی نماز امام کے ساتھ پڑھی اور سب نے دیکھا کہ امام نے قرأت جہر کی لیکن مقتدیوں نے کوئی چیز بھی جہر نہیں کی پھر آپ نے دیکھا جماعت ختم ہونے کے بعد کوئی ایک دوسرا آدمی آ گیا اور اُس نے مغرب کی نماز فرض جہر پڑھنا شروع کر دی تو آپ سب تعجب کریں گے یہ نماز کیسے پڑھ رہا ہے حالانکہ ابھی پانچ منٹ پہلے آپ نے امام کے ساتھ یہی فرض نماز جہر پڑھی ہے فرق یہ ہوا ہے کہ امام نے مقتدیوں کے ساتھ اپنی نماز جہر کی اور اس ایک ہی آنے والے نے بغیر کسی مقتدی کے اپنی نماز جہر پڑھنا شروع کر دی کیونکہ یہ وقت جہری نماز کا ہے اگر اکیلے آدمی نے اپنی فرض نماز جہر کر لی ہے تو اُس نے وہی کام کیا ہے جو پانچ منٹ پہلے آپ نے کیا ہے لیکن چونکہ اس کا رواج نہیں لہٰذا آپ کو تعجب ہوا اگر اس کا رواج ہو جائے کہ جہری اوقات میں جو بھی فرض نماز ادا کر رہا ہے وہ جہر کر سکتا ہے تو حیرانی ختم ہو جائے۔
بہرحال ہر جگہ اور ہر دعا کے ساتھ نہ سہی تاہم دعا کے لیے ہاتھوں کا اُٹھانا اور مبالغہ کے ساتھ اُٹھا کر اپنے منہ یا کندھوں کے برابر لے جانا اور دعا کرنے کے بعد ہاتھوں کو منہ پر پھیرنا اسلامی طریقہ کے مطابق ہے کیونکہ آپؐ کے اسوہ حسنہ سے یہ بات ثابت ہے اور اسی طرح ہاتھ اُٹھانے کی فضیلت میں بھی روایات موجود ہیں اور آدمی جس دعا کے ساتھ چاہے ایسا کر سکتا ہے بشرطیکہ ضد اور ہٹ دھرمی کو خیرباد کہہ دیا جائے کیونکہ ضد اور ہٹ دھرمی اسی طرح کا تقاضا کرتی ہے کہ کیا اس دعا کے ساتھ بھی آپ نے ہاتھ اُٹھائے ہیں یا نہیں اور اس دعا سے مراد اس وقت کی دعا ہے اور ظاہر ہے کہ اگر اس طرح ہر بات کے ساتھ یہ شرط لگا دی جائے تو شاید ہی کسی بھی دعا کے ساتھ آدمی ہاتھ اُٹھا سکے اور اسی طرح یہ بھی کہ شاید ہی کسی وقت کی دعا کے ساتھ آدمی ہاتھ نہ اُٹھا سکے۔ کیونکہ ہر ہر دعا کے ساتھ ہاتھ اُٹھانے یا ہاتھ نہ اُٹھانے کا فیصلہ نہیں کر سکتے اور نہ ایسی بحث کے خاتمہ کی کوئی صورت سامنے آ سکتی ہے۔
تاہم جواز کے لیے اگر یہ بات روایات میں مل جائے کہ آپ نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے خواہ کونسی دعا تھی اور کس وقت کی تھی تو اس کے مطابق دعا کے لیے آپ کا ہاتھ اُٹھانا ثابت ہو گیا اور اسی طرح دعا کے بعد کسی بھی ایک روایت میں یہ بات مل گئی کہ آپ نے دعا کرنے کے بعد اپنے ہاتھ منہ پر پھیرے تو گویا جواز ثابت ہو گیا۔ رہی علماء کرام کی موشگافیاں تو اُن کا اس وقت کوئی علاج موجود نہیں، کیوں؟ اس لیے کہ دین اسلام کاروبار کی زد میں ہے اور اس وقت دین اسلام میں جتنی فروعات ہیں ان میں سے ایک ایک پر الگ دکان کھولی جا چکی ہے اور ہر دکان پر دکاندار موجود ہے جوصرف اپنے سودا ہی کو صحیح اور درست قرار نہیں دیتا بلکہ دوسرے تمام دکانداروں کے سودے کو خراب اور بے کار ثابت کر سکتا ہے۔
رہا جواز کا معاملہ کہ اس سلسلہ میں جوا زکی صورت کیا ہے تو روایات میں تمام دعاؤں کے لیے نہ سہی فی نفسہٖ دعا کے آداب میں یہ چیز موجود ہے کہ:
1۔ دعا مانگنے سے پہلے اگر فرض کا وقت نہیں تو نفل نماز ادا کر لے۔
(سنن اربعہ، راوی ابوبکر صدیقؓ)
2۔ دعا کے لیے دوزانو بیٹھے۔ (ابوعوانہ، عامر بن خارجہؓ)
3۔ دعا کے لیے دونوں ہاتھوں کو پھیلانا۔ (ترمذی، ابودرداءؓ)
4۔ دعا کے لیے دونوں ہاتھوں کو اُٹھائے۔ (صحاح ستہ، ابوحمید الساعدیؓ)
5۔ دعا کے لیے دونوں ہاتھوں کا کھلا رکھنا۔ ( حدیث موقوف ہے)
6۔ دعا سے فارغ ہونے کے بعد اپنے دونوں ہاتھ منہ پر پھیرے۔
(ابوداؤد عبداللہ بن عباسؓ)
7۔ دعا میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کو محدود نہ کرے۔ (بخاری، عبداللہ بن عباسؓ)
8۔ دعا کے لیے اپنے آپ سے ابتدا کرے۔ (ابوداؤد ، ام سلمہؓ)
9۔ اگر امام ہو تو فقط اپنے لیے دعا نہ کرے۔ (ابوداؤد ، ترمذی، ثوبانؓ)
10۔ انتہائی رغبت و اشتیاق سے دعا مانگے۔ (ابن حبان، ابوہریرہؓ)
علاوہ ازیں بھی روایات میں دعا کے آداوب و قبول ہونے کی شرائط میں بہت سی باتیں بیان کی گئی ہیں اور یہ محض روایات نہیں بلکہ ان کی حقیقت بھی واضح ہے کیونکہ دعا کی نوعیت یکساں ایک جیسی نہیں ہوتی اور اس حقیقت کو انسانی زندگی کی ضرورتیں ہی صحیح فیصلہ کر سکتی ہیں کیونکہ ایک چیز میرے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ سب کے لیے یکساں ایک جیسی اہمیت رکھتی ہو۔ میرے پاس اولاد موجود ہے لیکن دوسرے کے پاس نہیں تو ظاہر ہے کہ جس کے پاس اولاد نہیں جو اولاد کی خواہش اُس کو ہے وہ مجھے نہیں اور اہمیت کا تعلق ضرورت کے ساتھ وابستہ ہے ۔ بھوکے کو کھانے کی ضرورت ہے اور پیاسے کو پینے کی ضرورت زیادہ ہے اور جتنی ضرورت زیادہ ہے اتنی اہمیت زیادہ ہے اور جتنی اہمیت زیادہ اتنا اہتمام زیادہ ہے اور جتنا اہتمام زیادہ ہے اُس کے مطابق کبھی ہاتھ اُٹھانا کافی ہے اور کبھی ہاتھ اُٹھانے کی بھی اتنی ضرورت نہیں کبھی گڑگڑا کر مانگنے کی ضرورت ہے اور کبھی بغیر گڑاہٹ کے بھی کام چل سکتا ہے اور گڑگڑاہٹ آئے گی تو یہی فروتنی بھی کہلاتی ہے اور ضرورت و اہمیت پر انسان کی کیفیت سے واضح ہو جاتی ہے جو ایک فطری چیز ہے اور اس کا تعلق ہاتھ اُٹھانے، کہاں تک اُٹھانے، کتنی دیر اُٹھانے اور آنسو بہانے، فروتنی اختیار کرنے اور یہاں تک کہ رونے چیخنے اور سجدہ میں گر کر دعا کرنے اور اضطراب اور بے چینی کا اظہار کرنے سے ہوتا ہے اور ان پر نہ تو زور دیا جا سکتا ہے اور نہ ان باتوں سے کسی کو روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی روکنے یا حکم دینے کا کسی کو حق ہے۔
س14:۔ بعض لوگ ذکر کی مخصوص مجلسوں میں ذکر کو پکار پکار کرکرنے کے بعد آنکھیں بند کر کے دعائیں کرتے ہیں کیا اس طرح دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں؟
ج:۔ ایک عام محاورہ بولا جاتا ہے کہ ’’جتنے منہ اتنی باتیں‘‘ اس کا مطلب کیا ہے؟ یہی نا کہ کسی پر کوئی پابندی ہے جس کا جو جی چاہتا ہے وہ کہہ دیتا ہے۔ دیکھنا تو یہ چاہیے کہ جو بات بھی کسی نے کہی ہے اس کے کہنے کی کوئی دلیل بھی ہے اور یہ بات بھی واضح ہے کہ دلیل نام ہے کتاب و سنت کا،جب بات اسلام کی ہے تو اسلام ہمیشہ وہ بات کہتا ہے جس کی کوئی دلیل کتاب و سنت میں موجود ہو اور جس بات کی دلیل موجود نہیں بلاشبہ وہ دین اسلام کی بات نہیں ہو سکتی اور جو بات دین اسلام کی نہیں اگر وہ دین اسلام کے نام سے موسوم کی جا رہی ہے تو اسلام کی زبان کے مطابق وہ بدعت ہے اور اگر دین اسلام کی طرف اُس کی نسبت نہیں جوڑی گئی تو ایسی بات کے پیچھے لگنا اور اس کی تحقیق کرنے کی کوئی ضرورت؟ ذکر کی مجلس تو اُس کو کہا جاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کی کوئی بات ہو رہی ہو وہ ذکر کی مجلس ہے اس میں پکار پکار کر کچھ کہنے کا مطلب؟ اگر اللہ رب کریم کے ناموں میں سے کسی نام کو پکارا جا رہا ہے یعنی بلند آواز سے ’’یا رب‘‘ ’’یا رب‘‘ ، ’’یا اللہ‘‘ ’’یا اللہ‘‘ یا ’’یا رحمن‘‘ ’’یا رحمن‘‘ کی صدائیں بلند کی جا رہی ہیں تو اس پکار کا کوئی جواز موجود نہیں چاہے یہ نام اللہ رب کریم کے ہیں لیکن اس طرح نام رٹنے یا جپنے کا کہیں حکم کتاب و سنت میں موجود نہیں۔ اسلام سوچنے سمجھنے اور عقل و فکر سے کام لینے کی دعوت دیتا ہے بغیر سوچے سمجھے حق حق اور ہو ہو کی صدائیں بلند کرنے کا کہیں حکم نہیں دیتا۔
بلاشبہ کتاب اللہ میں اللہ رب کریم کے ذکر کا حکم دیا گیا ہے اور بار بار دیا گیا ہے اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اللہ کا ذکر چیز کیا ہے چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے کہ:
وَالَّذِیَْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوْا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہَ وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ
o (۳:۱۳۵) ’’وہ لوگ کہ جب ان سے کوئی سخت برائی کی بات ہو جائے یا اپنی جانوں کو کسی مصیبت میں ڈال لیں تو فوراً اللہ کی یاد ان میں جاگ اُٹھتی ہے وہ اپنے اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں اور جو کچھ ہو چکا ہے اس پر جان بوجھ کر اصرار نہیں کرتے اور انہیں اس بات کا یقین ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جو گناہوں کو بخشنے والا ہو۔‘‘
ذکر کی مخصوص مجلس بھی ایسی مجلس ہی کو کہا جاتا ہے جس مجلس میں اللہ رب کریم کی ذات کا اس طرح ذکر کیا جائے جس میں تفکر ہو اور ایسے دلائل کی بات ہو کہ اس نظام کائنات کا بنانے والا صرف اور صرف اللہ ہے اور وہی اس کائنات کا نظام چلانے والا ہے جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ:
اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
o (۳:۱۹۱) ’’وہ لوگ ہیں جو کسی حال میں بھی اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتے، کھڑے ہوں، بیٹھے ہوں، لیٹے ہوں، جن کا شیوہ یہ ہوتا ہے کہ آسمان و زمین کی خلقت میں غور و فکر کرتے ہیں، پھر پکار اُٹھتے ہیں کہ اے اللہ! یہ سب کچھ تو نے محض بیکار اور عبث نہیں پیدا کیا،یقیناًتیری ذات اس سے منزہ ہے کہ ایک بے کار کام اس سے صادر ہو، اے ہمارے پیارے رب ہمیں عذاب آتش سے بچا لے۔‘‘
اس طرح دعاؤں کا یہ سلسلہ سورہ آل عمران کی آیت
۱۹۱سے شروع ہو کر آیت ۱۹۴ تک مسلسل جاری ہے خود قرآنِ کریم کو کھولیں اور صرف ایک ہی مقام سے یہ چار پانچ آیتوں کا ترجمہ ایک سے زیادہ بار خود غور و فکر کے ساتھ پڑھیں تو آپ پر دعا کی حقیقت واضح ہو جائے گی اور اس طرح کے سوال پر سوال اُٹھانے کی ضرورت ان شاء اللہ نہیں رہے گی۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری حالت اُس آدمی کی سی ہے جس کے متعلق محاورہ بولا جاتا ہے کہ ’’بچہ بغل میں ڈھنڈورا شہر میں‘‘ ہر طرح کی ہدایات ہمارے پاس قرآنِ کریم کی شکل میں موجود ہیں لیکن ہم اس کے قریب بھٹکنے کے لیے ہرگز تیار نہیں، کیوں؟ محض اس لیے کہ ہمارے ذہن و دماغ میں یہ بات پیوست ہو گئی ہے کہ یہ محض علماء کرام کے پڑھنے کی کتاب ہے کیونکہ اس سے راہنمائی حاصل کرنے کے لیے بے شمار علوم حاصل کرنے پڑتے ہیں اور جب تک وہ تمام علوم حاصل نہ ہوں قرآنِ کریم کا پڑھنا الٹا خطرے کا باعث ہو جاتا ہے۔ استغفراللہ کہ یہ بات لوگوں میں کہاں سے آ گئی جس کا کوئی وجود نہیں اور واللہ العظیم نہیں۔ بلاشبہ یہ کتاب عربی زبان میں نازل ہوئی ہے لیکن اس وقت اس کے بے شمار تراجم طبع ہو کر عوام کے ہاتھوں میں ہیں اور یہ آیاتِ کریمات وہ ہیں جن میں متشابہات کا کوئی خدشہ نہیں اُن آیات کا ترجمہ آپ کسی کا بھی اُٹھا لیں اور صرف ترجمہ تک محدود رہ کر دیکھیں ان شاء اللہ آپ کو راہنمائی حاصل ہو گی اور یہ اللہ کی کتاب سمجھنے والوں کے لیے اتنی آسان بنائی گئی ہے کہ خود قرآنِ کریم میں اس کی شہادت بار بار پیش کی گئی ہے کہ وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ o (۵۴:۱۷،۲۲،۳۲،۴۰) ’’اور ہم نے قرآنِ کریم کو سمجھنے کے لیے آسان کر دیا ہے، پھر ہے کوئی جو نصیحت حاصل کرے۔‘‘
پھر اس ایک ہی بات کو اس سورت القمر میں بار بار دہرایا گیا ہے کیا یہ محض شاعرانہ انداز میں کہا گیا ہے ، ہرگز نہیں قرآنِ کریم شاعرانہ انداز سے پاک و مبرا ہے۔ یہ بات بار بار اس لیے دہرائی گئی ہے کہ اس پر قلب سلیم مطمئن ہو جائیں کہ فی الواقع یہ کتاب سمجھنے والوں کے لیے معجزانہ طور پر آسان کر دی گئی ہے شرط ایک ہی ہے جو بار بار دہرائی گئی ہے کہ ’’کیا ہے کوئی جو نصیحت حاصل کر نا چاہے۔‘‘
اس جگہ کوئی مضمون تحریر کرنا مقصودنہیں بلکہ مقصود صرف تفہیم کرانا ہے کہ قرآنِ کریم یا اللہ رب کریم کے ناموں کو زوردار آواز سے پکارنا مراد نہیں بلکہ ذکر کی مجلسیں ان ہی مجلسوں کو کہا جاتا ہے جن مجلسوں میں اللہ تعالیٰ کی توحید کے دلائل بیان کیے جاتے ہوں اور کائنات میں غور و فکر کی دعوت دی جاتی ہو اور لوگوں کے سامنے ہدایت حاصل کرنے کے طریقے بیان کیے جاتے ہوں اور لاریب یہ مجلسیں شور و غوغا اور نعروں سے نہیں گونجتیں بلکہ دلائل براہین کے لیے قرآنِ کریم کی آیات پیش کی جاتی ہیں اور لوگوں کو ان پر غور و فکر کی دعوت دی جاتی ہے تاکہ لوگ من حیث العقل اور من حیث الفکر اس دعوت کو دل و جان سے قبول کرتے ہوئے ان ہدایات کے مطابق اپنی زندگیاں گزاریں تاکہ وہ اس دنیا کی زندگی میں کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل کریں اور ان کی آخری زندگی بھی سنور جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی مجلسوں میں حاضر ہونے اور ایسی نصائح سن کر ان پر عمل کی توفیق بہم پہنچائے۔
س15:۔ ذکر اور دعا میں کیا فرق ہے؟ دونوں میں افضل کیا ہے؟ کیا ذکر کو پکارپکار کر کیا جانا ضروری ہے۔
ج:۔ ذکر کے معنی نصیحت کے بھی ہیں اور یاد دہانی کے بھی قرآنِ کریم میں ذکر کو ’’نَسْیٌ‘‘ کے مقابل ذکر کیا گیا ہے جب کہ ’’نَسْیٌ‘‘ کے معنی بھولنے کے ہیں گویا جو چیز بھول جانے کے بعد یاد آئے یا بھولی ہوئی چیز کو یاد لاد ے اُسے ذکر کہا جاتا ہے۔ قرآنِ کریم کے ناموں میں سے ایک نام ’’الذکر‘‘ بھی ہے کیونکہ اس میں گزشتہ قوموں کے واقعات بیان کیے گئے ہیں گویا ان واقعات کو اس نے دوبارہ یاد کرا دیا ہے اور ایک بار پھر پڑھنے والوں کے سامنے حاضر ہو جاتے ہیں اور یہ بھی کہ قرآنِ کریم میں نصائح بیان کی گئی ہیں۔ ذکر کی مجالس ان مجالس ہی کو کہا جاتا ہے جن مجالس میں گزشتہ اقوامِ عالم کے قصے بیان کیے جاتے ہیں تاکہ ان کو سن کر لوگ عبرت حاصل کریں اور نصیحت پکڑیں جن مجالس میں کائنات پر غور و فکر کا بیان ہو جن کو کہ پیچھے سوال نمبر 13میں بھی بیان کیا جا چکا ہے اور سورہ آل عمران کی آیت 191کا ترجمہ بیان ہوا ہے۔
ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ’’فاذکرونی اذکرکم‘‘ یہ ارشاد خداوندی کہ اے لوگو! تم میرے احکام کے مطابق زندگی گزارو تو میں تمہارے حقوق کی حفاظت کروں گا یعنی تم کو عزت و عظمت عطا کروں گا گویا دونوں چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں کیونکہ ایک دوسری کا نتیجہ ہے۔ اس طرح ذکر کے لیے پکار پکار کر کرنے کا اس میں کوئی حکم موجود نہیں یہ تو لوگوں کی اپنی اختراع ہے جب کہ دل میں کسی چیز کا خیال پیدا ہونا اور بھولی ہوئی بات یا د آنا ’’ذکر‘‘ کہلاتا ہے چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے کہ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃٍ لِّقَوْمٍ یَّذَّکَّرُوْنَ
o (۱۶:۱۳) ’’اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو سوچنے سمجھنے والے ہیں۔‘‘ غور و فکر ہر آدمی کا حق ہے آپ بھی غور و فکر سے کام لیں اور بتائیں کہ سوچنے سمجھنے کے لیے پکار پکار کر کہنا پڑتا ہے یا پکار پکار کسی بات کو کہنے اور سوچنے سمجھنے کا آپس میں کوئی تعلق ہے بلکہ پکار پکار کر کہنا تو سوچنے سمجھنے کے متضاد ہے۔ پکار پکار کر کہنے والوں کے لیے ’’دماغ سگاں‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے اور سوچنے سمجھنے کے لیے ’’دماغ شاہاں‘‘ کی۔ جس مقام پر قرآنِ کریم نے ’’لِقَوْمٍ یَّذَّکَّرُوْنَ‘‘ کے الفاظ بیان کیے ہیں یہ سورہ النمل کی آیت ۱۳ ہے اور اسی سورت کی آیت ۱۰ سے ۱۸ تک کا مطالعہ کریں، اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی کتاب پاک کا مطالعہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے تو آپ پر ’’ذکر‘‘ اور ’’ذاکر‘‘ کا مفہوم واضح ہو جائے گا۔
’’ذکر‘‘ کے مفہوم کو مزید واضح کرنے کے لیے سورہ الانعام کی آیت
۶۸ پر غور کریں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ:
وَاِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ وَاِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
o (۶:۶۸) ’’اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں میں کاوشیں کرتے ہیں تو تم ان کے ساتھ بحث کرنے میں وقت ضائع نہ کرو اور ان سے کنارہ کش ہو جاؤ یہاں تک کہ وہ کسی دوسری بات میں غور و خوض کرنے لگیں اور اگر ایسا ہو کہ شیطان تمہیں بہکا دے تو چاہیے کہ یاد آنے کے بعد ایسے گروہ میں نہ بیٹھو جو ظلم کرنے والے ہیں۔‘‘
قرآنِ کریم میں یہ لفظ مختلف انداز سے تقریباً دو سو سے زیادہ بار آیا ہے اور کسی ایک مقام سے یہ اشارہ بھی نہیں نکلتا کہ اس سے پکار پکار کرکچھ کہنا مراد لیا جا سکے پھر ذکرکو پکار پکار کرنے سے کیا مطلب ہے؟ یہ تو وہی بتا سکتے ہیں جو ایسا کرتے ہیں کیونکہ اہل زبان میں تو یہ لفظ پکار پکار کچھ کہنے کے مفہوم میں ہر گز نہیں آتا اور ’’دعا‘‘ جو ایک طریق عبادت ہے اُس کا ’’ذکر‘‘ کے ساتھ جوڑ کیسے لگا دیا گیا ہاں! یہ کہا جا سکتا ہے کہ ذکر محض اللہ تعالیٰ کی تمہید، تہلیل ، تسبیح، تحمید اور تمجید کو کہا جائے جس میں کچھ مانگنے اور طلب کرنے کا تصور نہ پایاجائے اور دعا تو کہتے ہی اللہ رب کریم سے اپنی حاجت اور ضرورت مانگنے اور طلب کرنے کو ہیں اس لیے جن کو ادعیہ ماثورہ، دعائیں وغیرہ کہا جاتا ہے ان کو ’’ربنا‘‘ ’’اللھم‘‘ ’’یا رب‘‘ ’’یا ربی‘‘ ’’اللھم اغفرلی‘‘ ’’اللھم انی اعوذ بک‘‘ ’’اللھم اجعلنی‘‘ وغیرہ وغیرہ ندائیہ الفاظ سے شروع کیا جاتا ہے اور دعا مانگنے والا اپنے لیے یا دوسرے مسلمانوں کے لیے ’’اللہ تعالیٰ‘‘ سے کچھ طلب کرتا ہے یا اپنے گناہوں کی معافی کا ذکر کرتا ہے اور ذکر ’’استغفراللہ‘‘ 249 ’’سبحان اللہ‘‘ 249 ’’الحمد للہ‘‘ 249 ’’اللہ اکبر‘‘249 ’’لا الہ الا اللہ‘‘ جیسے الفاظ بولنے اور کہنے کا نام ہے وہ دل ہی دل میں کہے یا اتنی آواز سے کہ خود سن سکے، چاہے انگلیوں کے پوروں پر کسی خاص تعداد سے شمار کرتے ہوئے کہے یا بغیر کسی تعداد کی قید کے کہتا رہے گویا وہ اللہ تعالیٰ کی بزرگی، بڑائی، پاکیزگی اُس کے اِلٰہ اور معبود ہونے کا تذکرہ کرتا رہے لیکن ان الفاظ میں چونکہ کسی طلب کا کوئی تذکرہ نہیں اس لیے اس کو ’’ذکر‘‘ کا نام دیا گیا ہو چاہے صرف اس تذکرہ پر یہ سلسلہ ختم کر دے اور چاہے ایسے الفاظ ادا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے ’’دُعا‘‘ مانگے اور اپنی حاجت اور ضرورت کی چیز طلب کرے اور اس طرح ذکر اور دعا کا اکٹھا بیان بھی کیا جا سکتا ہے جس سے انسان کو فطرتاً سکون حاصل ہوتا ہے اور اس کا دل اطمینان پاتا ہے۔ تاہم اللہ رب کریم کے ناموں کو یا دوسرے جملوں کو پکار پکار کر کہنا جس کو ’’اللہ کا نام جپنا‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کی کوئی اصل اسلام میں موجودنہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر دل ہی دل میں کیا جائے اور اس کے لیے مذکورہ تسبیحات میں سے کوئی یا سب کی سب شمار کر کے یا بغیر شمار کے دل ہی دل میں یا زبان سے ادا کر کے نہایت آہستگی اور آرام کے ساتھ پڑھی جائیں اور دعائیہ الفاظ جو کتاب و سنت میں آتے ہیں ان کو سمجھ کر غور و فکر سے کام لیتے ہوئے بطور دعا اختیار کیے جائیں سب جائز اور درست ہیں اور یہ بات پہلے واضح ہو چکی ہے کہ دعا اپنے لیے، اپنے والدین کے لیے، اپنے عزیز و اقارب کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے کی جا سکتی ہے اپنے الفاط میں یعنی اپنی زبان میں بھی اور دوسری زبان میں بھی خواہ وہ عربی ہو یا کوئی دوسری زبان سمجھ کر اور نہایت عز م و جزم سے مانگنی چاہیے اگر طبیعت ان دعاؤں کی طرف رغبت کرے جو کتاب اللہ میں ہیں یا روایات میں آئی ہیں تو ان کا مطلب جاننے اور سمجھنے کے بعد ان ہی الفاط میں بھی ادا کی جا سکتی ہیں اور کرنی چاہئیں۔
مختصر یہ کہ ’’دُعا‘‘ اور ’’ذکر‘‘ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ ایک حیثیت رکھتے ہیں لیکن ان میں افضل و مفضول کی کوئی بات نہیں اور ذکر پکار پکار کر کرنے کا نام ہرگز نہیں بلکہ ’’ذکر‘‘ فقط اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا تذکرہ ہے اور ’’دُعا‘‘ جس بھی زبان میں مانگی جائے اُس میں اللہ رب کریم سے کچھ طلب کرنے اورمانگنے کا نام ہے۔آپؐ کا ارشاد روایات میں موجود ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے سو بار استغفار طلب کرتا ہوں یعنی ’’استغفراللہ‘‘ کہتا ہوں جو صرف ایک کلمہ کا کہنا بھی ہے اور کسی ایک لمبی عبارت کو بھی کلمہ استغفار کا نام دیا جاتا ہے جیسے بعض کلمات کو ’’سید الاستغفار‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے جیسے کہا گیا ہے کہ:
اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَاَنَا عَبْدُکَ، وَاَنَا عَلٰی عَھْدِکَ وَوَعْدِکَ مَااسْتَطَعْتُ ، اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، اَبُوْءُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ، وَاَبُوْءُ لَکَ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ، اِنَّہٗ لَا یَغْفِرُالذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ۔ (بخاری
۶۳۰۶) ’’اے اللہ! تو ہی میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو نے مجھے پیدا کیا، میں تیرا بندہ ہوں، میں تیرے عہدو وعدہ پر حسب طاقت قائم ہوں، میں اپنے عمل کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں، میں اپنے اوپر تیری نعمت کا اقرار کرتا ہوں اور تجھ سے اپنے گناہ کا بھی اقرار کرتا ہوں، پس تو مجھ کوبخش دے،بلاشبہ تو ہی گناہوں کو بخشنے والا ہے۔‘‘
اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ محض اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کا اپنے اللہ کے سامنے اعتراف کرتے ہوئے معافی طلب کرنا اور بار بار اپنی بخشش کی اپیل کو جہاں دعا کا نام دیا جا سکتا ہے وہاں ذکر اور استغفار کانام بھی دیا جا سکتا ہے جیسے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے یہ کلمات موسوم کیے جاتے ہیں کہ:
رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْرًا لَّا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ۔ وغیرہ ’’اے میرے رب! میں نے اپنی جان پر بے شمار زیادتیاں کی ہیں یا مجھ سے زیادتیاں ہو گئی ہیں اور ایسی زیادتیوں اور گناہوں کو تیرے سوا کوئی معاف نہیں کر سکتا۔‘‘ اسی طرح اپنے گناہوں اور زیادتیوں کا اپنے رب کے سامنے اقرار کرتے ہوئے بخشش طلب کرنا ’’ذکر‘‘ کہلاتا ہے اور اپنی ضرورت کی تمام چیزیں طلب کرنا اس دنیوی زندگی کے لیے بھی ’’دُعا‘‘ کہلاتاہے اور اس لحاظ سے بھی دونوں میں خاص فرق نہیں کہ اُس فرق کی وجہ سے ایک کو افضل اور دوسرے کو مفضول کہا جا سکے تاہم ’’ذکر‘‘ پکار پکار کرنے کا کوئی تصور اسلام میں موجود نہیں یہ صوفیا کرام کے سلسلوں کی طرف سے اختراعی بیان کردہ چیز ہی کہا جا سکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment