Thursday, August 2, 2012

نبی پاک پر اتہام لگاتی متفق علیہ حدیث پر تحقیق


نبی پاک پر اتہام لگاتی متفق علیہ حدیث پر تحقیق

روایت کا نبی ؐ پاک پر بہتان

بخاری، باب نمبر 158 من طلق و ھل یواجہ الرجل امرأۃ بالطلاق۔

ترجمہ : جس نے طلاق دی اور کیا مرد کا اپنی بیوی کو طلاق دینے کے وقت متوجہ ہونا ضروری ہے ؟

حدیث نمبر 237 حدثنا الاوزاعی قال سألت الزھری ای ازواج النبیؐ استعاذت منہ ؟ قال اخبرنی عروہ عن عائشہؓ رضی اللہ عنھا ان ابنۃ الجون لما ادخلت علی رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم ودنا منھا قالت اعوذ باللہ منک فقال لھا لقد عظمت بعظیم الحقی باھلک ۔

ترجمہ: اوزاعی نے کہا کہ میں نے سوال کیا زہری سے کہ کون سی بیوی نے رسول اللہ سے پناہ مانگی تھی ؟ تو زہری نے کہا کہ مجھے خبر دی عروہ نے عائشہ سے کہ جون کی بیٹی جب رسول اللہ کے پاس لائی گئی اور آپ اس کے قریب ہوئے تو اس نے کہا کہ میں اللہ کی پناہ میں آتی ہوں تجھ سے۔ تو آپ نے اسے فرمایا کہ تونے بہت عظیم ہستی سے پنا ہ مانگی ہے اس لئے تو اپنے رشتہ داروں میں چلی جا۔ حدیث نمبر238

عن اسیدرضی اللہ عنہ قال خرجنا مع النبیؐ حتی انطلقنا الی حائط یقال لہ الشوط حتی انتھینا الیٰ حائطین فجلسنا بینھما فقال النبی ؐ اجلسو ا ھاھناو دخل وقد اتی باالجونیہ فانزلت فی بیت فی نخل فی بیت امیمہ بنت النعمان بن شراحیل ومعھا دایتھا حاضنۃ لھا فلما دخل علیھا النبیؐ قال ھبئ نفسک لی قالت وھل تھب الملکۃ نفسھا لسوقہ ؟ قال فاھوی بیدہ یضع یدہ علیھا لتسکن فقالت اعوذ باللہ منک فقال قد عذت بمعاذ ثم خرج علینا فقال یا ابا اسید اکسھا رازقیتین والحقھا باھلھا۔

ترجمہ: اسید سے روایت ہے کہ ہم نبی ؐ کے ساتھ نکلے اور ایک دیوار کے پاس پہنچے جسے شوط کہا جاتا تھا ( شوط کا مطلب ہے پرانی ویران بوسیدہ دیوار ) اور اس کے ساتھ چلتے ہوئے وہاں تک پہنچے جہاں سے دو دیواریں ہو جاتی تھی۔ پھر ہم ان دو دیواروں کے درمیان بیٹھ گئے۔ پھر نبی ؐ نے فرمایا کہ آپ یہاں بیٹھے رہیں اور خود داخل ہوگئے۔ وہاں جونیہ کو لایا گیا تھا جو ایک کھجور والے گھر میں لائی گئی تھی جو امیمہ بنت النعمان بن شراحیل کا گھر تھا اور جونیہ کی دائی حفاظت کے واسطے اس کے ساتھ تھی۔
جب نبی جونیہ کے قریب ہوئے تو اسے فرمایا کہ اپنے آپ کو میرے حوالے کریں۔ تو جواب میں جونیہ نے کہا کہ کیا کوئی ملکہ اور رانی کسی بازاری شخص کے حوالے ہوسکتی ہے (معاذاللہ)۔
راوی بیان کرتا ہے کہ پھر رسول اللہ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تاکہ اس پر ہاتھ رکھنے سے اسے سکون اور راحت دے سکیں۔
تو اس نے کہا کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔
تو پھر رسول اللہ نے فرمایا کہ تونے ایسی ہستی کی پناہ مانگی ہے جو پناہ دینے والا ہے۔
پھر آپ ہماری طرف نکل آئے اور فرمایا کہ اے ابو اسید اسے دو رازقی کپڑے پہناؤ اور اسے اس کے گھر والوں کے پاس پہنچاؤ۔

آگے اسی باب کی ایک ضمنی حدیث جو کسی مستقل نمبر اور عنوان ( حدثنا) کے بغیر بخاری صاحب نے لکھی ہے کہ عن عباس بن سھل عن ابیہ وابی اسید قالا تزوج النبی ﷺ امیمہ بنت شراحیل فلما ادخلت علیہ بسط یدہ الیھا فکانھا کرھت ذالک فامر ابا اسید ان یجھزہا ویکسوھا ثوبین رازقین

ترجمہ: عباس بن سھل اپنے والد اور ابو اسید سے روایت کرتے ہیں کہ ان دونوں نے بیان کیا کہ نبیؐ نے امیمہ بنت شراحیل سے نکاح کیا جب وہ آپ کے پاس لائی گئی تو آپ نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تو اس نے ناپسند کیا۔ آپ نے ابو اسید کو حکم دیا کہ اسے سامان حوالے کرے اور دو رازقی کپڑے بھی پہنائے ۔

جناب قارئین کرام !

امام بخاری صاحب نے اس باب میں آگے ایک مزید حدیث کا اضافہ حدثنا کے عنوان سے کیاہے۔ اور اس میں صرف سند بیان کی ہے حدیث کا متن نہیں لایا اس سے امام بخاری صاحب دنیا والوں کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ اس واقعہ اور خبر کی کئی ساری سندیں ہیں۔ یہ بات پکی اور پختہ ہے۔ یہ کوئی واہی تباہی نہیں ہے۔

جناب معزز قارئین !

امام بخاری صاحب اس باب کی دوسری حدیث کے بعد بغیر مستقل حدیث کے ایک ضمنی روایت بغیر عنوان کے جونیہ کے ساتھ شادی کرنے کی لائے ہیں۔

اس روایت کو اس طرح کیوں لایا ہے؟

صرف اس لئے کہ رسول اللہ پر جو تبرا کیا ہے اور تہمت باندھی ہے کہ وہ ایک غیر عورت کو کس طرح ملنے جا رہے ہیں۔ اس ماجرا کے ساتھ بغیر مستقل روایت کے ضمنی انداز میں شادی کی روایت بھی چمٹا دی۔

چونکہ یہ روایت اور اس سے فقہ کا استخراج تو اہل فارس نے تقیہ کے طور پر زیر زمین چھپ چھپا کر تیار کیا ہے۔

اس لئے احتیاطاً رسول اللہ پر اجنبی عورت سے ملنے کا الزام دھرنے کے دوران ایک ضمنی روایت شادی کرنے کی بھی نتھی کر لی تاکہ اگر مسلمان ناموس رسالت کی غیرت میں آ کر گلے پڑ جائیں تو جان چھڑانے کے لئے شادی کرنے کی بھی ایک روایت ضروری سمجھی۔ یہ اور بات ہے کہ اہل فارس کا مسلمانوں پر اتنا جادو چڑھا ہوا ہے کہ وہ ناموس رسول سے بڑھ کر ناموس روایت پر ایمان لائے ہوئے ہیں ۔

تبصرہ:

روایت کا رسول اللہ پر تبرا، تہمت اور الزام کہ وہ جونیہ نامی عورت کو کس انداز میں ملے ہیں اور ایک روایت میں شادی کا ذکر کرکے پھر ناکامی کے بعد اپنے ایک ساتھی کے ذریعے اسے سامان اور رازقی کپڑے پہنانے کے حکم سے طلاق کا استدلال۔

ان دو ڈھائی روایتوں میں راویوں نے حضوؐر کو کئی طرح سے نشانہ بنایا ہے کہ وہ کس قسم کی شخصیت تھے۔

حدیث نمبر 238 میں بتایا گیا ہے کہ جونیہ نامی عورت کو امیمہ بنت نعمان بن شراحیل کے گھر میں لایا گیا۔ اور اس حدیث کے آخر میں ایک ضمنی حدیث ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ حضوؐر نے امیمہ بنت شراحیل سے شادی کی تھی۔ ان دونوں حدیثوں میں دلہن کے نام میں شدید اختلاف ہے۔

پہلی حدیث میں بتایا گیا ہے کہ یہ دلہن امیمہ بنت نعمان بن شراحیل کے گھر میں لائی گئی۔ دوسری حدیث میں جو نام زوجہ کا بتایا گیا ہے وہ ہے امیمہ بنت شراحیل۔

اگر یہ دونوں روایتوں درست تسلیم کی جائیں تو پہلی روایت والی امیمہ بنت نعمان بن شراحیل اور دوسری روایت والی امیمہ بنت شراحیل آپس میں پھوپھی اور بھتیجی لگتی ہیں اور دونوں کا نام امیمہ اس لئے بھی غلط لگتا ہے کہ دونوں ایک ہی نام کی حامل پھوپھی بھتیجی ایک ہی وقت میں زندہ بھی ہیں۔

یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ جس گھر میں جونیہ نامی عورت کو لایا گیا وہ نعمان یا شراحیل کی بجائے امیمہ کے نام سے مشہور ہے۔ یعنی اگر امیمہ شوہر والی ہوتی تو لازماً گھر کی نسبت امیمہ کے شوہر کی طرف یا اس کے باپ کی طرف ہوتی۔

اگرکوئی یہ کہے کہ دونوں حدیثوں والی امیمہ وہ ایک ہی عورت ہے جو رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم کی زوجہ کہی گئی ہے یہ بات سراسر ناقابل قبول ہے کیونکہ پہلی حدیث میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جونیہ نامی عورت کو امیمہ بنت نعمان بن شراحیل کے گھر میں لایا گیا اور دوسری حدیث میں امیمہ بنت شراحیل کا بطور زوجہ ذکر کیا گیا ہے۔

تو ہم یہ عرض کریں گے کہ جھوٹی سندیں بناتے بناتے کبھی نام ڈھونڈنے میں تھکاوٹ ہوتی ہو تو کیا مضائقہ ہے اگر ایک ہی نام کو ڈبل پارٹ دے دئیے جائیں کیونکہ مسلمانوں کا ایمان تو ویسے ہی راویوں لوگوں کے ناموس پر پکا ہے اگر ایسی روایتوں سے رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم کے ناموس پر کوئی حرف آتا ہے تو اس کی ان لوگوں کو کیا پروا۔

ویسے بھی ان روایتوں میں راویوں نے رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم کو مخالف قرآن تو بنا ہی دیا ہے ۔

وہ اس طرح کے جونیہ نامی عورت رسولؐ کو قریب بھی نہیں آنے دے رہی اور رسول ؐ کے ہاتھ اپنے جسم کو لگنے سے نفرت کرتی دکھائی گئی ہے۔

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس عورت نے نکاح کے وقت ایجاب و قبول کے وقت قطعاً حامی نہیں بھری ہوگی، اقرار نہیں کیا ہوگا تو پھر ایسی حالت میں راویوں نے اس من گھڑت حدیث میں رسول اللہ کو قرآن کے اس حکم کے خلاف عمل کرنے والا ثابت کیا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا ۖ وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ ۚ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا (4:19)
مومنو! تم کو جائز نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ۔ اور (دیکھنا) اس نیت سے کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ لے لو انہیں (گھروں میں) میں مت روک رکھنا ہاں اگر وہ کھلے طور پر بدکاری کی مرتکب ہوں (تو روکنا مناسب نہیں) اور ان کے ساتھ اچھی طرح رہو سہو اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور خدا اس میں بہت سی بھلائی پیدا کردے
O ye who believe! Ye are forbidden to inherit women against their will. Nor should ye treat them with harshness, that ye may Take away part of the dower ye have given them,-except where they have been guilty of open lewdness; on the contrary live with them on a footing of kindness and equity. If ye take a dislike to them it may be that ye dislike a thing, and Allah brings about through it a great deal of good.

یعنی تم مردوں کو یہ ہر گز حلال نہیں کہ تم عورتوں کے زبردستی مالک بن بیٹھو۔

محترم قارئین !

غور فرمایا جائے کہ ان روایتوں میں رسول سے جو سلوک جونیہ کا دکھایا جا رہا ہے اس سے اس نکاح اور شادی میں ایجاب و قبول کیسے ہوا ہوگا؟

درحقیقت یہ راوی اپنی روایتوں سے گویا کہ رسول اللہ کو عورتوں سے جبری نکاح کرنے والا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔

بلکہ حقیقت اس سے بھی زیادہ گھمبیر ہے وہ اس طرح کہ حدیث نمبر 238 میں ویران دیواروں اور درختوں کے جھنڈ میں رسول کو دو ساتھیوں کو لے جا کر انہیں گھر کے باہر بیٹھا کر کسی اجنبی عورت کے گھر میں اکیلے جاتے ہوئے دکھانا یہ انداز شادی اور بارات کا ہرگز نہیں ہے۔

یہ روایت مدنی دور کی شادی دکھا رہی ہے۔ اس دور میں رسول اللہ سربراہ مملکت ہیں سربراہ مملکت کی ان راویوں نے یہ حالت بنائی ہے کہ وہ چوری چھپے پرائے گھر میں دلہن سے شب زفاف منانے کی غرض سے جا رہے ہیں اور پھر ان راویوں نے اپنی من گھڑت روایتوں سے رسول اللہ پر تبرا کیا ہے (اعتراض شدہ الفاظ کو ڈیلیٹ کر دیا۔ناظم )

میں چیلنج کرتا ہوں کہ کوئی مائی کا لال رسول اللہ کے مدنی دور میں تاریخ حجاز میں کسی جونیہ نامی ملکہ کی حکومت اور راجدھانی کا جغرافیائی خطہ ثابت کرکے دکھائے۔

کیا کوئی ملکہ اور رانی عورت ایک دایہ ،باڈی گارڈ عورت کے ساتھ دلہن بن کر کسی ویرانے میں آ سکتی ہے؟

اس شخص کے پاس جسے وہ بازاری قرار دیتی ہو اور خود رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم بھی شادی کی پہلی ملاقات دلہن سے اپنے گھر میں کیوں نہیں کرتے؟

راویوں کا رسول اللہ کو اس طریقہ سے عورتوں کے پاس جاتے ہوئے دکھانا یہ سراسر اللہ کے نبی پر بہتان ہے اور اس کے کردار کو داغ دار بنانے کی بد باطنی کا شاہکار ہے۔

اس روایت سے راوی نے طلاق کا جو استدلال کیا ہے وہ بھی قرآن حکیم کے حکم کے خلاف ہے وہ اس طرح کہ وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَحَکَمًا مِّنْ اَھْلِہَا 4/35۔

اگر شوہر اور بیوی کے درمیان ناچاقی کا اندیشہ ہے تو دونوں کے معاملہ کو دو ثالث نبٹائیں گے۔

کیونکہ جس طرح نکاح پنچائت میں کیا جاتا ہے اسی طرح طلاق بھی پنچائت کا معاملہ ہے اسے اکیلا شوہر نہیں توڑ سکتا۔

یہ فیصلہ طرفین کے مابین ثالث کریں گے۔

تو ثابت ہوا کہ راوی کی یہ حدیث خلاف قرآن ہونے کی وجہ سے جھوٹی ہے، رسول ؐ پر تہمت ہے اور ان راویوں نے رسول کریم پر تبرا کیا ہے جن راویوں نے رسول اللہ کو بازاری کہا ہے وہ خود کیا ہیں ؟

میں راقم السطور عزیزاللہ نے اپنا یہ مقدمہ امت مسلمہ کی عدالت میں پیش کردیا ہے۔

***

فتنۂ انکارِ قرآن ، کب اور کیسے ؟

از قلم

عزیزاللہ بوہیو

سندھ ساگر اکیڈمی

عزیز اللہ بوہیو، ساکن خیر محمد بوہیو، براستہ نوشہرو فیروز، سندھ

نوٹ : سندھ ساگر اکیڈمی کی تمام کتب کے حقوق اشاعت عوام الناس کئے لئے کھلے ہیں
بشرط صحت نقل کا خیال رکھا جا ئے۔

No comments:

Post a Comment